Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعرات، 18 جون، 2015

مزدوروں کی دال- ملکہ مسور

پیارے بچو !  بوڑھے کا دن کچھ اِس طرح شروع ہوا کہ صبح بڑھیا نے بوڑھے کو دوائیاں کھلاتے ہوئے بتایا ۔ کہ
"دوائیاں کل ختم ہو جائیں گی !"
یہ جملہ بیانیہ و خبریہ بھی تھا اور انتبایہ بھی ، بوڑھے کا گرمی میں گھر سے باہر نکلنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا ۔ خیر کرتا ( یہاں لفظ مرتا حذف کیا ہے ) کیا نہ کرتا ، بوڑھا تیار ہو کر عازمِ شفاء خانہ ، ساتھ فہرست خریداری روانہ ہوا۔
بوڑھے نے جاکر نمبر لیا جو 125 تھا اور دوائیاں لینے والوں کا  نمبر 65 تھا ۔ بوڑھے نے جمع تفریق ضرب و ضربِ چلیپائی کی تو جواب کم از کم ڈیڑھ گھنٹہ آیا ۔ چنانچہ بوڑھا ، سی ایس ڈی گیا وہاں صرف بیس منٹ لگے ۔ بڑھیا ساتھ ہوتی تو کم از کم 120 منٹ لگتے ۔ بوڑھا ، سب سامان لے کر باہر نکلا اور 22 نمبر پہنچا ، وہاں سبزی و فروٹ بازار سے " سستا سامان " لیا ۔ جس میں 10 منٹ لگے ، بوڑھا دوبارہ ، " مربوط ہسپتال برائے فوجیاں " پہنچا ۔ اوہ ابھی تو صرف 40 منٹ گذرے ، بوڑھے نے موبائل پر نمبر دیکھا ، کیوں کہ بوڑھا ، ہاتھ مقیاس الوقت ، گھر بھول کر آیا تھا ۔ اور نمبر 85 چل رہا تھا ۔
کوئی بات نہی بوڑھے نے سوچا اور دو بوڑھوں کے درمیان جگہ خالی دیکھ کر سلام کے بعد بیٹھ گیا ۔ اُن کے ھاتھ میں موبائل تھا ، لہذا بوڑھے نے بھی موبائل نکال ، اور پھر وقت کا پتہ ہی نہیں چلا ۔ کیا خوب چیز بنائی ہے یہودیوں نے ، وٹس ایپ بھی ۔
گھر کے لئے واپس روانہ ہوتے وقت بڑھیا کو بتایا کہ سب چیزیں لے لی ہی اور اب واپس آرہا ہوں۔
" آپ نے آم لئے ہیں "  بڑھیا نے پوچھا
" جی ھاں " بوڑھے نے جواب دیا
" اچھا آتے ہوئے ، نان لیتے آنا " بڑھیا نے آخری فرمائش کی اور بوڑھا سمجھ گیا ، کہہ آج بچپن کے دن دھرانے ہوں گے ۔
بوڑھا ، انسانوں کے جنگل میں موجود ، " ریسٹورینٹ" پہنچا ، " مندرے نان " آرڈر دیا ۔ وہ اِس لئے کہ چم چم کو آج کل گھر پر پیزا بنانے کا شوق چڑھا ہے ( یہ قصہ بعد میں ) ۔
بوڑھا نان کا انتظار کر رھا تھا کہ ، دو محنت کش کھانا لینے آئے ۔ اور دال کے ریٹ پوچھے ۔
" دال ماش 180 کی پلیٹ اور نان 8 روپے کا ایک " کاونٹر پر کھڑے ، محنت کش نے جواب دیتے ہوئے کہا ،
" مزدوروں کے لئے دال کی پلیٹ 50 روپے کی ہے "
بوڑھے نے پوچھا ،" یہ پچاس روپے میں کون سی دال ہے ؟"
" سر ، مسور کی دال ہے " نوجوان کشمیری نے جواب دیا
" پتلی ہو گی ؟ "  
بوڑھے نے پوچھا
" جی سر ! مزدوروں کے لئے ہے " جواب ملا واہ یہ تو بوڑھے کی پسندیدہ دال ہے ۔
" نوجوان ، میں بھی مزدور ہوں ، کیا مجھے بھی مل جائے گی ؟" بوڑھے نے پوچھا 
نوجوان کشمیری اور دونوں محنت کش ہنسنے لگے ۔ " سر کیوں مذاق کرتے ہیں ؟ " نوجوان بولا 
" آہ ، نوجوان ، تمھیں معلوم نہیں میں واقعی مزدور ہوں ، اپنے گھر میں ، یہ لو 50 روپے اور دال دے دو " بوڑھے نے پیسے دیتے ہوئے کہا ۔صبح 10 بجے سے گھر سے باہر گئے بوڑھے نے بڑھیا کو ایک بجے تمام خریداری کے ساتھ ، نان کا لفافہ پکڑایا ، " آج آپ کو آم سے روٹی کھانا پڑے گی ، کیوں کہ طبیعت خراب تھی ، بس سوئی رہی " بڑھیا بولی
" یہ کیا لائے ہیں آپ ؟ " بڑھیا نے نان کے شاپر جھانکتے ہوئے کہا 
 " مزدورں کی دال ملکہ مسور" بوڑھے نے فخریہ انداز میں بتایا ۔
" یہ تو ثابت مسور ہیں ؟ " 
بڑھیا بولی " اور اتنی پتلی دال ؟ "
" بیگم مزدوروں کی توہین مت کرو!  " بوڑھے نے احتجاج کیا ۔
"چلیں ، پھر آج ، مزدوروں کے برتنوں میں آپ کھائیں گے " بڑھیا نے فیصلہ سنایا ۔
"کیا خوب بریکنگ ہیڈلائن بنی ہے ۔ بوڑھے نے سوچا اور موبائل سے تصویر کھینچ کر فیس بُک کر دی 
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

مزدورں کی دال ملکہ مسور , مَندرے نان , بوڑھے نے مزدوروں کے برتنوں میں,   مزدورں کے انداز میں فرش پر بیٹھ کر کھا ئی اور لطف اٹھایا- 

تین افراد کی ملکہ مسور بچ گئی ہے,  کس کس نے کھانی ہے ؟
پھر نہ کہنا ہمیں بوڑھا پوچھتا ہی نہیں!
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بوڑھے نے یہ پوسٹ فیس بک پر لگائی ۔ کیوں کہ بڑھیا کے ساتھ رہنے میں معلوم نہیں کب دن بڑے ہوجائیں - جیسے آج کا دن تھا ۔ شاید کوئی ہمدرو و غمگسار مل جائے پوسٹ پر آنسو بہانے کے لئے،
 نہیں ! بوڑھے کو امیروں کی ملکہ مسور کھلانے کے لئے ۔

مگر یہ کیا ؟

طلعت قریشی : 
نے لکھا 
خالد نعیم: یہ ثابت مسور ہیں۔ ملکہ مسور میں صِرف چھلکا اُتارا جاتا ہے جب کہ دال کے دونوں جُز آپس میں جُڑے رہتے ہیں۔ مسور کی دال میں چھلکا اُتارنے کے بعد دونوں جُز علیہدہ ہو جاتے ہیں۔ آپ کا تبصرہ البتہ بہت دِل چسپ ہے۔ ملکہ مسور کی تصویر بھی چسپاں کر رہا ہوں۔
 
دالِ مسور 

مسور :








بوڑھے نے جواب دیا :
بھائی طلعت قریشی : 
کیوں سرمایہ دار بن کر غریبوں کا دل توڑتے ہو !
ہمارے ، درجہ ء بلندی برائے ثابت مسور رہنے دیتے ۔ 

یہ بر صغیر کی ملکہ ہے


آپ یورپیئن ملکہ کی بات کر رہے ہیں





٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
طلعت قریشی : نے  تو جواب الجوب میں بوڑھے کو پچھاڑ دیا  ۔ پڑھیئے   ایک معلوماتی تحریر 

یہ منہ اور مسور کی دال

بر صغیر کی ملکہ - مسور






2 تبصرے:

  1. بیٹی ، رابعہ خرم درا نی نے لکھا

    بہت خوبصورت لکها .. اور شکر اس بات پر کہ رنگ برنگا کم تها اس لئے سکون سے پڑها گیا ..
    مجهے ملکہ مسور کی ٹرم آپ سے سننے کو ملی .. یہ بهی سمجها دیں کہ چهلکن اترنے کے بعد اگر دال کی دونوں سائیڈز اگر جڑی رہیں تو کیا ذائقے میں کوئی فرق آتا ہے یا یہ بس ایک خوبصورتی ہی ہے ..

    جواب دیںحذف کریں
  2. طلعت قریشی : نے ملکہ مسور کے پکانے کے بارے میں ہدایت دی -

    میری والدہ ملکہ مسور کھڑی دال کی صورت میں پکواتی تھین کہ اگر گھُل گئی تو دال مسور اور ملکہ مسور میں کیا فرق رہ جائے گا۔ اب تو شائد ملکہ مسور دُکانوں پر ملتی بھی نہیں ۔ بہت عرصہ پہلے میں اور میری بیگم ملکہ مسور ڈہونڈ نے نِکلے تو بمُشکِل ایمپریس مارکیٹ میں ملی اور دُکاندار نے بتایا کہ یہ دال بہت کم لوگ خریدنے آتے ہیں ۔ ذائقے میں فرق تو آئے گا ۔ کھڑی دال پکانے کی صورت میں گھی کا استعمال زیادہ ہوتا ہے اور دال خُشک رکھنی پڑتی ہے۔

    جواب دیںحذف کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔