Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 28 اپریل، 2014

یہی چراغ نکلیں گے روشنی لے کر ۔



ایک دوست نے یہ تصویر فیس بک پر پوسٹ کی اسے دیکھتے ہی ، میرے ذہن میں ایک " پاپ اَپ " نمودار ہوا ۔ اور مجھے اپنے بچپن کا زمانہ یاد آگیا ۔ جب ایبٹ آباد کی سردیوں میں ، استاد محترم ہمیں کلاس روم سے باہر بٹھایا کرتے تھے ۔
'
تو یہ شعر ، یک دم  ادا ہو گیا ۔

'
کیوں کہ ، اس طرح  ہمارے زمانے  میں نیچے بیٹھ کر پڑھنے والے بچوں میں سے ، سیکریٹری ، جنرل اور  لیڈر نکلے ۔
'
اب تو زمانہ اور ہے ، کیوں  یہ تو ہمارے ماہرانِ تعلیم ہی بتا سکتے ہیں ۔

آپ کی صحت اور عملِ تنفس!


مراقبے پر میرا مضمون   ،  مراقبہ آپ کی سوچ سے زیادہ آسان ہے   ،  
بلاگ پر پوسٹ ہونے کے بعد کافی دوستوں نے پڑھا ایک نوجوان نے پوچھا کہ ،
کیا ، مراقبہ سانس کی مشقوں سے بھی ہوتا ہے ؟  میں سانس کی مشقیں کرنا چاہتا ہوں ۔




مجھے اچھی طرح یاد ہے ، کہ میٹرک میں  ، میں نے سانس سے انسانی جسم کی قوت بڑھانے کے لئے  ایک مضمون پڑھا تھا ، کہ باڈی بلڈر ، کیسے سانس روک کر وزن اُٹھاتے ہیں ، جس کا تجربہ میں نے کیا  بلکہ  تیرتے وقت ، زیادہ دیر پانی میں رہنے کا بھی میرا تجربہ تھا ۔ ہم بچپن میں نہر میں مقابلہ کرتے کہ سب سے زیادہ دیر  پانی میں کون رہے گا ، مقابلہ میں ہی جیتتا ۔

پھر فوج میں کوہاٹ میں سوئمنگ کرتے وقت ، مجھے  زیر آب تیرنا اچھا لگتا تھا -
 
 1982   میں Deep Sea Diving کورس پر جانے کا اتفاق ہوا ، ہم سب کلفٹن کے پاس Oyester Rocks کے پاس پاکستان نیوی کی بوٹ میں ڈائیونگ کے لئے گئے ،   وہاں سٹاف نے روزانہ ایک دو آفیسروں کو ، پانی میں دبانے کا شغل جاری رکھا تھا ، وہ آفیسروں کو ایک ساتھ ڈائیو کرواتے اور نیچے سمندر کی تہہ سے ریت لانے کو کہتے ۔  میں اور کیپٹن شکیل پہلے دن ریت لائے ، باقی نہ لاسکے ، تو ہمیں اپنی مشقیں کرنے کو کہا ، اور باقیوں کو ریت لانے کا کام کرنا پڑا -
دوسرا دن تھا میں ، زیر ِآب تیر رہا تھا ، کہ کسی نے مجھ پر جھپٹا مارا ، اور دونوں ہاتھوں سے جکڑ لیا ۔ ہم دونوں تہہ کی طرف جانے لگے ، میں نے فوراً ٹرن لیا ، اور سٹاف لانس کارپورل سکندر  (نیچے تصویر میں سرخ دائرے میں) کی کمر میں قینچی ڈال دی ۔
سٹاف سمجھاکہ چند سیکنڈوں کے بعد کپتان صاحب کی سانس ٹوٹ جائے گی کپتان صاحب اُسے چھوڑ دیں گے ۔ اُس نے انگوٹھا دکھایا کہ اُسے میر ایکشن پسند آٰیا میں نے بھی جواب میں انگوٹھا دکھا دیا ۔
ہم دونوں سمندر کی تہہ میں جا بیٹھے ،
اُس نے اشارہ کیا اوپر جانا ہے ،
میں نے اشارہ کیا نیچے رہنا ہے ، 


مجھے یقین تھا کہ اُس کا سانس اکھڑ جائے گا اور یہی ہوا ،اُس کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا ، کتنی دیر مزید سانس روکتا ۔  وہ قینچی سے نکلنے کے کوشش کرنے لگا اُس نہیں معلوم تھا ، کہ کپتان صاحب کبڈی کھیلنے کے ماہر تھے ، اُس نے دوسرا حربہ کیا کہ میرے پیٹ میں پنچ مارا ، لیکن وہاں اُسے ناکامی ہوئی ، کیوں کہ بقول 5 سالہ  چم چم :
" آوا آپ چھوٹے تھے توپتھر کھاتے تھے "
بالآخر اُس نے ہاتھ جوڑ دئیے میں نے مسکرا کر چھوڑ دیا ، وہ تیزی سے اوپر گیا ، میں بھی اوپر اُٹھا اور بوٹ کے دوسری طرف نکلا ۔اِس پورے عمل میں ڈیڑھ سے دو منٹ لگے ہوں گے  اور بوٹ کے پچھلے  پیندے سے  بلیڈ سے دور چپک گیا  ، جہاں سے کسی کو نظر نہیں آسکتا تھا اور ہنگامی حالت پیدا ہو گئی ، کیوں کہ کپتان صاحب شائد ڈوب گئے ، دونوں گارڈز نے  غوطہ لگایا ، تو میں بوٹ کی نیچے سےتیر کر سیڑھی کی طرف آیا ، اور مسکراتا ہوا اوپر چڑھنے لگا ۔
سب حیران کہ  پورے تین منٹ زیر آب رہا ۔اُس کے بعد کسی سٹاف نے مستی کرنے کی کوشش نہیں کی لیکن تیرنے کی سزائیں بہت دیں ، بار بار زیر آب سرنگ سے گزروایا جس کی چھت کیکڑوں سے اور مردہ اجسام کی بدبو سے  بھری رہتی تھی ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اب میں آتا ہوں کہ  عملِ تنفس اور حبسِ دم  کی مشق کیسے کی جائے ؟
 ٭ -    عملِ تنفس اور حبسِ دم کا ابتائی ٹیسٹ:
 جتنا زیادہ ہوسکے  لمبا سانس لے کر اپنے پھیپھڑوں میں ہوا بھریں پھر ساری سانس باہر نکال دیں-
پہلا حبسِ دم :  اب  مکمل سانس روک لیں ۔ سانس روکنے کا یہ دورانیہ  اپنی گھڑی پر نوٹ کریں ۔ 

٭-    عملِ تنفس اور حبسِ دم  کی مشق1-  آرام سے کسی بھی حالت میں بیٹھیں ۔
2-  اب  منہ سے جتنا سانس لے سکتے ہیں لیں اور واپس  اُسی رفتار سے نکالیں -
یہ عمل دو منٹ تک کریں ۔  یعنی سانس کھینچیں ، سانس نکالیں ۔ آپ محسوس کریں گے کہ آپ کے چہرے میں سنسناہٹ شروع ہوجائے گی ، کیوں کہ آپ کے خون میں آکسیجن کی مقدار معمول سے بڑھ چکی ہے ۔
3-دوسراحبسِ دم :ٹھیک دو منٹ بعد  جب تک  حبسِ دم (سانس روکنا) کر سکتے ہیں ، سانس روکیں اور یہ وقت نوٹ کریں ۔
4- پھر دوبارہ عمل تنفس (سانس لینے اور آرام سے نکالنے ) کی مشق
  دو منٹ تک کریں ۔
5-
تیسراحبسِ دم :دو منٹ بعد جتنی دیر تک حبسِ دم  کر سکتے ہیں کریں لیکن سانس نکالتے وقت جتنی آہستگی سے سانس نکال سکتے ہیں نکالیں  اور ٹائم نوٹ کر لیں  ۔
6-آپ دیکھیں گے کہ تینوں ٹائمنگ میں فرق ہوگا - گو کہ یہ فرق معمولی ہوگا لیکن آپ پہلے حبسِ دم سے  کئی گناہ وقت بڑھا سکتے ہیں ۔
  نوٹ:
٭- یہ مشق آپ کوایک نشت میں  20منٹ کے لئے  کرنا ہے، وقت اور جگہ کی قید نہیں ، صبح کریں یا شام ، آکسیجن ہر جگہ پائی جاتی ہے ۔ کل 10 دفعہ حبسِ دم کریں گےاور ہر دفعہ ٹائمنگ نوٹ کریں گے ۔ 

 ٭- آپ  20 ، 20 منٹ کا یہ عمل دن میں تین بار بھی کر سکتے ہیں اور زیادہ دفعہ بھی -
٭- پانی  بھری  بالٹی میں اپنا چہرہ  ڈبو یا تالاب میں بیٹھ ، کر اپنے  حبسِ دم کے وقت کو کسی سے کہہ کر با آسانی نوٹ کر واسکتے ہیں اور آپ اپنے سانس روکنے کی صلاحیتوں کو کئی گناہ بڑھا سکتے ہیں ۔

فائدے :
1- آپ کے جسم میں آکسیجن کی مقدار بڑھ جائے گی ۔ جو خون صاف کرنے میں مدد دے گی -
2- آپ کے ہارمونز صحت مند ہونا شروع کر دیں گے ۔
3-جسم کی حرارت بڑھ جائے گی -
4- حسیات توانا ہوجائیں گی ۔
5- سردی سے لگنے والی تمام بیماریاں غائب ہوجائیں گی ۔
6- دمہ کے مریضوں کے لئے نہایت فائدہ مند ہے ۔
7- سردیوں میں اگر آپ کو ٹھنڈ لگ رہی ہے تو سانس پھیپڑوں میں بھرنے اور جب تک ہوسکے روکنے اور پھر آہستہ آہستہ نکالیں ۔ تو سردی دور ہوجائے گی ۔
8- کسی  بھی جسمانی گیم کو شروع کرنے سے پہلے  ، عملِ تنفس دھرائیں تو جسم میں جانے والی آکسیجن چستی اور تونائی پیدا کر دے گی - 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

  مراقبہ : آپ کی سوچ سے زیادہ آسان

ہفتہ، 26 اپریل، 2014

غالب ، میں اور شرارتیں


عنوان سے کہیں خدا نخواستہ آپ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ ہم ، مرزا اسد اللہ خان غالب (مرحوم )  کے ہم عصر ہیں ،
لیکن ان شرارتوں کو سمجھنے کے لئے آپ کا جنٹل مین کیڈٹ ہونا ضروری ہے ۔
۔
 

مرزا غالب کی چٹکیاں

مرزا غالب 27 دسمبر 1797ءکو آگرہ میں پیدا ہوئے تھے۔ آباء واجداد کا پیشہ تیغ زنی اور سپہ گری تھا۔ انہوں نے اپنا پیشہ انشاءپردازی اور شعر و شاعری کو بنایا اور ساری عمر اسی شغل میں گزار دی۔

تیرہ برس کی عمر میں غالب کی دہلی کے ایک علم دوست گھرانے میں شادی ہوئی اور یوں غالب دلی چلے آئے جہاں انہوں نے اپنی ساری عمر بسر کردی۔ غالب نے اپنی زندگی بڑی تنگ دستی اور عسرت میں گزاری مگر کبھی کوئی کام اپنی غیرت اور خودداری کے خلاف نہ کیا۔ 1855ءمیں ذوق کے انتقال کے بعد بہادر شاہ ظفر کے استاد مقرر ہوئے جن کے دربار سے انہیں نجم الدولہ دبیر الملک اور نظام جنگ کے خطابات عطا ہوئے۔ جب 1857ءمیں بہادر شاہ ظفر قید کرکے رنگون بھیج دیئے گئے تو وہ نواب یوسف علی خاں والی ¿ رام پور کے دربار سے وابستہ ہوگئے جہاں سے انہیں آخر عمر تک وظیفہ ملتا رہا۔
غالب فارسی اور اردو دونوں زبانوں کے عظیم شاعر تھے جتنی اچھی شاعری کرتے تھے اتنی ہی شاندار نثر لکھتے تھے۔ انہوں نے شاعری کے ساتھ ساتھ نثر نگاری میں بھی ایک نئے اسلوب کی بنیاد رکھی۔ غالب سے پہلے خطوط بڑے مقفع اور مسجع زبان میں لکھے جاتے تھے انہوں نے اسے ایک نئی زبان عطا کی اور بقول انہی کے ”مراسلے کو مکالمہ بنادیا“۔
مرزا غالب نے 15 فروری 1869ءکو دہلی میں وفات پائی اور وہیں آسودہ خاک ہوئے۔


ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں __ اور

جب مرزا غالب قید سے چھوٹ کر آئے تو میاں کالے صاحب کے مکان میں آ کر رہے تھے۔ ایک روز میاں صاحب کے پاس بیٹھے تھے کہ کسی نے آ کر قید سے چھوٹنے کی مبارکباد دی۔
مرزا نے کہا: کون بھڑوا قید سے چھوٹا ہے۔ پہلے گورے کی قید میں تھا۔اب کالے کی قید میں ہوں
۔
مشہورِ زمانہ ٹی وی ڈرامہ ”مرزا غالب“ میں اسد اللہ خاں غالب کا ایک شخص سے دلچسپ مکالمہ۔
دیکھو میاں! شکایت ہم سے نہیں خود سے کرو۔ قومیں بادشاہوں سے نہیں عوام سے بنتی ہیں اور آپ اگر آج بھی کبوتر نہ اڑا رہے ہوتے تو یہ قوم کچھ اور ہوتی، یہ ملک کچھ اور ہوتا۔ جاؤ، کبوتر اڑاؤ۔

مرزا  غالب رمضان کے مہینے میں دہلی کے محلے قاسم جان کی ایک کوٹھری میں بیٹھے پچیسی کھیل رہے تھے. میرٹھ سے ان کے شاگرد مفتی شیفتہ دہلی آئے، تو مرزا صاحب سے ملنے گلی قاسم جان آئے۔ انہوں نے دیکھا کہ رمضان کے متبرک مہینے میں مرزا پچیسی کھیل رہے تھے۔
انہوں نے اعتراض کیا : “مرزا صاحب ہم نے سنا ہے کہ رمضان میں شیطان بند کر دیا جاتا ہے۔“
مرزا غالب نے جواب دیا “مفتی صاحب آپ نے ٹھیک سنا ہے۔ شیطان جہاں قید کیا جاتا ہے، وہ کوٹھری یہی ہے۔“

ایک روز غالب نے اپنے شاگردوں کو ہدایت کی۔
جوں ہی میری روح جسدِ خاکی کو چھوڑے، تم بھاگ کر کہیں سے پرانا کفن لانا اور مجھے اس میں لپیٹ کر دفنا دینا۔
ایک شاگرد بولا، استادِ محترم، یہ تو بتائیے، اس سے آپ کو کیا فائدہ پہنچے گا۔
غالب نے کہا، کم بخت اتنی سی بات بھی نہیں سمجھے کہ منکر نکیر تشریف لائیں گے تو پرانے کفن کو دیکھتے ہی سوال جواب کیے بغیر ہی لوٹ جائیں گے، کیونکہ پرانا کفن دیکھ کر وہ سمجھیں گے کہ اس جگہ غلطی سے دوبارہ آ گئے ہیں۔

ایک دفعہ مرزا غالب گلی میں بیٹھے آم کھا رہے تھے ان کے پاس ان کا ایک دوست بھی بیٹھا تھا جو کہ آم نہیں کھاتا تھا اسی وقت وہاں سے ایک گدھے کا گزر ہوا تو غالب نے آم کے چھلکے گدھے کے آگے پھینک دیے گدھے نے چھلکوں کو سونگھا اور چلتا بنا تو
غالب کے دوست نے سینا پھلا کر کہا دیکھا مرزا گدھے بھی آم نہیں کھاتے
مرزا نے بڑے اطمینان سے کہا کہ جی ہاں دیکھ رہا ہوں گدھے آم نہیں کھاتے.

ریاست رام پور کے نواب کلب علی خان انگریز گورنر سے ملاقات کیلئے بریلی گئے تو مرزا اسد اللہ خان غالب بھی انکے ہمراہ تھے، انہیں دلی جانا تھا بوقت روانگی نواب صاحب نے مرزا سے کہا۔۔
مرزا صاحب الوداع خدا کے سپرد۔
مرزا غالب جھٹ بولے۔
حضرت خدا نے تو مجھے آپ کے سپرد کیا تھا، اب آپ الٹا مجھے خدا کے سپرد کر رہے ہیں۔

ایک روز سید سردار میرزا کے ہاں تشریف لائے جب تھوڑی دیر کے بعد جانے لگے تو مرزا شمع دان لے کر لب فرش تک آئے تاکہ وہ روشنی میں جوتا دیکھ کر پہن لیں۔ انہوں نے کہا "۔۔۔ قبلہ و کعبہ آپ نے اس قدر زحمت فرمائی میں اپنا جوتا پہن لیتا"
مرزا ہنس کر بولے ۔۔۔ بھئی میں آپ کا جوتا دکھانے کو شمع دان نہیں لایا بلکہ اس احتیاط سے لایا ہوں کہیں آپ میرا جوتا نہ پہن جائیں
۔

غدر کے بعد مرزا غالب بھی قید ہو گئے۔ ان کو جب وہاں کے کمانڈنگ آفیسر کرنل براؤن کے سامنے پیش کیا گیا تو کرنل نے مرزا کی وضع قطع دیکھ کر پوچھا۔
ویل، ٹم مسلمان ہے۔
مرزا نے کہا، جناب، آدھا مسلمان ہوں۔
کرنل بولا۔ کیا مطلب؟
مرزا نے کہا، جناب شراب پیتا ہوں، سؤر نہیں کھاتا۔

ایک مرتبہ جب ماہِ رمضان گزر چکا تو بہادر شاہ ظفر نے مرزا صاحب سے پوچھا کہ: مرزا، تم نے کتنے روزے رکھے؟

غالب نے جواب دیا: پیر و مرشد ، ایک نہیں رکھا۔

غالب کی مفلسی کا زمانہ چل رہا تھا، پاس پھوٹی کوڑی تک نہیں تھی اور قرض خواہ مزید قرض دینے سے انکاری۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک شام انکے پاس پینے کیلیے بھی پیسے نہ تھے، مرزا نے سنِ شعور کے بعد شاید ہی کوئی شام مے کے بغیر گزاری ہو، سو وہ شام ان کیلیے عجیب قیامت تھی۔
مغرب کی اذان کے ساتھ ہی مرزا اٹھے اور مسجد جا پہنچے کہ آج نماز ہی پڑھ لیتے ہیں۔ اتنی دیر میں انکے کے دوست کو خبر ہوگئی کہ مرزا آج "پیاسے" ہیں اس نے جھٹ بوتل کا انتظام کیا اور مسجد کے باہر پہنچ کر وہیں سے مرزا کو بوتل دکھا دی۔
مرزا، وضو کر چکے تھے، بوتل کا دیکھنا تھا کہ فورا جوتے پہن مسجد سے باہر نکلنے لگے۔ مسجد میں موجود ایک شناسا نے کہا، مرزا ابھی نماز پڑھی نہیں اور واپس جانے لگے ہو۔
مرزا نے کہا، قبلہ جس مقصد کیلیے نماز پڑھنے آیا تھا وہ تو نماز پڑھنے سے پہلے ہی پورا ہو گیا ہے اب نماز پڑھ کر کیا کروں گا۔

مرزا غالب شطرنج کے بڑے شوقین تھے۔ مولانا فیض الحسن سہارنپوری دلی میں نئے نئے آئے تھے۔ غالب کو پتا چلا کہ وہ بھی شطرنج کے اچھے کھلاڑی ہیں تو انہیں دعوت دی اور کھانے کے بعد شطرنج کی بساط بچھا دی۔ ادھر سے کچھ کوڑا کرکٹ ڈھونے والے گدھے گزرے تو
مولانا نے کہا “دلی میں گدھے بہت ہیں!“
مرزا غالب نے سر اٹھا کر دیکھا اور بولے “ہاں بھائی، باہر سے آ جاتے ہیں۔“

مرحوم کی یاد میں - پطرس بخاری

مرحوم کی یاد میں

پطرس بخاری
رات کو خواب میں دعائیں مانگتا رہا کہ خدایا مرزا بائیسکل دینے پر رضامند ہوجائے۔ صبح اٹھا تو اٹھنے کے ساتھ ہی نوکر نے یہ خوشخبری سنائی کے حضور وہ بائیسکل آگئی ہے۔
میں نے کہا۔ "اتنے سویرے؟"
نوکر نے کہا۔ "وہ تو رات ہی کو آگئی تھی، آپ سو گئے تھے میں نے جگانا مناسب نہ سمجھا اور ساتھ ہی مرزا صاحب کا آدمی یہ ڈھبریاں کسنے کا ایک اوزار بھی دے گیا ہے"۔
میں حیران تو ہوا کہ مرزا صاحب نے بائیسکل بھجوادینے میں اس قدر عجلت سے کیوں کام لیا لیکن اس نتیجے پر پہنچا کہ آدمی نہایت شریف اور دیانت دار ہیں۔ روپےلے ليے تھے تو بائیسکل کیوں روک رکھتے۔
نوکر سے کہا۔ "دیکھو یہ اوزار یہیں چھوڑ جاؤ اور دیکھو بائیسکل کو کسی کپڑے سے خوب اچھی طرح جھاڑو۔ اور یہ موڑ پر جو بائیسکلوں والا بیٹھتا ہے اس سے جا کر بائیسکل میں ڈالنے کا تیل لے آؤ اور دیکھو، اے بھاگا کہاں جارہا ہے ہم ضروری بات تم سے کہہ رہے ہیں، بائیسکل والے سے تیل کی ایک کپی بھی لے آنا ا ور جہاں جہاں تیل دینے کی جگہ ہے وہاں تیل دے دینا اور بائیسکلوں والے سے کہنا کہ کوئی گھٹیا سا تیل نہ دیدے۔ جس سے تمام پرزے ہی خراب ہوجائیں، بائیسکل کے پرزے بڑے نازک ہوتے ہیں اور بائیسکل باہر نکال رکھو، ہم ابھی کپڑے پہن کر آتے ہیں۔ ہم ذرا سیر کو جارہےہیں اور دیکھو صاف کردینا اور بہت زور زور سے کپڑا بھی مت رگڑنا، بائیسکل کا پالش گھس جاتا ہے"۔
جلدی جلدی چائے پی، غسل خانے میں بڑے جوش خروش کے ساتھ "چل چل چنبیلی باغ میں" گاتا رہا اس کے بعد کپڑے بدلے، اوزار کو جیب میں ڈالا اور کمرے سے باہر نکلا۔
برآمدے میں آیا تو برآمدے کے ساتھ ہی ایک عجیب وغریب مشین پر نظر پڑی۔ ٹھیک طرح پہچان نہ سکا کہ کیا چیز ہے، نوکر سے دریافت کیا۔ "کیوں بے یہ کیا چیز ہے؟"
نوکر بولا۔ "حضور یہ بائیسکل ہے"۔
میں نے کہا۔ "بائیسکل؟ کس کی بائیسکل؟"
کہنے لگا۔ "مرزا صاحب نے بھجوائی ہے آپ کے ليے"۔
میں نے کہا۔ "اور جو بائیسکل رات کو انہوں نے بھیجی تھی وہ کہاں گئی؟"
کہنے لگا۔ "یہی تو ہے"؀۔
میں نے کہا۔ "کیا بکتا ہے جو بائیسکل مرزا صاحب نے کل رات کو بھیجی تھی وہ بائیسکل یہی ہے؟"
کہنے لگا۔ "جی ہاں"۔
میں نے کہا۔ "اچھا" اور پھر اسے دیکھنے لگا۔ اس کو صاف کیوں نہیں کیا؟"
"اس کو دو تین دفعہ صاف کیا ہے؟"
"تو یہ میلی کیوں ہے؟"
نوکر نے اس کا جواب دینا شاید مناسب نہ سمجھا۔
"اور تیل لايا؟"
"ہاں حضور لایا ہوں"۔
"دیا"؟
"حضور وہ تیل دینے کے چھید ہوتے ہیں وہ نہیں ملتے"۔
"کیا وجہ ہے؟"
"حضور دُھروں پر میل اور زنگ جما ہے۔ وہ سوراخ کہیں بیچ ہی میں دب دبا گئے ہیں"۔

رفتہ رفتہ میں اس چیز کے قریب آیا۔ جس کو میرا نوکر بائیسکل بتا رہا تھا۔ اس کے مختلف پرزوں پر غور کیا تو اتنا تو ثابت ہوگیا کہ یہ بائیسکل ہے لیکن مجموعی ہیئت سے یہ صاف ظاہر تھا کہ بل اور رہٹ اور چرخہ اور اس طرح کی ایجادات سے پہلے کی بنی ہوئی ہے۔ پہیے کو گھما گھما کر وہ سوراخ تلاش کیا جہاں کسی زمانے میں تیل دیا جاتا تھا۔ لیکن اب اس سوراخ میں سے آمدورفت کا سلسلہ بند تھا۔ چنانچہ نوکر بولا۔ "حضور وہ تیل تو سب ادھر اُدھربہہ جاتا ہے۔ بیچ میں تو جاتا ہی نہیں۔"
میں نے کہا۔ "اچھا اوپر اوپر ہی ڈال دو یہ بھی مفید ہوتا ہے"۔

آخرکار بائیسکل پر سوار ہوا۔ پہلا ہی پاؤں چلایا تو ایسا معلوم ہوا جیسے کوئی مردہ اپنی ہڈیاں چٹخا چٹخا کر اپنی مرضی کے خلاف زندہ ہو رہا ہے۔ گھر سے نکلتے ہی کچھ تھوڑی سی اترائی تھی اس پر بائیسکل خودبخود چلنے لگی لیکن اس رفتار سے جیسے تارکول زمین پر بہتا ہے اور ساتھ ہی مختلف حصوں سے طرح طرح کی آوازیں برآمد ہونی شروع ہوئی۔ ان آوازوں کے مختلف گروہ تھے۔ چیں۔ چاں۔ چوں کی قسم آوازیں زیادہ تر گدی کے نیچے اور پچھلے پہیے سے نکلتی تھیں۔ کھٹ، کھڑکھڑ۔کھڑڑ کے قبیل کی آوازیں مڈگارڈوں سے آتی تھی۔ چر۔ چرخ۔ چر۔چرخ کی قسم کے سُر زنجیر اور پیڈل سے نکلتے تھے۔ زنجیر ڈھیلی ڈھیلی تھی۔ میں جب کبھی پیڈل پر زور ڈالتا تھا، زنجیر میں ایک انگڑائی سی پیدا ہوتی تھی جس سے وہ تن جاتی تھی اور چڑچڑ بولنے لگتی تھی اور پھر ڈھیلی ہوجاتی تھی۔ پچھلا پہیہ گھونے کے علاوہ جھومتا بھی تھا۔ یعنی ایک تو آگے کو چلتا تھا اور اس کے علاوہ دہنے سے بائیں اور بائیں سے دہنے کو بھی حرکت کرتا تھا۔ چنانچہ سڑک پر جو نشان پڑ جاتا تھا اس کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی مخمور سانپ لہرا کر نکل گیا ہے۔ مڈگارڈ تھے تو سہی لیکن پہیوں کے عین اوپر نہ تھے۔ ان کا فائدہ صرف یہ معلوم ہوتا تھا کہ انسان شمال کی سمت سیر کرنے کو نکلے اور آفتاب مغرب میں غروب ہورہا ہو تو مڈگارڈوں کی بدولت ٹائر دھوپ سے بچے رہیں گے۔

اگلے پہیے کے ٹائر میں ایک بڑا سا پیوند لگا تھا جس کی وجہ سے پہیہ ہر چکر میں ایک دفعہ لمحہ بھر کو زور سے اوپر اُٹھ جاتا تھا اور میرا سر پیچھے کو یوں جھٹکے کھا رہا تھا جیسے کوئی متواتر تھوڑی کے نیچے مکے مارے جا رہا ہو۔ پچھلے اور اگلے پہیے کو ملا کر چوں چوں پھٹ۔ چوں چوں پھٹ۔۔۔ کی صدا نکل رہی تھی۔ جب اتار پر بائیسکل ذراتیز ہوئی توفضاء میں ایک بھونچال سا آگیا۔ اور بائیسکل کے کئی اور پرزے جو اب تک سو رہےتھے۔ بیدار ہو کر گویا ہوئے۔ ادھر اُدھرکے لوگ چونکے۔ ماؤں نے اپنے بچوں کو اپنے سینوں سے لگا لیا۔ کھڑڑکھڑڑ کےبیچ میں پہیوں کی آواز جدا سنائی رہی تھی لیکن چونکہ بائیسکل اب پہلے سے تیز تھی اس ليے چوں چوں پھٹ، چوں چوں پھٹ کی آواز نے اب چچوں پھٹ، چچوں پھٹ، کی صورت اختیار کرلی تھی۔ تمام بائیسکل کسی ادق افریقی زبان کی گردانیں دہرا رہی تھی۔

اس قدر تیز رفتاری بائیسکل کی طبع نازک پر گراں گزری۔ چنانچہ اس میں یک لخت دو تبدیلیاں واقع ہوگئیں۔ ایک تو ہینڈل ایک طرف کو مڑ گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں جاتو سامنے کو رہا تھا لیکن میرا تمام جسم دائیں طرف کو مڑا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ بائیسکل کی گدی دفعتہً چھ انچ کے قریب نیچے بیٹھ گئی۔ چنانچہ جب پیڈل چلانے کے ليے میں ٹانگیں اوپر نیچے کر رہا تھا تو میرے گھٹنے میری تھوڑی تک پہنچ جاتے تھے۔ کمردہری ہو کر باہر کو نکلی ہوئی تھی اور ساتھ ہی اگلے پہیے کی اٹھیکیلوں کی وجہ سے سر برابر جھٹکے کھا رہا تھا۔

گدی کا نیچا ہوجانا ازحد تکلیف دہ ثابت ہوا۔ اس ليے میں نے مناسب یہی سمجھا کہ اس کو ٹھیک کرلوں۔ چنانچہ میں نے بائیسکل کو ٹھہرا لیا اور نیچے اترا۔ بائیسکل کے ٹھہر جانے سے یک لخت جیسے دنیا میں ایک خاموشی سی چھا گئی۔ ایسا معلوم ہوا جیسے میں کسی ریل کے اسٹیشن سے نکل کر باہر آگیا ہوں۔ جیب سے میں نے اوزار نکالا، گدی کو اونچا کیا، کچھ ہینڈل کو ٹھیک کیا اور دوبارہ سوار ہوگیا۔

دس قدم بھی چلنے نہ پایا تھا کہ اب کے ہینڈل یک لخت نیچا ہوگیا۔ اتنا کہ گدی اب ہینڈل سے کوئی فٹ بھر اونچی تھی۔ میرا تمام جسم آگے کو جھکا ہوا تھا، تمام بوجھ دونوں ہاتھوں پر تھا جو ہینڈل پر رکھے تھے اور برابر جھٹکے کھا رہے تھے۔ آپ میری حالت کو تصور کریں تو آپ معلوم ہوگا کہ میں دور سے ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے کوئی عورت آٹا گوندھ رہی ہو۔ مجھے اس مشابہت کا احساس بہت تیز تھا جس کی وجہ سے میرے ماتھے پر پسینہ آگیا۔ میں دائیں بائیں لوگوں کو کنکھیوں سے دیکھتا جاتا تھا۔ یوں تو ہر شخص میل بھر پہلے ہی سے مڑ مڑ کر دیکھنے لگتا تھا لیکن ان میں کوئی بھی ایسا نہ تھا جس کے لیے میری مصیبت ضیافت طبع کا باعث نہ ہو۔

ہینڈل تو نیچا ہو ہی گیا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد گدی بھی پھر نیچی ہوگئی اور میں ہمہ تن زمین کے قریب پہنچ گیا۔ ایک لڑکے نے کہا۔ "دیکھو یہ آدمی کیا کر رہا ہے"۔ گویا اس بدتمیز کے نزدیک میں کوئی کرتب دکھا رہا تھا۔ میں نے اتر کر پھر ہینڈل اور گدی کو اونچا کیا۔

لیکن تھوڑی دیر کے بعد ان میں سے ایک نہ ایک پھر نیچا ہوجاتا۔ وہ لمحے جن کے دوران میں میرا ہاتھ اور میرا جسم دونوں ہی بلندی پر واقع ہوں بہت ہی کم تھے اور ان میں بھی میں یہی سوچتا رہتا تھا کہ اب کہ گدی پہلے بیٹھے گی یا ہینڈل؟ چنانچہ نڈر ہو کر نہ بیٹھتا بلکہ جسم کو گدی سے قدرے اوپر ہی رکھتا لیکن اس سے ہینڈل پر اتنا بوجھ پڑ جاتا کہ وہ نیچا ہوجاتا۔

جب دو میل گزر گئے اور بائیسکل کی اٹھک بیٹھک نے ایک مقرر باقاعدگی اختیار کرلی تو فیصلہ کیا کہ کسی مستری سے پیچ کسوا لینے چاہئیں چنانچہ بائیسکل کو ایک دکان پر لے گیا۔ بائیسکل کی کھڑکھڑ سے دوکان میں جتنے لوگ کام کر رہے تھے، سب کے سب سر اٹھا کر میری طرف دیکھنے لگے لیکن میں نے جی کڑا کرکے کہا۔
"ذرا اس کی مرمت کردیجئے"۔
ایک مستری آگے بڑھا لوہے کی ایک سلاخ اس کے ہاتھ میں تھی جس سے اس نے مختلف حصوں کو بڑی بےدردی سے ٹھوک بجا کر دیکھا۔ معلوم ہوتا تھا اس نے بڑی تیزی کے ساتھ سب حالات کا اندازہ لگا لیا ہے لیکن پھر بھی مجھ سے پوچھنے لگا۔
"کس کس پرزے کی مرمت کرائیے گا"؟

میں نے کہا۔ "بڑے گستاخ ہو تم دیکھتے نہیں کہ صرف ہینڈل اور گدی کو ذرا اونچا کروا کے کسوانا ہے بس اور کیا؟ ان کو مہربانی کرکے فوراً ٹھیک کرو اور بتاؤ کتنے پیسے ہوئے؟"
مستری نے کہا۔ "مڈگارڈ بھی ٹھیک نہ کردوں؟"
میں نے کہا۔ "ہاں، وہ بھی ٹھیک کردو"۔
کہنے لگا۔ " اگر آپ باقی چیزیں بھی ٹھیک کرالیں تو اچھا ہو"۔
میں نے کہا۔ "اچھا کردو"۔
بولا۔ "یوں تھوڑا ہوسکتا ہے۔ دس پندرہ دن کا کام ہے آپ اسے ہمارے پاس چھوڑ جائیے۔"
"اور پیسے کتنے لو گے؟"
کہنے لگا۔ "بس چالیس روپے لگیں گے"۔
ہم نے کہا۔ "بس جی جو کام تم سے کہا ہے کردو اور باقی ہمارے معاملات میں دخل مت دو۔"
تھوڑی دیر بعد ہینڈل اور گدی پھر اونچی کرکے کس دی گئی۔ میں چلنے لگا تو مستری نے کہا میں نے کس تو دیا ہے لیکن پیچ سب گھسے ہوئے ہیں، ابھی تھوڑی دیر میں پھر ڈھیلے ہو جائیں گے۔"
میں نے کہا۔ "بدتمیز کہیں کا،تو دو آنے پیسے مفت میں لے ليے؟"
بولا۔ "جناب آپ کو بائیسکل بھی مفت میں ملی ہوگی، یہ آپ کے دوست مرزا صاحب کی ہے نا؟ للّو یہ وہی بائیسکل ہے جو پچھلے سال مرزا صاحب یہاں بیچنے کو لائے تھے۔ پہچانی تم نے؟ بھئی صدیاں ہی گزر گئیں لیکن اس بائیسکل کی خطاء معاف ہونے میں نہیں آتی۔"
میں نے کہا۔ "واہ مرزا صاحب کے لڑکے اس پر کالج آیا جایا کرتے تھے اور ان کو ابھی کالج چھوڑے دو سال بھی نہیں ہوئے۔"
مستری نے کہا۔ "ہاں وہ تو ٹھیک ہے لیکن مرزا صاحب خود جب کالج میں پڑھتے تھے تو ان کے پاس بھی تو یہی بائیسکل تھی۔"

میری طبیعت یہ سن کر کچھ مردہ سی ہوگئی۔ میں نے بائیسکل کو ساتھ ليے آہستہ آہستہ پیدل چل پڑا۔ لیکن پیدل چلنا بھی مشکل تھا۔ اس بائیسکل کے چلانے میں ایسے ایسے پٹھوں پر زور پڑتا تھا جو عام بائیسکلوں کو چلانے میں استعمال نہیں ہوتے۔ اس ليے ٹانگوں اور کندھوں اور کمر اور بازوؤں میں جابجا درد ہورہا تھا۔ مرزا کا خیال رہ رہ کر آتا تھا۔ لیکن میں ہر بار کوشش کرکے اسے دل سے ہٹا دیتا تھا، ورنہ میں پاگل ہوجاتا اور جنون کی حالت میں پہلے حرکت مجھ سے یہ سرزد ہوئی کہ مرزا کے مکان کے سامنے بازار میں ایک جلسہ منعقدکرتا جس میں مرزا کی مکاری، بےایمانی اور دغابازی پر ایک طویل تقریر کرتا۔ کل بنی نوع انسان اور آئندہ آنے والی نسلوں کی ناپاک فطرت سے آگاہ کردیتا اور اس کے بعد ایک چتا جلا کر اس میں زندہ جل کر مرجاتا۔


میں نے بہتر یہی سمجھا کہ جس طرح ہوسکے اب اس بائیسکل کو اونے پونے داموں میں بیچ کر جو وصول ہوااسی پر صبر شکر کروں۔ بلا سے دس پندرہ روپیہ کا خسارہ سہی۔ چالیس کے چالیس روپے تو ضائع نہ ہوں گے۔ راستے میں بائیسکلوں کی ایک اور دکان آئی وہاں ٹھہر گیا۔
دکاندار بڑھ کر میرے پاس آیا لیکن میری زبان کو جیسے قفل لگ گیا تھا۔ عمر بھر کسی چیز کے بیچنے کی نوبت نہ آئی تھی مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ ایسے موقع پر کیا کہتے ہیں آخر بڑے سوچ بچار اور بڑے تامل کے بعد منہ سے صرف اتنا نکلا کہ یہ "بائیسکل" ہے۔
دکاندار کہنے لگا۔ "پھر؟"
میں نے کہا۔ "لو گے"۔
کہنے لگا۔ "کیا مطلب؟"
میں نے کہا۔ "بیچتے ہیں ہم۔"
دکاندار نے مجھے ایسے نظر سے دیکھا کہ مجھے یہ محسوس ہوا مجھ پر چوری کا شبہ کر رہا ہے۔ پھر بائیسکل کو دیکھا۔ پھر مجھے دیکھا، پھر بائیسکل کو دیکھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ فیصلہ نہیں کرسکتا آدمی کون سا ہے اور بائیسکل کون سی ہے؟ آخرکار بولا۔ "کیا کریں گے آپ اس کو بیچ کر؟"
ایسے سوالوں کا خدا جانے کیا جواب ہوتا ہے۔ میں نے کہا۔ "کیا تم یہ پوچھنا چاہتے ہو کہ جو روپے مجھے وصول ہوں گے ان کا مصرف کیا ہوگا؟"
کہنے لگا۔ "وہ تو ٹھیک ہے مگر کوئی اس کو لے کر کرے گا کیا؟"
میں نے کہا۔ "اس پر چڑھے گا اور کیا کرے گا۔"
کہنے لگا۔ "اچھا چڑھ گیا۔ پھر؟"
میں نے کہا۔ "پھر کیا؟ پھر چلائے گا اور کیا؟"
دکاندار بولا۔ "اچھا؟ ہوں۔ خدا بخش ذرا یہاں آنا۔ یہ بائیسکل بکنے آئی ہے۔"

جن حضرت کا اسم گرامی خدا بخش تھا انہوں نے بائیسکل کو دور ہی سے یوں دیکھا جیسے بو سونگھ رہے ہوں۔ اس کے بعد دونوں نے آپس میں مشورہ کیا، آخر میں وہ جن کا نام خدا بخش نہیں تھا میرے پاس آئے اور کہنے لگے۔ "تو آپ سچ مچ بیچ رہے ہیں؟"
میں نے کہا۔ "تو اور کیا محض آپ سے ہم کلام ہونے کا فخر حاصل کرنے کے ليے میں گھر سے یہ بہانہ گھڑ کر لایا تھا؟"
کہنے لگا۔ "تو کیا لیں گے آپ؟"
میں نے کہا۔ "تم ہی بتاؤ۔"
کہنے لگا۔ "سچ مچ بتاؤں؟"
میں نے کہا۔ "اب بتاؤ گے بھی یا یوں ہی ترساتے رہو گے؟"
کہنے لگا۔ "تین روپے دوں گااس کے۔"
میرا خون کھول اٹھا اور میرے ہاتھ پاؤں اور ہونٹ غصے کے مارے کانپنے لگے۔ میں نے کہا۔
"او صنعت وحرفت سے پیٹ پالنے والے نچلے طبقے کے انسان، مجھے اپنی توہین کی پروا نہیں لیکن تونے اپنی بیہودہ گفتاری سے اس بےزبان چیز کو جو صدمہ پہنچایا ہے اس کے ليے میں تجھے قیامت تک معاف نہیں کرسکتا۔"
یہ کہہ کر میں بائیسکل پر سوار ہوگیا اور اندھا دھند پاؤں چلانے لگا۔
مشکل سے بیس قدم گیا ہوں گاکہ مجھے ایسا معلوم ہوا کہ جیسے زمین یک لخت اچھل کر مجھ سے آلگی ہے۔ آسمان میرے سر پر سے ہٹ کر میری ٹانگوں کے بیچ میں سے گزر گیا اور ادھر اُدھر کی عمارتوں نے ایک دوسرے کے ساتھ اپنی اپنی جگہ بدل لی ہے۔ حواس بجا ہوئے تو معلوم ہوا میں زمین پر اس بےتکلفی سے بیٹھا ہوں، گویا بڑی مدت سے مجھے اس بات کا شوق تھا جو آج پورا ہوا۔ اردگرد کچھ لوگ جمع تھے جس میں سے اکثر ہنس رہے تھے۔ سامنے دکان تھی جہاں ابھی ابھی میں نے اپنی ناکام گفت وشنید کا سلسلہ منقطع کیا تھا۔ میں نے اپنے گردوپیش پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ میری بائیسکل کا اگلہ پہیہ بالکل ہو کر لڑھکتا ہوا سڑک کے اس پار جاپہنچا ہے اور باقی سائیکل میرے پاس پڑی ہے۔ میں نے فوراً اپنے آپ کو سنبھالا جو پہیہ الگ ہوگیا تھا اس کو ایک ہاتھ میں اٹھایا دوسرے ہاتھ میں باقی ماندہ بائیسکل کو تھاما اور چل کھڑا ہوا۔ یہ محض ایک اضطراری حرکت تھی ورنہ حاشادکلا وہ بائیسکل مجھے ہرگز اتنی عزیز نہ تھی کہ میں اس کو اس حالت میں ساتھ ساتھ لیے پھرتا۔
جب میں یہ سب کچھ اٹھا کر چل دیا تو میں نے اپنے آپ سے پوچھا کہ یہ تم کیا کر رہے ہو، کہاں جارہے ہو؟ تمہارارادہ کیا ہے۔ یہ دو پہیے کاہے کو لے جارہے ہو؟

سب سوالوں کا جواب یہی ملا کہ دیکھا جائے گا۔ فی الحال تم یہاں سے چل دو۔ سب لوگ تمہیں دیکھ رہے ہیں۔ سر اونچا رکھو اور چلتے جاؤ۔ جو ہنس رہے ہیں، انہیں ہنسنے دو، اس قسم کے بیہودہ لوگ ہر قوم اور ہر ملک میں پائے جاتے ہیں۔ آخر ہوا کیا۔ محض ایک حادثہ۔ بس دائیں بائیں مت دیکھو۔ چلتے جاؤ۔

لوگوں کے ناشائستہ کلمات بھی سنائی دے رہے تھے۔ ایک آواز آئی۔ "بس حضرت غصہ تھوک ڈالیئے۔" ایک دوسرے صاحب بولے۔ "بےحیا بائیسکل گھر پہنچ کے تجھے مزا چکھاؤں گا۔" ایک والد اپنے لخت جگر کی انگلی پکڑے جارہے تھے۔ میری طرف اشارا کرکے کہنے لگے۔ "دیکھا بیٹا یہ سرکس کی بائیسکل ہے۔ اس کے دونوں پہیے الگ الگ ہوتے ہیں۔"

لیکن میں چلتا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد میں آبادی سے دور نکل گیا۔ اب میری رفتار میں ایک عزیمت پائی جاتی تھی۔ میرا دل جو کئی گھنٹوں سے کشمکش میں پیچ وتاب کھا رہا تھا اب بہت ہلکا ہوگیا تھا۔ میں چلتا گیا چلتا گیا حتیٰ کہ دریا پر جاپہنچا۔ پل کے اوپر کھڑے ہوکر میں نے دونوں پہیوں کو ایک ایک کرکے اس بےپروائی کے ساتھ دریا میں پھینک دیا جیسے کوئی لیٹر بکس میں خط ڈالتا ہے۔ اور واپس شہر کو روانہ ہوگیا۔

سب سے پہلے مرزا کے گھر گیا۔ دروازا کھٹکھٹایا۔ مرزا بولے۔ "اندر آجاؤ"۔
میں نے کہا۔ آپ ذرا باہر تشریف لائیے۔ میں آپ جیسے خدا رسیدہ بزرگ کے گھر وضو کيے بغیر کیسے داخل ہوسکتا ہوں۔"
باہر تشریف لائے تو میں نے وہ اوزار ان کی خدمت میں پیش کیا جو انہوں نے بائیسکل کے ساتھ مفت ہی مجھ کو عنایت فرمایا تھا اور کہا:
"مرزا صاحب آپ ہی اس اوزار سے شوق فرمایا کیجیے میں اب سے بےنیاز ہوچکا ہوں۔"
گھر پہنچ کر میں نے پھر علم کیمیا کی اس کتاب کا مطالعہ شروع کیا جو میں نے ایف۔اے میں پڑھی تھی۔

جمعرات، 24 اپریل، 2014

مرحوم کی یاد میں

مرحوم کی یاد میں

پطرس بخاری
رات کو خواب میں دعائیں مانگتا رہا کہ خدایا مرزا بائیسکل دینے پر رضامند ہوجائے۔ صبح اٹھا تو اٹھنے کے ساتھ ہی نوکر نے یہ خوشخبری سنائی کے حضور وہ بائیسکل آگئی ہے۔
میں نے کہا۔ "اتنے سویرے؟"
نوکر نے کہا۔ "وہ تو رات ہی کو آگئی تھی، آپ سو گئے تھے میں نے جگانا مناسب نہ سمجھا اور ساتھ ہی مرزا صاحب کا آدمی یہ ڈھبریاں کسنے کا ایک اوزار بھی دے گیا ہے"۔
میں حیران تو ہوا کہ مرزا صاحب نے بائیسکل بھجوادینے میں اس قدر عجلت سے کیوں کام لیا لیکن اس نتیجے پر پہنچا کہ آدمی نہایت شریف اور دیانت دار ہیں۔ روپےلے ليے تھے تو بائیسکل کیوں روک رکھتے۔
نوکر سے کہا۔ "دیکھو یہ اوزار یہیں چھوڑ جاؤ اور دیکھو بائیسکل کو کسی کپڑے سے خوب اچھی طرح جھاڑو۔ اور یہ موڑ پر جو بائیسکلوں والا بیٹھتا ہے اس سے جا کر بائیسکل میں ڈالنے کا تیل لے آؤ اور دیکھو، اے بھاگا کہاں جارہا ہے ہم ضروری بات تم سے کہہ رہے ہیں، بائیسکل والے سے تیل کی ایک کپی بھی لے آنا ا ور جہاں جہاں تیل دینے کی جگہ ہے وہاں تیل دے دینا اور بائیسکلوں والے سے کہنا کہ کوئی گھٹیا سا تیل نہ دیدے۔ جس سے تمام پرزے ہی خراب ہوجائیں، بائیسکل کے پرزے بڑے نازک ہوتے ہیں اور بائیسکل باہر نکال رکھو، ہم ابھی کپڑے پہن کر آتے ہیں۔ ہم ذرا سیر کو جارہےہیں اور دیکھو صاف کردینا اور بہت زور زور سے کپڑا بھی مت رگڑنا، بائیسکل کا پالش گھس جاتا ہے"۔
جلدی جلدی چائے پی، غسل خانے میں بڑے جوش خروش کے ساتھ "چل چل چنبیلی باغ میں" گاتا رہا اس کے بعد کپڑے بدلے، اوزار کو جیب میں ڈالا اور کمرے سے باہر نکلا۔
برآمدے میں آیا تو برآمدے کے ساتھ ہی ایک عجیب وغریب مشین پر نظر پڑی۔ ٹھیک طرح پہچان نہ سکا کہ کیا چیز ہے، نوکر سے دریافت کیا۔ "کیوں بے یہ کیا چیز ہے؟"
نوکر بولا۔ "حضور یہ بائیسکل ہے"۔
میں نے کہا۔ "بائیسکل؟ کس کی بائیسکل؟"
کہنے لگا۔ "مرزا صاحب نے بھجوائی ہے آپ کے ليے"۔
میں نے کہا۔ "اور جو بائیسکل رات کو انہوں نے بھیجی تھی وہ کہاں گئی؟"
کہنے لگا۔ "یہی تو ہے"؀۔
میں نے کہا۔ "کیا بکتا ہے جو بائیسکل مرزا صاحب نے کل رات کو بھیجی تھی وہ بائیسکل یہی ہے؟"
کہنے لگا۔ "جی ہاں"۔
میں نے کہا۔ "اچھا" اور پھر اسے دیکھنے لگا۔ اس کو صاف کیوں نہیں کیا؟"
"اس کو دو تین دفعہ صاف کیا ہے؟"
"تو یہ میلی کیوں ہے؟"
نوکر نے اس کا جواب دینا شاید مناسب نہ سمجھا۔
"اور تیل لايا؟"
"ہاں حضور لایا ہوں"۔
"دیا"؟
"حضور وہ تیل دینے کے چھید ہوتے ہیں وہ نہیں ملتے"۔
"کیا وجہ ہے؟"
"حضور دُھروں پر میل اور زنگ جما ہے۔ وہ سوراخ کہیں بیچ ہی میں دب دبا گئے ہیں"۔

رفتہ رفتہ میں اس چیز کے قریب آیا۔ جس کو میرا نوکر بائیسکل بتا رہا تھا۔ اس کے مختلف پرزوں پر غور کیا تو اتنا تو ثابت ہوگیا کہ یہ بائیسکل ہے لیکن مجموعی ہیئت سے یہ صاف ظاہر تھا کہ بل اور رہٹ اور چرخہ اور اس طرح کی ایجادات سے پہلے کی بنی ہوئی ہے۔ پہیے کو گھما گھما کر وہ سوراخ تلاش کیا جہاں کسی زمانے میں تیل دیا جاتا تھا۔ لیکن اب اس سوراخ میں سے آمدورفت کا سلسلہ بند تھا۔ چنانچہ نوکر بولا۔ "حضور وہ تیل تو سب ادھر اُدھربہہ جاتا ہے۔ بیچ میں تو جاتا ہی نہیں۔"
میں نے کہا۔ "اچھا اوپر اوپر ہی ڈال دو یہ بھی مفید ہوتا ہے"۔

آخرکار بائیسکل پر سوار ہوا۔ پہلا ہی پاؤں چلایا تو ایسا معلوم ہوا جیسے کوئی مردہ اپنی ہڈیاں چٹخا چٹخا کر اپنی مرضی کے خلاف زندہ ہو رہا ہے۔ گھر سے نکلتے ہی کچھ تھوڑی سی اترائی تھی اس پر بائیسکل خودبخود چلنے لگی لیکن اس رفتار سے جیسے تارکول زمین پر بہتا ہے اور ساتھ ہی مختلف حصوں سے طرح طرح کی آوازیں برآمد ہونی شروع ہوئی۔ ان آوازوں کے مختلف گروہ تھے۔ چیں۔ چاں۔ چوں کی قسم آوازیں زیادہ تر گدی کے نیچے اور پچھلے پہیے سے نکلتی تھیں۔ کھٹ، کھڑکھڑ۔کھڑڑ کے قبیل کی آوازیں مڈگارڈوں سے آتی تھی۔ چر۔ چرخ۔ چر۔چرخ کی قسم کے سُر زنجیر اور پیڈل سے نکلتے تھے۔ زنجیر ڈھیلی ڈھیلی تھی۔ میں جب کبھی پیڈل پر زور ڈالتا تھا، زنجیر میں ایک انگڑائی سی پیدا ہوتی تھی جس سے وہ تن جاتی تھی اور چڑچڑ بولنے لگتی تھی اور پھر ڈھیلی ہوجاتی تھی۔ پچھلا پہیہ گھونے کے علاوہ جھومتا بھی تھا۔ یعنی ایک تو آگے کو چلتا تھا اور اس کے علاوہ دہنے سے بائیں اور بائیں سے دہنے کو بھی حرکت کرتا تھا۔ چنانچہ سڑک پر جو نشان پڑ جاتا تھا اس کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی مخمور سانپ لہرا کر نکل گیا ہے۔ مڈگارڈ تھے تو سہی لیکن پہیوں کے عین اوپر نہ تھے۔ ان کا فائدہ صرف یہ معلوم ہوتا تھا کہ انسان شمال کی سمت سیر کرنے کو نکلے اور آفتاب مغرب میں غروب ہورہا ہو تو مڈگارڈوں کی بدولت ٹائر دھوپ سے بچے رہیں گے۔

اگلے پہیے کے ٹائر میں ایک بڑا سا پیوند لگا تھا جس کی وجہ سے پہیہ ہر چکر میں ایک دفعہ لمحہ بھر کو زور سے اوپر اُٹھ جاتا تھا اور میرا سر پیچھے کو یوں جھٹکے کھا رہا تھا جیسے کوئی متواتر تھوڑی کے نیچے مکے مارے جا رہا ہو۔ پچھلے اور اگلے پہیے کو ملا کر چوں چوں پھٹ۔ چوں چوں پھٹ۔۔۔ کی صدا نکل رہی تھی۔ جب اتار پر بائیسکل ذراتیز ہوئی توفضاء میں ایک بھونچال سا آگیا۔ اور بائیسکل کے کئی اور پرزے جو اب تک سو رہےتھے۔ بیدار ہو کر گویا ہوئے۔ ادھر اُدھرکے لوگ چونکے۔ ماؤں نے اپنے بچوں کو اپنے سینوں سے لگا لیا۔ کھڑڑکھڑڑ کےبیچ میں پہیوں کی آواز جدا سنائی رہی تھی لیکن چونکہ بائیسکل اب پہلے سے تیز تھی اس ليے چوں چوں پھٹ، چوں چوں پھٹ کی آواز نے اب چچوں پھٹ، چچوں پھٹ، کی صورت اختیار کرلی تھی۔ تمام بائیسکل کسی ادق افریقی زبان کی گردانیں دہرا رہی تھی۔

اس قدر تیز رفتاری بائیسکل کی طبع نازک پر گراں گزری۔ چنانچہ اس میں یک لخت دو تبدیلیاں واقع ہوگئیں۔ ایک تو ہینڈل ایک طرف کو مڑ گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں جاتو سامنے کو رہا تھا لیکن میرا تمام جسم دائیں طرف کو مڑا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ بائیسکل کی گدی دفعتہً چھ انچ کے قریب نیچے بیٹھ گئی۔ چنانچہ جب پیڈل چلانے کے ليے میں ٹانگیں اوپر نیچے کر رہا تھا تو میرے گھٹنے میری تھوڑی تک پہنچ جاتے تھے۔ کمردہری ہو کر باہر کو نکلی ہوئی تھی اور ساتھ ہی اگلے پہیے کی اٹھیکیلوں کی وجہ سے سر برابر جھٹکے کھا رہا تھا۔

گدی کا نیچا ہوجانا ازحد تکلیف دہ ثابت ہوا۔ اس ليے میں نے مناسب یہی سمجھا کہ اس کو ٹھیک کرلوں۔ چنانچہ میں نے بائیسکل کو ٹھہرا لیا اور نیچے اترا۔ بائیسکل کے ٹھہر جانے سے یک لخت جیسے دنیا میں ایک خاموشی سی چھا گئی۔ ایسا معلوم ہوا جیسے میں کسی ریل کے اسٹیشن سے نکل کر باہر آگیا ہوں۔ جیب سے میں نے اوزار نکالا، گدی کو اونچا کیا، کچھ ہینڈل کو ٹھیک کیا اور دوبارہ سوار ہوگیا۔

دس قدم بھی چلنے نہ پایا تھا کہ اب کے ہینڈل یک لخت نیچا ہوگیا۔ اتنا کہ گدی اب ہینڈل سے کوئی فٹ بھر اونچی تھی۔ میرا تمام جسم آگے کو جھکا ہوا تھا، تمام بوجھ دونوں ہاتھوں پر تھا جو ہینڈل پر رکھے تھے اور برابر جھٹکے کھا رہے تھے۔ آپ میری حالت کو تصور کریں تو آپ معلوم ہوگا کہ میں دور سے ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے کوئی عورت آٹا گوندھ رہی ہو۔ مجھے اس مشابہت کا احساس بہت تیز تھا جس کی وجہ سے میرے ماتھے پر پسینہ آگیا۔ میں دائیں بائیں لوگوں کو کنکھیوں سے دیکھتا جاتا تھا۔ یوں تو ہر شخص میل بھر پہلے ہی سے مڑ مڑ کر دیکھنے لگتا تھا لیکن ان میں کوئی بھی ایسا نہ تھا جس کے لیے میری مصیبت ضیافت طبع کا باعث نہ ہو۔

ہینڈل تو نیچا ہو ہی گیا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد گدی بھی پھر نیچی ہوگئی اور میں ہمہ تن زمین کے قریب پہنچ گیا۔ ایک لڑکے نے کہا۔ "دیکھو یہ آدمی کیا کر رہا ہے"۔ گویا اس بدتمیز کے نزدیک میں کوئی کرتب دکھا رہا تھا۔ میں نے اتر کر پھر ہینڈل اور گدی کو اونچا کیا۔

لیکن تھوڑی دیر کے بعد ان میں سے ایک نہ ایک پھر نیچا ہوجاتا۔ وہ لمحے جن کے دوران میں میرا ہاتھ اور میرا جسم دونوں ہی بلندی پر واقع ہوں بہت ہی کم تھے اور ان میں بھی میں یہی سوچتا رہتا تھا کہ اب کہ گدی پہلے بیٹھے گی یا ہینڈل؟ چنانچہ نڈر ہو کر نہ بیٹھتا بلکہ جسم کو گدی سے قدرے اوپر ہی رکھتا لیکن اس سے ہینڈل پر اتنا بوجھ پڑ جاتا کہ وہ نیچا ہوجاتا۔

جب دو میل گزر گئے اور بائیسکل کی اٹھک بیٹھک نے ایک مقرر باقاعدگی اختیار کرلی تو فیصلہ کیا کہ کسی مستری سے پیچ کسوا لینے چاہئیں چنانچہ بائیسکل کو ایک دکان پر لے گیا۔ بائیسکل کی کھڑکھڑ سے دوکان میں جتنے لوگ کام کر رہے تھے، سب کے سب سر اٹھا کر میری طرف دیکھنے لگے لیکن میں نے جی کڑا کرکے کہا۔
"ذرا اس کی مرمت کردیجئے"۔
ایک مستری آگے بڑھا لوہے کی ایک سلاخ اس کے ہاتھ میں تھی جس سے اس نے مختلف حصوں کو بڑی بےدردی سے ٹھوک بجا کر دیکھا۔ معلوم ہوتا تھا اس نے بڑی تیزی کے ساتھ سب حالات کا اندازہ لگا لیا ہے لیکن پھر بھی مجھ سے پوچھنے لگا۔
"کس کس پرزے کی مرمت کرائیے گا"؟

میں نے کہا۔ "بڑے گستاخ ہو تم دیکھتے نہیں کہ صرف ہینڈل اور گدی کو ذرا اونچا کروا کے کسوانا ہے بس اور کیا؟ ان کو مہربانی کرکے فوراً ٹھیک کرو اور بتاؤ کتنے پیسے ہوئے؟"
مستری نے کہا۔ "مڈگارڈ بھی ٹھیک نہ کردوں؟"
میں نے کہا۔ "ہاں، وہ بھی ٹھیک کردو"۔
کہنے لگا۔ " اگر آپ باقی چیزیں بھی ٹھیک کرالیں تو اچھا ہو"۔
میں نے کہا۔ "اچھا کردو"۔
بولا۔ "یوں تھوڑا ہوسکتا ہے۔ دس پندرہ دن کا کام ہے آپ اسے ہمارے پاس چھوڑ جائیے۔"
"اور پیسے کتنے لو گے؟"
کہنے لگا۔ "بس چالیس روپے لگیں گے"۔
ہم نے کہا۔ "بس جی جو کام تم سے کہا ہے کردو اور باقی ہمارے معاملات میں دخل مت دو۔"
تھوڑی دیر بعد ہینڈل اور گدی پھر اونچی کرکے کس دی گئی۔ میں چلنے لگا تو مستری نے کہا میں نے کس تو دیا ہے لیکن پیچ سب گھسے ہوئے ہیں، ابھی تھوڑی دیر میں پھر ڈھیلے ہو جائیں گے۔"
میں نے کہا۔ "بدتمیز کہیں کا،تو دو آنے پیسے مفت میں لے ليے؟"
بولا۔ "جناب آپ کو بائیسکل بھی مفت میں ملی ہوگی، یہ آپ کے دوست مرزا صاحب کی ہے نا؟ للّو یہ وہی بائیسکل ہے جو پچھلے سال مرزا صاحب یہاں بیچنے کو لائے تھے۔ پہچانی تم نے؟ بھئی صدیاں ہی گزر گئیں لیکن اس بائیسکل کی خطاء معاف ہونے میں نہیں آتی۔"
میں نے کہا۔ "واہ مرزا صاحب کے لڑکے اس پر کالج آیا جایا کرتے تھے اور ان کو ابھی کالج چھوڑے دو سال بھی نہیں ہوئے۔"
مستری نے کہا۔ "ہاں وہ تو ٹھیک ہے لیکن مرزا صاحب خود جب کالج میں پڑھتے تھے تو ان کے پاس بھی تو یہی بائیسکل تھی۔"

میری طبیعت یہ سن کر کچھ مردہ سی ہوگئی۔ میں نے بائیسکل کو ساتھ ليے آہستہ آہستہ پیدل چل پڑا۔ لیکن پیدل چلنا بھی مشکل تھا۔ اس بائیسکل کے چلانے میں ایسے ایسے پٹھوں پر زور پڑتا تھا جو عام بائیسکلوں کو چلانے میں استعمال نہیں ہوتے۔ اس ليے ٹانگوں اور کندھوں اور کمر اور بازوؤں میں جابجا درد ہورہا تھا۔ مرزا کا خیال رہ رہ کر آتا تھا۔ لیکن میں ہر بار کوشش کرکے اسے دل سے ہٹا دیتا تھا، ورنہ میں پاگل ہوجاتا اور جنون کی حالت میں پہلے حرکت مجھ سے یہ سرزد ہوئی کہ مرزا کے مکان کے سامنے بازار میں ایک جلسہ منعقدکرتا جس میں مرزا کی مکاری، بےایمانی اور دغابازی پر ایک طویل تقریر کرتا۔ کل بنی نوع انسان اور آئندہ آنے والی نسلوں کی ناپاک فطرت سے آگاہ کردیتا اور اس کے بعد ایک چتا جلا کر اس میں زندہ جل کر مرجاتا۔


میں نے بہتر یہی سمجھا کہ جس طرح ہوسکے اب اس بائیسکل کو اونے پونے داموں میں بیچ کر جو وصول ہوااسی پر صبر شکر کروں۔ بلا سے دس پندرہ روپیہ کا خسارہ سہی۔ چالیس کے چالیس روپے تو ضائع نہ ہوں گے۔ راستے میں بائیسکلوں کی ایک اور دکان آئی وہاں ٹھہر گیا۔
دکاندار بڑھ کر میرے پاس آیا لیکن میری زبان کو جیسے قفل لگ گیا تھا۔ عمر بھر کسی چیز کے بیچنے کی نوبت نہ آئی تھی مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ ایسے موقع پر کیا کہتے ہیں آخر بڑے سوچ بچار اور بڑے تامل کے بعد منہ سے صرف اتنا نکلا کہ یہ "بائیسکل" ہے۔
دکاندار کہنے لگا۔ "پھر؟"
میں نے کہا۔ "لو گے"۔
کہنے لگا۔ "کیا مطلب؟"
میں نے کہا۔ "بیچتے ہیں ہم۔"
دکاندار نے مجھے ایسے نظر سے دیکھا کہ مجھے یہ محسوس ہوا مجھ پر چوری کا شبہ کر رہا ہے۔ پھر بائیسکل کو دیکھا۔ پھر مجھے دیکھا، پھر بائیسکل کو دیکھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ فیصلہ نہیں کرسکتا آدمی کون سا ہے اور بائیسکل کون سی ہے؟ آخرکار بولا۔ "کیا کریں گے آپ اس کو بیچ کر؟"
ایسے سوالوں کا خدا جانے کیا جواب ہوتا ہے۔ میں نے کہا۔ "کیا تم یہ پوچھنا چاہتے ہو کہ جو روپے مجھے وصول ہوں گے ان کا مصرف کیا ہوگا؟"
کہنے لگا۔ "وہ تو ٹھیک ہے مگر کوئی اس کو لے کر کرے گا کیا؟"
میں نے کہا۔ "اس پر چڑھے گا اور کیا کرے گا۔"
کہنے لگا۔ "اچھا چڑھ گیا۔ پھر؟"
میں نے کہا۔ "پھر کیا؟ پھر چلائے گا اور کیا؟"
دکاندار بولا۔ "اچھا؟ ہوں۔ خدا بخش ذرا یہاں آنا۔ یہ بائیسکل بکنے آئی ہے۔"

جن حضرت کا اسم گرامی خدا بخش تھا انہوں نے بائیسکل کو دور ہی سے یوں دیکھا جیسے بو سونگھ رہے ہوں۔ اس کے بعد دونوں نے آپس میں مشورہ کیا، آخر میں وہ جن کا نام خدا بخش نہیں تھا میرے پاس آئے اور کہنے لگے۔ "تو آپ سچ مچ بیچ رہے ہیں؟"
میں نے کہا۔ "تو اور کیا محض آپ سے ہم کلام ہونے کا فخر حاصل کرنے کے ليے میں گھر سے یہ بہانہ گھڑ کر لایا تھا؟"
کہنے لگا۔ "تو کیا لیں گے آپ؟"
میں نے کہا۔ "تم ہی بتاؤ۔"
کہنے لگا۔ "سچ مچ بتاؤں؟"
میں نے کہا۔ "اب بتاؤ گے بھی یا یوں ہی ترساتے رہو گے؟"
کہنے لگا۔ "تین روپے دوں گااس کے۔"
میرا خون کھول اٹھا اور میرے ہاتھ پاؤں اور ہونٹ غصے کے مارے کانپنے لگے۔ میں نے کہا۔
"او صنعت وحرفت سے پیٹ پالنے والے نچلے طبقے کے انسان، مجھے اپنی توہین کی پروا نہیں لیکن تونے اپنی بیہودہ گفتاری سے اس بےزبان چیز کو جو صدمہ پہنچایا ہے اس کے ليے میں تجھے قیامت تک معاف نہیں کرسکتا۔"

یہ کہہ کر میں بائیسکل پر سوار ہوگیا اور اندھا دھند پاؤں چلانے لگا۔
مشکل سے بیس قدم گیا ہوں گاکہ مجھے ایسا معلوم ہوا کہ جیسے زمین یک لخت اچھل کر مجھ سے آلگی ہے۔ آسمان میرے سر پر سے ہٹ کر میری ٹانگوں کے بیچ میں سے گزر گیا اور ادھر اُدھر کی عمارتوں نے ایک دوسرے کے ساتھ اپنی اپنی جگہ بدل لی ہے۔ حواس بجا ہوئے تو معلوم ہوا میں زمین پر اس بےتکلفی سے بیٹھا ہوں، گویا بڑی مدت سے مجھے اس بات کا شوق تھا جو آج پورا ہوا۔ اردگرد کچھ لوگ جمع تھے جس میں سے اکثر ہنس رہے تھے۔ سامنے دکان تھی جہاں ابھی ابھی میں نے اپنی ناکام گفت وشنید کا سلسلہ منقطع کیا تھا۔ میں نے اپنے گردوپیش پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ میری بائیسکل کا اگلہ پہیہ بالکل ہو کر لڑھکتا ہوا سڑک کے اس پار جاپہنچا ہے اور باقی سائیکل میرے پاس پڑی ہے۔ میں نے فوراً اپنے آپ کو سنبھالا جو پہیہ الگ ہوگیا تھا اس کو ایک ہاتھ میں اٹھایا دوسرے ہاتھ میں باقی ماندہ بائیسکل کو تھاما اور چل کھڑا ہوا۔ یہ محض ایک اضطراری حرکت تھی ورنہ حاشادکلا وہ بائیسکل مجھے ہرگز اتنی عزیز نہ تھی کہ میں اس کو اس حالت میں ساتھ ساتھ لیے پھرتا۔
جب میں یہ سب کچھ اٹھا کر چل دیا تو میں نے اپنے آپ سے پوچھا کہ یہ تم کیا کر رہے ہو، کہاں جارہے ہو؟ تمہارارادہ کیا ہے۔ یہ دو پہیے کاہے کو لے جارہے ہو؟

سب سوالوں کا جواب یہی ملا کہ دیکھا جائے گا۔ فی الحال تم یہاں سے چل دو۔ سب لوگ تمہیں دیکھ رہے ہیں۔ سر اونچا رکھو اور چلتے جاؤ۔ جو ہنس رہے ہیں، انہیں ہنسنے دو، اس قسم کے بیہودہ لوگ ہر قوم اور ہر ملک میں پائے جاتے ہیں۔ آخر ہوا کیا۔ محض ایک حادثہ۔ بس دائیں بائیں مت دیکھو۔ چلتے جاؤ۔

لوگوں کے ناشائستہ کلمات بھی سنائی دے رہے تھے۔ ایک آواز آئی۔ "بس حضرت غصہ تھوک ڈالیئے۔" ایک دوسرے صاحب بولے۔ "بےحیا بائیسکل گھر پہنچ کے تجھے مزا چکھاؤں گا۔" ایک والد اپنے لخت جگر کی انگلی پکڑے جارہے تھے۔ میری طرف اشارا کرکے کہنے لگے۔ "دیکھا بیٹا یہ سرکس کی بائیسکل ہے۔ اس کے دونوں پہیے الگ الگ ہوتے ہیں۔"

لیکن میں چلتا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد میں آبادی سے دور نکل گیا۔ اب میری رفتار میں ایک عزیمت پائی جاتی تھی۔ میرا دل جو کئی گھنٹوں سے کشمکش میں پیچ وتاب کھا رہا تھا اب بہت ہلکا ہوگیا تھا۔ میں چلتا گیا چلتا گیا حتیٰ کہ دریا پر جاپہنچا۔ پل کے اوپر کھڑے ہوکر میں نے دونوں پہیوں کو ایک ایک کرکے اس بےپروائی کے ساتھ دریا میں پھینک دیا جیسے کوئی لیٹر بکس میں خط ڈالتا ہے۔ اور واپس شہر کو روانہ ہوگیا۔

سب سے پہلے مرزا کے گھر گیا۔ دروازا کھٹکھٹایا۔ مرزا بولے۔ "اندر آجاؤ"۔
میں نے کہا۔ آپ ذرا باہر تشریف لائیے۔ میں آپ جیسے خدا رسیدہ بزرگ کے گھر وضو کيے بغیر کیسے داخل ہوسکتا ہوں۔"
باہر تشریف لائے تو میں نے وہ اوزار ان کی خدمت میں پیش کیا جو انہوں نے بائیسکل کے ساتھ مفت ہی مجھ کو عنایت فرمایا تھا اور کہا:
"مرزا صاحب آپ ہی اس اوزار سے شوق فرمایا کیجیے میں اب سے بےنیاز ہوچکا ہوں۔"
گھر پہنچ کر میں نے پھر علم کیمیا کی اس کتاب کا مطالعہ شروع کیا جو میں نے ایف۔اے میں پڑھی تھی۔

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔