Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 30 جولائی، 2016

شیطان نامہ - قسط نمبر 35 . واقعات کربلا تاریخ دانوں کی نظر میں

یہ حقیقت ہے کہ کربلا کے جو واقعات عام طور پر مشہور ہیں اور کتابوں میں درج ہیں ان کی حیثیت افسانہ سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔
اصلیت کیا ہے ؟ 

 اس کا سراغ لگانا اور سچ کو جھوٹ سے تمیز کرنا دشوار ہی نہیں بلکہ نا ممکن کے قریب ہے راویوں کا اپنا چشم دید واقعہ کوئی نہیں سب سنی سنائی باتیں ہیں۔ جن کا سرخیل ایک کوفی ابو مخنف تھا ۔ جِس نے   جھوٹ کا پرچار کیا  جو   چلتا چلتا  برصغیر میں پہنچا  اور پھر    میڈیا  نے اُچک کر زباں خاص و زدِ عام کردیا ۔
 اِس پر مزید  کہ  شیعاً کاتبوں نے یزید کو سفاک اور ظالم منوانے کے لئے ، خالص ایرانی  ذاکروں کے منہ میں اپنے الفاظ ڈال کر ،  کوفہ ، بصرہ و بغداد   میں قتلِ حسین کو زیادہ پُر اثر بنانے کے لئے ،انداز نالہ و شیون کو شیعاً مذہب کا حصہ بنادیا ، جس سے شامِ غریباں   میں گریہ و زاری کروانے والا ذاکر کامیاب قرار پایا ۔ اور ذاکر کے کہے ہوئے الفاظ تاریخ کا حصہ بنتے گئے ۔
 کذب و افتراء کی داستانیں پاک و ہند میں بہت مقبول ہوئیں ۔ اب تو  انتہا یہاں تک پہنچ چکی ہے ، کہ  قائد اعظم  محمد علی جناح اور  پاکستان  ذوالجناح  کا صدقہ ہے ۔


  ہندوستان کا ترنگا پرچم   علی حسن و حسین  کے رنگوں سے بنا ہے اور چرخہ  ، اُمِ حسن و حسین کی نشانی ہے ۔
شیعا ً یاوہ گوئیاں  اتنی کثرت سے پھیلائی گئیں   کہ اب ہر خاص و عام اِس سچ تصوّر کرنے لگا ہے ۔ 

 ٭۔قدیم ترین راوی،  ابو مخنف (لوط بن یحیٰی ابن سعید ابن مخنف الکوفی-100 ہجری ۔  وفات 157ھ)۔   - 
 خانہ جنگیوں پر اس کی مختلف تالیفات ہیں، جنگ جمل ، صفین اور نہروان، بیت السقیفہ  اور کربلا پر "مقتل ابی مخنف" مشہور ہے،
 اس میں واقعات کربلا میں بیان کیے گئے ہیں اور یہ اس سلسلے کی اولین کتابوں میں سے ایک ہے۔ جو جھوٹی کہانیوں اور داستان سرائیوں سے بھر پور ہے اور بیشتر روایتیں ان کی اپنی گھڑی ہوئی ہیں-
 اس کا بیٹا ہشام اور اس قماش کے دوسرے تاریخ دانوں کو آئمہ رجال اور ان کے ہمعصر تاریخ دانوں اور بعد میں آنے والے مورخین نے کٹر شیعہ ، جھوٹا ، دروغ گو اور کذاب قرار دیا ہے۔ کربلا (60 ھجری)  کے حادثے کے وقت تو ابو محنف کا اس دنیا میں وجود ہی نہ تھا ۔
 شیعہ تاریخ کا یہ بدکردار داستان گو ، جس نے ، خود سے علی بن ابو طالب کے خلاف  ہونے جھوٹی جنگیں  کو اپنے خطبوں کی بنیاد بنایا ۔تاکہ شیعانِ علی کی تعداد میں اضافہ کیا جائے ۔
 معلوم نہیں کہ شیعوں نے اسلام باد تا کراچی جتنی مسافت کے سفر میں کیسے ایک خاتون کو اونٹ پر لے جا کر بصرہ میں علی ابنِ ابوطالب سے جنگ کروانے کی کہانی گھڑی ؟ ( فرموداتِ مفتی )
  ٭-  أبو جعفر محمد بن جرير بن يزيد الطبری ۔ (224-311)
ابن جریر طبری نے " قال ابو مخنف " کی تکرار کے ساتھ ساری روایتوں کواپنی کتاب میں شامل کر لیا۔
 اور طبری سے دوسرے مورخین نے انہیں نقل در نقل اپنی تاریخوں میں شامل کرنا شروع کر دیا اس لئے ان موضوعات کو اعتبار کا درجہ حاصل ہوتا گیا۔اللہ کے الدین میں متشابھات شامل کرکے لوگوں کو بھٹکانے میں ابنِ کثیر کے بعد  طبری دوسرے نمبر پر ہے ۔ ( فرموداتِ مفتی )
 اب آئمہ رجال کے اقوال ان کے بارے میں سنیئے.

٭- یحیی بن معین(158-223ھ)   کہ الکلبی لائق اعتماد نہیں .  ۔

 ٭۔  ابو حاتم  الرازی  اسماعیلی (195-322ھ) نے متروک قرار دیا . اور فرمایا کہ وہ ضعیف ہے ۔
 ۔  ابن حبان (218-354ھ) فرماتے ہیں کہ الکلبی (110-204 ھ) سبائی گروہ کا تھا۔ جو کہتے ہیں کے علی کو موت نہیں آئی وہ لوٹ کر دنیا میں آئیں گے اور اس کو عدل سے اس طرح بھر دیں گے جس طرح  دنیا ظلم سے بھری ہے . (میزان الاعتدال جلد 3 صفحہ 62)

 ٭ ۔ ابن عدی(227-365ھ)  نے فرمایا وہ تو کٹر شیعہ ہے اور شیعوں ہی کی خبریں روایت کرتا ہے.(معجم الدبا جلد 2 صفحہ 41) اور فرمایا کہ وہ کوفی تھا اور اس کی روایتیں کسی کام کی نہیں۔
 
٭ ۔ دار قطنی   (306ھ – 385ھ )
  حسن علی بن عمر بن احمد بن مہدی بن مسعود بن النعمان بن دینارعبد اللہ البغدادی ہے، ان کا تعلق بغداد کے محلہ دار قطن سے تھا جس کی وجہ سے انہیں الدارقطنی کہا جاتا ہے۔ 
دار قطنی نے کہا کسی اعتبار کے لائق نہیں۔دار قطنی اور ائمہ رجال کی ایک جماعت نے اس کو متروک قرار دیا ہے ۔

٭ ابن عساکر (498-572ھ) نے فرمایا کہ وہ رافضی نا قابل اعتبار ہے .میزان الاعتدال جلد 3 صفحہ 256 ..


٭-   امام ابو الفرج ابن جوزی(1116-510 ھجری )
 ابنِ جوزی  ،  نام لکھ کر " کذاب " کے لفظ سے ان کا تعارف کراتے ہیں .( تذکرہ الموضوعاتصفحہ 286 )  

٭ ابن تیمیہ (621-728ھ) نے بھی ان کو جھوٹا بتایا ہے  کہ ابو محنف اور ہشام بن محمّد بن السائب کلبی اور ان جیسے راویوں کا دروغ گو اور جھوٹا ہونا تو اہل علم میں مشہور اور معروف بات ہے .( منہاج السنہ جلد 1 صفحہ 13 )۔ 

  ٭۔ امام ذہبی ( حافظ شمس الدین ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن عثمان بن قايماز ذهبی دمشقی ترکمانی شافعی۔ 673ھ   -749)۔   
ابو مخنف ، اس کا سن وفات حضرت امام ذہبی نے 170 ھ کے لگ بھگ بتایا ہے  اور پیدائش  حادثہ کربلا کے 40 سال بعد یعنی   100 ہجری ) 
 ٭ ۔ جلال الدین سیوطی  (849۔911ھ)
  امام سیوطی. "الا لی المفنو عہ فی الاحادیث الموضوعہ" صفحہ 386 میں ابو مخنف اور اس کے ہم داستان گو،  الکلبی(119– 204)  کے بارے میں لکھا ہے "کذابان "

٭- عبد الوهاب بن مولوي محمد غوث بن محمد بن أحمد الهندي المدرسي  ۔ (1230-1287 ھجری) 
 صاحب "کشف الاحوال فی نقد الرجال" صفحہ 92 میں کہتے ہیں لوط بن یحیی اورابو مخنف ، کذاب تھے .   ۔


٭۔ مرہ نے لکھا،  کہ وہ تو کوئی چیز ہی نہیں   ۔

٭۔جوزجانی کہتے ہیں ہیں وہ کذاب تھا۔


دیگر کذّاب   ۔

٭-  محمّد بن السائب الکلبی ابو المندر۔

٭۔اعمش کہا کرتے تھے: "اس سبائی  ،الکلبی سے بچو، میں نے دیکھا ہے کہ لوگ اس کا نام جھوٹوں میں لیتے ہیں۔اور اس کا بیٹا ہشام ابن کلبی بھی راوی ہے اور کوئی 150 رسائل اور کتابوں کا مصنف ہے اور اس کو متروک قرار دیا ہے  ۔

٭-   امام سفیان ثوری کہتے ہیں: "کلبی سے بچو۔" کہا گیا: "آپ بھی تو ان سے روایت کرتے ہیں؟" کہا: "میں اس کے سچ اور جھوٹ کو پہچانتا ہوں۔" سفیان ثوری کہتے ہیں کہ کلبی نے مجھ سے کہا: "میں ابو صالح سے جتنی روایتیں بیان کرتا ہوں، وہ سب جھوٹ ہیں۔
٭- احمد بن زہیر کہتے ہیں کہ میں نے احمد بن حنبل سے پوچھا: "کیا کلبی کی تفسیر کو دیکھنا جائز ہے؟" انہوں نے کہا: "نہیں۔
٭-ا بن معین کہتے ہیں: "کلبی ثقہ نہیں ہے۔
٭- جوزجانی نے کلبی کو "کذاب" اور دارقطنی نے متروک قرار دیا ہے۔ 
٭-امام ذہبی    کہتے ہیں کہ اس کا کتاب میں ذکر کرنا درست نہیں ہے تو پھر اس سے روایت قبول کیسے کی جائے۔ 

ہشام بن محمد بن سائب الکلبی (d. 204/819)

یہ انہی کلبی صاحب کے بیٹے تھےاور اپنے والد سے روایات لیا کرتے تھے۔ بڑے عالم اور اخباری گزرے ہیں تاہم محدثین نے ان پر اعتماد نہیں کیا ہے۔ دارقطنی نے انہیں متروک قرار دیا ہے۔ ابن عساکر انہیں ثقہ نہیں سمجھتے۔ 150 کتب کے مصنف تھے۔  

تاریخ طبری کا اگر مطالعہ کیا جائے تو ہشام کلبی کی بہت سی روایات، ابو مخنف ہی سے منقول ہیں۔ بعض ایسی روایات ہیں جنہیں ہشام نے ابو مخنف کے علاوہ کسی اور راوی سے بھی روایت کیا ہے۔ ہشام کے پڑدادا اور محمد بن سائب کے دادا جنگ جمل اور صفین میں باغی پارٹی کا حصہ تھے۔ ہشام سے ان کے بیٹے عباس بن ہشام اکثر روایت کرتے ہیں جو اسی خاندان کا حصہ ہیں۔

٭- سیف بن عمر التیمی (d. c. 185/800)
یہ صاحب کثیر تاریخی روایات کے راوی ہیں اور اس فن پر انہوں نے کتابیں بھی لکھی ہیں۔ یحیی بن معین انہیں ضعیف قرار دیتے ہیں۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ ان کی روایات کی کوئی حقیقت نہیں۔ ابو حاتم نے انہیں متروک قرار دیا ہے۔ ابن عدی کہتے ہیں کہ ان کی عام روایات "منکر" ہیں۔ ابن حبان بیان کرتے ہیں کہ ان پر زندیق ہونے کا الزام لگایا گیا تھا۔   ایسی بہت سی روایات، جو حضرت ابوبکر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کے زمانے میں خلفائے راشدین کی منفی تصویر پیش کرتی ہیں، سیف بن عمر ہی سے منقول ہیں۔؎


الغرض یہ ہیں وہ راوی اور اس قماش کے دوسرے بھی جن کی من گھڑت روایتوں سے داستان کربلا مرتب ہوئی آپ لوگ عقیدت اور توہم پرستی سے ذرا ہٹ کر سوچیں جن کو امام ابن تیمیہ کچھ جھوٹ اور کذب بیانی .من گھڑت اور کذب حق نما فرماتے ہیں.ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے بہت چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا ہے اور حسین کی عظمت ، مفاد کا بھی خیال نہیں کیا فتوحات کے بارے میں جھوٹے قصے بیان کیے ہیں اور قتل حسین کی خبریں بیان کرنے والے جو اہل علم مصنف ہیں جیسے بغوی اور ابن ابی الدینا انہوں نے بھی با وجود اپنے علم کے اس بارے میں نقل ہی ماری ہے تحقیق نہیں کی اور جو مصنف بغیر سند کے اس بارے میں کہتے ہیں وہ تو جھوٹ ہی جھوٹ ہے .(منہاج السنتہ جلد 2 صفحہ 248 ).۔
یہاں داستان کربلا کی من گھڑت روایتیں بیان کرنے کا موقع نہیں ہے زمانۂ حال کے ایک شیعہ مورخ جناب شاکر حسین امروہی مصنف مجاہد اعظم فرماتے ہیں کہ سینکڑوں باتیں لوگوں نے اپنی طبیت اور ذہنیت کے تحت تراش لیں واقعات کی تدوین عرصۂ دراز کے بعد ہوئی رفتہ رفتہ اختلافات کی اس قدر کثرت ہو گئی کہ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ سے تمیز کرنا بہت مشکل ہو گیا .۔

ابو مخنف ،   اور لوط بن یحیی کربلا میں تو خود موجود نہ تھے اس لئے یہ سب واقعات انہوں نے سن سنا کر لکھے لہذا مقتل ابو مخنف ، پر بھی پورا وثوق نہیں پھر یہ کہ مقتل ابو مخنف ، کے مختلف نسخے پائے جاتے ہے ہیں ۔ جن کا بیان بھی ایک دوسرے سے نہیں ملتا، اور خود ابو مخنف ، واقعات کے جمع کرنے والے نہیں بلکہ کسی اور ہی شخص نے ان کے بیان کردہ سنے سنائے واقعات کو قلمبند کر دیا ہے ۔

 مختصر یہ کہ شہادت امام حسین کے متعلق تمام واقعات ابتداء سے انتہا تک اس قدر اختلافات سے بھرے ہیں کہ اگر ان کو ایک ایک کر کے بیان کیا جاۓ تو کئی بڑے بڑے دفتر بھی کم پڑ جائیں گے اور اکثر واقعات مثال کے طور پر 

٭ ۔ تین رات اور دن پانی کا بند رہنا ،۔
٭ ۔ مخالف فوج کا لاکھوں کی تعداد میں ہونا ،
٭ ۔ شمر کا آپ کے سینہ مبارک پر بیٹھ کر آپ کا سر جدا کرنا ، 
٭ ۔آپ کی لاش سے کپڑے تک اتار لینا ، 
٭ ۔آپ کی لاش مبارک کو گھوڑوں کے سموں تلے روندنا ،  
٭ ۔نبی زادوں کی چادریں تک چھین لینا ، 
٭ ۔آپ کے سر مبارک کی توہین وغیرہ وغیرہ

یہ حقیقت ہے کہ کربلا کے جو واقعات عام طور پر مشہور ہیں اور کتابوں میں درج ہیں ان کی حیثیت افسانہ سے زیادہ کچھ بھی نہیں!
 اصلیت کیا ہے ؟ 
اس کا سراغ لگانا اور سچ کو جھوٹ سے تمیز کرنا دشوار ہی نہیں بلکہ نا ممکن کے قریب ہے راویوں کا اپنا چشم دید واقعہ کوئی نہیں سب سنی سنائی باتیں ہیں۔ 
قدیم ترین راوی ابو مخنف ، ، لوط بن یحیی اور اس کا بیٹا ہشام اور اس قماش کے دوسرے تاریخ دانوں کو آئمہ رجال اور ان کے ہمعصر تاریخ دانوں اور بعد میں آنے والے مورخین نے کٹر شیعہ ، جھوٹا ، دروغ گو اور کذاب قرار دیا ہے۔ 
خانہ جنگیوں پر ان کی مختلف تالیفات ہیں ، جنگ جمل ، صفین اور نہروان اور کربلا پر "مقتل ابی  مخنف ، " مشہور ہے، جو جھوٹی کہانیوں اور داستان سرائیوں سے بھر پور ہے اور  بیشتر روایتیں ان کی اپنی گھڑی ہوئی ہیں ان کی ساری روایتوں کو ابن جریر طبری نے " قال ابو مخنف ، " کی تکرار کے ساتھ اپنی کتاب میں شامل کر لیا
 اور طبری سے دوسرے مورخین نے انہیں نقل در نقل اپنی تاریخوں میں شامل کرنا شروع کر دیا اس لئے ان موضوعات کو اعتبار کا درجہ حاصل ہوتا گیا۔
کربلا کے حادثے کے وقت تو ابو مخنف ، کا اس دنیا میں وجود ہی نہ تھا اس کا سن وفات حضرت امام ذہبی نے 170 ھ کے لگ بھگ بتایا ہے .(میزان الاعتدال جلد 2 صفحہ 260) اور بعض لوگوں نے 175 ھ یعنی حادثہ کربلا کے 100 سال بعد .اور وہ کس قسم کے تاریخ دان تھے آئمہ رجال کے اقوال ان کے بارے میں سنیئے.
٭ ۔  صاحب "کشف الاحوال فی نقد الرجال" صفحہ 92 میں کہتے ہیں لوط بن یحیی اور ابو محنف کذاب تھے .
٭ ۔صاحب "تذکرہ الموضوعات" نام لکھ کر " کذاب " کے لفظ سے ان کا تعارف کراتے ہیں .صفحہ 286 .

٭ ۔ امام سیوطی. "الا لی المفنو عہ فی الاحادیث الموضوعہ" صفحہ 386 میں ابو مخنف ،   اور اس کے ہم داستان گو الکلبی کے بارے میں لکھا ہے "کذابان "
٭ ۔ دار قطنی نے کہا کسی اعتبار کے لائق نہیں۔
٭ ۔ ابو حاتم نے متروک قرار دیا . اور فرمایا کہ وہ ضعیف ہے ۔
٭ ۔ ابن معین کہتے ہیں کسی اعتبار کے لائق نہیں .
٭ ۔ مرہ فرماتے ہیں کہ وہ تو کوئی چیز ہی نہیں 
٭ ۔ ابن عدی نے فرمایا وہ تو کٹر شیعہ ہے اور شیعوں ہی کی خبریں روایت کرتا ہے.(معجم الدبا جلد 2 صفحہ 41) اور فرمایا کہ وہ کوفی تھا اور اس کی روایتیں کسی کام کی نہیں .
٭ ۔  محمّد بن السائب کلبی ابو النصر الکونی کے بارے میں ابن حبان فرماتے ہیں کہ الکلبی سبائی گروہ کا تھا۔ جو کہتے ہیں کے علی کو موت نہیں آئی وہ لوٹ کر دنیا میں آئیں گے اور اس کو عدل سے اس طرح بھر دیں گے جس طرح ظلم سے بھری ہے . (میزان الاعتدال جلد 3 صفحہ 62)
٭ ۔ یحیی بن معین کہ الکلبی لائق اعتماد نہیں .
٭ ۔جوزنجانی کہتے ہیں، " وہ کذاب تھا ".
٭ ۔دار قطنی اور ائمہ رجال کی ایک جماعت نے اس کو متروک قرار دیا ہے ۔ 
٭ ۔ عمش نے فرمایا اس سبائی کلبی سے بچتے رہو وہ کذاب ہے .اور اس کا بیٹا ہشام بھی راوی ہے اور کوئی 150 رسائل اور کتابوں کا مصنف ہے جس کا پورا نام محمّد بن السائب الکلبی ابو المندر ہے اور اس کو متروک قرار دیا ہے .
٭ ۔ ابن عساکر نے فرمایا کہ وہ رافضی نا قابل اعتبار ہے .میزان الاعتدال جلد 3 صفحہ 256 .
٭ ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے بھی ان کو جھوٹا بتایا ہے فرماتے ہیں .
کہ ابو محنف اور ہشام بن محمّد بن السائب کلبی اور ان جیسے راویوں کا دروغ گو اور جھوٹا ہونا تو اہل علم میں مشہور اور معروف بات ہے . منہاج السنہ جلد 1 صفحہ 13 .
الغرض یہ ہیں وہ راوی اور اس قماش کے دوسرے بھی جن کی من گھڑت روایتوں سے داستان کربلا مرتب ہوئی آپ لوگ عقیدت اور توہم پرستی سے ذرا ہٹ کر سوچیں جن کو امام ابن تیمیہ کچھ جھوٹ اور کذب بیانی .من گھڑت اور کذب حق نما فرماتے ہیں.ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے بہت چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا ہے اور حسین کی عظمت ، مفاد کا بھی خیال نہیں کیا فتوحات کے بارے میں جھوٹے قصے بیان کیے ہیں اور قتل حسین کی خبریں بیان کرنے والے جو اہل علم مصنف ہیں جیسے بغوی اور ابن ابی الدینا انہوں نے بھی با وجود اپنے علم کے اس بارے میں نقل ہی ماری ہے تحقیق نہیں کی اور جو مصنف بغیر سند کے اس بارے میں کہتے ہیں وہ تو جھوٹ ہی جھوٹ ہے .(منہاج السنتہ جلد 2 صفحہ 248 ).
یہاں داستان کربلا کی من گھڑت روایتیں بیان کرنے کا موقح نہیں ہے زمانۂ حال کے ایک شیعہ مورخ جناب شاکر حسین امروہی مصنف مجاہد اعظم فرماتے ہیں کہ سینکڑوں باتیں لوگوں نے اپنی طبیت اور ذہنیت کے تحت تراش لیں واقعات کی تدوین عرصۂ دراز کے بعد ہوئی رفتہ رفتہ اختلافات کی اس قدر کثرت ہو گئی کہ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ سے تمیز کرنا بہت مشکل ہو گیا .
ابو محنف اور لوط بن یحیی کربلا میں تو خود موجود نہ تھے اس لئے یہ سب واقعات انہوں نے سن سنا کر لکھے لہذا مقتل ابو محنف پر بھی پورا وثوق نہیں پھر یہ کہ مقتل ابو محنف کے مختلف نسخے پائے جاتے ہے ہیں ۔ جن کا بیان بھی ایک دوسرے سے نہیں ملتا اور خود ابو محنف واقعات کے جمح کرنے والے نہیں بلکہ کسی اور ہی شخص نے ان کے بیان کردہ سنے سنائے واقعات کو قلمبند کر دیا ہے ۔
مختصر یہ کہ شہادت امام حسین کے متعلق تمام واقعات ابتداء سے انتہا تک اس قدر اختلافات سے بھرے ہیں کہ اگر ان کو ایک ایک کر کے بیان کیا جاۓ تو کئی بڑے بڑے دفتر بھی کم پڑ جائیں گے اور اکثر واقعات مثال کے طور پر ٭ ۔ تین رات اور دن پانی کا بند رہنا ،
٭ ۔ مخالف فوج کا لاکھوں کی تعداد میں ہونا ،
٭ ۔ شمر کا آپ کے سینہ مبارک پر بیٹھ کر آپ کا سر جدا کرنا ، 
٭ ۔آپ کی لاش سے کپڑے تک اتار لینا ، 
٭ ۔آپ کی لاش مبارک کو گھوڑوں کے سموں تلے روندنا ،  
٭ ۔نبی زادوں کی چادریں تک چھین لینا ، 
٭ ۔آپ کے سر مبارک کی توہین وغیرہ وغیرہ 

نہایت مشہور اور ہر شخص کی زبان پر ہیں حالانکہ ان میں سے بعض سرے سے غلط ہیں ، بعض مشکوک ہیں بعض ضیف بعض مبالغہ آمیز اور بعض تو بالکل من گھڑت ہیں 
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 

٭٭٭واپس ۔شیطان نامہ  ۔ فہرست ٭٭٭

سعودی عرب میں بسلسلہ روزگار

سعودی عرب میں بسلسلہ روزگار مقیم ایک خوددار انسان کی ڈائری

1 جنوری
آج میں نے Resign کر دیا۔ مجھ سے جونیر ایک سعودی کو منیجر بنا دیا گیا۔ یہ میری قابلیت کی توہین ہے۔ ساراکام ہم کریں اور کریڈٹ وہ لے جائیں یہ غلط ہے۔ جس قوم میں ترقی کی بنیاد بجائے تعلیمی قابلیت کے نیشنالٹی یا واسطہ یا کوئی اور چیز دیکھی جائے وہ قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔

5 جنوری
آج شیخ صاحب نے خود بُلا کر سمجھانے کی کوشش کی اور تنخواہ دس ہزار ریال کر دینے کا وعدہ کیا لیکن میں اپنی خود داری اور وقار کو ریالوں کے عوض بیچنا نہیں چاہتا۔

10جنوری
میں نے واپسی کی سیٹ بُک کروا لی۔ انشاء اللہ جاتے ہی کاروبار شروع کر دوں گا۔ الحمدللہ پورے 25 لاکھ روپئے میرے پاس ہوں گے جو کہ کوئی خوابوں میں بھی نہیں سوچ سکتا کہ اتنے بڑے سرمائے سے وہ کوئی کاروبار شروع کر سکتا ہے۔ میرے دونوں سالے ساجد اور حمید بزنس میں تجربہ کار ہیں دونوں کی مدد سے انشاء اللہ ایک انڈسٹری یا فیکٹری کا آغاز کروں گا۔ میرے اپنے بڑے بھائی احمد اور نوید بھی دوبئی اور امریکہ میں ہیں وہ بھی مدد کرنے میں پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

2 فبروری
آج وطن لوٹا ہوں۔ اِس سے بڑی نعمت اللہ تعالیٰ کی اور کیا ہو سکتی ہے کہ آدمی اپنے وطن میں کمائے کھائے اور اپنوں کے درمیان رہے۔ جو محنت لوگ باہر کرتے ہیں اگر یہی اپنے وطن میں رہ کر کریں تو نہ صرف کفیلوں کی غلامی سے آزاد ہو سکتے ہیں بلکہ ملک بھی ترقی کر سکتا ہے۔

15 فبروری
ساجد کے مشورے پر میں نے اس کے ساتھ دس لاکھ لگا دئیے۔ اُس نے ایک ایسے علاقے میں پلاٹ خریدا جو ایک سال میں ہی پچیس لاکھ دے جائے گا۔

25 فبروری
حمید کنسٹرکشن کے کام میں برسوں سے لگا ہوا ہے میں نے اُس کے کہنے پر پانچ لاکھ اُس کے ساتھ لگا دئیے۔ ایک سال میں دس لاکھ تک وصول ہو جائیں گے۔

2 مارچ
باہر رہ کر اِتنے سال capriceچلائی اب مسلسل اِسکوٹر چلانا عجیب لگ رہا ہے۔ اِس سے image بھی خراب ہو رہا ہے کیونکہ سبھی دوستوں کے پاس کاریں ہیں اِسلئے حمید نے اپنے ایک دوست سے دو لاکھ میں ایک پُرانی corollaکی ڈیل کروا دی۔

15 مارچ
زرینہ کی ہمیشہ سے شکایت رہتی تھی کہ ہماری شادی کے بعد سے آج تک ہم نے کوئی دعوت نہیں کی ہمیشہ دوسروں کی دعوتوں میں جا کر کھا کر آتے ہیں ہمارا اخلاقی فرض بنتا ہے کہ ہم بھی کبھی دوسروں کو بُلائیں۔ اسلئے ہم نے ببلو کی بسم اللہ کر ڈالی۔ ہال کا کرایہ کھانا اسٹیج اور ویڈیو وغیرہ کے مِلا کر کُل ایک لاکھ خرچ ہوئے

20 اپریل
آج ابّا جان نے بُلا کر کہا کہ شہانہ کے لیے ایک اچّھا رشتہ آیا ہے آجکل لڑکوں کے rates بہت زیادہ ہیں لوگ جہیز وغیرہ کا راست مطالبہ نہیں کرتے صرف یہ کہتے ہیں کہ اپنی خوشی سے جو چاہے دے دیجئے یہ ایک مکّاری ہے وہ رشتہ بھیجتے ہی ایسی جگہ ہیں جہاں سے انہیں بغیر مطالبے کے ہی بہت کچھ مل سکتا ہو۔

5 جون
ببلو کو رائل پبلک اسکول میں اڈمیشن کا ایک ذریعہ ملا ہے لیکن پچاس ہزار ڈونیشن کے علاوہ پچیس ہزار تک پرنسپل سمیت درمیان کے لوگوں کو کھلانا ہے۔ بینک میں پیسے ختم ہو چکے ہیں

20 جون
ساجد کو میں نے جو بھی قیمت آئے پلاٹ بیچنے کے لیے کہا لیکن جواب ملا کہ اُس پر جہانگیر پہلوان کے لوگوں نے قبضہ کر لیا ہے اُلٹا ساجد مجھ سے ہی پولیس کاروائی کے لیے کم از کم ایک لاکھ مانگ رہا ہے ورنہ کیس دو تین سال کھینچ سکتا ہے

25 جون
حمید سے پیسوں کا انتظام کرنے کہا لیکن وہ کہہ رہا ہے کہ بلدیہ والوں نے Illegal construction کا پرچہ پھاڑ دیا ہے کم از کم ایک آدھ لاکھ کھِلانا  پڑے گا، ورنہ کوئی گاہک پلاٹ خریدنے نہیں آئے گا اور تعمیر کا کام ایسے ہی رُکا رہے گا۔ بلکہ اسٹیل اور سمنٹ کے بڑھتے ہوئے داموں کی وجہ سے خرچ اور بڑھ جائے گا۔

10 جولائی
ابّا جان کو دل کا دورہ پڑا۔ فوری دوا خانے میں شریک کروانا پڑا ڈاکٹر اِس دور کے سب سے بڑے ڈاکو ہیں
فوری ایک لاکھ روپیئے جمع کروانے کے لیے کہا۔

25 جولائی
آج بینک سے چھ ہزار ماہانہ شرحِ سود پر ایک لاکھ کا لون لینا پڑا

14 اگسٹ
احمد بھائی نے کہا کہ بھابھی کے آپریشن اور زچگی کی وجہ سے وہ مقروض ہیں اور دوبئی میں مکانوں کے کرائے اندھا دھند بڑھا دئیے گئے ہیں جس کی وجہ سے وہ سخت پریشان ہیں واپس آنے کی سوچ رہے ہیں

25 اگسٹ
نوید بھائی نے کہا کہ انہوں نے امریکہ میں کریڈٹ پر پٹرول پمپ خریدا ہے مالی حالت خراب ہے

20 سپٹمبر
بینک کے قرضے کی قسط ادا کرنی ہے سوچا تھا زرینہ کا کچھ زیور بیچ دوں گا یوں بھی یہ عورتیں مردوں کی کمائی کو لاکرز میں سڑاتی ہیں۔ لیکن زرینہ کا زیور اُنکی امی جان کے لاکر میں ہے اور وہ اپنے بیٹے کے پاس امریکہ گئی ہوئی ہیں۔

3 اکتوبر
کار فروخت کر دی۔ یہاں کی ٹرافک میں کار یوں بھی ایک حماقت ہے آدمی اسکوٹر پر کہیں زیادہ آرام سے پہنچ جاتا ہے۔ فضول کی شان میں پٹرول کا اصراف صحیح نہیں ہے۔

25 اکتوبر
انڈسٹریل لون کے لیے درمیان کے لوگ اور بینک منیجر ایک لاکھ رشوت مانگ رہے ہیں ادا کرنے پر مکان کے کاغذات رہن رکھ کر پچیس لاکھ دیں گے اور تین سال میں پینتس لاکھ وصول کریں گے پتہ نہیں اِس ملک میں لوگ کیسے زندگی گزارتے ہیں محنت اور ایمانداری سے جینا ناممکن ہے۔

1 نومبر
آج شیخ صاحب سے ویزا کے لیے بات کی انہوں نے ایک مہینے بعد فون کرنے کہا

1 دسمبر
آج پھر شیخ صاحب سے بات کی اُنہوں نے تین ہزار ریال ماہانہ کا آفر دیا۔ میں نے ہاں کہہ دیا۔ عزّت کے ساتھ یہ بھی مِل جائیں تو بڑی نعمت ہے ورنہ اپنے ملک میں آدمی دن رات محنت کر کے دنیا بھر کے جھوٹ اور چکمے بازیاں کر کے بھی اتنا نہیں کما سکتا جب کہ وہاں کم از کم جھوٹ دھوکہ چکمہ یہ سب تو نہیں کرنا پڑتا

15 دسمبر
الحمدللہ آج ویزا آ گیا۔ انشاء اللہ ہفتے دو ہفتے میں اس دوزخ سے نجات مِل جائے گی

31 دسمبر
آج دوبارہ سعودی عرب پہنچ گیا الحمدللہ۔ ایک ڈراؤنا خواب تھا جو ختم ہوا۔ اب سوچ لیا ہے کہ جب تک پورے ایک کروڑ روپئے جمع نہیں ہوتے ہرگز واپس نہیں جاؤں گا۔

٭٭٭
 علیم خان فلکی ، ہندوستانی مزاح نگار اور شاعر

جمعہ، 29 جولائی، 2016

بُری ساس اور فرشتہ صفت بیٹا

کوئی پندرہ دن پہلے کی بات ہے کہ ایک پڑھی لکھی خاتون  میرے  پاس آئی۔ اور اپنی مصیبت کا ذکر کچھ اِس  طرح کیا:
"جناب مُفتی صاحب :
میری ایک سہیلی نے مجھے بتایا کہ اُپ کو اللہ نے علم شُدنی (سوال و جواب سے انسانی شعور کی پہچان) عطا فرمایا ہے جس سے آپ دکھی لوگوں کے مسائل نہایت آسانی سے حل کروادیتے ہیں ۔
بات دراصل یہ ہے کہ میں نے
الھدیٰ ادارے سے قرآن و حدیث کا کورس کیا ہے ۔ جب میرا کورس مکمل ہوا تو میری شادی ہوگئی ۔
شادی کو ابھی دو ماہ ہوئے ہیں ۔
میرے شوہر بہت اچھے ہیں۔ قسمت والیوں کو ایسے فرشتہ صفت شوہر ملتے ہیں، نہایت شریف، صلات کا پابند، خوش گفتار اور نیک ہے۔ میری کسی بات سے کبھی بھی   انکار نہیں کیا ، مگر میری ساس!"
وہ سانس لینے کو رُکی ۔ " مگرمیری ساس نے حضرت ! میری زندگی جہنم بنا دی ہے۔ ذرا ذرا سی بات پہ روک ٹوک کرتی رہتی ہے۔ 
میری ہر بات ، ہر کام میں اُس کو نقص نظر آتا ہے ، اعتراض پر، اعتراض ، روک ٹوک ، بلاوجہ کی نصیحتیں ۔
مجھے ذہنی طور پر پُرسکون نہیں ہونے دیتی۔
میں نے محلّے کی بچیوں کو پڑھانا بھی ہوتا ہے لیکن اُس کی وجہ سے مجھے پڑھانے میں دقت ہوتی ہے-
مجھے سمجھ نہیں آتا کہ اپنی ساس کو کیسے سمجھاؤں؟ کہ وہ مجھے میری زندگی جینے دے!
کاش وہ میری ساس نہ ہوتی ، تو میں سُکھ کا سانس لیتے "

ساس کی بُرائیاں بتاتے ہوئے اُس کی آواز رُندھ گئی ۔
میں نے پوچھا : " اچھا یہ بتاؤ کہ تمھاری ساس میں کوئی خوبی بھی ہے ؟"
خاتون بولی :"مجھے تو کوئی بھی خوبی نظر نہیں آتی۔۔۔!"
 " اچھا ایسا کرو ، میں اِس دوسری خاتون کی مسئلہ دیکھتا ہوں ، آپ وہاں بیٹھ کر سوچو کہ اپنی منگنی سے شادی اور شادی سے آج تک ، آپ کو اپنی ساس کی کیا کیا خوبیاں نظر آئیں، ہو سکتا ہے کہ آپ کو کوئی اچھی بات یاد آجائے ۔" میں نے مشورہ دیا ۔
اور دوسری خاتون کی پریشانی سننے لگا،
پندرہ منٹ بعد میں نے اُسے دوبارہ بلایا ، مجھے معلوم تھا کہ وہ اپنی پرانی بات پر ڈٹی رہے گی ۔
" ہاں تو بیٹی اپ کو کوئی اچھائی نظر آئی ، اپنی ساس میں؟"   میں نے سوال کیا ۔

"حضرت مجھے ابھی تک تو اس میں کوئی اچھائی نظر نہیں آئی۔۔۔!" وہ الھدیٰ کی پڑھی لکھی خاتون پورے یقین سے بولی ۔

 " بیٹی یہ بتاؤ کہ ، تمھاری اور تمھارے فرشتہ صفت شوہر سے شادی ، محبت کی تھی ؟ "میں نے پوچھا !
کیوں کہ بعض دفعہ ماؤں کو یہ بات بُری لگتی ہے کہ بیٹے نے اُس کے مرضی کے خلاف شادی کیوں کی ؟ چنانچہ وہ بہو کو تنگ کرتی ہیں ۔
" نہیں حضرت ، وہ اپنے بیٹے کا رشتہ لے کر ہمارے گھر آئیں تھیں ۔
نہیں مگر پہلے اُنہوں نے مجھے الھدیٰ میں دوسری لڑکیوں کے ساتھ دیکھا تھا ۔
بلکہ جب بیٹے کو معلوم ہوا کہ میں الھدیٰ کی تعلیم یافتہ ہوں تو اُنہیں نے انکار کر دیا ۔
جس پر میری ساس نے بیٹے کو زبردستی میرے حق میں منوایا اور پھرہمارے گھر رشتہ لے کر آئیں " وہ بولی
" بیٹے نے کیوں انکار کیا؟ کیا یہ بات ساس نے آپ کو بتائی ؟ " میں نے پوچھا 
 نہیں اُنہوں نے تو نہیں بتائی ، بلکہ میرے شوہر نے شادی کے بعد بتائی ، اور شکر کیا کہ میری ساس نے اُن کی بات نہیں مانی "  وہ بولی ۔ 
" کیا الھدیٰ میں آپ کی ساس نے آپ کو صرف ایک بار دیکھا " میں نے پوچھا 

" جی میری ساس کوئی ایک ماہ تک الھدیٰ آتی رہیں تھیں ۔ ہم یہ سمجھنے لگے کہ شائد وہ یہاں خود بھی تعلیم سیکھنا چاھتی تھیں یا ملازمت کرنا چاہتی ہیں "  وہ بولی ۔ 

" اچھا بیٹی یہ بتاؤ کہ تمھاری ساس نے تم میں کیا خوبی دیکھی ؟" میں نے پوچھا
" معلوم نہیں اور نہ اُنہوں نے بتائی ۔ شاید اِس لئے کہ میں الھدیٰ میں پڑھتی تھی "۔وہ بولی
" الھدیٰ میں تو اور بچیاں بھی پڑھتی تھیں ، مگر اُنہوں نے ایک ماہ بعد آپ کا انتخاب اپنے فرشتہ صفت بیٹے کے لئے کیوں کیا ؟ " میں نے پوچھا
" معلوم نہیں " وہ دھیمی آواز میں بولی ۔
" تو آپ کی اپنی ساس میں کوئی خوبی نظر نہیں آتی ! ٹھیک ہے نا ؟ " میں نے پھر پوچھا
" جی نہیں حضرت!
"وہ بولی
لیکن اُس کی آواز میں پہلے جیسا تیکھا پن نہ تھا ۔ میں سمجھ گیا کہ اُس کے دماغ میں میں سوچوں کے بھنور پیدا کرنے میں کامیاب ہو گیا ہوں ۔
منفیت اُسے ڈبو رہی ہے اور اچھائی اُسے اچھال رہی ہے ۔

"
بیٹی آپ نے کہا نا کہ اللہ نے آپ کو فرشتہ صفت شوہر عطا کیا ہے۔ " میں نے پوچھا ۔
" جی نہیں حضرت!"وہ بولی
 
" سورہ الرحمان میں یہ آیات ،جو آپ نے یقیناً پڑھی ہو گی ؛

أَلَّا تَطْغَوْا فِي الْمِيزَانِ ﴿55/8
یہ کہ المیزان مین تم طغی مت کرو !
وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيزَانَ
﴿55/9
 اور الْقِسْطِ  کے ساتھ الْوَزْنَ کا أَقِيمُ کرو اورالْمِيزَانَ میں تم خسارا مت کرو !
 "جی پڑھی ہیں حضرت ۔ لیکن اِن آیات کا میری ساس سے کیا تعلق؟" وہ بولی
" یقیناً اِن آیات کا آپ کی ساس سے نہیں بلکہ آپ سے گہرا تعلق ہے " میں نے کہا

" مجھ سے حضرت ! وہ کیسے ؟"وہ بولی
" آپ کے فرشتہ صفت شوہر نے اُس رشتے سے انکار کر دیا جو اُس کی ماں نے ایک مہینے کی تگ و دو کے بعد پسند کیا- کیوں ٹھیک ہے نا "
" جی، حضرت!"وہ بولی

 " آپ کی ساس نے ، الھدیٰ کی باقی لڑکیوں میں سے آپ کو اپنے بیٹے کے لئے منتخب کیا ۔ سچ ہے نا ؟ " میں نے کہا
" جی، حضرت!"وہ بولی 
" اگر آپ کی ساس اپنے بیٹے کی بات مان لیتی تو یہ رشتہ نہ ہوتا  ۔ سچ ہے نا ؟ " میں نے کہا
" جی، حضرت!"وہ بولی
"تو کیا یہ آپ کی ساس کا آپ پر احسان نہیں ،کہ  آپ کو فرشتہ سیرت شوہر ملا ۔ سچ ہے نا ؟ " میں نے کہا
" جی، حضرت!"وہ بولی


"تو کیا ، هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ ﴿55/60  کے مطابق آپ اپنی ساس کے آپ کے ساتھ احسان کی جزاء آپ نے چُکا دی ہے ؟ نہیں شاید ساری عمر تک نہیں " میں نے سمجھایا 
" جی، حضرت!"وہ بولی
آپ کا فرشتہ صفت شوہر ، آپ کی ساس کا ہی بیٹا ہے ، اور یہی آپ کی ساس کی سب سے بڑی خوبی ہے اور سب سے بڑی اچھائی اُس کا آپ پرالْإِحْسَانُ ہے ۔ کہ اُس نے آپ کے
الْمِيزَانَ میں اپنے بیٹے کہ بُری عادتوں کا خسارہ نہیں ڈالا "
" جی، حضرت!"وہ بولی
" ذراغور کریں کہ  آپ اپنی ساس کے الْمِيزَانَ کے ساتھ انصاف نہیں کر رہیں ؟
کہنے لگی "جی یقیناً اُنکا یہ احسان ہے کہ مجھے اچھا شوہر ملا، لیکن اُن کی بلا وجہ روک ٹوک کی عادت کی وجہ سے میں پریشان ہوں!"
" بیٹی، آپ کی ساس کی روک ٹوک کی عادت جو آپ کو بُری لگ رہی ہی ، اُسی عادت کی وجہ سے اُس کا بیٹا فرشتہ سیرت بنا ۔
" بیٹی ، ایک بات یاد رکھو ،
گلاب دو قسم کے ہوتے ہیں ،
ایک جنگل کا گلاب اور
ایک گھر کا گلاب ،
جنگل کا گلاب جتنا زیادہ پھیلے گا اتنا ہی بھلا لگتا ہے ۔
لیکن گھر کے گلاب کو آپ پھیلنے نہیں دیتے ،
آُس کی بلا وجہ پھیلنے والی شاخوں کو آپ تراش کر "روک"  دیتی ہو اور
مرجھائے ہوئے پتوں کو "ٹوک " کر نکال دیتی ہو ،
جبھی تو آپ کو آپ خوب سیرت اور خوب صورت پودا اور اُس پر حسین کِھلنے والے پھول ملتے ہیں ۔
بیٹی ، روک اور ٹوک یعنی الفرقان اور النذر ، تو صفات الہیٰ ہیں ، 

اور یہ صرف اللہ نے ماں میں اپنے بچے کے لئے الہام  کی ہیں !
اور اب آپ اُن کی بیٹی ہو تو وہ آپ سے کیسے غافل رہ سکتی ہیں! کیوں ٹھیک ہے نا ؟"

" جی، حضرت! میں نے اپنی کمزوری سمجھ لی ہے ، یقیناً میں اپنی ساس کے احسان کی جزاء زندگی بھر نہیں اتار سکتی "وہ بولی

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ماخوذ

جمعرات، 28 جولائی، 2016

زہر، خوف، حسد اور غصہ

علامہ جلال الدین رومی سے چند سوالات پوچھے گئے ۔ جن کے انہوں نے بہت خوبصورت مختصر اور جامع جوابات عطا فرمائے جو بالترتیب پیشِ خدمت ہیں:

1- زہر کسے کہتے ہیں؟
ہر وہ چیز جو ہماری ضرورت سے زائد ہو، وہ ہمارے لئے زہر ہے خواہ وہ قوت و اقتدار ہو، دولت ہو، بھوک ہو،انانیت ہو، لالچ ہو، سستی و کاہلی ہو، محبت ہو، عزم و ہمت ہو، نفرت ہو یا کچھ بھی ہو۔

2- خوف کس شئے کا نام ہے؟
غیرمتوقع صورتِ حال کو قبول نہ کرنے کا نام خوف ہے۔ اگر ہم غیر متوقع کو قبول کر لیں تو وہ ایک ایڈونچر ایک مہم جوئی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

3- حسد کسے کہتے ہیں؟
دوسروں میں خیر اور خوبی کو تسلیم نہ کرنے کا نام حسد ہے۔ اگر ہم اس خوبی کو تسلیم کرلیں تو یہ رشک اور انسپریشن بن کر ہمارے لئے ایک مہمیز کا کام انجام دیتی ہے۔

4- غصہ کس بلا کا نام ہے؟
جو امور ہمارے قابو سے باہر ہوجائیں، ان کو تسلیم نہ کرنے کا نام غصہ ہے۔ اگر ہم تسلیم کرلیں تو عفو درگزر اور تحمل اس کی جگہ لے لیتے ہیں۔

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔