Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعرات، 26 جنوری، 2017

کالی شلوار- منٹو افسانے

دہلی آنے سے پہلے وہ انبالہ چھاؤنی میں تھی۔ جہاں کئی گورے اس کے گاہک تھے۔ ان گوروں سے ملنے جلنے کے باعث وہ انگریزی کے دس پندرہ جملے سیکھ گئی تھی۔ ان کو وہ عام گفتگو میں استعمال نہیں کرتی تھی۔ لیکن جب وہ دہلی میں آئی اور اس کا کاروبار نہ چلا تو ایک دن اس نے اپنی پڑوسن طمنچہ جان سے کہا۔ “ دِس لیف —— ویری بیڈ، یعنی یہ زندگی بہت بری ہے جبکہ کھانے ہی کو نہیں ملتا۔“
انبالہ چھاؤنی میں‌ اس کا دھندا بہت اچھی طرح چلتا تھا۔ چھاؤنی کے گورے شراب پی کر اس کے پاس آ جاتے تھے اور تین چار گھنٹوں ہی میں آٹھ دس گوروں کو نمٹا کر بیس تیس روپے پیدا کر لیا کرتی تھی۔ یہ گورے اس کے ہم وطنوں کے مقابلے میں بہت اچھے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایسی زبان بولتے تھے جس کا مطلب سلطانہ کی سمجھ میں نہیں آتا تھا مگر اس کی زبان سے یہ لاعلمی اس کے حق میں بہت اچھی ثابت ہوتی تھی۔ اگر وہ اس سے کچھ رعایت چاہتے تو وہ سر ہلا کر کہہ دیا کرتی تھی “ صاحب ہماری سمجھ میں تمہاری بات نہیں آتا۔“ اور اگر وہ اس سے ضرورت سے زیادہ چھیڑ چھاڑ کرتے تو وہ ان کو اپنی زبان میں گالیاں دینا شروع کر دیتی تھی۔ وہ حیرت سے اس کے منہ کی طرف دیکھتے تو وہ ان سے کہتی “ صاحب تم ایک دم الو کا پٹھا ہے۔ حرامزادہ ہے —— سمجھا۔“ یہ کہتے وقت وہ اپنے لہجے میں سختی پیدا نہ کرتی بلکہ بڑے پیار کے ساتھ ان سے باتیں کرتی —— گورے ہنس دیتے اور ہنستے وقت وہ سلطانہ کو بالکل الو کے پٹھے دکھائی دیتے۔
مگر یہاں دہلی میں وہ جب سے آئی تھی، ایک گورا بھی اس کے یہاں نہیں آیا تھا۔ تین مہینے اس کو ہندوستان کے اس شہر میں رہتے ہو گئے تھے جہاں اس نے سنا تھا کہ بڑے الاٹ صاحب رہتے ہیں۔ جو گرمیوں میں شملے چلے جاتے ہیں، صرف چھ آدمی اس کے پاس آئے تھے۔ صرف چھ، یعنی مہینے میں دو۔ اور ان چھ گاہکوں سے، اس نے خدا جھوٹ نہ بلوائے، ساڑھے اٹھارہ روپے وصول کیئے تھے۔ تین روپے سے زیادہ کر کوئی مانتا ہی نہیں تھا۔ سلطانہ نے ان میں سے پانچ آدمیوں کو اپنا ریٹ دس روپے بتایا تھا، مگر تعجب کی بات ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے یہی کہا “ بھئی تین روپے سے زیادہ ایک کوڑی نہیں دیں گے۔“ جانے کیا بات تھی کہ ان میں سے ہی ایک نے اسے صرف تین روپے کے قابل سمجھا۔ چنانچہ جب چھٹا آیا تو اس نے کہا “ دیکھو میں تین روپے ایک ٹیم کے لوں گی۔ اس سے ایک دھیلا تم کم کہو تو نہ ہو گا۔ اب تمہاری مرضی ہو تو رہو ورنہ جاؤ۔“ چھٹے آدمی نے یہ بات سن کر تکرار نہ کی اور اس کے ہاں ٹھہر گیا۔ جب دوسرے کمرے میں دروازہ بند کر کے وہ اپنا کوٹ اتارنے لگا تو سلطانہ نے کہا “ لائیے ایک روپیہ دودھ کا“ ایک روپیہ تو نہ دیا لیکن نئے بادشاہ کی چمکتی ہوئی اٹھنی جیب میں سے نکال کر اس کو دے دی اور سلطانہ نے بھی چپکے سے لے لی کہ چلو جو آیا غنیمت ہے۔
ساڑھے اٹھارہ روپے تین مہینوں میں —— بیس روپے ماہوار تو اس کوٹھے کا کرایہ تھا جس مالک مکان انگریزی میں فلیٹ کہتا تھا۔ اس فلیٹ میں ایسا پاخانہ تھا جس میں زنجیر کھینچنے سے ساری گندگی پانی کے زور سے ایک دم نیچے نل میں غائب ہو جاتی تھی اور بڑا شور ہوتا تھا۔ شروع شروع میں تو اس شور نے اسے بہت ڈرایا تھا۔ پہلے دن جب وہ رفع حاجت کے لیے اس پاخانے میں گئی تو اس کی کمر میں شدت کا درد ہو رہا تھا۔ فارغ ہو کر جب اٹھنے لگی تو اس نے لٹکی ہوئی زنجیر کا سہارا لے لیا۔ زنجیر کو دیکھ کر اس نے خیال کیا چونکہ مکان خاص ہم لوگوں کی رہائش کے لیے تیار کئے گئے ، یہ زنجیر اس لیے لگائی گئی ہے کہ اٹھتے وقت تکلیف نہ ہو اور سہارا مل جایا کرے۔ مگر جونہی اس نے زنجیر کو پکڑ کر اٹھنا چاہا اور کھٹ کھٹ کی آواز آئی اور پھر ایک دم سے پانی اس زور کے ساتھ باہر نکلا تو ڈر کے مارے اس کی چیخ نکل گئی۔
خدا بخش دوسرے کمرے میں اپنا فوٹو گرافی کا سامان درست کر رہا تھا اور ایک صاف بوتل میں ہائڈرو کونین ڈال رہا تھا کہ اس نے سلطانہ کی چیخ سنی، دوڑ کر باہر نکلا اور سلطانہ سے پوچھا “ کیا ہوا —— یہ چیخ تمہاری تھی؟“
سلطانہ کا دل دھڑک رہا تھا۔ اس نے کہا “ یہ مؤا پیخانہ ہے یا کیا ہے؟ بیچ میں یہ ریل گاڑیوں کی طرح زنجیر لٹکا رکھی ہے؟ میری کمر میں درد تھا میں نے کہا کہا چلو اس کا سہارا لے لوں گی۔ پر اس موئی زنجیر کر چھیڑنا تھا کہ وہ دھماکہ ہوا کہ میں تم سے کیا کہوں۔“
اس پر خدا بخش بہت ہنسا تھا اور اس نے سلطانہ کو اس پیخانے کی بابت سب کچھ بتا دیا کہ یہ نئے فیشن کا ہے جس میں زنجیر ہلانے سے سب گندگی زمین میں دھنس جاتی ہے۔
خدا بخش اور سلطانہ کا آپس میں کیسے سمبندھ ہو، یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ خدا بخش راولپنڈی کا تھا۔ انٹرنس پاس کرنے کے بعد اس نے لاری چلانا سیکھی، چنانچہ چار برس تک وہ راولپنڈی اور کشمیر کے درمیان لاری چلانے کا کام کرتا رہا۔ اس کے بعد کشمیر میں اس کی دوستی ایک عورت سے ہو گئی۔ اس کو بھگا کر وہ ساتھ لے آیا۔ لاہور میں چونکہ اس کوئی کام نہ ملا اس لیے اس نے عورت کو پیشے پر بٹھا دیا۔ دو تین برس تک یہ سلسلہ جاری رہا اور وہ عورت کسی اور کے ساتھ بھاگ گئی۔ خدا بخش کومعلوم ہوا کہ وہ انبالہ میں ہے۔ وہ اس کی تلاش میں آیا جہاں اس کو سلطانہ مل گئی۔ سلطانہ نے اس کو پسند کیا، چنانچہ دونوں کا سمبندھ ہو گیا۔
خدا بخش کے آنے سے ایک دم سلطانہ کا کاروبار چمک اٹھا۔ عورت چونکہ ضعیف الاعتقاد تھی، اس لیے اس نے سمجھا کہ خدا بخش بڑا بھاگوان ہے جس کے آنے سے اتنی ترقی ہو گئی ہے۔ چنانچہ اس خوش اعتقادی نے خدا بخش کی وقعت اس کی نظروں میں اور بھی بڑھا دی۔
خدا بخش محنتی آدمی تھا۔ سارا دن ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھنا پسند نہیں کرتا تھا۔ چنانچہ اس نے ایک فوٹو گرافر سے دوستی پیدا کی جو ریلوے اسٹیشن کے باہر منٹ کیمرے سے فوٹو کھنچا کرتا تھا۔ اس سے اس نے فوٹو کھنچنا سیکھا، پھر سلطانہ سے ساٹھ روپے لے کر کیمرہ بھی خرید لیا۔ آہستہ آہستہ ایک پردہ بنوایا، دو کرسیاں خریدیں اور فوٹو دھونے کا سب سامان لے کر اس نے علیٰحدہ اپنا کام شروع کر دیا۔
کام چل نکلا، چنانچہ اس نے تھوڑی ہی دیر کے بعد اپنا اڈا انبالہ چھاؤنی میں قائم کر دیا۔ یہاں وہ گوروں کے فوٹو کھینچتا۔ ایک مہینے کے اندر اندر اس کی چھاؤنی کے متعدد گوروں سے واقفیت ہو گئی۔ چنانچہ وہ سلطانہ کو وہیں لے گیا۔ یہاں چھاؤنی میں خدا بخش کے ذریعے کئی گورے سلطانہ کے مستقل گاہک بن گئے۔
سلطانہ نے کانوں کے بندے خریدے۔ ساڑھے پانچ تولے کی آٹھ کنگنیاں بھی بنوائیں۔ دس پندرہ اچھی اچھی ساڑھیاں بھی جمع کر لیں۔ گھر میں‌ فرنیچر بھی آ گیا۔ قصہ مختصر کہ کہ انبالہ چھاؤنی میں وہ بڑی خوش حال تھی۔ مگر ایکا ایکی جانے خدا بخش کے دل میں کیا سمائی کہ اس نے دہلی جانے کی ٹھان لی۔ سلطانہ انکار کیسے کرتی جبکہ خدا بخش کو اپنے لیے بہت مبارک خیال کرتی تھی۔ اس نے خوشی خوشی دہلی جانا قبول کر لیا۔ بلکہ اس نے یہ بھی سوچا کہ اتنے بڑے شہر میں جہاں لاٹ صاحب رہتے ہیں، اس کا دھندا اور بھی اچھا چلے گا۔ اپنی سہلیوں سے وہ دہلی کی تعریف سن چکی تھی۔ پھر وہاں نظام الدین اولیا رح کی خانقاہ تھی جس سے اسے بے حد عقیدت تھی۔ چنانچہ گھر کا بھاری سامان بیچ باچ کر وہ خدا بخش کے ساتھ دہلی آ گئی۔ یہاں پہنچ کر خدا بخش نے بیس روپے ماہوار پر یہ فلیٹ لیا۔ جس میں دونوں رہنے لگے۔
ایک ہی قسم کے نئے مکانوں کی لمبی لمبی قطار سڑک کے ساتھ ساتھ چلی گئی ہے۔ میونسپل کمیٹی نے شہر کا یہ حصہ خاص کسبیوں کے لیے مقرر کر دیا تھا تا کہ وہ شہر میں جگہ جگہ اپنے اڈے نہ بنائیں۔ نیچے دوکانیں تھیں اور اوپر دو منزلہ رہائشی فلیٹ، چونکہ سب عمارتیں ایک ہی ڈیزائن کی تھیں، اس لیے شروع شروع میں سلطانہ کو اپنا فلیٹ تلاش کرنے میں بہت دقت محسوس ہوئی تھی۔ پر جب نیچے لانڈری والے نے اپنا بورڈ گھر کی پیشانی پر لگایا تو اس کو ایک پکی نشانی مل گئی “ یہاں میلے کپڑوں کی دھلائی کی جاتی ہے “ یہ بورڈ پڑھتے ہی وہ اپنا فلیٹ تلاش کر لیا کرتی تھی۔ اس طرح اس نے اور بہت سی نشانیاں قائم کر لی تھیں۔ مثلاّ بڑے حروف میں جہاں “ کوئلوں کی دکان “ لکھا تھا وہاں اس کی سہیلی ہیرا بائی رہتی تھی جو کبھی کبھی ریڈیو گھر میں گانے جایا کرتی تھی۔ جہاں “ شرفا کے لیے کھانے کا اعلٰی انتظام ہے “ لکھا تھا وہاں اس کی دوسری سہیلی مختار رہتی تھی۔ نواڑ کے کارخانے کے اوپر انوری رہتی تھی جو اسی کارخانے کے سیٹھ کے پاس ملازم تھی۔ چونکہ سیٹھ صاحب کو رات کے وقت اپنے کارخانے کی دیکھ بھال کرنا ہوتی تھی، اس لیے وہ انوری کے پاس ہی رہتے تھے۔
دکان کھولتے ہی گاہک تھوڑے ہی آتے ہیں، چنانچہ جب ایک مہینے تک سلطانہ بیکار رہی تو اس نے یہی سوچ کر اپنے دل کو تسلی دی۔ پر جب دو مہینے گزر گئے اور کوئی آدمی اس کے کوٹھے پر نہ آیا تو اسے بہت تشویش ہوئی۔ اس نے خدا بخش سے کہا، “ کیا بات ہے خدا بخش، پورے دو مہینے ہو گئے ہیں ہمیں یہاں آئے ہوئے، کسی نے ادھر کا رخ بھی نہیں کیا —— مانتی ہوں آج کل بازار بہت مندا ہے، پر اتنا مندا تو نہیں کہ مہینے بھر میں کوئی شکل دیکھنے ہی میں نہ آئے۔“ خدا بخش کو بھی یہ بات بہت عرصے سے کھٹک رہی تھی مگر وہ خاموش تھا۔ پر جب سلطانہ نے خود بات چھیڑی تو اس نے کہا “ میں کئی دنوں سے اس کی بابت سوچ رہا ہوں۔ ایک بات سمجھ میں میں آتی ہے، وہ یہ کہ جنگ کی وجہ سے لوگ باگ دوسرے دھندوں میں پڑ کر ادھر کا راستہ بھول گئے ہیں —— یا پھر یہ ہو سکتا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔ “ وہ اس کے آگے کہنے ہی والا تھا کہ سیڑھیوں پر کسی کے چڑھنے کی آواز آئی۔ خدا بخش اور سلطانہ دونوں اس آواز کی طرف متوجہ ہوئے۔ تھوڑی دیر کے بعد دستک ہوئی۔ خدا بخش نے لپک کر دروازہ کھولا۔ ایک آدمی اندر داخل ہوا۔ یہ پہلا گاہک تھا جس سے تین روپے میں سودا طے ہوا۔ اس کے بعد پانچ اور آئے۔ یعنی مہینے میں‌ چھ، جن سے سلطانہ نے صرف ساڑھے اٹھارہ روپے وصول کیے۔
بیس روپے ماہوار تو فلیٹ کے کرائے میں چلے جاتے تھے۔ پانی کا ٹیکس اور بجلی کا بل جدا۔ اس کے علاوہ گھر کے دوسرے خرچ کھانا پینا، کپڑے لتے دوا دارو۔ اور آمدن کچھ بھی نہیں تھی۔ ساڑھے اٹھارہ روپے تین‌ مہینے میں آئے تو اسے آمدن تو نہیں کہہ سکتے۔ سلطانہ پریشان ہو گئی۔ ساڑھے پانچ تولے کی آٹھ کنگنیاں جو اس نے انبالہ سے بنوائی تھیں، آہستہ آہستہ بک گئیں۔ آخری کنگنی کی جب باری آئی تو اس نے خدا بخش سے کہا، “ تم میری سنؤ، اور چلو واپس انبالے —— یہاں کیا دھرا ہے —— بھئی ہو گا، پر ہمیں یہ شہر راس نہیں آیا۔ تمارا کام بھی وہاں خوب چلتا تھا۔ چلو، وہیں چلتے ہیں۔ جو نقصان ہوا ہے اس کو اپنا سر صدقہ سمجھو۔ اس کنگنی کو بیچ کر آؤ۔ میں اسباب وغیرہ باندھ کر تیار رکھتی ہوں۔ آج رات کی گاڑی سے یہاں سے چل دیں گے۔“
خدا بخش نے کنگنی سلطانہ کے ہاتھ سے لے لی اور کہا، “ نہیں، جانِ من، انبالے نہیں جائیں گے۔ یہیں دہلی میں رہ کر کمائیں گے۔ یہ تمہاری چوڑیاں سب کی سب یہیں واپس آئیں گی۔ اللہ پر بھروسہ رکھو۔ وہ بڑا کارساز ہے۔ یہاں بھی وہ کوئی نہ کوئی اسباب بنا ہی دے گا۔“
سلطانہ چپ ہو رہی۔ چنانچہ آخری کنگنی بھی ہاتھ سے اتر گئی۔ بُچے ہاتھ دیکھ کر اس کو بہت دکھ ہوتا تھا۔ پر کیا کرتی، پیٹ بھی تو آخر حیلے سے بھرنا تھا۔ جب پانچ مہینے گزر گئے اور آمدن خرچ کے مقابلے میں چوتھائی سے بھی کچھ کم رہی تو سلطانہ کی پریشانی اور زیادہ بڑھ گئی۔ خدا بخش بھی سارا دن اب گھر سے غائب رہنے لگا تھا۔ سلطانہ کو اس کا بھی دکھ تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پڑوس میں اس کی دو تین ملنے والیاں موجود تھیں جن کے ساتھ وہ اپنا وقت کاٹ سکتی تھی۔ پر ہر روز ان کے یہاں جانا اور گھنٹوں بیٹھے رہنا اس کو بہت برا لگتا تھا۔ چنانچہ آہستہ آہستہ اس نے ان سہلیوں سے ملنا جلنا بالکل ترک کر دیا۔ سارا دن وہ اپنے سنسان مکان میں بیٹھی رہتی۔ کبھی چھالیہ کاٹتی رہتی، کبھی اپنے پرانے اور پھٹے ہوئے کپڑوں کو سیتی رہتی اور کبھی باہر بالکنی میں آ کر جنگلے کے ساتھ لگ کر کھڑی ہو جاتی اور سامنے ریلوے شیڈ میں ساکت اور متحرک انجنوں کی طرف گھنٹوں بے مطلب دیکھتی رہتی۔
سڑک کے دوسری طرف مال گودام تھا جو اس کونے سے اس کونے تک پھیلا ہوا تھا۔ داہنے ہاتھ کو لوہے کی چھت کے نیچے بڑی بڑی گانٹھیں پڑی رہتی تھیں اور ہر قسم کے مال و اسباب کے ڈھیر لگے رہتے تھے۔ بائیں ہاتھ کو کھلا میدان تھا جس میں بے شمار ریل کی پٹریاں بچھی ہوئی تھیں۔ دھوپ میں لوہے کی یہ پٹریاں چمکتیں تو سلطانہ اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھتی جن پر نیلی نیلی رگیں بالکل ان پٹڑیوں کی طرح ابھری رہتی تھیں۔ اس لمبے اور کھلے میدان میں ہر وقت انجن اور گاڑیاں چلتی رہتی تھیں۔ کبھی ادھر، کبھی ادھر۔ ان انجنوں اور گاڑیوں کی چھک چھک، پھک پھک سدا گونجتی رہتی تھی۔ صبح سویرے جب وہ اٹھ کر بالکنی میں آتی تو ایک عجیب سماں نظر آتا۔ دھندلکے میں انجنوں کے منہ سے گاڑھا گاڑھا دھواں نکلتا اور گدلے آسمان کی جانب موٹے اور بھاری آدمیوں کی طرح اٹھتا دکھائی دیتا تھا۔ بھاپ کے بڑے بادل بھی ایک شور کے ساتھ پٹڑیوں سے اٹھتے اور آنکھ جھپکنے کی دیر میں‌ ہوا کے اندر گھل مل جاتے تھے۔ پھر کبھی کبھی جب وہ گاڑی کے کسی ڈبے کو جسے انجن نے دھکا دے کر چھوڑ دیا ہو، اکیلے پٹڑیوں پر چلتا دیکھتی تو اسے اپنا خیال آیا۔ وہ سوچتی کہ اسے بھی کسی نے زندگی کی پٹڑی پر دھکا دے کر چھوڑ دیا ہے اور وہ خود بخود جا رہی ہے، دوسرے لوگ کانٹے بدل رہے ہیں اور وہ چلی جا رہی ہے —— نہ جانے کہاں پھر ایک روز ایسا آئے گا جب اس دھکے کا زور آہستہ آہستہ ختم ہو گا اور وہ کہیں رک جائے گی۔ کسی ایسے مقام پر جو اس کا دیکھا بھالا نہ ہو گا۔ یوں تو وہ بے مطلب، گھنٹوں ریل کی ان ٹیڑھی بانکی پٹڑیوں اور ٹھہرے اور چلتے ہوئے انجنوں کی طرف دیکھتی رہی، پر طرح طرح کے خیال اس کے دماغ میں آتے رہتے تھے۔ انبالہ چھاؤنی میں جب وہ رہتی تھی تو اسٹیشن کے پاس ہی اس کا مکان تھا۔ مگر وہاں اس نے کبھی ان چیزوں کو ایسی نظروں نہیں دیکھا تھا۔ اب تو کبھی اس کے دماغ میں یہ بھی خیال آتا کہ یہ جو سامنے ریل کی پٹڑیوں کا جال سا بچھا ہے اور جگہ جگہ سے بھاپ اور دھواں اٹھ رہا ہے، ایک بہت بڑا چکلا ہے۔ بہت سی گاڑیاں ہیں جن کو چند موٹے موٹے انجن ادھر ادھر دھکیلتے رہتے ہیں۔ سلطانہ کو تو بعض اوقات یہ انجن سیٹھ معلوم ہوتے جو کبھی کبھی انبالہ میں اس کے ہاں آیا کرتے تھے۔ پھر کبھی کبھی جب وہ کسی انجن کو آہستہ آہستہ گاڑیوں کی قطار کے پاس سے گزرتا دیکھتی تو اسے ایسا محسوس ہوتا کہ کوئی آدمی چکلے کے کسی بازار میں سے اوپر، کوٹھوں کی طرف دیکھتا جا رہا ہے۔ سلطانہ سمجھتی تھی کہ ایسی باتیں سوچنا دماغ کی خرابی کا باعث ہے۔ چنانچہ جب اس قسم کے خیال اس کو آنے لگے تو اس نے بالکنی میں جانا چھوڑ دیا۔ خدا بخش سے اس نے بارہا کہا، “ دیکھو میرے حال پر رحم کرو۔ یہاں گھر میں رہا کرو۔ میں سارا دن یہاں بیماروں کی طرح پڑی رہتی ہوں۔“ مگر اس نے ہر بار سلطانہ سے یہ کہہ کر اس کی تشفی کر دی “ جانِ من، میں باہر کچھ کمانے کی فکر کر رہا ہوں۔ اللہ نے چاہا تو چند دنوں میں ہی بیڑا پار ہو جائے گا۔“
پورے پانچ مہینے ہو گئے تھے مگر ابھی تک سلطانہ کا بیڑا پار ہوا تھا نہ خدا بخش کا۔ محرم کا مہینہ سر پر آ رہا تھا مگر سلطانہ کے پاس کالے کپڑے بنوانے کے لیے کچھ بھی نہ تھا۔ مختار نے لیڈی ہملٹن کی ایک نئی وضع کی قمیص بنوائی تھی جس کی آستینیں کالی جارجٹ کی تھیں۔ اس کے ساتھ میچ کرنے کے لیے اس کے پاس کالی ساٹن کی شلوار تھی جو کاجل طرح چمکتی تھی۔ انوری نے ریشمی جارجٹ کی بڑی نفیس ساڑھی خریدی تھی۔ اس نے سلطانہ سے کہا تھا کہ وہ اس ساڑھی کے نیچے بوسکی کا پیٹی کوٹ پہنے گی کیوں کہ یہ نیا فیشن ہے۔ اس ساڑھی کے ساتھ پہننے کو انوری کالی مخمل کا ایک جوتا لائی تھی جو بڑا نازک تھا۔ سلطانہ نے جب یہ تمام چیزیں دیکھیں تو اس کو اس احساس نے بہت دکھ دیا کہ وہ محرم منانے کے لیے ایسا لباس خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتی۔

انوری اور مختار کے پاس یہ لباس دیکھ کر جب وہ گھر آئی تو اس کا دل بہت مغموم تھا۔ اسے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک پھوڑا سا اس کے اندر پیدا ہو گیا ہے۔ گھر بالکل خالی تھا۔ خدا بخش حسبِ معمول باہر تھا۔ دیر تک وہ دری پر گاؤ تکیہ سر کے نیچے رکھ کر لیٹی رہی، پر جب اس کی گردن اونچائی کے باعث اکڑ گئی تو باہر بالکنی میں چلی گئی تاکہ غم افزا خیالات کو اپنے دماغ میں سے نکال دے۔
سامنے پٹڑیوں پر گاڑیوں کے ڈبے کھڑے تھے، پر انجن کوئی بھی نہ تھا۔ شام کا وقت تھا —— چھڑکاؤ ہو چکا تھا اس لیے گرد و غبار دب گیا تھا۔ بازار میں ایسے آدمی چلنے شروع ہو گئے تھے جو تاک جھانک کرنے کے بعد چپ چاپ گھروں کا رخ کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک آدمی نے گردن اونچی کر کے سلطانہ کی طرف دیکھا۔ سلطانہ مسکرا دی اور اس کو بھول گئی کیونکہ اب سامنے پٹڑیوں پر ایک انجن نمودار ہو گیا تھا۔ سلطانہ نے غور سے اس کی طرف دیکھنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ یہ خیال دماغ میں سے نکالنے کی خاطر جب اس نے سڑک کی جانب دیکھا تو اسے وہی آدمی بیل گاڑی کے پاس کھڑا نظر آیا۔ جس نے اس کی طرف للچائی نظروں سے دیکھا تھا۔ سلطانہ نے ہاتھ سے اسے اشارہ کیا۔ اس آدمی نے ادھر ادھر دیکھ کر ایک لطیف اشارے سے پوچھا کدھر سے آؤں۔ سلطانہ نے اسے راستہ بتا دیا۔ وہ آدمی تھوڑی دیر کھڑا رہا، مگر بڑی پھرتی سے اوپر چلا آیا۔
سلطانہ نہ اسے دری پر بٹھایا۔ جب وہ بیٹھ گیا تو اس نے سلسلہ گفتگو شروع کرنے کے لیے کہا، “ آپ اوپر آتے ڈر کیوں رہے تھے؟“ وہ آدمی یہ سن کر مسکرایا، “ تمہیں کیسے معلوم ہوا —— ڈرنے کی بات ہی کیا تھی۔“ اس پر سلطانہ نے کہا، “ یہ میں نے اس لیے کہا کہ آپ دیر تک وہیں کھڑے رہے، اور پھر کچھ سوچ کر ادھر آئے۔“ وہ یہ سن کر پھر مسکرایا، “ تمہیں غلط فہمی ہوئی۔ میں تمہارے فلیٹ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہاں کوئی عورت کھڑی ایک مرد کو ٹھینگا دکھا رہی تھی۔ مجھے یہ منظر پسند آیا۔ پھر بالکنی میں سبز بلب روشن ہوا تو میں کچھ دیر کے لیے ٹھہر گیا۔ سبز روشنی مجھے بہت پسند ہے۔ آنکھوں کو بہت اچھی لگتی ہے۔“ یہ کہہ کر اس نے کمرے کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ پھر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ سلطانہ نے پوچھا، “ آپ جا رہے ہیں؟“ اس آدمی نے جواب دیا، “ نہیں، میں تمہارے مکان کو دیکھنا چاہتا ہوں —— چلو مجھے تمام کمرے دکھاؤ۔“
سلطانہ نے اس کو تینوں کمرے ایک ایک کر کے دکھا دیئے۔ اس آدمی نے بالکل خاموشی سے ان کمروں کا معائنہ کیا۔ جب وہ دونوں پھر اسی کمرے میں آ گئے جہاں پہلے بیٹھے ہوئے تھے تو اس آدمی نے کہا، “ میرا نام شنکر ہے۔“
سلطانہ نے پہلے بار غور سے شنکر کی طرف دیکھا۔ وہ متوسط قد کا معمولی شکل و صورت کا آدمی تھا مگر اس کی آنکھیں غیر معمولی طور پر صاف اور شفاف تھیں۔ کبھی کبھی ان میں ایک عجیب قسم کی چمک پیدا ہوتی تھی۔ گٹھیلا اور کسرتی بدن تھا۔ کنپٹیوں پر اس کے بال سفید ہو رہے تھے۔ خاکستری رنگ کی گرم پتلون پہنے تھا سفید قمیص تھی جس کا کالر گردن پر سے اوپر کو اٹھا ہوا تھا۔
شنکر کچھ اس طرح دری پر بیٹھا تھا کہ معلوم ہوتا تھا شنکر کی بجائے سلطانہ گاہک ہے۔ اس احساس نے سلطانہ کو قدرے پریشان کر دیا۔ چنانچہ اس نے شنکر سے کہا “ فرمائیے۔“
شنکر بیٹھا تھا یہ سن کر لیٹ گیا۔ “ کیا فرماؤں، کچھ تم ہی فرماؤ۔ بلایا تمہیں نے ہے مجھے۔“ جب سلطانہ کچھ نہ بولی تو وہ اٹھ بیٹھا، “ میں سمجھا۔ لو، اب مجھ سے سنو، جو کچھ تم نے سمجھا، غلط ہے۔ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو کچھ دے کر جاتے ہیں۔ ڈاکٹروں کی طرح میری بھی فیس ہے۔ مجھے جب بلایا جائے تو فیس دینا پڑتی ہے۔“
سلطانہ یہ سن کر چکرا گئی مگر اس کے باوجود اسے بے اختیار ہنسی آ گئی۔ “ آپ کام کیا کرتے ہیں؟“
شنکر نے جواب دیا، “ یہی جو تم لوگ کرتے ہو۔“
“ کیا؟“
“ میں ۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔ میں کچھ بھی نہیں کرتی۔“
“ میں بھی کچھ نہیں کرتا۔“
سلطانہ نے بھنا کر کہا، “ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی —— آپ کچھ نہ کچھ تو ضرور کرتے ہوں گے۔“
شنکر نے بڑے اطمینان سے جواب دیا، “ تم بھی کچھ نہ کچھ ضرور کرتی ہو گی۔“
“ جھک مارتی ہوں۔“
“ میں بھی جھک مارتا ہوں۔“
“ تو آؤ دونوں جھک ماریں۔“
“ حاضر ہوں، مگر جھک مارنے کے دام میں کبھی نہیں دیا کرتا۔“
“ ہوش کی دوا کرو —— یہ لنگر خانہ نہیں۔“
“ اور میں بھی والنٹیر نہیں۔“
سلطانہ یہاں رک گئی۔ اس نے پوچھا، “ یہ والنٹیر کون ہوتے ہیں؟“
شنکر نے جواب دیا، “ اُلو کے پٹھے۔“
“ میں اُلو کی پٹھی نہیں۔“
“ مگر وہ آدمی خدا بخش جو تمہارے ساتھ رہتا ہے، ضرور اُلو کا پٹھا ہے۔“
“ کیوں؟“
“ اس لیے کہ وہ کئی دنوں سے ایک ایسے خدا رسیدہ فقیر کے پاس اپنی قسمت کُھلوانے کی خاطر جا رہا ہے جس کی اپنی قسمت زنگ لگے تالے کی طرح بند ہے۔“ یہ کہہ کر شنکر ہنسا۔
اس پر سلطانہ نے کہا، “ تم ہندو ہو۔ اسی لیے ہمارے ان بزرگوں کا مذاق اڑاتے ہو۔“
شنکر مسکرایا، “ ایس جگہوں پر ہندو مسلم سوال پیدا نہیں ہوا کرتے۔ بڑے بڑے پنڈت اور مولوی بھی یہاں آئیں تو شریف آدمی بن جائیں۔“
“ جانے کیا اوٹ پٹانگ باتیں کرتے ہو —— بولو، رہو گے؟“
“ اس شرط پر جو پہلے بتا چکا ہوں۔“
سلطانہ اٹھ کھڑی ہوئی، “ تو جاؤ رستہ پکڑو۔“
شنکر آرام سے اٹھا۔ پتلون کی جیبوں میں دونوں ہاتھ ٹھونسے اور جاتے ہوئے کہا، “ میں کبھی کبھی اس بازار سے گزرا کرتا ہوں۔ جب بھی تمہیں میری ضرورت ہو، بلا لینا —— بہت کام کا آدمی ہوں۔“
شنکر چلا گیا، اور سلطانہ کالے لباس کو بھول کر دیر تک اس کے متعلق سوچتی رہی۔ اس آدمی کی باتوں نے اس کے دکھ کو بہت ہلکا کر دیا تھا۔ اگر وہ انبالہ میں آیا ہوتا جہاں کہ وہ خوشحال تھی تو اس نے کسی اور ہی رنگ میں اس آدمی کو دیکھا ہوتا، اور بہت ممکن ہے کہ اسے دھکے دے کر باہر نکال دیا ہوتا۔ مگر یہاں چونکہ وہ بہت اداس رہتی تھی، اس لیے شنکر کی باتیں اسے پسند آئیں۔
شام کو جب خدا بخش آیا تو سلطانہ نہ اس سے پوچھا، “ تم آج سارا دن کدھر غائب رہے ہو؟“
خدا بخش تھک کر چور چور ہو رہا تھا، کہنے لگا، “ پرانے قلعے کے پاس سے آ رہا ہوں۔ وہاں ایک بزرگ کچھ دنوں سے ٹھہرے ہوئے ہیں۔ انہی کے پاس ہر روز جاتا ہوں کہ ہمارے دن پھر جائیں ——“
“ کچھ انہوں نے تم سے کہا؟“
“ نہیں، ابھی وہ مہربان نہیں ہوئے —— پر سلطانہ، میں جو ان کی خدمت کر رہا ہوں، وہ اکارت نہیں جائے گی۔ اللہ کا فضل شاملِ حال رہا تو ضرور وارے نیارے ہو جائیں گے۔“
سلطانہ کے دماغ میں محرم منانے کا خیال سمایا ہوا تھا۔ خدا بخش سے رونی آواز میں کہنے لگی، “ سارا دن باہر غائب رہتے ہو —— میں یہاں پنجرے میں قید رہتی ہوں۔ کہیں جا سکتی ہوں نہ آ سکتی ہوئں۔ محرم سر پر آ گیا ہے۔ کچھ تو نے اس کی بھی فکر کی کہ مجھے کالے کپڑے چاہیں۔ گھر میں پھوٹی کوڑی تک نہیں۔ کنگنیاں تھیں، وہ ایک ایک کر کے بک گئیں۔ اب تم ہی بتاؤ کیا ہو گا —— یوں فقیروں کے پیچھے کب تک مارے مارے پھرا کرو گے۔ مجھے تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہاں دہلی میں خدا نے بھی ہم سے منہ موڑ لیا ہے۔ میری سنو تو اپنا کام شروع کر دو۔ کچھ تو سہارا ہو جائے گا۔“
خدا بخش دری پر لیٹ گیا اور کہنے لگا، “ پر یہ کام شروع کرنے کے لیے بھی تو تھوڑا بہت سرمایا چاہیے۔ —— خدا کے لیے اب ایسی دکھ بھری باتیں نہ کرؤ۔ مجھ سے اب برداشت نہیں ہو سکتیں۔ میں نے سچ مچ انبالہ چھوڑنے میں سخت غلطی کی۔ پر جو کرتا ہے، اللہ ہی کرتا ہے اور ہماری بہتری ہی کے لیے کرتا ہے۔ کیا پتہ ہے کچھ دیر اور تکلیفیں برداشت کرنے کے بعد ہم ۔۔۔۔۔۔“
سلطانہ نے بات کاٹ کر کہا، “ تم خدا کے لیے کچھ کرو، چوری کرو یا ڈاکہ ڈالو، پر مجھے ایک شلوار کا کپڑا ضرور لا دو۔ میرے پاس سفید بوسکی کی قمیص پڑی ہے اس کو میں رنگوا لوں گی۔ سفید نینون کا ایک نیا دوپٹہ بھی میرے پاس موجود ہے۔ وہی جو تم نے مجھے دیوالی پر لا کر دیا تھا۔ یہ بھی قمیص کے ساتھ ہی رنگوا لیا جائے گا۔ ایک صرف شلوار کی کسر ہے۔ سو، وہ تم کسی نہ کسی طرح پیدا کرو ۔۔۔۔۔۔ دیکھو، تمہیں میری جان کی قسم، کسی نہ کسی طرح ضرور لا دو —— میری بھتی کھاؤ، اگر نہ لاؤ۔“
خدا بخش اٹھ بیٹھا، “ اب تم خوامخواہ زور دیئے چلی جا رہی ہو —— میں کہاں سے لاؤں گا —— افیم کھانے کے لیے تو میرے پاس ایک پیسہ نہیں۔“
“ کچھ بھی کرو، مگر مجھے ساڑھے چار گز کالی ساٹن لا دو۔“
“ دعا کرو کہ آج رات ہی اللہ دو تین آدمی بھیج دے۔“
“ لیکن تم کچھ نہیں کرو گے —— تم اگر چاہو تو ضرور اتنے پیسے پیدا کر سکتے ہو۔ جنگ سے پہلے یہ ساٹن بارہ چودہ آنے گز مل جاتی تھی، اب سوا روپے گز کے حساب سے ملتی ہے۔ ساڑھے چار گزوں پر کتنے روپے خرچ ہو جائیں گے؟“
“ اب تم کہتی ہو تو میں‌ کوئی حیلہ کروں گا۔“ یہ کہہ کر خدا بخش اٹھا۔ “ لو اب ان باتوں کو بھول جاؤ۔ میں ہوٹل سے کھانا لے آؤں۔“
ہوٹل سے کھانا آیا۔ دونوں نے مل کر زہر مار کیا اور سو گئے۔ صبح ہوئی خدا بخش پرانے قلعے والے فقیر کے پاس چلا گیا اور سلطانہ اکیلی رہ گئی۔ کچھ دیر لیٹی رہی، کچھ دیر سوئی رہی۔
ادھر ادھر کمروں میں ٹہلتی رہی۔ دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد اس نے اپنا سفید نینون کا دوپٹہ اور سفید بوسکی کی قمیص نکالی اور نیچے لانڈری والے کو رنگنے کے لیے دے آئی۔ کپڑے دھونے کے علاوہ وہاں رنگنے کا کام بھی ہوتا تھا۔ یہ کام کرنے کے بعد اس واپس آ کر فلموں کی کتابیں پڑھیں جن میں اس کے دیکھے ہوئے فلموں کی کہانی اور گیت چھپے ہوئے تھے۔ یہ کتابیں پڑھتے پڑھتے وہ سو گئی۔ جب اتھی تو چار بج چکے تھے، کیونکہ دھوپ آنگن میں سے موری کے پاس پہنچ چکی تھی۔ نہا دھو کر فارغ ہوئی تو گرم چادر اوڑھ کر بالکنی میں آ کھڑی ہوئی۔ قریباّ ایک گھنٹہ سلطانہ بالکنی میں کھڑی رہی۔ اب شام ہو گئی تھی۔ بتیاں روشن ہو رہی تھیں۔ نیچے سڑک پر رونق کے آثار نظر آنے لگے۔ سردی میں تھوڑی سی شدت ہو گئی —— مگر سلطانہ کو یہ ناگوار معلوم نہ ہوئی۔ وہ سڑک پر آتے جاتے تانگوں اور موٹروں کر طرف ایک عرصے سے دیکھ رہی تھی۔ دفعتہّ اسے شنکر نظر آیا۔ مکان کے نیچے پہنچ کر اس نے گردن اونچی کی اور سلطانہ کی طرف دیکھ کر مسکرا دیا۔ سلطانہ نے غیر ارادی طور پر ہاتھ کا اشارہ کیا اور اسے اوپر بلا لیا۔
جب شنکر اوپر آ گیا تو سلطانہ بہت پریشان ہوئی کہ اس سے کیا کہے۔ دواصل اس نے بلا سوچے سمجھے اسے اشارہ کر دیا تھا۔ شنکر بے حد مطمئن تھا جیسے اس کا اپنا گھر ہے۔ چنانچہ بڑی بے تکلفی سے پہلے روز کی طرح وہ گاؤ تکیہ سر کے نیچے رکھ کر لیٹ گیا۔ جب سلطانہ نہ دیر تک اس سے کوئی بات نہ کی تو اس نے کہا، “ تم مجھے سو دفعہ بلا سکتی ہو اور سو دفعہ کہہ سکتی ہو کہ چلے جاؤ —— میں ایسی باتوں پر کبھی ناراض نہیں ہوا کرتا۔“
سلطانہ شش و پنج میں گرفتار ہو گئی۔ کہنے لگی، “ نہیں بیٹھو تمہیں جانے کو کون کہتا ہے۔“
شنکر اس پر مسکرا دیا، “ تو میری شرطیں منظور ہیں۔“
“ کیسی شرطیں؟“ سلطانہ نے ہنس کر کہا۔ “ کیا نکاح کر رہے ہو مجھ سے؟“
“ نکاح اور شادی کیسی؟ —— نہ تم عمر بھر کسی سے نکاح کرو گی نہ میں۔ یہ رسمیں ہم لوگوں کے لیے نہیں —— چھوڑو ان فضولیات کو۔ کوئی کام کی بات کرو۔“
“ بولو کیا بات کروں؟“
“ تم عورت ہو —— کوئی ایسی بات شروع کرو جس سے دو گھڑی دل بہل جائے۔ اس دنیا میں صرف دکانداری ہی دکانداری نہیں، کچھ اور بھی ہے۔“
سلطانہ ذہنی طور پر اب شنکر کو قبول کر چکی تھی۔ کہنے لگی، “ صاف صاف کہو تم مجھ سے کیا چاہتے ہو؟“
“ جو دوسرے چاہتے ہیں۔“ شنکر اٹھ کر بیٹھ گیا۔
“ تم میں اور دوسروں میں پھر فرق ہی کیا رہا؟“
“ تم میں اور مجھ میں‌ کوئی فرق نہیں۔ ان میں اور مجھ میں زمیں و آسمان کا فرق ہے۔ ایسی بہت سی باتیں ہوتی ہیں جو پوچھنا نہیں چاہیں، خود سمجھنا چاہیں۔“
سلطانہ نے تھوڑی دیر تک شنکر کی اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی۔ پھر کہا، “ میں سمجھ گئی۔“
“ تو کہو کیا ارادہ ہے؟“
“ تم جیتے میں ہاری، پر میں کہتی ہوں آج تک کسی نے ایسی بات قبول نہ کی ہو گی۔“
“ تم غلط کہتی ہو —— اسی محلے میں تمہیں ایسی سادہ لوح عورتیں بھی مل جائیں گی جو کبھی یقین نہیں کریں گی کہ عورت ایسی ذلت قبول کر سکتی ہے، جو تم بغیر کسی احساس کے قبول کرتی رہی ہو۔ لیکن ان کے نہ یقین کرنے کے باوجود تم ہزاروں کی تعداد میں موجود ہو —— تمہارا نام سلطانہ ہے نا؟“
“ سلطانہ ہی ہے۔“
شنکر اٹھ کھڑا ہوا اور ہنسنے لگا۔ “ میرا نام شنکر ہے —— یہ نام بھی عجیب اوٹ پٹانگ ہوتے ہیں۔ چلو آؤ اندر چلیں۔“
شنکر اور سلطانہ دری والے کمرے میں واپس آئے تو دونوں ہنس رہے تھے۔ نہ جانے کس بات پر۔ جب شنکر جانے لگا تو سلطانہ نے کہا، “ شنکر میری بات مانو گے؟“
شنکر نے جواباّ کہا، “ پہلے بات بتاؤ۔“
سلطانہ کچھ جھینپ سی گئی، “ تم کہو گے کہ میں دام وصول کرنا چاہتی ہوں۔ مگر ۔۔۔۔“
“ کہو کہو —— رک کیوں گئی ہو۔“
سلطانہ نے جرات سے کام لے کر کہا، “ بات یہ ہے کہ محرم آ رہا ہے اور میرے پاس اتنے پیسے نہیں کہ میں کالی شلوار بنوا سکوں —— یہاں کے سارے دکھڑے تو تم مجھ سے سن ہی چکے ہو۔ قمیص اور دوپٹہ میرے پاس موجود تھا جو میں نے آج رنگوانے کے لیے دے دیا ہے۔“
شنکر نے یہ سن کر کہا، “ تم چاہتی ہو کہ میں تمہیں کچھ روپے دے دوں جو تم یہ کالی شلوار بنوا سکو۔“
سلطانہ جے فوراّ ہی کیا، “ نہیں، میرا مطلب یہ ہے کہ اگر ہو سکے تو تم مجھے ایک کالی شلوار لا دو۔“
شنکر مسکرایا، “ میری جیب میں تو اتفاق ہی سے کبھی کچھ ہوتا ہے۔ بہرحال میں کوشش کروں گا۔ محرم کی پہلی تاریخ کو تمہیں یہ شلوار مل جائے گی۔ لے بس، اب خوش ہو گئیں۔“
سلطانہ کے بندوں کی طرف دیکھ کر پھر اس نے پوچھا، “ کیا یہ بندے تم مجھے دے سکتی ہو؟“
سلطانہ نے ہنس کر کہا، “ تم انہیں کیا کرو گے؟“ چاندی کے معمولی سے بندے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ پانچ روپے کے ہوں گے۔“
اس پر شنکر نے کہا، “ میں نے تم سے بندے مانگے ہیں۔ ان کی قیمت نہیں پوچھی۔، بولو دیتی ہو؟“
“ لے لو۔“ یہ کہہ کر سلطانہ نے بُندے اتار کر شنکر کو دے دیئے۔ اس کے بعد اسے افسوس ہوا مگر شنکر جا چکا تھا۔
سلطانہ کو قطعاّ یقین نہیں تھا کہ شنکر اپنا وعدہ پورا کرئے گا۔ مگر آٹھ روز کے بعد محرم کی پہلی تاریخ کو صبح نو بجے دروازے پر دستک ہوئی۔ سلطانہ نے دروازہ کھولا تو شنکر کھڑا تھا۔ اخبار میں لپٹی ہوئی چیز اس نے سلطانہ کو دی اور کہا، “ ساٹن کی کالی شلوار ہے۔ دیکھ لینا، شاید لمبی ہو —— اب میں چلتا ہوں۔“
شنکر شلوار دے کر چلا گیا اور کوئی بات اس نے سلطانہ سے نہ کی۔ اس کی پتلون میں شکنیں پڑی ہوئی تھیں۔ بال بکھرے ہوئے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ابھی ابھی سو کر اٹھا ہے اور سیدھا ادھر ہی چلا آیا ہے۔
سلطانہ نے کاغذ کھولا۔ ساٹن کی کالی شلوار تھی۔ ایسی ہی جیسی کہ وہ مختار کے پاس دیکھ کر آئی تھی۔ سلطانہ بہت خوش ہوئی۔ بُندوں اور اس سودے کا جو افسوس اسے ہوا تھا، اس شلوار نے اور شنکر کی وعدہ ایفائی نے دور کر دیا۔
دوپہر کو وہ نیچے لانڈری سے اپنی رنگی ہوئی قمیص اور دوپٹہ لے آئی۔ تینوں کالے کپڑے جب اس نے پہن لیے تو دروازے پر دستک ہوئی۔ سلطانہ نے دروازہ کھولا تو مختار اندر داخل ہوئی۔
اس نے سلطانہ کے تینوں کپڑوں کی طرف دیکھا اور کہا، “ قمیص اور دوپٹہ تو رنگا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ پر یہ شلوار نئی ہے —— کب بنوائی؟“
سلطانہ نے جواب دیا، “ آج ہی درزی لایا ہے۔“ یہ کہتے ہوئے اس کی نظریں مختار کے کانوں پر پڑیں، “ یہ بُندے تم نے کہاں سے منگوائے ہیں؟“
مختار نے جواب دیا، “ آج ہی منگوائے ہیں۔“
اس کے بعد دونوں کو تھوڑی دیر خاموش رہنا پڑا۔--

بدھ، 25 جنوری، 2017

اللہ کے نزدیک ، سنت کے دو ناقابلِ تبدیل مآخذ -حصہ 1


لیکن صبر ، حتمی رائے دینے سے پہلے اِس مضمون پر نظر ڈالیں ۔
الکتاب ، میں سُنّت کا ذکر اُس فہم میں نہیں جو مسلمانوں میں غلط العام ہے ، لیکن "سُنّت اللہ " کا ضرور ذکر ہے ۔ جو پہلے گذرے ہوئے لوگوں پر صادق ہوچکی ہے ۔ 
 قُل لِّلَّذِينَ كَفَرُواْ إِن يَنتَهُواْ يُغْفَرْ لَهُم مَّا قَدْ سَلَفَ وَإِنْ يَعُودُواْ فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْأَوَّلِينِ [8:38]
 اسْتِكْبَارًا فِي الْأَرْضِ وَمَكْرَ السَّيِّئِ وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ فَهَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِينَ فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَبْدِيلًا وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا [35:43]
 فَلَمْ يَكُ يَنفَعُهُمْ إِيْمَانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا سُنَّتَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ فِي عِبَادِهِ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْكَافِرُونَ [40:85]

چونکہ مسلمانوں نے رسول اللہ کو بھی گذار دیا ہے ، جبکہ یہ آیت اب بھی محمد رسول اللہ کی حیات کا ثبوت دیتی ہے ۔ 

وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللّهُ الشَّاكِرِينَ [3:114]

 
لہذااُنہوں نے بھی پلٹا کھا کر ، اللہ کی سُنّت کو رسول اللہ سے موسوم کر دیا ہے۔  جب کہ سُنّت ہمیشہ اللہ کی ہی رہے گی ۔ 


رسول اللہ سے پہلے گذرے ہوئے لوگوں کی ۔

 مَّا كَانَ عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيمَا فَرَضَ اللَّهُ لَهُ سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلُ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَرًا مَّقْدُورًا[33:38]
یہی وجہ ہے کہ اللہ نے  کو پہلے بتا دیا ہے کہ اگر  میں شامل ہونا ہے تو اِس آیت پر کٗل ایمان لانا ہے ،

وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ ﴿2:4
جبھی اللہ نے رسول اللہ کو کہلوایا ۔ 

جسے آپ سُنّت اللہ کہہ سکتے ہیں 
 جو محمد رسول اللہ سے قبل مِّلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا کی ہیں ۔ 
جو کتاب من اللہ کے مطابق ، بعد از خدا ہیں ۔
 کیوں کہ خلیل اللہ ہیں اور محمد رسول اللہ کے ابی ہیں بشمول مسلمانوں کے !

اِس آیت پر عمل سے رسول اللہ میں،  اللہ نے وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ کے ذریعے ، 
عملی تبدیلی کروانے کے بعد الْمُسْلِمِينَ میں أَوَّلُ قرار دلوایا -
 
قُلْ إِنَّنِي هَدَانِي رَبِّي إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ دِينًا قِيَمًا مِّلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴿6:161

 
قُلْ إِنَّ صَلاَتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿6:162

 
لاَ شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَاْ أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ ﴿6:163
 

حقیت یہ ہے کہ ہم جب بھی الکتاب کھول کر القرآن کرتے ہیں تو رسول اللہ ہم پر القرآن کی تلاوت کرتے ہیں ، جو ہمارے لئے ناقابلِ تبدیل سُنّت ہو چکی ہے ۔ 
یعنی الکتاب ، کی تلاوت اور اُس پر عمل ۔ جو کہ اسوہءِ رسول اللہ ہے اور حسنہ ہے ۔ 

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا ﴿33:21
 
باقی تمام انسانوں کی سُنّت ، " غیر حسنہ " ہے ، وہ اِس لئے کہ کوئی بھی انسان ، رسول اللہ کے عملی مرتبے تک نہیں پہنچ سکتا ۔ نہ امامِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ، 

لیکن اِس کے باوجود اللہ نے اُسے میرے فہم کے مطابق  شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ  قرار دیا ہے ۔ تاکہ مِّلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا  کے لئے اتمامِ حجت نہ رہے !

وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ لِئَلاَّ يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلاَّ الَّذِينَ ظَلَمُواْ مِنْهُمْ فَلاَ تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ﴿2:150


پیر، 23 جنوری، 2017

Cancer Update from Johns Hopkins

Johns Hopkins Update

AFTER YEARS OF TELLING PEOPLE CHEMOTHERAPY IS THE ONLY WAY TO TRY ('TRY', BEING THE KEY WORD) TO ELIMINATE CANCER, JOHNS HOPKINS IS FINALLY STARTING TO TELL YOU THERE IS AN ALTERNATIVE WAY ..

Cancer Update from Johns Hopkins:

1. Every person has cancer cells in the body.. These cancer cells do not show up in the standard tests until they have multiplied to a few billion. When doctors tell cancer patients that there are no more cancer cells in their bodies after treatment, it just means the tests are unable to detect the cancer cells because they have not reached the detectable size.

2. Cancer cells occur between 6 to more than 10 times in a person's lifetime.

3. When the person's immune system is strong the cancer cells will be destroyed and prevented from multiplying and forming tumors.

4. When a person has cancer it indicates the person has nutritional deficiencies. These could be due to genetic, but also to environmental, food and lifestyle factors.

5. To overcome the multiple nutritional deficiencies, changing diet to eat more adequately and healthy, 4-5 times/day and by including supplements will strengthen the immune system.

6. Chemotherapy involves poisoning the rapidly-growing cancer cells and also destroys rapidly-growing healthy cells in the bone marrow, gastrointestinal tract etc., and can cause organ damage, like liver, kidneys, heart, lungs etc.

7. Radiation while destroying cancer cells also burns, scars and damages healthy cells, tissues and organs.

8. Initial treatment with chemotherapy and radiation will often reduce tumor size.
However prolonged use of chemotherapy and radiation do not result in more tumor destruction.

9.. When the body has too much toxic burden from chemotherapy and radiation the immune system is either compromised or destroyed, hence the person can succumb to various kinds of infections and complications.

10. Chemotherapy and radiation can cause cancer cells to mutate and become resistant and difficult to destroy. Surgery can also cause cancer cells to spread to other sites.

11. An effective way to battle cancer is to starve the cancer cells by not feeding it with the foods it needs to multiply.

*CANCER CELLS FEED ON:

a. Sugar substitutes like NutraSweet, Equal, Spoonful, etc. are made with Aspartame and it is harmful. A better natural substitute would be Manuka honey or molasses, but only in very small amounts. Table salt has a chemical added to make it white in color Better alternative is Bragg's aminos or sea salt.

b. Milk causes the body to produce mucus, especially in the gastro-intestinal tract. Cancer feeds on mucus.. By cutting off milk and substituting with unsweetened soy milk cancer cells are being starved.

c. Cancer cells thrive in an acid environment. A meat-based diet is acidic. Meat also contains livestock antibiotics, growth hormones and parasites, which are all harmful, especially to people with cancer.

d.. A diet made of 80% fresh vegetables and juice, whole grains, seeds, nuts and a little fruits help put the body into an alkaline environment. About 20% can be from cooked food including beans. Fresh vegetable juices provide live enzymes that are easily absorbed and reach down to cellular levels within 15 minutes to nourish and enhance growth of healthy cells. To obtain live enzymes for building healthy cells try and drink fresh vegetable juice (most vegetables including bean sprouts) and eat some raw vegetables 2 or 3 times a day. Enzymes are destroyed at temperatures of 104 degrees F (40 degrees C)..

e. Avoid coffee, tea, and chocolate, which have high caffeine Green tea is a better alternative and has cancer fighting properties. Water-best to drink purified water, or filtered, to avoid known toxins and heavy metals in tap water. Distilled water is acidic, avoid it.

12. Meat protein is difficult to digest and requires a lot of
digestive enzymes. Undigested meat remaining in the intestines becomes putrefied and leads to more toxic buildup.

13.. Cancer cell walls have a tough protein covering. By
refraining from meat it frees more enzymes to attack the protein walls of cancer cells and allows the
body's killer cells to destroy the cancer cells.

14. Some supplements build up the immune system
(IP6, Flor-ssence, Essiac, anti-oxidants, vitamins, minerals,
EFAs etc.) to enable the body's own killer cells to destroy cancer cells.. Other supplements like vitamin E are known to cause apoptosis, or programmed cell death, the body's normal method of disposing of damaged, unwanted, or unneeded cells.

15. Cancer is a disease of the mind, body, and spirit.

A proactive and positive spirit will help the cancer warrior
be a survivor. Anger, unforgiveness and bitterness put the body into a stressful and acidic environment. Learn to have a loving and forgiving spirit. Learn to relax and enjoy life.

16. Cancer cells cannot thrive in an oxygenated
environment. Exercising daily, and deep breathing help to
get more oxygen down to the cellular level. Oxygen therapy is another means employed to destroy cancer cells.

This is an article that should be sent to anyone important in your life...

A very informative article and should be circulated amongst all friends

مردم شماری اور قومی بیداری

  مہاجرزادوں کا مقدمہ - مردم شماری اور قومی بیداری ؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
میرا پچھلا مضمون ، مردم شماری یا مردم گمشدگی
 جو کلّی طور ایک معلوماتی و خبرداری مضمون تھا ، اُسے منافقین و مفسدین نے ، اپنی سوچ کے مطابق پڑھا اور مجھے پرسنل کمنٹ میں خوب سنائیں ۔ کئی منافقین نے بالا آیت کا آخری حصہ ( إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّـهِ أَتْقَاكُمْ ۚ )  لکھ کر ، چوٹ کی کہ اسلام کا دعویٰ کرتے ہو اور پاکستانیوں کو علاقائی و لسانی تعصب میں مبتلاء کر رہے ہو !
اُنہیں شائد یہ نہیں معلوم کہ  عَلِيمٌ خَبِيرٌ   کو نہ صرف میرے بلکہ اُن کے تقویٰ کا پتہ ہے ۔ نہیں معلوم تو اُس کمپیوٹر پروگرام کو جو مردم شماری کے اعداد و شمار بتائے گا ۔ جس کا خوابوں و خیالوں کی وحدانیت میں رہنے والوں کو شمّہ برابر بھی احساس نہیں ۔ کیوں ؟
کہ انہوں نے الکتاب کا نہیں اپنے آباء و عالموں کی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے ۔
٭ ۔  وہ ساری دنیا کو مسلمان کر کے ، اللہ کی کئی آیات کو باطل کرنے کی کوشش میں مگن ہیں ۔
٭ ۔  وہ ساری دنیا کو کھانا کھلا ، اللہ کی رزّاق  ہونے کے منصب کو باطل کر کے خود اِس منصب پر متمکّن ہونا چاہتے ہیں ۔
 
٭ ۔  وہ دولت جسے اللہ نے خالصتاً انسانی کسب بتایا ہے وہ " اپنی ضروت سے زائد " کا نعرہ مار کر اور خود عالی شان محلات کے مکین بننا چاھتے ہیں ۔

 ٭ ۔  وہ وراثت جس کی تقسیم کا نصاب خود اللہ نے ، قیامت تک لکھوادیا ہے ، اُسے اُن کے جائز وارثین سے محروم کرنا چاھتے ہیں

اب میں آتا ہوں 15 مارچ کو ہونے والی مردم شماری پر ، جہاں
نہ تقویٰ باعثِ کرامات بنے گا اور نہ مذھب ، کرامات اگر کسی نے دکھائی تو وہ زبان اور قومیت ہوگی ، کیوں کہ زبان و قومیت اللہ کی آیات ہیں:

وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّلْعَالِمِينَ ﴿30:22
 خلق السماوات اور الارض اور بولیوں اور رنگوں میں اختلاف 
اُس کی آیات ہیں ۔ صرف اُس میں العالمین کی آیات کے لئے ہیں ۔
زبان و قومیت کی بنیاد ۔ مردم شماری کے لئے اِس سندھی قومی بیداری فکر کی مہم پر غور کریں ۔ 
 
 ھوشیار خبردار
15 مارچ کان آدم شماري جو پهريو مرحلو شروع ٿي رهيو آھي.
مردم شماري فارم کي پھنجي سامھون پینسل سان نہ پر پوائنٹر پین سان پھنجي مڪمل تفصيل سان ڀريو.
ھي فارم صرف ھڪ فیملي یعني زال مڙس ۽ سندن اولاد لاء آھي
ھڪ گھر ۾ اگر 5 نڪاح پیل ڀاتي رھن ٿا تہ اھي 5خاندان لکبا نہ ڪي ھڪ
اکیون کولیو پاٹ لازمي ڳٹایو
اوھان جي ذات ڪھڙي بہ آھي پر لکرایو سنڌي ۽ گهر  ۾ ڀل ڪهڙي به ٻولي ڳالهايو پر ٻولي واري خاني ۾ صرف سنڌي لکرايو
(.هن پيغام کي پنهنجي سڀني نمبرز تائين پهچايو ڇاڪاڻ ته ان ۾ ئي اسانجي قوم جي بقا آهي .)

میری نظر میں یہ سندھی قوم کو معلومات فراہم کرنے کی اعلیٰ کوشش ہے ۔ تاکہ وہ سندھ میں ، خود اپنی غلطی ، سُستی یا اُن کے ہوشیار و بابصیرت افراد کی لاپرواہی کی وجہ سے اقلیت میں تبدیل نہ ہوجائیں ۔ 

توہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آئے ہوئے ، مہاجروں کو معلومات فراہم کرنا ، کیا تعصب کو ہوا دینا ہے ؟

ہوشیار خبردار مہاجرو ! تم جتنی بہترین علاقائی زبان بولو ، سندھی ٹوپی یا اجرک پہن کے بِھٹ شاہ پر ڈانس کرو ، اُس کے بادجود یہ ٹھپّہ تمھارے جسموں پر ثبت رہے گا ۔
تم خود کو ترکی النسل کہو یا پٹھان النسل یا راجپوتانہ کے قائم خانی یا بلوچ قبائل کا حصہ ، اگر تم گھروں میں اردو بولتے ہو تو تم کبھی سندھی، پٹھان یا بلوچ نہیں بن سکتے ،  کہلاؤ گے مہاجر ہی یا پھر میری طرح " مہاجر زادہ " ۔ 
اِس کے باوجود کہ مجھے پنجابی، پشتو اور فارسی آتی ہے۔ اگر میں نے خود کو پاکستانی لکھا تو میں قومیت کے جواربھاٹے میں نہ صرف خود ڈوبوں گا بلکہ مہاجر قوم کو بھی ڈبو دوں گا ۔
کیوں کہ مہاجر اب میری شناخت نہیں قوم ہے، میری فادری یا مادری زبان ، پنجابی ، سندھی ، بلوچی یا پٹھانی نہیں، اردو ہے ۔ اردو !
ہاں اگر میں افغانستان سے ہجرت کر کے آیا ہوتا تو ، پھر سب مجھے پٹھان ہی کہتے ، نادرا بھی مجھے روپے لے کر زمین کے بیٹے کا سرٹیفکیٹ دے دیتا، خواہ میں درّی پشتو بولتا یا افغان پشتو ، میں ایرانی بلوچستان کا مہاجر ہو کر بھی ، بلوچ ہی کہلاتا ۔
لیکن ہندوستان سے ہجرت کر کے ، میرے والدین پر ہندوستانی کا ٹھپہ چسپاں کر دیا گیا تھا ، جن دنوں میں یہ جملہ سنتا تھا ، " تم ہندوستانی ہو !" اُس وقت الطاف حسین بھی میری طرح کہنے والے کی طرف گھورتا ہوگا ۔
اور جب میں کہتا ،" نہیں میں پاکستانی ہوں "
اُس کی کھلکھلا کر ہنسنے اور زور سے ، " ہندُستوڑا ،

ہندُستوڑا " کہنے پر زمین سے پتھر اُٹھا کر اُسے مارتا اور گھر دوڑ آتا ۔

لیکن اب میں فخر کرتا ہوں ، کہ میرے ماں اور باپ نے پاکستان ہجرت کی اور پاکستان میں اُنہیں اور اُن کی اولاد کو جو عزت ملی وہ ، کسی سندھی ، بلوچی ، پنجابی یا پٹھان کی وجہ سے نہیں ، پاکستانی ہونے کی حیثیت سے ملی ۔
ورنہ سندھی ، پٹھان ، بلوچ اور پنجابی تو ہندوستان میں بھی ہیں اور پاکستان سے دُگنا ہیں ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 تو مہاجر قوم کے اردو بولنے والے مہاجرو اور مہاجروں کی اولادو (مہاجرزادو) !
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
٭۔   15 مارچ سے مردم شماری کا پہلا مرحلہ شروع ہو رہا ہے۔

٭۔    مردم شماری فارم اپنے سامنے بھریں اور پنسل سے نہ بھریں بلکہ پوائنٹر پین (یا بال پوائینٹ) سے مکمل تفصیلات بھریں ۔

٭۔    یہ فارم صرف ایک فیملی کے لئے ہے ، یعنی میاں ، بیوی اور اُن کے (غیر شادی شدہ ) بچوں کے لئے ۔

٭۔   ایک گھر میں اگر 5 شادی شدہ افراد اور اُن کے بچے رہتے ہوں ، تو 5 فارم الگ لے کر بھریں ۔ ایک ہی فارم میں سب کے نام نہیں لکھنا ۔
 ٭۔   مردم شماری کرنے والوں کو تمام  افراد اُن سے سامنے گنوانا ۔
٭۔   آپ کی ذات ، برادری کچھ بھی ہو۔ لیکن آپ مہاجر قوم ہو ! 
٭۔   گھر میں کون سی بولی بولتے ہو ؟ اردو  
 
نوٹ: یاد رہے ، کہ قومیت کے حساب سے مردم شماری میں کمپیوٹر بس یہی دو الفاظ اٹھائے گا ۔
1- قوم کون سی ہے ؟
2- گھر میں زبان کیا بولتے ہو ؟

(قائم خانی ، بلوچی ، درانی ، یوسف زئی ، مشرقی پنجابی ، کاٹھیا واڑی ، گجراتی وغیرہ مہاجروں کو اقلیت میں تقسیم کر دیں گے - یہ ہجرت کرنے والی انگلیاں ہیں ۔ مگر اِن کے اتحاد سے بننے والا " مُکہ " مہاجر قومیت کہلائے گا )

مہاجر قوم کی بقاء کے لئے، یہ پیغام سب مہاجروں اورمہاجروں کی اولادو (مہاجر زادو) تک پہنچائیں ۔ شکریہ  
 
 

اتوار، 22 جنوری، 2017

ٹوبہ ٹیک سنگھ ۔ منٹو افسانے


بٹوارے کے دو تین سال بعد پاکستان اور ہندوستان کی حکومتوں کو خیال آیا کہ اخلاقی قیدیوں کی طرح پاگلوں کا تبادلہ بھی ہونا چاہئے یعنی جو مسلمان پاگل ، ہندوستان کے پاگل خانوں میں ہیں انہیں پاکستان پہنچا دیا جائے اور جو ہندو اور سکھ پاکستان کے پاگل خانوں میں ہیں انہیں ہندوستان کے حوالے کر دیا جائے-
معلوم نہیں یہ بات معقول تھی یا غیر معقول ، بہر حال دانش مندوں کے فیصلے کے مطابق ادھر ادھر اونچی سطح کی کانفرنسیں ہوئیں ، اور با‌لاخر ایک دن پاگلوں کے تبادلے کے لئے مقرّر ہو گیا۔ اچّھی طرح چھان بین کی گئی ۔ وہ مسلمان پاگل جن کے لواحقین ہندوستان ہی میں تھے۔ وہیں رہنے دیئے گئے تھے ۔ جو باقی تھے ان کو سرحد پر روانہ کر دیا گیا۔ یہاں پاکستان میں چونکہ قریب قریب تمام ہندو سکھ جا چکے تھے۔اس لئے کسی کو رکھنے رکھانے کا سوال ہی نہ پیدا ہوا۔جتنے ہندو سکھ پاگل تھے ۔ سب کے سب پولیس کی حفاظت میں بارڈر پر پہنچا دیئے گئے۔
اُدھر کا معلوم نہیں۔ لیکن اِدھر لاہور کے پاگل خانے میں جب اس تبادلے کی خبر پہنچی تو بڑی دلچسپ چہ مگوئیاں ہونے لگیں۔
ایک مسلمان پاگل جو بارہ برس سے ہر روز با قائدگی کے ساتھ " زمیندار " پڑھتا تھا اس سے جب اس کے ایک دوست نے پوچھ۔
" مولبی ساب ، یہ پاکستان کیا ہوتا ہے "
تو اس نے بڑے غور و فکر کے بعد جواب دیا،" ہندوستان میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں استرے بنتے ہیں " 

یہ جواب سن کر اس کا دوست مطمئن ہو گیا _
اسی طرح ایک سکھ پاگل نے ایک دوسرے سکھ پاگل سے پوچھا،" سردار جی ہمیں ہندوستان کیوں بھیجا جا رہا ہے ہمیں تو وہاں کی بولی نہیں آتی " 
دوسرا مسکرایا ،" مجھے تو ہندوستوڑوں کی بولی آتی ہے ہندوستانی بڑے شیطانی آکڑ آکڑ پھرتے ہیں "
ایک دن نہاتے نہاتے ایک مسلمان پاگل نے " پاکستان زندہ باد " کا نعرہ اس زور سے بلند کیا کہ فرش پر پھسل کر گرا اور بیہوش ہو گیا۔
بعض پاگل ایسے بھی تھے جو پاگل نہیں تھے۔ ان میں اکثریت ایسے قاتلوں کی تھی جن کے رشتہ داروں نے افسروں کو دے دلا کر پاگل خانے بھجوا دیا تھا کہ پھانسی کے پھندے سے بچ جائیں۔ یہ کچھ کچھ سمجھتے تھے کہ ہندوستان کیوں تقسیم ہوا ہے اور یہ پاکستان کیا ہے۔ لیکن صحیح واقعات سے یہ بھی بے خبر تھے۔ 


 اخباروں سے کچھ پتا نہیں چلتا تھا اور پہرہ دار سپاہی انپڑھ اور جاہل تھے۔ ان کی گفتگو سے بھی وہ کوئی نتیجہ برآمد نہیں کر سکتے تھے۔ ان کو صرف اتنا معلوم تھا کہ ایک آدمی محمّد علی جناح ہے جس کو قائدِ اعظم کہتے ہیں،اس نے مسلمانوں کے لئے ایک علیٰحدہ ملک بنایا ہے جس کا نام پاکستان ہے۔ یہ کہاں ہے ، اس کا محلِّ وقوع کیا ہے ۔ اس کے متعلّق وہ کچھ نہیں جانتے تھے۔
 یہی وجہ ہے کہ پاگل خانے میں وہ سب پاگل جن کا دماغ پوری طرح ماؤف نہیں ہوا تھا اس مخمصے میں گرفتار تھے کہ وہ پاکستان میں ہیں یا ہندوستان میں ، اگر ہندوستان میں ہیں تو پاکستان کہاں ہے؟ اگر وہ پاکستان میں ہیں تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ کچھ عرصہ پہلے یہیں رہتے ہوئے بھی ہندوستان میں تھے؟
ایک پاگل تو پاکستان اور ہندوستان ، اور ہندوستان اور پاکستان کے چکّر میں کچھ ایسا گرفتار ہوا کہ اور زیادہ پاگل ہو گیا ۔ جھاڑو دیتے دیتے ایک دن درخت پر چڑھ گیا اور ٹہنے پر بیٹھ کر دو گھنٹے مسلسل تقریر کرتا رہا جو پاکستان اور ہندوستان کے نازک مسئلے پر تھی۔ سپاہیوں نے اسے نیچے اترنے کو کہا تو وہ اور اوپر چڑھ گیا ، ڈرایا دھمکایا گیا تو اس نے کہا ،
" میں ہندوستان میں رہنا چاہتا ہوں نہ پاکستان میں۔ میں اس درخت ہی پر رہونگا " 

 بڑی مشکلوں کے بعد جب اس کا دورہ سرد پڑا تو وہ نیچے اترا اور اپنے ہندو سکھ دوستوں سے گلے مل مل کر رونے لگا۔ اس خیال سے اس کا دل بھر آیا تھا کہ وہ اسے چھوڑ کر ہندوستان چلے جائیں گے۔
ایک ایم ایس سی پاس ریڈیو انجینئر جو مسلمان تھا اور دوسرے پاگلوں سے با‌لکل الگ تھلگ باغ کی ایک خاص روش پر سارا دن خاموش ٹہلتا رہتا تھا یہ تبدیلی نمودار ہوئی کہ اس نے تمام کپڑے اتار کر دفعدار کے حوالے کر دئے اور ننگ دھڑنگ سارے باغ میں چلنا پھرنا شروع کر دی۔
چنیوٹ کے ایک موٹے مسلمان پاگل نے جو مسلم لیگ کا سر گرم کارکن رہ چکا تھا اور دن میں پندرہ سولہ مرتبہ نہایا کرتا تھا یک لخت یہ عادت ترک کر دی ۔ اس کا نام محمّد علی تھا۔ چنانچہ اس نے ایک دن اپنے جنگلے میں اعلان کر دیا کہ وہ قائدِ اعظم محمّد علی جنّاح ہے ۔ اس کی دیکھا دیکھی ایک سکھ پاگل ماسٹر تارا سنگھ بن گیا ۔ قریب تھا کہ اس جنگلے میں خون خرابہ ہو جائے مگر دونوں کو خطرناک پاگل قرار دے کر علیحدہ علیحدہ بند کر دیا گیا۔
لاہور کا ایک نوجوان ہندو وکیل تھا جو محبّت میں نا کام ہو کر پاگل ہو گیا تھا۔ جب اس نے سنا کہ امرتسر ہندوستان میں چلا گیا ہے تو اسے بہت دکھ ہوا ۔اسی شہر کی ایک ہندو لڑکی سے اسے محبّت ہو گئی تھی ۔ گو اس نے اس وکیل کو ٹھکرا دیا تھا مگر دیوانگی کی حالت میں بھی وہ اس کو نہیں بھولا تھا۔ چنانچہ ان تمام ہندو اور مسلم لیڈروں کو گالیاں دیتا تھا جنہوں نے مل ملا کر ہندوستان کے دو ٹکڑے کر دئےاس کی محبوبہ ہندوستانی بن گئی اور وہ پاکستانی۔
جب تبادلے کی بات شروع ہوئی تو وکیل کو کئی پاگلوں نے سمجھایا کہ وہ دل برا نہ کرے۔ اس کو ہندوستان بھیج دیا جائیگا۔ اس ہندوستان میں جہاں اس کی محبوبہ رہتی ہے _ مگر وہ لاہور چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ اس لئے کہ اس کا خیال تھا کہ امرتسر میں اس کی پریکٹس نہیں چلے گی۔
یوروپین وارڈ میں دو اینگلو انڈین پاگل تھے ۔ ان کو جب معلوم ہوا کہ ہندوستان کو آزاد کر کے انگریز چلے گئے ہیں، تو ان کو بہت صدمہ ہوا۔ وہ چھپ چھپ کر گھنٹوں آپس میں اس اہم مسئلے پر گفتگو کرتے رہتے کہ پاگل خانے میں ان کی حیثیت کس قسم کی ہوگی ؟  یوروپین وارڈ رہے گا یا اُڑا دیا جائےگا، بریک فاسٹ ملا کرےگا یا نہیں، کیا انہیں ڈبل روٹی کے بجائے بلڈی انڈین چپاٹی تو زہر مار نہیں کرنا پڑےگی۔
ایک سکھ تھا جس کو پاگل خانے میں داخل ہوئے پندرہ برس ہو چکے تھے ۔ ہر وقت اس کی زبان سے یہ عجیب و غریب الفاظ سننے میں آتے تھے ۔
" اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف دی لالٹین"
دن کو سوتا تھا نہ رات کو، پہرہ داروں کا یہ کہنا تھا کہ پندرہ برس کے طویل عرصے میں وہ ایک لحظے کے لئے بھی نہیں سویا، لیٹتا بھی نہیں تھا ، البتّہ کبھی کبھی کسی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لیتا تھا ۔

ہر وقت کھڑے رہنے سے اس کے پاؤں سوج گئے تھے، پنڈلیاں بھی پھول گئی تھیں ، مگر اس جسمانی تکلیف کے با وجود لیٹ کر آرام نہیں کرتا تھا،
 ہندوستان ، پاکستان اور پاگلوں کے تبادلے کے متعلّق جب کبھی پاگل خانے میں گفتگو ہوتی تھی تو وہ غور سے سنتا تھا ، کوئی اس سے پوچھتا کہ اس کا کیا خیال ہے تو وہ بڑی سنجیدگی سے جواب دیتا،
" اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی مونگ دی دال آف دی پاکستان گورنمنٹ "

لیکن بعد میں " آف دی پاکستان گورنمنٹ " کی جگہ " آف دی ٹوبہ ٹیک سنگھ گورنمنٹ " نے لے لی اور اس نے دوسرے پاگلوں سے پوچھنا شروع کیا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے جہاں کا وہ رہنے والا ہے ،  لیکن کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں ،  جو بتانے کی کوشش کرتے تھے وہ خود اس الجھاؤ میں گرفتار ہو جاتے تھے کہ سیالکوٹ پہلے ہندوستان میں ہوتا تھا پر اب سنا ہے کہ پاکستان میں ہے ،
کیا پتا ہے کہ لاہور جو اب پاکستان میں ہے کل ہندوستان میں چلا جائے یا سارا ہندوستان ہی پاکستان بن جائے اور یہ بھی کون سینے پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں کسی دن سرے سے غائیب ہی ہو جائیں۔
اس سکھ پاگل کے کیس چھدرے ہو کے بہت مختصر رہ گئے تھے۔ چونکہ بہت کم نہاتا تھا اس لئے ڈاڑھی اور سر کے بال آپس میں جم گئے تھے ۔ جن کے باعث اس کی شکل بڑی بھیانک ہو گئی تھی ۔ مگر آدمی بے ضرر تھا ۔ پندرہ برسوں میں اس نے کبھی کسی سے جھگڑا فساد نہیں کیا تھا ۔ پاگل خانے کے جو پرانے ملازم تھے وہ اس کے متعلّق اتنا جانتے تھے کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں اس کی کئی زمینیں تھیں۔ اچّھا کھاتا پیتا زمین دار تھا کہ اچانک دماغ الٹ گیا ۔ اس کے رشتہ دار لوہے کی موٹی موٹی زنجیروں میں اسے باندھ کر لائے اور پاگل خانے میں داخل کرا گئے۔

مہینے میں ایک بار ملاقات کے لئے یہ لوگ آتے تھے اور اس کی خیر خیریت دریافت کر کے چلے جاتے تھے ۔ایک مدّت تک یہ سلسلہ جاری رہا ۔ پر جب پاکستان ، ہندستان کی گڑبڑ شروع ہوئی تو ان کا آنا بند ہو گیا۔
اس کا نام بشن سنگھ تھا مگر سب اسے ٹوبہ ٹیک سنگھ کہتے تھے۔ اس کو قطعاً معلوم نہیں تھا کہ دن کون سا ہے ، مہینہ کون سا ہے ، یا کتنے سال بیت چکے ہیں ۔ لیکن ہر مہینے جب اس کے عزیز و اقارب اس سے ملنے کے لئے آتے تھے تو اسے اپنے آپ پتا چل جاتا تھا ۔ چنانچہ وہ دفعدار سے کہتا کہ اس کی ملاقات آ رہی ہے۔ اس دن وہ اچّھی طرح نہاتا ، بدن پر خوب صابن گھستا اور سر میں تیل لگا کر کنگھا کرتا ، اپنے کپڑے جو وہ کبھی استعمال نہیں کرتا تھا نکلوا کے پہنتا اور یوں سج بن کر ملنے والوں کے پاس جاتا، وہ اس سے کچھ پوچھتے تو وہ خاموش رہتا یا کبھی کبھار " اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی مونگ دی دال آف دی لالٹین " کہہ دیتا۔
اس کی ایک لڑکی تھی جو ہر مہینے ایک انگلی بڑھتی بڑھتی پندرہ برسوں میں جوان ہو گئی تھی۔ بشن سنگھ اس کو پہچانتا ہی نہیں تھا ۔وہ بچّی تھی جب بھی اپنے باپ کو دیکھ کر روتی تھی ، جوان ہوئی تب بھی اس کی آنکھوں سے آنسو بہتے تھے۔

پاکستان اور ہندوستان کا قصّہ شروع ہوا تو اس نے دوسرے پاگلوں سے پوچھنا شروع کیا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے ، جب اطمینان بخش جواب نہ ملا تو اس کی کرید دن بدن بڑھتی گئی ، اب ملاقات بھی نہیں آتی تھی ، پہلے تو اسے اپنے آپ پتہ چل جاتا تھا کہ ملنے والے آ رہے ہیں ، پر اب جیسے اس کے دل کی آواز بھی بند ہو گئی تھی جو اسے ان کی آمد کی خبر دے دیا کرتی تھی۔
اس کی بڑی خواہش تھی کہ وہ لوگ آئیں جو اس سے ہم دردی کا اظہار کرتے تھے اور اس کے لئے پھل ، مٹھائیاں اور کپڑے لاتے تھے، وہ اگر ان سے پوچھتا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے تو وہ یقیناً اسے بتا دیتے کہ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں، کیونکہ اس کا خیال تھا کہ وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ ہی سے آتے ہیں جہاں اس کی زمینیں ہیں۔
پاگل خانے میں ایک پاگل ایسا بھی تھا جو خود کو خدا کہتا تھا، اس سے جب ایک روز بشن سنگھ نے پوچھا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں ، تو اس نے حسبِ عادت قہقہہ لگایا اور کہا ،" وہ پاکستان میں ہے نہ ہندوستان میں ، اس لئے کہ ہم نے ابھی تک حکم نہیں دیا " 
بشن سنگھ نے اس خدا سے کئی مرتبہ بڑی منّت سماجت سے کہا کہ وہ حکم دے دے تاکہ جھنجھٹ ختم ہو مگر وہ بہت مصروف تھا اسلئے کہ اسے اور بے شمار حکم دینے تھے _ ایک دن تنگ آ کر وہ اس پر برس پڑا،
" اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف واہے گورو جی دا خالصہ اینڈ واہے گورو جی کی فتح جو بولے سو نہال ، ست سری اکال " 
اس کا شاید یہ مطلب تھا کہ تم مسلمانوں کے خدا ہو سکھوں کے خدا ہوتے تو ضرور میری سنتے ۔
تبادلے سے کچھ دن پہلے ٹوبہ ٹیک سنگھ کا ایک مسلمان جو اس کا دوست تھا ملاقات کے لئے آیا ، پہلے وہ کبھی نہیں آیا تھا، جب بشن سنگھ نے اسے دیکھا تو ایک طرف ہٹ گیا اور واپس جانے لگا ۔ مگر سپاہیوں نے اسے روکا ، " یہ تم سے ملنے آیا ہے تمہارا دوست فضل دین ہے " 
بشن سنگھ نے فضل دین کو ایک نظر دیکھا اور کچھ بڑبڑانے لگا، فضل دین نے آگے بڑھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا ،" میں بہت دنوں سے سوچ رہا تھا کہ تم سے ملوں لیکن فرصت ہی نہ ملی تمہارے سب آدمی خیریت سے ہندوستان چلے گئے تھے مجھ سے جتنی مدد ہو سکی ، میں نے کی۔ تمہاری بیٹی روپ کور . . . . "

وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا، بشن سنگھ کچھ یاد کرنے لگا،" بیٹی روپ کور " 
فضل دین نے رک رک کر کہا ،" ہاں . . . . وہ . . . . وہ بھی ٹھیک ٹھاک ہے۔۔۔ان کے ساتھ ہی چلی گئی تھی " 
بشن سنگھ خاموش رہا، فضل دین نے کہنا شروع کیا،
" انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ تمہاری خیر خیریت پوچھتا رہوں۔ اب میں نے سنا ہے کہ تم ہندوستان جا رہے ہو۔ بھائی بلبیسر سنگھ اور بھائی ودھاوا سنگھ سے میرا سلام کہنا-اور بہن امرت کور سے بھی . . . . بھائی بلبیسر سے کہنا ، فضل دین راضی خوشی ہے۔ وہ بھوری بھینسیں جو وہ چھوڑ گئے تھے، ان میں سے ایک نے کٹّا دیا ہے ۔ دوسری کے کٹّی ہوئی تھی پر وہ چھہ دن کی ہو کے مر گئی . . . . اور . . . . میری لائق جو خدمت ہو ، کہنا ، میں ہر وقت تیار ہوں . . . . اور یہ تمہارے لئے تھوڑے سے مرونڈے لایا ہوں " _
بشن سنگھ نے مرونڈوں کی پوٹلی لے کر پاس کھڑے سپاہی کے حوالے کر دی اور فضل دین سے پوچھا _ "ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے؟ " 

فضل دین نے قدرے حیرت سے کہا ، " کہاں ہے؟ وہیں ہے جہاں تھا " 
بشن سنگھ نے پھر پوچھا _ " پاکستان میں یا ہندوستان میں ؟ "
" ہندوستان میں نہیں نہیں پاکستان میں " ، فضل دین بوکھلا سا گیا _
بشن سنگھ بڑبڑاتا ہوا چلا گیا، " اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف دی آف دی پاکستان اینڈ ہندوستان آف دی دور فٹے منہ ! ،،
تبادلے کے تیاریاں مکمّل ہو چکی تھیں، ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر آنے والے پاگلوں کی فہرستیں پہنچ گئی تھیں اور تبادلے کا دن بھی مقرّر ہو چکا تھا ۔

سخت سردیاں تھیں جب لاہور کے پاگل خانے سے ہندو سکھ پاگلوں سے بھری ہوئی لاریاں پولیس کے محافظ دستے کے ساتھ روانہ ہوئیں، متعلّقہ افسر بھی ہمراہ تھے ، واہگہ کے بورڈر پر طرفین کے سپرنٹندنٹ ایک دوسرے سے ملے اور ابتدائی کاروائی ختم ہونے کے بعد تبادلہ شروع ہو گیا جو رات بھر جاری رہا۔
پاگلوں کو لاریوں سے نکالنا اور دوسرے افسروں کے حوالے کرنا بڑا کٹھن کام تھا ۔ بعض تو باہر نکلتے ہی نہیں تھے ۔جو نکلنے پر رضا مند ہوتے تھے۔ان کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا تھا۔ کیونکہ ادھر ادھر بھاگ اٹھتے تھے ، جو ننگے تھے ان کو کپڑے پہنائے جاتے تو وہ پھاڑ کر اپنے تن سے جدا کر دیتے۔ کوئی گالیاں بک رہا ہے ۔ کوئی گا رہا ہے۔آپس میں لڑ جھگڑ رہے ہیں ۔ رو رہے ہیں ، بلک رہے ہیں ۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ پاگل عورتوں کا شور و غوغا الگ تھا اور سردی اتنی کڑاکے کی تھی کہ دانت سے دانت بج رہے تھے ۔
پاگلوں کی اکثریت اس تبادلے کے حق میں نہیں تھی ۔ اسلئے کہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ انہیں اپنی جگہ سے اکھاڑ کر کہاں پھینکا جا رہا ہے ۔ وہ چند جو کچھ سوچ سمجھ سکتے تھے " پاکستان زندہ باد " اور " پاکستان مردہ باد " کے نعرے لگا رہے تھے۔ دو تین مرتبہ فساد ہوتے ہوتے بچا ، کیونکہ بعض مسلمانوں اور سکھوں کو یہ نعرے سن کر طیش آ گیا تھا۔
جب بشن سنگھ کی باری آئی اور واہگہ کے اس پار متعلّقہ افسر اس کا نام رجسٹر میں درج کرنے لگا تو اس نے پوچھا ، " ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے؟ پاکستان میں یا ہندوستان میں ؟ "

معتلّقہ افسر ہنسا، " پاکستان میں "
یہ سن کر بشن سنگھ اچھل کر ایک طرف ہٹا اور دوڑ کر اپنے باقی ماندہ ساتھیوں کے پاس پہنچ گیا، پاکستانی سپاہیوں نے اسے پکڑ لیا اور دوسری طرف لے جانے لگے ، مگر اس نے چلنے سے انکار کر دیا۔
"ٹوبہ ٹیک سنگھ یہاں ہے " اور زور زور سے چلّانے لگا۔
" اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف ٹوبہ ٹیک سنگھ اینڈ پاکستان " 
اسے بہت سمجھایا گیا کہ دیکھو اب ٹوبہ ٹیک سنگھ ہندوستان میں چلا گیا ہے۔اگر نہیں گیا تو اسے فوراً وہاں بھیج دیا جائیگا۔مگر وہ نہ مانا۔جب اس کو زبردستی دوسری طرف لے جانے کی کوشش کی گئی تو وہ درمیان میں ایک جگہ اس انداز میں اپن سوجی ہوئی ٹانگوں پر کھڑا ہو گیا جیسے اب اسے کوئی طاقت وہاں سے نہیں ہلا سکے گی۔
آدمی چونکہ بے ضرر تھا اس لئے اس سے مزید زبردستی نہ کی گئی ، اس کو وہیں کھڑا رہنے دیا گیا اور تبادلے کا باقی کام ہوتا رہا۔
سورج نکلنے سے پہلے ساکت و صامت بشن سنگھ کے حلق سے ایک فلک شگاف چیخ نکلی۔ اُدھر اِدھر سے کئی افسر دوڑے آئے اور دیکھا کہ وہ آدمی جو پندرہ برس تک دن رات اپنی ٹانگوں پر کھڑا رہا ، اوندھے منہ لیٹا ہے۔ ادھر خاردار تاروں کے پیچھے ہندوستان تھا ادھر ویسے ہی تاروں کے پیچھے پاکستان ۔ درمیان میں زمین کے اس ٹکڑے پر جس کا کوئ نام نہیں تھا ، ٹوبہ ٹیک سنگھ پڑا تھا۔


سعادت حسن منٹو

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔