Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

اتوار، 21 جولائی، 2024

راولپنڈی کے چند چائے خانے/ ہوٹل

شائد اب چائے کی اہمیت کم ہو گئی ہے یا ہم لوگ گوشت خور ہو گئے ہیں جو جگہ جگہ بالٹی مرغ اور مٹن بالٹی تو کھانے کو مل جاتی ہے مگر صرف چائے کے ہوٹل شاذونادر ہی نظر آتے ہیں۔ جو کبھی شہر بھر میں پھیلے ہوتے تھے۔ جہاں لوگ اپنے یار دوستوں کے ساتھ خوش گپیاں مارتے نظر آتے تھے۔ اسکے علاوہ بعض گھروں میں معیوب سمجھا جاتا تھا کہ بیٹھک میں اجنبی آ کر بیٹھیں چاہے وہ دوست ہی کیوں نہ ہوں؟ بعض کے گھر میں جگہ ہی نہ ہوتی کہ اُنہیں بٹھایا جاتا۔  اسطرح چائے خانہ میں ایک پیالی چائے پی کر یار دوست گھنٹہ بھر بیٹھے رہتے۔
کئی چائے خانے اس لئے مشہور ہو گئے کہ وہاں گاہک کی فرمائش پر گانوں کے ریکارڈ بجائے جاتے تھے۔ یعنی جتنے دوست، اتنی پیالی چائے اور اتنے ہی فرمائشی گانے۔ بعد میں جن ہوٹل والوں نے ٹی وی رکھ لیا تو ایک چائے کی پیالی پی کر اپنا پسندیدہ ڈرامہ/ پروگرام پورا دیکھ لیتے تھے۔ ان میں سے بعض پر کھانا بھی مہیا ہوتا تھا۔
راولپنڈی کے نوجوان خصوصا” گورڈن کالج کے طلبہ کالج روڈ کے “زمزم کیفے “ کو تو نہ بھولیں ہونگے۔ جہاں آجکل سیور فوڈ ہے اس کے قریب یہ کیفے ہوا کرتا تھا۔ جہاں دن بھر طلبہ کا، شام/ رات گئے تک دیگر لوگوں کا ہجوم ہوتا تھا۔ گرمی کی شاموں میں کچھ میز باہر بھی لگا دئیے جاتے۔ اندر اور باہر لوگ بیٹھے اپنے فرمائشی گیت کا مکھڑا ایک پرچی پر لکھ کر بھجواتے ۔ یہاں پر گرامو فون ریکارڈز کا ایک بڑا ذخیرہ تھا۔ نئے گانوں کے علاوہ پرانے گانے بھی سننے کو مل جاتے۔ مجھے نہیں یاد کہ کوئی بھی پاکستانی/ ہندوستانی فلمی گانے کی فرمائش کی گئی ہو اور وہ موجود نہ ہو۔ ایک شخص کا کام ہی یہ تھا کہ موجود ذخیرے میں سے ریکارڈ تیزی سے ڈھونڈے اور اُسے ترتیب سے رکھ دے اور  باری پر گراموفون پر لگا دے۔ اسکی پھرتی اور یادداشت بے مثال تھی۔ اب یہاں ہر طرف سیور پلاؤ ہی نظر آتا ہے۔ زمزم کیفے ماضی کی دُھند میں غائب ہو چکا ہے۔
کالج روڈ پر ہی اس سے ذرا آگے اور سامنے کی طرف “شبنم کیفے” تھا۔ یہاں پر ٹی وی تھا۔ اس جگہ ہم نے دلدار پرویز بھٹی کا مشہور ہفتہ وار پنجابی پروگرام “ ٹاکرا” متعدد بار دیکھا۔ یہاں ہوٹل میں رہائشی کمرے بھی تھے۔ کچھ عرصے بعد مشہور زمانہ شبنم ہوٹل قتل کیس کے باعث یہ بھی بند ہو گیا۔ اور اب یہ چائنا مارکیٹ کا حصہ ہے۔ اسی طرح کیپیٹل کالج کے سامنے منزل ہوٹل تھا۔ یہاں بھی ٹی وی دیکھا جا سکتا تھا۔ مری روڈ پر آریہ محلہ کی سٹرک کے بائیں طرف “ الحیات ہوٹل” تھا۔ اسکے ریسٹورنٹ میں بھی ٹی وی تھا۔ یہ ہوٹل تو اب بھی ہے لیکن پہلی سی چمک دمک کے بغیر۔ اسی آریہ محلہ والی سڑک کے دائیں جانب “ پارک ہوٹل” تو اب بھی ہے لیکن اسکے ریسٹورنٹ کی جگہ پہلے بینک کھل گیا اور پھر میٹرو اسٹیشن نے یہ جگہ ہی ختم کر دی۔
ڈی اے وی کالج روڈ پر گورنمنٹ ہائی سکول کے سامنے گلی کے کونے پر ایک چھوٹا سا چائے خانہ تھا۔ سکول میں تو اسکی چائے جاتی ہی تھی۔ لیکن اسکے علاوہ شوقین حضرات ملائی کی تہہ سے لبریز چائے کا لطف اُٹھاتےتھے۔
چوک خرادیاں سے جو سڑک مری روڈ مشتاق ہوٹل کے پاس آ ملتی ہے یہاں “بابر گل ہوٹل “ تو اب بھی ہے یہاں ٹی وی ابتدائی دور میں ہی آ گیا تھا۔ خاص بات یہ تھی کہ اسکے اگلے دروازے سے بھی باہر سڑک پر ٹی وی نظر آتا تھا۔ باہر ٹی وی دیکھنے والے لوگ کھڑے رہتے اور کوئی اُنکو وہاں سے نہیں ہٹاتا تھا۔
اسکے ساتھ تنگ گلی کے بعد مشتاق ہوٹل اب بھی ہے لیکن جب یہ “مشتاق کیفے” ہوتا تھا تب یہاں گاہکوں کا بے پناہ ہجوم ہوتا تھا۔ یہ پی پی پی کا گڑھ تھا۔ مشتاق بٹ پی پی پی راولپنڈی ڈویژن کے صدر تھے اور جوانی میں ہی فوت ہوگئے تھے۔ ساتھ تنگ گلی میں انکے گھر میں تعزیت کے لئے بے نظیر بھٹو آئی تھیں۔
مشتاق ہوٹل کے ساتھ نائی کی دکان کے بعد مری روڈ پر ایک بہت پُرانا چھوٹا سا چائے کا ہوٹل تھا جو چوبیس گھنٹے کھلا رہتا تھا۔ یہ سب شاہین بیکری سمیت مری روڈ کی وسعت کی نظر ہو گئے۔ مری روڈ پر ہی قصر شیریں سے پہلے “اسحاق ہوٹل “ شائد اب بھی ہے ۔ یہاں بھی فرمائشی گانے بجاۓ جاتے تھے اور انکی آواز گرمیوں میں ہم جگی محلہ میں رات کو چھت پر لیٹے سنتے تھے۔یہ ہوٹل مختلف وجوہ کی بنا پر خاصا بدنام تھا۔
مری روڈ سے جو سڑک ڈھوک کھبہ جاتی ہے اس پر تھوڑا آگے (آجکل کے یونائٹیڈ ہوٹل کے تقریباً سامنے) ممتاز ہوٹل تھا۔ یہاں بھی فرمائش پر گانے بجائے جاتے تھے۔
سٹی صدر روڈ پر تاج محل سنیما کے ساتھ چائے کا ہوٹل دن رات کھلا رہتا تھا۔ اسکی چائے بہت مشہور تھی۔ خاص طور پر ٹیکسی ڈرائیور حضرات کے لئے۔
فوارہ چوک میں ٹرنک بازار اور لیاقت روڈ کے سنگم پر “ میز بان ہوٹل” تھا لیکن کچھ عرصہ بعد اسکے سامنے راجہ بازار اور گنج منڈی والی سڑک کے کونے پر “اکمل ہوٹل” کھل گیا یہ ہوٹل بہت کامیاب ہوا۔ اور میزبان ہوٹل بند ہو گیا۔ اکمل ہوٹل میں ذوالفقار علی بھٹو جب وزیراعظم تھے راجہ بازار کے دورے میں چائے پی تھی۔ یہ ہوٹل شیخ غلام حسین میئر راولپنڈی کی ناجائز تجاوزات ہٹانے کی مہم کے دوران گرا دیا گیا۔ راجہ بازار میں مقبول ہوٹل اور افضل ہوٹل بھی تھے۔ موخرالذکر ہوٹل مشہور اور بدنام بھی تھا۔
صدر میں شالیمار ہوٹل (جہاں اب شالیمار پلازہ ہے) بہت مشہور تھا اور اکثر ادیب / شاعر یہاں بیٹھا کرتے تھے۔ اسکے سامنے حبیب بینک کے ساتھ “ شیزان ریسٹورنٹ” تھا۔ عام طور سے یہ “جنٹری” کے بیٹھنے کی جگہ تھی۔ اس سے ذرا آگے حیدر روڈ کے بعد سیڑھیاں اُوپر جاتی ہیں وہاں برلاس ہوٹل/ ریسٹورنٹ تھا۔ چائے کے ساتھ کٹلس یا چپس کھانے کا اپنا ہی مزہ تھا۔ اس کے ساتھ بینک روڈ پر بائیں طرف مڑیں توکریم سموسہ ہوٹل پر چائے/ سموسہ اب بھی ملتے ہیں۔ جبکہ چوک سے دائیں جانب شروع میں ہی کامران ہوٹل اور سُپر کیفے تھے۔ کامران کا برگر (بن کباب) اور سُپر کی ٹوٹی فروٹی آئس کریم مشہور تھیں۔ یہ دونوں بھی عرصہ ہوا بند ہو گئے۔ ہاتھی چوک میں کینٹ جنرل ہسپتال کی طرف مڑیں تو کشمیری چائے، برفی اور سردیوں میں گاجر کا حلوہ مشہور تھا اور یہ اب بھی یہاں ملتا ہے۔
آدم جی روڈ پر جی ٹی ایس کے بس سٹینڈ کے سامنے تو اب بھی ریسٹورنٹ پر بہت رش ہوتا ہے۔ اسی طرح ملٹری اکاؤنٹس کے دفتر کے سامنے “ تبارک ریسٹورنٹ” پر بھی خاصا رش ہوتا ہے۔ اسکا روغنی نان چائے کے ساتھ کھانے کا اپنا ہی مزہ ہے۔
سیروز سنیما کے سامنے داتا ریسٹورنٹ بھی سڑک پر بنا ہونے کی وجہ سے گرا دیا گیا تھا۔ کینگ روڈ پر فلیش مین ہوٹل کے ساتھ چھوٹی تنگ گلی میں “ کیفے گیلری” ہوتا تھا۔ یہ بھی بند ہو گیا۔(ارشد رضوی)

 

٭٭٭٭٭٭



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔