Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

منگل، 23 مئی، 2023

کاکے کی کاکیاں

 بہت پرانی بات ہے ، بوڑھے نے ایک کردار تخلیق کیا ، کاکا نٹورلال سنگھ  ، جو قطعی سیاسی نہیں تھا ۔

پہلے اُس کے سوالات کی ٹخ ٹلیاں ہوتی تھیں۔ پھر  اُس نے چوندیاں تے  وکھری باتیں شروع کردیں    ۔

اُس کے نام میں   پرشاد  کا اضافہ ہوگیا۔

 یوں اُس کی ٹخ ٹلیاں ، وقت گرد میں تو نہیں ،البتہ  موبائل کی  10 سموں کے ھجوم میں گم گئیں ، لیکن اب مل گئیں۔


کاکا نٹور لعل سنگھ کے سوالات پر ہنسیں یا سوچیں ۔ آپ کی مرضی:۔  

 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

٭-ہاتھوں کے طوطے اُڑ کر کہاں جاتے ہیں ؟؟

٭۔لوگ آسمان سے گر کر ، کھجور میں کیوں اٹکتے ہیں ۔ آم کے درخت پر کیوں نہیں  ؟

٭۔ دودھ کا جلا چھاچھ کیوں پھونک کر پیتا ہے ۔ لسی کیوں نہیں ؟

٭۔نو دوگیارہ کیوں ہوتا ہے۔ دس تین تیرہ کیوں نہیں ؟؟

٭۔ بندر کی بلا طویلے کے سر کیوں ڈالی جاتی ہے ، کوئے کے سر کیوں نہیں ؟

٭۔کریلا نیم پر کیوں چڑھتا ہے ،آم  پر کیوں نہیں ؟؟

٭۔ اشرفیاں لٹانے پر کوئلوں پر مہر کیوں لگائی جاتی ہے کاغذ پر کیوں نہیں ؟؟

٭- اندھا ریوڑیاں گھر میں ہی کیوں بانٹتا ہے ، لڈو کیوں نہیں ؟؟

٭۔ ساون کے اندھے کو ہرا کیوں نظر آتا ہے ، سفید کیوں نہیں ؟؟


٭٭٭

٭۔ ہنسی علاج غم اور سوچ پریشانی۔

منگل، 16 مئی، 2023

ٹرسٹ , القادر ٹرسٹ , عمران اور پیرنی

حرام مال کو اپنے لئے حلال کرنے کی ابتداء پاکستان میں نان گورنمنٹ آرگنائزیشنز  (این جی اوز) نے شروع کی ۔ اور 2000 سنہ کے بعد کھمبیوں کی طرح این جی اوز اُگنا شروع ہوگئیں ۔ جب اِن پر پابندیاں امریکی آرڈر کے تحت لگیں تو بابر اعوان جیسےحرام خوروں نے ٹرسٹ  کے عوامی اعتبار کو ڈی ٹرسٹ کرنا شروع  کیا اور ٹرسٹ کے نام  پر طاقتور    ادارے ، رشوت ، کک بیک ، بھیک ، صدقوں اورخیرات پربنانا شروع کر دیئے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ٹرسٹ کے دو معنی ہیں، ایک لغوی اور ایک قانونی۔ لغوی معنی کے لحاظ ٹرسٹ کا معنی "اعتماد" ہے اور قانونی لحاظ سے "ٹرسٹ" ایک ڈھیلا ڈھالا سا خیراتی ادارہ ہوتا ہے جس میں اثاثوں کی ملکیت ٹرسٹی (ادارے کے سربراہ) کے پاس ہوتی ہے۔ 

ٹرسٹ قائم کر کے وراثت ٹیکس، گفٹ ٹیکس، ویلتھ ٹیکس اور ٹرانسفر ٹیکس سے بچا جا سکتا ہے۔ انکم ٹیکس سے پاک آمدنی اور اثاثے وصول کیے جا سکتے ہیں۔ ٹرسٹ کو تجارتی مقاصد کیلیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے اور اس کے اثاثوں کو نسل در نسل منتقل بھی کیا جا سکتا ہے۔

 ٹرسٹ کے اثاثے حکومت کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں ہوتے اور ان کا عوامی ریکارڈ پیش کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی، ٹرسٹ کے معاملات پوری رازداری سے ٹرسٹی کی منشاء کے مطابق طے پا سکتے ہیں۔ 

اس کے برعکس فاؤنڈیشن ایک زیادہ قانونی ادارہ ہوتا ہے، اس میں فرد کی بجائے تنظیم اثاثوں کی مالک ہوتی ہے، فاؤنڈیشن کو تجارتی مقاصد کیلیے استعمال نہیں کیا جا سکتا، جانشینی نہیں ہو سکتی اور اس کا عوامی ریکارڈ موجود ہونا ضروری ہوتا ہے۔۔ فاؤنڈیشن زیادہ قانونی ادارہ ہوتا ہے جبکہ ٹرسٹ کو عوامی ڈومین میں رکھنے کیلیے فی الحال کوئی تفصیلی قوانین موجود نہیں ہیں۔

 ٹرسٹ کے قوانین کو جان بوجھ کر مبہم رکھا گیا ہے تا کہ اشرافیہ اس کے ذریعہ ٹیکس بھی بچا سکے، تجارت بھی کر سکے اور عوامی سطح پر نیک نامی بھی کما سکے۔

 عام آدمی نے صرف ویلفیئر آرگنائزیشن، ٹرسٹ اور فاؤنڈیشن کا نام سنا ہوتا ہے، اسے ان کے قانونی فرق کا پتا نہیں ہوتا، وہ اس قسم کے سب اداروں کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے جبکہ گھاگ لوگ اس فرق سے آگاہ ہوتے ہیں اور اسے استعمال کرتے ہیں۔
گویا "ٹرسٹ" کے نام پر عوامی ٹرسٹ (اعتماد) حاصل کیا جاتا ہے لیکن یہ عین ممکن ہے کہ ٹرسٹ کے نام پر عوامی ٹرسٹ کو دھوکا دیا جا رہا ہو۔

اب آتے ہیں "القادر ٹرسٹ" کی طرف.
القادر ٹرسٹ کے معاملات کو سمجھنے کیلیے دو الگ الگ کیسوں کا سمجھنا ضروری ہے جو بعد میں جُڑ کر ایک ہو جاتے ہیں۔

پہلا کیس: ملیر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی


کراچی کی بڑھتی ہوئی آبادی اور ضروریات پورا کرنے کیلیے حکومتِ سندھ نے 2013 میں کراچی کے ضلع ملیر کے ساتھ منسلک ایک نیا شہر قائم کرنے کا اعلان کیا اور اس کیلیے کراچی-حیدرآباد سپر ہائی-وے پر 17617 ایکڑ زمین مختص کی۔ اس کیلیے "ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی" کے نام سے ادارہ قائم کیا گیا۔ عوام سے 15000 روپے فی کس کے فارم پر پلاٹوں کی قرعہ اندازی کیلیے رقم اکٹھی کی گئی۔ بعد میں ملک ریاض کو وہاں پر بحریہ ٹاؤن قائم کرنے کا خیال ستایا تو حکومتِ سندھ کی ملی بھگت سے غیر قانونی طور پر ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی زمین بحریہ ٹاؤن کو الاٹ کر دی گئی۔ ملک ریاض نے بلوچستان اور ٹھٹھہ کے ویرانوں میں خریدی گئی سستی زمینوں کا تبادلہ اداروں کی ملی بھگت سے کراچی-حیدر آباد سپر ہائی وے پر کروا لیا اور بحریہ ٹاؤن بڑھتے بڑھتے 30 ہزار ایکڑ پر پھیل گیا۔ 2018 میں چیف جسٹس ثاقب نثار کے سامنے یہ کیس پیش ہوا، چیف جسٹس نے ان زمینی تبادلہ جات پر ریمارکس دیے کہ: "چاندی کے بدلے سونا خریدا گیا"-- بحریہ ٹاؤن پر چونکہ آبادی بھی ہو چکی تھی لیکن زمینوں کی الاٹمینٹ اور تبادلہ جات غیر قانونی تھے لہذا اس کا حل عدالت نے یہ پیش کیا کہ قومی خزانے کو جو نقصان پہنچایا گیا ہے ملک ریاض اسے پورا کرے۔ ملک ریاض نے تصفیے کے بعد 460 ارب روپے قسطوں میں ادا کرنے کا اقرار کیا ۔ اس وصولی کیلیے سپریم کورٹ کے تحت ایک اکاؤنٹ قائم کیا گیا اور طے پایا کہ ملک ریاض 460 ارب روپے کی قسطیں اس اکاؤنٹ میں جمع کروایا کرے گا اور وہاں سے رقم قومی خزانے کو منتقل ہوتی رہے گی۔ ملک ریاض یہ قسطیں ابھی تک جمع کروا رہا ہے۔۔ ۔۔ یہ پہلا کیس ہے۔۔

دوسرا کیس: لندن منی لانڈرنگ کیس:۔


دوسرا کیس پاکستان سے باہر برطانیہ کا ہے۔ 2019 کے اوائل میں ملک ریاض کو برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (NCA) نے منی لانڈرنگ کے الزامات کے تحت شاملِ تفتیش کیا کہ ملک ریاض نے پاکستان سے غیر قانونی طور پر منی لانڈرنگ کرتے ہوئے ایک خطیر رقم برطانیہ منتقل کی۔ ملک ریاض نے NCA سے بھی تصفیہ کیا اور 190 ملین پاؤنڈ (تقریبًا 60 ارب روپے) لندن میں NCA کو جمع کروا دیئے۔ NCA کے مطابق یہ رقم چونکہ پاکستان سے منی لانڈرنگ کے ذریعہ برطانیہ منتقل ہوئی تھی اور یہ رقم ریاستِ پاکستان کی ملکیت تھی لہذا اس رقم کو پاکستان منتقل کر دیا گیا۔ ۔۔ یہ دوسرا کیس ہے۔

اب دیکھتے ہیں کہ دونوں کیس آپس میں جُڑتے کس طرح ہیں ۔۔


لندن سے رقم کی پاکستان منتقلی اور وفاقی کابینہ کا اجلاس:۔

22 نومبر 2019 کو لندن ویسٹ منسٹر مجسٹریٹ کورٹ نے ملک ریاض سے وصول کی گئی رقم پاکستان منتقل کرنے کا اعلان کیا۔
اس سے پہلے ستمبر 2019 میں شہزاد اکبر کی ڈورچیسٹر ہوٹل میں ملک ریاض سے ملاقات ہوئی۔ بعد میں ملک ریاض کی بیٹی کی شادی پر بھی برطانیہ میں ملک ریاض سے ملاقات کی۔ شہزاد اکبر نے ہی NCA سے کہا کہ وہ ملک ریاض سے عدالت سے باہر باہر ہی سمجھوتہ کر لیں۔ اس وجہ سے ملک ریاض برطانیہ میں سزا سے بچ گئے اور رقم دے کر سزا سے جان چھڑا لی۔
رقم کی پاکستان منتقلی کے بعد 3 دسمبر 2019 کو 21 رکنی وفاقی کابینہ کا اجلاس عمران خان کی سربراہی میں منعقد ہوا۔ جس میں شیریں مزاری، مراد سعید، شیخ رشید، پرویز خٹک، شفقت محمود، زلفی بخاری اور شہزاد اکبر کے علاوہ باقی وزراء موجود تھے. شہزاد اکبر نے ایجنڈے کے آئٹم نمبر 2 کے تحت ایک سیل بند لفافہ پیش کر کے کابینہ سے اسے بغیر کھولے منظور کرنے کو کہا۔
ایک اخباری رپورٹ کے مطابق :۔
اسلام آباد میں جاری کابینہ کے اس اجلاس کے دوران معمول سے کچھ ہٹ کر ہوا۔ وزیرِاعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کو 'ایجنڈا سے ہٹ کر' ایک معاملہ پیش کرنے کی اجازت دی گئی۔ ان کے پاس ایک بند لفافہ تھا، انہوں نے بتایا کہ اس لفافے میں ایک غیر اعلانیہ معاہدہ موجود ہے۔ یہ معاہدہ کروڑوں پاؤنڈ کے تصفیے کے بارے میں تھا جو برطانوی ادارے نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے حال ہی میں ملک ریاض کے ساتھ کیا تھا۔ اجلاس میں موجود ایک ذریعے کے مطابق، ''(انسانی حقوق کی وزیر) شیریں مزاری نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ، 'جب ہمیں یہ معلوم ہی نہیں کہ اس میں کیا لکھا ہے تو آخر ہم کس بات کی منظوری دے رہے ہیں؟' ہمیں بتایا گیا تھا کہ اگر اسے کھولا گیا تو اس کے قومی سلامتی پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور برطانوی حکومت بھی تحفظات رکھتی ہے''۔
بہرحال آنکھیں بند کر کے اس معاہدے کی منظوری دے دی گئی۔ اور بعد میں کابینہ سیکرٹری سے کہا گیا کہ اس ریکارڈ کو قومی راز اور حساس معاملہ قرار دے کر سِیل کر دیا جائے۔

اس معاہدے کے تحت 60 ارب کی جو رقم پاکستان کے قومی خزانہ میں منتقل ہونا تھی وہ رقم سپریم کورٹ کے اس اکاؤنٹ میں جمع کروا دی گئی جس میں ملک ریاض بحریہ ٹاؤن کراچی کی بدعنوانی کے سلسلہ میں قسطیں جمع کروا رہا تھا۔ گویا برطانیہ نے جو رقم ملک ریاض سے ضبط کی تھی وہی رقم ملک ریاض کی ملکیت میں واپس دے کر اسے ملک ریاض کا ہی قرضہ اتارنے میں استعمال کیا گیا۔ یہ تھا وہ قومی راز جس کی منظوری انتہائی رازدارانہ انداز میں لی گئی۔ ملک ریاض کی رقم کابینہ کے ذریعہ ملک ریاض کو ہی واپس کر دی گئی۔ جو رقم قومی خزانہ میں آنا تھی وہ ملک ریاض کا ہی قرضہ اتارنے میں کام آ گئی۔۔
 

القادر ٹرسٹ کا قیام اور القادر یونیورسٹی:۔

پاکستان کا ایک ادارہ "چیریٹی کمیشن گورنمنٹ آف پاکستان" ہے ، اس کے تحت تمام خیراتی ادارے، ویلفیئر آرگنائزیشن، فاؤنڈیشن، ٹرسٹ وغیرہ رجسٹر ہوتے ہیں۔ 26 دسمبر 2019 کو (کابینہ کے اجلاس کے تین ہفتہ بعد) چیریٹی کمیشن کے سب رجسٹرار آفس میں "القادر ٹرسٹ" کی ٹرسٹ ڈیڈ جمع کروائی گئی۔ اس کے ٹرسٹی عمران خان، بشری بی بی، بابر اعوان اور زلفی بخاری تھے۔
22 اپریل 2020 کو رجسٹرار آفس میں لیٹر موصول ہوا کہ ٹرسٹیوں میں سے بابر اعوان اور زلفی بخاری کو ڈراپ کر دیا گیا ہے اور اب صرف عمران خان اور بشری بی بی ٹرسٹی کے طور پر کام کریں گے۔
کچھ عرصہ بعد بحریہ ٹاؤن کی طرف سے موضع برکالا تحصیل سوہاوہ ضلع جہلم میں 458 کنال، 4 مرلے، 58 مربع فٹ زمین جس کی مالیت 93 کروڑ روپے ظاہر کی گئی تھی وہ القادر ٹرسٹ کو منتقل کر دی گئی، جبکہ اس کی اصل مالیت تقریبًا 9 ارب روپے بنتی تھی۔ پھر القادر ٹرسٹ، القادر یونیورسٹی کیلیے ڈونر بن گیا اور اس یونیورسٹی کو پرائیویٹ یونیورسٹی کے طور پر القادر ٹرسٹ کے زیرِ انتظام رجسٹرڈ کر لیا گیا۔ بطور وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اس پرائیویٹ یونیورسٹی (یعنی اپنی ہی یونیورسٹی) کی تعمیر کا افتتاح کیا۔ ڈونیشنز بھی خوب اکٹھی ہوئیں۔ یونیورسٹی کا کافی حصہ تیزی سے تعمیر ہو گیا۔ اب اس یونیورسٹی کی ایک سمیسٹر کی فیس ایک لاکھ دو ہزار روپے ہے، ایڈمشن فیس بیس ہزار ہے اور سیکیورٹی فیس دس ہزار ہے۔۔ تصوف اور شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے نام پر ایک مہنگی ترین یونیورسٹی قائم کی گئی ہے۔
[اس کے علاوہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ بنی گالا میں عمران خان کی رہائش کے قریب ملک ریاض نے زمین کا ایک اور ٹکڑا ٹرسٹ کے نام منتقل کیا اور ٹرسٹ نے اس پر بھی القادر یونیورسٹی کے نام سے محدود سی تعمیرات کی ہیں۔ مزید یہ کہ ملک ریاض نے بنی گالا میں ہی 240 کنال زمین فرح گوگی کے نام پر منتقل کی تھی جو کہ بقول حکومت بشری بی بی کی فرنٹ وومین ہے۔۔ گویا 60 ارب کی سہولت کے بدلے تقریبًا 10 ارب کے اثاثے حاصل کیے گئے۔

 نیب کا مقدمہ:۔

نیب کے مقدمے کا ماحصل یہ ہے کہ القادر ٹرسٹ کو منتقل ہونے والی زمین دراصل ملک ریاض کی طرف سے رشوت ہے جو اس کو 60 ارب روپے کا فائدہ پہنچانے کے بدلے دی گئی۔
اب نیب نے صرف یہ ثابت کرنا ہے کہ ملک ریاض کو کابینہ میں رازدارانہ طریقہ سے مالی فائدہ پہنچانا ، قومی خزانے کو نقصان پہنچانا اور القادر ٹرسٹ کو بحریہ ٹاؤن کی طرف سے زمین کی منتقلی صرف اور صرف ایک رشوت ہے۔۔ اس کیس کے شوہد اکٹھے کرنا اب نیب کا کام ہے۔ اس رابطے کو ثابت کرنا گو ناممکن نہیں لیکن قانونی طور پر مشکل ضرور ہے ۔
 

القادر ٹرسٹ: عوامی ٹرسٹ کا خون:۔

نیب اس رشوت کو ثابت کر سکے یا نہ کر سکے لیکن غیر جذباتی غور و فکر کرنے والوں کے نزدیک عمران خان صاحب نے القادر ٹرسٹ کے نام پر عوامی ٹرسٹ کا خون ضرور کیا ہے۔ ۔۔ اس کیس نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے:
1- عمران خان کو ملک ریاض سے اتنی ہمدردی کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ ملک ریاض جیسے پراپرٹی ٹائیکون کو آخر اتنا ریلیف کیوں دیا گیا؟ کیا باقی کرپٹ لوگوں کی طرح اس کا جواب بھی قومی مفاد ہی ہو گا؟
2- کابینہ کی آنکھوں میں دھول جھونک کر زبردستی رازدارانہ انداز میں حساس معاملہ قرار دے کر اس فیصلہ کو سیل بند کیوں کروایا گیا؟
3- قومی خزانہ کو 60 ارب کا نقصان پہنچانے کا ذمہ دار آخر کون قرار پائے گا؟
4- کابینہ سے خفیہ منظوری کے تین ہفتہ بعد ہی القادر ٹرسٹ کیوں رجسٹرڈ کروایا گیا؟ اس سے پہلے کیوں رجسٹرڈ نہ کروایا گیا؟
5- فاؤنڈیشن کی بجائے ٹرسٹ کیوں رجسٹرڈ کروایا گیا؟
6- ملک ریاض سے ہی اتنی قیمتی زمین ٹرسٹ کیلیے کیوں حاصل کی گئی؟ اور منتقلی میں قیمت کا جھوٹ کیوں بولا گیا؟
7- ٹرسٹی کے طور پر صرف عمران خان اور ان کی بیگم ہی کیوں باقی رکھی گئیں؟ باقی لوگوں کو کیوں فارغ کر دیا گیا؟ اگر یہ ایک سوچا سمجھا پلان نہیں تھا تو اور کیا تھا؟
8- خیراتی یونیورسٹی کی فیس اتنی زیادہ کیوں ہے اور اس کا مالی فائدہ کسے ہو رہا ہے؟

غرض سوالات ہی سوالات ہیں۔ عوامی ٹرسٹ کا خون دن دہاڑے ہوا ہے۔ قانونی پیچیدگیاں عدالت میں اسے ثابت کر سکیں یا نہ کر سکیں لیکن ہر قدم پر معاملہ ہی مشکوک ہے، نہ صرف مشکوک بلکہ عیاں ہے۔۔۔
اپنے لیڈر کی محبت میں اندھے کارکنان کے علاوہ ہر سوچنے سمجھنے والا خان صاحب کی اس حرکت اور توشہ خانے کی حرکت کو نظر انداز کر کے کلین چٹ نہیں دے سکتا۔ عوامی مقبولیت زیادہ دیر ہر معاملے پر پردے نہیں ڈال سکتی۔ PDM حکومت کی اپنی کرپشن اور دیوالیہ پن کی وجہ سے اگرچہ خان صاحب سب کو دودھ کے دھلے ہوئے لگتے ہیں لیکن وہ اتنے بھی دودھ کے دھلے ہوئے نہیں ہیں جتنا ظاہر کرتے ہیں۔ ہمیں خان صاحب سے نہ محبت ہے نہ نفرت۔۔ معاملہ میرٹ کا ہے اور میرٹ پر ہی فیصلہ کرنا حق اور حقیقت ہے۔۔

پاکستان کے ہر باشندے کو معلوم ہے کہ ملک ریاض کے ساتھ راہ و رسم رکھتے والا بندہ کبھی کرپشن سے پاک نہیں ہو سکتا۔ ملک ریاض نے جج، جنرل، سیاستدان سے لے کر سرمایہ دار تک کسی کو کرپٹ کیے بغیر نہیں چھوڑا ۔۔. کابینہ سے خفیہ منظوریاں، قومی خزانے کو نقصان، زمین کی منتقلیاں اور القادر ٹرسٹ کے نام پر عوامی ٹرسٹ کا خون۔۔۔
فاعتبروا یا اولی الابصار۔۔

تحریر و تحقیق:
پروفیسر ڈاکٹر
سید محمد ہارون بخاری

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اتوار، 7 مئی، 2023

پی ٹی آئی کی غلاظت میں لتھڑے لوگ

گمنام پی ٹی آئی کی غلاظت میں لتھڑے فوجی دوست ۔

جب نصف صدی پہلے ، جب،   :۔
٭۔نہ آرمی آفیسر کو ھاوسنگ کا مکان ملتا تھا،
٭۔نہ ڈی ایچ اے کا  پلاٹ  ملتا تھا ۔
 ٭۔نہ  آرمی پبلک سکول ہوتے تھے ۔

اور
٭۔نہ ہی ریٹائرمنٹ کے بعد نوکری ملتی تھی ۔

میرے اُفق کے بار بسنے والے گمنام وٹس ایپی دوست :۔
تب  بھی قبول صورت  اور باکردار  لڑکیاں، آرمی ، ائر فورس اور نیوی  کے آفیسروں کو ایلیئٹ کلاس سے شادی کے لئے مل جایا کرتی تھیں ۔
خواہ آرمی آفیسر ، سپاہی کا بیٹا ہو یا مستری کا ، یا دکاندار کا  یا کسان کا ،
کیوں کہ وہ ، معمولی کلاس کا بیٹا پاس آؤٹ ہوتے ہی ایلیئٹ کلاس میں شامل ہوجاتا تھا ۔
اور آرمی آفیسرکی بیوی بننا اعزاز کی بات ہوتی تھی ۔ 

کیوں کہ آرمی آفیسر کا بچہ یا بچی اپنے باپ کے کیرئیر سے بلند ہی دیکھا ہے ، سوائے اُن بچوں کے جوبگڑ گئے ۔ 
میں پرسوں ، ایک سینئر آفیسر کرنل نذرعباس کے گھر گیا جو عسکری 10 میں  رھائش پذیر ہے۔وہاں اُس کا کورس میٹ کرنل نعیم جعفری، میں اور میرا فوجی بیٹا،  بیٹھے پرانے 1980 کے قصے دھرا رہے تھے ۔ کیوں کہ ہم تینوں کے بچے ہم عمر ھیں  ، اور اب فوج، سول   انجنیر ، چارٹرڈ اکاونٹ اور بینکر ہیں۔ پاکستان میں ہیں اور بیرونِ ملک باعزت روزگار کما رہے ہیں ۔ 
کرنل نذرعباس نے کہا ، نعیم میں سوچ نہیں سکتا تھا کہ  ریٹائر منٹ کے بعد میں ایسے گھر میں رہوں گا ۔ 

میں نے کہا: سر  یاد ہے کہ 1980 میں جب عسکری ھاوسنگ کی سکیم آئی تو ہم تینوں کے پاس ڈاؤن پیمنٹ جمع کروانے کی رقم نہیں تھی ۔
میں سوچتا تھا کہ تین بچے پالوں یا قسطیں کٹواؤں ؟
یہ فوج کا ہم مڈل کلاس والوں پر احسان ہے کہ ہمیں رہنے کو باعزت چھت دی ہے ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد نوکری اور بچوں اور بہترین تعلیم کے مواقع اور بڑھاپا سکون سے گذارنے کے لئے پنشن ۔
دوسال میں ایک بار باہر جاب کرنے والے بچوں کے پاس ، اپنے گرینڈ چلڈرنز سے ملنے نکل جاتے ہیں ۔

بنگلہ ، گاڑی اور تعلیم یافتہ بچے ، سے زیادہ اگر یہ خاتون چاھتی ہے۔

  تو باجوہ یا عاصم منیر کیا کر سکتا ہے ؟؟

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


جمعہ، 5 مئی، 2023

کورنگی مہاجروں کی ایک بستی

کورنگی کی مختصر تعریف سب سے پہلے کچھ ذکر کورنگی کے نام کا۔۔ کورنگی کے معنی ہندی زبان میں الائچی کے ہیں۔ اس نام کی مناسبت سے دو مفروضے قائم کیے جاسکتے ہیں. ایک تو یہ کہ کورنگی کی بندرگاہ سے کسی زمانے میں الائچی کا کاروبار ہوتا ہوگا یا پھر یہاں الائچی کی کاشت ہوتی ہوگی۔ مگر یہ دونوں باتیں یہاں کے طبعی حالات کے پیش نظر ناممکن ہیں ۔
تیسری بات یہ ہو سکتی ہے کہ یہ کسی لفظ کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ ’کارنجا‘ یا ’کرنجا‘ نام کی برصغیر میں 9 بستیوں کا ذکر ملتا ہے ’کارنجا‘ کے معنی تالاب یا پانی کی نالی یا کھاڑی کے دہانے کے ہیں۔ اس کے علاوہ کورنگی ’کارنج‘ کی ایک بگڑی ہوئی شکل بھی ہو سکتی ہے.
 ’کارنج‘ کے نام سے برصغیر میں 6 بستیاں آباد ہیں۔ جبکہ ’کارنگ‘ کے نام سے برصغیر میں 5 بستیوں کا ذکر ملتا ہے۔ اسی طرح سے ’کارنگا‘ کے نام سے بھی برصغیر میں 3 بستیوں کا ذکر ملتا ہے. جبکہ ’کورنگ‘ کے نام سے بھی 2 بستیاں موجود ہیں۔ 
’کورنگ‘ فارسی زبان کا لفظ ہے، جس سے مراد لال رنگ کا گھوڑا اور افواج کی مشق کا میدان ہے۔ اسی طرح سے ’کورنگا‘ بھی فارسی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی گھوڑوں کی خلیج یا گھوڑوں کا میدان ہے۔ کورنگی ’رنگھوں‘ کی بگڑی ہوئی شکل بھی ہوسکتی ہے، جس کے معنی زمینی راستہ یا خرگوش کے رہنے کی جگہ کے ہیں۔
 ان سب کے علاوہ کورنگی "کورگی” سے بھی بہت قریب ترین معلوم ہوتا ہے جبکہ ’کورگی‘ نام کی ایک قوم پرانے زمانے میں کراچی اور اس کے گرد و نواح میں آباد تھی اور اس قوم کا پیشہ سمندری قزاقی تھا۔ 
یہ حقیقت ہے کہ سندھ میں گھوڑوں کو پال کر ان کا کاروبار کیا جاتا تھا۔ کراچی کے ساحل سمندر سے گزرنے والے جہازوں کو لوٹا جاتا تھا۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے۔ ملیر گڈاپ سے تعلق رکھنے والے شاعر اور ادیب پروفیسر امر گل کے نزدیک بلوچی میں ندی کو ’کور‘ کہتے ہیں اور ’ونگی‘ کا مطلب ہے ندی کے پانی کے بہاؤ کے ایک حصے کو زمین کی طرف موڑنا، تاکہ وہ آس پاس کی زمینوں کو سیراب کر سکے۔ چونکہ ندی کا پانی زرخیزی کے لیے بہترین ہے، اس لیے ماضی میں ایسی ’ونگیاں‘ بنائی جاتی تھیں۔ کور ونگی، ندی کا وہ حصہ تھا، جہاں یہ ونگی بنائی گئی تھی، اس لیے یہ علاقہ کور ونگی کہلاتا تھا، جو اختصاراً کورنگی بن گیا۔
 کورنگی ملیر ندی کے دوسرے کنارے پر آباد ہے اس لحاظ سے خلیج کورنگی فوجی لحاظ سے بھی بہت اہمیت کی حامل ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران یہاں ایک ہوائی اڈہ بھی تعمیر کیا گیا تھا، جو برطانوی افواج کے لیے نہایت موزوں ثابت ہوا تھا۔ یہ ہوائی اڈا اب کورنگی کریک کا ہوائی اڈا کہلاتا ہے۔
قیامِ پاکستان سے قبل کورنگی کا علاقہ کئی گوٹھوں پر مشتمل تھا، مگر یہ ایک دوسرے سے بہت دور دور تھے اور آبادی انتہائی کم تھی۔ 
موجودہ کورنگی کی تعمیر قیامِ پاکستان کے بعد 1956ع میں مہاجرین کو کورنگی K ایریا میں سب سے پہلے لا کر آباد کیا گیا۔ یوں کورنگی میں مہاجرین کی سب سے پہلی آبادی K ایریا میں قائم ہوئی۔ 
 
1958 میں مارشل لاء کے نفاذ کے بعد فوجی حکومت نے تقسیم کے وقت ہندوستان سے آنے والے مہاجرین پر خصوصی توجہ دی۔ اس مقصد کے لئے لیفٹیننٹ جنرل اعظم خان کو آباد کاری کے مرکزی وزیر کی ذمہ داریاں سونپی گئیں، جو پہلے ہی سے مہاجرین کی آبادکاری پر کام کر رہے تھے. انہیں ہنگامی بنیادوں پر مہاجرین کی مزید آباد کاری کی ذمہ داریاں دی گئیں۔ اعظم خان صاحب نے اس چیلنج کو قبول کیا اور اس سلسلے میں ایک بڑا کارنامہ انجام دیا، جو تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی۔ آپ نے کورنگی کے مقام پر آٹھ ماہ کے اندر 15 ہزار مکانات تعمیر کرائے۔
 5 دسمبر 1958ء کو صدر پاکستان ایوب خان نے اس کا سنگِ بنیاد رکھا تھا اور یکم اگست 1959ء کو ٹھیک 8 مہینے بعد اس بستی کا افتتاح کیا۔ آپ نے افتتاح کے وقت کورنگی کی اس نئی آبادی کے پہلے مکین جناب حاجی عظمت اللہ کو ان کے مکان کا الاٹمنٹ آرڈر اور راشن کارڈ عطا کیا۔
 کورنگی کا علاقہ 3000 ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا تھا۔ اس کی تعمیر میں اُس وقت بارہ کروڑ روپے خرچ ہوئے جبکہ اس کا نقشہ یونان کے مشہور ماہرِ تعمیر نے تیار کیا تھا. یہ وہی ماہرِ تعمیر تھا، جس نے نارتھ ناظم آباد کا نقشہ بنایا تھا۔ اس ماہرِ تعمیر نے اپنے تمام تر تجربے کو بروئے کار لا کر کورنگی کا نقشہ بنایا تھا اور بڑی پلاننگ سے آبادکاری کی گئی تھی۔ ہر سیکٹر میں مارکیٹ، اسکول، پارک، کھیلوں کے میدان، لائبریریز اور کمیونٹی سینٹر کے لیے باقاعدہ جگہ مختص کی گئی تھی. اس کے علاوہ کشادہ ڈبل روڈز اور ان کے ساتھ ساتھ سروس روڈز بھی موجود تھیں۔
 کورنگی میں 80، 120 اور 128 گز کے کوارٹرز بنائے گئے تھے۔ 128 گز کے کوارٹرز کی لین میں گندی گلیاں نہیں تھیں، جب کہ کواٹرز بھی دو طرح سے بنائے گئے تھے۔ ایک 1/2 روم جس میں ایک کمرہ اور ایک برآمدہ شامل تھا، جبکہ دوسرا ڈبل روم کا تھا جس میں 2 کمرے اور ایک برآمدہ شامل تھا۔
 120 گز کے کوارٹر کی لائن میں گندی گلیاں دی گئی تھیں۔ ہر مکان میں ایک کمرہ اور ایک برآمدہ دیا گیا تھا. 80 گز میں سنگل کمرہ ہوا کرتا تھا یعنی برآمدہ بھی نہیں ہوتا تھا. تینوں قسم کے کوارٹرز میں ایک باورچی خانہ، ایک غسل خانہ اور ایک واش روم شامل تھا۔ باورچی خانے میں ایک چمنی بھی دی گئی تھی تاکہ دھواں اوپر کی جانب نکل جائے جو کہ چھت پر باقاعدہ اونچا کر کے بنائی گئی تھی جیسے ٹھنڈے علاقوں میں گھروں پر بنتی ہے۔
 کورنگی کہ رہائشی علاقے کو 6 بڑے حصوں میں بانٹا گیا جسے 1 نمبر سے 6 نمبر تک کا نام دیا گیا۔ پھر اس کو مزید بلاکس میں تقسیم کیا گیا، جو A ایریا سے شروع ہو کر Y ایریا تک ہیں۔ اس میں کچھ جگہ پر ایکسٹینشن بھی ہوا، جیسے J ایریا کا ایکسٹینشن ہوا تو اسے جے ون ایریا کا نام دیا۔
 کراچی شہر کا سب سے بڑا صنعتی علاقہ کورنگی میں ہی ہے، جہاں سیکڑوں کی تعداد میں چھوٹی اور بڑی فیکٹریاں موجود ہیں۔
 صنعتی علاقے کی وجہ سے مختص کیے گئے رفاعی پلاٹس پر کچی آبادیاں وجود میں آنا شروع ہو گئیں، جن میں وقت کے ساتھ ساتھ اب پکے مکانات بن گئے ہیں۔
 کورنگی بحیثیت ایک ضلع کورنگی ہمیشہ سے ضلع شرقی کا حصہ تھا مگر اگست 2000ء میں بلدیاتی نظام کے تحت جب کراچی کے اضلاع کا خاتمہ کر کے کراچی کو 18 ٹاؤن میں تقسیم کر دیا گیا تو کورنگی کو بھی ایک ٹاؤن بنا دیا گیا۔ 
جب سندھ حکومت نے دوبارہ ضلعی نظام کو بحال کیا تو نومبر 2013ء میں کورنگی کو کراچی کا چھٹا ضلع بنانے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا. یوں اب کورنگی ایک باقاعدہ ضلع ہے اور اس کی چار تحصیلوں میں کورنگی، لانڈھی، شاہ فیصل اور ماڈل کالونی (اربن ملیر) شامل ہیں۔ ضلع کورنگی میں موجود خود کورنگی کا علاقہ جو کہ کورنگی ٹاؤن کہلاتا ہے، اس کی آبادی اتنی زیادہ ہے کہ یہ خود اپنے آپ میں ایک شہر کے برابر ہے۔ ہمارے ملک کے بہت سے شہروں سے زیادہ اس کورنگی ٹاؤن کی آبادی ہے۔
 کورنگی میں مہاجرین کی آباد کاری قیامِ پاکستان کے بعد ہندوستان سے آنے والے مہاجرین زیادہ تر تین راستوں سے پاکستان میں داخل ہوتے تھے۔ ایک راستہ لاہور کا تھا، دوسرا راستہ کھوکھراپار، میرپور خاص کا تھا اور تیسرا راستہ بہ ذریعہ سمندر بحری جہاز کا تھا۔ 
کیونکہ سب بغیر کسی آسرے و سہارے  کے پاکستان آگئے تھے۔ تو جو لوگ لاہور اور میر پور خاص کی سرحد سے ٹرین کے ذریعے آتے تھے۔ ہفتوں اسٹیشن پر ہی بیٹھے رہے  کیونکہ اسٹیشن کے سوا ،ان کے پاس کوئی رہائش کی جگہ نہیں تھی۔
 اسی طرح سے جو لوگ بحری جہاز وں سے کراچی کی بندرگاہ کیماڑی پر آئے ،  وہ بھی رہائش نہ ہونے کی وجہ سے کیماڑی کے آس پاس ہی نہایت تکلیف دہ حالت میں رہنے پر مجبور تھے۔ بس ان حالات میں حکومت کی طرف سے روزانہ پاؤ بھر ڈبہ چاول اور دال کا ملتا۔

 مسئلہ یہاں ختم نہیں ہوتا کیونکہ نہ تو پکانے کے لیے آگ میسر تھی اور نہ ہی برتن۔ آگ جلانے کے لیے پورٹ کے قریبی علاقے سے لکڑیوں کو چن چن کر جمع کیا جاتا اور پھر آگ لگا کر کھانا بنایا جاتا۔ 
جیسے جیسے سرکار کو جگہ ملتی جاتی ان لوگوں کو خیمہ بستیوں میں منتقل کر دیا جاتا۔ کراچی میں موجود بڑی خیمہ بستیوں میں سے ایک قائدآباد کی خیمہ بستی بھی تھی، جہاں اب قائد اعظم کا مزار ہے۔ 
1959ء میں جب کورنگی آباد ہونے لگا تو جھونپڑیوں میں قیام پذیر مہاجرین کو محض صرف راشنکارڈ اور جاری کردہ رسید، جس کی قیمت 47 روپے ہوتی تھی۔ دیکھ کر کوارٹرز کی الاٹمنٹ شروع ہو گئی، جبکہ بقیہ رقم ماہانہ 27 روپے کے حساب سے ادا کرنی تھی۔ 
روز قائد آباد اور دیگر خیمہ بستیوں میں ٹرک آتے اور ایک ٹرک میں چار خاندانوں کو ان کے سامان سمیت سوار کیا جاتا اور ان کی جھونپڑیوں کو مسمار کر دیا جاتا اور ان لوگوں کو کورنگی کے مختلف علاقوں میں بنائے گئے کوارٹرز میں منتقل کر دیا جاتا۔
 چونکہ یہ لوگ کافی عرصے سے مختلف خیمہ بستیوں میں رہائش پذیر تھے اس لئے خاص شہر اور برادری کے لوگ ایک ساتھ پوری پوری گلیوں میں آباد ہو گئے۔ جن میں خاص طور پر الہ آباد، آگرہ، جونپور، امروہہ، سہارن پور، مظفر نگر، دہلی اور لکھنو وغیرہ کے لوگ شامل تھے۔
 1958ء میں جنرل اعظم خان کے کورنگی میں بڑے پیمانے پر کواٹرز تعمیر کرانے سے پہلے ہی پورے کورنگی میں K ایریا ہی واحد علاقہ تھا، جس میں پہلے ہی مہاجرین کو چھوٹے پیمانے پر لا کر بسایا جا چکا تھا۔ K ایریا کے کچھ کوارٹرز، پارک اور مارکیٹ کی تعمیر لانڈھی کے ساتھ ہی شروع ہوئی تھی اور 57 -1956 میں رہائش بھی ہو گئی تھی، تاہم 1960ء کے لگ بھگ K ایریا میں مزید بڑے پیمانے پر کوارٹرز بنے جو 120 اور 128 گز کے تھے اور ان میں مہاجرین کو لا کر آباد کیا جانے لگا۔ 
زیادہ تر لوگ لیاقت بستی اور فارور لائن کی خیمہ بستیوں سے تھے۔جبکہ شروع کے لوگوں کا تعلق مزارِ قائد پر موجود خیمہ بستیوں سے تھا۔ کے K ایریا میں ہی پاکستان کا نابینا بچوں کا پہلا اسکول قائم کیا گیا تھا۔ اسی طرح جب پاکستان ٹیلی ویژن نے اپنی نشریات کو شروع کیا تھا تو کورنگی میں K ایریا کے پارک میں پہلی مرتبہ ٹی وی لگا کر نشریات دکھائی گئی تھی اور بہت بڑی تعداد میں لوگ اسے دیکھنے آئے تھے۔ اس کے علاوہ K ایریا کی ایک عظمت یہ بھی ہے کے صہبا اختر جیسے عظیم شاعر کا تعلق بھی K ایریا سے تھا۔
 
 بشکریہ جناب سید علی عمران صاحب٭

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔