تو کہ ناوا قفِ آدابِ شہنشاہی تھی
رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
تجھ کو انکار کی جرّات جو ہوئ تو کیونکر
سایہ ِءشاہ میں اس طرح جیا جاتا ہے
اہلِ ثروت کی یہ تجویز ہے، سر کش لڑکی
تجھ کو دربار میں کوڑوں سے نچایا جاے
ناچتے ناچتے ہو جائے جو پائل خاموش
پھر نہ تازیست تجھے ہوش میں لایا جاے
لوگ اس منظر جانکاہ کو جب دیکھیں گے
اور بڑھ جاے گا کچھ سطوتِ شاہی کا جلال
تیرے انجام سے ہر شخص کو عبرت ہوگی
سر اٹھانے کا رعایا کو نہ آئے گا خیال
طبعِ شاہانہ پہ جو لوگ گِراں ہوتے ہیں
ہاں انھیں زہر بھرا جام دیا جاتا ہے
تو کہ ناواقفِ آدابِ شہنشاہی تھی
رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
یہ حبیب جالب کی وہ مشہورنظم ہے جوانہوں نے شان کی والدہ اداکارہ نیلوکے لیے اس وقت لکھی تھی، جب انہوں نے 1965 میں شاہ ایران کے دورہ پاکستان کے موقع پررقص سے انکارکردیاتھا، پاکستان کی سپرہٹ فلم زرقامیں اس نظم پر مہدی حسن خان صاحب کی آواز میں گانابھی فلمایاگیاہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں