اِک تھا گیٹو گرے
اُس کے دو مور تھے
اِک کا کالا تھا سر
اِک کے پیلے تھے پر
دانہ کھاتے تھے وہ
دُم ہلاتے تھے وہ
شام کو، دِن ڈھلے
اپنے گھر سے چلے
تھے بڑی لہر میں
آگئے شہر میں
کچھ وہاں سیر کی
کچھ یہاں سیر کی
ٹرٹراتے ہوئے
گانا گاتے ہوئے
جب اندھیرا ہوا
گیٹو گھبرا گیا
دل میں کہنے لگا
یہ ہے کی ماجرا
اب تک آئے نہیں
جانے کیا وہ کہیں
راستہ کھو گئے
یا کہیں سو گئے
آپ جاتا ہوں میں
اُن کو لاتا ہوں میں
بولی گیٹو کی ماں
“تم چلے ہو کہاں
چھوڑ دو، چھوڑ دو
خود ہی آئیں گے وہ
سر کھجاتے ہوئے
دُم ہلاتے ہوئے“
بولا گیٹو گرے
“مور دونوں مِرے
سخت نادان ہیں
سخت انجان ہیں
وہ تو ڈر جائیں گے
گھٹ کے مر جائیں گے“
بولی گیٹو کی ماں
“بات سن میری جاں
تُو ہے گیٹو گرے
تُو انہیں چھوڑ دے
دیکھتے دیکھتے
مور گھر آگئے
سر کھجاتے ہوئے
دُم ہلاتے ہوئے
بولے گیٹو میاں
“بولو تم تھے کہاں؟
اتنے چالاک ہو
انتے بے باک ہو
پھر جو جاؤ گے تم
مار کھاؤ گے تم“
اُس کی اِس بات سے
مور خوش ہوگئے
پر لگے کھولنے
پھر لگے بولنے
دُم ہلانے لگے
گانا گانے لگے
از صوفی تبسّم
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں