Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

اتوار، 31 جنوری، 2021

بھان سنگھ اور پنجابی سکھ گرودوارہ میرپور خاص

میرپورخاص میں شہر کے بیچوں بیچ ایک سکھ گرو دوارہ ( غلط العام گردوارہ) تقسیم سے پہلے قائم ہے ۔ جو میرپورخاص میں رہنے والے سکھوں کی عبادت کے لئے بنایا گیا تھا ۔ جس میں موجود جماعت اسلامی کے دفتر میں مہاجرزادہ نے کئی لیکچر سنے ۔ دو دن پہلے ایک دوست نے وٹس ایپ پر ایک مضمون ڈالا ۔

ہجرتوں اور دربدری پرکھوُں کے گھر چھوٹنے کے دُکھ- بھان سنگھ کیوں رویا ۔ 

یہ تحریر2015 دسمبر میں ڈان نیوز میں چھپی ، میر پور خاص  اور بھان سنگھ آباد کا نام پڑھتے ہی یادوں کے چھپے مینڈک پھدک پھدک کر باہر آنے لگے ۔آپ بھی پڑھئے مہاجرزادہ کی یاداشت کے ساتھ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭  

بھان سنگھ کیوں رویا؟ بھان سنگھ کون ہے؟کہاں کا رہنے والا ہے؟وہ کب رویا؟اور کیوں رویا؟ 
یہ چار سوالات ہیں جن کے ہمیں جواب دینے ہیں۔
پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ بھان سنگھ ایک سکھ ہے۔
دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ وہ میرپور خاص کے رہائشی تھے۔
میرپور خاص میں ان کی حویلی اور بیٹھک بھی تھی۔
ان کی بیٹھک ایک بنگلے کی شکل میں تھی۔ بیٹھک کے عقبی حصے میں ایک اصطبل بھی تھا۔
ان کی رہائش گاہ اور بیٹھک کے اطراف میں ساری زمین ان کی ملکیت تھی۔ اس لیے اس علاقے کوبھان سنگھ آباد کہا جاتا تھا۔

مگر سب سے اہم سوال یہ ہے کہ بھان سنگھ کیوں رویا۔ اس سوال کا جواب ایک جملے میں ممکن نہیں۔سب سے پہلے ہمیں بھان سنگھ کے شہر میرپور خاص کا ایک تفصیلی جائزہ لینا ہوگا۔
میرپور خاص جیسا کہ نام سے ظاہر ہے میروں کا خاص علاقہ۔
تقسیمِ ہند کے بعد ہندوستان سے ہجرت کر کے میرپور خاص میں بسنے والے مہاجرین جو خطوط انڈیا یا پاکستان کے دیگر شہروں میں اپنے رشتے داروں کے نام بھیجتے تھے، تو گھر کے پتے کے ساتھ شہر کا نام میرپور خاص سندھ ضرور لکھتے تھے۔اسی طرح حیدرآباد میں بسنے والے مہاجرین حیدرآباد سندھ لکھتے تھے۔

( مجھے اچھی طرح یاد  1971 میں ،میں ماڑی پور میں  بلاک 29 میں رہتا تھا کہ لیٹر بکس میں ایک پوسٹ کارڈ ملا ، جس پر انگلش میں ایڈریس لکھا تھا ۔اور انگلش  بالکل ایسی لکھی تھی جیسی ڈاکٹر کے نسخے میں ہوتی ہے- پوسٹ آفس سے وہ ،میرپور جانے کے بجائے ماڑی پورآ گیا اورایڈریس ناصر صاحب کا تھا جوہمارے گھر سے چار گھر بعد رہتے تھے )۔ 
لہذا، انہیں یہ اندیشہ ہوتا تھا کہ میرپور آزاد کشمیر میں بھی ہے ۔جبکہ حیدرآباد انڈیا میں بھی ہے 
کہیں غلطی سے ان کا بھیجا جانے والا خط حیدرآباد دکن یا میرپور آزاد کشمیر نہ چلا جائے اور وہاں سے آنے والے خط کے بارے میں بھی ان کا یہی خیال تھا۔
ایسا ہوتا تو نہیں تھا لیکن خطرہ تو تھا۔ بہرحال فی الوقت ہمارا موضوع ہے میرپور خاص اور بھان سنگھ۔ہم پہلے بتا چکے ہیں میرپور خاص میں سکھ آبادی میں کم ہی سہی لیکن تھے ضرور۔
شہر کے بالکل مرکز میں ان کا گرودوارہ تھا اور آج بھی ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ گرودوارے میں جماعت اسلامی اور محکمہ اوقاف و متروکہ املاک کا دفتر ہے۔
گرودوارے کی پیشانی پر ایک تختی بھی آویزاں ہے جس پر غالباً گورمکھی تحریر ہے۔
گرودوارہ شہر کے وسط میں قائم ہے ۔مگر اب اس میں مختلف دفاتر قائم ہیں.
گذشتہ دنوں متروکہ وقف املاک پاکستان کے منتظم اعلیٰ جناب صدیق الفاروق کراچی پریس کلب تشریف لائے اور ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں اس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان سے ہجرت کرنے والے جن غیر مسلموں کی زمینوں، دکانوں، عبادت گاہوں پر جو ناجائز قبضے کیے گئے وہ خالی کروائے جائیں گے۔

 

اس موقع پر ہم نے ان سے سوال کیا کہ کیا میرپور خاص کے گرودوارے سے بھی قبضہ خالی کروایا جائے گا جس کے ایک حصے پر آپ کے اپنے دفتر کا قبضہ ہے؟
کیا گرودوارے کو سکھوں کے حوالے کیا جائے گا؟
تو جواباً انہوں نے فرمایا کہ چونکہ اب میرپور خاص میں سکھ موجود نہیں تو یہ عبادت گاہ کس کے حوالے کی جائے؟

بات ٹھیک ہی تھی۔ تقسیم ہند کے بعد بھان سنگھ بھی پاکستان سے انڈیا ہجرت کر گئے۔
اس کے بعد دوسرے سکھ بھی میر پورخاص چھوڑ گئے ہوں گے۔
بھان سنگھ کا میرپور خاص میں گھر تھا اور گھر کے نیچے دکانیں بھی۔
وہ بنیادی طور پر زمیندار تھے لیکن انہوں نے اپنے گھر کے نیچے دکانیں بھی بنائی تھیں۔
بھان سنگھ کی ان دکانوں کی خصوصیت یہ ہے کہ آج 70 یا 80 سال کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی ان دکانوں کے دروازے اسی طرح کے بنے ہوئے ہیں۔جس طرز پر بھان سنگھ نے یہ دروازے بنوائے تھے۔ ان دروازوں کا کمال یہ ہے کہ یہ دو تہوں پر مشتمل ہیں۔

(بچپن میں قائم ٹاکیز کے بالکل سامنےکوئی دس بارہ دکانوں کی ایک لائن تھی جن میں ایسے ہی  شٹر لگے تھے جن میں سے دو میں 1968 میں جب چینی کی راشنگ ہوئی تو یہاں گودام اور آفس تھا ۔ جس سے  ہر ماہ گھریلو افراد  کی تعداد کے حساب سے  راشن کارڈ چینی تقیسم کی جاتی تھی ، مٹھائی کی دُکان کے مالک محلے والوں سے راشن کارڈ جمع کرتے اور بوریوں کے حساب سے چینی اُٹھاتے ، مہاجرزادہ)   
دروازے جب کھلتے ہیں تو دکان کا سائبان بن جاتے ہیں -اور جب بند کیے جاتے ہیں تو دروازہ بند ہوجاتا ہے۔
یہ دکانیں اور ان کے دروازے اب بھی موجود ہیں۔ انہی دروازوں کے اوپر ایک گھر کے آثار بھی ہیں ۔جس کی بیرونی دیوار کے اوپری وسطی حصے پر گھڑیال کا ڈھانچہ موجود ہے۔

وقت کی گرد میں گھڑیال کی اصل صورت غائب ہو گئی ہے -لیکن اس کی باقیات ڈھانچے کی صورت میں موجود ہیں۔گھڑیال کے اب صرف آثار رہ گئے ہیں۔دو تہوں والے دروازے ویسے ہی ہیں جیسےبھان سنگھ نے 70 سے 80 سال قبل لگوائے تھے-جماعتِ اسلامی کے بورڈ کے پیچھے گرودوارے کی تختی موجود ہے ۔جہاں تک گرودوارے کی بات ہے۔
تو وہ تو میرپور خاص میں موجود ہے۔

اس کے اطراف میں دکانیں ہیں وہ تقریباً 50 سے زائد ہیں ۔لیکن ان دکانوں کی ملکیت کے لیے کوئی بھی سکھ دستیاب نہیں۔ہم نے سوچا کہ گرودوارے کی عمارت کا ایک تصویری خاکہ بنایا جائے، اس لیے ہم میرپور خاص پہنچے۔جیسے ہی ہم نے گرودوارے کی تصاویر بنانی شروع کی تو آس پاس کے بہت سارے دکاندار ہمارے قریب آگئے اور کہنے لگے ”گرودوارہ کب گرے گا“ ؟ہم نے انہیں بتایا کہ یہ ہمارا موضوع نہیں ہے  ۔ہم تو صرف یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا اس شہر میں سکھوں کا  گرودوارہ ،  اب بھی  موجود ہے۔ جس سے انہیں بہت مایوسی ہوئی۔خیر ہم گرودوارے کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوئے، مختصر اور تنگ سڑھیاں چڑھتے بالائی منزل پر پہنچ گئے۔اب بنیادی بات یہ تھی کہ تصویریں کس طرح بنائی جائیں؟ہم نے دیکھا کہ جماعت اسلامی کے دفتر کے باہر ایک صاحب سو رہے ہیں۔ہم نے ان کو جگایا اور بتایا کہ ہم گرودوارے کے حوالے سے تحقیق کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ دفتر کا چوکیدار باہر گیا ہے۔گرودوارے کے باہر جماعت اسلامی کی ایک تختی ویزاں تھی اور تختی کے نیچے ایک اور تختی تھی۔ہمارے دوست واحد پہلوانی نے اس تختی کی جانب توجہ دلائی۔ لیکن یہ بہت مشکل مرحلہ تھا۔کہ جماعت اسلامی کی تختی کو ہٹا کر کس طرح گردوارے کی تختی کی تصویر لی جائے۔ہم نے دروازے پر موجود ایک صاحب سے پوچھا کہ جماعت اسلامی کی یہ تختی کس طرح ہٹا کر گرودوارے کی تصویر لے سکتے ہیں؟انہوں نے کہا ”ڈنڈے“ سے۔اس کے بعد انہوں نے ایک بانس کا ڈنڈا لیا اور جماعت اسلامی کی تختی کو تھوڑا اوپر کر دیا۔اس کے بعد گرودوارے کی تختی بالکل نمایاں تھی۔

ہم ابھی گرودوارے کی تصاویر بنا ہی رہے تھے ۔کہ اچانک ایک صاحب نے ہمیں آکر کہا
ابے بھائی سکھ تو ہیں نہیں گرودوارہ شہر کے بیچ میں ہے، اب جلدی سے گرودوارہ گراؤ اور دکانیں بناؤ۔تصویریں تو بن گئیں لیکن ہمارے لیے اسے پڑھنا ناممکن تھا۔
اس کے لیے ہم نے ممتاز نقاد، ادیب اور ترجمہ نگار اجمل کمال کو تصویریں ارسال کیں کہ ہماری مدد فرمائیں۔

انہوں نے یہ تصویریں انڈین پنجاب میں ان کے ایک دوست چرن جیت سنگھ تیجا کو بھیجیں۔ تختی کا ترجمہ انہوں نے یوں کیا: 


تختی کا ترجمہ انہوں نے یوں کیا: ”اک اوں کار گُر پرشاد پنجابی سکھ گرودوارہ میرپور خاص (Ekonkaar Gur Prashad Punjabi Sikh Gurudwara Mirpurkhas).

(    سکھوں کا یہ ایک منترا  ،اونگ کر، ست گُر پرس ہے۔تصویر پر یا منترے کے الفاظ پر کلک کر کے اسے سنیئے  )

ہم جب بھان سنگھ کے گھر کی تلاش میں میرپورخاص کے علاقے ۔بھان سنگھ آباد میں پہنچے تو ہم نے ان کے گھر اور بیٹھک کی تلاش کرلی تھی ۔لیکن ہمارے ذہن میں ایک سوال یہ بھی تھا کہ کیا کبھی بھان سنگھ دوبارہ لوٹ کر آئے اور اپنے گھر اور بیٹھک کا جائزہ لیا۔بھان سنگھ کے گھر کی موجودہ حالت ،بالاآخر ہم اس بیٹھک تک پہنچ گئے جہاں وہ رہتے تھے۔بیٹھک کے باہر ایک صاحب جنہوں نے اپنا نام حاجی رفیق بتایا، موجود تھے۔ہم نے ان سے کہا کہ بھان سنگھ کا گھر کون سا ہے۔انہوں نے انگلی کے اشارے سے ایک مکان کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ یہ گھر اب عمر راجپوت صاحب کا ہے اور یہی گھر بھان سنگھ کا تھا۔ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ نے بھان سنگھ کو دیکھا ہے۔جواب میں انہوں نے اقرار میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ ہاں۔

1964 میں جب میں سات سال کی عمر کا بچہ تھا تو اچانک علاقے میں شور ہوگیا کہ بھان سنگھ آیا ہے ۔تو پھر میں نے دیکھا کہ ایک عمر رسیدہ سکھ پگڑی پہنے اس گلی میں آیا، کچھ دیر بعد وہ گھر سے باہر چلا گیا۔ یہ گھر اس وقت علوی ایڈووکیٹ کا تھا۔بعدازاں انہوں نے یہ گھر عمر راجپوت کو فروخت کر دیا تھا۔اب اس گھر میں عمر راجپوت رہتے ہیں۔باقی تفصیل آپ ان سے پوچھ سکتے ہیں۔ہم نے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا اور عمر راجپوت باہر تشریف لائے۔ہم نے ان سے درخواست کی کہ ہمیں بھان سنگھ کی بیٹھک دیکھنی ہے جو اب آپ کا گھر ہے۔ انہوں نے کہا بیٹا آؤ۔

ہم گھر میں داخل ہوئے اور تصویریں بنائیں، اور پھر عمر صاحب سے پوچھا کہ کیا کبھی بھان سنگھ یہاں واپس لوٹ کر آئے؟"ہاں آئے تھے، 2004 کی بات ہے، دن کے کوئی 12 بجے کا وقت ہوگا۔گھر کے دروازے پر دستک ہوئی، بیٹا اختر تمہیں تو اندازہ ہے یا نہیں لیکن ایک طے شدہ بات ہے کہ میں بڈھا ہو گیا ہوں اور ریٹائرڈ بھی، بچے اور ان کے بچے صبح کو اپنے دفاتر اور اسکولوں کی جانب چلے جاتے ہیں۔ میں اکیلا ہی گھر میں ہوتا ہوں اس لیے دروازے پر دستک ہو تو پہنچتے پہنچتے خاصی دیر لگ جاتی ہے۔"لیکن جب میں نے دروازہ کھولا تو ایک معمر شخص جو تقریباً نوے کے پیٹے میں تھا، دروازے پر ایک ادھیڑ عمر عورت، جس کا تعارف اس نے اپنی بیٹی کی حیثیت سے کروایا، کھڑا تھا۔عمر رسیدہ شخص مجھ سے بولا بھان سنگھ کا گھر یہی ہے۔ 

میں نے کہا ہاں۔ آپ کو کس سے ملنا ہے۔تو وہ بولے میں بھان سنگھ ہوں۔ کیا میں اپنا گھر دیکھ سکتا ہوں تو میں نے کہا کیوں نہیں، اور میں انھیں گھر کے اندر لے آیا۔"میں نے اپنے باورچی سے کہا کہ چائے وغیرہ کا بندوبست کرے گھر کے مالک آئے ہیں۔باورچی گھر کے اندورنی حصے کی طرف چلا گیا۔اس کے بعد فقط اتنا ہوا کہ دو سے لے کر پانچ منٹ تک بھان سنگھ اور وہ ادھیڑ عمر لڑکی گھر کے در و دیوار پر ہاتھ پھیرتے رہے، چومتے رہے اور اس دوران روتے رہے۔

میں نے کہا ،آپ بیٹھیں میں چائے لے کر آتا ہوں ۔لیکن جب میں واپس آیا تو نہ بھان سنگھ تھا اور نہ اس کی بیٹی۔میں دوڑتا ہوا گلی میں آیا اور بھان سنگھ بھان سنگھ پکارتا رہا، لیکن گلی میں خاموشی اور سناٹا تھا۔"ہاں ! ایک بات اور۔ بھان سنگھ آباد کا سرکاری نام اب اورنگ آباد ہے۔لیکن لوگ اب بھی اس علاقے کو بھان سنگھ آباد پکارتے اور لکھتے ہیں۔"

(اختر بلوچ) 

تصاویر بشکریہ عمران شیخ

٭٭٭٭٭٭٭

مہاجر زادہ ۔1964 میں اپنی   والدہ   اوربہن بھائیوں کے ساتھ میرپور خاص آیا۔لیکن اِس سے پہلے وہ دو دفعہ دادی کی زندگی میں آیا۔ جس کی کچھ کچھ جھلکیاں ذہن میں موجود تھیں۔ ریلوے سٹیشن سے خالہ زاد بہن ور بھائی کے ساتھ تانگے میں آتے ہوئے ، امی اور خالہ زاد بھائی کی باتیں سُن رہا تھا ۔ تو معلوم ہوا کہ کھڈی مل کے بعد سیٹلائیٹ ٹاون تک سڑک کے کنارے بھان سنگھ کی زمین پر مہاجروں نے گھر اور دکانیں بنا لی ہیں ۔ جو کچی تھیں اور واحد سرخ اینٹوں کی منقش حویلی  بھان سنگھ کی تھی ، جس کے سامنے دکانیں ، پیچھے تالاب ، کنواں اور کھڈی مل تھی جو کپاس سے دھاگا اور سوتی کپڑا بنایا کرتی ، بڑی مل شہر میں تھی ، مول چند کا باغ جہاں، راجپوتانہ ،  مہاراشٹرا اور دیگر علاقوں سے مہاجر آئے ، ان کے لئے یہاں پہلا کیمپ لگا ۔ پھر سیٹلائیٹ ٹاون کا سروے ہوا اور 150 گز کے کوارٹر بنے ۔اور مہاجروں کو الاٹ کئے گئے،  بلاک 29 کا کوارٹر نمبر 396 چچا اکرام الدین کو الاٹ ہوا ۔ جو سیٹلائیٹ ٹاؤن کی پلاننگ کرنے والی کمپنی میں سروئیر تھے ۔

چچا کے گھر سے دروازوں میں سے گذرتے بڑے آرام سے خالہ کے گھر پہنچ جاتے جو دادی کے گھر سے شارٹ کٹ 250 گز تھا اور سڑک پر سے 300 گز دور تھا ۔اور بھان سنگھ کی حویلی ایک میل دور شہر کی طرف تھی اور سول ہسپتال ہمارے گھر سے کوئی سوا میل دور تھا ۔ سول ہسپتال کے پاس ریلوے پھاٹک عبور کرتے  ہی مولچند کا باغ شروع ہو جاتا جو لمبائی میں  جوہڑوں تک تھا اورچوڑائی میں 12 ووٹ والے ،  پاور سٹیشن تک تھا۔ بھانسنگھ کی زمین کوئی آدھا میل تک تھی اور چوڑائی میں جہاں جوہڑ ختم ہوتے تھے اُس سے تھوڑا آگے تھی ۔ یہاں فصل بھی ہوتی اور آم اور دیگر پھلوں ، کھرنی ، املی ، جنگل جلیبی اور دیگر درخت بشمول کیکر بھی ہوتے تھے ۔ اُس کے بعد نہر تک کیکر اور شیشم کے درخت تھے ۔ زمین کی زرخیزی کا یہ عالم تھا کہ ہر طرف درختوں کی بہتات تھی ، کیوں کہ زمین میرواہ سے نکلنے والی جرواری شاخ سے سیراب ہوتی ۔ ہمارے گھر سے تالاب کی طرف ایک بڑ کا بہت بڑا درخت تھا اور اُس سے آگے شمشان تھا ۔ جہاں ہندو اپنے مردے جلاتے ۔یہ علاقہ آسیب زدہ مشہور تھا ۔ تالابوں کی کھدائی کے بعد بھی کئی لوگوں کو رات کو چلانے کی آوازیں جو میرے خیال میں ہم جیسے شریر بچے رات کو کھیلتے وقت یا اُس سڑک سے گذرتے وقت آوازیں نکالتے، سب گھروں کی مین اور پچھلی گلی میں کھلنے والے دروازوں پر زنجیر والہ کنڈی ہوتی ، رات کو کالا دھاگا باندھ کردور جا کر کھینچے اور گھر والوں کو ڈراتے۔ 

سیٹلائیٹ ٹاؤن کا یہ نقشہ مہاجر زادہ نے اپنی یاداشت سے بنایا ہے ۔


 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭                   

جمعرات، 28 جنوری، 2021

اسلام آباد کے گاؤں جو ختم ہوگئے۔

 اسلام آباد میں 85 دیہات شامل تھا جو اسلام آباد کی تعمیر سے متاثر ہوئے۔ 

جن میں تقریباً 50 ہزار افراد آباد تھے۔ شکر پڑیاں بھی ان میں سے ایک گاؤں تھا یہاں دو سو سے زائد گھر تھے جو بالکل اس جگہ پر تھے جہاں آج لوک ورثہ موجود ہے۔ لوک ورثہ کے پیچھے پہاڑی پر اس گاؤں کے آثار آج بھی جنگل میں بکھرے پڑے ہیں۔

 85 دیہات کی 45 ہزار ایکٹر زمین جب سی ڈی اے نے حاصل کی تو متاثرین میں اس وقت 16 کروڑ روپے تقسیم کیے گئے جبکہ انہیں ملتان، ساہیوال، وہاڑی، جھنگ اور سندھ کے گدو بیراج میں کاشت کے لیے 90 ہزار ایکڑ زمین بھی الاٹ کی گئی جس کے لیے 36 ہزار پرمٹ جاری کیے گئے۔
ان میں جو بڑے گاؤں تھے ان میں کٹاریاں بھی شامل تھا جو موجودہ شاہراہ ِ دستور اور وزارت خارجہ کی جگہ آباد تھا۔
 شکر پڑیاں لوک ورثہ کی جگہ،
 بیسٹ ویسٹرن ہوٹل کے عقب میں سنبل کورک
مری روڈ پر سی ڈی اے فارم ہاؤسز کی جگہ گھج ریوٹ،
 جی سکس میں بیچو
ای سیون میں ڈھوک جیون
 ایف سکس میں بانیاں
 جناح سپر میں روپڑاں
جی 10 میں ٹھٹھہ گوجراں
آئی ایٹ میں سنبل جاوہ نڑالہ  اور نڑالہ کلاں
  ایچ ایٹ میں جابو
زیرو پوائنٹ میں پتن  
میریٹ ہوٹل کی جگہ پہالاں
 ایچ ٹین میں بھیگا سیداں
 کنونشن سینٹر کی جگہ بھانگڑی
 آبپارہ کی جگہ باغ کلاں
اسی طرح راول ڈیم کی جگہ راول، پھگڑیل، شکراہ، کماگری، کھڑ پن اور مچھریالاں  نامی گاؤں بستے تھے۔
فیصل مسجد کی جگہ ٹیمبا  اور اس کے پیچھے پہاڑی پر کلنجر  نام کی بستی تھی۔
شکر پڑیاں میں گکھڑوں کی بگیال شاخ کے لوگ آباد تھے جنہیں ملک بوگا کی اولاد بتایا جاتا ہے۔ گکھڑوں نے پوٹھوہار پر ساڑھے سات سو سال حکمرانی کی ہے۔

 راولپنڈی کے گزٹیئر 1884 کے مطابق ضلع راولپنڈی کے 109 دیہات کے مالک گوجر اور 62 گکھڑوں کی ملکیت تھے-


 

٭٭٭٭٭٭٭

اتوار، 24 جنوری، 2021

سپینوزا کا خدا - یاسر پیرزادہ

روزنامہ جنگ میں یاسر پیرزادہ کا مضمون چھپا ۔ 

یہ وہ آفاقی سچ ہے جو کتاب اللہ (کائینات ) کا رمز ہے ۔ آپ حیران ہوں گے کہ یہ منصور نہیں ، بلکہ پردے میں خدا بول رہا ہے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭ 

آئن سٹائن سے کسی نے پوچھا کہ کیا آپ خدا پر ایمان رکھتے ہیں ؟
وقت کا دھارا بدلنے والے سائنس دان نے جوا ب دیا

 ’’میں سپینوزا کے خدا کو مانتا ہوں۔‘‘

مرا د یہ تھی کہ میں ایسے غیر شخصی خدا کو مانتا ہوں جوکائنات کا خالق تو ہوسکتا ہے مگر انسانوں کی زندگیو ں میں دخیل نہیں ہے،دنیاوی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا ، معجزے تخلیق نہیں کرتااوردعاؤں کی مدد سے اُس کے فیصلے تبدیل نہیں کیے جا سکتے1۔ ایسا خدا ہم انسانوں کے کسی عمل کا محتاج ہے اور نہ منتظر۔ 

سپینوزا کا تصور خدا کا فلسفہ خاصا عجیب ہے ، ایک سطر میں اگر اسے بیان کیا جائے تو

سپینوزا کا خدا کسی انسان کا سرپرست اعلیٰ یا نجات دہندہ نہیں اور نہ ہی یہ خدا انسانوں کی داد رسی کے لیے ہمہ وقت دستیاب ہے۔ بلکہ یہ ایک ایسا غیر شخصی ’جوہر ‘ ہے جو کائنات کو کڑے او ر ناقابل تغیر قوانین کے تحت چلاتا ہے، اِن قوانین کے آگے کسی دعا اور اپیل کی کوئی گنجائش نہیں، یہ قوانین ہر جگہ اٹل ہیں اور کبھی تبدیل نہیں ہوتے۔

 ظاہر ہے کہ یہ تصور خدا بائبل یا دیگر مذاہب کے تصور سے بالکل مطابقت نہیں رکھتا تھا ۔

اور پادریوں کے لیے تو بالکل ناقابل قبول تھا جو لوگو ں سے پیسے بٹور کر انہیں جنت کا پروانہ جاری کرتے تھے، وہ کیسے سپینوزا کے خداکو مان لیتے؟

تاہم کچھ مغربی مصنفین کا خیال ہے کہ سپینوزا نے خدا کا اچھوتا تصور پیش کرکے ایک طرح سے مذہب پر اٹھائے جانے والے عقلی اعتراضات کا ٹھوس اور شافی جواب دیا ۔

 گو کہ اُس زمانے میں سائنس نے ابھی اتنی ترقی نہیں کی تھی مگر اِس کے باوجود مذہب کے باب میں سوال اٹھنا شروع ہو گئے تھے جن کے جواب کے لیے ایک نئے علم الکلام کی ضرورت تھی، یہ ضرورت سپینوزا نے پوری کی ۔سپینوزا کا تصور خدا بظاہر مودبانہ انداز میں خدا کے وجود کا انکار ہے مگر حقیقت میں سپینوزا خدا کے وجود کاقائل تھا۔ 

سپینوزا کا ایک ’’مقالہ مذہب اور ریاست‘‘ پر بھی ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ

 سب صحیفے بنیادی طور پر انسانوں اور تمام نسل انسانی کے لیے لکھے گئے ہیں لہٰذا اِن کا مواد ایسا ہونا چاہیے تھا جسے عوامی طور پر سمجھنا مشکل نہ ہو2،

 اِن صحیفوں میں عّلت و معلول کے کلیے کے تحت معاملات کی تشریح نہیں کی گئی بلکہ انہیں اِس انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو متاثر کیا جا سکے۔ اس کا مقصد انسانی عقل کو ابھار کر قائل کرنا نہیں بلکہ انسانی تخیل کو جھنجھوڑنا ہے، اسی وجہ سے ہمیں اِن میں جا بجا معجزوں کی باتیں اور خدا کا شخصی وجود مصروف عمل نظر آتا ہے۔ 

’’داستان فلسفہ‘‘ میں ول ڈیورنٹ لکھتا ہیں کہ سپینوزا کے مطابق اگر اِس اصول پر بائبل کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو ہمیں اُس میں کوئی تضاد نظر نہیں آئے گالیکن اگر ہم لفظی تشریح کرنے بیٹھیں گے تو پھر معاملہ الجھ جائے گا۔۔۔

دونوں قسم کی تشریحات کا اپنا مقام اور مقصد ہے، لوگوں کو ہمیشہ ایک ایسا مذہب چاہیے ہوگا جس میں کسی مافوق الفطرت وجود کا تصور ہو، اگر ایسے کسی مذہب کا تصور ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی تو لوگ نیا مذہب تخلیق کر لیں گے۔تاہم ایک فلسفی کو یہ علم ہونا چاہیے کہ خدا اور قدرت ایک ہی ہیں جو غیر متغیر قانون کے تحت کام کرتے ہیں (صفحہ 210)۔ 

مشہور مسلم مفکر ابن سینا کا بھی خدا کے بارے میں کسی حد تک یہی غیر شخصی تصور تھا جس پر بعد میں امام غزالی نے سخت تنقید کی۔

 سپینوزا کے تصور خدا کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ کائنات بلا مقصد ہے اور اپنے اِس بیان کی حمایت میں سپینوزا کی دلیل خاصی دلچسپ ہے کہ ’’اگر خدا کسی مقصد کوحاصل کرنے کے لیے کوئی عمل کرتا ہے تو اِس کا مطلب یہ ہوگا کہ اُس مقصد کے حصول سے پہلے خدا کے ہاں کسی قسم کی کوئی کمی ہے لیکن چونکہ خدا کامل اور خود کفیل ہے لہٰذا کمی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔3‘‘ 

انسان کے علم کو سپینوزا ناقص قرار دیتا اور کہتا ہے کہ ،

عّلت و معلول کا سلسلہ ہم سے چھپا ہوا ہے اس لیے ہم واقعات کی حقیقت جان نہیں پاتے اوریوں انہیں دوسرے واقعات کے ساتھ غلط انداز میں نتھی کرکے دیکھتے ہیں۔4

 سپینوزا کی اس بات پر تبصرہ کرتے ہوئے ول ڈیورنٹ لکھتا ہے کہ،

 فلسفے میں پہاڑ ایسی غلطیوں کی جڑ اِس بات میں پوشیدہ ہے کہ انسان اپنے مقاصد، میعارات اور ترجیحات کو ایک ایسی کائنات کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کرتا ہے جو کسی مقصد کے تحت تخلیق کی گئی ہے لہٰذا یہیں سے برائی کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے اور ہم انسان اپنی زندگی کی برائیوں اور خامیوں کو خدا کی اچھائی کے ساتھ تطبیق کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو لا حاصل ہے۔

 اسپینوزا کے الفاظ میں :’’جب بھی کارخانہ قدرت میں ہمیں کوئی بات مضحکہ خیز،بے معنی یا بد لگتی ہے تو اُس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس اشیا کا نا مکمل علم ہوتا ہے اور ہم کائنات کے نظم اور قدرت کی ہم آہنگی سے آشنا نہیں ہوتے اور چاہتے ہیں کہ ہر چیز اُس طرح سے ترتیب میں ہو جیسے ہماری عقل کہتی ہے۔جبکہ ہماری عقل جسے بُرا سمجھتی ہے (ضروری نہیں کہ ) وہ کائناتی نظم اور آفاقی قوانین کے تحت بھی بُری ہو،(عین ممکن ہے کہ) وہ ہمارے اختراع کیے گئے قوانین کے تحت ہی برائی سمجھی جاتی ہو۔5۔۔۔کوئی بھی بات بیک وقت اچھی ، بری اور غیر متعلق بھی ہو سکتی ہے ، مثال کے طور پر اداسی کے موڈ میں موسیقی خوشگوار اثر ڈال سکتی ہے مگر کسی ماتمی موقع پر اسے برا سمجھا جائے گا اور مردہ لوگوں کے لیے یہ بالکل غیر متعلق چیز ہے ۔‘‘ 

سپینوزا دراصل انسانوں کو اِس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ وہ اِس کائنات کے رموز و اسرار اور قوانین کو سمجھیں او ر اِن کے مطابق اپنی زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ انسانوں کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات، ان دیکھے عوامل کا نتیجہ ہوتے ہیں جنہیں کلی طور پر جاننا انسان کے بس میں نہیں لہٰذا ایسے کسی نا گہانی واقعے سے نمٹنے کے وقت جذبات سے نہیں عقل سے کام لینا چاہیے ، اِس لمحے کو سپینوزا ’Bondage‘ کا نام دیتا ہے6، جہاں جذبات کا ریلہ عقل کو بہا کر لے جاتا ہے۔ اِس لمحے کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دینا ہی کامیابی ہے۔ 

(یاسر پیرزادہ)

٭٭٭٭٭٭٭٭

1۔ 

اسْتِكْبَارًا فِي الْأَرْضِ وَمَكْرَ السَّيِّئِ وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ فَهَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِينَ فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَبْدِيلًا وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا  [35:43]

2۔ 

وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ  (54/17 )    

3۔ 

اللَّـهُ الصَّمَدُ  (112/2 )

4۔ 

فَلاَ تَضْرِبُواْ لِلّهِ الْأَمْثَالَ إِنَّ اللّهَ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ  (16/74 )

5۔ 

كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ وَعَسَى أَن تَكْرَهُواْ شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَعَسَى أَن تُحِبُّواْ شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ وَاللّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ  (2/216 )

6۔ 

أَفَلاَ يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللّهِ لَوَجَدُواْ فِيهِ اخْتِلاَفًا كَثِيرًا  (4/82 )

 

 

جمعہ، 22 جنوری، 2021

یادوں کے مینڈک

   19 جنوری  کو ایک کورس میٹ کرنل منظور  سے ملنے، اُس کے آفس  جانا ہوا ،وہاں باتوں باتوں میں کمپیوٹر سے بات نکلی اور فوج کی مشہور پسندیدہ پریزینٹیشنز  پر رکی تو یادوں کی دلدل کی گہرائیوں سے پی ڈبلیو  کا مینڈک پھدک کر باہر آگیا  لیکن تھوڑی دیر بیٹھ کر واپس چھلانگ لگا کر غائب ہو گیا ، ابھی تھوڑی دیر پہلے لیپ ٹاپ کھولا تو کراچی گروپ کے  نوجوان محمد وسیم کی پوسٹ  نے یادوں کی گہرائیوں سے یادوں کے مینڈک پھدک پھدک کر آکر بیٹھنا شروع ہو گئے ۔   

آہ نوجوان : کیا خوب لکھا ۔ مزہ آگیا ۔

میں نے اپنا ذاتی کمپیوٹر 1993 میں یعنی       سپر فاسٹ کمپیوٹر  (386) جس میں 10 ایم بی ھارڈ ڈسک ، لیزر پرنٹر ،  بال ماؤس  ، بمع سپیکرز اور خوبصورت کمپیوٹر ٹیبل مبلغ 60 ہزار سکّہ رائج الوقت بمع پلاسٹک کا کوّر تاکہ کمپیوٹر میں گرد کا داخلہ کم سے کم ہوجائے ۔ کوئیک مارکیٹ آرٹ سکول روڈ کوئیٹہ کے شارق (میرا جونیئر سکول فیلو سے) خریدا تھا۔شارق نے مہربانی کی ڈاس کی اوریجنل 5،25 انچ فلاپی ڈسک360کے بی سنگل ڈینسٹی دی اور ہم نےایک ڈبہ 10 فلاپی ڈسک کا بھی لیا ۔محلّے میں دھوم مچ گئی    ۔

   لیکن میں فوج میں رہتے ہوئے ، 1987 میں CASIO-750 P پر , بیسک سیکھ کر ، ہندسوں اور الفاظ کا پروگرامر بن چکا تھا ۔

- پھر 1988 میں لاہور میں ایک دوست سے ایک پرانا کموڈر-64 گیم کمپیوٹر بمع ریکارڈر خریدا۔ساتھ 5 کے بی کی 5،5 انچ کا پورا  بکس بھی تھا  جو بچوں کی گیم سے بھرا ہوا تھا ۔ لیکن بچوں کو اِس گیم سے زیادہ اٹاری پسند تھی جو بڑی سکرین یعنی ٹی وی پر کھیلنا پسند کرتے تھے ۔  

یوں 1991 میں کوئٹہ میں پی سی ۔8088 سے جدید کمپیوٹر کا سفر شروع ہوا۔جس کی ابتداء پریزنٹیشنوں کی سلائیڈ کے پرو گرام پروفیشنل رائٹ (Professional Write 1)سے شروع ہوئی ۔

 1992 میں آفس میں ،286 کمپیوٹر    کا اضافہ ہوا

تومیں فقط  12 گھنٹوں  میں123 پر سپریڈ شیٹ بنا کر کمپیوٹر اکاونٹنگ کی دنیا میں داخل ہوا۔ 

 ہوا یوں کہ ایک دوست سے میں نے اکاونٹ کے پروگرام کا ذکر کیا تو اُس نے مجھے سپریڈ شیٹ کا بتایا میں نے شارق سے پوچھا تو اُسے بھی واجبی سی معلومات تھیں ہاں اُس نے مجھے لٹن روڈ پر ایک گھر میں قائم پیٹرومین سے رابطہ کرنے کا کہا میں وہاں پہنچا تو ایک  مگسی قبیلے کا نوجوان ملا جو وہاں پرنسپل کے فرائض سر انجام دے رہا تھا مجھے  اچھی معلومات دیں میں نے پوچھا کہ اِس کے سیکھنے کا کیا خرچہ اور وقت ہے۔ بتایا کہ ہم تین ماہ میں روزانہ ایک گھنٹہ پڑھا کر ماہر بنا دیتے ہیں۔ اُس کی مہربانی کہ سٹوڈنٹ کوئی نہیں تھا تو اُس نے مجھے  5.25″کی فلاپی ڈسک لانے کو کہا جو میں گاڑی سے نکال لایا کاپی کی ۔ اُس سے میں نے 123 کی ایک ادھارکتاب مانگی جو اُس نے دے دی اور کہا کہ کورس کے جب 4 سٹوڈنٹس ہوں گے تو آپ آجانا اور ہاں  یہ  سپریڈ شیٹ   ہم بنانا سکھاتے ہیں ۔فلاپی ڈسک ، کتاب ۔ اور سپریڈ شیٹ لے کر میں آفس آیا۔اُس نے مجھے اپنا وزٹنگ کارڈ دیا جس پر ایم ایس سی سافٹ وئیر انجنیئرنگ  لندن لکھا تھا ۔39 سالہ بوڑھا سخت امپریس ہوا ۔

 وہاں کیپٹن طاہر مصطفیٰ  نےکہا ، " سر یہ بہت مشکل ہے ۔  کئی دن لگیں گے  "۔ 

میں کہا ، طاہر دنیا میں کوئی کام مشکل نہیں، ہمت مرداں مدد خدا " 

تو اُفق کے پار رہنے والے دوستو! آفس کے بعد گھر جاتا کھانا کھاتا اور واپس آفس آجاتا ، 6 گھنٹے روزانہ کام کر کے دو دن بعد میں، میں ایک فلاپی پر سپریڈ شیٹ لے کر مگسی صاحب کے آفس میں تھا ۔ مگسی صاحب نے پروگرام اوپن کیا دیکھا ۔

پوچھا:" یہ آپ نے بنایا ہے "   

مگسی صاحب نے اُٹھ کر گلے لگایا  " جی سر " میں نے جواب دیا  

" میجر صاحب فوج میں کیا کر رہے ہیں ۔ ؟

بس سر پریزینٹیشنز بنا رہا ہوں اور سکون سے رہ رہا ہوں ۔ چائے پی کر کافی باتیں ہوئی ، میں نے کتاب واپس کی تو اُنہوں نے مجھے فاکس پرو -2 سیکھنے کا مشورہ دیا  اور پروگرام  فاکس پرو 1 کی  ایک کاپی  فلاپی ڈسک پر تحفتاً عنایت کی ۔بوڑھے نے آرٹ سکول روڈ پر ایک نوجوان سے فاکس پرو 2 لیا اورپروگرامر کی دنیا میں پہلا قدم رکھا ۔اورفاکس پرو 2 کی کی فلاپی سے میں نے کوڈ توڑ کر سٹینڈ ایلون سافٹ وئر تیار کرنا شروع کیا تھا اور آرمی پبلک سکول کہکشاں کا سکول سافٹ وئر بنایا تھا ۔

بقول ،   نوجوان محمد وسیم کی  والدہ بوڑھا ، کمپیوٹر وائرس (Virus) کو “جیوڑا” پکڑنے کا ماہر بھی بن چکا تھا ۔ چھوٹے چھوٹے وائرس اُن دنوں ایک فلاپی سے  کمپیوٹر اور کمپیوٹر سے دوسری فلاپیز کے ذریعے   فوجی کمپیوٹرز کی ھارڈ ڈسک میں جاتے اور پروگرامز کی چال میں لر زش اور لغزش پیدا کر دیتے ۔ بلکہ کوئٹہ کا ایک کمپیوٹر  کا کاروبار کرنے والا نوجوان ، ہمارے ہیڈ کوارٹر آیا اور ڈسک سے  گیم پروگرام ایک آفیسر کو دینے کے بہانے وائرس ڈال گیا ۔ بلکہ اُس نے اپنا انٹروڈکشن یو کروایا کہ وہ اپنے ایک آرمی آفیسر دوست کے ساتھ ہیڈ کوارٹر آیا  اُس نے سینیئر آفیسر کے ائر کنڈیشنڈ کمرے میں کمپیوٹر دیکھا تو بڑی تشویش کا اظہار کیا کی جس بے احتیاطی سے آپ نے کمپیوٹر رکھا ہے تو اِس میں وائریس جاسکتا ہے ۔ اور پھر بتایا کہ وائریس کیسے فلاپی پر بیٹھ کر کمپیوٹر میں چلا جاتا ہے ۔

خیر یہ بات بوڑھے تک پہنچی بوڑھے نے  ٹی این ٹی  سافٹ وئر کی چٹاخ پٹاخ اور کڑک کڑاک کے گونجتی آوازوں میں جیوڑا پکڑنے شروع کئے ۔ نارٹن اینٹی وائرس ، ٹارٹن ڈسک مینیجر  اور کئی اینٹی وائروائرس سافٹ وئر بوڑھے کی ڈسک میں سمانے لگے ۔ اور سب سے مزے کی بات جن بوڑھے نے سینیئر آفیسر کو وائرس کی فلاسفی سمجھائی تو وہ نہ مانا ۔ جب اُس نے ٹی این ٹی سافٹ ویر کو کمپیوٹر کی سکرین پر وائرس پکڑتے اور مارتے دیکھا ، تو چلایا ۔

میجرنُک( Maj NUK   ) ، تم غلط تھے وہ نوجوان درست دیکھو کتنے وائرس میرے کمپیوٹر میں گُھسے ہوئے ہیں اور مرتے وقت کیسے کلبلا رہے ہیں ؟

 بوڑھا منہ کھولے اُس سینئر آفیسر کی طرف دیکھ رہا تھا ۔

یوں بوڑھے کا چرچا پھیلنا شروع ہوا بوڑھےکو ٹاسک ملا کہ فوج کے کلرکوں کی کمپیوٹر پر تربیت کی جائے ۔بوڑھے نے بی ڈبلو بیسک پر ابتدائی سلیکشن امتحان کاپروگروام بنا ۔ جس کے مطابق جواب اے بی سی یا 1،2 اور 3  ہوتے تھے وقت ختم ہوتے ہی ، کمپیوٹر پر بیٹھے نوجوان کو معلوم ہوجاتا کہ وہ تربیت کے لئے سلیکٹ ہو چکا ہے یا واپس یونٹ جائے گا ۔ یوں سمجھیں کہ یہ اُس وقت بوڑھے کا این ٹی ایس کا خاکہ تھا ۔

پھر کوئٹہ    گلوسسٹر روڈ پر ،پرانا جادو گھر ہال یا فری میسن بلڈنگ  ، کوئٹہ ٹی وی  ا ور  آخر میں ، بولان کمپلیکس میں بچوں ، نوجوانوں ، کلرکوں اور کچھ ادھیڑ عمروں کو  گرمیوں کی چھٹیوں میں کمپیوٹر کی تعلیم دی ۔ پھر بوڑھا 1993 میں سیاچین چلا گیا اور وہاں اپنی 40 ویں سالگرہ منائی ۔

٭٭٭٭      

 کوئٹہ سے نویں کلاس پڑھنے  اور میرپورخاص سے صرف میٹرک کرنے کے بعد میری بھی بڑی خواہش تھی کہ انجنیئر بنوں ، اس سے پہلے ڈاکٹر بنونے کے لئے والد کی انا آڑے آتی کہ 1970 اگست کے آخر میں نیشنل سروس کور کے لئے ملیر کینٹ آنا پڑا ، پھر بھاگنا پڑا ، بھاگتے بھاگتے یہ سفر فوج میں آکر رکا ۔

 ٭٭  وقت گذاری کے لئے پڑھیں۔ آپ یقیناً لطف اندوز ہوں گے   ٭٭٭

٭- ایک فوجی کی زندگی کی یادیں ۔  رنگ روٹ سے آفیسر تک ۔

٭۔ ایک ریٹائرڈ فوجی بزنس کے جھمیلوں میں  ۔ میرے ڈرامے  اور فرینڈ ایسوسی ایٹس


   

٭٭٭٭٭٭٭

٭۔اگلا مضمون -

٭- بوڑھا ، یونی ٹاور اور کمپیوٹر بزنس۔(زیر طباعت)

 

 

بدھ، 20 جنوری، 2021

اِقراء۔ حکمِ واحد ھے ۔

  دنیا میں سب سے زیادہ ان پڑھ اس مذہب میں ہیں جس مذہب کا سب سے پہلا حکم ہے ۔ "پڑھ" ( جہانزیب خانزادہ)

 // اور وہ "اِقراء" بھی حکمِ واحد ھے ۔ کوئی اجتماعی حکم تو نہیں//

 Mohd Arifuddin

٭٭٭٭٭٭٭٭

الکتاب میں درج اللہ کا حکم -

 اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ۔ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ ۔ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ ۔ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ۔ عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ ۔ (سورۃ 96 )

نوجوان محمد عارف الدین : واقعی یہ فرد واحد کو حکم ہے ، کوئی بھی عربی سے معمولی شدھ بدھ رکھنے والا یہی کہے گا جو آپ نے لکھا ہے ۔ 

اگر آپ کے فہم کے مطابق :۔

   ۔1۔ یہ عربوں میں سے کسی ایک (محمد) نے اپنے سامنے موجود کسی ایک فرد کے لئے کہا ہو ۔ تو درست۔

۔2۔  اُس ایک سننے والے نے آگے اپنے کسی ایک دوست کو بتایا ہو تب بھی درست ۔

۔ 3- یوں یہ الفاظ دوسرے سے تیسرے اور پھر چوتھے تک دھرائے جاتے رہے ہوں گے ۔ 

 ۔4۔  پھر آپ کی طرح کسی " عجمی " صاحبِ عقل و دانش ، فہم و فکر ، شعور و تدبّر ، دانش مند نے ضرور یہ سوال کئے ہوں گے ؟ ۔

 ٭ - بھائی میں تمھارے کسی ایسے ربّ کو نہیں مانتا ۔ جس نے میرے باپ کی جگہ میری پرورش کی ہو! ۔ 

٭ -   بھائی تمھاری یہ بات میں مان لیتا ہوں کہ مجھے میری ماں نے تخلیق کرنے کے بجائے کسی ربّ نے تخلیق کیا ، جو میری ماں کو عَلَقٍ کی صفت دیتا ہے!۔

٭- لیکن اُس ربّ نے مجھے نہ ہی قلم پکڑنا سکھایا  ہاں  میرے اُستاد نے مجھے قلم پکڑنا   سکھایا ۔ 

٭- اگر تم ربّ کو مدرّس ( ٹیچر) کہتے ہو تو یہ بتاؤ اُس کا مدرسّہ کہاں ہے ؟ جہاں میں جاکراقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ کروں۔

٭۔  کیوں کہ میں نے سنا ہے کہ یہ بیان کہنے والا 

 مُحَمَّدٌ ( تاریخ کے مطابق بن عبداللہ ) خود چٹا اُن پڑھ (  الْأُمِّيَّ  ) ہے

اور سب عرب بھی   أُمِّـيُّونَ (یعنی ماں سے پڑھے ہوئے) ہیں ۔
٭۔ کیا 
مُحَمَّدٌ (  الْأُمِّيَّ  ) کے ربّ نے اب مدرسّہ کھول کر دیا ہے ؟ -

 مجھے لے چلو اُس ربّ کے پاس جس سے میں کم از کم یہ تو پوچھوں ، کہ میں کہاں سے پڑھوں؟

٭۔  یہ اُمّی  مُحَمَّدٌ کے ساتھی عرب کیا مدرسّے پڑھے لکھے ہیں جو وہ اقْرَأْ ، اقْرَأْ ، اقْرَأْ کی رٹ ۔ لگا رہے ہیں ؟؟

 ۔7۔  توعارف الدین،  وہ بے چارہ عربی بوکھلا گیا ہوگا ۔ اب وہ دو میں سے ایک کام کرے گا ۔

 اوّل -  آپ کو بے نقط سنائے گا اور ایسے القاب سے نوازے گا جو آپ جیسے باعلم ، عجمی انسان کے لئے انوکھے ہوں گے ۔ 

دوئم ۔ آپ سے درخواست کرے گا ، دوست میں اُمّی ہوں ۔ آؤ ہم محمد ( امّی) کے پاس چلتے ہیں ۔ 

تو آپ دونوں ، عجمی عالم اور اُمّی عربّ ،  دونوں اِن الفاظ کے بیان کرنے والے کے پاس جاتے ہیں۔

 اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ۔ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ ۔ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ ۔ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ۔ عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ ۔ (سورۃ 96 )96 

جن کے متعلق عموماً یہ غلط العام ہے کہ اِن الفاظ کی سب سے پہلے ادائیگی مُحَمَّدٌ (  الْأُمِّيَّ  )نے پہلے شخص کے سامنے کی !


 جب آپ یعنی  عجمی عالم اور اُمّی عربّ ، دونوں ، محمد ( امّی) کے پاس پہنچے ہوں گے تو آپ کی باڈی لینگوئج کو دیکھنے کے بعد ۔  مُحَمَّدٌ (  الْأُمِّيَّ  نے یہ  ضرور پوچھا ہو گا ۔ کہ

 فَإِن كُنتَ فِي شَكٍّ مِّمَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَؤُونَ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكَ لَقَدْ جَاءَكَ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلاَ تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ [10:94] 

 عارف الدین  ،  مُحَمَّدٌ (  الْأُمِّيَّ  )  نے عربی میں کہا  ہے ،   اگر تجھے شک ہے کہ جو میری قرءت  تجھ تک پہنچا ئی گئی ہے تو پریشان مت ہو ۔

 اُن لوگوں میں بیٹھ کر پوچھ جو تجھ سے پہلے   الکتاب کی قرءت کر رہے ہیں ۔  

ہاں سنو عارف میاں ۔ حقیقت میں  یہ قرءت  جو  اِس عربی نے مجھ سے منسوب کرکے    تم تک پہنچا   ،  میرا  بیان نہیں ہے ،  تیرے ربّ  کا بیان ہے  جو  تیری طرف  الْكِتَابَ کی صورت میں  الحق ہے ۔ اِس قلم سے لکھے گئے  علم کو تسلیم کر لے ورنہ  تو کم ترین    ( جاہل )   رہ جائے گا   ۔

اِس بیان نے یقیناً آپ کو پریشان کر دیا ہوگا ، کہ آپ سمجھ رہے تھے کہ یہ عربی آپ کے پاس 20 الفاظ کا بیان لے کر آیا اور مُحَمَّدٌ (  الْأُمِّيَّ  ) نےاقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ کے بجائے الَّذِينَ يَقْرَؤُونَ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكَ  کا مدرسّہ کھول دیا ۔

 تو اےصاحبِ عقل و دانش ، فہم و فکر ، شعور و تدبّر ، دانش مند نوجوان ۔

 آپالَّذِينَ يَقْرَؤُونَ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكَ  کو تسلیم کر لیں تو آپ ! فرد واحد ( محمدﷺ ) کے چشمے سے نکل کر ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ کی وسیع جھیل کے کنارے یک دم پہنچ جائیں گے ۔  (مہاجرزادہ)

٭٭٭٭


خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔