وَقَالَتِ
الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصَارَىٰ عَلَىٰ شَيْءٍ وَقَالَتِ النَّصَارَىٰ
لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَىٰ شَيْءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ كَذَٰلِكَ قَالَ
الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ فَاللَّـهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ
يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ - ( البقرۃ-113)
اور یہود (اب بھی ) بولتے ہیں ، " کہ نصاریٰ کسی شئے پر نہیں ہیں (چنانچہ وہ بے دلیل باتیں کرتے ہیں )
اور نصاریٰ (جواباً ) بولتے ہیں ، " کہ یہودکسی شئے پر نہیں ہیں ( لہذا غیر منطقی باتیں کرتے ہیں )
اور وہ دونوں ( یہود و نصاریٰ) الکتاب کی تلاوت کرتے ہیں ۔ اِسی طرح وہ لوگ جنہیں علم نہیں انہی ( یہود و نصاریٰ) کی مثال کی طرح بولا ، (لہذا) اللہ یوم القیامہ ( ایسا سب بولنے والوں اور الکتاب کی تلاوت بھی کرنے والوں ) کے درمیان فیصلہ کر دے گا کہ ( الکتاب کے ہوتے ہوئے ) وہ کس بات کا اختلاف کرتے رہتے ہیں ۔
ایلین جیمس : Aileen James11 جون، 2015 10:26 قبل دوپہر نے لکھا :
جواب دیںحذف کریںقرآن سے محبت کے دعوہ کرنے والوں نے ایک قرآن کے بہت سے معانی بنا دیے ہیں۔ اگر ہر ایک پر قرآن ایسے ہی نازل ہوتا ہے تو پھر قرآن اور اس کے معنی محفوظ تو نہ ہوئے نا؟
یہی وجہ ہے کہ غلام پرویز، قمر زمان اور بے شمار لوگ اپنی اپنی مرضی کے مطالب نکال رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو بھی یہودی اور عیسائ الکتاب کی تلاوت کرتے دکھائ دیتے ھیں جبکہ نہ تو ان کے پاس الکتاب ہے اور نہ وہ تلاوت کرتے ہیں، میرے سے زیادہ یہ کون بتائے گا کیونکہ یہی میرا پس منظر ہے؟
قرآن کا ترجمہ کرنے سے پہلے اسکے اصول وضع کرنا لازم ہے، اور سب سے اہم دو اصول یہ ہیں کہ
۱) قرآن اپنے مفہوم کو خود واضح کرتا ہے بذریعہ تصریف آیات
۲) نمبر ۱ کا انحصار عربی زبان کے صرف و نحو اور کلاسیکل عربی کی لغات پر ہے
باقی اور بہت سے اصول ہیں
معذرت کے ساتھ
شأبہ
-نہیں معذرت کی کوئی ضرورت نہیں ،
حذف کریںمطالب و مفہوم تو لوگ اپنے ارد گرد کے ماحول کے مطابق ہی نکالتے ہیں اور ترجمہ اپنی علمی قابلیت کے مطابق ہی کرتے ہیں ، اِس میں کوئی حرج نہیں اور تصریف الایات کے ذریعے ہی سمجھیں گے - جس سے مجھے بھی انکار نہیں ، لیکن شرط یہ ہے ، کہ سب عربی سے ہو عجمی سے نہیں ۔
" عربی اور عجمی " کا فرق آپ نے اگر سمجھنا ہو تو میرا یہ مضمون پڑھ لیں ۔
http://ufaq-kay-par.blogspot.com/2014/04/blog-post_5.html
یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
حذف کریںمجھے جیوز(یہودی) اور کرسچئین (عیسائی) ، کبھی الکتاب کی تلاوت کرتے نہیں دکھائی دئے ۔ جیوز اپنی کتاب پڑھتے ہیں اور عیسائی اپنی کتاب ۔ لیکن وہ الکتاب نہیں پڑھتے !
حذف کریں'
لیکن کیا کروں ، محمد رسول اللہ نے مجھ پر عربی میں یہ آیت حدیث کی ہے :
وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصَارَىٰ عَلَىٰ شَيْءٍ وَقَالَتِ النَّصَارَىٰ لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَىٰ شَيْءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ كَذَٰلِكَ قَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ فَاللَّـهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ - ( البقرۃ-113)
اِس میں تو یہی لکھا ہے جو میں نے اپنی، درج ذیل پوسٹ میں لکھا ہے اگر آپ کو عربی آتی ہے ، تو بہتر ورنہ آپ کسی کے ترجمے سے نہیں سمجھ سکتیں :
http://ufaq-kay-par.blogspot.com/2015/06/YahoodandNasararecites.html
عربی سیکھنے کی کوشش تو کی ہے یمن کے اساتذہ سے، اور بہت سی بے خواب راتیں میرے جنون کی گواہ ہیں۔ لیکن ابھی بھی قرآن پڑھ کر اپنی کم علمی کا احساس ہوتا ہے کہ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔
جواب دیںحذف کریںیہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
جواب دیںحذف کریںآپ نے اس آیت کا جو مطلب اخذ کیا ہے وہ غالباً اس میں یتلون کے فعل حال میں ہونے کی وجہ سے ہے تو مجھے اجازت دیں ایک سوال کی.
حذف کریں54:1 اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ
اس آیت کا ذرا ترجمہ کریں؟
اس کے علاوہ اس آیات کا مطلب بھی بتا دیں:
جواب دیںحذف کریں40:46 النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا
آپکی منطق کے مطابق کیا اس کا یہی مطلب ہے کہ آل فرعون کو "صبح اور شام آگ پر لایا کیا جاتا ہے"
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کے روایتی ترجمہ یہی ہے تو کیا آپ اس سے متفق ہیں؟
یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
جواب دیںحذف کریںبر سبیل تذکرہ "يَتْلُونَ" کا مطلب "تلاوت کرتے ہیں" نہیں, اس کا مطلب ہے وہ پیروی کرتے ہی اور ذرا یہ بھی بتائیں کہ وہ الکتاب کی پیروی کس طرح کرتے ہیں؟
جواب دیںحذف کریں