Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 4 فروری، 2017

بچپن ، جونی اور پچپن

جب بچپن تھا تو جوانی ایک خواب تھا ...

جب جوان ہوئے تو بچپن ایک زمانہ تھا ... !!

جب گھر میں رہتے تھے، آزادی اچھی لگتی تھی ...

آج آزادی ہے، پھر بھی گھر جانے کی جلدی رہتی ہے ... !!

کبھی ہوٹل میں جانا کڑھائی اور چپل کباب کھانا پسند تھا ...

آج گھر پر آنا اور ماں کے ہاتھ کا کھانا پسند ہے ... !!!

اسکول میں جن کے ساتھ جھگڑتے تھے، آج ان کو ہی انٹرنیٹ پہ تلاش کر رہے ہیں ... !!

خوشی كس میں ہوتی ہے، یہ پتہ اب چلا ہے ...
بچپن کیا تھا، اس کا احساس اب ہوا ہے ...

کاش تبدیل کر سکتے ہم زندگی کے کچھ سال ..

كاش جی سکتے ہم، زندگی بھرپور ایک بار ... !!

جب اپنے اوپر چادر اوڑھ کر سمجھتے کہ ہم غائب ہو گئے ہیں اور ماں کو ڈرایا کرتے ۔ ڈرنے کی ایکٹنگ ہماری دادی خوب کرتی ۔

جب ہم اپنی شرٹ میں ہاتھ چھپاتے تھے اور لوگوں سے کہتے پھرتے تھے دیکھ سکتے ہیں میں نے اپنے ہاتھ جادو سے غائب کر دیئے

جب ہمارے پاس چار رنگوں سے لکھنے والی ایک قلم ہوا کرتی تھی اور ہم سب کے بٹن کو ایک ساتھ دبانے کی کوشش کیا کرتے تھے ۔

 جب ہم دروازے کے پیچھے چھپتے تھے تاکہ اگر کوئی آئے تو اسے ڈرا سکیں


جب آنکھ بند کر کے سونے کا ڈرامہ کرتے تھے تاکہ کوئی ہمیں گود میں اٹھا کے بستر تک پہنچا دے |


 سوچا کرتے تھے کی یہ چاند ہماری سائیکل کے پیچھے پیچھے کیوں چل رہا ہے ۔


 On / Off والے سوئچ کو درمیان میں ۔اٹكانے کی کوشش کیا کرتے تھے ۔


 پھل کے بیج کو اس خوف سے نہیں کھاتے تھے کی کہیں ہمارے پیٹ میں درخت نہ اگ جائے۔

بچپن میں سوچتے کہ ہم بڑے کب ہوں گے ۔

اور اب سوچتے ہیں کہ ہم بڑے کیوں ہو گئے؟  

اب میں اور بڑھیا پارک میں کھیلتے بچوں کو دیکھتے ہیں ۔ جب بچوں کو اُن مائیں مغرب کی اذان سے پہلے بلاتی ہیں ۔ تو ہم دونوں بھی اُٹھ کر گھر آجاتے ہیں اور ٹی وی لگا کر بیٹھ جاتے ہیں ۔

 يہ دولت بھی لے لو .. یہ شہرت بھی لے لو 

بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی ...

مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون ....  

وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی ۔ ۔ ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔