Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

بدھ، 30 ستمبر، 2020

حیدر آباد دکن کا طرّم خان

  طوری باز خان، دکن کی تاریخ کی ایک بہادر شخصیت تھے ، جو اپنی بہادری اور جرات کے لئے مشہور تھے۔


حیدرآباد کی لوک داستانوں میں ایک نام استعمال ہوتا ہے "طرّم خان"۔ جب آپ کسی کو کہتے ہیں تم بڑے طرّم خان ہو ؟
تو ، آپ اسے بہادر قرار دیتے ہیں۔ یہ طوری باز خان کا نام ہے۔

 وہ ایک انقلابی شخصیت آزادی پسند جنگجو تھا ، جس نے چوتھے نظام حیدرآباد اور انگریز کے حکمران سسٹم کے خلاف بغاوت کی تھی۔

٭1857 کی جنگِ آزادی کے تناظر میں ، دہلی ، میرٹھ ، لکھنؤ ، جھانسی اور میسور میں ہونے والی سرگرمیوں کی دستاویزی دستاویزی دستاویزات ہیں ، لیکن حیدرآباد میں آزادی کی سرگرمیوں نے شائد اس زور نہیں پکڑا کہ نظام حیدرآباد انگریزوں کے اتحادی تھے۔ 

طورباز خان، کا جنگ آزادی کا دورانیہ مختصر تھا، جب حیدر آباد کے عوام برٹش اور نظام راج سے آزادی کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے۔

٭17 جولائی ، 1857 کو ، طورباز خان نے برطانوی آندھرا اور  ’نظام آندھرا‘ کے خلاف میں کالونی ازم سے ناامید عوام کی ایک بہت بڑی فوج کی قیادت کی اور حیدر آباد دکن کے آزادی کے 6،000 متوالوں کےساتھ  برٹش ریذیڈنسی پر حملہ  کیا۔

حیدرآباد میں برٹش ریزیڈنسی رہائش گاہ  مصور جان رسل (1744-1806) کے بیٹے سموئیل رسل نے تیار کیا تھا اور اسے 1803 اور 1806 کے درمیان تعمیر کیا گیا تھا۔ اس عمارت کی قیمت حیدرآباد کے نظام نے ادا کی تھی۔ یہ عمارت کے سامنے کا ایک نظارہ ہے جس کے ساتھ اس کے کورینشین پورٹیکو کا تاج تاج پہنایا گیا ہے جس پر ایسٹ انڈیا کمپنی کا بازو دکھایا گیا ہے۔  شیر ​​مجسمے داخلی دروازے تک ایستادہ  ہیں
 طوری باز خان نے برطانوی رہائش گاہ پر حملہ کیا ، جو اب حیدرآباد کے کوٹی میں خواتین کے کالج میں واقع ہے-اس کالج کا آغاز 1924 میں ہوا۔ اسے 1949 میں جیمز اچیلز کرک پیٹرک کی حویلی کوٹی ریذیڈنسی سے منسلک اس کے موجودہ مقام پر منتقل کردیا گیا۔
 اپنے ساتھیوں کو رہا کرنے کے لئے جسے انگریزوں کے ذریعہ منصفانہ مقدمہ چلائے بغیر غداری کے الزام میں حراست میں لیا تھا۔

طوری باز خان اپنے ساتھیوں سمیت ایک مقابلے کے بعد گرفتار ہوا اور حراست میں لے کراسے جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ ایک سال کے بعد ، وہ فرار ہوگیا ، اور پھر حیدرآبادسے 60 کلومیٹردور، طوپران کے جنگل سےوہاں کے تعلقہ دار  قربان علی بیگ ، کے ھاتھوں مخبری پر  پکڑا گیا۔ 
طوری باز سے پوچھا گیا کہ کیا اُس کی بوڑھی ماں کی اُس کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ؟
طوری باز نے جواب دیا،  مادر ملت اُس کی والدہ سے زیادہ اہم ہے۔ اگر وہ مارا گیا تو دنیا اسے یاد رکھے گی۔  قربان علی بیگ کو کوئی بھی یاد نہیں کرے گا۔  

طوری باز خان کو قید میں رکھا گیا 

 پھر اسے گولی مار کر اُس کی لاش کو شہر کے وسط میں لٹکا دیا گیا تاکہ مزید سرکشی کو روکا جاسکے۔

تیلگو زبان میں اِس پر ایک فلم طرّم خان بھی بنی ہے ۔


٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 

 

 

 

 

بدھ، 23 ستمبر، 2020

انڈس کوئین یا ستلج کوئین

ضلع راجن پور کے شہر کوٹ مٹھن سے اگر چاچڑاں شریف کی جانب جائیں تو بے نظیر برِج پر چڑھنے سے پہلے دائیں ہاتھ پر ایک کچا راستہ مڑتا ہے - جہاں دریا پار کرنے کے لئے ایک عارضی پل قائم تھا۔ اِس پُل کے نزدیک حفاظتی بند کے ساتھ ایک حیران کُن منظر آپ کو اپنی جانب متوجہ کرے گا۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے یہاں ماضی میں کوئی بحری جنگ لڑی گئی ہو اور دشمن اپنے جہاز چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہو۔ یہاں آپ کو لہلہاتے اور سر سبز کھیتوں کے کنارے کیچڑ میں دھنسا ہوا ایک دیو ہیکل لوہے کا بحری جہاز نما ڈھانچہ نظر آئے گا،
یہ "انڈس کوئین" ہے۔ سابقہ ریاست بہاول پور کا "ستلج کوئین" جس سے کچھ دور ایک سٹیمر اور دو کشتیاں بھی اپنی بے بسی پر نوحہ کناں ہیں۔
اس کی مکمل تاریخ کے لیئے ہمیں ماضی کا چکر لگانا ہو گا۔ برِصغیر میں جب برٹش راج قائم ہوا تو سندھ سے پنجاب تک پُختہ سڑک اور ریلوے لائن نہ ہونے کی وجہ سے انگریزوں نے سامان و اجناس کی نقل وحمل کے لئے دریائے سندھ میں دُخانی جہاز متعارف کروائے-
 دریائے سندھ کی روانی کا فائدہ اٹھا کر اِن جہازوں کے ذریعے صوبہ سندھ اور پنجاب کے بیچ تجارت کو فروغ دیا گیا۔ 
حیدر آباد میں گدو بندر بھی دراصل دریائے سندھ پر موجود ایک بندر گاہ تھی جہاں ''انڈس فلوٹیلا کمپنی'' کے دُخانی جہاز لنگر انداز ہوتے تھے- کراچی سے سامان حیدراباد کے گدو بندر بھجوایا جاتا جہاں سے اس سامان کو دخانی جہازوں میں لاد کر پنجاب اور لاہور تک پہنچایا جاتا-
ریلوے لائن بِچھانے کے بعد پہلا ریلوے انجن بھی کراچی سے حیدر آباد اور پھر وہاں سے انڈس فلوٹیلا شپ کے ذریعے لاہور پہنچایا گیا تھا۔ یہ دریائی سفر ایک سُست رفتار اور لمبا سفر تھا۔ کراچی بندر گاہ سے یہ سٹیم انجن پہلے دریائے سندھ کے مغرب میں واقع شہر کوٹری لے جایا گیا اور وہاں سے اسے انڈس فلوٹیلا کمپنی کی کشتی پر منتقل کر دیا گیا جس نے اسے لاہور تک پہنچانا تھا۔
دریائے سندھ اور دریائے چناب سے ہوتے ہوئے یہ کشتی 34 روز میں ملتان پہنچی۔ ملتان سے لاہور تک کا سفر کچھ جلدی طے ہوگیا اور بالآخر وہ دن آگیا جس کا لاہور کے باسیوں کو شِدت سے انتظار تھا۔ کشتی دریائے راوی کی لہروں پر سوار لاہور میں داخل ہوئی۔ لاہور میں دریائے راوی کے کنارے پر کشتی سے اس ریلوے انجن کو اتارا گیا اور اسے شہر (چوبرجی کے مقام پر) میں لایا گیا ، جہاں معززینِ شہر اور عوام کی ایک بڑی تعداد جمع تھی۔ لاہور میں یہ انجن بیل گاڑیوں کی مدد سے گھسیٹ کر ریلوے اسٹیشن تک پہنچایا گیا تھا۔
لگ بھگ اسی دور میں دریائے سندھ کے بڑے معاون دریا ستلُج میں بھی ایک عظیم الجُثہ بحری جہاز کا راج تھا ۔ یہ ریاست بہاولپور کے نواب کا ستلج کوئین تھا۔ ستلج کوئین نواب آف بہاولپور نواب صادق خان عباسی پنجم کی ملکیت تھا جسے لگ بھگ 1867 میں بنایا گیا تھا۔
قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960ء میں سندھ طاس معاہدے پر دستخط کئے گئے جس کے تحت تین دریا ستلج ، بیاس اور راوی بھارت کے حوالے کر دیئے گئے تو ستلج کی گود سونی ہو گئی ۔ 
ادھر ریاستِ بہاولپور کے پاکستان میں ضم ہونے کے بعد نواب صادق خان عباسی نے پانی میں چلنے والا یہ جہاز ’’ستلج کوئین‘‘ حکومت پاکستان کو دے دیا۔ ستلج کوئین کو حکومت پاکستان نے ''غازی گھاٹ'' پر منتقل کیا اور اسے ڈیرہ غازی خان اور مُظفر گڑھ کے بیچ دریائے سندھ میں چلانا شروع کر دیا۔
سِندھو ندی میں آنے کے بعد یہ ستلج سے ''انڈس کوئین'' ہو گیا۔ غازی گھاٹ کے مقام پر پانی کے تیز بہاؤ کے پیشِ نظر انڈس کوئین کو 1996ء میں کوٹ مٹھن منتقل کر دیا گیا-
 جہاں یہ مِٹھن کوٹ سے چاچڑاں کے درمیان پوری شان و شوکت سے چلتا رہا حتیٰ کہ 1996ء میں ہائی وے ڈیپارٹمنٹ حکومت پنجاب کی عدم توجہی کا شکار ہو کر چلنے کے قابل نہ رہا اور تب سے لے کر اب تک دریائے سندھ کے کناروں سے بھی دور میدانوں میں پڑا ہے۔
مقامی افراد کی طرف سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق یہ وہ جہاز ہے جِسے نواب آف بہاول پور، نواب صُبحِ صادق نے حضرت خواجہ غلام فریدؒ کو تحفہ میں دیا تھا۔ فرید کی نگری (کوٹ مٹھن) اور چاچڑاں شریف کے درمیان ٹھاٹھیں مارتا دریائے سندھ بہتا ہے جس کی وجہ سے خواجہ صاحبؒ سے ملاقات کرنے والے مریدین کو دشواری پیدا ہوتی تھی اور خواجہ صاحبؒ کو بھی چِلہ کشی کے لیئے روہی (چولستان) جانا پڑتا تھا اس لیے نواب آف بہاول پور نے یہ بحری جہاز خواجہ صاحبؒ کو تحفتاً دے دیا تھا جو کافی عرصہ استعمال میں رہا۔ اس جہاز نے اپنا آخری سفر 1996 میں کیا۔
اس جہاز کے تین حصے تھے۔
 نیچے والے حصے میں انجن، جنریٹر اور اوپر ملازمین کے کمرے تھے۔ درمیانی حصہ مسافروں کے بیٹھنے کے لیے تھا، ایک حصہ عورتوں اور ایک مردوں کے لیے مختص تھا۔ درمیانی حصہ کے اوپر لوہے کی چادر کا شیڈ بنا ہوا ہے، اور شیڈ کے اوپر سب سے اوپر والے حصہ میں مسافروں کے لیے ایک چھوٹی سی مسجد اور سامنے والے حصہ میں بالکل آگے کپتان کا کمرہ بنایا گیا تھا جس میں جہاز کو چلانے والی چرخی لگی ہوئی تھی جو جہاز کی سمت کا تعین کرنے میں استعمال ہوتی تھی ۔ 
تین منزلہ اس جہاز میں ایک ریستوران بھی تھا جس سے بیک وقت 400 مسافروں کو کھانا پیش کیا جاتا تھا۔ قریباً پینتالیس سال پہلے اس جہاز میں آگ لگنے کے باعث یہ سہولت ختم کر دی گئی۔
2010 کے سیلاب میں پانی اس جہاز کے اوپر سے گزر گیا اور یہ جہاز کیچڑ سے لت پت ہو گیا اب بھی اس کا انجن کیچڑ سے ڈھکا ہوا ہے۔ خانوادہِ فریدؒ سے تعلق رکھنے والے مذہبی اور سیاسی رہنما خواجہ عامر فرید کہتے ہیں،
" ہم نے ریاست بہاولپور کی یادگاروں، بہاولپور ریاست کے عوام، ریاست کے آثار قدیمہ، ریاست کی تاریخی عمارتوں اور اداروں کے ساتھ جو امتیازی سلوک روا رکھا ہے، اس کی ایک مِثال انڈس کوئین ہے جسے مکمل بے پروائی کے ساتھ نظر انداز کر دیا گیا ہے۔"
(مریدوں سے ملنے والی آمدنی اِس پر لگائی جائے ) 

بے نظیر برج کے بعد اب مسافروں کی منتقلی کے لئے اس جہاز کی ضرورت تو نہیں رہی لیکن دوبارہ مرمت کر کہ اِس کو سیاحوں کی سیر کی غرض سے سِندھو ندی میں چلایا جا سکتا ہے۔ یا پھر دریا کنارے لنگر انداز کر کہ تھوڑا سا سرمایہ خرچ کر کہ اسے ایک خوبصورت ریسٹورنٹ میں بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ سوچیں کتنا خوبصورت منظر ہوگا جب رات کو دریائے سندھ کے پانیوں میں روشیوں میں نہائے انڈس کوئین ریسٹورنٹ کا عکس پڑے گا۔ اور میں وثوق سے کہتا ہوں کہ یہ جہاز اگر لاہور میں ہوتا تو آج جگمگ کرتا پانیوں میں چلتا ایک خوبصورت بوٹنگ ریسٹورنٹ ہوتا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس قیمتی تاریخی ورثے کو برباد ہونے سے بچایا جائے۔اسے بحال کیا جائے اور سیاحت کے فروغ کے لئے استعمال کیا جائے۔ ورنہ آج سے چند سال بعد اسکا ڈھانچہ بھی ناکارہ قرار دے کر سکریپ کے طور پر بیچ دیا جائے گا۔
 
 

ہفتہ، 19 ستمبر، 2020

ذہنی سکون کے لئے آسان مراقبہ

ایک انسان کے لئے موجودہ شور وغوغا کی زندگی میں ذہنی سکون سب سے اہم ہے - 

مراقبہ -روشنی کا سفر ، اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔

 بہت سے احباب نے پوچھا ،، ہم ، آسان  مراقبہ کرنا چاہتے ہیں روشنی کا مراقبہ ہمارے لئے مشکل ہے کیوں کہ ہم دوسرے مرحلے تک بھی نہیں پہنچ پاتے ۔

کیا کوئی ایسا طریقہ ہے کہ جس سے ہم ذہن کا سکون حاصل کر سکیں ؟

  جی کیوں نہیں ؟ 
آئیں ہم آپ کو سب سے آسان مراقبہ سکھاتے ہیں ۔   

 ٭٭٭٭

اِس مراقبے میں آپ خود اپنے ٹیچر ہیں ۔ لیکن اِس کی ٹیکنیک آپ کو سمجھنا ہوگی -
جس میں سب سے اہم آپ کے دماغ کی لہروں کی توانائی  کے اتار چڑھاؤ کو اِس چارٹ کی مدد سے سمجھنا ہو گا ۔

شور اور غوغا کی دنیا  میں کسی بھی پوزیشن میں  بیٹھ کر  ، بالکل  پرسکون  رہ کر ،پورے جسم کوڈ ھیلا چھوڑ دیں-
   پہلے دو منٹ  ، اپنی سانسوں کو ایک ردھم میں لائیں، جس رفتار سے سانس لیں اسی رفتار سے نکالیں -

 دو منٹ کا یہ دورانیہ آپ بے شک  اپنی گھڑی سے دیکھیں  اور سانسوں کے اندر لینے اور باہر نکالنے  کو ریگولیٹ کریں ، ٹھیک دو منٹ، آرام سے اپنی آنکھیں موند لیں  اور    ۔۔۔

  ارتکاز (Attenuation) کے عمل کے لئے مشق :

   اُس کے بعد اپنے سانس کے ردھم کے ساتھ سانس باہر نکالتے وقت، اب اگلے دو منٹ یہ   لفظ ،  نیر   دماغ میں  اِس طرح کہیں-

ن ی ی ی ی  رررر۔ر۔ر۔ر۔ر  
اور   کئی بار دھرائیں۔

ن ی ی ی ی  رررر۔ر۔ر۔ر۔ر  

ن ی ی ی ی  رررر۔ر۔ر۔ر۔ر  

ن ی ی ی ی  رررر۔ر۔ر۔ر۔ر 

ن ی ی ی ی  رررر۔ر۔ر۔ر۔ر  

  ذہن میں تصّور کریں کہ یہ لفظ ادا کرتے وقت آپ کا ذہن تمام دنیاوی خیالات سے خالی ہو رہا ہے ۔ 

اور باہر کی تمام آوازیں آپ کے کان میں آنا بند ہورہی ہیں ، یہاں تک کہ آپ کے جسم پر محسوس ہونے والی ہوا کی سرسراہٹ بھی ختم ہو رہی ہے ۔ اچھا یہ آپ نے محسوس نہیں کرنا  سوچنا نہیں ۔ 

یاد رہے کہ اِس مراقبے میں سوچ کا کوئی دخل نہیں ۔ 

جسے ہم کچی نیند یا غنودگی کہتے ہیں وہ مراقبے کی سٹیج ہے ۔

لہذا ، آپ کے دماغ  کی لہریں  4 ہرٹز سے نیچے نہ جائیں ورنہ آ پ کو  کچی نیند  سے گہری نیندآجائے گی - 

 20 منٹ کا مراقبہ شروع کرنے سے پہلے ۔خود کو یہ ہدایت دیں :

٭- میرا یہ عمل 20 منٹ کا ہے ۔ٹھیک 20 منٹ بعد میری آنکھ خود بخود کھل جائے گی ۔

 شروع میں  20 منٹ میں کئی دفعہ ، مخُتلف وقفوں سے آپ  مراقبے میں جائیں گے اور واپس آجائیں گے، خیالات آپ کو لازماً تنگ کریں گے، مگر  پریکٹس کے ساتھ یہ ختم ہو جائیں گے۔لیکن گھبرائے مت آپ کو اوپر دئیے ہوئی ہدایات یاد کرنا ہوں گی، آہستہ آہستہ آپ کا یہ دورانیہ بڑھتا جائے گا اور بالآخر آپ 20منٹ تک  مراقبے میں رہیں گے-بستر پر لیٹ کر یہ عمل نہ کریں -

 ٭٭٭٭٭٭٭

   زندگی کا فن- سائنسی حقیقت 

  روشنی کے سفر میں داخل ہونے کا پہلا  مرحلہ - 



جمعہ، 18 ستمبر، 2020

سریا خریدتے وقت فراڈ سے کیسے بچیں.؟

  
سب سے پہلے تو یاد رکھیئے کہ جِس سریے پر چھوٹی چھوٹی شاخیں سی نِکلی ہوں گی، جان لیجیے کہ وہ سریا کچرے سے بنا ہُوا ہے وہ ہرگِز مت خریدیں!
اِس کے علاوہ سریئے کی ہر لینتھ کے اوپر ایک کونے پر اسکی تفصیل لکھی ہوتی ہے اسے غور سے پڑھیں کیونکہ 60 گریڈ کا سریا 40 گریڈ کے سریئے سے مہنگا ہوتا ہے تو کہیں ایسا تو نہیں کہ آپکو 60 کا بتا کر 40 پکڑایا جارہا ہے،،
نوٹ آجکل 60 گریڈ کا ریٹ 116 تک اور 40 گریڈ 108 تک ہے
 سریے کا وزن کیسے جانچا جائے ؟
آئی ایس او - سٹینڈرڈ

 پاکستان سٹینڈرڈ-
پاکِستان میں 3 سُوتر سے 8 سُوتر تک کا سریا استعمال ہوتا ہے!
ان میں سے بھی عام گھروں میں3اور4 سوتر ہی زیادہ استعمال ہوتا ہے، 3اور4 سُوترکا سریا چھت، سیڑھی، چھوٹے کالمز، چھوٹے بیمز وغیرہ میں جبکہ بڑے بیم یا بڑے کالمز میں 6 سُوتر کا سریا اِستعمال ہوتا ہے-
 
اب آپ جب بھی سریا خریدیں تو وزن کرا لینے کے بعد اس کی لینتھ گِنیں-
مثال کے طور پر آپ 4 سُوتر کی 10لینتھ لیں ہیں - 
جن میں سے ہر ایک کی لمبائی 40 فٹ ہے، ان کے وزن کا کلیہ/فارمولا آپ کے پاس موجود ہے 12.08x10 = 121کلو۔
اب اگر یہ 120.800 کلو ہے پھر تو ٹھیک ہے -
 اس میں زیادہ سے 1 سے 2 کلو فی 100 کلواوپر نیچے ہوجانے کی رعایت موجود ہے (وجہ سریئے کے بناؤ اور پڑے پڑے تھوڑا زنگ لگ جانے کی صُورت میں معمولی وزن کا کم ہونا) لیکن اگر 4 سوتر کی  40فُٹ 10 لینتھ کا وزن 100کلو بن رہا ہے-
تو سمجھ جائیں آپکو 20 کلو یعنی 40 فٹ کے ایک سریئے کا چُونا لگایا جارہا ہے!
 اِس فیکٹری کے بنے ہوئے سریئے مت لیں!

لہذا فیکٹری کے فراڈ کو پہچانیں ۔ شکریہ

 

بدھ، 16 ستمبر، 2020

بوڑھا دی کارپینٹر

تو اُفق کے پار رہنے والے دوستو۔

 چم چم نے درست لکھا ، کہ، میرے گرینڈ فادر الماریاں بناتے ہیں ۔
بوڑھا اور بڑھیا بمع چم چم عدیس ابابا سے پاکستان پہنچے۔ پہلے 7 دن تو قرنطائن میں گذارے ، پھر عسکری 14 کے کرائے کےگھر میں برفی کے بابا کے ساتھ شفٹ ہو گئے ۔ 

لہذا بوڑھے نے پھر ، ترکھان کے کام کو وُڈ ورک آرٹ میں تبدیل کرنے کے لئے ۔ اپنی  مکمل آٹو میٹڈ ورکشاپ کی تیاری۔

اب سوال یہ پیدا ہوا کہ بوڑھا اپنی ورکشاپ کہاں لگائے؟
تو جناب بوڑھے نے اپنی ورکشاپ کی تیاری کر دی  ۔ بازار سے کیکر کی لکڑیوں کی ٹیبل بنوانے کا پروگرام بنا ، کہ اتوار کو گالف کھینے کے بعد بازار جاؤں گا ۔

جب بڑھیا نے سنا کہ بحریہ میں قاضی کے ساتھ گالف کھیلنا ہے تو فرمائش جھاڑ دی ۔ کہ برفی بھی نہیں  ہے ، میں اکیلی ہوں مجھے ،   مسز رانی قاضی  کے پاس چھوڑ دیں ۔ وہ کافی عرصے سے بلا رہی ہیں ۔ 

گالف کے بعد، قاضی کے گھر پہنچا ۔ تو پورچ میں پرانی لکڑیوں کا انبار دیکھا ۔ 

نوجوان بھابی ! یہ کیا ۔امریکن پنشن سے گذارا نہیں ہو رہا ، جو  قاضی نے نئے تعمیر شدہ گھر میں  کباڑیئے کی دکان کھول لی ہے ؟

ار ے بھائی کیا بتاؤں ؟ اِن کے بڑے بھائی اپنے آبائی گھر کو از سر نو ٹھیک کر رہے ہیں یہ سب کاٹھ کباڑا وہاں پڑا تھا ۔ یہ ٹرک بھر کر اُٹھا لائے ۔

کاٹھ کباڑا ؟؟ خدا کا خوف کریں بھابی ۔ یہ تو نہایت نایاب اور قیمتی لکڑی ہے ، اِن سے وُڈ ورک آرٹ کے بہترین شاہ پارے بن سکتے ہیں ۔ بوڑھے نے کہا ۔

یہ دونوں کورس میٹس کباڑیئے ہیں - ٹین ٹپڑ جمع کرتے ہیں ، بڑھیا نے پورچ میں آتے ہوئے کہا ۔ کل یہ لکڑی کے بڑے بڑے گٹکے لائے ہیں شائد جلا کر ،تاپیں گے ۔  

قاضی کے گھر سے ، کھڑکیوں کی بلیاں اُٹھائیں اور اُنہیں جوڑ کر اپنی ورکنگ ٹیبل کی بنیاد رکھی ۔

جو آہستہ آہستہ بوڑھے کی عمر کے مطابق ، دن میں3  لیبر گھنٹے ، ورکشاپ 3 خوشی گھنٹے گالف ۔ 1 گھنٹہ برفی کے ساتھ ۔ 5گھریلو گھنٹے سمع خراشی-4گھنٹے  دنیا سے رابطہ وٹس ایپ وفیس بُک، 6 گھنٹے ساونڈ سلیپ ۔باقی 2 گھنٹے  تحلیل نفسی  برائے  آخرت۔ کی مصروفیات میں تکمیل کی طرف بڑھ رہی ہے ۔
   

باقی آئیندہ ۔ 

 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ہفتہ، 12 ستمبر، 2020

شگفتگو- رشتہ دار - ڈاکٹر شاہد اشرف

مجھے اندازہ لگانے میں دیر نہ لگی کہ کھوتا کھو میں گر گیا ہے . میں نے پوچھا تو حیرت سے بولا " کیسے معلوم ہوا ؟" "چرس پینے والا اپنے ہم ذوق کو پہچاننے میں دیر نہیں لگاتا ہے " میں نے جواب دیا تو فوراْ  گویا ہوا " ایک سگریٹ دو " "میں سگریٹ نہیں پیتا " میری بات سن کر کہنے لگا "مثال تو ایسے دی ہے جیسے بنا کر جیب میں رکھے ہوئے ہیں " میں نے بیرے کو بلا کر سگریٹ لانے کے لیے پیسے دیے اور چائے پینے لگا.
" اگر وہ نہ ملی تو میں مر جاؤں گا "
کون ہے ؟
رشتے دار ہے .
تیرےابّا کو پتا ہے ؟
نہیں !
تیرا رشتہ مانگنے میں جاؤں ؟
اسی بارے مشورہ کرنے آیا ہوں .
 اپنے ابّا سے بات کر.
کوئی فائدہ نہیں ہے
کیوں ؟
"گزشتہ دو ہفتوں سے گھر میں عطا اللہ عیسٰی خیلوی کے گانے سُن رہا ہوں. کسی نے توجہ نہیں دی ہے. "
عطا اللہ عیسٰی خیلوی کا اپنا کیس بہت کمزور ہے. تُو گانے سن کر مزید مشکل میں پڑ جائے گا.
کوئی ملاقات ہوئی ہے ؟
اُس کا ابّا ٹوکے سے کاٹ دے گا.
پھر میں تیری کوئی مدد نہیں کر سکتا, میں نے حتمی جواب دیا.
"تُو میری شاعری کی اصلاح کر سکتا ہے. "
یار!  تیری شاعری میں نے سُنی ہے, یہ بہت مشکل فن ہے, زندہ شعر کہنے کے لیے مرنا پڑتا ہے.
"میں نے ڈیڑھ سو غزلیں کہی ہیں. "
میں مثال دینا چاہتا تھا مگر ڈیڑھ سو کی بات سُن کر سر کھجانے لگا.

اگلی ملاقات میں اُس نے بتایا کہ رشتہ دار کی منگنی ہو گئی ہے.  اُس کا منگیتر میرا چچا زاد ہے, میں اسے جان سے مار دوں گا.
"تیرے چچا زاد کا کیا قصور ہے ؟" میں نے پوچھا
وہ سوچ میں پڑ گیا اور بولا " یہ رشتہ میرے ابّا نے کروایا ہے "
"ظاہر ہے تُو اپنے ابّا کو جان سے نہیں مارے گا. تُو نے اپنے ابّا کو نہیں بتایا تھا ؟"
"عاشق صادق اپنے دل کی بات کسی کو نہیں بتاتا ہے." اُس نے دو ٹوک موقف بیان کر دیا.
"اچھی بات ہے, اب ایسا کرو کہ چچا زاد کا سہرا لکھ دو "
چچا زاد جانتا ہے کہ میں شاعر ہوں. اُس نے مجھے سہرا لکھنے کے لیے کہ دیا ہے.
میرا ہاسا نکل گیا.
سہرا لکھنے کے ساتھ رخصتی بھی لکھ دو . آخر رشتہ دار ہے.
مذاق نہ کر, کچھ نہ ہوا تو میں جان دے دوں گا.
یہ تُو بات بہ بات پر جان دینے کے لیے کیوں تیار ہو جاتا ہے.
اور کیا کروں ؟
غور کر, غور کر, مسئلے کا حل کیا ہو سکتا ہے ؟
میں نے سوچ لیا ہے کہ شادی میں نہیں جاؤں گا.
اگر تُو شادی میں نہ گیا تو ایک اہم مرحلہ طے نہیں ہو گا.
وہ کیا ؟ اُس نے حیرت سے پوچھا.
نکاح نامے پر بطور گواہ دست خط کون کرے گا.
سخت مشکل کے باوجود وہ ہنس پڑا اور اپنی تازہ غزل سنانے کے لیے مجھے متوجہ کرنے لگا.

٭٭٭٭٭واپس٭٭٭٭٭

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔