Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعہ، 12 ستمبر، 2014

اشعارِ غیر کی شمولیت ، نامہ ءِ اقبال میں !



آصف بھائی : معذرت کے ساتھ ، میں علامہ میں اتھارٹی نہیں ، لیکن یہ شعر فیس بُک کی  تلاطم خیزموجوں پر اُچھلتا کُودتا میرے پاس آیا تو میں نے بھی بطور پوسٹ ماسٹر  ، فورم پر ارسال کر دیا ۔
" کیوں کہ ، نقل ، کُفر ، کُفر نہ باشد"
آپ کی توجہ پر ، آپ کی تصحیح کے ساتھ حاضر ہے-

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اشعارِ غیر کی شمولیت نامہءِ اقبال میں
 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کیلئے
  سید صادق حسین

اسلام کے دامن میں اور اِس کے سِوا کیا ہے
اک ضرب یَدّ اللہی، اک سجدہِ شبیری
  وقار انبالوی

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
  ظفرعلی خان

قتل حسین اصل میں مرگ یزید ھے
اسلام زندہ ھوتا ہےہر کربلا کے بعد۔
مولانہ محمد علی جوہر

 درج ذیل اشعار ، کئی نامعلوم افراد کی کاوش ہیں ۔ جو تقاریر میں پڑھے جاتے ہیں ۔
 
عشق قاتل سے بھی مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا؟
سجدہ خالق کو بھی ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟
(نامعلوم)

تِری رحمتوں پہ ہے منحصر میرے ہر عمل کی قبولیت

نہ مجھے سلیقہِ التجا، نہ مجھے شعورِ نماز ہے
 (نامعلوم)

سجدوں کے عوض فردوس مِلے، یہ بات مجھے منظور نہیں

بے لوث عبادت کرتا ہوں، بندہ ہُوں تِرا، مزدور نہیں
  (نامعلوم)

پوچھتے کیا ہو مذہبِ اقبال
یہ گنہگار بو ترابی ہے
(نامعلوم)

وہ روئیں جو منکر ہیں شہادتِ حسین کے
ہم زندہ وجاوید کا ماتم نہیں کرتے

(نامعلوم)
 
بیاں سِرِ شہادت کی اگر تفسیر ہو جائے
مسلمانوں کا کعبہ روضہء شبیر ہو جائے

 (نامعلوم)

نہ عشقِ حُسین، نہ ذوقِ شہادت
غافل سمجھ بیٹھا ہے ماتم کو عبادت

(نامعلوم)

کیوں منتیں مانگتا ہے اوروں کے دربار سے اقبال
وہ کون سا کام ہے جو ہوتا نہیں تیرے پروردگار سے؟
(نامعلوم)

 تیرے سجدے کہیں تجھے کافر نہ کر دیں اقبال
تُو جُھکتا کہیں اور ہے اور سوچتا کہیں اور ہے!
(نامعلوم)

دل پاک نہیں ہے تو پاک ہو سکتا نہیں انساں

ورنہ ابلیس کو بھی آتے تھے وضو کے فرائض بہت

 (نامعلوم)

مسجد خدا کا گھر ہے، پینے کی جگہ نہیں
کافر کے دل میں جا، وہاں خدا نہیں

 (نامعلوم)

کرتے ہیں لوگ مال جمع کس لئے یہاں اقبال
سلتا ہے آدمی کا کفن جیب کے بغیر
(نامعلوم)

میرے بچپن کے دِن بھی کیا خوب تھے اقبال

بے نمازی بھی تھا، بے گناہ بھی

 (نامعلوم)

وہ سو رہا ہے تو اُسے سونے دو اقبال
ہو سکتا ہے غلامی کی نیند میں وہ خواب آزادی کے دیکھ رہا ہو

(نامعلوم)

گونگی ہو گئی آج زباں کچھ کہتے کہتے
ہچکچا گیا میں خود کو مسلماں کہتے کہتے
یہ سن کہ چپ سادھ لی اقبال اس نے
یوں لگا جیسے رک گیا ہو مجھے حیواں کہتے کہتے
 
(نامعلوم)

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ہر انسان  تعلیم یافتہ بطرفِ مکتب  یا غیر مکتب ، کے  تحت الشعور  میں ، نثر و اشعار    کا ایک سمندر موجِ زن ہے  ،  کسی گفتگو، مجادلہ ، رومانی کیفیت  یا طنزیہ گفتگو کے دوران  ، اَن ہونی سے ہونی بن جاتا ہے ۔ یہ سب اُس کے ارد گرد  وقوع پذیر حالات  کا نتیجہ ہے ۔
چنانچہ  شاعر بھی ،  اپنے ارد گرد موجود حالات کی بنیاد پر شاعری کرتا ہے ، جو  اُن کم زور لوگوں میں مقبول ہوتی ہے  ، جو خواب جزیروں کی طلسماتی کی دنیا میں رہنے پر کمر بستہ  ہوتے ہیں یا عمرِ رفتہ میں ہو جاتے ہیں ۔ یہ کمزور الذہن  بھی   اپنی چیدہ چیدہ ، شاعرانہ پھلجھڑیوں سے دوسرے کمزور الذہن انسانوں کو مسحور کرتے ہیں ، رفتہ رفتہ یہ اشعار   قصہ خوانی بازاروں میں مقبولِ عام ہوکر مرجعُ الخلائق کا درجہ پاتے ہیں ،
یا کسی شاعر سے عشق ہونے کے سبب ، مسحور انسان بھی اُسی شاعر کی زمین میں اپنی متشابھات   ، کے اشعار بونا شروع کر دیتا ہے ۔ جو بلآخر بلاشرکت غیرے پہلے کی ملکیت تصّور کروا کر ، اُن اشعار کو  " خشب مسندہّ " پر متمکن کروا  دیتے ہیں  (مہاجرزادہ)

وہ عِشق جو ہم سے رُوٹھ گیا

وہ عِشق جو ہم سے رُوٹھ گیا، اب اس کا حال بتائیں کیا

کوئی مہر نہیں کوئی قہر نہیں پھر سچا شعر سنائیں کیا

اِک ہِجر جو ہم کو لاحق ہے تا دیر اسے دہرائیں کیا
وہ زہر جو دِل میں اتار لیا پھر اس کے ناز اُٹھائیں کیا

پھر آنکھیں لہو سے خالی ہیں یہ شمعیں بجھنے والی ہیں
ہم خُود بھی کسی کے سوالی ہیں اس بات پہ ہم شرمائیں کیا

اِک آگ غمِ تنہائی کی جو سارے بدن میں پھیل گئی
جب جسم ہی سارا جلتا ہو پھر دامنِ دل کو بچائیں کیا

ہم نغمہ سرا کچھ غزلوں کے ہم صُورت گر کچھ چہروں کے
بے جذبۂ شوق سنائیں کیا کوئی خواب نہ ہو تو بتائیں کیا


شاعر اطہر نفیس

بدھ، 10 ستمبر، 2014

ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی​


مرا نصیب ہوئیں تلخیاں زمانے کی
کسی نے خوب سزا دی ہے مسکرانے کی
مرے خدا مجھے طارق کا حوصلہ ہو عطا
ضرورت آن پڑی کشتیاں جلانے کی
میں دیکھتا ہوں ہر اک سمت پنچھیوں کا ہجوم
الٰہی خیر ہو صیاد کے گھرانے کی
قدم قدم پہ صلیبوں کے جال پھیلا دو
کہ سرکشی کو تو عادت ہے سر اُٹھانے کی
شریکِ جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی
ہزار ہاتھ گریباں تک آ گئے ازہر​ؔ
ابھی تو بات چلی بھی نہ تھی زمانے کی
( ازہر  درانی)


پیر، 8 ستمبر، 2014

الیکشن کمیشن زندہ باد

ڈیرہ اسماعیل خان کی صوبائی سیٹ پر ضمنی انتخاب میں احتشام جاوید کی کامیابی پر پی ٹی آئی  کی خوشی یقیناً قابلِ دید ہے ۔ پی ٹی آئی کی قیادت نے دل سے تو تسلیم کر لیا ہے کہ ، خرابی الیکشن کمیشن آف پاکستان میں نہیں پی ٹی آئی کی قیادت میں ہے ، جس نے ایسے ایسے چلے ہوئے کارتوسوں کو تیار کیا اور انہیں  ایسی بندوق سے چلایا ، کہ جسے مختلف کمپنیوں کے پرزے لگا کر تیار کیا گیا ہو لیکن تھوڑے نمک برابر سچ کو آٹے میں ملا کر  برف کی آگ پر نان بنانے والوں نے ،  اتنا پرپیگنڈا کیاکہ عمران  خان نیازی نے خود کو مستقبل کا وزیر اعظم سمجھنا شروع کردیا ،  ہر اُس امیر خاندان کا بچہ جسے انٹر نیٹ پر رسائی حاصل تھی اُس نے کم از کم دس سے زیادہ فیس بک پر اکاونٹ بنائے ، یوں فیس بک پر ایسی ٹڈیوں کی بہتات ہو گئی جسے اپنے موت آپ مر جانا تھا
پاکستان میں سیاست  میں گھوڑے پالے جاتے ہیں اور اُن کو تیار کیا جاتا ہے ، لیکن اگر گھوڑا مطلوبہ میعار کا نہ نکلے تو   گھوڑا خرید لیا جاتا ہے ۔  یہ خرید و فرخت بڑی دلچسپ ہوتی ہے ۔ بس یوں سمجھو ،  Beg, Borrow or Steal  کے قانون سے ملتا جلتا قانون چلتا ہے ۔
پنجاب کے حلقہ پی پی - 162  شیخو پورہ میں کیوں کہ جیتنے کا امکان کم تھا لہذا وہاں الیکشن کمیشن آف پاکستان  پی ٹی آئی کے امیدوار زبیر رسول سیہول   کے لئے قابلِ اعتبار نہ تھا لیکن یہی کمیشن پی کے 68 ڈیرہ اسماعیل خان کے لئے قابلِ اعتبار ٹہرا کیوں ؟
جاوید اکبرخان
، پی کے 68 ڈیرہ اسماعیل خان-V،  پچھلے چار الیکشن میں اسی سیٹ سے جیتے یہ احتشام  خان کے والدہیں ۔ جن میں دو دفعہ  جاوید اکبر خان نے مسلم لیگ سے ٹکٹ لیا اور دو بار آزاد امیدوار کے طور پر  ، جمیعت علمائے اسلام (ف) کی مدد سے جیتے ۔یہ اِن کی خاندانی سیٹ ہے  اور خاندانی سیاست کس پارٹی میں نہیں ۔
جاوید اکبر خان ، بدقسمتی سے گریجوئیٹ نہیں ہیں ۔ لہذا وہ 2002 میں عالم فاضل کے طور پر ایمان تقویٰ اور جھاد فی سبیل اللہ کے کانٹوں سے لیس ہو کر مدرسے کی سند گریجوشن کی ڈھال لے کر کارزارِ سیاست میں کودے ، لیکن ناکام ہوئے ۔ کیوں  ؟ شاید
پی کے 68 ڈیرہ اسماعیل خان والے جاوید اکبر کے قول و فعل کے تضاد کو پہچان گئے ۔ اور یہ کامیاب نہ ہوسکے ۔
2008 میں گریجوئیٹ ، احتشام  جاوید اکبر خان نے والد کی کھوئی ہوئی سیٹ پر دوبارہ قسمت آزمائی کرنے کی کوشش کی  ، لیکن کامیابی نہیں ہوئی ،
احتشام  جاوید اکبر خان نے 28,281  ووٹ لئے اور مخدوم زادہ سید مرید کاظم شاہ (جے یو آئی)نے 28،484 ووٹ لئے  ، یوں  احتشام اکبر خان  آبائی سیٹ سے 203 ووٹ سے ہار گیا ۔ یہاں رجسٹر ووٹر  57،968 تھے  - سیاست دانوں  کارناموں سے غصے ہونے کی وجہ سے   1،025ووٹروں نے ووٹوں کو خود خراب کیا اور یا  تعلیم نہ ہونے کے سبب  ووٹ خراب پائے گئے ۔باقی  خاندانی ووٹ    عنصر خان علیزئی (93 ووٹ) ، انور لطیف خان(256 ووٹ)، جنید طارق قریشی (389 ووٹ) ، فقیر زادہ اقبال واجد(176 ووٹ)  ، مخدوم زادہ سید آفتاب حیدر شاہ (325 ووٹ) ، میں تقسیم ہوئے ۔ مئی 2013کے الیکشن میں چونکہ گریجویشن کی شرط نہیں تھی اسلئے احتشام کے والد جاوید اکبر ایک بار پھر آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں آئے اور جے یو آئی کے تعاون سے اپنی سابقہ سیٹ جیت لی، جاوید اکبر خان نے 41،112 اور کاظم شاہ نے 31،001 ووٹ حاصل کئے- اور پی ٹی آئی کے نامزد امیدوار ر محمدھمایوں خان  1،605 ووٹ حاصل کئے ۔  اس سے اندازہ لگالیں کہ پی ٹی آئی کو اس حلقے میں کتنی عوامی حمایت حاصل  تھی۔ لیکن بات عوام کی نہیں ، امیدوار خریدنے کی کی ہوتی ہے ۔      جاوید اکبر خان ،کے حریف امیدوار مرید کاظم شاہ نے  ، ان کیخلاف جعلی ڈگری کیس دائر کرایا  ہوا تھا ،وہ ان کے خلاف دوبارہ عدالت میں گئے اورطویل جدوجہد کے بعد بالآخر جاوید اکبر خان کو نااھل قرار ددے دیا گیا ،لیکن اب ایک بار پھرجاوید اکبرخان کے بیٹے احتشا م جاوید ان کے حریف امیدوار کے طور پر سامنے آئے۔
جاوید اکبر خان کیا سب امیدواروں کی یہ سوچ ہوتی ہے  کہ اپوزیشن میں محض ایم پی اےبن کر  اپنے حلقے میں ترقیاتی کاموں یا عوامی بہبود کے حواے سے کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا جا  سکتا اس لئے ضمنی الیکشن آزاد امیدوار کے طور پر لڑنے کی بجائے انہوں نے اپنے بیٹے کیلئے پی ٹی آئی سے ٹکٹ کا مطالبہ کی-
ایک بندے کو سو روپے ملے وہ ایک ہوٹل میں گیا اور تین سوروپے کا بہترین کھانا کھایا ،بل نہ دے سکنے کے باعث ہوٹل والوں نے اُسے پولیس کے حوالے کردیا ، ھوٹل سے باہر نکلنے کے بعد تھانے کے راستے میں اُس نے سنتری بادشاہ کو منا لیا اور 100 روپے دے کر جان چھڑا  لی ۔ذھانت زندہ باد
پی ٹی آئی کو  ٹانگے کے گھوڑے کے مقابلے میں ریس کا بہترین  گھوڑا مل رہا تھا۔ جس کو صرف تھوڑا  سا  چارہ ڈالنے کی ضروت تھی جس کئے بعد ممکن نہیں کہ وہ ریس ہار جائے ۔ اور وہ چارہ 
محمدھمایوں خان کے   1،605 ووٹ اور کچھ بارشوں کے موسم میں نکلی ہوئی نئی کونپلیں ۔
اگر جاوید اکبر خان ، اپنی انویسٹمنٹ سے مطمئن ہوئے ، تو یہ ساتھ آگے چلے گا ورنہ کئی اور "باغیوں" سے پی ٹی آئی کو سامنا کرنا پڑے گا ۔ اور اگلے انتخاب میں  احتشام جاوید اکبر خان  آزاد امیدوار ہوگا ۔  
 وو

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔