بلاگرز بڑے چل لاک ہوتے ہیں بالکل شاعروں کی طرح زبردستی اپنی ، قلم کاریاں پڑھواتے ہیں ۔
اور ہم تو ویسے بھی فوجی ہیں ، پڑھیں نہ پڑھیں ۔ "کلک" ضرور کردیتے ہیں ، کہ ہمارا ننھا سا قطرہ ، دل کی لگی آگ بجھانے کے شاید کام اجائے ۔ کیوں کہ قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے ۔ ہم بھی بلاگ کا کنڈا ڈالے بیٹھے تھے ، اور حسرت سے سوچتے تھے کہ ہمارا اتنی اچھی تحریر (ہمارے خیال) میں لوگ کیوں نہیں پڑھتے ۔کئی مہینے تک پڑھنے والے پچاس سے اوپر نہیں گئے-
اور ہم تو ویسے بھی فوجی ہیں ، پڑھیں نہ پڑھیں ۔ "کلک" ضرور کردیتے ہیں ، کہ ہمارا ننھا سا قطرہ ، دل کی لگی آگ بجھانے کے شاید کام اجائے ۔ کیوں کہ قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے ۔ ہم بھی بلاگ کا کنڈا ڈالے بیٹھے تھے ، اور حسرت سے سوچتے تھے کہ ہمارا اتنی اچھی تحریر (ہمارے خیال) میں لوگ کیوں نہیں پڑھتے ۔کئی مہینے تک پڑھنے والے پچاس سے اوپر نہیں گئے-
بلاگ
سے ہمارا پہلا صحیح تعارف ، بھائی مصطفی ملک نے کروایا تھا ۔یہ 2013 اکتوبر کی بات ہے ہماری پرسنل ونڈو پر پیغام آیا ۔ میرے بلاگ کو پسند کریں ۔ ہم نے گھٹی میں پڑی ہوئی عادت کہ مطابق کہا " حاضر جناب" اور بلاگ پر چلے گئے ۔ جب اُن کے پڑھنے والوں کو دیکھا تو بہت رشک آیا کہ بلاگ ہو تو ایسا ۔ کہ پڑھنے والوں کی بھرمار ہو ۔
پھرفیس بک کی ایک بھتیجی نے نے مدد کی اور ہمارے پڑھنے والوں کی تعداد بڑھنے لگی ۔
پھرمصطفی ملک کاپرسنل ونڈو پر پیغام ِ ٹیوٹر آیا ۔ ہمارا کمپیوٹر پر ٹیوٹر اکاونٹ بنا لیکن ، ہماراموبائل ٹیوٹر کے قابل نہیں تھا ، خیر سمارٹ موبائل لیا ۔ لیکن وہ ہمارے قابو ہی نہیں آتا تھا ۔ انگلیاں کہیں رکھتے پڑتی کہیں ۔ بیوی کو دے دیا ۔ کہ تمھاری انگلیاں ذرا پتلی ہیں ۔ لو یہ اچھا ہے ۔ اُس نے بھی تنگ آ کر چھوڑ دیا کہ یہ قابو ہی نہیں آتا ۔ کبھی سکرین ادھر بھاگتی ہے کبھی ادھر-
ہم مری میں تھے کی ایک دن چھوٹی بیٹی نے بتایا کہ ۔ چم چم (نواسی) کی پکچر اور وڈیو دیکھیں کتنی پیاری ہیں ۔ تو ہم دونوں میاں بیوی نے بہت انجوائے کی ا۔ پوچھا یہ کیسے آئیں ۔ تو معلوم ہوا کہ معلومات میں ہم چھ مہینے پیچھے رہ گئے ہیں ویسے بھی اُس کا موبائل 60 ہزار والا تھا اور ہمارا صرف 7 ہزار والا۔ پھر یہ عقدہ ایسے کھلا کہ ہمارے پاس جو موبائل ہے اُس میں بھی وٹس ایپ چلتا ہے ۔ کیوں کہ وہی موبائل بڑی بیٹی کی نند کے پاس تھا ۔ اتوار کو اسلام آباد آئے ۔ موبائل ڈھونڈا مل گیا آن کیا تو خاموش کیوں کہ اُس کی بیٹری مر چکی تھی ۔ بیٹری ڈلوائی ۔ اور بوبو (چم چم کی پھوپو) سے موبائل کی ٹریننگ لی ۔اور یوں ہم سمارٹ موبائل اپنی چیچی (چھنگلیا ) سے آپریٹ کرنے کے ماہر ہو گئے ۔
یہ تھی راز کی دوسری بات بلاگرز کے لئے ۔ کیا سمجھے ؟
پھرفیس بک کی ایک بھتیجی نے نے مدد کی اور ہمارے پڑھنے والوں کی تعداد بڑھنے لگی ۔
پھرمصطفی ملک کاپرسنل ونڈو پر پیغام ِ ٹیوٹر آیا ۔ ہمارا کمپیوٹر پر ٹیوٹر اکاونٹ بنا لیکن ، ہماراموبائل ٹیوٹر کے قابل نہیں تھا ، خیر سمارٹ موبائل لیا ۔ لیکن وہ ہمارے قابو ہی نہیں آتا تھا ۔ انگلیاں کہیں رکھتے پڑتی کہیں ۔ بیوی کو دے دیا ۔ کہ تمھاری انگلیاں ذرا پتلی ہیں ۔ لو یہ اچھا ہے ۔ اُس نے بھی تنگ آ کر چھوڑ دیا کہ یہ قابو ہی نہیں آتا ۔ کبھی سکرین ادھر بھاگتی ہے کبھی ادھر-
ہم مری میں تھے کی ایک دن چھوٹی بیٹی نے بتایا کہ ۔ چم چم (نواسی) کی پکچر اور وڈیو دیکھیں کتنی پیاری ہیں ۔ تو ہم دونوں میاں بیوی نے بہت انجوائے کی ا۔ پوچھا یہ کیسے آئیں ۔ تو معلوم ہوا کہ معلومات میں ہم چھ مہینے پیچھے رہ گئے ہیں ویسے بھی اُس کا موبائل 60 ہزار والا تھا اور ہمارا صرف 7 ہزار والا۔ پھر یہ عقدہ ایسے کھلا کہ ہمارے پاس جو موبائل ہے اُس میں بھی وٹس ایپ چلتا ہے ۔ کیوں کہ وہی موبائل بڑی بیٹی کی نند کے پاس تھا ۔ اتوار کو اسلام آباد آئے ۔ موبائل ڈھونڈا مل گیا آن کیا تو خاموش کیوں کہ اُس کی بیٹری مر چکی تھی ۔ بیٹری ڈلوائی ۔ اور بوبو (چم چم کی پھوپو) سے موبائل کی ٹریننگ لی ۔اور یوں ہم سمارٹ موبائل اپنی چیچی (چھنگلیا ) سے آپریٹ کرنے کے ماہر ہو گئے ۔
جب ماہر ہوئے تو ، وٹس ایپ کیا ۔ ٹوٹر کی دنیا میں داخل ہو گئے ۔ ہم حیران ہوتے کہ بلاگ کے مضمون ٹیوٹر پر کیسے آتے ہیں ۔ کیوں کہ پہلے ہم بلاگ کا لنک ٹوٹر پر ٹویٹ کرتے تو کوئی پڑھتا تو کیا دیکھتا بھی نہیں تھا ۔
پھر فیس بک پر ہمیں ایک اور خضر راہ ملا ۔جس نےٹویٹر سے عام موبائل فون تک ۔۔۔ مائکرو بلاگنگ تک کی ترکیب بتائی ۔ اور ہمارے نہ معلوم پڑھنے والوں یا کلک کرنے والوں کی تعدادبڑھنے لگی - جی آپ بالکل صحیح سمجھے ہیں ۔ ٹویٹر پر لنک آتا ہے ۔ لہذا ۔ موبائل پر ٹویٹر دیکھنے والے اُسے لازمی کلک کرتے ہیں fb.me/3GLq6em2K یہ تھی راز کی دوسری بات بلاگرز کے لئے ۔ کیا سمجھے ؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
پہلا مضمون :بلاگرز کی مقبولیت کا گُر
بہت عمدہ اور بڑے مزے کی تحریر
جواب دیںحذف کریںآپ اپنی توجہ صرف اچھا لکھنے پر رکھیں۔
جواب دیںحذف کریںاگر قاری صاحبان کو اکٹھا کرنے اور بلاگ کی تشہیر میں وقت لگائیں گے، تو اس کی اپنی ایک قیمت ھے، اور وہ یہ کہ آپ کو پھر وہی کچھ اسی انداز میں لکھنا پڑے گا، جو قاری پڑھنا چاھتا ھے۔
پڑھنے والے کی مرضی کا لکھنا لکھاری کی موت کے مترادف ھے۔
کاشف جی شکریہ :
حذف کریںمیری تحریر میں کہیں قاری کی پسند نہیں بلکہ عام انداز میں میرے زندگی کے واقعات ہیں ، اور یہ انوکھے بھی نہیں ہم سب کی زندگی انہی واقعات سے بھری ہوئی ہے ، بس انداز مختلف ہے ۔
سر ! لیکچر کے دوران آپ جس طرح مزیدار واقعات لیکچر میں شامل کر کے ہماری دلچسپی برقرار رکھتے اور خاص طور پر کسی کو کلاس میں سونے نہیں دیتے تھے ۔ مجھے کبھی شبہ ہوتا تھا کہ آپ ضرور لکھتے بھی ہوں گے ۔
جواب دیںحذف کریںمیں اپنے فورم پر مصروفیت کی وجہ سے کم آتی ہوں ۔
میں نے ، آپ کا مضمون پڑھا ۔ ہم رفا کی سہیلیوں کا ایک اور فورم ہے ، اُس پر پوسٹ کیا سب نے بے حد پسند کیا ۔
آپ کی تحریر میں بے ساختگی ہے ۔