Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

بدھ، 26 فروری، 2014

لیڈر شپ ! الطاف حسین

مہاجرزادوں کا مقدمہ۔ (الطاف حسین مہاجرزادہ)
شاید آپ سندھ میں نہیں رہے ، میری عمر کا کچھ حصہ سندھ میں گذرا ہے ، 1973 میں ،میں نے وہاں غیر سندھیوں کا قتل دیکھا ہے

" مہاجر سٹوڈنٹ  فیڈرشن "سے میرا تعارف 1970 میں نیشنل سروس کی ٹرینگ کے دوران دوسرےہفتے میں ہوا تھا ۔جب پہلے بیج کے الطاف حسین سے میرا تعارف کراچی کے ایک دوست نے کروایا تھا ۔

اردو بولنے کے باوجود الطاف حسین کی تقریر نے مجھے متاثر نہیں کیا کیوں کہ اس سے عصبیت کی بو آتی تھی ، عصبیت کی یہ تعریف میں نے جماعت اسلامی کے اکابرین سے سنی تھی ۔

پھر الطاف گروپ سے دوبارہ ملاقات کراچی یونیورسٹی میں ہوئی ۔جب سندھ میں فسادات پھوٹے ، سندھی اور غیر سندھی (پنجابی ، پٹھان اورمہاجر) گو کہ ان کا اتحاد عارضی تھا، لیکن اس کے باوجود سندھی اور پٹھان مہاجروں کے خلاف تھے۔ اس کے بعد کا حال سب کے سامنے ہے۔
 پھر  1985کے بعد ، پٹھانوں اور سندھیوں کی طرح ،مہاجر زادوں نے اسلحہ ہاتھ میں لے لیا ، کیوں کہ مہاجر "قلم" پکڑنے والی قوم تھی ، جبکہ پٹھان بندوق کو اور سندھی کلہاڑی کو اپنا زیور سمجھتے تھے ۔
چنانچہ "مہاجر زادوں" نے اپنے والدین کے اصولوں سے بغاوت کی اور ہاتھ میں ، پٹھانوں کے درہ آدم خیل سے لائے ہوئے، ریوالورکو اپنا زیور بنا دیا۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے ، کہ 1967 میں، میں آٹھویں میں پڑھتا تھا  ،  کوئیٹہ میں سردیوں کی چھٹیاں ہوئی ، والدہ محترمہ ہمیں لے کر نومبر کے آخری ہفتے میں فروری تک کی چھٹیاں گذارنے   میرپورخاص، خالہ کے گھر آئیں  ۔ آوارہ گردی سے بچانے کے لئے انہوں نے ہمیں  محلے کے سکول میں داخل کروادیا ، ہیڈ ماسٹر میرے مرحوم چچا کے ساتھی تھے ،  میرے ملتان بورڈ کے امتحان مارچ  1968 میں ہونے تھے سکول کا امتحان میں نے پاس کر لیا تھا  ۔

ہمیں آئے ہوئے کوئی دوسرا یا تیسرا دن تھا ،میرا  دس سالہ چھوٹا بھائی زخمی ،کپڑے پھٹے ، گھر آیا ، خواتین کا رونا پیٹنا اپنی جگہ ، میں نے اس سے پوچھا کیا ہوا ، اس نے  پاکستان کی ایک زبان بولنے والوں  کے متعلق بتایا  ، کہ وہ  (چھوٹا بھائی ) اور اس   کے دوسرے ساتھی  ، کرمچ  (ٹینس) کی گیند سے پٹھو گرم کھیل رہے تھے  ۔ کہ گیند ان کے گھر کے سامنے چلی گئی ، تو ایک لڑکا جو وہاں کھڑا ، ہمیں دیکھ رہا تھا وہ  دوڑ کر  گھر میں گیا ، میں اس کے پیچھے گیند لینے گیا ۔ تو اس نے اور اس کے دو اور بھائیوں نے مجھے مارا ۔
 میں نے خالہ زاد بھائی سے پوچھا ، اس نے تصدیق کی۔
میں اور مجھ سے ڈیڑھ سالہ چھوٹا بھائی ، ہم دونوں گیند لینے ۔ ان کے گھر جانے لگے تو ، خالہ زاد بھائی بولا ، 

" بھائی جان وہ بہت لڑاکا ہیں ، مار مار کر خون نکال دیتے ہیں "۔
 امی اور خالہ نے روکنے کی کوشش کی لیکن ہم دونوں بھائی ، اپنی ہاکیاں لے کے باہر نکلے ۔ اس لڑکے کے گھر کے باہر چار لڑکے ہماری گیند سے کھیل رہے تھے ۔ میں نے قریب جا کر کہا ۔
" یہ گیند دے دو ہم نے ہاکی کھیلنی ہے ۔"
جس لڑکے نے گیند چھینی تھی ، اس نے مجھ سے قد میں بڑے لڑکے کی طرف اچھال دی ، اس نے کہا،
" آؤ مجھ سے لے لو "۔
میں سمجھ گیا ، کہ یہ اب گیند ایک دوسرے کی طرف اچھال کر ہمیں زچ کریں گے ، میں اسکی طرف بڑھا تو اس نے گیند پیچھے چھپا لی اور میرے سینے پر مکہ مارا ۔ میں اس کے لئے تیار نہیں تھا ۔ چھوٹے بھائی نے ہاکی پوری قوت سے گھما کر اس کے ٹخنے پر ماری اور پھر تھوڑی دیر میں تین لڑکے اپنے ٹخنے سہلا رہے تھے اور زور زور سے رو رہے تھے ،
ہم نے اپنی گیند لی اور دوڑ کر گھر واپس آگئے ۔
تھوڑی دیر میں ایک پورا وفد ، یونین کونسل کے ممبر سمیت  ہماری خالہ کے دروازے پر ، ہمیں باہر بلایا گیا ۔  انکوائری ہوئی ، ہم بے قصور اور مخالف پارٹی مجرم ،  دونوں پارٹیوں میں دوستی کروائی گئی  ۔ اور ایسی دوستی ہوئی کہ اب بھی قائم ہے ۔
ہم والد کی فوج میں  ملازمت کی وجہ سے پنجاب ، سرحد اور بلوچستان کی خاک چھان چکے تھے ، لہذا میری بڑی بہن، میں اور چھوٹا بھائی ، عموما موقع محل کے مطابق ، پنجابی ، پشتو ، فارسی اور حتمی سیکیورٹی کے لئے ، ف ، چ ک اور الٹی بولی بولا کرتے تھے۔ الٹی بولی کو ہم نے جرمن زبان کے کچھ لفظ ملا کر ، جرمنی کی زبان ڈکلئیر کر دیا تھا ۔
 
لیکن وہ  مہاجر زادے جو " رمضانی کمزور مار کھانے کی نشانی " سمجھا جاتا تھا ، اپنا حق لینے پر ،میڈیا نے انہیں دہشت گرد بنا دیا ۔ہمارے وقتوں میں میڈیا اتنا مادر پدر آزاد نہ تھا ، لیکن اس کے باوجود ،  ان کے مقابلے میں:
پٹھان اگر قتل کرتا تو وہ "غیرت" کے رجسٹر میں درج ہوتا ،
سندھی قتل کرتا تو وہ "سندھی دھرتی ماتا " کے اتہاس میں لکھا جاتا ۔

اور مہاجر کو "پنجابی" استعمال کرتا اور
اسے بچانے کے بجائے پولیس میں پکڑوا دیتا ۔

یہ ساری کہانی ہے ، "مہاجر قومی مومنٹ" کے وجود کی۔  
کراچی میں ،
 ایم کیو ایم ،کوئی نئی شریعت نہیں لا رہی اور نہ ہی کسی نئے صوبے کا نعرہ لگا رہی ہے ۔ اس کے باوجود ،" شیر آیا شیر آیا " کا نعرہ بلند کروایا جاتا ہے ۔ تاکہ مہاجروں  زادوں کے  خلاف دلوں میں نفرت کی خلیج کا بیج بویا جائے ۔
 
ہمارے والدین جو ہندوستان سے آئے ہوئےمہاجر تھے  ، قائداعظم کے نعرے  سن کر اپنی جائدادیں ، آباء و اجداد کی قبریں ،  بہن ، بھائی  اور دیگر رشتہ دارچھوڑ کر پاکستان آئے۔کیوں؟
کہ وہ سنہرہ نعرہ " مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ " جو 1940 سے 1947 تک خون میں شامل ہو کر رگوں میں دوڑ رہا تھا ۔  اس نے ہجرت پر مجبور کیا ۔

پاکستان میں آکربھی،  ہندوستان سے آئے ہوئے مہاجروں نے قربانیاں دیں ، وہ سب پڑھے لکھے لوگ تھے ۔ 

مغربی پاکستان کے تمام سکول ، تمام حکومتی ادارے ، تمام کھیت اور بزنس کو فروغ تو ہندوستان سے آئے ہوئے مہاجروں نے ہی دیا  - خواہ یہ مہاجر پنجابی ہوں ، پٹھان ہوں یا اور قومیں  ۔
 یاد رہے کہ مہاجروں میں اردو بولنے والے نہیں البتہ اردو سمجھنے والے زیادہ لوگ تھے  ۔ لہذا ان کے درمیان اردو رابطے کی زبان بن گئی ۔ ایک بات یاد رہے ، کہ میں نے مشرقی پاکستان کی طرف جانے والے مہاجروں (بہاریوں)  کا ذکر نہیں کیا ، جن کی بے مثال قربانیاں اب بھی جاری ہیں  ۔ 
ہاں،  بلوچستان میں گئے ہوئے ، یہ مہاجر بلوچستان کو تقریباً خالی کر کے ملک کے دوسرے حصوں میں چلے گئے ہیں -
میں  ایم کیو ایم کا  ووٹر نہیں نہ ہی الطاف حسین میرا لیڈر ہے ، لیکن میں اس کی لیڈر شپ کا قائل ہوں ، کہ جو لندن میں بیٹھ کر ، جب مجمع سے کہتا ہے!
 میری بہنوں ، بھائیو ، بزرگو اور میرے کارکنو ذرا خاموش ہو جاؤ ،
تو نعیم صادق سر،  میں نے خود ماؤں کو چھوٹے بچوں کے منہ پر ہاتھ رکھ کر چپ کرواتے دیکھا ہے ، کہیں ان کے  قائد کو اس کے شور کی آواز نہ  چلی جائے ، اس وقت اس ماں کے سر پر نہ کوئی پستول رکھا ہوتا ہے اور نہ کوئی دہشت گرد کھڑا ہوتا ہے ۔
نعیم صادق سر : اسے لیڈر شپ کہتے ہیں ۔
 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

راجپوتانہ سے اُٹھنے والے مکّڑ (ٹڈیاں

 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

قد سے بڑا فیصلہ

صبح آٹھ بجے ،وہ اٹھا اس کا دل چاہا کہ وہ کہیں دور جائے ، اس نے تیاری کی بہترین سوٹ پہنا، ہاتھ میں چھڑی لی ، وسیع الشان گھرسے باہر نکل کر پورچ میں آیا ، جہاں دو چمچماتی اس سال کے ماڈل کی کاریں کھڑی تھیں ، اس نے  لان کی طرف دیکھا اس کے بیوی اپنی بہو اور چھوٹی  پوتی اور پوتے کے ساتھ بیٹھی تھیں ۔باقی بچے سکول گئے تھے  اور  ناشتہ کر رہی تھیں ، پوتا دوڑ کر آیا اور دادا سے لپٹ گیا ۔ وہ پوتے کو ساتھ لئے ہوئے  ، بیوی کی طرف بڑھا ۔ 
 کہاں کے ارادے ہیں ؟  بیوی نے پوچھا ۔
  "بس ذرا پرانی یادیں  تازہ کرنے کا پروگرام ہے    اس نے جواب دیا ۔
"جلدی آجانا "  ۔بیوی نے کہا ۔
" ہوں"- یہ کہتے ہوئے وہ ڈرائیو وے کی طرف بڑھا  ۔
ڈرائیور نے دروازہ کھولا وہ پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا ، ڈرائیور نے کار  گیٹ سے باہر نکالی دربان نے  گیٹ بند کر دیا -
وہ  کام کرتے ہوئے تھک کر سڑک کے ساتھ بنی ہوئی حفاظتی دیوار پر بیٹھا تھا ، اس نے سامنے  خوبصورت سکول یونیفار م میں، بچے سکول میں داخل ہو رہے تھے  وہ حسرت سے ان کی طرف دیکھ رہا تھا ، کیا میرا بچہ بھی  اس سکول میں پڑھ سکتا ہے ؟  اس نے سوچا  
وہ ایک ارادے سے اٹھا ، گیٹ کے چوکیدار کے پاس ، اپنا سامان رکھا اور سکول میں داخل ہوگیا ، چوکیدار اسے جانتا تھا ، وہ یہیں کام کرتا تھا ۔  وہ نپے تلے قدموں سے  پرنسپل کے آفس  کے پاس پہنچا، اور آفس میں داخل ہوا ۔
پرنسپل نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا ، " کیا بات ہے ؟"
" میڈم ۔ میں اپنے بچے کو اس سکول میں داخل کروانا چاہتا ہوں  ! "وہ لجائی ہوئی آواز میں بولا ۔
" کیا  ؟ " میڈم کا منہ کھلا رہ گیا ۔ "باہر جاؤ  " وہ دھاڑی  ،" تمھاری ہمت کیسے ہوئی ، اپنے قد سے بڑی بات کرنے کی  ؟ نکلو یہاں سے "  
وہ افسردہ پرنسپل کے آفس سے باہر نکل آیا ۔  نہ اسے شرمندگی ہوئی نہ ہی ندامت اور نہ ہی اسے اپنے حقیر ہونے کا احساس ہوا  ، کیوں کہ ھوش سنبھالنے کے بعد وہ اس قسم کے حقارت بھری الفاظ ، دھتکار اور تمسخر سنتا آیا تھا  ۔
اس دن ان کی ، کچی بستی میں خوب صفائی ہوئی تھی ، کچی گلی میں چونا بھی ڈالا گیا تھا ۔ کچھ نے اپنے گھر کو دیواروں پر اپنی بساط کے مطابق چونا بھی کیا تھا کیوں کہ بڑے صاحب کی بیگم بھی آرہی تھی ، وہ دبلی پتلی خوبصورت سے خاتون ہمیشہ آتی ، ان کے ساتھ کچھ لمحے گذارتی ، ان کے بچوں کو   میٹھی گولیاں  اور دوسری چیزیں دیتی ، عورتوں سے ان کے مسائل سنتی  اس کے ساتھ آیا ہوا ایک آفیسر کاغذ پر نوٹ کرتا اوروہ چلی جاتی ، آج پھر بیگم صاحبہ آرہی  تھیں ۔ مرد سب ایک دری  پر بیٹھے تھے عورتیں دوسری طرف، بیگم صاحبہ حسب معمول ، آفیسر اور دو نرسوں کے ساتھ آئیں ، آج بچوں کو ٹیکے بھی لگناتھے ،  جاتے ہوئے بیگم صاحبہ نے  کہا کہ اگر کسی کو کوئی کام ہو تو وہ میرے پاس بلا جھجک آسکتا ہے ۔
وہ کام کرتا ہوا پھر سکول کے سامنے پہنچا تو اس نے دیکھا کہ بیگم صاحبہ بس سے اتریں ، وہ سلام کرنے بیگم صاحبہ کے پاس گیا ،" بیگم صاحبہ سلام " ہاتھ اٹھا کر سلام کیا ، بیگم صاحبہ نے سلام کا جواب دیا  ۔  اور اس کی سوالیہ کو سمجھتے ہوئے پوچھا ، " کچھ کہنا ہے ؟"
" بیگم صاحبہ ، میں اپنے بچے کو اس سکول میں پڑھانا چاہتا ہوں "  - وہ بولا ۔
بیگم صاحبہ نے بے اختیار مڑ کر سکول کی طرف دیکھا  ،  یہ سکول آفیسروں کے بچوں کے لئے تھا ۔
" تم سکول کی انتظامیہ کے پاس جاکر بات کیوں نہیں کرتے ؟" بیگم صاحبہ نے کہا ۔
 " میں گیاتھا ، مگر انہوں نے انکار کر دیا ، یقین مانیں  میں سکول کی فیس بھی پوری دوں گا اور میرا بچہ ، بہترین لباس میں سکول آئے گا ، اگر وہ کبھی گندہ ہوا تو بے شک اسے سکول سے نکال دینا"  وہ پورے اعتماد سے بولا ۔
اس کے لہجے میں بیگم صاحبہ نے  ایک عزم دیکھا  ، وہ سکول میں چلی گئی ان کے اصرار پر بچے کو سکول میں داخلہ مل گیا ۔
وہ جب تمام بنگلوں کی صفائی کرنے کے بعد ، سکول کے سامنے سڑک کی صفائی کرتا ہوا تھک کر بیٹھتا تو اس کا بچہ بہترین سکول یونیفارم میں اپنی ماں کے ساتھ  سڑک پر آتا دکھائی دیتا ، اور سکول میں داخل ہو جاتا  ،و ہ بچہ ہمیشہ لباس کی صفائی کے پانچ نمبر لیتا ہوا آہستہ آہستہ اگلی کلاس میں جاتا رہا ، اس نے میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا تو وہ مٹھائی لے کر بیگم صاحبہ کے پاس گیا ۔ بیگم صاحبہ نے مبارکباد دی ، اس  نے شکریہ ادا کیا  اور پوچھا ، " مائیکل ،کیا اب بیٹے کو پی اے ایف میں ائر مین بھرتی کرواؤ گے " 
مائیکل  نے کہا ، "نہیں بیگم صاحبہ  میں اسے ڈاکڑ بنوانا چاہتا ہوں  "
ایف ایس سی ، پری میڈیکل میں مائیکل کے بیٹے نے  اسی فیصد نمبر لئے  تو مقامی چرچ نے اسے سکالر شپ پر میڈیسن کی تعلیم کے لئے اٹلی بھیجا ۔ اس کا بیٹا اٹلی سے  بہترین ڈاکٹر بن کر آیا  اور لاہور میں پریکٹس شروع کر دی ۔
اچانک پاس سے گذرتی ہوئی بس کا ہارن بجا وہ ماضی سے حال میں آگیا ،  سکول کے سامنے اسی منڈیر پر بیٹھا وہ سوچ رہا تھا کہ اگر ، مسز سیسل چوہدھری اس کے لئے سکول انتظامیہ کو قائل نہ کرتیں تو ، آفیسروں اور جوانوں کے گھر اور بیرکیں  صاف کرنے والے سوئیپر کے بیٹے کو ، پی اے ایف سکول میں داخلہ کیسے ملتا ، صرف اس کاہی نہیں بلکہ اور دوسرے سیپروں کے بچے بھی  اسی پی اے ایف سکول سے پڑھ کر پاکستان کی ترقی کی دوڑ میں  ، بیگم سیسل چوہدری کی وجہ سے شامل ہوئے ۔

وہ وہاں سے اٹھ کر چرچ گیا فادر سے ملا اور پڑھنے والے بچوں کے لئے ہر سال کی طرح آج بھی اس نے حصہ ڈالا کیوں کہ آج ہی کے دن تو اس کا بچہ سکول میں داخل ہوا تھا ۔ وہ ہر سال اپنی بیوی اور بچوں کو بتائے بغیر ، یہاں آتا اور سڑک کے کنارے اسی تھڑے پر بیٹھتا اور خدا کا شکر ادا کرتا  اور دعا کرتا  کہ خدا  بیگم سیسل چوہدری اور اس کے شوہر کو اپنی جنت میں ایک ساتھ رکھے اس کے بعد وہ آسمان کی طرف دیکھ کر ہاتھ ہلاتا ، اسے یقین ہے کہ بیگم سیسل چوہدری کی روح  اسے دیکھ کر خوش ہو رہی ہوگی  کہ اب مائیکل کے پوتوں اور پوتیوں  کو   کسی اچھے سکول  میں داخل کروانے کے لئے  کسی بھی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے گا  ۔   اس  نیک دل خاتون نے جو نیکی کی تھی وہ کئی ہزار گنا طاقتور درخت کے روپ میں خدا کی جنت میں اس پر سایہ کرتی ہے ۔
 
 
 



منگل، 25 فروری، 2014

پہلے دن کی نوکری

ایک بہت بڑے سپر سٹور نے ، ملازمت کے لئے اشتہار دیا  اور ایک  نوجوان کو منتخب کیا ۔ مینیجر نے اسے مبارک باد دیتے ہوئے  ، اسے اس کا پہلا کام بتاتے ہوئے کہا ، " نوجوان  ! آپ کو پورے سٹور میں جھاڑو لگانا ہو گی  !

نوجوان نے حیرت سے  ، چالیس سالہ مینیجر کی طرف دیکھا ۔

اور ہکلاتے ہوئے بولا ،  " سر !  میں کالج گریجوئیٹ ہو ں " ۔

" اوہ  ، معذرت  ، میں سمجھ گیا ۔ میرے ساتھ آؤ  " یہ کہہ کر  مینیجر نوجوان کے ساتھ اپنے  اعلیٰ قسم کے آفیسر  سے باہر نکلا ، اور  کونے پر ایک ٹائلٹ میں داخل ہوا ، دروازے کے ساتھ والی الماری کا دووازہ کھولا ، وہاں سے بالٹی اور وائپر نکالا ، بالٹی کو پانے سے بھرا ، اس میں پوڈر ڈالا  اور  سامان اٹھائے ہوئے   باتھ روم سے باہرآیا ، نو جوان بھی پریشان اس کے ساتھ چل رہا  تھا ، باہر آکر  مینیجر نے بالٹی سے   پانی مگ میں نکال کر فرش پر ڈالا اور  وائیپر سے فرش صاف کرنے لگا   پچاس فٹ لمبا کوریڈور صاف کرنے کے بعد ، نوجوان سے مخاطب ہوا ۔
" میں  نے تمھاری عمر میں آکسفورڈ  سے  بزنس مینیجمنٹ کی گریجوئشن کی تھی "۔
 
نوجوا ن ، گریجوئیٹ نے ، مینیجر سے  وائپر لیا اور اپنے پہلے دن کی نوکری شروع کر دی ۔  


انسان کی اصل قیمت کیا ہے؟

دُنیا کا سب سے بڑا جھوٹ .......... !!!

فرانس کا ایک وزیر تجارت کہتا تھا؛ برانڈڈ چیزیں مارکیٹنگ کی دُنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہوتی ہیں جنکا مقصد تو امیروں سے پیسہ نکلوانا ہوتا ہے مگر غریب اس سے بہت متاثر ہو رہے ہوتے ہیں "  ۔

کیا یہ ضروری ہے کہ میں " آئی فون "   اُٹھا کر پھروں تاکہ لوگ مجھے ذہین اور سمجھدار مانیں؟
کیا یہ ضروری ہے کہ میں  روزانہ  " میکڈونلڈ کا  کے ایس سی  "  سے  کھانا کھاؤں تاکہ لوگ یہ نا سمجھیں کہ میں کنجوس ہوں؟
کیا یہ ضروری ہے کہ میں روزانہ دوستوں کے ساتھ اٹھک بیٹھک "  سٹار بک "   پر جا کر لگایا کروں تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ میں خاندانی رئیس ہوں؟
کیا یہ ضروری ہے کہ میں " ادی داس  یا   نا ئیکی "   سے کپڑے لیکر پہنوں تو جینٹل مین کہلایا جاؤں گا؟
کیا یہ ضروری ہے کہ میں اپنی ہر بات میں دو چار انگریزی کے لفظ ٹھونسوں تو مہذب کہلاؤں؟
کیا یہ ضروری ہے کہ خود کو ترقی یافتہ ثابت کرنے کے لئے میں گھر میں اونچی آواز سے انگلش گانے لگاؤں   ؟

میرے کپڑے عام دکانوں سے خریدے ہوئے ہوتے ہیں، دوستوں کے ساتھ کسی تھڑے پر بھی بیٹھ جاتا ہوں، بھوک لگے تو کسی ٹھیلے سے لیکر کھانے میں بھی عار نہیں سمجھتا، اپنی سیدھی سادی زبان بولتا ہوں۔ اگر تو سمجھتا ہے ناں، کہ میں غریب ہوں، بخیل ہوں، تو سُن، غلطی پر میں نہیں ۔
اللہ کا کرم ہے، چاہوں تو وہ سب کر سکتا ہوں جو اوپر لکھا ہے لیکن ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  !
میں نے ایسے لوگ دیکھے ہیں جو میری " ادی داس  یا   نا ئیکی "    سے خریدی گئی ایک قمیص کی قیمت میں پورے ہفتے کا راشن لے سکتے ہیں۔
میں نے ایسے خاندان دیکھے ہیں جو میرے  " میکڈونلڈ کا  کے ایس سی  "   ایک برگر کی قیمت میں سارے گھر کا کھانا بنا سکتے ہیں۔

بس میں نے یہاں سے راز پایا ہے کہ پیسے سب کچھ نہیں، جو لوگ ظاہری حالت سے کسی کی قیمت لگاتے ہیں وہ فورا اپنا علاج کروائیں۔

انسان کی اصل قیمت کیا ہے کبھی سوچا ہے آپ نے  ؟

 انسان کی اصل قیمت اس کا اخلاق، برتاؤ، میل جول کا انداز، صلہ رحمی، ہمدردی اور بھائی چارہ ہے۔


(اقصیٰ مقیم کا انتخاب)

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔