Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

منگل، 23 جولائی، 2024

ملکی معیشت میں چوروں کی اہمیت

استاد نے طلباء سے کہا کہ "چور" پر ایک مضمون لکھیں۔ ساتویں جماعت کے طالب علم  نے مضمون لکھا:۔

چور ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ یہ ایک مذاق ہے یا یہ غلط ہو سکتا ہے، لیکن یہ حقیقت میں قابل غور موضوع ہے۔

چوروں کی وجہ سے سیف، الماری اور تالے درکار ہیں۔ یہ ان کمپنیوں کو کام دیتا ہے جو انہیں بناتے ہیں. چوروں کی وجہ سے گھروں کی کھڑکیوں میں گرلز اور دروازے ہیں جو بند رکھے جاتے ہیں۔ یہی نہیں، باہر سیکیورٹی کے لیے اضافی دروازے بھی ہیں۔ اتنے لوگوں کو کام مل جاتا ہے۔

چوروں کی وجہ سے گھروں، دکانوں اور سوسائٹیوں کے ارد گرد حفاظتی دیواریں اور سیکورٹی کمپاؤنڈ بنائے گئے ہیں اور گیٹ لگائے گئے ہیں۔ گیٹ پر 24 گھنٹے گارڈ تعینات رہتے ہیں اور گارڈز کے لئے یونیفارمز بھی ہیں۔ اتنے لوگوں کو کام مل جاتا ہے۔

چوروں کی وجہ سے صرف سی سی ٹی وی کیمرے اور میٹل ڈیٹیکٹر ہی نہیں بلکہ سائبر سیل بھی معرض وجود میں آئے ہیں۔ چوروں کی وجہ سے پولیس، تھانے، پولیس چوکیاں، گشتی کاریں، لاٹھیاں، رائفلیں، ریوالور اور گولیاں ہیں۔ اتنے لوگوں کو کام مل جاتا ہے۔

چوروں کی وجہ سے عدالتوں میں عدالتیں، جج، وکیل، کلرک اور ضمانتی بندے ہیں۔ تو بہت سے لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔ چوروں کی وجہ سے جیلوں کےلئے سپرنٹنڈنٹ اور جیل پولیس کا عملہ رکھا جاتا ھے۔ اس لیے روزگار کے بہت سے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔

جب موبائل فون، لیپ ٹاپ، الیکٹرانک ڈیوائسز، سائیکلیں اور گاڑیاں چوری ہوتی ہیں تو لوگ نئی خریدتے ہیں۔ اس خرید و فروخت سے ملک کی معیشت مضبوط ہوتی ہے اور بہت سے لوگوں کو کام ملتا ہے۔

بین الاقوامی سطح کے چوروں سے متعلق خبروں کے ذریعے اندرون و بیرون ملک کا میڈیا بھی روزی روٹی حاصل کرتا ہے۔
یہ سب پڑھنے کے بعد آپ کو بھی یقین ہو جائے گا کہ چور معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور کروڑوں لوگوں کو روزگار مہیا کرنے کا ذریعہ ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اتوار، 21 جولائی، 2024

راولپنڈی کے چند چائے خانے/ ہوٹل

شائد اب چائے کی اہمیت کم ہو گئی ہے یا ہم لوگ گوشت خور ہو گئے ہیں جو جگہ جگہ بالٹی مرغ اور مٹن بالٹی تو کھانے کو مل جاتی ہے مگر صرف چائے کے ہوٹل شاذونادر ہی نظر آتے ہیں۔ جو کبھی شہر بھر میں پھیلے ہوتے تھے۔ جہاں لوگ اپنے یار دوستوں کے ساتھ خوش گپیاں مارتے نظر آتے تھے۔ اسکے علاوہ بعض گھروں میں معیوب سمجھا جاتا تھا کہ بیٹھک میں اجنبی آ کر بیٹھیں چاہے وہ دوست ہی کیوں نہ ہوں؟ بعض کے گھر میں جگہ ہی نہ ہوتی کہ اُنہیں بٹھایا جاتا۔  اسطرح چائے خانہ میں ایک پیالی چائے پی کر یار دوست گھنٹہ بھر بیٹھے رہتے۔
کئی چائے خانے اس لئے مشہور ہو گئے کہ وہاں گاہک کی فرمائش پر گانوں کے ریکارڈ بجائے جاتے تھے۔ یعنی جتنے دوست، اتنی پیالی چائے اور اتنے ہی فرمائشی گانے۔ بعد میں جن ہوٹل والوں نے ٹی وی رکھ لیا تو ایک چائے کی پیالی پی کر اپنا پسندیدہ ڈرامہ/ پروگرام پورا دیکھ لیتے تھے۔ ان میں سے بعض پر کھانا بھی مہیا ہوتا تھا۔
راولپنڈی کے نوجوان خصوصا” گورڈن کالج کے طلبہ کالج روڈ کے “زمزم کیفے “ کو تو نہ بھولیں ہونگے۔ جہاں آجکل سیور فوڈ ہے اس کے قریب یہ کیفے ہوا کرتا تھا۔ جہاں دن بھر طلبہ کا، شام/ رات گئے تک دیگر لوگوں کا ہجوم ہوتا تھا۔ گرمی کی شاموں میں کچھ میز باہر بھی لگا دئیے جاتے۔ اندر اور باہر لوگ بیٹھے اپنے فرمائشی گیت کا مکھڑا ایک پرچی پر لکھ کر بھجواتے ۔ یہاں پر گرامو فون ریکارڈز کا ایک بڑا ذخیرہ تھا۔ نئے گانوں کے علاوہ پرانے گانے بھی سننے کو مل جاتے۔ مجھے نہیں یاد کہ کوئی بھی پاکستانی/ ہندوستانی فلمی گانے کی فرمائش کی گئی ہو اور وہ موجود نہ ہو۔ ایک شخص کا کام ہی یہ تھا کہ موجود ذخیرے میں سے ریکارڈ تیزی سے ڈھونڈے اور اُسے ترتیب سے رکھ دے اور  باری پر گراموفون پر لگا دے۔ اسکی پھرتی اور یادداشت بے مثال تھی۔ اب یہاں ہر طرف سیور پلاؤ ہی نظر آتا ہے۔ زمزم کیفے ماضی کی دُھند میں غائب ہو چکا ہے۔
کالج روڈ پر ہی اس سے ذرا آگے اور سامنے کی طرف “شبنم کیفے” تھا۔ یہاں پر ٹی وی تھا۔ اس جگہ ہم نے دلدار پرویز بھٹی کا مشہور ہفتہ وار پنجابی پروگرام “ ٹاکرا” متعدد بار دیکھا۔ یہاں ہوٹل میں رہائشی کمرے بھی تھے۔ کچھ عرصے بعد مشہور زمانہ شبنم ہوٹل قتل کیس کے باعث یہ بھی بند ہو گیا۔ اور اب یہ چائنا مارکیٹ کا حصہ ہے۔ اسی طرح کیپیٹل کالج کے سامنے منزل ہوٹل تھا۔ یہاں بھی ٹی وی دیکھا جا سکتا تھا۔ مری روڈ پر آریہ محلہ کی سٹرک کے بائیں طرف “ الحیات ہوٹل” تھا۔ اسکے ریسٹورنٹ میں بھی ٹی وی تھا۔ یہ ہوٹل تو اب بھی ہے لیکن پہلی سی چمک دمک کے بغیر۔ اسی آریہ محلہ والی سڑک کے دائیں جانب “ پارک ہوٹل” تو اب بھی ہے لیکن اسکے ریسٹورنٹ کی جگہ پہلے بینک کھل گیا اور پھر میٹرو اسٹیشن نے یہ جگہ ہی ختم کر دی۔
ڈی اے وی کالج روڈ پر گورنمنٹ ہائی سکول کے سامنے گلی کے کونے پر ایک چھوٹا سا چائے خانہ تھا۔ سکول میں تو اسکی چائے جاتی ہی تھی۔ لیکن اسکے علاوہ شوقین حضرات ملائی کی تہہ سے لبریز چائے کا لطف اُٹھاتےتھے۔
چوک خرادیاں سے جو سڑک مری روڈ مشتاق ہوٹل کے پاس آ ملتی ہے یہاں “بابر گل ہوٹل “ تو اب بھی ہے یہاں ٹی وی ابتدائی دور میں ہی آ گیا تھا۔ خاص بات یہ تھی کہ اسکے اگلے دروازے سے بھی باہر سڑک پر ٹی وی نظر آتا تھا۔ باہر ٹی وی دیکھنے والے لوگ کھڑے رہتے اور کوئی اُنکو وہاں سے نہیں ہٹاتا تھا۔
اسکے ساتھ تنگ گلی کے بعد مشتاق ہوٹل اب بھی ہے لیکن جب یہ “مشتاق کیفے” ہوتا تھا تب یہاں گاہکوں کا بے پناہ ہجوم ہوتا تھا۔ یہ پی پی پی کا گڑھ تھا۔ مشتاق بٹ پی پی پی راولپنڈی ڈویژن کے صدر تھے اور جوانی میں ہی فوت ہوگئے تھے۔ ساتھ تنگ گلی میں انکے گھر میں تعزیت کے لئے بے نظیر بھٹو آئی تھیں۔
مشتاق ہوٹل کے ساتھ نائی کی دکان کے بعد مری روڈ پر ایک بہت پُرانا چھوٹا سا چائے کا ہوٹل تھا جو چوبیس گھنٹے کھلا رہتا تھا۔ یہ سب شاہین بیکری سمیت مری روڈ کی وسعت کی نظر ہو گئے۔ مری روڈ پر ہی قصر شیریں سے پہلے “اسحاق ہوٹل “ شائد اب بھی ہے ۔ یہاں بھی فرمائشی گانے بجاۓ جاتے تھے اور انکی آواز گرمیوں میں ہم جگی محلہ میں رات کو چھت پر لیٹے سنتے تھے۔یہ ہوٹل مختلف وجوہ کی بنا پر خاصا بدنام تھا۔
مری روڈ سے جو سڑک ڈھوک کھبہ جاتی ہے اس پر تھوڑا آگے (آجکل کے یونائٹیڈ ہوٹل کے تقریباً سامنے) ممتاز ہوٹل تھا۔ یہاں بھی فرمائش پر گانے بجائے جاتے تھے۔
سٹی صدر روڈ پر تاج محل سنیما کے ساتھ چائے کا ہوٹل دن رات کھلا رہتا تھا۔ اسکی چائے بہت مشہور تھی۔ خاص طور پر ٹیکسی ڈرائیور حضرات کے لئے۔
فوارہ چوک میں ٹرنک بازار اور لیاقت روڈ کے سنگم پر “ میز بان ہوٹل” تھا لیکن کچھ عرصہ بعد اسکے سامنے راجہ بازار اور گنج منڈی والی سڑک کے کونے پر “اکمل ہوٹل” کھل گیا یہ ہوٹل بہت کامیاب ہوا۔ اور میزبان ہوٹل بند ہو گیا۔ اکمل ہوٹل میں ذوالفقار علی بھٹو جب وزیراعظم تھے راجہ بازار کے دورے میں چائے پی تھی۔ یہ ہوٹل شیخ غلام حسین میئر راولپنڈی کی ناجائز تجاوزات ہٹانے کی مہم کے دوران گرا دیا گیا۔ راجہ بازار میں مقبول ہوٹل اور افضل ہوٹل بھی تھے۔ موخرالذکر ہوٹل مشہور اور بدنام بھی تھا۔
صدر میں شالیمار ہوٹل (جہاں اب شالیمار پلازہ ہے) بہت مشہور تھا اور اکثر ادیب / شاعر یہاں بیٹھا کرتے تھے۔ اسکے سامنے حبیب بینک کے ساتھ “ شیزان ریسٹورنٹ” تھا۔ عام طور سے یہ “جنٹری” کے بیٹھنے کی جگہ تھی۔ اس سے ذرا آگے حیدر روڈ کے بعد سیڑھیاں اُوپر جاتی ہیں وہاں برلاس ہوٹل/ ریسٹورنٹ تھا۔ چائے کے ساتھ کٹلس یا چپس کھانے کا اپنا ہی مزہ تھا۔ اس کے ساتھ بینک روڈ پر بائیں طرف مڑیں توکریم سموسہ ہوٹل پر چائے/ سموسہ اب بھی ملتے ہیں۔ جبکہ چوک سے دائیں جانب شروع میں ہی کامران ہوٹل اور سُپر کیفے تھے۔ کامران کا برگر (بن کباب) اور سُپر کی ٹوٹی فروٹی آئس کریم مشہور تھیں۔ یہ دونوں بھی عرصہ ہوا بند ہو گئے۔ ہاتھی چوک میں کینٹ جنرل ہسپتال کی طرف مڑیں تو کشمیری چائے، برفی اور سردیوں میں گاجر کا حلوہ مشہور تھا اور یہ اب بھی یہاں ملتا ہے۔
آدم جی روڈ پر جی ٹی ایس کے بس سٹینڈ کے سامنے تو اب بھی ریسٹورنٹ پر بہت رش ہوتا ہے۔ اسی طرح ملٹری اکاؤنٹس کے دفتر کے سامنے “ تبارک ریسٹورنٹ” پر بھی خاصا رش ہوتا ہے۔ اسکا روغنی نان چائے کے ساتھ کھانے کا اپنا ہی مزہ ہے۔
سیروز سنیما کے سامنے داتا ریسٹورنٹ بھی سڑک پر بنا ہونے کی وجہ سے گرا دیا گیا تھا۔ کینگ روڈ پر فلیش مین ہوٹل کے ساتھ چھوٹی تنگ گلی میں “ کیفے گیلری” ہوتا تھا۔ یہ بھی بند ہو گیا۔(ارشد رضوی)

 

٭٭٭٭٭٭



وزیر اعلیٰ پنجاب سے سوالات؟

 ٭71 سالہ مہاجرزادہ کے وزیر اعلیٰ پنجاب سے سوالات۔

 ٭- کیا پنجاب کے ہر صوبہ میں بی ایس سی (آنرز) زراعت موجود ہیں ؟ 

٭-کیا یہ پروگرام ۔ میٹرک پاس بچوں کے لئے نہیں شروع کیا جاسکتا ، تاکہ وہ معاشی ترقی میں ریڑھ کے مہرے بن جائیں؟
تجویز:۔
٭-اگر پنجاب کو دوبارہ پاکستان کا زراعتی صوبہ بنانا ہے ، تو پیٹ بھرنے کی فصلیں زیادہ کی جائیں اور تجوریاں بھرنے کی فصلیں کم ۔ 

٭-ہر صوبے میں قبضہ جاتی ۔ شاملاتی اور حکومتی ایک ایکٹر زرعی زمین ، اِن انٹرن شپ پروگرام میں شامل ہر چار بچوں کو دو سال کے لئے دی جائیں ۔ 

٭- یہ عملی نصابی پروگرام ہو اور انہیں ماہرین کے ساتھ شامل کرکے ۔ ایف ایس سی (زراعت تھیوری اور پریکٹیکل) کی سند دی جائے ۔ 
٭-اِن میں سے فی ایکڑ دو بچوں کو اینیمل ہسبینڈری کی تعلیم دی جائے۔ 
٭- اِن بچوں کو مزید ۔ بی ایس سی (آنرز) زراعت میں شامل کیا جائے ۔ 

٭- اِس کے لئے رقوم مالداروں کی پنجاب کی بنکوں کی برانچوں میں سیونگ سے خمس (ویلتھ ٹیکس) سے حاصل کی جائے ۔
٭۔زرعی اوزار بنانے  کی صنعت کو ترویج دی جاۓ اور اس کو کاٹیج انڈسٹری کا درجہ دیا جائے۔ 

(خالد مہاجرزادہ)


٭٭٭٭٭٭٭٭

جمعرات، 18 جولائی، 2024

پنجابی شاعری اور محنت کش منورشکیل

 فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ کے نواحی قصبے روڈالا کے مین بازار میں سڑک کنارے بیٹھا منور شکیل پچھلی 3 دہائیوں سے دیہاتیوں کے پھٹے پُرانے جوتے مرمت کرنے میں مصروف ہے۔لیکن حالیہ برسوں میں منور کی عارضی دکان پر جوتے مرمت کروانے والے گاہکوں سے زیادہ اُن کی تلخ اور شریں حقیقتوں پر مبنی شاعری سُننے والوں کا رش لگا رہتا ہے۔ منور پنجابی شاعری کی 5 کتابوں کے مصنف ہیں اور اپنی شاعری کی وجہ سے شہر کے مضافاتی علاقوں کی رہتل اور لوگوں کی زندگیوں کی حقیقتوں کا ترجمان مانے جاتے ہیں۔

۔1969ء میں پیدا ہونے والے منور شکیل نے ہوش سے پہلے ہی اپنے باپ کو کھو دینے اور رسمی تعلیم سے یکسر محروم رہنے کے باوجود 13 سال کی کم عمری میں شاعری کا آغاز کیا اور اُن کی پہلی کتاب 'سوچ سمندر' 2004ء میں منظرِ عام پر آئی۔ 

"میں سارا دن جوتوں کی مرمت اور صبح سویرے قصبے کی دکانوں پر اخبار فروشی کرکے اڑھائی سے 3 سو روپے کماتا ہوں جن میں سے روزانہ 10 روپے اپنی کتابیں شائع کروانے کے لیے جمع کرتا رہتا ہوں"۔

منور کی دوسری کتاب 'پردیس دی سنگت' 2005ء، تیسری کتاب 'صدیاں دے بھیت' 2009ء، چوتھی 'جھورا دُھپ گواچی دا' 2011ء اور پانچویں 'آکھاں مٹی ہو گیئاں' 2013ء میں شائع ہوئی۔اُن کی اب تک شائع ہونے والی تمام کتابیں ایوارڈ یافتہ ہیں۔

وہ رویل ادبی اکیڈمی جڑانوالہ اور پنجابی تنظیم نقیبی کاروان ادب کے رکن ہونے کے ساتھ ساتھ آشنائے ساندل بار، پاکستان رائٹرز گلڈ اور پنجابی سیوک جیسی ادبی تنظیموں سے اب تک کئی ایوارڈز اپنے نام کر چُکے ہیں۔
اپنی شاعری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ مختلف طبقات میں تقسیم ہمارے معاشرے میں نچلے طبقے کے لوگوں کو درمیانے اور اعلیٰ طبقے کے لوگوں کی طرف سے روزمرہ زندگی میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن کمزور لوگوں کے ساتھ کیے جانے والے اس سلوک کے خلاف آواز اُٹھانے والا کوئی نہیں۔

"میں اپنی شاعری کے ذریعے نچلے طبقے کی آواز بننا چاہتا ہوں اور جو باتیں براہ راست نہیں کیں جا سکتیں اُنھیں اپنی شاعری کے ذریعے دوسروں تک پہنچانا چاہتا ہوں۔"

اینوں کنے پانی دِتا، اینوں کنے بویا اےپتھر دے جو سینے اتے، بُوٹا اُگیا ہویا اے۔

انھوں نے بتایا :۔

 بچپن میں میری خواہش تھی کہ میں پڑھ لکھ کر نام کماؤں لیکن ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی والد کی وفات اور مالی وسائل کی کمی کے پیش نظر ایسا ممکن نہ ہو سکا تو میں نے خود کتابیں خرید کر مطالعہ شروع کیا اور اب کام سے واپس جا کر 3 سے 4 گھنٹے کتاب نہ پڑھوں تو نیند نہیں آتی۔

وہ کہتے ہیں :۔

اپنی ماں بولی پنجابی اور اُن کا تعلق وہی ہے جو ایک بیٹے کا اپنی ماں کے ساتھ ہوتا ہے۔ پنجابی پنجاب میں رہنے والے لوگوں کی مادری زبان ہے اور یہ اُن کا بنیادی حق ہے کہ انھیں اس زبان میں تعلیم دی جائے اور حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ پنجابی سمیت تمام علاقائی زبانوں کے فروغ کے لیے اقدامات کرے"۔

اُن کا ماننا ہے کہ ایک اچھے شاعر کے لیے لازمی ہے کہ اس کے دل میں انسانیت کے لیے درد ہو جسے محسوس کرتے ہوئے وہ اپنے الفاظ کو شاعری میں ترتیب دے سکے۔انھوں نے بتایا کہ اُن کی 112 غزلوں پر مشتمل چھٹی کتاب 'تانگھاں' رواں سال کے آخر تک شائع ہو جائے گی۔

 محنت میں عظمت ہوتی ہے۔ مجھے جوتے مرمت کرنے میں کوئی شرمندگی نہیں لیکن میں چاہتا ہوں کہ لوگوں میں شعور پیدا ہو اور وہ کتابوں کا مطالعہ شروع کریں تاکہ ہم بھی ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کھڑے ہو سکیں۔ 

منور شکیل کے ادبی استاد غلام مصطفیٰ آزاد نقیبی کہتے ہیں کہ منور نے اپنی شاعری کمزور لوگوں کی نبض پر ہاتھ رکھ کر کی ہے جو عشق، صحبت حُسن، زلف اور رخسار وغیرہ کے قصوں سے نہیں بلکہ عام لوگوں کی ضروریات، خواہشات اور مشکلات سے نتھی ہے۔اُن کا کہنا ہے کہ مضافات میں رہنے والے لوگوں میں صلاحیتوں کی کمی نہیں ہوتی لیکن مالی وسائل کی کمی کے باعث وہ دوسروں سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔

٭٭٭٭٭٭٭٭

آئیں مستقبل سائینس کی نظروں سے دیکھیں۔

٭دنیا میں مستقبل قریب میں ہونے والی کچھ تبدیلیاں:۔

 جیسے ویڈیو فلموں کی دکانیں غائب ہو گئیں، ویسے ہی پٹرول اسٹیشن بھی ختم ہو جائیں گے۔
1. کاروں کی مرمت کی دکانیں، اور آئل، ایکزاسٹ، اور ریڈی ایٹرز کی دکانیں ختم ہو جائیں گی۔
2. پٹرول/ڈیزل کے انجن میں 20,000 پرزے ہوتے ہیں جبکہ الیکٹرک کار کے انجن میں صرف 20 پرزے ہوتے ہیں۔ ان کو زندگی بھر کی ضمانت کے ساتھ بیچا جاتا ہے اور یہ وارنٹی کے تحت ڈیلر کے پاس ٹھیک ہوتے ہیں۔ ان کا انجن اتار کر تبدیل کرنا صرف 10 منٹ کا کام ہوتا ہے۔
3. الیکٹرک کار کے خراب انجن کو ایک ریجنل ورکشاپ میں روبوٹکس کی مدد سے ٹھیک کیا جائے گا۔
4. جب آپ کی الیکٹرک کار کا انجن خراب ہو جائے گا، آپ ایک کار واش اسٹیشن کی طرح کی جگہ جائیں گے، اپنی کار دے کر کافی پئیں گے اور کار نئے انجن کے ساتھ واپس ملے گی۔
5. پٹرول پمپ ختم ہو جائیں گے۔
6. سڑکوں پر بجلی کی تقسیم کے میٹر اور الیکٹرک چارجنگ اسٹیشن نصب کیے جائیں گے (پہلے دنیا کے پہلے درجے کے ممالک میں شروع ہو چکے ہیں)۔
7. بڑی بڑی سمارٹ کار کمپنیوں نے صرف الیکٹرک کاریں بنانے کے لئے فیکٹریاں بنانے کے لئے فنڈ مختص کیے ہیں۔
8. کوئلے کی صنعتیں ختم ہو جائیں گی۔ پٹرول/آئل کمپنیاں بند ہو جائیں گی۔ آئل کی تلاش اور کھدائی رک جائے گی۔
9. گھروں میں دن کے وقت بجلی پیدا کر کے ذخیرہ کی جائے گی تاکہ رات کو استعمال اور نیٹ ورک کو فروخت کی جا سکے۔ نیٹ ورک اسے ذخیرہ کر کے زیادہ بجلی استعمال کرنے والی صنعتوں کو فراہم کرے گا۔ کیا کسی نے Tesla کا چھت دیکھا ہے؟
10. آج کے بچے موجودہ کاریں میوزیم میں دیکھیں گے۔ مستقبل ہماری توقعات سے زیادہ تیزی سے آ رہا ہے۔
11. 1998 میں، کوڈاک کے 170000 ملازمین تھے اور یہ دنیا بھر میں 85٪ فوٹو پیپر فروخت کرتا تھا۔ دو سالوں میں ان کا بزنس ماڈل ختم ہو گیا اور وہ دیوالیہ ہو گئے۔ کس نے سوچا تھا کہ ایسا ہو سکتا ہے؟
12. جو کچھ کوڈاک اور پولاروئڈ کے ساتھ ہوا، ویسا ہی اگلے 5-10 سالوں میں کئی صنعتوں کے ساتھ ہوگا۔
13. کیا آپ نے 1998 میں سوچا تھا کہ تین سالوں کے بعد، کوئی بھی فلم پر تصاویر نہیں لے گا؟ اسمارٹ فونز کی وجہ سے، آج کل کون کیمرہ رکھتا ہے؟
14. 1975 میں ڈیجیٹل کیمرے ایجاد ہوئے۔ پہلے کیمرے میں 10000 پکسلز تھے، لیکن انہوں نے مور کے قانون کی پیروی کی۔ جیسے ہر ٹیکنالوجی کے ساتھ ہوتا ہے، پہلے تو توقعات پر پورے نہیں اترے، لیکن پھر بہت بہتر ہو گئے اور غالب آ گئے۔
15. یہ دوبارہ ہوگا (تیزی سے) مصنوعی ذہانت، صحت، خود کار گاڑیاں، الیکٹرک کاریں، تعلیم، تھری ڈی پرنٹنگ، زراعت، اور نوکریوں کے ساتھ۔
16. کتاب "Future Shock" کے مصنف نے کہا: "خوش آمدید چوتھی صنعتی انقلاب میں"۔
17. سافٹ ویئر نے اور کرے گا اگلے 5-10 سالوں میں زیادہ تر روایتی صنعتوں کو متاثر۔
18. اوبر سافٹ ویئر کے پاس کوئی گاڑی نہیں، اور یہ دنیا کی سب سے بڑی ٹیکسی کمپنی ہے! کس نے سوچا تھا کہ ایسا ہو سکتا ہے؟
19. اب ایئربی این بی دنیا کی سب سے بڑی ہوٹل کمپنی ہے، جبکہ اس کے پاس کوئی جائداد نہیں۔ کیا آپ نے کبھی ہلٹن ہوٹلز کو ایسا سوچا؟
20. مصنوعی ذہانت: کمپیوٹر دنیا کو بہتر طور پر سمجھنے لگے ہیں۔ اس سال ایک کمپیوٹر نے دنیا کے بہترین کھلاڑی کو شکست دی (متوقع سے 10 سال پہلے)۔
21. امریکہ کے نوجوان وکلاء کو نوکریاں نہیں مل رہیں کیونکہ IBM کا واٹسن، جو آپ کو سیکنڈز میں قانونی مشورے دیتا ہے 90٪ کی درستگی کے ساتھ، جبکہ انسانوں کی درستگی 70٪ ہوتی ہے۔ لہذا اگر آپ قانون کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، تو فوراً رک جائیں۔ مستقبل میں وکلاء کی تعداد 90٪ کم ہو جائے گی اور صرف ماہرین رہیں گے۔
22. واٹسن ڈاکٹروں کی مدد کر رہا ہے کینسر کی تشخیص میں (ڈاکٹروں کے مقابلے میں 4 گنا زیادہ درست)۔
23. فیس بک کے پاس اب چہرے کی شناخت کا پروگرام ہے (انسانوں سے بہتر)۔ 2030 تک کمپیوٹر انسانوں سے زیادہ ذہین ہو جائیں گے۔
23. فیس بک کے پاس اب چہرے کی شناخت کا پروگرام ہے (انسانوں سے بہتر)۔ 2030 تک کمپیوٹر انسانوں سے زیادہ ذہین ہو جائیں گے۔
23. فیس بک کے پاس اب چہرے کی شناخت کا پروگرام ہے (انسانوں سے بہتر)۔ 2030 تک کمپیوٹر انسانوں سے زیادہ ذہین ہو جائیں گے۔
24. خودکار گاڑیاں: پہلی خودکار گاڑی سامنے آ چکی ہے۔ دو سال میں پوری صنعت بدل جائے گی۔ آپ کار کی مالکیت نہیں چاہیں گے کیونکہ آپ ایک کار کو فون کریں گے اور وہ آ کر آپ کو آپ کی منزل تک لے جائے گی۔
25. آپ اپنی کار پارک نہیں کریں گے بلکہ سفر کی مسافت کے حساب سے ادائیگی کریں گے۔ آپ سفر کے دوران بھی کام کریں گے۔ آج کے بچے ڈرائیونگ لائسنس نہیں لیں گے اور نہ ہی کبھی گاڑی کے مالک ہوں گے۔
26. اس سے ہمارے شہر بدل جائیں گے۔ ہمیں 90-95٪ کم گاڑیاں چاہئیں ہوں گی۔ پارکنگ کے پرانے مقامات سبز باغات میں تبدیل ہو جائیں گے۔
27. ہر سال 1.2 ملین لوگ گاڑی حادثات میں مر جاتے ہیں، جس میں شرابی ڈرائیونگ اور تیز رفتاری شامل ہے۔ اب ہر 60,000 میل میں ایک حادثہ ہوتا ہے۔ خودکار گاڑیوں کے ساتھ، یہ حادثات ہر 6 ملین میل پر ایک تک کم ہو جائیں گے۔ اس سے سالانہ ایک ملین لوگوں کی جان بچائی جائے گی۔
28. روایتی کار کمپنیاں دیوالیہ ہو جائیں گی۔ وہ انقلابی انداز میں ایک بہتر کار بنانے کی کوشش کریں گی، جبکہ ٹیکنالوجی کمپنیاں (Tesla، Apple، Google) ایک انقلابی انداز میں پہیے پر کمپیوٹر بنائیں گی (ذہین الیکٹرک گاڑیاں)۔
29. Volvo نے اب اپنے گاڑیوں میں انٹرنل کمبسشن انجن کو ختم کر کے، صرف الیکٹرک اور ہائبرڈ انجنوں سے تبدیل کر دیا ہے۔
30. Volkswagen اور Audi کے انجینئرز (Tesla) سے پوری طرح خوفزدہ ہیں اور انہیں ہونا چاہیے۔ الیکٹرک گاڑیاں بنانے والی تمام کمپنیوں کو دیکھیں۔ کچھ سال پہلے یہ معلوم نہیں تھا۔
31. انشورنس کمپنیاں بڑے مسائل کا سامنا کریں گی کیونکہ بغیر حادثات کے اخراجات سستے ہو جائیں گے۔ کار انشورنس کا کاروباری ماڈل ختم ہو جائے گا۔
32. جائداد میں تبدیلی آئے گی۔ کیونکہ سفر کے دوران کام کرنے کی وجہ سے، لوگ اپنی اونچی عمارتیں چھوڑ دیں گے اور زیادہ خوبصورت اور سستے علاقوں میں منتقل ہو جائیں گے۔
33. 2030 تک الیکٹرک گاڑیاں عام ہو جائیں گی۔ شہر کم شور والے اور ہوا زیادہ صاف ہو جائے گی۔
34. بجلی بے حد سستی اور ناقابل یقین حد تک صاف ہو جائے گی۔ سولر پاور کی پیداوار بڑھتی جا رہی ہے۔
35. فوسل فیول انرجی کمپنیاں (آئل) گھریلو سولر پاور انسٹالیشنز کو نیٹ ورک تک رسائی محدود کرنے کی کوشش کر رہی ہیں تاکہ مقابلے کو روکا جا سکے، لیکن یہ ممکن نہیں - ٹیکنالوجی آ رہی ہے۔
سبز توانائی، چاہے وہ سبز ہائیڈروجن سے ہو یا ماحول دوست ذرائع سے، اور سبز شہر آئیں گے، اور زیادہ تر ممالک میں نیوکلیئر ری ایکٹرز ختم ہو جائیں گے۔
36. صحت: Tricorder X کی قیمت کا اعلان اس سال کیا جائے گا۔ کچھ کمپنیاں ایک طبی آلہ بنائیں گی (جس کا نام "Tricorder" ہے Star Trek سے لیا گیا)، جو آپ کے فون کے ساتھ کام کرتا ہے، جو آپ کی آنکھ کی ریٹینا کا معائنہ کرے گا، آپ کے خون کا نمونہ لے گا، اور آپ کی سانس کی جانچ کرے گا۔ اور 54 بائیولوجیکل مارکرز کی تشخیص کرے گا جو تقریباً کسی بھی بیماری کی نشاندہی کرتے ہیں۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔