وَاللَّـهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ ۚ فَمَا
الَّذِينَ فُضِّلُوا بِرَادِّي رِزْقِهِمْ عَلَىٰ مَا مَلَكَتْ
أَيْمَانُهُمْ فَهُمْ فِيهِ سَوَاءٌ ۚ أَفَبِنِعْمَةِ اللَّـهِ يَجْحَدُونَ
- ﴿16:71﴾
" جحد اور جہد " دو االگ مادوں ، ج ح د اور ج ھ د سے بننے والے دو الفاظ ہیں۔
جحد سے مراد اللہ کے نظام کی مخالفت، مختلف متشابھات سے کرنا ہے۔
جھد سے مراد اللہ کے نظام کو سپورٹ اللہ کی آیات سے کرنا ہے ۔
اب اللہ کے نظام کی مخالفت کرنے والے بھی " اجتحاد" کریں گے!
اور اللہ کے نظام کو سپورٹ کرنے والے بھی " اجتھاد " کریں گے!
ایک کی منطق عوام الناس کو اپنے نفس کی طرف پلٹانے کی ہے اور
دوسرے کی اللہ کی آیات کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کروانے کی ہے ۔
اللہ کی طرف رجوع کرنا اور وہ بھی اللہ کی آیات کے ساتھ انتہائی مشکل کام ہیں کیوں کہ ؟
محکمات، الکتاب میں اور متشابھات ، کائینات میں بکھری ہوئی ہیں ۔ متشابھات زبانِ خلق کا حصہ ہیں ، جنہیں نقارہءِ خدا کے اسم سے موسوم کر دیا جاتا ہے جبکہ اللہ نے رسول اللہ کو بتایا ہے کہ اگر زبانِ خلق پر عمل کیاجائے تو انسان اللہ کی راہ سے بھٹک جاتا ہے ۔
وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللّهِ إِن يَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلاَّ يَخْرُصُونَ ﴿6:116﴾
اگر تو زمین پر زبانِ خلق کی اطاعت کرے گا تو وہ تجھے سبیل اللہ سے بھٹکا دیں گے ، وہ صرف ظن ( قیاس ) کی اتباع کرتے رہتے ہیں اور بے شک وہ صرف اندازے لگاتے رہتے ہیں ( جبکہ سبیل اللہ حقیقت ہے ) ۔
اللہ تعالیٰ کی دی گئی فضیلت کے مطابق، انسانی رزق کے حصول کی نعمت سے مستفید ہونے والوں پر اللہ تعالیٰ نے لازم کر دیا ہے کہ وہ اُن کو دیئے گئے رزق میں سے دیگر انسانوں میں تقسیم کریں۔یہ وہ انسان نہیں جو بذریعہ مال رزق خرید لیتے ہیں۔بلکہ وہ ہیں جن کی بذریعہ مال رزق خرید نے کی استطاعت نہیں۔اب سو افرادی دنیا میں ان کی تعداد کتنی ہو سکتی ہے؟ اس پر بحث کی جاسکتی ہے لیکن اس چیز پر بحث ممکن نہیں کہ اللہ تعالی نے اُن کا رزق نہیں اتارا۔
قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَهُ ۚ وَمَا أَنفَقْتُم مِّن شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ - ﴿34:39﴾
کہہ! بے شک میرا رب اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہتا ہے رزق میں فراخی دیتا ہے اور اُس کے لئے پیمانہ ہے۔(اور وہ پیمانہ کیا ہے) اور کسی شئے میں سے جو بھی تم انفاق (رزق) کرتے ہواُس (اللہ)کے لئے اُس کابدلہ ہے۔اور (دیگر)رزق دینے والوں میں سب سے بہترہے ؟
جس بستی کے رہنے والوں کو ہر جگہ سے فرا خی سے رزق پہنچتا ہے۔وہ اگر انفاقِ رزق کریں تو اللہ کے نزدیک اس کے بدل کا پیمانہ مقرر ہے۔
مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ۗ وَاللَّـهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّـهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ - ﴿2:261﴾
جو لوگ اللہ کی راہ میں انفاق کرتے ہیں۔ اُن کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ایک بیج جس سے سات سو بالیاں نکلتی ہیں۔اور ہر بالی میں سو بیج ہوتے ہیں اور اللہ جس کے لئے چاہتا ہے (اس طرح) اضافہ کرتا ہے اور اللہ وسعت دینے والا علیم ہے - اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی ہر بات سے باخبر ہے اور رزق کی وسعت، مکمل اللہ کی مرضی کے مطابق ہے،
اللَّـهُ لَطِيفٌ بِعِبَادِهِ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ ۖ وَهُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ - ﴿42:19﴾
اللہ اپنے بندے کے ساتھ باریک بین ہے وہ اپنی مرضی سے رزق دیتا ہے۔ اور وہ قوی اور عزیز ہے کبھی انسان نے غور کیا ہے ؟ کائینات کے تمام جاندار وں کے رازق کی یہ باریک بینی کیا ہے ؟ اسبابِ رزق کے عوامل حصولِ رزق کی انسانی زراعت کے سلسلے میں چھ ہوتے ہیں۔بیج بونا۔مساقات کرنا۔بیج کا اگنا۔پودے کی حفاظت۔کھیتی/فصل پکنے پر اسے اتارنا۔بیج کی مقدارعلیحدہ کرکے باقی خوراک کے طور پر استعمال کرنا۔زمین میں بیج ڈالنے کے عمل کے بعد تمام اعمال اللہ تعالیٰ نے خود سے منسوب کرتے ہوئے انسان کو آگاہ کیا ہے۔
أَفَرَأَيْتُم مَّا تَحْرُثُونَ ﴿56:63﴾ أَأَنتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ - ﴿56:64﴾
کیا تم جو حرث کرتے(بوتے) ہو۔ اسے دیکھ سکتے ہو؟ ﴿-﴾کیا تم اِس کی زراعت کرتے ہو یا ہم اِس کے زراعت کرنے والے ہیں؟
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّـهَ يُزْجِي سَحَابًا ثُمَّ يُؤَلِّفُ بَيْنَهُ ثُمَّ يَجْعَلُهُ رُكَامًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلَالِهِ وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاءِ مِن جِبَالٍ فِيهَا مِن بَرَدٍ فَيُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ وَيَصْرِفُهُ عَن مَّن يَشَاءُ ۖ يَكَادُ سَنَا بَرْقِهِ يَذْهَبُ بِالْأَبْصَارِ - ﴿24:43﴾
کیا تم نے نہیں دیکھا؟ کہ اللہ ہی سحاب کو حرکت دیتا ہے۔ پھر ان کے درمیان (ان کو ثقیل کرنے کے لئے) ملاپ ڈالتا ہے۔ پھر انہیں (حرکت دیتے ہوئے) تہہ بہ تہہ کرتا ہے۔پھر ان کی دوستی سے الودق(لگاتار مینہ) کا اخراج ہوتا ہے۔ اور آسمان سے (بادلوں کے)پہاڑ وں میں سے برد(اولے) نازل ہوتے ہیں؟پس جس کو چاہتا ہے اِن سے اُن کو نقصان پہنچاتا ہے۔اور جس کو چاہتا ہے اِن سے اُن کوبچا لیتا ہے۔اس(سحاب) کی بجلی کی چمک سے بینائی تقریباً ضائع ہو جاتی ہے ۔
وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَأَسْكَنَّاهُ فِي الْأَرْضِ ۖ وَإِنَّا عَلَىٰ ذَهَابٍ بِهِ لَقَادِرُونَ - ﴿23:18﴾
اور ہم ہی نے آسمان سے پانی ایک اندازے کے مطابق نازل کیا۔پھر اسے زمین پر سکونت دی۔اور ہم اس کے نابود کر دینے پر بھی قادر ہیں
قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَصْبَحَ مَاؤُكُمْ غَوْرًا فَمَن يَأْتِيكُم بِمَاءٍ مَّعِينٍ - ﴿67:30﴾
کہہ دیکھو جو پانی تم پیتے ہو۔اگر گہرائی میں چلا جائے تو تمھارے لئے پانی کا چشمہ کو ن نکا لے گا
لَوْ نَشَاءُ جَعَلْنَاهُ أُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْكُرُونَ - ﴿56:70﴾
اور اگر ہم چاہیں تو اسے کھاری بنا دیں۔ تم کس لئے شکر ادا نہیں کرتے؟
أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَسُوقُ الْمَاءَ إِلَى الْأَرْضِ الْجُرُزِ فَنُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا تَأْكُلُ مِنْهُ أَنْعَامُهُمْ وَأَنفُسُهُمْ ۖ أَفَلَا يُبْصِرُونَ - ﴿32:27﴾
کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم خالی زمین کی طرف مساقات (پانی دیا) کرتے ہیں؟۔ پھر ہم اس مساقات کے ساتھ زراعت نکالتے ہیں۔ تاکہ ان سے اس کے جانور اور وہ کھائیں۔ پس کیا انہیں بصیرت نہیں؟
وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ ۖ وَالَّذِي خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِدًا ۚ كَذَٰلِكَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَشْكُرُونَ - ﴿7:58﴾
اور عمدہ زمین اپنے رب کے حکم سے اپنی نبات اگاتی ہے اور جو ناقص ہے اس سے سوائے بے کار چیز کے کچھ نہیں اگتا۔ اسی طرح ہم اپنی آیات کی گردان شکر کرنے والوں کے لئے کرتے ہیں-
أَفَرَأَيْتُم مَّا تَحْرُثُونَ - ﴿56:63﴾
ذرا دیکھو تم کیا حرث (بوتے) ہو؟
أَأَنتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ﴿56:64﴾
کیا تم اسے زراعت کرتے ہو یا ہم اس کے زارع ہیں؟
إِنَّا لَمُغْرَمُونَ ﴿56:66﴾
ہم برباد ہوگئے
بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ ﴿56:67﴾
بلکہ ہم محروم ہو گئے
وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَ جَنَّاتٍ مَّعْرُوشَاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشَاتٍ وَالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا أُكُلُهُ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ ۚ كُلُوا مِن ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ ۖ وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ -﴿6:144﴾
وہ ہے جس نے معروشات اور غیر معروشات جنتیں، نخل اور مختلف زراعت جنھیں تم کھاتے ہو انشاء کئے۔ زیتون اور رمّان اور اس کے مشابہ اور غیر مشابہ۔اِن (سبأَنشَأَ) سے جب وہ پھل لائیں،کھائیں۔اور اُن کی کٹائی کے دن اُس(اللہ) کا حق اُس کو دے دو اور (خود زیادہ حصہ رکھنے کے لئے) اس میں اسراف مت کرو۔اللہ مسرفین سے محبّت نہیں کرتا۔
زراعت کی کٹائی کے دن اُس(اللہ) کا حق اُس کو دے دو۔
اللہ تعالیٰ اپنا حق مانگ رہا ہے۔
اگر اس سے انکار کیا تو کیا ہوگا؟
آزمائش اصحاب الجنت ، الضالین میں شامل ہونا اور عذاب !
إِنَّا بَلَوْنَاهُمْ كَمَا بَلَوْنَا أَصْحَابَ الْجَنَّةِ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِينَ ﴿68:17﴾
بے شک ہم نے اُن کی آزمائش کی جس طرح ہم نے اصحاب الجنت کی آزمائش کی۔جب وہ تقسیم ہوئے ، اُس(الجنت) میں سے اُس کے لئے مصر ہوگئے ، علیٰ الصبح۔
- وَلَا يَسْتَثْنُونَ - ﴿68:18﴾
اور نہیں اِس میں کوئی ثانی (برابر کے حصے والا) ۔( یا وہ اِس میں کوئی استثنا نہیں کریں گے )
فَتَنَادَوْا مُصْبِحِينَ - ﴿68:21﴾
علیٰ الصبح ، انہوں نے نداء دی -
أَنِ اغْدُوا عَلَىٰ حَرْثِكُمْ إِن كُنتُمْ صَارِمِينَ - ﴿68:22﴾
یہ کہ اگلے دن ، تمھاری حرث (پہنچو) اگر تم نے صارمین (صفائی کرنے والا ) ہونا ہے ۔
فَانطَلَقُوا وَهُمْ يَتَخَافَتُونَ - ﴿68:23﴾
پس اُنہوں نے طلاق لی اور وہ خائف (بھی) تھے ۔(کہ اُن سے پہلے مساکین نہ پہنچے ہوں)
أَن لَّا يَدْخُلَنَّهَا الْيَوْمَ عَلَيْكُم مِّسْكِينٌ - ﴿68:24﴾
یہ کہ آج کے دن یہاں کوئی مسکین اس میں تمھارے پاس داخل نہ ہو!
وَغَدَوْا عَلَىٰ حَرْدٍ قَادِرِينَ ﴿68:25﴾
اور وہ صبح (الجنت کی کٹائی کے لئے ) پوری طرح قادر ہونےوالے تھے۔
فَلَمَّا رَأَوْهَا قَالُوا إِنَّا لَضَالُّونَ -﴿68:26﴾
اور جب (صبح) اس (جنت) کو اجڑا ہوا دیکھا تو کہنے لگے شاید ہم راستہ بھول گئے
بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ - ﴿68:27﴾
بلکہ ہم محروم ہو گئے-
اُن کی محرومیت کا کیا سبب تھا ؟
فَطَافَ عَلَيْهَا طَائِفٌ مِّن رَّبِّكَ وَهُمْ نَائِمُونَ -﴿68:19﴾
پس اُس(الجنت) پر تیرے ربّ کی طرف سے طواف کیا جب وہ حالتِ نوم میں تھے (الجنت پر عذاب کا )طواف کرنے والے نے
- فَأَصْبَحَتْ كَالصَّرِيمِ - ﴿68:20﴾
پس صبح ایسا (طوافِ عذاب )ہوا جیسے مکمل صفائی ۔
اصحاب الجنت کے ظلم اور سرکشی کے باعث اُن پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا۔ اللہ کے عذاب کے باعث اُن کی ہری بھری ،دن رات محنت کے بعد فائدہ دینے والی، الجنت تباہ ہوگئی ۔
ایسے میں اُن کا رویہ کیا ہونا چاھیئے تھا ؟
وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً فَرِحُوا بِهَا وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ إِذَا هُمْ يَقْنَطُونَ - ﴿30:36﴾
اور جب ہم الناس کو رحمت کا ذائقہ چکھاتے ہیں تو وہ فرحت محسوس کرتا ہے اور جب ہم اُسے کے ہاتھوں سے آگے بھیجی جانے والی برائیوں پر مصیبت دیتے ہیں تو وہ ، قنوطی ہو جاتا ہے ۔
تمام مصیبتیں انسانوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہوتی ہیں ۔
وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ - ﴿43:3﴾
اور جب مصیبت میں سے ، پہنچنے والا حصّہ تمھارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے ، بہت سی تو معاف کردی جاتی ہیں ۔
مَّا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّـهِ وَمَا أَصَابَكَ مِن سَيِّئَةٍ فَمِن نَّفْسِكَ وَأَرْسَلْنَاكَ لِلنَّاسِ رَسُولًا وَكَفَىٰ بِاللَّـهِ شَهِيدًا - ﴿4:79﴾
جو حصہ حسنہ میں تجھے پہنچتا ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو حصہ برائی میں سے تجھے پہنچتا ہے پس وہ تیرا نفس ہے اور ہم نے تجھے انسانوں کے لئے ارسال کیا (بطور) ایک رسول ۔ اور کافی ہے اللہ کےساتھ شہیدہے -
اگر انسان کو یہ احساس ہوجائے ، کہ اللہ اپنے تخلیق کردہ کسی بھی انسان کے لئے مصیبت نازل نہیں کرتا ، مصیبتوں کو دعوت انسان خود دیتا ہے ۔
اللہ نے انسان کے لئے ہر بہترین شئے اور ہر کاموں کے بہترین نتائج رکھے ہیں ۔
جن لوگوں کو یہ آفاقی سچ یاد رہتا ہے اُن کے لئے تمام آزمائشی اُن کے فعل اور عمل کو مزید بہتر بناتی ہیں ، لیکن جنھیں یہ آفاقی سچ یاد نہیں رہتا یا قنوطیت میں وہ یاد نہیں کھنا چاہتے تو اللہ تعالیٰ کی آزمائش اُن پر عذاب بن جاتی ہے ۔
اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچنے کا طریقہ اور مزید گمراہی سے بچت کیسے کی جا سکتی ہے ؟
اللہ کے عذاب کو اپنے حق میں اللہ کی تسبیح سے تبدیل کرنا !
قَالَ أَوْسَطُهُمْ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ لَوْلَا تُسَبِّحُونَ - ﴿68:28﴾
ان میں سے جو اوسط(اعتدال پسند) تھا بولا۔کیا میں نے تم کو یہ نہیں کہا کہ تم اللہ کی تسبیح کیوں نہیں کرتے؟
قَالُوا سُبْحَانَ رَبِّنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ - ﴿68:29﴾
وہ بولے اللہ کے لئے سبحان ہے بے شک ہم ہی ظالم ہیں-
فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ يَتَلَاوَمُونَ- ﴿68:30﴾
حالانکہ اِس (اعتدال پسند کے یاد دلانے سے ) سے قبل وہ ایک دوسرے ملامت کر رہے تھے ۔
قَالُوا يَا وَيْلَنَا إِنَّا كُنَّا طَاغِينَ -﴿68:31﴾
وہ بولے ہماری بدبختی بے شک ہم ہی سرکش ہیں
عَسَىٰ رَبُّنَا أَن يُبْدِلَنَا خَيْرًا مِّنْهَا إِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا رَاغِبُونَ - ﴿68:32﴾
ممکن ہمارا رب ہمارے لئے اس کو بھلائی میں بدل دے ّبے شک ہم نے رب کی طرف راغب ہونے والوں میں ہے
كَذَٰلِكَ الْعَذَابُ ۖ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ - ﴿68:33﴾
(دنیا کا)عذاب اسی طرح ہوتا ہے۔اور آخرت کا عذاب تو (اس سے) اکبر ہے۔اگر انہیں اس کا علم ہو !
اصحاب الجنت ، پر اللہ کا غضب ہوا ، لیکن وہ مغضوب نہیں ہوئے اور نہ ہی الضالین ۔
بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف دوبارہ راغب ہو گئے۔یہ سب سے اہم آیت ہے کیونکہ ہم کو بھی رسول اللہ نے اللہ کی تسبیح کے لئے یہ آیات بتائی ہیں ۔
اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ - ﴿1:6﴾
ہمیں صراط المستقیم کی طرف ہدایت کر
صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ۔ ۔ ۔ 1-
صراط اُن لوگوں کی ، جن پر تو نے انعام کیا
غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ - ﴿1:7﴾
2- دوسرے وہ جن پر تیرا غضب ہوا اور وہ گمراہ نہیں ہوئے۔
انسانوں پر جب اُن کے ظلم اور سرکشی کی وجہ سے اللہ کا عذاب ہوتا ہے تو اکثر انسان منہ سے ایسے الفاظ نکالتے ہیں جو اُن کے صراط المستقیم سے بھٹکنے کی نشانی ہوتی ہے۔ عموما لوگ اِن الفاظ اور نالوں کو شرک قرار دیتے ہیں۔
مثلاً ، موت تو برحق ہے آج نہیں تو کل لازمی آئے گی ۔او ر اللہ کے حکم سے ہی آئے گی ۔كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ثُمَّ إِلَيْنَا تُرْجَعُونَ ﴿29:7﴾
کل نفس کو موت کا ذائقہ ہے ، (لہذا) پھر تم ہماری رجوع کرو-کسی کی موت پر بین کرتے وقت اِس موت کو اللہ کی طرف سے زیادتی قرار دینا،
اِس طرح، اللہ تعالی نے اصحاب الجنت ، کی اس برائی کو ان کی توبہ پر بھلائی سے تبدیل کرتے ہوئے کہا
۔ إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّاتِ النَّعِيمِ - ﴿68:34﴾
بیشک متقین کے لئے ان کے رب کے پاس جنات النعیم ہیں۔
بیج انسان نے بویا ، اسے اگایا اللہ تعالیٰ نے۔
پودے کی حفاظت انسان نے کی ،
اُس کی مساقات، افزائش،اس کا پکنا، اللہ تعالیٰ کا مرہون منت تھا۔
بیج سے کونپل پھوٹنے کے بعد سے پھل پکنے تک وہ کبھی بھی قدرتی آفات کے باعث پیسا جاسکتا تھا۔
کیا بیج سے لے کر فصل کا پکنا اور انسان کا اسے کاٹنا کیا انسان کے لئے غنیمت نہیں ؟
لہذا اب انسانی محنت اور اللہ تعالیٰ کی بیج کو پھل بنانے تک کی قوت،دونوں اہم عاملین کے درمیان حقوق کی تقسیم کا فارمولا طے کرنا ہے!
کیونکہ اللہ تعالیٰ اس زراعت کی کٹائی میں سے اپنا حق مانگ رہا ہے۔کہ:
تم اپنی ایمان داری سے اسراف سے بچتے ہوئے اپنا حصہ نکال کر اللہ تعالیٰ کا حق اللہ کو دے دو۔
انسانی اصولِ شراکت داری کے مطابق یہ حصہ کتنا بننا چاہیے؟
نصف(پچاس فیصد)،خمس (بیس فیصد) یا عشر (دسواں فیصد)؟
اب اللہ تعالیٰ کے اس حق کی ادائیگی کس طرح ہو گی؟
فَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّـهِ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ - ﴿30:38﴾
پس اقرباء اور مساکین کو ان کا حق دے دو۔یہ ان لوگوں کے لئے خیر ہے جو اللہ کی خوشنودی چاہتے ہیں۔ اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں -
کیا اب بھی منبرِ رسول پر بیٹھ کر درس دینے والوں کو شک ہے فلاح پانے والے کون ہیں ؟
جو اللہ کی طرف سے غنیمت ایمان والے کو مل رہا ہے ، اُس کے حصہ داران کے متعلق ، روح القدّس نے محمدﷺ کو اللہ کے اِن الفاظ میں بتایا ہے :
يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ ۖ قُلْ مَا أَنفَقْتُم مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّـهَ بِهِ عَلِيمٌ - ﴿2:215﴾
یہ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں؟کہہ تم خیر میں سے جوبھی خرچ کرو۔پس وہ والدین، اقرباء،یتامیٰ، مساکین اور ابن السبیل کے لئے ہو۔ اور جو بھی فعل تم خیر میں سے کرتے ہو اللہ اس کا علم رکھتا ہے -
حصہ داران کے متعلق معلوم ہوجانے کے بعد بھی سوال کیا جاتا ہے ، واہ رے انسان !
۔ ۔ ۔ وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ - ﴿2:219﴾
۔ ۔ ۔ یہ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں؟کہہ” العفو “( خصوصی معافی)۔ اس طرح اللہ اپنی آیات تمھارے لئے واضح کرتا ہے تاکہ تم تفکر کرو !
اللہ کی واضح آیات کے مطابق اگر تقسیمِ رزق میں ہم نے اصحاب الجنت کی طرح اللہ کے احکام سے سرکشی کرتے ہوئے اور اپنے آپ پر ظلم کرتے ہوئے اپنی جنت اجاڑ دی ہے۔تو ہمیں چاہیئے کہ ہم اللہ کی طرف راغب ہوں اور اس کی تسبیح کریں۔دنیا کے عذاب کا رخ تو مڑ سکتا ہے۔لیکن آخرت کا عذاب اکبر ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةٌ ۗ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ - ﴿2:254﴾
اے ایمان والو۔ خرچ کرو اس رزق میں سے جو ہم نے تم کو عطا کیا ہے۔اس دن کے آنے سے پہلے جس میں نہ تو کوئی خریدوفروخت اور کوئی سفارش کام آئے گی۔اور کافر تو سب ظالم ہیں -
" جحد اور جہد " دو االگ مادوں ، ج ح د اور ج ھ د سے بننے والے دو الفاظ ہیں۔
جحد سے مراد اللہ کے نظام کی مخالفت، مختلف متشابھات سے کرنا ہے۔
جھد سے مراد اللہ کے نظام کو سپورٹ اللہ کی آیات سے کرنا ہے ۔
اب اللہ کے نظام کی مخالفت کرنے والے بھی " اجتحاد" کریں گے!
اور اللہ کے نظام کو سپورٹ کرنے والے بھی " اجتھاد " کریں گے!
ایک کی منطق عوام الناس کو اپنے نفس کی طرف پلٹانے کی ہے اور
دوسرے کی اللہ کی آیات کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کروانے کی ہے ۔
اللہ کی طرف رجوع کرنا اور وہ بھی اللہ کی آیات کے ساتھ انتہائی مشکل کام ہیں کیوں کہ ؟
محکمات، الکتاب میں اور متشابھات ، کائینات میں بکھری ہوئی ہیں ۔ متشابھات زبانِ خلق کا حصہ ہیں ، جنہیں نقارہءِ خدا کے اسم سے موسوم کر دیا جاتا ہے جبکہ اللہ نے رسول اللہ کو بتایا ہے کہ اگر زبانِ خلق پر عمل کیاجائے تو انسان اللہ کی راہ سے بھٹک جاتا ہے ۔
وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللّهِ إِن يَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلاَّ يَخْرُصُونَ ﴿6:116﴾
اگر تو زمین پر زبانِ خلق کی اطاعت کرے گا تو وہ تجھے سبیل اللہ سے بھٹکا دیں گے ، وہ صرف ظن ( قیاس ) کی اتباع کرتے رہتے ہیں اور بے شک وہ صرف اندازے لگاتے رہتے ہیں ( جبکہ سبیل اللہ حقیقت ہے ) ۔
اللہ تعالیٰ کی دی گئی فضیلت کے مطابق، انسانی رزق کے حصول کی نعمت سے مستفید ہونے والوں پر اللہ تعالیٰ نے لازم کر دیا ہے کہ وہ اُن کو دیئے گئے رزق میں سے دیگر انسانوں میں تقسیم کریں۔یہ وہ انسان نہیں جو بذریعہ مال رزق خرید لیتے ہیں۔بلکہ وہ ہیں جن کی بذریعہ مال رزق خرید نے کی استطاعت نہیں۔اب سو افرادی دنیا میں ان کی تعداد کتنی ہو سکتی ہے؟ اس پر بحث کی جاسکتی ہے لیکن اس چیز پر بحث ممکن نہیں کہ اللہ تعالی نے اُن کا رزق نہیں اتارا۔
قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَهُ ۚ وَمَا أَنفَقْتُم مِّن شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ - ﴿34:39﴾
کہہ! بے شک میرا رب اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہتا ہے رزق میں فراخی دیتا ہے اور اُس کے لئے پیمانہ ہے۔(اور وہ پیمانہ کیا ہے) اور کسی شئے میں سے جو بھی تم انفاق (رزق) کرتے ہواُس (اللہ)کے لئے اُس کابدلہ ہے۔اور (دیگر)رزق دینے والوں میں سب سے بہترہے ؟
جس بستی کے رہنے والوں کو ہر جگہ سے فرا خی سے رزق پہنچتا ہے۔وہ اگر انفاقِ رزق کریں تو اللہ کے نزدیک اس کے بدل کا پیمانہ مقرر ہے۔
مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ۗ وَاللَّـهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّـهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ - ﴿2:261﴾
جو لوگ اللہ کی راہ میں انفاق کرتے ہیں۔ اُن کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ایک بیج جس سے سات سو بالیاں نکلتی ہیں۔اور ہر بالی میں سو بیج ہوتے ہیں اور اللہ جس کے لئے چاہتا ہے (اس طرح) اضافہ کرتا ہے اور اللہ وسعت دینے والا علیم ہے - اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی ہر بات سے باخبر ہے اور رزق کی وسعت، مکمل اللہ کی مرضی کے مطابق ہے،
اللَّـهُ لَطِيفٌ بِعِبَادِهِ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ ۖ وَهُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ - ﴿42:19﴾
اللہ اپنے بندے کے ساتھ باریک بین ہے وہ اپنی مرضی سے رزق دیتا ہے۔ اور وہ قوی اور عزیز ہے کبھی انسان نے غور کیا ہے ؟ کائینات کے تمام جاندار وں کے رازق کی یہ باریک بینی کیا ہے ؟ اسبابِ رزق کے عوامل حصولِ رزق کی انسانی زراعت کے سلسلے میں چھ ہوتے ہیں۔بیج بونا۔مساقات کرنا۔بیج کا اگنا۔پودے کی حفاظت۔کھیتی/فصل پکنے پر اسے اتارنا۔بیج کی مقدارعلیحدہ کرکے باقی خوراک کے طور پر استعمال کرنا۔زمین میں بیج ڈالنے کے عمل کے بعد تمام اعمال اللہ تعالیٰ نے خود سے منسوب کرتے ہوئے انسان کو آگاہ کیا ہے۔
أَفَرَأَيْتُم مَّا تَحْرُثُونَ ﴿56:63﴾ أَأَنتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ - ﴿56:64﴾
کیا تم جو حرث کرتے(بوتے) ہو۔ اسے دیکھ سکتے ہو؟ ﴿-﴾کیا تم اِس کی زراعت کرتے ہو یا ہم اِس کے زراعت کرنے والے ہیں؟
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّـهَ يُزْجِي سَحَابًا ثُمَّ يُؤَلِّفُ بَيْنَهُ ثُمَّ يَجْعَلُهُ رُكَامًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلَالِهِ وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاءِ مِن جِبَالٍ فِيهَا مِن بَرَدٍ فَيُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ وَيَصْرِفُهُ عَن مَّن يَشَاءُ ۖ يَكَادُ سَنَا بَرْقِهِ يَذْهَبُ بِالْأَبْصَارِ - ﴿24:43﴾
کیا تم نے نہیں دیکھا؟ کہ اللہ ہی سحاب کو حرکت دیتا ہے۔ پھر ان کے درمیان (ان کو ثقیل کرنے کے لئے) ملاپ ڈالتا ہے۔ پھر انہیں (حرکت دیتے ہوئے) تہہ بہ تہہ کرتا ہے۔پھر ان کی دوستی سے الودق(لگاتار مینہ) کا اخراج ہوتا ہے۔ اور آسمان سے (بادلوں کے)پہاڑ وں میں سے برد(اولے) نازل ہوتے ہیں؟پس جس کو چاہتا ہے اِن سے اُن کو نقصان پہنچاتا ہے۔اور جس کو چاہتا ہے اِن سے اُن کوبچا لیتا ہے۔اس(سحاب) کی بجلی کی چمک سے بینائی تقریباً ضائع ہو جاتی ہے ۔
وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَأَسْكَنَّاهُ فِي الْأَرْضِ ۖ وَإِنَّا عَلَىٰ ذَهَابٍ بِهِ لَقَادِرُونَ - ﴿23:18﴾
اور ہم ہی نے آسمان سے پانی ایک اندازے کے مطابق نازل کیا۔پھر اسے زمین پر سکونت دی۔اور ہم اس کے نابود کر دینے پر بھی قادر ہیں
قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَصْبَحَ مَاؤُكُمْ غَوْرًا فَمَن يَأْتِيكُم بِمَاءٍ مَّعِينٍ - ﴿67:30﴾
کہہ دیکھو جو پانی تم پیتے ہو۔اگر گہرائی میں چلا جائے تو تمھارے لئے پانی کا چشمہ کو ن نکا لے گا
لَوْ نَشَاءُ جَعَلْنَاهُ أُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْكُرُونَ - ﴿56:70﴾
اور اگر ہم چاہیں تو اسے کھاری بنا دیں۔ تم کس لئے شکر ادا نہیں کرتے؟
أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَسُوقُ الْمَاءَ إِلَى الْأَرْضِ الْجُرُزِ فَنُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا تَأْكُلُ مِنْهُ أَنْعَامُهُمْ وَأَنفُسُهُمْ ۖ أَفَلَا يُبْصِرُونَ - ﴿32:27﴾
کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم خالی زمین کی طرف مساقات (پانی دیا) کرتے ہیں؟۔ پھر ہم اس مساقات کے ساتھ زراعت نکالتے ہیں۔ تاکہ ان سے اس کے جانور اور وہ کھائیں۔ پس کیا انہیں بصیرت نہیں؟
وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ ۖ وَالَّذِي خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِدًا ۚ كَذَٰلِكَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَشْكُرُونَ - ﴿7:58﴾
اور عمدہ زمین اپنے رب کے حکم سے اپنی نبات اگاتی ہے اور جو ناقص ہے اس سے سوائے بے کار چیز کے کچھ نہیں اگتا۔ اسی طرح ہم اپنی آیات کی گردان شکر کرنے والوں کے لئے کرتے ہیں-
أَفَرَأَيْتُم مَّا تَحْرُثُونَ - ﴿56:63﴾
ذرا دیکھو تم کیا حرث (بوتے) ہو؟
أَأَنتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ﴿56:64﴾
کیا تم اسے زراعت کرتے ہو یا ہم اس کے زارع ہیں؟
لَوْ نَشَاءُ لَجَعَلْنَاهُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ
﴿56:65﴾
جس کے لئے تم فکاہت کرتے ہو ، اگر ہم چاہیں تو اسے پیس دیں
إِنَّا لَمُغْرَمُونَ ﴿56:66﴾
ہم برباد ہوگئے
بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ ﴿56:67﴾
بلکہ ہم محروم ہو گئے
وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَ جَنَّاتٍ مَّعْرُوشَاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشَاتٍ وَالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا أُكُلُهُ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ ۚ كُلُوا مِن ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ ۖ وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ -﴿6:144﴾
وہ ہے جس نے معروشات اور غیر معروشات جنتیں، نخل اور مختلف زراعت جنھیں تم کھاتے ہو انشاء کئے۔ زیتون اور رمّان اور اس کے مشابہ اور غیر مشابہ۔اِن (سبأَنشَأَ) سے جب وہ پھل لائیں،کھائیں۔اور اُن کی کٹائی کے دن اُس(اللہ) کا حق اُس کو دے دو اور (خود زیادہ حصہ رکھنے کے لئے) اس میں اسراف مت کرو۔اللہ مسرفین سے محبّت نہیں کرتا۔
زراعت کی کٹائی کے دن اُس(اللہ) کا حق اُس کو دے دو۔
اللہ تعالیٰ اپنا حق مانگ رہا ہے۔
اگر اس سے انکار کیا تو کیا ہوگا؟
آزمائش اصحاب الجنت ، الضالین میں شامل ہونا اور عذاب !
إِنَّا بَلَوْنَاهُمْ كَمَا بَلَوْنَا أَصْحَابَ الْجَنَّةِ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِينَ ﴿68:17﴾
بے شک ہم نے اُن کی آزمائش کی جس طرح ہم نے اصحاب الجنت کی آزمائش کی۔جب وہ تقسیم ہوئے ، اُس(الجنت) میں سے اُس کے لئے مصر ہوگئے ، علیٰ الصبح۔
- وَلَا يَسْتَثْنُونَ - ﴿68:18﴾
اور نہیں اِس میں کوئی ثانی (برابر کے حصے والا) ۔( یا وہ اِس میں کوئی استثنا نہیں کریں گے )
فَتَنَادَوْا مُصْبِحِينَ - ﴿68:21﴾
علیٰ الصبح ، انہوں نے نداء دی -
أَنِ اغْدُوا عَلَىٰ حَرْثِكُمْ إِن كُنتُمْ صَارِمِينَ - ﴿68:22﴾
یہ کہ اگلے دن ، تمھاری حرث (پہنچو) اگر تم نے صارمین (صفائی کرنے والا ) ہونا ہے ۔
فَانطَلَقُوا وَهُمْ يَتَخَافَتُونَ - ﴿68:23﴾
پس اُنہوں نے طلاق لی اور وہ خائف (بھی) تھے ۔(کہ اُن سے پہلے مساکین نہ پہنچے ہوں)
أَن لَّا يَدْخُلَنَّهَا الْيَوْمَ عَلَيْكُم مِّسْكِينٌ - ﴿68:24﴾
یہ کہ آج کے دن یہاں کوئی مسکین اس میں تمھارے پاس داخل نہ ہو!
وَغَدَوْا عَلَىٰ حَرْدٍ قَادِرِينَ ﴿68:25﴾
اور وہ صبح (الجنت کی کٹائی کے لئے ) پوری طرح قادر ہونےوالے تھے۔
فَلَمَّا رَأَوْهَا قَالُوا إِنَّا لَضَالُّونَ -﴿68:26﴾
اور جب (صبح) اس (جنت) کو اجڑا ہوا دیکھا تو کہنے لگے شاید ہم راستہ بھول گئے
بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ - ﴿68:27﴾
بلکہ ہم محروم ہو گئے-
اُن کی محرومیت کا کیا سبب تھا ؟
فَطَافَ عَلَيْهَا طَائِفٌ مِّن رَّبِّكَ وَهُمْ نَائِمُونَ -﴿68:19﴾
پس اُس(الجنت) پر تیرے ربّ کی طرف سے طواف کیا جب وہ حالتِ نوم میں تھے (الجنت پر عذاب کا )طواف کرنے والے نے
- فَأَصْبَحَتْ كَالصَّرِيمِ - ﴿68:20﴾
پس صبح ایسا (طوافِ عذاب )ہوا جیسے مکمل صفائی ۔
اصحاب الجنت کے ظلم اور سرکشی کے باعث اُن پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا۔ اللہ کے عذاب کے باعث اُن کی ہری بھری ،دن رات محنت کے بعد فائدہ دینے والی، الجنت تباہ ہوگئی ۔
ایسے میں اُن کا رویہ کیا ہونا چاھیئے تھا ؟
وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً فَرِحُوا بِهَا وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ إِذَا هُمْ يَقْنَطُونَ - ﴿30:36﴾
اور جب ہم الناس کو رحمت کا ذائقہ چکھاتے ہیں تو وہ فرحت محسوس کرتا ہے اور جب ہم اُسے کے ہاتھوں سے آگے بھیجی جانے والی برائیوں پر مصیبت دیتے ہیں تو وہ ، قنوطی ہو جاتا ہے ۔
تمام مصیبتیں انسانوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہوتی ہیں ۔
وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ - ﴿43:3﴾
اور جب مصیبت میں سے ، پہنچنے والا حصّہ تمھارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے ، بہت سی تو معاف کردی جاتی ہیں ۔
مَّا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّـهِ وَمَا أَصَابَكَ مِن سَيِّئَةٍ فَمِن نَّفْسِكَ وَأَرْسَلْنَاكَ لِلنَّاسِ رَسُولًا وَكَفَىٰ بِاللَّـهِ شَهِيدًا - ﴿4:79﴾
جو حصہ حسنہ میں تجھے پہنچتا ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو حصہ برائی میں سے تجھے پہنچتا ہے پس وہ تیرا نفس ہے اور ہم نے تجھے انسانوں کے لئے ارسال کیا (بطور) ایک رسول ۔ اور کافی ہے اللہ کےساتھ شہیدہے -
اگر انسان کو یہ احساس ہوجائے ، کہ اللہ اپنے تخلیق کردہ کسی بھی انسان کے لئے مصیبت نازل نہیں کرتا ، مصیبتوں کو دعوت انسان خود دیتا ہے ۔
اللہ نے انسان کے لئے ہر بہترین شئے اور ہر کاموں کے بہترین نتائج رکھے ہیں ۔
جن لوگوں کو یہ آفاقی سچ یاد رہتا ہے اُن کے لئے تمام آزمائشی اُن کے فعل اور عمل کو مزید بہتر بناتی ہیں ، لیکن جنھیں یہ آفاقی سچ یاد نہیں رہتا یا قنوطیت میں وہ یاد نہیں کھنا چاہتے تو اللہ تعالیٰ کی آزمائش اُن پر عذاب بن جاتی ہے ۔
اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچنے کا طریقہ اور مزید گمراہی سے بچت کیسے کی جا سکتی ہے ؟
اللہ کے عذاب کو اپنے حق میں اللہ کی تسبیح سے تبدیل کرنا !
قَالَ أَوْسَطُهُمْ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ لَوْلَا تُسَبِّحُونَ - ﴿68:28﴾
ان میں سے جو اوسط(اعتدال پسند) تھا بولا۔کیا میں نے تم کو یہ نہیں کہا کہ تم اللہ کی تسبیح کیوں نہیں کرتے؟
قَالُوا سُبْحَانَ رَبِّنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ - ﴿68:29﴾
وہ بولے اللہ کے لئے سبحان ہے بے شک ہم ہی ظالم ہیں-
فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ يَتَلَاوَمُونَ- ﴿68:30﴾
حالانکہ اِس (اعتدال پسند کے یاد دلانے سے ) سے قبل وہ ایک دوسرے ملامت کر رہے تھے ۔
قَالُوا يَا وَيْلَنَا إِنَّا كُنَّا طَاغِينَ -﴿68:31﴾
وہ بولے ہماری بدبختی بے شک ہم ہی سرکش ہیں
عَسَىٰ رَبُّنَا أَن يُبْدِلَنَا خَيْرًا مِّنْهَا إِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا رَاغِبُونَ - ﴿68:32﴾
ممکن ہمارا رب ہمارے لئے اس کو بھلائی میں بدل دے ّبے شک ہم نے رب کی طرف راغب ہونے والوں میں ہے
كَذَٰلِكَ الْعَذَابُ ۖ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ - ﴿68:33﴾
(دنیا کا)عذاب اسی طرح ہوتا ہے۔اور آخرت کا عذاب تو (اس سے) اکبر ہے۔اگر انہیں اس کا علم ہو !
اصحاب الجنت ، پر اللہ کا غضب ہوا ، لیکن وہ مغضوب نہیں ہوئے اور نہ ہی الضالین ۔
بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف دوبارہ راغب ہو گئے۔یہ سب سے اہم آیت ہے کیونکہ ہم کو بھی رسول اللہ نے اللہ کی تسبیح کے لئے یہ آیات بتائی ہیں ۔
اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ - ﴿1:6﴾
ہمیں صراط المستقیم کی طرف ہدایت کر
صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ۔ ۔ ۔ 1-
صراط اُن لوگوں کی ، جن پر تو نے انعام کیا
غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ - ﴿1:7﴾
2- دوسرے وہ جن پر تیرا غضب ہوا اور وہ گمراہ نہیں ہوئے۔
انسانوں پر جب اُن کے ظلم اور سرکشی کی وجہ سے اللہ کا عذاب ہوتا ہے تو اکثر انسان منہ سے ایسے الفاظ نکالتے ہیں جو اُن کے صراط المستقیم سے بھٹکنے کی نشانی ہوتی ہے۔ عموما لوگ اِن الفاظ اور نالوں کو شرک قرار دیتے ہیں۔
مثلاً ، موت تو برحق ہے آج نہیں تو کل لازمی آئے گی ۔او ر اللہ کے حکم سے ہی آئے گی ۔كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ثُمَّ إِلَيْنَا تُرْجَعُونَ ﴿29:7﴾
کل نفس کو موت کا ذائقہ ہے ، (لہذا) پھر تم ہماری رجوع کرو-کسی کی موت پر بین کرتے وقت اِس موت کو اللہ کی طرف سے زیادتی قرار دینا،
”فلک کا کیا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور“
لیکن ایمان والے
اللہ کی طرف سے آنے والے عذاب کو منشاء ربّ اور اپنی غلطی سمجھ کر اللہ سے
عملی توبہ طلب کرتے ہیں۔اِس طرح، اللہ تعالی نے اصحاب الجنت ، کی اس برائی کو ان کی توبہ پر بھلائی سے تبدیل کرتے ہوئے کہا
۔ إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّاتِ النَّعِيمِ - ﴿68:34﴾
بیشک متقین کے لئے ان کے رب کے پاس جنات النعیم ہیں۔
بیج انسان نے بویا ، اسے اگایا اللہ تعالیٰ نے۔
پودے کی حفاظت انسان نے کی ،
اُس کی مساقات، افزائش،اس کا پکنا، اللہ تعالیٰ کا مرہون منت تھا۔
بیج سے کونپل پھوٹنے کے بعد سے پھل پکنے تک وہ کبھی بھی قدرتی آفات کے باعث پیسا جاسکتا تھا۔
کیا بیج سے لے کر فصل کا پکنا اور انسان کا اسے کاٹنا کیا انسان کے لئے غنیمت نہیں ؟
لہذا اب انسانی محنت اور اللہ تعالیٰ کی بیج کو پھل بنانے تک کی قوت،دونوں اہم عاملین کے درمیان حقوق کی تقسیم کا فارمولا طے کرنا ہے!
کیونکہ اللہ تعالیٰ اس زراعت کی کٹائی میں سے اپنا حق مانگ رہا ہے۔کہ:
تم اپنی ایمان داری سے اسراف سے بچتے ہوئے اپنا حصہ نکال کر اللہ تعالیٰ کا حق اللہ کو دے دو۔
انسانی اصولِ شراکت داری کے مطابق یہ حصہ کتنا بننا چاہیے؟
نصف(پچاس فیصد)،خمس (بیس فیصد) یا عشر (دسواں فیصد)؟
اب اللہ تعالیٰ کے اس حق کی ادائیگی کس طرح ہو گی؟
فَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّـهِ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ - ﴿30:38﴾
پس اقرباء اور مساکین کو ان کا حق دے دو۔یہ ان لوگوں کے لئے خیر ہے جو اللہ کی خوشنودی چاہتے ہیں۔ اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں -
کیا اب بھی منبرِ رسول پر بیٹھ کر درس دینے والوں کو شک ہے فلاح پانے والے کون ہیں ؟
جو اللہ کی طرف سے غنیمت ایمان والے کو مل رہا ہے ، اُس کے حصہ داران کے متعلق ، روح القدّس نے محمدﷺ کو اللہ کے اِن الفاظ میں بتایا ہے :
يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ ۖ قُلْ مَا أَنفَقْتُم مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّـهَ بِهِ عَلِيمٌ - ﴿2:215﴾
یہ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں؟کہہ تم خیر میں سے جوبھی خرچ کرو۔پس وہ والدین، اقرباء،یتامیٰ، مساکین اور ابن السبیل کے لئے ہو۔ اور جو بھی فعل تم خیر میں سے کرتے ہو اللہ اس کا علم رکھتا ہے -
حصہ داران کے متعلق معلوم ہوجانے کے بعد بھی سوال کیا جاتا ہے ، واہ رے انسان !
۔ ۔ ۔ وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ - ﴿2:219﴾
۔ ۔ ۔ یہ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں؟کہہ” العفو “( خصوصی معافی)۔ اس طرح اللہ اپنی آیات تمھارے لئے واضح کرتا ہے تاکہ تم تفکر کرو !
اللہ کی واضح آیات کے مطابق اگر تقسیمِ رزق میں ہم نے اصحاب الجنت کی طرح اللہ کے احکام سے سرکشی کرتے ہوئے اور اپنے آپ پر ظلم کرتے ہوئے اپنی جنت اجاڑ دی ہے۔تو ہمیں چاہیئے کہ ہم اللہ کی طرف راغب ہوں اور اس کی تسبیح کریں۔دنیا کے عذاب کا رخ تو مڑ سکتا ہے۔لیکن آخرت کا عذاب اکبر ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةٌ ۗ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ - ﴿2:254﴾
اے ایمان والو۔ خرچ کرو اس رزق میں سے جو ہم نے تم کو عطا کیا ہے۔اس دن کے آنے سے پہلے جس میں نہ تو کوئی خریدوفروخت اور کوئی سفارش کام آئے گی۔اور کافر تو سب ظالم ہیں -
٭٭٭٭٭٭
٭ ۔اگر اللہ تعالٰی رازق ہے تو انسان بھوکے کیوں مرتے ہیں؟
٭-کیا ہاتھ پھیلانا، شرفِ انسانیت کی تذلیل نہیں؟
٭-کیا ہاتھ پھیلانا، شرفِ انسانیت کی تذلیل نہیں؟
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں