Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 22 نومبر، 2014

جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے

  ہجر کی شب نالۂ دل وہ صدا دینے لگے
سننے والے رات کٹنے کی دعا دینے لگے
کس نظر سے آپ نے دیکھا دلِ مجروح کو
زخم جو کچھ بھر چلے تھے پھر ہوا دینے لگے
جُز زمینِ کوئے جاناں کچھ نہیں پیشِ نگاہ
جس کا دروازہ نظر آیا صدا دینے لگے
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے

مٹھیوں میں خاک لے کر دوست آئے وقتِ دفن
زندگی بھر کی محبت کا صلہ دینے لگے
آئینہ ہوجائے میرا عشق ان کے حسن کا
کیا مزا ہو درد اگر خود ہی دوا دینے لگے
(ثاقب لکھنوی)


٭٭٭٭٭٭

جمعرات، 20 نومبر، 2014

گلاس آدھا بھرا ہوا ہے !

وہ اداس تھا  ، کیوں کے سارا دن بوریت میں گذرا ، برآمدے میں صبح سے بیٹھا ، وہ آتی جاتی گاڑیوں، پیدل چلنے والے لوگوں ، شور مچاتے بچوں  اور بازار جاتی اور واپس آتی عمر رسیدہ خواتین کو  روزمرہ کی طرح  دیکھتا  رہا ۔ یہ نئے سال کا پہلا دن تھا – وہ اٹھا اور کمرے میں آیا  اور اپنے مطالعے کے کمرےمیں رائٹنگ ٹیبل پر بیٹھ گیا ۔  کیا کیا جائے  ؟ اُس نے سوچا اور بے دھیانی میں اُس نے   قلم اٹھایا اور ایک کاغذ پر لکھا ۔

٭
- گزشتہ سال میں، میرا آپریشن ہوا اور پتا نکال دیا گیا، بڑھاپے میں ہونے والے اس آپریشن کی وجہ سے مجھے کئی ہفتے تک بستر کا ہو کر رہنا پڑا۔

٭
- گزشتہ سال ، میری عمر ساٹھ سال ہوئی اور مجھے اپنی پسندیدہ اور اہم ترین ملازمت سے سبکدوش ہونا پرا۔ میں نے نشرو اشاعت کے اس ادارے میں اپنی زندگی کے تیس قیمتی سال گزارے تھے۔

٭
- گزشتہ سال ہی،  مجھے اپنے والد صاحب کی وفات کا صدمہ اٹھانا پڑا۔

٭
- گزشتہ سال ہی، میرا بیٹا اپنے میڈیکل کے امتحان میں فیل ہو گیا، وجہ اس کی کار کا حادثہ تھا جس میں زخمی ہو کر اُسے کئی ماہ تک پلستر کرا کر گھر میں رہنا پڑا، کار کا تباہ ہوجانا علیحدہ سے نقصان تھا۔

صفحے کے  نیچے اس نے لکھا؛
 آہ، کیا ہی برا سال تھا یہ !
- - - -  - - - - - -
مصنف کی بیوی کمرے میں داخل ہوئی تو دیکھا کہ، اُس کاشوہر غمزدہ چہرے کے ساتھ خاموش بیٹھا خلاؤں کو گُھور رہا تھا۔ اُس نے شوہرکی پشت کے پیچھے کھڑے کھڑے میز پر رکھے کاغذ کو پڑھا ۔ وہ واپس مڑی اور  خاموشی سے کمرے سے  باہر نکل گئی۔ کچھ دیر کے بعد واپس آئی ، اُس نے اپنے ہاتھ میں پکڑا ایک کاغذ خاموشی سے  شوہرکے لکھے کاغذ کے برابر میں رکھ دیا۔ شوہرنے کاغذ کو دیکھا تو اس پر لکھا تھا۔

٭- آخر کار مجھے اپنے پتے کے درد سے ، پچھلے سال نجات مل گئی جس سے میں سالوں کرب میں مبتلا رہا تھا۔
 
٭-  میں اپنی بہترین  صحت مند زندگی   ساتھ ،ساٹھ کا ہندسہ  سلامتی کے ساتھ عبو رکر چکا ہوں۔ کئی سالوں کی ان تھک محنت اور ریاضت کے بعد میں  ملازمت سے ریٹائرمنٹ ہوا ،اب میں  مکمل یکسوئی اور راحت کے ساتھ اپنے وقت کو بہتر لکھنے کیلئے استعمال کر سکوں گا۔گارڈننگ کروں گا اور صبح کے پرسکون ماحول میں ، باغ میں اپنی بیوی کے ساتھ ،چہل قدمی کروں گا ۔ 
 
٭-  میری ریٹائرمنٹ سے چندہ ماہ پہلے ، میرے والد پچاسی سال کی عمر میں  ، خدمتِ خلق کرتے ہوئے ، بغیر کسی پر بوجھ بنے اور کسی بڑی تکلیف اور درد کے  کے بغیر ،آرام کے ساتھ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ قبرستان میں لوگ اُن کی انسان دوست خدمت کے گُن گا رہے تھے اور مجھ سے توقع کر رہے تھے ، کہ میں  ریٹائرمنٹ کے بعد اُن کے نقش قدم پر چلوں۔
 
٭-  اسی سال ، اللہ تعالیٰ نے میرے بیٹے کو ایک نئی زندگی عطا فرما ئی  اور ایسے حادثے میں جس میں فولادی کار  بُری طرح تباہ ہو گئی ، لیکن میرا بیٹا  معجزانہ طور پر کسی  معذوری سے بچ کر زندہ و سلامت رہا ۔
 
یقیناً پچھلا سال ،  خدا نے رحمت بنا کر بھیجا اور  وہ باقی  سالوں کی طرح بخیرو خوبی گزرا۔

-       - - - - - - - --  -

وہی حواداث اور بالکل وہی احوال مگر نقطہء نظر  مختلف ،

سکھ اور دکھ ،  راحت او رغم ،  کی قدیں  ایک ہیں لیکن اُن کو محسوس کرنے کے انداز مختلف ۔  

مثبت زاویے سے دیکھیں تو ہمیں جو کچھ عطا ہوا وہ بہتر نظر آنا شروع ہو جائے گا۔

(ماخوذ)

منگل، 18 نومبر، 2014

لڑکا یا لڑکی کی پیدائش کا ذمہ دار کون ؟

مکمل  نہیں ہے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
لڑکا یا لڑکی کی پیدائش کاذمہ دار مرد ہوتا ہے۔
بچے کی جنس کا انحصارمرد کے سپرم پر ہوتاہے ،عورت کے بیضے پر نہیں۔ مرد کے ایک جرثومے کے اندر 23 کروموسومز  ہوتے ہیں۔
اسی طرح عورت کے ایک بیضے کے اندر بھی 23 کروموسومز ہوتے ہیں۔جب جرثومے اور بیضے کا ملاپ ہوتاہے تو یہ سب جرثومے جوڑوں کی شکل میں مل جاتے ہیں۔ اس طرح کل 23جوڑے بن جاتے ہیں’یعنی کل کروموسومز کی تعداد 46ہوتی ہے۔ان میں سے 22جوڑے غیر جنسی ہوتے ہیں اوران کو آٹوسوم(Autosome) کہا جاتا ہے۔ جبکہ 23 واں جوڑا جنسی جوڑا ہوتاہے۔ اور یہی جوڑا جنین کی جنس کا تعین کرتاہے کہ وہ لڑکا ہو گا یالڑکی۔
 مرد کے جرثومے کے اند ر دو اقسام کے کروموسومز تشکیل پاتے ہیں۔جن کو ایکسXیا وائیYکہا جاتاہے۔ مگر عورت کے بیضے کے اندر تمام کروموسومزXنوعیت کے ہوتے ہیں۔
 کروموسومزکو یہ نام اِن حروف سے مشابہت کی بنا پر دئیے گئے ہیں۔
 وائیYکروموسوم میں مذکر جینز ہوتے ہیں جبکہ ایکسXکروموسوم میں مونث جینز ہوتے ہیں۔
انسانی بچے کی تخلیق کی ابتدا ان کروموسومز کے آپس میں ملاپ سے شروع ہوتی ہے۔ جبکہ جنس کا تعین 23ویں جوڑے پر ہوتاہے۔
 اگر 23واں جوڑا XXہے تو جنم لینے والا بچہ لڑکی ہوگا اوراگر یہ جوڑاXYہے تو جنم لینے والا بچہ لڑکا ہو گا۔
دوسرے الفاظ میں اگر مرد کا 23واں کروموسوم Xہے تو جیسے یہ عورت کے 23ویں کروموسومXسے ملے گا تو پیدا ہونے والا بچہ لڑکی ہوگی۔
 اور اگر مرد کا یہ کروموسومYہے تو عورت کےXسے جب یہ ملاپ کرے گاتو پیدا ہونے والا بچہ لڑکاہوگا۔یہ تما م معلومات حال ہی میں جدید طبی تحقیق سے ہی حاصل ہوئی ہیں، اس سے پہلے کسی کو کچھ بھی معلوم نہ تھا۔ ( 1)
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتاہے:
  وَاَنَّہُ خَلَقَ الزَّوْجَیْنِ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی  مِنْ نُّطْفَةٍ اِذَا تُمْنٰی
اوریہ کہ اسی نے نر اورمادہ کا جوڑا پیداکیا ایک بوندسے جب وہ ٹپکائی جاتی ہے”( 2)
نطفہ انسان کے اعضاے تناسل سے نکلنے والے منی کے پانی کو کہتے ہیں اور تمنی کا مطلب ہے جب وہ ٹپکا ئی جاتی ہے۔ چنانچہ اس آیت سے اللہ تعالیٰ نے یہی بتا یا ہے کہ بچے کی جنس کاانحصار مرد کی منی پر ہے اور یہ جد ید سائنس نے ہمیں حال ہی میں بتایا ہے۔ سورة القیامہ میں اللہ تعالیٰ نے اسی مضمون کو اس طرح بیان کیا ہے:
  اَلَمْ یَکُ نُطْفَہً مِّنْ مَّنِیٍّ یُّمْنٰی ۔ ثُمَّ کَانَ عَلَقَہً فَخَلَقَ فَسَوّٰی۔ فَجَعَلَ مِنْہُ الزَّوْجَیْنِ
کیا وہ منی کی ایک بوند نہ تھا جو (رحم مادرمیں)ٹپکائی گئی تھی پھر وہ لوتھڑا ہو گیا پھراللہ نے اس کا جسم بنایااوراعضا درست کیے’ پھراس سے مرد اور عورت کی دو قسمیں بنا دیں ” (3)
اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ یہی ارشاد فرمارہا ہے کہ انسان کی منی کا تھوڑا سا حصہ یا مقدار یا قطرہ جو عورت کے رحم کے اندر ٹپکایا جاتاہے ،وہی بچے کی جنس کا ذمہ دار ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں بدقسمتی سے عورت کے ہا ں اگر لڑکی پید اہوجائے تو اس کے سسرال والے عورت کو ہی اس کا ذ مہ دار گردانتے ہیں اور اسے برا بھلا کہتے ہیں۔حالانکہ قرآن اور سائنس نے ہمیں بتا یا ہے کہ بچے کی جنس کا ذمہ دار مرد ہے عورت نہیں۔ جب کہ اولا د کے متعلق اسلامی تصوریہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ ہی کی مرضی ہے کہ وہ جسے چاہے لڑکے دے اورجسے چاہے لڑکیاں دے اور جسے چاہے کچھ نہ دے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ درج ذیل آیت میں اس بات کو اس طرح بیان فرماتاہے:
  لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط یَخْلُقُ مَایَشَآءُ ط یَھَبُ لِمَنْ یَّشَآئُ اِناَثًا وَّیَھَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ الذُّکُوْرَ ۔ اَوْیُزَوِّجُھُمْ ذُکْرَانًا وَّاِنَاثًاج وَیَجْعَلُ مَنْ یَّشَآءُ عَقِیْمًا ط اِنّہُ عَلِیْم قَدِیْر
آسمانوں اورزمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے۔وہ جوچاہے پیداکرتاہے جسے چاہے لڑکیاں عطاکرتاہے اور جسے چاہے لڑکے’ یا لڑکے اور لڑکیاں ملا کردیتا ہے اور جسے چاہے بانجھ بنا دیتاہے۔یقینا وہ سب کچھ جاننے والا قدرت والا ہے”( 4)
جبکہ سائنسی زبان میں یہ اللہ تعالیٰ ہی کی مرضی ہے کہ وہ مرد کی منی میں
xنوعیت والے جرثومے پیداکرتاہے یاyنوعیت والے۔ یا دونوں میں سے کوئی بھی پیدا نہ کرے کہ جس سے عورت کابیضہ بارور ہوسکے۔اوریہ انتظام اللہ تعالیٰ نے مرد کی منی کے اندر ہی رکھاہے، عورت کے انڈے یا بیضے کے اندرنہیں۔چنانچہ اس مسئلہ میں بھی اہل بصیرت پر عیاںہو گیا ہو گا کہ قرآن اورجدید سائنس میں کس قدر یگانگت پائی جاتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


تعریف اُس خدا کی ۔ تخلیقِ انسان  
 کُتبِ اساطیر

مُلا و پیرانِ وقت اور مریم بنت عمران !

 کیا مسیح عیسیٰ ابنِ مریم ایک کلون تھے ؟



اُس کا ملک اور میرا ملک !

اُس ملک کے ہر ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر میں، ایک بوائز اور ایک گرلز کالج ہے اور ہر تحصیل میں ایک ہائی سکول ہے۔اور ہر گاؤں میں ایک مڈل اور پرائمری سکول ہے۔پرائیویٹ سکولوں کی تعداد بے شمار ہے۔ لیکن ساٹھ سال گذرنے کے باوجود اُس ملک کا تعلیمی میعار صرف پندرہ فیصد ہے۔ جس میں سے پانچ فیصد اعلیٰ ذہن کے مالک، ڈالر کمانے بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔جہاں وہ ہمیشہ کے لئے بس کر اپنے خاندان والوں کے لئے ڈالر کمانے کی مشین بن جاتے ہیں۔

کیونکہ  جب وہ اپنی تعلیم کے پہلے یا دوسرے سال کے دوران اپنے ملک واپس آتے ہیں تو پیدائش کے بعد تقریباًبیس سال اس ملک میں گذارنے کے بعد انہیں احساس ہوتا ہے کہ یہ کتنا گندہ ملک ہے۔جہاں انہوں نے زندگی گذاری، یہاں کے لوگ کتنے غریب ہیں، یہاں کی گلیاں اور یہاں کی آب و ہوا کتنی گندی ہے اور یہاں کے جاہل لوگ، وہ ان میں زندگی نہیں گذار سکتا۔

لیکن اِس کے باوجود جب میں مڑ کر نظر ڈالتا ہوں، تو اِس ملک میں پیچھے رہ جانے والے، 90%فیصد لوگوں نے دیئے کی روشنی، گندے پانی، مضر صحت آب و ہوا میں رہ کر اس ملک کو ایٹمی طاقت بنا کر اقوام عالم میں ممتاز کیا ہے۔


اِس ملک کے لوگ، معاشی ابتری کا شکار نہیں، بلکہ اُن پر چاروں طرف، یہود فطرت افراد نے، جدت کی آڑ میں،قلمی طوائفوں اور میڈیاکے زنخوں نے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت حملہ کیا ہوا ہے۔جہاں سائینسی جدت نہیں وہاں معاشی بحران نہیں، وہاں صحت تندرستی ہے کیوں کہ وہاں، اب بھی بھینس وہی پاکیزہ دودھ دیتی ہے  اور وہاں کی زمین قدرتی کھاد پر وہی قوت اور ذائقے سے بھرپورسبزیاں اِگاتی ہے، وہاں کا پانی فرحت بخش ٹھنڈک مہیا کرتا ہے۔وہاں کی نسیم سحر، مسموم نہیں،وہاں کے رہنے والے حشرات الارض انسان دوست ہیں کیوں کہ وہاں کے مچھر اور مکھی  اسی ماحول میں پرورش پاتے ہیں جو خالق کائینات نے ان کے لئے تخلیق دیا۔نہ کہ خالق جدت نے ان کے لئے زہرمیں تبدیل کر دیا اور انسانوں نے انسانوں کو چشم زدن میں صفحہ ہستی سے مٹانے والے ایسے جرثوموں کی پرورش کی جنہوں نے ان معصوم حشرات الارض کو مہلک مخلوق میں تبدیل کر دیا۔

تاکہ مغرب کے کارخانے آباد رہیں،دوائیاں بنانے والے، اسلحہ پھیلانے والے اور خالص کے نام پر ناخالص اشئیائے خوردنی ملانے والے جن کے بنیادی اجزاء میں ”لحم الخنزیر“ شامل ہے۔ 

آئیے:خود کو کوسنے کے بجائے دوسروں کو کوسیں کہ وہ مجھے آسائشیں مہیا نہیں کرتا۔ 

اتوار، 16 نومبر، 2014

اگر اللہ تعالٰی رازق ہے تو انسان بھوکے کیوں مرتے ہیں؟

وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّـهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا ۚ كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ ﴿11:6﴾
اور زمین پر کوئی جاندار ایسا نہیں ہے کہ جس کے رزق کا ذمہ دار اللہ نہ ہو! وہ اس (رزق) کے ملنے کی جگہ اور طریقے کو جانتا ہے۔سب واضح کتاب میں موجود ہے -

 
وَكَأَيِّن مِّن دَابَّاةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا اللَّـهُ يَرْزُقُهَا وَإِيَّاكُمْ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴿29:6 ﴾
ا ور کتنے جاندار ایسے ہیں جو اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتے۔اللہ انہیں اور تمہیں رزق پہنچاتا ہے۔وہ سننے والا اور جاننے والا ہے-

 وَضَرَبَ اللَّـهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُّطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّن كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّـهِ فَأَذَاقَهَا اللَّـهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ ﴿16:112﴾
اور اللہ ایک بستی کی مثال دیتا ہے۔ جو امن  (کے باعث)  مطمئن تھی۔ اس کا رزق اُس کے اس پاس  روزانہ کُل مکان سے آتا  تھا۔پس انہوں نے اللہ کی نعمت کے ساتھ  کفر کیا۔پس  اللہ نے اُنہیں بھوک اور خوف  کے         لِبَاسَ کا ذائقہ  اُنہیں  دیا    اس کے سبب جس کے ساتھ وہ   صْنَعُ کرتے رہتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے تمام انسانی ہدایات، انسانوں کے لئے واضح لکھائیوں میں درج کر دی ہیں اور یہ واضح لکھائیاں کتاب اللہ میں موجود ہیں اور یہ کتاب اللہ، الکتاب کی صورت میں متقین کی ہدایت کے لئے موجود ہے۔ 


 ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ-﴿2:2﴾
یہ الکتاب جس میں کوئی شک نہیں متقین کے لئے ہدایت ہے۔
اس سے پہلے کہ ہم اپنی عقل استعمال کریں اور اس اللہ کی بشارت کو نہ سلجھنے والی گتھی میں تبدیل کر دیں تو کیوں نہ پہلے ہم الکتاب سے ہدایت لیں۔جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر بتایا ہے۔


وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِي هَـٰذَا الْقُرْآنِ مِن كُلِّ مَثَلٍ لَّعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ -
﴿39:27﴾
اورحقیقت میں ہم نے انسانوں کے لئے اس القران (خاص پڑھائی) میں ہر قسم کی مثالیں بیان کر دی ہے۔ تاکہ وہ اس کا ذکر کریں
قُرْآنًا عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ لَّعَلَّهُمْ يَتَّقُون - 
﴿39:28﴾
قران(پڑھائی)عربی میں شارٹ کٹ  کے بغیر ہے تاکہ وہ متقی ہو جائیں۔
اللہ تعالیٰ سے ہدایت لینے کی بنیادی شرط، کتاب اللہ کی عربی میں پڑھائی ہے۔

لہذا جب بھی ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی کسی آیت کا ترجمہ آئے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم کتاب اللہ سے اس آیت کی عربی لازمی دیکھیں۔
اس سے ہمیں الکتاب کا علم آئے گا، آیت کے ترجمے کی تصدیق ہونے کے بعد ہمارا تزکیّہ ہو گا۔
وہ اس طرح کہ ہمارے ذہنوں میں جو عجیب عجیب فلسفے موجود ہیں اللہ کی آیات کے سامنے ماند ہو کر ختم ہو جائیں گے۔اور اس طرح ہم متقین میں شامل ہونے کی طرف اپنے قدم اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق اٹھائیں گے۔
آیات کا ترجمہ انسانی کوشش ہے اُس سے اتفاق یا اختلاف ہو سکتا ہے لیکن الکتاب میں تا قیامت، مستحکم عربی لکھائیوں میں موجود آیات اللہ سے متقین کا اختلاف ممکن نہیں۔البتہ کفار اللہ تعالیٰ کی آیات سے جحد (اجتھاد نہیں بلکہ اجتحاد) کرتے ہیں۔

وَكَذَٰلِكَ أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ ۚ فَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۖ وَمِنْ هَـٰؤُلَاءِ مَن يُؤْمِنُ بِهِ ۚ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا الْكَافِرُون - 
﴿29:47﴾
اس طرح ہم نے تجھ پر الکتاب نازل کی۔پس وہ لوگ جنھیں الکتاب دی گئی وہ اس پرمؤمن ہیں۔اور ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو اس پر ایمان لاتے ہیں۔اور ہماری آیات سے کوئی جحد (اجتحاد) نہیں کرتا سوائے کافروں کے۔
واضح لکھائیوں میں موجود اللہ تعالیٰ کی ہدایات سے دیکھتے ہیں۔ کہ کرہ ارض پر موجود انسانوں کے بھوک سے مرنے کی وجہ کیا ہے؟


وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ أَنفِقُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّـهُ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنُطْعِمُ مَن لَّوْ يَشَاءُ اللَّـهُ أَطْعَمَهُ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ -
﴿36:47﴾
جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ اس رزق میں سے انفاق (ضرورت مندوں کو کھلاؤ)کرو۔تو کافر ایمان والوں سے کہتے ہیں۔کہ کیا ہم ان کو کھلائیں۔اگر اللہ چاہتا تو خود کھلا دیتا (ایمان والو) بے شک تم تو کھلے گمراہ ہو!
انفاقِ رزق کی نصیحت کے بارے میں کفار کا استدلال کتاب اللہ میں درج ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ ایمان والوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے کیا ہدایات دی ہیں۔ 


أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّـهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ -
﴿30:37﴾ 
کیا وہ نہیں دیکھتے رہتے  کہ صرف ،اللہ الررزق کو، جس (رزق) کے لئے اُس کی شاء ہوپھیلاتا ہے  اور    قدر کرتا رہتا ہے -بے شک اس (بسط و قدر ) میں ایمان والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔
 رزق میں تنگی اور کشائش ایمان والوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے اور یہ اُ ن کی آزمائش ہے۔ 
وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ - ﴿2:155﴾
بے شک ہم تمھیں خوف، بھوک،جانوں، اموال اور پھلوں کے نقصان سے ضرور آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو بشارت دے دو۔
لیکن وہ ایمان والے جنھیں اللہ تعالیٰ نے رزق میں کشائش دی ہے اور جو عقل رکھتے ہیں اُن کے لئے ۔


ضَرَبَ لَكُم مَّثَلًا مِّنْ أَنفُسِكُمْ ۖ هَل لَّكُم مِّن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن شُرَكَاءَ فِي مَا رَزَقْنَاكُمْ فَأَنتُمْ فِيهِ سَوَاءٌ تَخَافُونَهُمْ كَخِيفَتِكُمْ أَنفُسَكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ -
﴿30:28﴾ 
ا س (الکتاب) میں تمھیں سمجھانے کے لئے تم ہی میں سے مثال بیان کی ہے۔ کہ کیا تمھارے ماتحت اس رزق میں تمھارے برابر کے شریک ہیں جو ہم نے تم کو دیا ہے؟۔جس طرح وہ تم سے ڈرتے ہیں کیا اسی طرح تم برابری میں ان سے بھی ڈرتے ہو؟اس طرح ہم اپنی آیات عقل والوں کے لئے تفصیلاّ بیان کرتے ہیں ۔

 
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةٌ ۗ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ -

﴿2:154﴾
اے ایمان والو۔ خرچ کرو اس رزق میں سے جو ہم نے تم کو عطا کیا ہے۔اس دن کے آنے سے پہلے جس میں نہ تو کوئی خریدوفروخت اور کوئی سفارش کام آئے گی۔اور کافر تو ظالم ہیں-
ایمان والوں کے لئے انفاقِ رزق کی نعمت میں کوئی اجتحادی چھوٹ نہیں ہے۔لیکن اس کے باوجود شیطانی اٹھکیلیاں اس کی سوچوں کو فتنہ پروری کی آماجگاہ بنائیں گی اوروہ لازمی کہے گا کہ:مجھے جو کچھ ملا ہے اس کے لئے میں نے اتنا عرصہ علم حاصل کیا، محنت کی، اپنی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کو استعمال میں لایا۔یہ سب کچھ میرا ہے میں جس طرح چاہوں اسے استعمال کروں۔ان شیطانی چالوں سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اُس کے علم میں اضافہ کرنے کے لئے کہا
--- ثُمَّ إِذَا خَوَّلْنَاهُ نِعْمَةً مِّنَّا قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَىٰ عِلْمٍ ۚ بَلْ هِيَ فِتْنَةٌ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُون - 
﴿39:49﴾ 
۔۔۔۔ پھر جب ہم اسے اپنی نعمت میں سے عطا کرتے ہیں تو کہتا ہے کہ بے شک اسے اس کے علم کی بدولت ملا ہے۔ بلکہ یہ (سوچ) فتنہ ہے ان میں سے اکثر کو اس کا علم نہیں؟
انسانی رزق ، اللہ تعالیٰ معلوم مقدار میں نازل کرتاہے۔اب ہم اس مقدار کو ہر فصل کے مطابق لیں یا سالانہ لیں اس کی مقدار نسبتاً وہی رہے گی جو اللہ تعالیٰ نے اس عرصے کے خرچ کے لئے مقرر کی ہے۔
وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ وَمَن لَّسْتُمْ لَهُ بِرَازِقِينَ 
﴿15:20﴾  
  اور ہم نے تمھارے لئے اِس (زمین) میں معائش(کے ذرائع) بنائے ہیں اور اِن کے لئے بھی جن کے تم رازق نہیں ۔
وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا عِندَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ - ﴿15:20﴾ 
اور کوئی شئے ایسی نہیں کہ جس کے خزانے ہمارے پاس موجود نہ ہوں اور ہم اس کو ایک معلوم مقدار میں نازل کرتے ہیں ؟
مثال کے طور پر اگراس دنیا میں کل سو افراد بستے ہوں تو اللہ تعالیٰ نے ان سو افراد کا سالانہ رزق ایک معلوم مقدار میں نازل کر دیا ہے۔اور اِن سو افراد کے حصے بھی بنا دئے ہیں جو ان کے استعمال میں آئیں گے۔لیکن ان کا حصول سب کے لئے ممکن نہیں کیونکہ اصولِ تقسیم رزق و مال کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ان سو انسانوں میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ چنانچہ ہر آدمی اپنی اپنی فضیلت کے مطابق کسبِ رزق کرے گا۔


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
  وَاللَّـهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ ۚ فَمَا الَّذِينَ فُضِّلُوا بِرَادِّي رِزْقِهِمْ عَلَىٰ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَهُمْ فِيهِ سَوَاءٌ ۚ أَفَبِنِعْمَةِ اللَّـهِ يَجْحَدُونَ ﴿16:71﴾ 

" جحد اور جہد " دو االگ مادوں ، ج ح د اور ج ھ د سے بننے والے دو الفاظ ہیں۔
جحد سے مراد اللہ کے نظام کی مخالفت، مختلف متشابھات سے کرنا ہے۔
جھد سے مراد اللہ کے نظام کو سپورٹ اللہ کی آیات سے کرنا ہے ۔
اب اللہ کے نظام کی مخالفت کرنے والے بھی " اجتحاد" کریں گے!
اور اللہ کے نظام کو سپورٹ کرنے والے بھی " اجتھاد " کریں گے!
ایک کی منطق عوام الناس کو اپنے نفس کی طرف پلٹانے کی ہے اور

 دوسرے کی اللہ کی آیات کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کروانے کی ہے ۔
اللہ کی طرف رجوع کرنا اور وہ بھی اللہ کی آیات کے ساتھ انتہائی مشکل کام ہیں کیوں کہ ؟
محکمات، الکتاب میں اور متشابھات ، کائینات میں بکھری ہوئی ہیں ۔ متشابھات زبانِ خلق کا حصہ ہیں ، جنہیں نقارہءِ خدا کے اسم سے موسوم کر دیا جاتا ہے جبکہ اللہ نے رسول اللہ کو بتایا ہے کہ اگر زبانِ خلق پر عمل کیاجائے تو انسان اللہ کی راہ سے بھٹک جاتا ہے ۔
وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللّهِ إِن يَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلاَّ يَخْرُصُونَ 
﴿6:116﴾ 
اگر تو زمین پر زبانِ خلق کی اطاعت کرے گا تو وہ تجھے سبیل اللہ سے بھٹکا دیں گے ، وہ صرف ظن ( قیاس ) کی اتباع کرتے رہتے ہیں اور بے شک وہ صرف اندازے لگاتے رہتے ہیں ( جبکہ سبیل اللہ حقیقت ہے ) ۔
اللہ تعالیٰ کی دی گئی فضیلت کے مطابق، انسانی رزق کے حصول کی نعمت سے مستفید ہونے والوں پر اللہ تعالیٰ نے لازم کر دیا ہے کہ وہ اُن کو دیئے گئے رزق میں سے دیگر انسانوں میں تقسیم کریں۔یہ وہ انسان نہیں جو بذریعہ مال رزق خرید لیتے ہیں۔بلکہ وہ ہیں جن کی بذریعہ مال رزق خرید نے کی استطاعت نہیں۔اب سو افرادی دنیا میں ان کی تعداد کتنی ہو سکتی ہے؟ اس پر بحث کی جاسکتی ہے لیکن اس چیز پر بحث ممکن نہیں کہ اللہ تعالی نے اُن کا رزق نہیں اتارا۔
قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَهُ ۚ وَمَا أَنفَقْتُم مِّن شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ - 
﴿34:39﴾ 
کہہ! بے شک میرا رب اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہتا ہے رزق میں فراخی دیتا ہے اور اُس کے لئے پیمانہ ہے۔(اور وہ پیمانہ کیا ہے) اور کسی شئے میں سے جو بھی تم انفاق (رزق) کرتے ہواُس (اللہ)کے لئے اُس کابدلہ ہے۔اور
(دیگر)رزق دینے والوں میں سب سے بہترہے ؟
جس بستی کے رہنے والوں کو ہر جگہ سے فرا خی سے رزق پہنچتا ہے۔وہ اگر انفاقِ رزق کریں تو اللہ کے نزدیک اس کے بدل کا پیمانہ مقرر ہے۔
مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ۗ وَاللَّـهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّـهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ - 
﴿2:261﴾ 
جو لوگ اللہ کی راہ میں انفاق کرتے ہیں۔ اُن کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ایک بیج جس سے سات سو بالیاں نکلتی ہیں۔اور ہر بالی میں سو بیج ہوتے ہیں اور اللہ جس کے لئے چاہتا ہے (اس طرح) اضافہ کرتا ہے اور اللہ وسعت دینے والا علیم ہے - اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی ہر بات سے باخبر ہے اور رزق کی وسعت، مکمل اللہ کی مرضی کے مطابق ہے،
اللَّـهُ لَطِيفٌ بِعِبَادِهِ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ ۖ وَهُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ -
﴿42:19﴾
اللہ اپنے بندے کے ساتھ باریک بین ہے وہ اپنی مرضی سے رزق دیتا ہے۔ اور وہ قوی اور عزیز ہے کبھی انسان نے غور کیا ہے ؟ کائینات کے تمام جاندار وں کے رازق کی یہ باریک بینی کیا ہے ؟ اسبابِ رزق کے عوامل حصولِ رزق کی انسانی زراعت کے سلسلے میں چھ ہوتے ہیں۔بیج بونا۔مساقات کرنا۔بیج کا اگنا۔پودے کی حفاظت۔کھیتی/فصل پکنے پر اسے اتارنا۔بیج کی مقدارعلیحدہ کرکے باقی خوراک کے طور پر استعمال کرنا۔زمین میں بیج ڈالنے کے عمل کے بعد تمام اعمال اللہ تعالیٰ نے خود سے منسوب کرتے ہوئے انسان کو آگاہ کیا ہے۔
أَفَرَأَيْتُم مَّا تَحْرُثُونَ
﴿56:63﴾ أَأَنتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ - ﴿56:64﴾
کیا تم جو حرث کرتے(بوتے) ہو۔ اسے دیکھ سکتے ہو؟ ﴿-﴾کیا تم اِس کی زراعت کرتے ہو یا ہم اِس کے زراعت کرنے والے ہیں؟
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّـهَ يُزْجِي سَحَابًا ثُمَّ يُؤَلِّفُ بَيْنَهُ ثُمَّ يَجْعَلُهُ رُكَامًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلَالِهِ وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاءِ مِن جِبَالٍ فِيهَا مِن بَرَدٍ فَيُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ وَيَصْرِفُهُ عَن مَّن يَشَاءُ ۖ يَكَادُ سَنَا بَرْقِهِ يَذْهَبُ بِالْأَبْصَارِ -
﴿24:43﴾
کیا تم نے نہیں دیکھا؟ کہ اللہ ہی سحاب کو حرکت دیتا ہے۔ پھر ان کے درمیان (ان کو ثقیل کرنے کے لئے) ملاپ ڈالتا ہے۔ پھر انہیں (حرکت دیتے ہوئے) تہہ بہ تہہ کرتا ہے۔پھر ان کی دوستی سے الودق(لگاتار مینہ) کا اخراج ہوتا ہے۔ اور آسمان سے (بادلوں کے)پہاڑ وں میں سے برد(اولے) نازل ہوتے ہیں؟پس جس کو چاہتا ہے اِن سے اُن کو نقصان پہنچاتا ہے۔اور جس کو چاہتا ہے اِن سے اُن کوبچا لیتا ہے۔اس(سحاب) کی بجلی کی چمک سے بینائی تقریباً ضائع ہو جاتی ہے ۔
وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَأَسْكَنَّاهُ فِي الْأَرْضِ ۖ وَإِنَّا عَلَىٰ ذَهَابٍ بِهِ لَقَادِرُونَ - 
﴿23:18﴾
اور ہم ہی نے آسمان سے پانی ایک اندازے کے مطابق نازل کیا۔پھر اسے زمین پر سکونت دی۔اور ہم اس کے نابود کر دینے پر بھی قادر ہیں
قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَصْبَحَ مَاؤُكُمْ غَوْرًا فَمَن يَأْتِيكُم بِمَاءٍ مَّعِينٍ - 
﴿67:30﴾
کہہ دیکھو جو پانی تم پیتے ہو۔اگر گہرائی میں چلا جائے تو تمھارے لئے پانی کا چشمہ کو ن نکا لے گا
لَوْ نَشَاءُ جَعَلْنَاهُ أُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْكُرُونَ - 
﴿56:70﴾
اور اگر ہم چاہیں تو اسے کھاری بنا دیں۔ تم کس لئے شکر ادا نہیں کرتے؟
أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَسُوقُ الْمَاءَ إِلَى الْأَرْضِ الْجُرُزِ فَنُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا تَأْكُلُ مِنْهُ أَنْعَامُهُمْ وَأَنفُسُهُمْ ۖ أَفَلَا يُبْصِرُونَ -
﴿32:27﴾
کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم خالی زمین کی طرف مساقات (پانی دیا) کرتے ہیں؟۔ پھر ہم اس مساقات کے ساتھ زراعت نکالتے ہیں۔ تاکہ ان سے اس کے جانور اور وہ کھائیں۔ پس کیا انہیں بصیرت نہیں؟
وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ ۖ وَالَّذِي خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِدًا ۚ كَذَٰلِكَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَشْكُرُونَ -
﴿7:58﴾
اور عمدہ زمین اپنے رب کے حکم سے اپنی نبات اگاتی ہے اور جو ناقص ہے اس سے سوائے بے کار چیز کے کچھ نہیں اگتا۔ اسی طرح ہم اپنی آیات کی گردان شکر کرنے والوں کے لئے کرتے ہیں-
أَفَرَأَيْتُم مَّا تَحْرُثُونَ -
﴿56:63
ذرا دیکھو تم کیا حرث (بوتے) ہو؟
 أَأَنتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ
﴿56:64  
کیا تم اسے زراعت کرتے ہو یا ہم اس کے زارع ہیں؟
  لَوْ نَشَاءُ لَجَعَلْنَاهُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ   ﴿56:65
جس کے لئے تم فکاہت کرتے ہو ، اگر ہم چاہیں تو اسے پیس دیں
 إِنَّا لَمُغْرَمُونَ
﴿56:66
ہم برباد ہوگئے
 بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ
﴿56:67
بلکہ ہم محروم ہو گئے
وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَ جَنَّاتٍ مَّعْرُوشَاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشَاتٍ وَالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا أُكُلُهُ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ ۚ كُلُوا مِن ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ ۖ وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ -
﴿6:144
وہ ہے جس نے معروشات اور غیر معروشات جنتیں، نخل اور مختلف زراعت جنھیں تم کھاتے ہو انشاء کئے۔ زیتون اور رمّان اور اس کے مشابہ اور غیر مشابہ۔اِن (سب
أَنشَأَ) سے جب وہ پھل لائیں،کھائیں۔اور اُن کی کٹائی کے دن اُس(اللہ) کا حق اُس کو دے دو اور (خود زیادہ حصہ رکھنے کے لئے) اس میں اسراف مت کرو۔اللہ مسرفین سے محبّت نہیں کرتا۔
زراعت کی کٹائی کے دن اُس(اللہ) کا حق اُس کو دے دو۔

اللہ تعالیٰ اپنا حق مانگ رہا ہے۔
اگر اس سے انکار کیا تو کیا ہوگا؟


آزمائش اصحاب الجنت ، الضالین میں شامل ہونا اور عذاب !
إِنَّا بَلَوْنَاهُمْ كَمَا بَلَوْنَا أَصْحَابَ الْجَنَّةِ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِينَ 
﴿68:17
بے شک ہم نے اُن کی آزمائش کی جس طرح ہم نے اصحاب الجنت کی آزمائش کی۔جب وہ تقسیم ہوئے ، اُس(الجنت) میں سے اُس کے لئے مصر ہوگئے ، علیٰ الصبح۔
- وَلَا يَسْتَثْنُونَ -
﴿68:18
 اور نہیں اِس میں کوئی ثانی (برابر کے حصے والا) ۔( یا وہ اِس میں کوئی استثنا نہیں کریں گے )
فَتَنَادَوْا مُصْبِحِينَ -
﴿68:21
علیٰ الصبح ، انہوں نے نداء دی -
أَنِ اغْدُوا عَلَىٰ حَرْثِكُمْ إِن كُنتُمْ صَارِمِينَ -
﴿68:22
یہ کہ اگلے دن ، تمھاری حرث (پہنچو) اگر تم نے صارمین (صفائی کرنے والا ) ہونا ہے ۔
فَانطَلَقُوا وَهُمْ يَتَخَافَتُونَ -
﴿68:23
پس اُنہوں نے طلاق لی اور وہ خائف (بھی) تھے ۔(کہ اُن سے پہلے مساکین نہ پہنچے ہوں)
أَن لَّا يَدْخُلَنَّهَا الْيَوْمَ عَلَيْكُم مِّسْكِينٌ -
﴿68:24
یہ کہ آج کے دن یہاں کوئی مسکین اس میں تمھارے پاس داخل نہ ہو!
وَغَدَوْا عَلَىٰ حَرْدٍ قَادِرِينَ 
﴿68:25
 اور وہ صبح (الجنت کی کٹائی کے لئے ) پوری طرح قادر ہونےوالے تھے۔
فَلَمَّا رَأَوْهَا قَالُوا إِنَّا لَضَالُّونَ -
﴿68:26 
اور جب (صبح) اس (جنت) کو اجڑا ہوا دیکھا تو کہنے لگے شاید ہم راستہ بھول گئے
بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ - 
﴿68:27
بلکہ ہم محروم ہو گئے-
اُن کی محرومیت کا کیا سبب تھا ؟
فَطَافَ عَلَيْهَا طَائِفٌ مِّن رَّبِّكَ وَهُمْ نَائِمُونَ -
﴿68:19  
پس اُس(الجنت) پر تیرے ربّ کی طرف سے طواف کیا جب وہ حالتِ نوم میں تھے (الجنت پر عذاب کا )طواف کرنے والے نے
- فَأَصْبَحَتْ كَالصَّرِيمِ - 
﴿68:20
پس صبح ایسا (طوافِ عذاب )ہوا جیسے مکمل صفائی ۔
اصحاب الجنت کے ظلم اور سرکشی کے باعث اُن پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا۔ اللہ کے عذاب کے باعث اُن کی ہری بھری ،دن رات محنت کے بعد فائدہ دینے والی، الجنت تباہ ہوگئی ۔
ایسے میں اُن کا رویہ کیا ہونا چاھیئے تھا ؟
وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَ‌حْمَةً فَرِ‌حُوا بِهَا وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ إِذَا هُمْ يَقْنَطُونَ - 
﴿30:36
اور جب ہم الناس کو رحمت کا ذائقہ چکھاتے ہیں تو وہ فرحت محسوس کرتا ہے اور جب ہم اُسے کے ہاتھوں سے آگے بھیجی جانے والی برائیوں پر مصیبت دیتے ہیں تو وہ ، قنوطی ہو جاتا ہے ۔

تمام مصیبتیں انسانوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہوتی ہیں ۔ 
 وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ -  ﴿43:3
اور جب مصیبت میں سے ، پہنچنے والا حصّہ تمھارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے ، بہت سی تو معاف کردی جاتی ہیں ۔ 

مَّا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّـهِ وَمَا أَصَابَكَ مِن سَيِّئَةٍ فَمِن نَّفْسِكَ وَأَرْ‌سَلْنَاكَ لِلنَّاسِ رَ‌سُولًا وَكَفَىٰ بِاللَّـهِ شَهِيدًا - ﴿4:79
جو حصہ حسنہ میں تجھے پہنچتا ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو حصہ برائی میں سے تجھے پہنچتا ہے پس وہ تیرا نفس ہے اور ہم نے تجھے انسانوں کے لئے ارسال کیا  (بطور) ایک رسول ۔ اور کافی ہے اللہ کےساتھ شہیدہے -

اگر انسان کو یہ احساس ہوجائے ، کہ اللہ اپنے تخلیق کردہ کسی بھی انسان کے لئے مصیبت نازل نہیں کرتا ، مصیبتوں کو دعوت انسان خود دیتا ہے ۔
اللہ نے انسان کے لئے ہر بہترین شئے اور ہر کاموں کے بہترین نتائج رکھے ہیں ۔
جن لوگوں کو یہ آفاقی سچ یاد رہتا ہے اُن کے لئے تمام آزمائشی اُن کے فعل اور عمل کو مزید بہتر بناتی ہیں ، لیکن جنھیں یہ آفاقی سچ یاد نہیں رہتا یا قنوطیت میں وہ یاد نہیں کھنا چاہتے تو اللہ تعالیٰ کی آزمائش اُن پر عذاب بن جاتی ہے ۔
اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچنے کا طریقہ اور مزید گمراہی سے بچت کیسے کی جا سکتی ہے  ؟
اللہ کے عذاب کو اپنے حق میں اللہ کی تسبیح سے  تبدیل کرنا !
قَالَ أَوْسَطُهُمْ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ لَوْلَا تُسَبِّحُونَ -
﴿68:28
ان میں سے جو اوسط(اعتدال پسند) تھا بولا۔کیا میں نے تم کو یہ نہیں کہا کہ تم اللہ کی تسبیح کیوں نہیں کرتے؟
قَالُوا سُبْحَانَ رَ‌بِّنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ -
﴿68:29
وہ بولے اللہ کے لئے سبحان ہے بے شک ہم ہی ظالم ہیں-
فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ يَتَلَاوَمُونَ
﴿68:30
حالانکہ اِس (اعتدال پسند کے یاد دلانے سے ) سے قبل وہ ایک دوسرے ملامت کر رہے تھے ۔
قَالُوا يَا وَيْلَنَا إِنَّا كُنَّا طَاغِينَ -
﴿68:31
وہ بولے ہماری بدبختی بے شک ہم ہی سرکش ہیں
عَسَىٰ رَ‌بُّنَا أَن يُبْدِلَنَا خَيْرً‌ا مِّنْهَا إِنَّا إِلَىٰ رَ‌بِّنَا رَ‌اغِبُونَ -
﴿68:32
ممکن ہمارا رب ہمارے لئے اس کو بھلائی میں بدل دے ّبے شک ہم نے رب کی طرف راغب ہونے والوں میں ہے
كَذَٰلِكَ الْعَذَابُ ۖ وَلَعَذَابُ الْآخِرَ‌ةِ أَكْبَرُ‌ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ -
﴿68:33
(دنیا کا)عذاب اسی طرح ہوتا ہے۔اور آخرت کا عذاب تو (اس سے) اکبر ہے۔اگر انہیں اس کا علم ہو !

اصحاب الجنت ، پر اللہ کا غضب ہوا ، لیکن وہ مغضوب نہیں ہوئے اور نہ ہی الضالین  ۔
بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف دوبارہ راغب ہو گئے۔یہ سب سے اہم آیت ہے کیونکہ ہم  کو بھی  رسول اللہ نے اللہ کی تسبیح  کے لئے یہ آیات بتائی ہیں ۔
اهْدِنَا الصِّرَ‌اطَ الْمُسْتَقِيمَ -
﴿1:6
ہمیں صراط المستقیم کی طرف ہدایت کر
صِرَ‌اطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ۔ ۔ ۔
1-  
صراط اُن لوگوں کی ، جن پر تو نے انعام کیا 
  غَيْرِ‌ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ - ﴿1:7
2-  دوسرے وہ جن پر تیرا غضب ہوا اور وہ گمراہ نہیں ہوئے۔

انسانوں پر جب اُن کے ظلم اور سرکشی کی وجہ سے اللہ کا عذاب ہوتا ہے تو اکثر انسان منہ سے ایسے الفاظ نکالتے ہیں جو اُن کے صراط المستقیم سے بھٹکنے کی نشانی ہوتی ہے۔ عموما لوگ اِن الفاظ اور نالوں کو شرک قرار دیتے ہیں۔
مثلاً ، موت تو برحق ہے  آج نہیں تو کل لازمی آئے گی ۔او ر اللہ کے حکم سے ہی آئے گی ۔
كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ثُمَّ إِلَيْنَا تُرْجَعُونَ ﴿29:7
  کل   نفس  کو موت کا ذائقہ ہے ،  (لہذا)  پھر تم ہماری  رجوع کرو-کسی کی موت پر بین کرتے وقت اِس موت کو اللہ کی طرف سے زیادتی قرار دینا،
”فلک کا کیا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور“
لیکن ایمان والے اللہ کی طرف سے آنے والے عذاب کو منشاء ربّ اور اپنی غلطی سمجھ کر اللہ سے عملی توبہ طلب کرتے ہیں۔
اِس طرح، اللہ تعالی نے  اصحاب الجنت ، کی اس برائی کو ان کی توبہ پر بھلائی سے تبدیل کرتے ہوئے کہا
۔ إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ عِندَ رَ‌بِّهِمْ جَنَّاتِ النَّعِيمِ -
﴿68:34
بیشک متقین کے لئے ان کے رب کے پاس جنات النعیم ہیں۔
بیج انسان نے بویا ،  اسے اگایا اللہ تعالیٰ نے۔
پودے کی حفاظت انسان نے کی ،
اُس کی مساقات، افزائش،اس کا پکنا، اللہ تعالیٰ کا مرہون منت تھا۔
بیج سے کونپل پھوٹنے کے بعد سے پھل پکنے تک وہ کبھی بھی قدرتی آفات کے باعث پیسا جاسکتا تھا۔
کیا  بیج سے لے کر   فصل کا پکنا  اور انسان کا اسے کاٹنا  کیا  انسان کے لئے   غنیمت نہیں ؟
لہذا اب انسانی محنت اور اللہ تعالیٰ کی بیج کو پھل بنانے تک کی قوت،دونوں اہم عاملین کے درمیان حقوق کی تقسیم کا فارمولا طے کرنا ہے!
کیونکہ اللہ تعالیٰ اس زراعت کی کٹائی میں سے اپنا حق مانگ رہا ہے۔کہ:
  تم اپنی ایمان داری سے اسراف سے بچتے ہوئے اپنا حصہ نکال کر اللہ تعالیٰ کا حق اللہ کو دے دو۔
انسانی اصولِ شراکت داری کے مطابق یہ حصہ کتنا بننا چاہیے؟
نصف(پچاس فیصد)،خمس (بیس فیصد) یا عشر (دسواں فیصد)؟
اب اللہ تعالیٰ کے اس حق کی ادائیگی کس طرح ہو گی؟
فَآتِ ذَا الْقُرْ‌بَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ‌ لِّلَّذِينَ يُرِ‌يدُونَ وَجْهَ اللَّـهِ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ -
﴿30:38
پس اقرباء اور مساکین کو ان کا حق دے دو۔یہ ان لوگوں کے لئے خیر ہے جو اللہ کی خوشنودی چاہتے ہیں۔ اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں - 

کیا اب بھی منبرِ رسول پر بیٹھ کر درس دینے والوں کو شک ہے فلاح پانے والے کون ہیں ؟
جو اللہ کی طرف سے غنیمت ایمان والے کو مل رہا ہے ، اُس کے حصہ داران  کے متعلق  ، روح القدّس نے محمدﷺ کو اللہ کے اِن الفاظ میں بتایا ہے :
 


يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ ۖ قُلْ مَا أَنفَقْتُم مِّنْ خَيْرٍ‌ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَ‌بِينَ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ‌ فَإِنَّ اللَّـهَ بِهِ عَلِيمٌ - ﴿2:215
یہ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں؟کہہ تم خیر میں سے جوبھی خرچ کرو۔پس وہ والدین، اقرباء،یتامیٰ، مساکین اور ابن السبیل کے لئے ہو۔ اور جو بھی فعل تم خیر میں سے کرتے ہو اللہ اس کا علم رکھتا ہے -


حصہ داران  کے متعلق معلوم ہوجانے کے بعد بھی سوال کیا جاتا ہے ، واہ رے انسان ! 
۔ ۔ ۔  وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُ‌ونَ - ﴿2:219
۔ ۔ ۔ یہ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں؟کہہ” العفو “( خصوصی معافی)۔ اس طرح اللہ اپنی آیات تمھارے لئے واضح کرتا ہے تاکہ تم تفکر کرو !

 
اللہ کی واضح آیات کے مطابق اگر تقسیمِ رزق میں ہم نے اصحاب الجنت کی طرح اللہ کے احکام سے سرکشی کرتے ہوئے اور اپنے آپ پر ظلم کرتے ہوئے اپنی جنت اجاڑ دی ہے۔تو ہمیں چاہیئے کہ ہم اللہ کی طرف راغب ہوں اور اس کی تسبیح کریں۔دنیا کے عذاب کا رخ تو مڑ سکتا ہے۔لیکن آخرت کا عذاب اکبر ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِمَّا رَ‌زَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةٌ ۗ وَالْكَافِرُ‌ونَ هُمُ الظَّالِمُونَ -
﴿2:254
 اے ایمان والو۔ خرچ کرو اس رزق میں سے جو ہم نے تم کو عطا کیا ہے۔اس دن کے آنے سے پہلے جس میں نہ تو کوئی خریدوفروخت اور کوئی سفارش کام آئے گی۔اور کافر تو سب ظالم ہیں   -

٭٭٭٭٭٭٭ 

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔