Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعہ، 30 نومبر، 2018

30 نومبر 2018 کی ڈائری- لیبارٹر اور لیبارٹری

سوھانجنا (مورِنگا )   کے بیج پھوٹنے سے اُگنے کے عمل کے بعد   کرنل صاحب کو اُن کا مستعار لیا ہوا گملہ واپس کرنا ضروری تھا ۔ خالی گملہ واپس کرنا مناسب نہ سمجھا ، لہذا اُس میں بیج سے اُگایا ہوا  لیچی  کا پودا لگا دیا ۔
ملازم نے گملہ اُٹھا کر گاڑی میں رکھا  ، روانہ ہونے لگے تو بڑھیا نے حکم دیا ،
" کچھ پتے لیتے آنا ، سنا ہے کہ اُس میں بھی غذائیت ہوتی ہے اور بیماریوں سے شفاء بھی"
"جی اچھا "، بوڑھے نے  کہا اور گاڑی بڑھا دی ۔
کرنل صاحب ، نے کہا، " جتنے مرضی پتے لے جائیں "
ملازم نے ، جی بھر کے پتوں بھری ٹہنیاں توڑیں  ، ڈکّی اور پچھلی سیٹ بھر دی ، کرنل صاحب کا شکریہ ادا کرکے گھر کی طرف روانہ ہوگئے ۔ 

بڑھیا نے تازہ پتوں کا انبار دیکھا ، تو بے حد خوش ہوئی ۔
" مزہ آگیا " بڑھیا بولی ،" عدنان اِن سب پتوں  کو عمران کے ساتھ مل کر  علیحدہ پرات میں جمع کرو اور اچھی طرح دھو لینا "
بوڑھا ، 
سوھانجنا (مورِنگا )   کے پتے دینے کے بعد ، گالف کھیلنے چلا گیا ۔ مغرب کے وقت واپس آیا تو دیکھا ، کہ ڈائینگ ٹیبل پر پتے  پڑے ہیں اور اُن کے اوپر بڑھیا کا دوپٹہ  اوڑھایا ہوا ہے ۔ 
"خشک کر رہی ہو ؟
سبزی نہیں بنانا تھی ؟ ؟ " بوڑھے نے پوچھا ۔

" خشک  بھی کھاتے ہیں " بڑھیا بولی 
دو دن بعد بوڑھے نے ، چائے  کی ایک خالی برنی میں ، سبز رنگ کا سفوف دیکھا ،
" یہ
سوھانجنا  کے پتے ہیں ؟" بوڑھے نے پوچھا
" جی " بڑھیا نے تسبیح پھیرتے پھیرتے رُک کر جواب دیا ۔
" باقی کہاں ہیں ۔ پھینک دئے کیا ؟؟" بوڑھے نے پوچھا ۔
" نہیں سب یہی ہیں " بڑھیا نے کہا ۔
" کمال ہے گاڑی میں بھر کر لایا اور نکلے بس دوسو گرام !" بوڑھے نے حیرت سے پوچھا ۔

" اچھا اب کیسے استعمال کریں گی آپ ؟"  
" ویسے تو  یہ کیپسول میں ڈال کر کھائے جاتے ہیں ، لیکن میں پانی سے پھانک لوں گی " بڑھیا نے معلومات دیں ۔
کوئی چار دن بعد بوڑھے کو خیال آیا ، " جی  کیسا جا رہا ہے ، سوھانجنا پھانکنا ؟ " بوڑھے نے پوچھا 
" میرا بلڈ پریشر بڑ ھ گیا تھا " لہذا چھوڑ دیا   بڑھیا نے تاسف سے کہا 
" آپ کھا کر دیکھیں !" بڑھیا نے مشورہ دیا ۔
" چلو منگواؤ ، لیبارٹی ٹیسٹ  کے لئے بندہ حاضر ہے " بوڑھے نے کہا ۔
تو نوجوان دوستو ، بوڑھے نے سوکھا  مسلا ہوا  ، سوھانجنا پھانکا ، جو چبائے بغیرحلق سے نیچے اترنے سے انکاری تھا ۔بتیس کیا ، چالیس بار  چبانے کے بھی  منہ میں جمع رہا ، آخر کا پانی پی کر بوڑھے نے سوہانجنا معدے میں دھکیلا ۔ 
" کیسا لگا ؟ " بڑھیا نے پوچھا ۔
" جب لیبارٹر کا حکم لیبارٹی پرچلے تو ، کیسا ذائقہ اور کیسا لگنا " بوڑھے نے کہا " کم از کم  گرم دودھ میں کچے انڈے سے تو بہتر ہے "

یہ اُن دنوں کی بات ہے ، جب بوڑھا  26سالہ جوان تھا ،نئی نئی شادی کے بعد   بڑھیا کے ساتھ 1980 میں  لوکیٹنگ ( فیلڈ سروے ، ساونڈ رینجنگ  ،ریڈار رینجنگ ،  میٹریالوجی  اور کاونٹر بمبارمنٹ ) کورس کرنے نوشہرہ آیا ۔ وہاں اُسے فلو ہوگیا ، جو کسی طرح بھی ٹھیک ہونے کا نام نا لے ، دو ہفتے سے زیادہ ہوگئے ۔ تو بڑھیا بھی پریشان  ۔
 سولہویں دن بولی ،" میں آپ کا دیسی علاج کرتی ہوں ، انشاء اللہ نزلہ ٹھیک ہو جائے گا "
عشائیہ کے بعد بڑھیا ایک گلاس میں پیلاہٹ مانند دودھ لے کر آئی ،
" یہ غٹاغٹ پی لیں " بڑھیا نے کہا 

بوڑھے نے گلاس لیا ، ہونٹوں کے پاس پہنچنے سے پہلے ہی انڈے کی بساند نے طبیعت میں ہلچل پیدا کردی ۔
" یہ کیا ہے ؟ " بوڑھے نے پوچھا ۔

" گرم دودھ میں پھینٹا ہوا دیسی انڈا، نزلے کا بہترین علاج ، ہمارے ہاں جب نزلہ پرانا ہوجائے تو یہی مریض کو پلاتے ہیں " بڑھیا نے کہا 
" میں ہاف فرائی  ولائیتی انڈا نہیں کھا سکتا اور آپ یہ کچا دیسی انڈا  دودھ میں ڈال کر پلا رہی ہیں "  بوڑھے نے بُرا مناتے ہوئے کہا ۔
" بس ناک بند کرکے غٹا غٹ پی جائیں ، صبح تک نزلہ غائب " بڑھیا نے حکیمانہ اعتماد سے کہا ۔ 
" مجھے نزلہ مزید ایک مہینہ قبول ہے ، مگر یہ علاج نہیں " بوڑھے نے کہا ۔ 
مگر بالآخر فتح بڑھیا کی ہوئی اور بوڑھے نے ناک بند کرکے ، غٹاغٹ  بُڑھیاکے ہاتھ سے بنایا ہوا بَڑھیا تیز بہدف نسخہ برائے نزلہ جات پی لیا ۔ اوپر سے بڑھیا نے سبز الائچی منہ میں ڈال دی۔
 " اِسے چبائیں انڈے کی بساند ختم ہو جائے گی " ۔
مرتا کیا نہ کرتا ، سبز الائچی  بھی چبانہ پڑی ، اب انڈے کی بساند اور سبز الائچی کے چھلکے کی  سڑاند نے بوڑھے کو مجبور کیا کہ وہ حلق تک خوب رگڑ رگڑ سے صفائی کرے ۔
بوڑھا تو ٹھیک ہو گیا مگر بڑھیا کوئی ہفتہ بعد ، فلو کا شکار ہوگئی ۔ بوڑھے نے کہا ،
" آپ بھی دیسی انڈے اور دودھ والا نسخہ آزمائی "
"   میں ایسے ہی ٹھیک ہوں ، مجھے دیسی انڈا اچھا نہیں لگتا "بڑھیا بولی
" تو آپ نے کبھی نہیں پیا " بوڑھے نے پوچھا 

" نہیں " بڑھیا نے جواب دیا 
" تو وہ آپ کا خاندانی نسخہ ؟؟؟" بوڑھے نے حیرت سے پوچھا 
" ہاں ، اباجان  پیتے ہیں نزلے میں " بڑھیا نے کہا
تونوجوان دوستو ، اب چونکہ بوڑھا بھی بڑھیا کے خاندا ن میں شامل ہوچکا تھا ، لہذا قسم کھانے کو ایک اور لیبارٹی بڑھیا کے ہاتھ لگ گئی ۔ چنانچہ اِس 40 سالہ شادی شدہ 66 سالہ بوڑھے  پر کئی تجربات کئے گئے ۔ اور نسخے آزمائے گئے ۔ 
سوہانجنا بھی اِس تجربات کے سلسلے کی ایک کڑی ہے جو بوڑھا  گذشتہ تین  مہینوں سے لیبارٹر کے ہتھے چڑھا ہوا ہے ۔ اور دہی میں دو چمچ خشک سوہانجنے کے پوڈر  خوب گھول کر کھا رہاہے ۔ 


اپنے گھر کے چاروں طرف سوہانجنا  کے پودے  لگا رہا ہے ۔ جو کبھی بچے توڑ جاتے ہیں اور کبھی چم چم کی مرغیاں  ضیافت اُڑاتی ہیں ۔ گھر کے اندر لگائے ہوئے پودے تو ٹنڈ منڈ کھڑے ہیں البتہ محفوظ نرسری میں موجود  پودے سلامت ہیں ۔ 
بوڑھے نے اپنا بلڈ ٹیسٹ کروایا کہ دیکھیں ، اعداد و شمار کیا ہیں ؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

٭-   سوہانجنا( مورِنگا) ، غذائیت سے بھرپور درخت :




وظیفہ


پیر، 26 نومبر، 2018

ایک کہانی ، سبق آموز !

ایک دن میں اپنے امی ابو کے ساتھ لاہور کے ایک ریسٹورنٹ میں کهانا کهانے گیا۔ وہاں دو ٹیبل چھوڑ کے ایک اُدھیڑ عمر بوڑھے میاں اور اُن کی بوڑھی محبوبہ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ اِسی دوران ایک نہایت ہی ڈیسنٹ اور خوش شکل بھائی صاحب ہوٹل میں داخل ہوئے اور واش بیسن پر ہاتھ دھو کر کچھ فاصلے پر اُن کے برابر والی ٹیبل پر بیٹھ گئے۔
چونکہ ہم نے اپنے کھانے کا آرڈر پہلے ہی دے دیا تھا تو اِس لیے ہم کهانے کا انتظار کر رہے تھے کہ اچانک اُس صاحب کے موبائل فون کی بیل بجی جس کے بعد وہ قدرے اونچی آواز میں موبائل پر کسی سے بات کرنے لگے، اُن کے بات کرنے کے انداز سے لگ رہا تھا کہ اُن کو اللہ نے کوئی بہت بڑی خوشی سے نوازا تھا۔
اور پھر موبائل پر بات ختم کرنے کے بعد وہ وہاں پر موجود سب لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے بلند آواز میں بولے، "خواتین و حضرات! آج میں بہت خوش ہوں کہ اللہ نے مجھے بیٹا عطا کیا ہے اور اِس خوشی میں، میں آپ سب کو مٹن کڑھائی کھلاؤں گا۔۔۔!" میں اپنی جگہ سے اٹها اور آگے جا کر انہیں مبارک باد دی اور کہا کہ "بھائی! ہم نے تو اپنے کھانے کا آرڈر پہلے ہی دے دیا ہے، یہ سنتے ہی اُنہوں نے کہا "اچها، چلو کوئی بات نہیں اِس خوشی میں آپکے کھانے کا بل میں ادا کروں گا۔۔۔!" اور پھر انہوں نے وہاں پر موجود باقی سب لوگوں بشمول اُن بوڑھے میاں جی اور اُن کی بوڑھیا کیلئے مٹن کڑھائی کا آرڈر کیا اور سب کا بل ادا کر کے اپنا کھانا کھا کے خوشی خوشی چلے گئے۔
چند دنوں کے بعد میں اپنے دوستوں کے ہمراه ایک سینما گیا تو کیا دیکھا کہ وہی صاحب وہاں پر ایک پانچ سال کے بچے کے ہمراہ ٹکٹ کے لیے لائن میں کھڑے تھے، میں اپنے دوستوں سے نظر بچا کر اُن کے پاس پہنچا، جونہی انہوں نے مجھے دیکھا، دیکھتے ہی مجھے پہچان گئے اور مسکرانے لگے۔
بہرحال سلام دعا کے بعد میں نے طنزیہ کہا کہ "ماشا الله! آپکا بیٹا تو چند ہی دنوں میں اتنا بڑا ہو گیا ہے۔۔۔!"
میری بات سن کر انہوں نے کہا، "بھائی! چھوڑو اِس بات کو، یہ بڑی عجیب کہانی ہے، پھر کسی دن ملو گے تو بتاؤں گا۔۔!"
جب اںہوں نے یہ کہا تو میرا تجسس اور بھی بڑھ گیا اور میں نے اصرار کیا کہ "وه مجهے یہ عجیب کہانی ابھی بتائیں۔۔!"، آخر میرے بہت اصرار پر انہوں نے جو بات بتائی اُس کے بعد میں اپنے آپ کو بہت چھوٹا سمجھنے لگا اور ان کا مقام میری نظروں میں قدرے بلند ہوگیا۔۔۔!!
دوستو! انہوں نے بتایا کہ "اس دن جب میں ریسٹورنٹ میں داخل تو ہاتھ دھونے کیلئے واش بیسن کی طرف گیا، اور وہاں ہاتھ دھوتے وقت میں نے اُن بوڑهے میاں اور بڑھی اماں جی کی باتیں سن لی تھیں، بڑھی اماں کہہ رہی تھی "آج میرا مٹن کڑهائی کھانے کو دل کر رہا ہے۔۔!"، تو اُس پر بوڑھے میاں نے بہت افسردہ لہجے میں کہا کہ "میرے پاس پورے مہینے کے لئے صرف دو ہزار روپے ہیں، اگر کڑهائی کهائیں گے تو پورے مہینے گزارہ کیسے ہوگا۔۔؟، ایسا کرتے ہیں آج دال روٹی کھا لیتے ہیں، کڑھائی پھر کسی دن کھا لیں گے۔۔!"
اُن صاحب نے کہا کہ "اسی وجہ سے میں نے اپنے موبائل کی خود ہی بیل بجا کر وہ بیٹے کی پیدائش کا ڈرامہ کیا تھا، تاکہ میں اپنی فرضی خوشی کے بہانے اُن کی دلی "خاموش خدمت" کر سکوں۔۔!"
میں نے کہا "تو بھائی! آپ صرف انہی بزرگوں کے پیسے دے دیتے، آپ نے خوامخواہ باقی سب لوگوں کو کھانا بھی کھلایا اور اُن کا بل بھی ادا کیا۔۔؟"
تو انہوں نے جواب دیا "ایسا کر کے میں ان بزرگوں کی عزتِ نفس مجروح نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔!"
(تحریر نا معلوم)


جمعہ، 23 نومبر، 2018

لحم الخنزیر ، عیسائی نظریہ

پورک ، ہیم ، بیکن ، پپرونی  یہ وہ غذائیں ہیں جو بائبل کے مطابق کھانے کے لئے ممنوع ہیں ۔
 کیوں کہ یہ تمام مزیدار  کھانے  ، خنزیر سے بنتے ہیں ۔
لوگوں کو پور ک چاپ پسند ہیں ، ہیم چیز سینڈوچ مزیدار لگتے ہیں ،بیکن اور پیپرونی کے لوگ دیوانے ہیں ، لیکن میرے خیال میں ہمیں اپنی کھانے کی عادتیں تبدیل کرنا پڑیں گی خدا کو معلوم ہے کہ کون سی غذائیں ہمارے جسم کے لئے طیّب ہیں اور کونسی مضرِ صحت ۔ 
پرانے زمانے میں خنزیر کو بطور غذا گندہ تصوّر کیا جاتا تھا ۔ کیو ں کہ خنزیر ہر چیز کھا جاتا ہے  ،  کوڑا ، کچرا ، بیمار  اور مردار خور  جانورہے ، یہاں تک کے  اپنا مردہ بچہ تک کھا جاتا ہے ۔   
خنزیر کا نظامِ ہضم  نہ صرف دیگر جانوروں کے مقابلے میں سب سے تیز ہےبلکہ  مسام دار بھی ہے ۔ جو صرف چار گھنٹوں میں سب کچھ ہضم کر جاتا ہے ۔ جس کی وجہ سے خوراک میں موجود  Toxins یعنی زہریلے جراثیم  کو اُس کامعدہ ختم نہیں کرتا بلکہ وہ  خنزیر کی چربی میں  جمع ہوجاتے ہیں ۔ 
یوں سمجھیں کہ ایک خنزیر نے  جراثیم زدہ خوراک کھائی وہ 4 گھنٹے بعد ذبح ہو کر فریج میں چلا گیا  اُسی دن یا دو دن بعد وہ آپ کی پلیٹ میں پورک ، ہیم ، بیکن ، پپرونی  کی صورت میں آپ کی ڈائینگ ٹیبل پر آپ کے سامنے ہو گا۔جس میں موجود   Toxins یعنی زہریلے جراثیم کا مکمل خاتمہ نہیں ہوا ہوگا ۔ 
دیگر جانور جو ہماری غذا کا حصہ بنتے ہیں وہ  تازہ چارہ   کھاتے ہیں ، جن میں گائے ،بیل ، بھینس ، سانڈ، بکرا ، بکری ، بھیڑ،  دنبے وغیرہ شامل ہیں ۔جگالی کرنے والے چوپائیوں کا  نظام ِ ہضم اعلیٰ قسم کا  ہوتا ہے ، اُن کے معدے کے تین حصے ہوتے ہیں ، جن کے ذریعے وہ 24 گھنٹوں میں اپنی خوراک ہضم کرتے ہیں ۔
اب اندازہ لگائیں کہ کہاں 24 گھنٹے اور کہاں 4 گھنٹے ؟
اب سوچیں کہ آپ کس جانور کا گوشت کھائیں گے ؟
وہ جانور جو گندگی کھاتا ہے یا وہ جانور جو تازہ چارہ کھاتا ہے !
جس اپنی خوراک کو کم وقت میں ہضم کرکے جسم کا حصہ بناتا ہے  اور تمام جراثیم اپنی چربی میں ذخیرہ کرتا ہے ۔ یا 

وہ جانور  جو  جراثیم  کو اپنے معدے میں مکمل تباہ کردیتے ہیں !
مجھے آپ کا تو معلوم نہیں ، لیکن میں ایسا کوئی چانس نہیں لے سکتا کہ ایک جانور جو اپنے جسم میں زہریلے جراثیموں کا ذخیرہ  لیے پھرتا ہو میرے جسم میں وہ میری خوراک بن کر منتقل کرے ۔
مجھے بیکن پسند تھا لیکن یہ جاننے کے بعد چند سال پہلے میں نے ٹرکی بیکن شرو ع کردیا جو اتنا ہی مزیدار تھا جتنا ہیم بیکن ۔  
میں پیزا کھاتا ہوں لیکن پیپرونی  نہیں ۔
میں نے نہ صرف اپنی صحت کے لئے اپنی خوراک میں تبدیلی کی بلکہ میں نے خدا کے حکم کی بھی عزت رکھی ۔
اگر میں اپنا خیال نہیں رکھتا  تو خدا میرا یقیناً خیال رکھے گا ۔
کیا بائیبل ہمیں کسی اور چیز سے بھی دور رہنے کا کہتی ہے ؟
کیا کسی قسم کی شیل فِش ، پران ،  کریب ، اوئسٹر ، لابسٹر ۔یہ سب جانور سمندر کی تہہ میں رہتے ہیں اور مردار خور جانورہیں ۔ 

یہ دوسرے جانوروں کا فضلہ اور گند بَلا کھاتے ہیں ۔ 
جب میں اِن کے بارے میں سوچتا ہوں تو میری بھُوک اُڑ جاتی ہے ۔ 
اِن کے بجائے ہمیں تازہ مچھلیاں کھانا چاہیئں ۔ سالمن بہترین ہے ۔ چکن بھی کھانا اچھا ہے ۔
وڈیو سے ترجمہ۔ مہاجرزادہ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭








 ٭٭٭٭٭٭

جمعرات، 22 نومبر، 2018

زعفران راولپنڈی میں اُگ سکتا ہے

کوئی تین ماہ پہلے  جناب ثنا اللہ خان احسن نے فیس بُک پر زعفران کیا ہے؟اور کیسے لگایا جائے؟" کے متعلق    لکھا ۔ 
جس کو اُگانے کے لئے  بیج یا زعفران کی پیاز سے پودا اُگانے کے بارے میں کسی نے لکھا  کہ زعفران بیج سے نہیں اُگائی جاتی ۔ 
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے کوئٹہ میں برف پگھلنے کے بعد زرغون سبزی مارکیٹ سے بیج لا کر زعفران اُگائی تھی ۔
خیر بیجوں کی تلاش میں ۔ ویب سے کراچی کے ایک تاجر کا نمبر ملا ، موبائل پر بات ہوئی ، جس نے بتایا کہ وہ 10 پیازی بلب بھجوا سکتا ہے ، جس کی قیمت  میرے پاس پہنچ کر 1،750 روپے بن جائے گی ۔ 

کہا ، آپ کو بتاؤں گا ۔
ابو سعید سے وٹس ایپ پر پوچھا ، پنڈی میں زعفران کی کاشت ہوتی ہے ؟
ابو سعید کلرسیّداں کا رہنے والا ہے ، اُس نے کہا کہ ، راولپنڈی میں زعفران کی کاشت کا نہیں سنا ۔ 

31 اکتوبر کوگملوں میں  سبزیاں اُگانے  کے لئے نرسری سے مٹی خریدنے گیا وہاں ایک باسکٹ  میں کسی پودے کے پیاز نظر آئے ، میں سمجھا شائد نرگس کے ہیں ، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ زعفران کے ہیں اور قیمت فی پیاز 100 روپے ہے ۔

پانچ عدد پیاز مبلغ 500 روپے کے خرید لئے ۔ اور گھر آکر 10 بجے ،  پانچ گملوں میں لگا دئے  اور دیکھ بھال شروع کردی ۔ 

18 تاریخ کو صبح  7 بجے ، مچھلیوں اور بلیوں کو کھانا ڈالا ، پانی کی موٹر چلائی ۔گملوں  میں  لگائے ، مٹر ، ٹماٹر ، سلاد ، شلجم ، مولی ، کھیرے  کے بیجوں سے نکلی کونپلوں پرپانی کا چھڑکاؤ کیا ۔
 جب ، پودوں کے پاس پائپ لے کر پہنچا اور پودوں کے درمیان دو گملوں میں تین  بیگنی رنگ کے پھول نظر آئے دل باغ باغ ہو گیا ۔

گویا صرف 18 دن بعد ، زعفران کی پیاز  سے پھول نکل آئے  جن  کی بیگنی رنگت کی پنکھڑیوں کے غلافی آنچل سے  تین   سروقد سرخی مائل رنگت  کی زعفرانی دوشیزائیں جھانک رہی تھی ۔ پھولوں کو سونگھا ، دھیمی  دھیمی مسحور کُن خوشبو   نے دماغ مُعطر کر دیا ۔
قارئین ! تجربے کے بعد ، پس ثابت ہوا کہ راولپنڈی میں زعفران کی کاشت ہو سکتی ہے !

باقی تین گملوں میں بوئی گئی پیاز  کے تنے بھی نکل آئے ہیں ، شائد صبح تک اُن سے پھول نکل آئیں ۔
مقصد چونکہ ، زعفران کے بیج حاصل کرنا تھا ، لہذا ایک گملے کے پولن کو دوسرے گملے کے   پھول کی تینوں دوشیزاؤں  کو نہلایا ۔ یوں نو کی نو دوشیزائیں   پولن سے زیربار ہوئیں ۔




اب بیجوں  کی افزائش کا انتظار ہے ۔ جس کا آپ کے علاوہ مجھے بھی انتظار ہے  کہ ایک پھول سے کتنے بیج حاصل ہوتے ہیں ؟


٭-   زعفران کے غذائی اعداد و شمار



 
 اگلا مضمون۔جاری ہے 
٭٭٭٭٭٭٭فہرست ۔ باغبان اور کسان٭٭٭٭٭٭٭٭
 

منگل، 20 نومبر، 2018

یو ٹرن لینے والے فسادی اور جھگڑالو ہیں


 روح القدّس نے محمدﷺ کو اللہ کی طرف سے شوریٰ کے بعد عزمِ توّکل کا حکم دیا  یو ٹرن کا نہیں !
٭٭٭٭٭٭٭٭ 

اتوار، 11 نومبر، 2018

صرف میں ہی کیوں

رابرٹ آرتھر  ایشے   جونئیر ، مشہور ویمبلڈن ٹینس پلئیر نے 1983 میں ھارٹ سرجری کروائی ، تو اُسے جو خون مہیا کیا گیا ، اُس میں ایڈ کے جراثیم تھے ۔
ہسپتال کے بستر پر ایڈ میں مبتلاء ایشے کو اُس کے فین کی طرف سے ایک خط ملا ۔
خدا نے آپ ہی کو ایسی  بُری بیماری کے لئے کیوں منتخب کیا ؟
آرتھر نے جواب دیا :
5   کروڑ افراد،  ٹینس کا ریکٹ ہاتھ میں پکڑ کر کورٹ میں اترتے ہیں ۔
50 لاکھ افراد  ،  ٹینس کھیلنا سیکھتے ہیں ۔
لاکھ افراد  ،  پروفیشنل ٹینس میں قدم رکھتے ہیں ۔
50 ہزار 
افراد  ،کی پروفیشنل   ٹینس میں  مقابلوں کے بعد انٹری ہوتی ہے ۔
5 ہزار افراد ، گرینڈ سلام  کھیلتے ہیں ۔
50  افراد ، ویمبلڈن ٹینس کھیلتے ہیں ۔
4 افراد سیمی فائینل میں پہنچتے ہیں ۔ اور
صرف 2 افراد ، 
ویمبلڈن ٹینس کا فائینل کھیلتے ہیں ۔ 

جب میں نے  ویمبلڈن ٹینس کا کپ اپنے ہاتھ میں پکڑا ، تو میں نے خدا سے نہیں پوچھا تھا ۔
صرف میں ہی کیوں ؟

تو اب اِس تکلیف میں میری ہمت نہیں کہ میں خدا سے پوچھوں:
صرف میں ہی کیوں ؟
٭٭٭٭٭٭٭٭
بشکریہ  ۔ کرنل (ر) سید شاہد    
 ٭٭٭٭٭٭٭٭

مسیح موعود کے بعد ایک اور مسیح

مرزا غلام احمد آف قادیان مسیح موعود کے بعد ایک اور  مسیح ۔ 
مجھے  2 نومبر کو ایک دوست نے ، ایک وڈیو  وٹس ایپ کی  ، جس  کا ٹائیٹل ،
 جاء عیسیٰ بالبیّنات
 میں نے نبا 7 کی دوتین وڈیو دیکھی ہوئی تھیں  ، جس کا مبلغ  اللہ کی آیات کی اچھی ترتیل کرتا تھا ۔ لہذا یہ دیکھنے کے لئے کہ یہ ، آمدِ عیسیٰ کی وضاحت کیسے کرتا ہے ؟
وڈیو دیکھی ، تو معلوم  ہوا کہ ، اردو میں ، باتصویر الکتاب لکھنے کے بعد ۔ اِس نوجوان   ( جس کا نام مہر ادیب ولد مہر نذیر ،  ساکن کھٹانہ ضلع گجرات  ، ہجرت بطرف   جرمنی  )نے  ،
مسیح عیسیٰ ابن مریم ہونے کا تو نہیں ، دوسرا عیسیٰ  ، یعنی مثلِ عیسیٰ  ہونے کا اعلان کردیا ۔  کیوں کہ جو الفاظ اِس کے منہ سے ادا ہورہے تھے ، بقول اِس کے ، وہ اِس کے نہیں بلکہ ، 
اللہ اِس کی زبان سے انسانوں کو اردو میں بتا رہا  ہے !
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دیکھیں وڈیو ۔     جاء عیسیٰ بالبیّنات 
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اِس نوجوان  کا دعویٰ ہے کہ اِس نے القرآن کو کھول کھول کر اپنی الکتاب میں بینات کے ساتھ بتایا ہے ، اور روایات کو   عقل مندوں  کی طرح  ، بطور حدیث   یکسرمسترد کر دیا ہے.
 
 لیکن اِس  نے اپنی دوسری وڈیو   میں دجالی بینات جو بتائی ہیں وہ  الکتاب (القرآن) کا حصہ نہیں بلکہ روایات کا حصہ ہیں ۔کیوں کہ تمام دجالی کاروائیاں روایات کا حصہ ہیں ، جو شائد  بنی امیّہ  یا بنّو عباس کا سفّاک  حاکم رہا ہوگا ، ویسے سفّاکیت کی داستان سے عربی تاریخ بھری پڑی ہے ۔ 
اب نہ معلوم یہ حقیقت ہے ، یا شامِ غریباں (شیعاً یا سنّی  ) میں  خطیبوں کا زورِ بیاں ہے ۔  
کیوں کہ کہانت گر د دو ہی شوق رکھتے تھے ، ظلم و بربریت کی داستان یا  کسی مہ ِ لقا کے حسن   کہ پھلجڑیاں ، جو قصہ خوانی بازاروں میں مقبول ہوئیں ۔ 

ایک اور  نوجوان نے خود کو خلیفہ راشد ہونے کے اعزاز کا اعلان کر دیا  ہے ، 
دیکھیں وڈیو : گیارھوں خلیفہ راشد ۔

اِس نوجوان نے بارھویں خلیفہ  ، احمد کی بشارت بھی دے دی ہے ۔ لگتا ہے کہ یہ بھی   شائد احمد عیسیٰ سے بیعت شدہ ہے ، یہ بھی ویسے ہی ڈراوے دے رہا ہے جیسے ، مرزا غلام احمد قادیانی نے دیئے تھے  اور احمد عیسیٰ نے دیئے ہیں ۔
مجھ پر ایمان لے آؤ ورنہ مارے جاؤ گے ، انسانوں کے لئےخوف ،مذہب کا پہلا   ہتھیار ہے ۔
لگتا ہے کہ مذھبی  درویشوں کو اِن دونوں نوجوانوں کی وڈیو نہیں بھیجی گئیں یا اگر بھیجی گئی ہیں تو شائد وہ انتظار کر رہے ہیں کہ یہ  مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح  مریں ، تو پھر غلغلہ ءِ فساد بلند کریں ، کیوں کہ ڈرتے یہ بھی ہیں کہ اگر کہیں اِن کتابوںکی لکھائی کے مطابق ،


  واقعی اِ ن  دونوں میں سے کوئی ایک ،  عیسیٰ یا  خلیفہ  نکل آیا تو مارے جائیں گے ، لہذا۔
   دَر وَٹ جاؤ اور چُپ رہو ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔