کوفہ نہیں بلکہ دمشق کا سفر
حضرت حسین کے مکّہ سے روانہ کے بعد سے لیکر حکومت اور وہ صحابہ اکرام جو کاروبار حکومت چلا رہے تھے ان سب کی جانب سے جس احترام اور برد باری کا سلوک ہوتا رہا اس کا ذکر پچھلے اوراق میں کیا جا چکا ہے ۔
عبید الله بن زیاد کی تقریر میں بھی یہی بات کی گئی اور امیر المومنین کی طرف سے احکامات سنائے گئے.
جس کا ذکر طبری صفحہ 201 جلد 6 کے حوالہ سے کیا گیا - تقریر کے بعد گورنر نے تمام قبیلوں کے سرداروں سے ان تمام اشخاص کے ناموں کی فہرست طلب کی جن پر حکومت کی مخالفانہ سر گرمیوں میں حصہ لینے کا شبہ تھا اور سرداران قبائل کو ان لوگوں کو ہموار کرنے کا ذمہ دار بھی بنایا گیا.سرحدی چوکیوں پر نگران بھی مقرر کے گئے اور ان تدابیر سے چند ہی دنوں میں باغیانہ سر گرمیوں کا خاتمہ ہو گیا.
مورخین نے امیر یزید کا ایک فرمان بھی نقل کیا ہے جس کی عبارت میں اگر تبدیلی نہیں کی گئی جو ابو محنف جیسے مکار کی روایت سے بیان ہوا ہے، فرمان یہ تھا.
" مجھے اطلاع ملی ہے کہ حسین عراق کی جانب روانہ ہوئے ہیں سرحدی چوکیوں پر نگران مقرر کرو جن سے بد گمانی یا الزام ہو انہیں حراست میں لو لیکن جو تم سے خود جنگ نہ کرے تم بھی ان سے جنگ نہ کرنا اور جو بھی واقعہ پیش آئے اسے لکھ بھیجنا - وسلام . (صفحہ 215 طبری جلد 6، صفحہ 160 جلد 8 البدایه والنہایہ)
ہر بالغ نظر محسوس کرے گا کہ ایک نفیس اور رحم دل حکمران امن عامہ بر قرار رکھنے کے لئے اس سے زیادہ نرم ہدایات اور کیا دے سکتا تھا ؟
کہ جنگ و جدل میں پہل نہ کی جائے اور اگر دوسرا حملہ کرے تو مدافعانہ کروائی کی جائے-
اس فرمان سے ان تمام من گھڑت اور جھوٹی روایتوں کی تردید ہو جاتی ہے جو وحشیانہ مظالم توڑنے کے سلسلے میں بیان کی گئی ہیں. حکومت کا کوئی بھی کارکن عامل ہو یا گورنر اپنے سربراہ کے اس حکم کی خلاف ورزی کی مرتکب نہیں ہو سکتا تھا!
کاروبار مملکت چلانے والے صحابہ اکرام گو حسین کے اس اقدام سے راضی نہ تھے، پھر بھی نواسہ رسول کی محبت میں انتہائی نرمی اور احتیاط سے کام لیا .
مورخین نے صحابی رسول حضرت مروان کا ایک خط نقل کیا ہے جو انہوں نے حضرت حسین کی روانگی کے بعد ابن زیاد گورنر کوفہ کو ارسال کیا تھا اس خط کا مضمون اگر تبدیلی نہیں ہوئی تو یہ تھا.
" تمہیں معلوم ہے کہ حسین بن علی تمھاری طرف آ رہے ہیں اور وہ دختر رسول حضرت فاطمہ الزہرہ کے بیٹے ہیں خدا کی قسم ہمیں ان سے زیادہ ( الله ان کو سلامت رکھے.) کوئی شخص محبوب نہیں ہے پس خبردار غصے اور غیظ و غضب میں کوئی ایسا کام نہ کر بیٹھنا کہ جس کا مداوا نہ ہو سکے اور امت فراموش نہ کر پائے. (صفحہ 165 جلد 8 البدایه . صفحہ 212 جلد 6 ناسخ التواریخ مطبو عہ ایران)
اس خط کے الفاظ سے ہی ظاہر ہے کہ حضرت حسین کی ذات سے حضرت مروان کو کسی قدر الفت تھی اور ان کی آرزو تھی کہ اس خطرناک سفر میں حسین کا بال بھی بیکا نہ ہونے پائے اور انہی مروان پر ان راویوں نے الزام لگایا ہے کہ انہوں نے عامل مدینہ کو ترغیب دی تھی کہ حسین اگر بیعت سے گریز کریں تو ان کی گردن اڑا دو.
ان کی محبت و الفت کا عملی ثبوت آئندہ اوراق میں حضرت علی بن حسین ( زین العابدین ) کے احوال میں آپ لوگ پڑھ سکیں گے.حضرت مروان کی اولاد کی حضرت حسین سے اور ان کی اولاد سے جو قریبی رشتہ داریاں تھیں ان کا ذکر بھی آپ جان سکیں گے.اور ستم یہ کہ ناسخ التواریخ نے اس خط کو امیر یزید کے چچا زاد بھائی ولید بن عتبہ بن ابو سفیان سے منسوب کر دیا جو بالکل گھڑی ہوئی روایت ہے.
تو
آپ نے فرمایا کہ حسین بن علی کو جب مسلم بن عقیل کا خط ملا تو آپ ابھی اس
جگہ پہنچے تھے جہاں سے قادسیہ تین میل دور تھا کہ حُر بن یزید تمیمی سے
ملاقات ہوئی اس نے پوچھا ،
"آپ کہاں جا رہے ہیں ؟"
فرمایا، " اس شہر میں جانا چاہتا ہوں!"
حر نے کہا ، " آپ لوٹ جائیے وہاں مجھے آپ کے لئے کسی بہتری کی امید نہیں ہے"
اس پر آپ نے لوٹ جانے کا ارادہ کیا اور مسلم کے بھائی جو آپ کے ساتھ تھے آڑے آئے اور کہا،
" واللہ ہم ہر گز نہ لوٹیں گے جب تک ہم اپنا انتقام نہ لیں یا ہم بھی سب قتل نہ ہو جائیں"
تو آپ نے فرمایا ، " تمھارے بعد ہمیں بھی زندگانی کا کوئی لطف نہیں"
یہ کہہ کر آپ نے سفر جاری رکھا ،
جب عبید الله کا لشکر سامنے آ گیا تو کربلا کی جانب پلٹ گئے،
(صفحہ 220 جلد 6 طبری)
حضرت ابو جعفر محمّد ( الباقر ) کی اس روایت کی تصدیق عمدہ الطالب کے اس بیان کی تائید سے ہوتی ہے کہ حضرت حسین از خود اس راستہ کی طرف مڑ گئے تھے جو کربلا ہو کر دمشق جاتا ہے نہ کہ آپ کو گھیر گھار کر اس راستہ کی طرف چلنے پر مجبور کیا گیا تھا جیسا کہ من گھڑت روایتوں میں درج کیا گیا ہے . آپ نے امیر یزید کے پاس دمشق جانے کی راہ اختیار کی تھی .(ناسخ التواریخ صفحہ 222 جلد 6 از کتاب دوئم) بھی فرماتے ہیں کہ حسین الازیب اور قادسیہ کے راستے سے پلٹ گیے اور بائیں جانب روانہ ہوے.اور یہ راستہ وہی ہے جو قصر مقاتل و قریات طف ہو کر سیدھا دمشق کو جاتا ہے جس سے ملحقہ میدان کربلا تھا.
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت حسین کے مکّہ سے روانہ کے بعد سے لیکر حکومت اور وہ صحابہ اکرام جو کاروبار حکومت چلا رہے تھے ان سب کی جانب سے جس احترام اور برد باری کا سلوک ہوتا رہا اس کا ذکر پچھلے اوراق میں کیا جا چکا ہے ۔
عبید الله بن زیاد کی تقریر میں بھی یہی بات کی گئی اور امیر المومنین کی طرف سے احکامات سنائے گئے.
جس کا ذکر طبری صفحہ 201 جلد 6 کے حوالہ سے کیا گیا - تقریر کے بعد گورنر نے تمام قبیلوں کے سرداروں سے ان تمام اشخاص کے ناموں کی فہرست طلب کی جن پر حکومت کی مخالفانہ سر گرمیوں میں حصہ لینے کا شبہ تھا اور سرداران قبائل کو ان لوگوں کو ہموار کرنے کا ذمہ دار بھی بنایا گیا.سرحدی چوکیوں پر نگران بھی مقرر کے گئے اور ان تدابیر سے چند ہی دنوں میں باغیانہ سر گرمیوں کا خاتمہ ہو گیا.
مورخین نے امیر یزید کا ایک فرمان بھی نقل کیا ہے جس کی عبارت میں اگر تبدیلی نہیں کی گئی جو ابو محنف جیسے مکار کی روایت سے بیان ہوا ہے، فرمان یہ تھا.
" مجھے اطلاع ملی ہے کہ حسین عراق کی جانب روانہ ہوئے ہیں سرحدی چوکیوں پر نگران مقرر کرو جن سے بد گمانی یا الزام ہو انہیں حراست میں لو لیکن جو تم سے خود جنگ نہ کرے تم بھی ان سے جنگ نہ کرنا اور جو بھی واقعہ پیش آئے اسے لکھ بھیجنا - وسلام . (صفحہ 215 طبری جلد 6، صفحہ 160 جلد 8 البدایه والنہایہ)
ہر بالغ نظر محسوس کرے گا کہ ایک نفیس اور رحم دل حکمران امن عامہ بر قرار رکھنے کے لئے اس سے زیادہ نرم ہدایات اور کیا دے سکتا تھا ؟
کہ جنگ و جدل میں پہل نہ کی جائے اور اگر دوسرا حملہ کرے تو مدافعانہ کروائی کی جائے-
اس فرمان سے ان تمام من گھڑت اور جھوٹی روایتوں کی تردید ہو جاتی ہے جو وحشیانہ مظالم توڑنے کے سلسلے میں بیان کی گئی ہیں. حکومت کا کوئی بھی کارکن عامل ہو یا گورنر اپنے سربراہ کے اس حکم کی خلاف ورزی کی مرتکب نہیں ہو سکتا تھا!
کاروبار مملکت چلانے والے صحابہ اکرام گو حسین کے اس اقدام سے راضی نہ تھے، پھر بھی نواسہ رسول کی محبت میں انتہائی نرمی اور احتیاط سے کام لیا .
مورخین نے صحابی رسول حضرت مروان کا ایک خط نقل کیا ہے جو انہوں نے حضرت حسین کی روانگی کے بعد ابن زیاد گورنر کوفہ کو ارسال کیا تھا اس خط کا مضمون اگر تبدیلی نہیں ہوئی تو یہ تھا.
" تمہیں معلوم ہے کہ حسین بن علی تمھاری طرف آ رہے ہیں اور وہ دختر رسول حضرت فاطمہ الزہرہ کے بیٹے ہیں خدا کی قسم ہمیں ان سے زیادہ ( الله ان کو سلامت رکھے.) کوئی شخص محبوب نہیں ہے پس خبردار غصے اور غیظ و غضب میں کوئی ایسا کام نہ کر بیٹھنا کہ جس کا مداوا نہ ہو سکے اور امت فراموش نہ کر پائے. (صفحہ 165 جلد 8 البدایه . صفحہ 212 جلد 6 ناسخ التواریخ مطبو عہ ایران)
اس خط کے الفاظ سے ہی ظاہر ہے کہ حضرت حسین کی ذات سے حضرت مروان کو کسی قدر الفت تھی اور ان کی آرزو تھی کہ اس خطرناک سفر میں حسین کا بال بھی بیکا نہ ہونے پائے اور انہی مروان پر ان راویوں نے الزام لگایا ہے کہ انہوں نے عامل مدینہ کو ترغیب دی تھی کہ حسین اگر بیعت سے گریز کریں تو ان کی گردن اڑا دو.
ان کی محبت و الفت کا عملی ثبوت آئندہ اوراق میں حضرت علی بن حسین ( زین العابدین ) کے احوال میں آپ لوگ پڑھ سکیں گے.حضرت مروان کی اولاد کی حضرت حسین سے اور ان کی اولاد سے جو قریبی رشتہ داریاں تھیں ان کا ذکر بھی آپ جان سکیں گے.اور ستم یہ کہ ناسخ التواریخ نے اس خط کو امیر یزید کے چچا زاد بھائی ولید بن عتبہ بن ابو سفیان سے منسوب کر دیا جو بالکل گھڑی ہوئی روایت ہے.
"آپ کہاں جا رہے ہیں ؟"
فرمایا، " اس شہر میں جانا چاہتا ہوں!"
حر نے کہا ، " آپ لوٹ جائیے وہاں مجھے آپ کے لئے کسی بہتری کی امید نہیں ہے"
اس پر آپ نے لوٹ جانے کا ارادہ کیا اور مسلم کے بھائی جو آپ کے ساتھ تھے آڑے آئے اور کہا،
" واللہ ہم ہر گز نہ لوٹیں گے جب تک ہم اپنا انتقام نہ لیں یا ہم بھی سب قتل نہ ہو جائیں"
تو آپ نے فرمایا ، " تمھارے بعد ہمیں بھی زندگانی کا کوئی لطف نہیں"
یہ کہہ کر آپ نے سفر جاری رکھا ،
جب عبید الله کا لشکر سامنے آ گیا تو کربلا کی جانب پلٹ گئے،
(صفحہ 220 جلد 6 طبری)
حضرت ابو جعفر محمّد ( الباقر ) کی اس روایت کی تصدیق عمدہ الطالب کے اس بیان کی تائید سے ہوتی ہے کہ حضرت حسین از خود اس راستہ کی طرف مڑ گئے تھے جو کربلا ہو کر دمشق جاتا ہے نہ کہ آپ کو گھیر گھار کر اس راستہ کی طرف چلنے پر مجبور کیا گیا تھا جیسا کہ من گھڑت روایتوں میں درج کیا گیا ہے . آپ نے امیر یزید کے پاس دمشق جانے کی راہ اختیار کی تھی .(ناسخ التواریخ صفحہ 222 جلد 6 از کتاب دوئم) بھی فرماتے ہیں کہ حسین الازیب اور قادسیہ کے راستے سے پلٹ گیے اور بائیں جانب روانہ ہوے.اور یہ راستہ وہی ہے جو قصر مقاتل و قریات طف ہو کر سیدھا دمشق کو جاتا ہے جس سے ملحقہ میدان کربلا تھا.
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
٭٭٭واپس ۔شیطان نامہ ۔ فہرست ٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں