قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذب باہم جو نہیں ، محفل ِ انجم بھی نہیں
تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے
نشہ قے کو تعلق نہیں پیمانے سے
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم ِ رسولِ ہاشمی
دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی
یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہانگیری ، محبت کی فراوانی
بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا
نہ تورانی رہے باقی ، نہ ایرانی نہ افغانی
ہوس نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے نوع انساں کو
اخوت کا بیاں ہو جا ، محبت کی زباں ہو جا
یہ ہندی ، وہ خراسانی ، یہ افغانی ، وہ تورانی
تو اے شرمندہ ساحل ، اچھل کر بیکراں ہوجا
ربط ملت و ضبط ملت بیضا ہے مشرق کی نجات
ایشیا والے ہیں اس نکتے سے اب تک بے خبر
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر
نسل گر مسلم کی مذہب پر مقدم ہوگئی
اڑ گیا دنیا سے تو مانند خاک رہ گزر
اس دور میں قوموں کی محبت بھی ہوئی عام
پوشیدہ نگاہوں سے رہی وحدت آدم
تفریق ملل حکمت افرنگ کا مقصود
اسلام کا مقصود فقط ملت آدم
مکہ نے دیا خاک جینو ا کو یہ پیغام
جمعیت اقوام ہے جمعیت آدم
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں