Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

اتوار، 17 مارچ، 2024

أتموا الصيام إلى الليل

 بروز جمعہ 15 مارچ 2024 ، میں نے مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا (جن میں حافظ ، قرآنی فکر، پرویزی فکر، انجینئر فکر اور شیخ فکر سے متاثر ) دوستوں کو افطار پر بلوایا ۔

 مردانہ بیٹھک میں سب بیٹھے ۔ ملازم نے 06:14 کے حساب سے میز پر افطاری لگا دی ۔ افطاری سے پہلے میں نے کہا باہر افطاری لگی ہے ۔ آپ میں سے جو چاھےاذان کے حساب سے افطاری کر سکتا ہے ۔ میں 7:00 کے بعد افطاری کروں گا ۔

 وہ سب میری ساتھ افطاری کے لئے انتظار کرنے لگے ۔

 

 اپنی اپنی فکر کے مطابق افطار پر منادلہ و مجادلہ شروع ہوا ۔ جب سورج غروب ہوچکا تو میں نے دس منزلہ فلیٹ کی کھڑکی سے اُنہیں مغرب کا منظر دکھایا ۔ اور کہا :
ہم
إِلَى اللَّيْلِ کا منظر دیکھیں گے بالکل ایسے جیسے ہمیں الْفَجْرِپر الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ دیکھنے کا حکم ہے جس کی بنیاد پر ہم اپنے الصِّيَامَ کا اتمام کرتے ہیں ۔

 سب دوستوں نے نظارہ دیکھا ۔

 میں نے صرف ایک جملہ کہا ،
" 5:00 سے 6:15 تک تقریباً ، 13 گھنٹے اور 15 منٹ بنتے ہیں ۔ 

اُفق کے پار بسنے والے   يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا دوستو !

مختلف فرقوں کے مطابق آپ نے إِلَى اللَّيْلِ کے فہم پر مختلف اذانیں سنی۔ جو 06:14 ، 06:20 اور 06:30 تک مسلمانوں کا روزہ افطار کرواتی رہیں ۔ آپ نے اللَّيْلِ کو بھی دیکھا ۔ کیا سوا 13 گھنٹوں کے انتظار کے بعد آپ مزید 45 منٹ تک بھوک و پیاس برداشت نہیں کر سکتے ؟

 اگر آپ نے جمہورکے غلط فہم کے مطابق الصوم مکمل نہ کیا ۔ تو اِس کا نقصان کس کو ہوگا ؟

 آپ کی کیا رائے ہے ۔ شکریہ

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جمعرات، 7 مارچ، 2024

انگلیوں کے نشانات

 انسانی انگلیوں کے نشانات ، اُس کی پہچان ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بائیومیٹرک   ریڈر سے اب انسانوں کی پہچان ہوتی ہے   ۔ گو کہ قانونی کاغذات پر  عرصے سے انگوٹھا لگایا جاتا تھا اور دستخط بھی کئے جاتے تھے لیکن شاطر لوگوں نے اُس سے فراڈ کرنے کے طریقے ڈھونڈھ لئے۔ 

بڑھاپے میں انسان کے دستخط  تبدیل نہیں ہوتے لیکن ۔انگلیوں کے نشانات بھ مدھم پڑ جاتے ہیں خاص طور پر ذیابیطس کے مریضوں کے کیوں کہ انگلیوں میں سوئی چبھو کر   شوگر ٹیسٹ کے لئے خون نکلوانا۔  جس کی وجہ سے  بائومیٹرک ریڈر اُنہیں پہچان نہیں پاتا   اور یوں 60 سال سے اوپر کے لوگوں کو مشکل پیش آتی ہے ۔
جس کا ایک حل تو یہ ہے کہ وہ ہر سال  NADRA میں جاکر اپنے بائیومیٹرک  کو اپ ڈیٹ کروائیں اور

 دوسرا حل یہ ہے کہ سفید پھٹکڑی ایک چمچ لے کر اُسے ایک کپ مقدار کے برابر پانی میں حل کریں اور ابالیں ۔ جب ٹھنڈا ہوجائے تو 5 منٹ اپنی انگلیاں ڈبوئے رکھیں ، یہ کام دس دن کریں  انگلیوں کے نشانات ابھر آئیں گے ۔

 

٭٭٭٭٭٭٭٭

 

 

 

اتوار، 18 فروری، 2024

سلائی مشینوں کی خریداری

 
چار سلائی مشینیں  لے کر وقار کھنہ پل  پہنچ گیا ،اسرار  نے مشینوں کو چیک کیا اور اوکے رپورٹ دی ، چنانچہ بوڑھے نے 47 ہزار روپے وقار کے بھائی شیراز کو ایزی پیسہ کردئے ۔ یہ مائکروفنانس بینکنگ میں  ٹیلینور والوں نے اپنا سکہ بٹھالیا ہے ۔ اب بنکوں  نے بھی راست کے نام سے ایزی پیسہ بینکنگ کو سپورٹ کیا ہے ۔
پہلا پراجیکٹ۔کھنّہ پل کے پاس بلال ٹاؤن میں شروع کردیا ہے ۔جس میں چار سلائی مشینیں  پراجیکٹ ڈائریکٹر علی ابراہیم  کو مہیا کر دی ہیں  ، جن میں دو نئی قیمت فی سلائی مشین مبلغ 16 ہزار روپے ۔(10 سال فری سروس ) دو ری فربش فی سلائی مشین   مبلغ 9ہزار روپے۔
 اگر مشینوں کے صرف خراب پارٹس تبدیل کئے جائیں اور رنگ نہ کروایا جائے ، تو قیمت  فی مشین  مبلغ 6 ہزار روپے میں ملتی ہے ۔
دوسرا  پراجیکٹ ۔ میرپوخاص  (سندھ)میں۔ 
تیسرا پراجیکٹ ۔شجاع آباد  ۔
چوتھا پراجیکٹ :اڈیالہ روڈ راولپنڈی ۔
 پانچواں  پراجیکٹ: تربت (بلوچستان) اور 
چھٹا  پراجیکٹ :گوادر میں  عنقریب ترتیب وار شروع کرنے کا پروگرام ہے ۔دعا کریں کے بے وسائل خواتین کا روزگار شروع ہو جائے ۔

کیا اِس پراجیکٹ میں  بے وسیلہ خواتین اور بچوں کو اتنا منافع ہوگا کہ وہ گھر بیٹھے  اپنا روزانہ کے اخراجات  کو سہارا دے  سکیں  ؟

 ٭٭٭٭٭٭واپس٭٭٭٭٭٭

 

 

 

 

ملت ابراھیم حنیف پراجیکٹس

بوڑھے کے اِس نئے سوشل ورک کی طرف ، گوادر، تربت،مانسہرہ اور نوشہرہ میں کسی نے پذیرائی نہیں کی۔ میرپورخاص کے رہنے والے ایک نوجوان، علی منور نے جو میرے محلے سیٹلائیٹ ٹاؤن    میں ٹیلرنگ کا کام کرتا ہے اور ریڈیو کا آر جے بھی سوشل ورک میں کافی ایکٹو بھی ، اُس سے    ، بے وسیلہ خواتین اور بچیوں کو ٹیلرنگ کا کام سکھا کراُن کی مالی سپورٹ سے متعلق  رائے پوچھی ، اُس نے جواب دیا بہترین کام ہے لیکن اُن کے وسائل نہیں کہ وہ سلائی مشین خرید سکیں ۔اگر اُن کو سلائی مشین خرید کر دی جائے تو پھر اُن کی مدد ہو جائے ۔ بوڑھے نے پوچھا ۔ نئی سلائی مشین کی کیا قیمت ہے ۔ اُس نے کہا ، پرانی سلائی مشینوں سے بھی اُن کا کام چل سکتا ہے ۔ اگر اُن میں نئے پرذے ڈلوادئے جائیں ۔  بڑھیا سے مشوریٰ لیا اُس نے قبول کر لیا ۔ 

جنوری میں قران فہم مکتب کے ، ملت ابراہیم حنیف گروپ کے دوست میرے گھر پر اکٹھے ہوئے ۔ نوجوان سلیمان ایسے نظام کا دلدادہ تھا جو  علامہ پرویز احمد کے نظام  (سوشل کمیونسٹ) سے مطابقت رکھتا تھا ۔ جس  کے فلسفے سے میں متفق نہیں ۔

بوڑھے کو  علم تھا کہ علی ابراہیم کا ایک بھائی ٹیلرنگ کا کام کرتا ہے ۔ میں نے اُس کو  علی منور کا آئیڈیاپیش کیا ، اُس نے بتایا کہ اُس کی چھوٹی بہن بھی سلائی کرتی ہے وہ عورتوں اور لڑکیوں کو ٹریننگ دے سکتی ہے ۔ اور اُس کے گھر میں ایک کمرہ خالی بھی ہے وہاں یہ کام کیا جاسکتا ہے ۔ بوڑھے نے کہا الحمد للہ ۔

 بوڑھے نے علی  ابراہیم سے معلومات لیں ۔ 

ایک ٹیلر ، دن میں کتنے لباس تیار کر سکتا ہے ؟

کام پر منحصر، ایک دن میں 5 لباس اور اگر کام کم ہو تو 2 لباس ایک ٹیلر تیار کرسکتا ہے ۔ ہاتھ کی مشین میں یہ کم ہو جاتے ہیں ۔  1000 روپے  فی سوٹ لیا جاتا ہے ۔  270 روپےکل خرچ آتا ہے  ۔ اگر سینے والے کو 300 روپے دیا جائے تو 430 روپے منافع بنتا ہے ۔جس میں لازمی اخراجات  نکالنے کے باوجود مزید   بچت ہو سکتی ہے ۔یوں مشین اپنی قیمت خود ادا کر سکتی ۔ اور اُس قیمت سے ایک مشین اور خریدی جا سکتی ہے یا اگر بجلی ہو تو بجلی کی موٹر  تربیت یافتہ  خواتین کو دی جاسکتی ہے یوں سلائی کی رفتار تیز ہوجائے گی اور اضافی سوٹ سے بجلی کا خرچہ نکالا جاسکتا ہے ۔ اگر ایک گھر میں تین سلائی مشینیں ہوں تو اُس گھر کی ماہانہ آمدنی  بڑھ سکتی ہے ۔

 چنانچہ یہ چارٹر بنایا گیا ۔

 

بوڑھے  کی ایک کمپنی کی رقم  کے مبلغ  84 ہزار روپے ایک بنک کے کرنٹ  اکاونٹ میں  2011 سے پڑے تھے ، جن کے لئے  بنک اکاونٹ ایکٹو کروا کر نکلوانے تھے ، وہ بوڑھے نے ملت ابراہیم حنیف پراجیکٹ کو دینے کا ارادہ ظاہر کیا ۔ جب بنک جا کر اکاونٹ ایکٹو کرواناچاہا تو معلوم ہو کہ وہ بوڑھے اور اُس کے بڑے بیٹے کا جائینٹ اکاونٹ ہے اور وہ بڑی عید پر اپنے بچوں کے ساتھ آئے گا ۔

  30 جنوری 2024 کو بڑھیا شدید بیمار ہوگئی، چلنے سے قاصر ، درد ریح نے بے حال کردیا ۔ بوڑھے نے یکم فروری کوائر جناح سے  کوئیٹہ جانا تھا ، 31 تاریخ  کو وہ 12 فروری کی تاریخ   کروائی۔ شعبان کا مہینہ، لگنے والا تھا ، بوڑھے کو خیال آیا  کہ سلائی کا کام عید کی وجہ سے زیادہ ہوجائے گا لہذا پراجیکٹ کو شروع کردینا چاھئیے ،

  9 فروری کو علی ابراہیم سے بات ہوئی اور اُسے  تین نئی مشینیں خریدے کے لئے  کہا ۔11 فروری کو  اُس کا بھائی اسرار   مشین محلہ راجہ بازار  گیا  ۔وہاں اُس کی ملاقات، وقار سے ہوئی ۔ جس نے کل مشینیں دینے کاوعدہ کیا۔ اور 12 تاریخ کو بوڑھا ، کوئٹہ جا پہنچا ۔

٭٭٭٭٭٭واپس٭٭٭٭٭٭



 

 

ماضی کے دیو قامت انسان!

  کیا انسان پہلے بندر تھا ؟

ڈارون کی تھیوری نے ۔ افریقہ کی لوسی کو جنم دیا جس سے بوڑھے کی ملاقات عدیس ابابا (ایتھوپیا) کے نیشنل میوزیم میں ہوئی ، بوڑھے نے اپنی محدود معلومات کے مطابق مسجد ذوالقبلتین کی طرح اِسے  بھی مسترد کردیا ۔  کیوں کہ جھوٹ پھیلانے سے کئی سوالات اُٹھتے ہیں ۔کیوں حق کا ایک گھونسہ جھوٹ کے اُس بُت کو پاش پاش کردیتا ، جو جاہل اپنے سر پر اُٹھائے پھرتے ہیں ۔

بوڑھے کو بچپن سے ماضی کے قرستان میں جھانکنے کا بہت شوق تھا ۔ سب سے پہلے بوڑھے نے ، نڑیا میں اپنے سکول کے پیچھے جھانکا ۔ جہاں  قبروں پر کتبےایستادہ تھے۔ لیکن اُسے سب سے اچھا قبرستان۔ایف ایف سنٹر کے ساتھ برٹش سپاہیوں اور افسروں کا ہے اُس کے نزدیک ایف ایف کے گورکھا سپاہیوں /افسروں کے لئے ایک ٹمپل بھی ہے۔ اِس قبرستان میں ایک سگنل آفیسر کی قبر بھی تھی ۔ جس کے اوپر سگنل بیج  کا مجسمہ آویزاں تھا۔

تو اُفق کے پار بسنے والے بوڑھے کے ذہین دوستو: انٹر نیٹ پر تاریخ کا قبراستا ڈھونڈھتے ہوئے بوڑھے کو ایک عجیب تصویرملی ۔ پہلے تو بوڑھا یہ سمجھا کہ یہ فوٹو شاپ کا کرشمہ ہے لیکن بھر کئی تصاویر ڈھونڈھنے کے بعد ۔احسن الخالقین کی تخلیق کے بعد  ڈارون کی تھیوری فرسودہ لگی ۔

 زمین میں کھدائی سے نکلنے والی ایک کھوپڑی ، جس کا اندازً قد کم و بیش 400 انچ یا 133 گز ہو سکتا ہے ۔
کیا ڈارون کی تھیوری کے مطابق:۔
اِس سے پہلے کےبندر کیا ، اِس سے بھی قد میں بڑے تھے ؟
 کیا 133 گز قد کے انسان کے لئے ، اہرام مصر کے پتھر اٹھانا مشکل ہو سکتا تھا؟ 
سامنے تصویر میں بنایا گئے مصنوعی مجسمے کا قد ، اُس کے پاس کھڑے ہوئے انسانوں کے مقابلے  میں اندازاً  کم از کم 40 گز ہوسکتا ہے ۔ اِ قدہ کے انسان کے سامنے ، اہرام مصر کی چٹانیں ، سیمنٹ کی بلاک کی طرح ہو سکتے ہیں ۔ اور ہاں یہ صرف ایک کھوپڑی نہیں ۔ 
ماہر آثار قدیمہ نے زمین کے مختلف علاقوں سے کئی کھوپڑیاں  نکالی ہیں ۔ جو وہاں کے کسانوں نے کھدائی کے دوران اتفاقاً دریافت کیں ۔ 
 
کسی نے گلیور ٹریول بچپن میں پڑھی ہے ؟؟
 
٭٭٭٭٭٭٭

 

 

 

جمعرات، 8 فروری، 2024

الیکشن 2024 ، بوڑھا اور الیکشن کمیشن

  اُفق کے پار بسنے والے دوستو  !۔

 بوڑھے نے اپنےموبائل پر الیکشن کمیشن کو شناختی کارڈ کا نمبر بھیجا وہاں سے پیغام آیا کہ آپ اب قومی اسمبلی کے حلقہ نمبر 46کےبجائے ،حلقہ نمبر 55 اور صوبائی اسمبلی کے حلقہ 15 میں ووٹ ڈالیں گے۔کیوں کے آپ اب اسلام آباد ، جی نائین ون کے  بجائے،     راولپنڈی  میں ہجرت کر کے سکونت اختیار کر چکے ہیں ۔ بوڑھے نے پہلے یہ ہجرت  2013 کے انتخابات کےبعد ،جون 2014 میں ڈی ایچ اے ون اسلام آبادمیں کی تھی اور  2018  کے انتخابات بوڑھے اور بڑھیا نے ، اسلام آباد میں زبردستی شامل کئے مورگاہ۔1 سے جاکر ، جی نائین ون سابقہ رہائش سے 100 گز دور گرلز مڈل سکول میں ڈالے     ۔جہاں 2008 کے انتخاب میں پہلی بار بوڑھے اور بڑھیا نے ووٹ ڈالا تھا۔

پھر بوڑھا 2020 میں برفی کے بابا کےہاں شفٹ ھو گیا ۔ 2023 میں الیکشن کمیشن سرگرم ہوا اُس کے نمائیندے ہاتھ میں لیپ ٹاپ اٹھائے گھر گھر جانا شروع ہوگئے ۔ بوڑھے کا شناختی کارڈ ڈالا اور بتایا کہ کیا آپ اپنا حلقہءِ انتخاب   پرانا رکھیں گے یا تبدیل کریں گے کیوں کہ شناختی کارڈ کے مطابق آپ کا عارضی ایڈریس ڈی ایچ اے ون یعنی مورگاہ 1 کا ہے ۔ لیکن آپ کی رہائش یہاں یعنی طارق آباد کی ہے اور یہ قومی اسمبلی کے حلقہ  55میں آتا ہے ۔ بوڑھےنے سوچا ، چلو اب حلقہ 46 کے بجائے حقلہ 55 میں ووٹ ڈالتے ہیں ۔

آج صبح جب بوڑھا ، الیکشن میں ووٹ ڈالنے کے لئے عسکری 14 سے نکلا ،  تو اڈیالہ روڈ پر موجود پولنگایجنٹ سے جاکر پوچھے کہ اُس کا پولنگ سٹیشن کسِ علاقے میں ہے تاکہ وہاں جا کر بڑھیا کے ساتھ جاکر ووٹ ڈالا جائے ۔

وہاں ایک نوجوان نے پوچھا کہ کیا آپ نے 8300 پر اپنا شناختی کارڈ نمبر ڈال  کر وہاں سے چیک کیا ہے ۔ 

بوڑھے  نے اپنے موبائل سے الیکشن کمیشن سے آیا ہوا ایس ایم ایس دکھایا ۔

شماریاتی بلاک کوڈ: 111030301
سلسلہ نمبر: 349
گھرانہ نمبر: 218
قومی اسمبلی حلقہ نمبر: 55 - راولپنڈی
صوبائی اسمبلی حلقہ نمبر: 15 - راولپنڈی
انتخابی علاقہ: راجہ اکرم روڈ ریس کورس    حاجی روڈ      اکبر روڈ      عسکری14     ٹریفک کالونی،تحصیل راولپنڈی کینٹ،ضلع راولپنڈی۔

 وہ انتخابی علاقہ دیکھ کرپریشان ہو گیا    ۔ بولا  حلقہ نمبر 55 لال کرتی کا علاقہ ہے ۔ آپ وہاں جاکر معلوم کریں بوڑھا ، بھٹہ چوک پر پہنچا وہاں سینٹ کیتھرین گرلز سکول کے سامنے پولنگ ایجنٹ بیٹھے   تھے اُنہوں نے بڑی کوشش کی لیکن   پولنگ سٹیشن کا معلوم نہیں ہورہا تھا ۔ خیر ایک نوجوان نے بتایا کہ لال کرتی بازار کے شروع میں لیپ ٹاپ سے پرنٹ لے کر آئیں ، بوڑھا وہاں پہنچا ، اُس نے بتایا کہ آپ کا پولنگ سٹیشن ایف جی بوائز سیکنڈری  سکول    محفوظ شہید روڈ پر ہے ۔جو جیٹی روڈ سے  ملٹری ہسپتال کے سامنے ریلوے سٹیشن کو جاتی ہے ۔ 

بوڑھا حیدر روڈ سے  بتائی ہوئی جگہ پہنچا ۔ پولنگ سٹیشن میں داخل ہوااور    11:30 پرپولنگ بوتھ 301 سے سامنے جاکر لائن میں کھڑا ہو گیا ۔12:00 بجے ووٹ ڈالا ، جس نوجوان نے پولنگ سٹیشن میں ھاتھ پر سیاہی کا نشان لگایا اُس کو بتایا کہ اب وہ عسکری 14 سے اپنی بڑھیا کو لے کر آئے گا۔ لیکن بہتر یہ ہوتا کہ  طارق آبادکے علاقے میں پولنگ بوتھ دیا جاتا ۔
اُس نوجوان نے مشورہ دیا کہ کئی لوگوں کا ووٹ درست معلومات نہ ہونے کی وجہ سے دور کے پولنگ سٹیشن کا انتخاب کر دیا گیا لیکن حلقہ وہی ہے آپ باہر چیک کر لیں ۔ 

بوڑھا، ایک سنسان پولنگ کیمپ کے پاس پہنچا ۔ جس کی جماعت کو بڑھیا کا ووٹ ڈالنے کا پکا ارادہ ہے ، ویسے بھی   بڑھیا گذشتہ ، تین انتخابات میں اپنا ووٹ اِس سنسان  ، جماعت کے سربراہ کو ڈال کر ضائع کر چکی ہے ۔ خیر ۔ وہاں ایجنٹ نے کاپیاں کھنگالیں     ، جو نام، اُن میں بڑھیا کا نام نہیں ۔ بوڑھا واپس لاکرتی پہنچا لیپ ٹاپ والے نوجوان کو شناختی کارڈ نمبر بتایا ، اُس نے کہا کہ یہ پی پی 10 کا حلقہ میں پولنگ بوتھ ہے ۔ لیکن یہ کہاں ہے ؟
بولا شائد اسلام آباد ۔

لیکن وہاں تو پی پی نہیں صرف این اے ہے ۔

معلوم نہیں کیا کہہ سکتا ہوں ۔ نوجوان بولا ۔بوڑھا اداس گھر آگیا کہ بڑھیا اپنا ووٹ پھر ضائع نہ کر سکی ۔ 

بوڑھے نے نیٹ سروس بحال ہونے کے بعد ، گوگل آنٹی سے پوچھا کہ یہ پی پی 10 کہاں ہے اُس  نے ٹھک سے جواب دیا ۔ راولپنڈی۔IV۔
آہ، بوڑھے نے مزید چیک کیا تو معلوم ہوا کی 1 سے لیکر 7تک ضلع راولپنڈی سے  کل 13 ایم این اے منتخب ہوں گے ، یعنی 51، 52، 53، 54  ،55، 56 اور 57  ۔ گویا پی پی -10 حلقہ 53 یا 54 میں ہو سکتی ہے ۔یوں پی پی 5 سے پی پی 19 تک پنجاب اسمبلیوں26 ایم پی اے راولپنڈی ڈویژن سے منتخب ہوں گے ۔
بیلٹ پیپر کا سفر پولنگ سٹیشن  سے ، فارم 45 سے فارم 47  الیکشن کمیشن حتمی نتیجہ تک
 

الیکشن کی سرگرمیوں کی معلومات کے لئے ڈویژنل کمیٹی۔
الیکشن میں  ووٹ ڈلوانے کی پولنگ بوتھ کے اندر کلّی ذمہ داری ، پولنگ بوتھ میں موجود الیکشن کے عملے کی ہوتی ہے  ۔ جو  ڈارفٹ فارم 45  اپنے بوتھ کا  پریزائیڈنگ آفیسر کو بھیجتا ہے ۔ اِن ڈرافٹ فارم 45 کی مدد سے پریذائیڈنگ آفیسر ، صرف ایک فارم 45 بناتا ہے جو ریٹرننگ آفیسر کو بھجوادیا جاتا ہے  ۔
الیکشن میں دھاندلی کئے جانے والے پولنگ بوتھ کو پریزائیڈنگ آفیسر کی شکایت پر ڈپٹی کمشنر یعنی آر او کی مدد سے، امن ہونے تک روکا یا بند کروایا جا سکتا ہے ۔ کمشنر کا پورے الیکشن کے نظام میں کوئی کردار نہیں ہوتا، سوائے اِس کے کہ وہ ڈپٹی کمشنر سے معلومات لے ۔ تمام ایڈمنسٹریشن کی ذمہ داری ڈپٹی کمشنر یعنی ریٹرنگ آفیسر کی ہوتی ہے ۔ 
آزاد امیدواروں کے لئے الیکشن کمیشن کے حتمی رزلٹ اناونسمنٹ کے بعد 72 گھنٹوں تک آزاد رہنے کا حق ہے پھر وہ اپنی مرضی کے مطابق کسی پارٹی میں شامل ہو سکتے ہیں ۔
اب صورت حال یہ ہے ، کہ  کہ 20 دنوں تک یعنی 29 فروری  کو یا اِس سے پہلے ، صدر پاکستان کے حکم کے مطابق،  سابقہ سپیکر ،قومی اسمبلی کا اجلاس بلائے گا۔ممبران قومی اسمبلی حلف لیں گے ۔  سابقہ سپیکرتمام ممبروں سے نئے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب کا کہے گا ، اُس کے بعد نیا سپیکر ممبران قومی اسمبلی سے قائد حزبِ اقتدار منتخب کرنے کا کہے گا ، اُس کے قائدِ حزب مخالف کا انتخاب ہوگا ۔ پھر نئے صدر کا انتخاب ہوگا ۔ 
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

  

ہفتہ، 30 دسمبر، 2023

زمین میں چُھپے خزانے

 پاکستان زیرِ زمین پانی کی ایکوئفر کے لحاظ سے دُنیا کی سپر پاور ہے۔ دنیا کے 193 ممالک میں سے صرف تین ممالک چین، انڈیا اور امریکہ پاکستان سے بڑی ایکوئفر رکھتے ہیں۔دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کے میدانی علاقوں کے نیچے یہ ایکوئفر 5 کروڑ ایکڑ رقبے پر سے زیادہ علاقے پر پنجاب اور سندھ میں پھیلی ہوئی ہے۔

 در حقیقت پاکستان کے مردہ ہوتے دریاؤں اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث آنے والے سیلابوں یا قحط کے خطرے کے سامنے یہ ایکوئفر ہی ہماری آخری قابلِ بھروسہ ڈھال ہے جس کے سینے میں ہم نے دس لاکھ سے زیادہ چھید (ٹیوب ویل ) کر رکھے ہیں اور ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

 یہ ایکوئفر اتنی بڑی ہے کہ پاکستان کے سارے دریاؤں کا پانی اپنے اندر سما سکتی ہے۔ یہ آپ کے تربیلا ڈیم جتنی ایک درجن جھیلوں سے زیادہ پانی چُوس لے گی اور اسے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

 پاکستان اس وقت دُنیا میں زمینی پانی کو زراعت کے لئے استعمال کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔ آپ کی زراعت میں آدھے سے زیادہ پانی (50ملئین ایکڑ فٹ) اس ایکوئفر سے کھینچا جارہا ہے۔دریائے سندھ کے نہری نظام سے کبھی سال میں ایک فصل لی جاتی تھی ، آج ہم تین تین فصلیں لے رہے ہیں۔

 آبادی کے دباؤ کی وجہ سے زرعی اور صنعتی مقاصد کے لئے بے تحاشا پانی ٹیوب ویلوں سے کھینچنے کی وجہ سے یہ ایکوئفر نیچے جانا شروع ہوچکی ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بنک کے مطابق پاکستان تقریباً 500 کیوبک میٹر پانی فی بندہ کے حساب سے زمین سے کھینچ رہا ہے جو کہ پورے ایشیا میں بہت زیادہ ہے۔

 اس ایکوئفر کے اوپر سندھ اور پنجاب کے علاقے میں صرف مون سون کے تین مہینوں میں 100 ملئین ایکڑ فٹ تک پانی برس جاتا ہے۔ یہ ایکوئفر ہزاروں سال سے قدرتی طور پر ری چارج ہورہی تھی لیکن ہم نے کنکریٹ کے گھر اور اسفالٹ کی سڑکیں بناکر پانی کے زمین میں جانے کا قدرتی راستہ کم سے کم کردیا ہے۔ 

بارش کا پانی سب سے صاف پانی ہوتا ہے لیکن یہ ری چارج ہونے کی بجائے فوری طور پر سڑکوں ، سیوریج لائنوں اور گندے نالوں کے ذریعے گٹر والے پانی میں بدل جاتا ہے جس سے نہ صرف اس کی کوالٹی بدتر ہوجاتی ہے بلکہ یہ سیلابی پانی بن کر شہروں کے انفراسٹرکچر اور دیہاتوں کو فلیش فلڈنگ سے نقصان پہنچاتا ہے۔

 تاہم اگر اس پانی کو اکٹھا کرکے زیرزمین پانی کوری چارج کرنے کا بندوبست کیا جائے تو نہ صرف اربن فلڈنگ اور فلیش فلڈنگ پر قابو پایا جاسکتا ہے بلکہ بڑے بڑے ڈیم بنائے بغیر بہت زیادہ پانی بھی ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔

 لہٰذا فوری طور پر آبادی والے علاقوں میں ری چارج کنویں، ڈونگی گراونڈز، ری چارج خندقیں ، تالاب، جوہڑ بنانے پر زور دیا جائے جب کہ نالوں اور دریاؤں میں ربڑ ڈیم اور زیرزمین ڈیم بنا کر مون سون کے دوران بارش اور سیلاب کے پانی کو زیرِزمین ری چارج کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے راوی اور ستلج دریا کے سارا سال خشک رہنے والے حصے، پرانے دریائے بیاس کے سارے راستے اور نہروں اور دوآبوں کے زیریں علاقے انتہائی موزوں جگہیں ہیں۔ 

اس طرح پانی ذخیرہ کرنے کے فوائد کیا ہوں گے؟

٭۔ بڑے ڈیموں کی جھیلیں آہستہ آہستہ مٹی اور گادھ سے بھر جاتے ہیں جب کہ زیرِ زمین ایکوئفر میں پانی فلٹر ہو کر جاتا ہے لہٰذا یہ ہمیشہ کے لئے ہیں ۔

٭۔  ایکوئفر سے پانی بخارات بن کر نہیں اڑ سکتا۔
٭۔کسی بھی قسم کی آبادی یا تنصیبات کو دوسری جگہ منتقل نہیں کرنا پڑے گا جیسا کہ پانی کے دوسرے منصوبوں میں کرنا پڑتا ہے۔
٭۔ جب اور جہاں ضرورت ہو یہ پانی نکالا جا سکے گا۔
٭۔ پانی کی کوالٹی بھی جھیل میں کھڑے پانی سے بہتر ہوگی۔ ہمارے صنعتوں میں 100 فی صد پانی زیرزمین استعمال ہوتا ہے اور پھر یہ لوگ پانی استعمال کرنے کے بعد بغیر اسے صاف کئے واپس زمین میں یا نالوں میں پانی گندا کرنے کے لئے چھوڑ دیتےہیں۔

اگر ابتدا صنعتوں سے ہی کرکے ان کو پمپ کئے گئے پانی کی مقدار کے برابر پانی ری چارج کرنے کی سہولیات بنانے کا پابند بنایا جائے تو یہ ایک اچھا آغاز ہوگا جس کے بعد میونسپیلیٹی اور ضلع کی سطح پر کام کیا جاسکتا ہے۔

 موجودہ پانی کے تناؤ کی صورت حال، بھارت کی طرف سے دریاؤں کے خشک کرنے، سیلابوں اور قحط کے سامنے نظر آتے خطروں کے خلاف زمینی پانی ہی ہمارے بچاؤ کی آخری صورت ہے۔ زمین میں چھپے اس خزانے کو ری چارج کرنا ضروری ہے۔

انجنئیر ظفر وٹو 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔