”جمعرات مورخہ:18نومبر 2004،۔azizissa20066@yahoo.comکی طرف سے shekhuzai@dosama.comکو
اچھے دنوں کے لئے نیک تمنائیں۔ مسٹر۔ شیخوزئی۔میں افریقن یونین بنک لوم ریپبلک آف
ٹوگو۔کی بل ایکسچینج کمپنی میں غیر ملکی ادئیگیوں کے شعبے میں مینیجر ہوں۔میں نے
انٹرنیٹ پر تلاش بسیار کے بعد قابلِ اعتبار ملکوں سے ایماندا ر دوستوں کی فہرست سے
آپ کی ای میل ایڈریس ڈھونڈا ہے۔ میرا وجدان کہتا ہے کہ بحیثیت مسلمان اور ایک اچھے
انسان کی حیثیت سے آپ نہ صرف میرے لئے بلکہ خود اپنے آپ کے لئے مفید ثابت ہوں گے
میں آپ سے ایک بہترین بزنس کے لئے پارٹنر شپ کامتمنی ہوں۔امید ہے کہ یک دم انکار
سے پہلے آپ اس پرغور لازمی کریں گے یہ ایک،بہترین اور رسک فری پیشکش ہے۔
وہ اس طرح کہ میں اپنی کمپنی کے حسابات چیک کر رہا تھا تو مجھے معلوم ہوا
کہ۔ایک اکاونٹ میں 2000ء سے 10.5ملین امریکن ڈالر، پڑے ہیں۔ ابھی تک اکاونٹ
ہولڈر نے اس میں کوئی لین دین نہیں ہوا۔ میں نے مزید کھوج لگایا تو مجھے اس
قسم کے اکاونٹ کھولنے والوں کے ابتدائی فارم میں ان کا ایک نمبر معلوم ہو جو انہیں
نے ریفرنس کے طور پر لکھا تھا۔ میں نے اس نمبر پر فون کیا تو معلوم ہو ا کہ مسٹر
فوادعبدل غفار احمداکتوبر 1999میں وفات پاچکے ہیں۔خدا ان کی روح کو سکون
پہنچائے۔میں نے مزید کھوج لگایا تو بس اتنا معلوم ہو کہ ان کے کاغذات میں ان کے
وارث کے بارے میں کوئی معلومات نہیں سوائے اس کے علاوہ کہ وہ مو جودہ اکاونٹ
نمبراور ایک خفیہ کوڈ نمبر بتائے گا جس کی تصدیق ہونے پر اسے مسٹرعبدل غفار
احمدوارث تسلیم کر لیا جائے گا۔کیونکہ مرحوم اکاونٹ ہولڈر ٹوگئین (ملک ٹوگو کا
رہنے والا) نہیں لہذا اس کا وارث بھی کوئی غیر ملکی ہی ہو سکتا ہے آپ اگر اس سلسلے
میں کوئی پیش و رفت کرنا چاہیں تو مجھے فوراً ای میل سے اپنی رضامندی بتائیں تاکہ
ہم اس سلسلے میں اگلا اپنا لائحہء عمل طے کریں، مجھے امید ہے کہ آپ اس لاکھوں بلکہ
کروڑوں میں سے ملنے والے موقع کو گنوانا پسند نہیں کریں گے۔ آپ کے جواب کا منتظر۔ عزیز عیسیٰ ایک مسلم
بھائی۔
قارئین۔ ای میل آپ نے پڑھی ممکن ہے کہ اس طرح کی یا اس سے ملتی جلتی ای میل شائد
آپ کے پاس بھی آئی ہو۔آپ نے اسے پڑھا ہو یا شائد نہ پڑھا ہو اور نہ پڑھنے کی
بنیادی وجہ آپ کی انگلش میں کمزوری ہو۔بہر حال یہ ایک دلچسپ ای میل ہے۔میں نے اس
کو نہ صرف پڑھنے میں دلچسپی لی بلکہ اس پر عمل کرنے کا بھی سوچا۔ مسٹرعزیز عیسیٰ
کوہماری اردو کہاوت کاعلم نہیں۔”قسمت کی دیوی کسی دروازے پر صرف ایک بار دستک دیتی
ہے“ اگر آپ نے اُس کی دستک سن لی تو پو بارہ ورنہ چوبارہ!
نیز کروڑہامواقع میں
سے ملنے والے خوش قسمتی کے اس موقع کو گنوانے والے باقی تمام عمر کفِ افسوس مَلتے
رہتے ہیں۔اس سے پہلے کہ ہمارے کف گھِس جائیں ہم نے فوراً لکھا۔
”جمعرات
مورخہ:18نومبر 2004 ، ڈیرعزیز عیسیٰ۔آپ کی ای میل پڑھ کر مجھے یقین نہیں آیا کہ
اچھے انسانوں کے اس ہجوم میں آپ نے میرا ہی انتخاب کیوں کیا ہے۔سچ پوچھئے تو
مجھے اس میں اپریل فول ٹائپ، کی بو آئی۔ پھر میں نے سوچا کہ ہر وقت شک کرنا درست
نہیں، ویسے بھی شک کرنے والے کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتے۔چنانچہ میں آپ کو اس امید
پر ای میل بھیج رہا ہوں کہ آپ میرے وسوسے اور خوف کو دور کریں گے ۔آپ کا مسلم
بھائی۔ شیخوزئی۔
”جمعہ
مورخہ:19نومبر2004، ڈیر مسلم برادر شیخوزئی،آپ کی ای میل ملی۔ مجھے آپ کی
سٹیٹ فارورڈ نیس پسند آئی اور اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ میں نے ایک صحیح شخص کا
انتخاب کیا ہے ۔آپ کا مشکوک ہونا درست ہے اگر میں آپ کی جگہ ہوتا تو میں بھی یوں
ہی کرتا ایک انجانے آدمی کی طرف سے اتنی بڑی آفر ایک مذاق توہوسکتی ہے حقیقت
نہیں۔یہاں میں آپ کو ایک بات بتاؤں کہ آپ کے ملک میں میرا ایک دوست کنسلٹنسی فرم
چلا رہا ہے اس سے میں نے درخواست کی تھی کہ وہ مجھے پاکستان میں کسی قابلِ
اعتبار کمپنی کے متعلق بتائے کہ جس سے ہم کوئی منافع بخش کاروبار کر سکیں۔کیونکہ
آپ اسلام آباد میں بزنس کے حلقوں میں پہچانے جاتے ہیں اور آپ کا آفس ایک اہم کاروباری
علاقے میں ہے۔ لہذا آپ کے انتخاب میں جہاں دوسرے عوامل شامل ہیں ان میں ایک سب سے
بڑا اور اہم نکتہ آپ کی اصول پسندی ہے۔امیدہے کہ آپ کی غلط فہمی دور ہو گئی ہو
گی۔اگر آپ ہم سے 10.5ملین امریکن ڈالر، کی شفا ف اور بے خطر ڈیل کرنا چاہتے
ہیں۔تو اپنی رضامندی ظاہر کیجئے اس صورت میں، میں آپ کو طرقِ کار سمجھاؤں گا
شکریہ۔عزیز عیسیٰ ایک مسلم بھائی“۔
حیرت ہے، کہ میں گذشتہ پانچ سال سے بزنس کر رہاہوں، میرے ساتھ والے پلازے کو ہماری
خفتہ صلاحیتیں اور گونا گو خوبیاں نہیں معلوم۔ سات سمندر پار ایک اجنبی وہ
بھی افریقی ملک کا مسلم بھائی ہمارے بارے میں اتنی معلومات رکھتا ہے۔ ہمیں
وہ محاورہ صحیح لگا کہ گھر کی مرغی دال برابر۔ 10.5ملین امریکن ڈالر، لٹانے والا
کوئی معمولی شخص نہیں ہو سکتا۔ اس نے لازمی اپنی جاسوس فورس کو ہمارے کوائف جاننے
پر لگایا ہو گا۔نیٹ سے کسی شخص کے بارے میں اتنی ہی معلومات جانی جا سکتی ہیں جو
وہ دوسروں کو بتانا چاہتا ہے۔ لڑکیوں کی صفوں میں گھسنے کے لئے آپ اپنی آئیڈنٹیٹی
لڑکی رکھ لیں یا لڑکوں سے ہیلو،ہائے۔اور بھائی بننے کے خواہش مندوں سے بچنے کے
لئے، لڑکیاں لڑکوں کا روپ دھار لیں۔اس نیٹ کی دنیا میں سب چلتا ہے۔دو برابر کے
کیبن میں آپس میں چاٹنگ نہیں بلکہ چیٹنگ (Cheating)کرنے
والے عرصہ تک ایک دوسرے سے بے خبر، چیچو کی ملیاں۔وایالاہور۔ امریکہ اینڈ بیک،ایک
دوسرے کے لئے بھیجے جانے والے پیغامات پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ بہر حال آگے چلتے ہیں۔
”جمعہ
مورخہ19نومبر2004، شیخوزئی کی طرف سے عزیز عیسیٰ کے لئے، ڈیر عزیز عیسیٰ۔ میں نے
آپ کی ای میل پڑھی۔آپ کی نظر شناسی اور ہیرے کی پرکھ کی دوربینی کا میں قائل ہو
گیا ہوں۔ ایک ہوشیار بنکر کو اپنی آنکھوں کو کھلا رکھنا چاہیئے۔کیا آپ مجھے اپنے
اس کنسلٹنٹری فرم چلا نے والے دوست کا پتہ دے سکتے ہیں تاکہ میں اس سے ملاقات
کروں۔ کیونکہ ملاقات اچھے تعلقات استوار کرنے کا ایک بہانہ ہوتی ہے۔ہاں مجھے آ پ
کی پیشکش بسرو چشم قبول ہے۔مزید معلومات کا انتظار رہے گا۔ شیخوزئی۔
”ہفتہ
مورخہ:20نومبر 2004،عزیز عیسیٰ کی طرف سے شیخوزئی کے لئے۔ ڈیر برادر شیخوزئی،میں
آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھ اور میرے دوست کے ساتھ کام کرنے کی رضامندی ظاہر
کر کے، ایک نہایت اہم اور مثبت قدم اٹھایا ہے۔اب مجھے آپ پر وہ راز آشکارا کرنے
میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی جس پر میں اور میرے دو ایگزیکٹو،گذشتہ دو
سال سے نہایت خاموشی اور جانفشانی سے کام کر رہے ہیں۔ شاید آپ کو معلوم نہیں کہ اس
قسم کی کاموں پر ہاتھ پاؤں بچا کر کام کرنا کتنا مشکل ہے وہ بھی اس صورت میں
کہ جب آپ بنک میں اچھی پوسٹ پر ہوں۔ یہ متروکہ اکاونٹ عام آڈٹ چیکنگ کے دوران
ہماری معلومات میں آیا۔ہم نے اس کی فائلوں پر خصوصی اور باریک بین ریسرچ کی۔تب
کہیں جا کر ہم اس قابل ہوئے کہ اکاونٹ پر دسترس حاصل کر سکیں۔ہم نے تما م ضروری
معلومات بشمول کوڈ وغیرہ حاصل کر لئے ہیں تاکہ وہ تمام بگ(Bugs)
جو اس کی راہ میں حائل ہو سکتے ہیں اُن کو پیشگی روکا جا سکے۔چنانچہ اب یہ تمام
معلومات میرے پاس ہیں جو بنک سے ضروری کاروائی کے دوران میں آپ کو دقتاً
فوقتاً بھجواتا رہوں گا ایک بات کی ضروری تاکید ہے کہ آپ ہر وہ اطلاع جو آپ کو بنک
سے ملے گی وہ آپ مجھے لازمی بھجوائیں گے۔ تاکہ میں آپ کی راہنمائی کر سکوں۔اور
معلومات کی ناقص فراہمی یا رابطے کے بر وقت نہ ہونے پر ہمارا پلان سبوتاژ نہ ہو
جائے، لہذاآپ مجھ سے بذریعہ ای میل اور فون دونوں سے رابطہ رکھیں گے۔ میرا فون
نمبر 00228-921-9857 ہے۔ ابتدائی طور پر میں آپ کو وہ معلومات دوں گا جس کے
ذریعے بنک والے قائل ہو جائیں کہ آپ ہی مسٹر فوادعبدل غفار احمد کی وراثت کے جائز
حقدار ہیں۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ میں بنک میں کام کرتا ہوں۔چنانچہ ہم اس بات
کو یقینی بنائیں گے کہ آخر تک، یعنی جب تک10.5ملین امریکن ڈالر، کی رقم آپ
کے اکاونٹ میں نہیں پہنچ جاتی۔ آپ اس بات کو سختی سے نوٹ کر لیں کہ جونہی رقم آپ
کے اکاونٹ میں پہنچتی ہے۔تو اس سلسلے میں لکھی گئی تمام ای میل، فیکس اور دیگر ہم
سب جلا دیں گے۔اور جونہی ہمیں رقم ملتی ہے میں بنک کی نوکری سے استغفا دے دوں گا۔
مجھے اس بات کو پورا یقین ہے کہ ایک مسلمان ہوتے ہوئے آپ ہمارے مالیاتی تحفظ کا
پورا خیال رکھیں گے کیونکہ ہماری تمام فیملی کے مستقبل کے پلانر اور راہنما آپ ہوں
گے۔میں آپ کو اگلی ای میل میں درخواست کا نمونہ بھجوا ؤں گا آپ اسے مکمل کر کے
بذریعہ فیکس بھجوائیں گے۔ہاں میں ایک بات تو آپ کو بتانا بھول گیا کہ اس ساری محنت
کے بعد آپ کو کیا حاصل ہو گا۔ آپ اب چونکہ ہمارے بزنس پارٹنر بن چکے ہیں لہذا آپ
بھی اپنے کام کی مناسبت سی اس رقم میں برابر کے حصہ دار ہوں گے۔کیونکہ ہر معاملہ
ابتدائی دور ہی میں طے ہو جائے تو یہ بہتر ہے۔ میرے خیال میں اچھا دوست بلین ڈالرز
سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔حصہ کی تقسیم اس بنیاد پر ہم نے طے کی ہے۔آپ کا حصہ 35%۔میرا،
اور میرے دو اور دوستوں کا حصہ 60%اور باقی 5%ہم نے اخراجات کے مختص کئے ہیں۔آپ کو
تمام اخراجات کریں گے وہ بھی اس 5%میں شامل ہیں۔ اگر آپ کو کوئی اعتراض ہو تو ضرور
بتانا۔ شکریہ۔عزیز عیسیٰ“۔
جی ہاں۔ باون لاکھ پچاس ہزار امریکن ڈالرز یعنی اکتیس کروڑ پچاس لاکھ پاکستانی
روپے۔ (اس وقت ڈالر شائد 56روپے کا تھا ) اتنی رقم تو بنک کے
خزانے میں بھی نہیں آسکتی۔ یقیناً جب یہ رقم میرے بنک میں ٹرانسفر ہو گی تو بنک کے
اعلیٰ افسران مجھے یہ رقم دینے کے بجائے شراکت کی بنیاد پر سلیپنگ پارٹنرز،نہیں یہ
نہایت ہی واہیات لفظ میں نے سوچاہے۔ بلکہ صحیح لفظ امدادی یا سکوتی پارٹنرز
بنانا پسند کریں گے۔ اور اگر میں کچھ نہ کروں صرف بنک سے منافع لوں اور اگر وہ
مجھے 10%منافع سالانہ دیں تو مجھے گھر بیٹھے بٹھائے 26,50,000روپے ماہانہ
ملیں گے۔ ویسے میں اتنی رقم خرچ کیسے کروں گا؟ واہ ربّا، بچپن میں زبردستی کی نماز
پڑھنے کے بعد بڑے خضوع و خشوع سے دعامانگتے کہ صبح تکیے کے نیچے سے روپیہ نہ سہی
موری والے دو پیسے ہی نکل آئیں۔پھر جب ٹیڈی پیسوں کا دور آیا تو دعا میں تھوڑی سے
تبدیلی کر لی۔ مگر پھر بھی تکیے کے نیچے سے ہاتھ خالی ہی واپس آتا۔
”ہفتہ
مورخہ:20نومبر 2004،شیخوزئی کی طرف سے عزیز عیسیٰ کے لئے، ڈیرعزیز عیسیٰ۔آپ
کی تفصیلاً ای میل ملی جس نے میرے تما م شکوک و شبہات دور کر دئے، ہماری ایک دوسرے
کی مدد بالکل اسی طرح ہے جیسے ایک لنگڑا اور اندھا ایک دوسرے کی مدد کر کے آگ سے
نکل سکتے ہیں۔ آپ کو کسی قسم کی فکر کرنے کی ضرورت اگر آپ کو مجھ پر اعتماد نہیں
تو آپ یہاں پاکستا ن آجائیں تاکہ ساری کاروائی آپ کی آنکھوں کے سامنے ہو گی۔ہاں آپ
کی حصوں کی تقسیم نہایت مناسب ہے اور مجھے منظور ہے۔ شیخوزئی۔
اتوار کی صبح میرے موبائل پر 00228-921-9857 سے کال آئی۔عزیز عیسیٰ مخاطب
تھا۔اس نے خیریت پوچھنے کے بعد کہا کہ میں اسے فوراً اپنے پاسپورٹ یا ڈرائیونگ
لائیسنس کی فوٹو کاپی اس نمبر 00228-222-0287 پر فیکس کروں۔یہ نہایت ضروری
ہے۔ہم نے پاسپورٹ پانچ سال پہلے بنوایا تھا اور ڈرائیونگ لائیسنس 1980میں۔ان پر موجود
تصویر اورتفصیلات آپس میں نہیں ملتیں طے یہ پایا کہ میں فوراً پاسپورٹ کو نیا
کرویا جائے۔ کیونکہ مجھے اب اکثر بیرونی ملک کے دورے کرنے پڑیں گے نیز
ڈرائیونگ لائیسنس بھی انٹرنیشنل بنوا لوں۔ فی الحال اپنی باقی تفصیلات فیکس
کر دوں۔ چنانچہ میں نے اپنا نام، پتہ، فون نمبر، موبائل نمبر اور فیکس نمبر بشمول
نادرا کے شناختی کارڈ کی فوٹو بھجوا دی۔تاکہ ہمارے پارٹنر کو ہماری دلچسپی کا یقین
ہو جائے۔
”منگل
مورخہ:23نومبر 2004،عزیز عیسیٰ کی طرف سے شیخوزئی کے لئے، ڈیر برادر
شیخوزئی،میں آپ کے تیز رد عمل پر مسرت کا اظہار کرتا ہوں۔آپ کے بائیوڈیٹا کے متعلق
تمام تفصیلات ہمیں مل گئی ہیں۔اب مجھے بھی اپنا تعارف کر ادینا چاہیئے میرا
پورا نام عزیز عیسیٰ سلامن علیکم ہے۔میں Carre72 B.P 3457
لوم۔ ریپبلک آف ٹوگو ویسٹ افریقہ کا رہنے والا ہوں میرا موبائل نمبر
00228-222-0287 ہے۔میرے انٹر نیشنل پاسپورٹ کی کاپی اس ای میل کے ساتھ منسلک
ہے۔میں پھر آپ کو اس بات کی یقین دہانی کرا دوں کہ ہماری یہ ڈیل خفیہ ہے۔آپ اگر اس
کے خاتمے تک اس کے متعلق کسی سے ذکر نہ کریں تو ہم سب کے لئے مناسب ہو گا۔امید ہے
کہ اعتماد کا یہ رشتہ آپ قائم رکھیں گے۔ رقم کے کلیم کے لئے درخواست، آپ اپنے آفس
کے لیٹر پیڈ پر بھیجیں گے۔ درخواست کا نمونہ یہ ہے۔
مسڑڈیوڈ کنگ۔
مینیجرغیر ملکی ادئیگیوں کا شعبہ۔ افریقن یونین بنک لوم ریپبلک آف
ٹوگو ویسٹ افریقہ۔ درخواست بحیثیت وارث برائے اکاونٹ ہولڈر۔ اکاونٹ نمبر AUB-212277-55۔
جناب ِ عالی۔ میں شیخو زئی پتہ: آفس نمبر۔ بلیو ایریا۔ اے۔کے۔فضلِ
الحق روڈ۔ اسلام آباد۔ پاکستان۔ آپ کے بنک کی خدمت میں آج منگل مورخہ:7دسمبر
2009، کو بحیثیت آپ کے مرحوم اکاونٹ ہولڈر جناب فوادعبدل غفار احمد جو ایسٹر ٹاؤن
کا رہنے والا تھا کی وراثت کے جائز حقدار ہی کی حیثیت سے دست بستہ گذارش کرتا ہے
کہ جناب فوادعبدل غفار احمد 30اکتوبر 1999کو ایک ہوائی حادثے میں وفات پاچکے
ہیں۔خدا ان کی روح کو سکون پہنچائے۔ آپ سے مودبانہ گذارش ہے کہ متوفی نے آپ کے بنک
کے اکاونٹ میں جس کا نمبر AUB-212277-55 ہے۔ میں 10.5ملین امریکن ڈالر، باقی
ہیں۔ وہ براہ کرم میر ے درج ذیل اکاونٹ میں بھجوا دیں۔میرے بنک کا نام، بنک
کوڈ،بنک کا فون نمبر اور مکمل ایڈریس یہ ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ میری درخواست کو
اولین فوقیت دیں گے۔ فیملی میں ہونے والے مسائل کی بناء میں یہ کام جلد نہ کر
سکا۔جو حل ہو چکے ہیں۔ اس لئے درخواست دیر سے بھجوانے کی معذرت کرتا ہوں۔ میں آپ
کا پیشگی شکر گزار ہوں ۔ نام اور دستخط بمع تاریخ۔ آپ یہ درخواست کل فیکس کر
دیں اور اس کی ایک کاپی پہلے مجھے ای میل کر دیں۔تاکہ میں اس پر ایک نظر ڈال لوں۔
اس بات کا خیال رکھیں کہ بنک ایک بجے تک کھلا رھتا ہے۔ آپ درخواست اپنے
دستخط کے ساتھ اپنی کمپنی کی مہر لگا کر فیکس کر دیں۔اور بنک کو اپنے دوسرے
ای میل سے رابطہ کریں تا کہ بنک کے پاس آپ کی موجودہ ای میل سے تعلق ظاہر نہ
ہو۔شکریہ۔عزیز عیسیٰ“۔نوٹ: یہ اندھے اور لنگڑے کی کیا بات ہے۔ میں سمجھ نہیں
سکا۔عزیز عیسیٰ“
” منگل
مورخہ23نومبر 2004،شیخوزئی کی طرف سے عزیز عیسیٰ کے لئے ،ڈیر عزیز
عیسیٰ۔ میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے تمام تفصیلات مجھے بھجوا دی ہیں۔ درخواست
میں نے آپ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق لکھ دی ہے اورمیں آپ کو درخواست کی
کاپی اس ای میل کے ساتھ بھیج رہا ہوں۔آپ پڑھ کر مجھے بتائیں گے کہ درخواست ٹھیک
ہے تو میں کل صبح بنک کو درخواست بھجوا دوں گا۔ ویسے دوسرے ای میل سے بنک کو
لکھنے کی منطق مجھے سمجھ نہیں آئی۔ شیخوزئی۔
بدھ کی صبح میرے موبائل پر SMSآئی کہ آپ درخواست اپنے دستخط کے ساتھ اپنی کمپنی کی
مہر لگا کر فیکس کر دیں۔اور اپنا لیٹر پیڈ والا ای میل استعمال کریں۔ میں نے
درخواست فیکس کر دی۔
”بدھ
مورخہ:24نومبر 2004،عزیز عیسیٰ کی طرف سے شیخوزئی کے لئے،
ڈیر برادر شیخوزئی،آپ کا بنک کو فیکس بھیجنے کا شکریہ۔میں نے اپنے دوست کو کہہ کر
آپ کی درخواست کو آگے چلوا دیا ہے۔ ویسے فیکس میں صفائی نہیں ہے جس کی وجہ سے
درخواست کے مندرجات پڑھنے مشکل ہیں اگر آپ اس کی ایک کاپی اس ای میل سے مسٹر
ڈیوڈ کنگ کو بھجوا دیں تو بہتر گا aubinfos@yahoo.co.uk۔شکریہ۔
عزیز عیسیٰ“۔
” بدھ
مورخہ24نومبر2009، shekhuzai@dosama.com کی طرف سے aubinfos@yahoo.co.uk
کے لئے : مضمون: درخواست بحیثیت وارث برائے اکاونٹ نمبر AUB-212277-55۔
ڈیر مسٹر ڈیوڈ کنگ۔ حوالہ میری فیکس مورخہبدھ مورخہ24نومبر 2009، صبح 05:10 GMT
بجے۔ امید ہے کہ آپ کو میری فیکس مل گئی ہو گی احتیاطً ای میل بھی کر رہا
ہوں امید ہے کہ آپ رقم ٹرانسفر کرنے میں جلدی کریں گے۔شکریہ۔شیخوزئی۔
”جمعرات
مورخہ:25نومبر 2009، ڈیوڈ کنگ کی طرف سے شیخوزئی کے لئے، مسٹر شیخوزئی،آپ نے
فیکس کے ساتھ ای میل بھجواکر دانش مندی کا ثبوت دیا ہے کیونکہ مدھم
ہونے کی وجہ سے ہم آپ کی فیکس پڑھنے سے قاصر تھے۔فیکس کے مدھم ہونے کی کئی وجوہات
ہیں بجائے اس کے کہ ہم کسی لاحاصل بحث میں پڑھیں۔ میں آپ کو فیکس کرنے کے بجائے
سوالنامہ سکین کر کے اس ای میل کے ساتھ بھجوا رہا ہوں۔آپ اس سوالنامہ میں
پوچھے گئے سوالات کے جوابات ہمیں فوراً بھجوائیں تاکہ ہم ان جوابات کی روشنی میں
فیصلہ کریں کہ آیا کہ آپ جناب فوادعبدل غفار احمد مرحوم کے حقیقی وارث
ہیں۔(1)۔جناب فوادعبدل غفار احمد مرحوم کا اکاونٹ جو ہمارے بنک میں ہے اس کا سوئفٹ
کوڈ کیا ہے؟ (2)۔جناب فوادعبدل غفار احمد مرحوم نے اکاونٹ ہمارے بنک میں کس
تاریخ کو کھولا تھا؟ (3)۔جناب فوادعبدل غفار احمد مرحوم کا پہلا میڈن نام کیاہے ؟
(4)۔جناب فوادعبدل غفار احمد مرحوم کے اکاونٹ کا خفیہ کوڈ جو اکاونٹ استعمال کرنے
کے لئے فوت ہونے سے قبل لگایا تھا وہ کیا ہے ؟ امید ہے کہ آپ اس
کاروائی کو محسوس نہیں کریں گے۔ یاد رہے کہ یہ جوابات ہمیں 24گھنٹوں میں لازمی ہم
تک پہنچ جائیں کیونکہ دیر ہونے کی صورت میں فنڈ کی ٹرانسفر میں مزید دیر ہو گی جس
کی وجہ سے آپ پر ڈیمرج پڑنے کا امکان ہے۔۔شکریہ۔ ڈیوڈ کنگ ٰ“۔
”جمعرات
مورخہ:25نومبر 2004، شیخوزئی کی طرف سے عزیز عیسیٰ کے لئے، ڈیر عزیز عیسیٰ۔
بنک کا سوالنامہ میں آپ کو بھجوا رہا ہوں جو اس ای میل کے ساتھ منسلک ہے۔امید ہے
کہ اپ ان سوالوں کے جوابات مجھے مہیا کریں گے۔ شیخوزئی۔
”جمعرات
مورخہ:25نومبر 2004،عزیز عیسیٰ کی طرف سے شیخوزئی کے لئے، ڈیر برادر
شیخوزئی، مجھے آپ کی ای میل مل گئی ہے۔ہمارے پاس ابھی اس کے جوابات نہیں ہیں ہم
کوشش کر رہے ہیں کہ اسے حاصل کر کے مطلوبہ وقت سے پہلے آپ کو بھجوائیں۔آپ کی فون
لائن کو ئی نہیں اٹھاتاغالباً خراب ہے۔ یہ اہم معاملہ ہے۔آپ مجھ سے ٹیلیفونک رابطے
میں رہیں۔ہمارے بنک میں ہفتہ اتوار دو دن کی چھٹی ہوتی ہے۔اگر ہم نے جلدی نہیں کی
تو معاملہ ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا۔کیا آپ ڈیوڈ کنگ سے کوئی ممکنا بہانہ کر سکتے
ہیں؟ تاکہ ہم سوموار تک جواب مہیا کرنے کا وقت حاصل کرلیں ۔شکریہ۔ عزیز
عیسیٰ“۔
”جمعرات
مورخہ:25نومبر2004،شیخوزئی کی طرف سے ڈیوڈ کنگ کے لئے،ڈیر یہ ایک چھٹی کے دوران
خود بخود میل سسٹم کے ذریعے بھیجی جانے والی اطلاع ہے۔ہمارے ہاں ہفتہ وار چھٹی
جمعہ اور ہفتے کے دن ہوتی ہے۔اس لئے میں اپنے ہوم ٹاؤن ویک اینڈ پر جا رہا ہوں ۔
واپسی پر آپ کو جواب مل جائے گا۔ شیخوزئی۔
”جمعہ
مورخہ:26نومبر 2009، ڈیوڈ کنگ کی طرف سے شیخوزئی کے لئے، مسٹر شیخوزئی،آپ
کاتعطیلات کا خود بخود بھیجا جانے والا جواب ملا۔آپ کی مجبوری کے مدنظر میں
نے آپ کو سوموار دوپہر ایک بجے تک کا وقت دلوا دیا ہے۔شکریہ۔ ڈیوڈ کنگ ٰ“۔
”جمعہ
مورخہ:26نومبر 2004،شیخوزئی کی طرف سے عزیز عیسیٰ کے لئے، ڈیر عزیز
عیسیٰ۔مسٹر ڈیوڈ کنگ کی طرف سے بھیجی جانے والی ای میل آپ کو بھجوا رہا ہوں جس میں
انہوں نے جوابات بھجوانے کے لئے سوموار دوپہر ایک بجے تک کا وقت دلوا دیا ہے۔امید
ہے کہ یہ وقت آپ کے لئے کافی ہوگا۔میرا موبائل نمبر اور چھٹی کے دوران فون نمبر
میں آپ کو بھجوا رہا ہوں۔ مجھے کارڈ فون سے انٹر نیشنل کال ملانی پڑتی ہے جو بہت
مہنگی ہوتی ہے۔ بطور بنک منیجر آپ کو انٹر نیشنل کال ملانا آسان ہو گا لہذا
مجھے تمام اطلاعات اور ہدایات بذریعہ ٹیلفون آپ دیں گے ۔ شیخوزئی۔
”ہفتہ مورخہ:27نومبر
2004،عزیز عیسیٰ کی طرف سے شیخوزئی کے لئے، ڈیر برادر شیخوزئی۔ آپ رقم خرچ
کرنے میں بالکل تردد نہ کریں بس اس کا حساب رکھتے رہیں یہ آپ کو اخراجات کے
لئے مختص کی گئی پانچ فیصد رقم میں سے آپ کو ادا کر دی جائے گی،۔شکریہ۔ عزیز
عیسیٰ“۔
”ہفتہ مورخہ:27نومبر
2004،شیخوزئی کی طرف سے عزیز عیسیٰ کے لئے، مضمون: میں چھٹی پر ہوں۔ ڈیر یہ ایک
چھٹی کے دوران خود بخود میل سسٹم کے ذریعے بھیجی جانے والی اطلاع ہے۔ہمارے ہاں
ہفتہ وار چھٹی جمعہ اور ہفتے کے دن ہوتی ہے۔اس لئے میں اپنے ہوم ٹاؤن ویک اینڈ پر
جا رہا ہوں ۔ واپسی پر آپ کو جواب مل جائے گا۔ شیخوزئی۔
اتوار کی صبح میرے موبائل پر موبائل نمبر 00228-222-0287 سے کال آئی۔ ”مسٹر
شاکو زی میں عزیز عیسیٰ بول رہا ہوں آپ اپنی ای میل دیکھیں اس میں، میں نے سوالوں
کے جواب دے دئیے۔آپ انہیں بذریعہ ای میل بنک والوں کو بھجوا دیں۔اور سوموار کی
صبح اپنے لیٹر پیڈپر ٹائپ کر کے فیکس بھی کریں “۔
”اتوار مورخہ:28نومبر
2004، عزیز عیسیٰ کی طرف سے شیخوزئی کے لئے،ڈیر برادر شیخوزئی۔ ہم نے کوشش کرکے
سوالوں کے جوابات حاصل کر لئے ہیں آپ انہیں بذریعہ ای میل بنک والوں کو بھجوا
دیں۔اور سوموار کی صبح اپنے لیٹر پیڈپر ٹائپ کر کے فیکس بھی کریں
،(1)۔جناب فوادعبدل غفار احمد مرحوم کا کا سوئفٹ کوڈ 3AU33H2
ہے (2)۔جناب فوادعبدل غفار احمد مرحوم نے اکاونٹ 12 December 1992
کو کھولا تھا؟ (3)۔جناب فوادعبدل غفار احمد مرحوم کا پہلا میڈن نام ERNONہے ؟
(4)۔جناب فوادعبدل غفار احمد مرحوم کی وفات سے پہلے لگایا جانے والا اکاونٹ کا
خفیہ کوڈ X10FAGA ہے۔شکریہ۔ عزیز
عیسیٰ“۔
”اتوار
مورخہ:28نومبر 2004،شیخوزئی کی طرف سے ڈیوڈ کنگ کے لئے۔ نیز BCC
عزیز عیسیٰ کے لئے ۔، ڈیر ڈیوڈ کنگ۔ آپ کے پوچھے جانے والے سوالوں کے جوابات
حاضر ہیں،(1)۔جناب فوادعبدل غفار احمد مرحوم کا کا سوئفٹ کوڈ 3AU33H2
ہے (2)۔جناب فوادعبدل غفار احمد مرحوم نے اکاونٹ 12 December
1992 کو کھولا تھا؟ (3)۔جناب فوادعبدل غفار احمد مرحوم کا پہلا میڈن
نام ERNONہے ؟ (4)۔جناب فوادعبدل غفار احمد مرحوم کی وفات سے پہلے لگایا
جانے والا اکاونٹ کا خفیہ کوڈ X10FAGA
ہے۔امید ہے کہ سوالوں کے جوابات کی تصحیح ہوتے ہی آپ اکاونٹ میرے نام ٹرانسفر کر
دیں گے۔ میں کل صبح پاکستان کے وقت کے مطابق نو بجے آپ کو فیکس بھی کر دوں گا یاد
رہے کہ آپ کا ملک ہمارے وقت سے پانچ گھنٹے پیچھے ہے آپ کے آفس میں یہ فیکس
آپ کے وقت کے مطابق صبح چار بجے وصول ہو جائے گا اگر اس کے پڑھنے میں کوئی
خرابی ہوئی تو مجھے جواباً فیکس میں بتائیے میں دوبارہ کسی دوسرے آفس سے
فیکس کر دوں گا۔ شکریہ۔ شیخوزئی۔
”اتوار
مورخہ:28نومبر 2004، عزیز عیسیٰ کی طرف سے شیخوزئی کے لئے ، ڈیر برادر
شیخوزئی۔ میں نے آپ کو بتایا تھا کہ آپ نے کسی بھی صورت ہمارے درمیان تعلق
کو ظاہر نہیں کرنا۔آپ نے جو ای میل مسڑ ڈیوڈ کنگ کو بھجوائی۔اس کی مجھے کاپی
بھجوائی۔آپ کا یہ عمل ہمارے مشن کو سبوتاژ کر سکتا ہے۔ امید ہے کہ آئیندہ آپ ایسی
بھیانک غلطی نہیں کریں گے۔ عزیز عیسیٰ“۔
”اتوار
مورخہ:28نومبر 2004،،شیخوزئی کی طرف سے عزیز عیسیٰ کے لئے، ڈیر عزیز
عیسیٰ۔ میں واقعی شرمندہ ہوں کہ جذبات کی زیادتی کی وجہ سے انجانے میں مجھ سے یہ
غلطی سرزد ہو گئی۔میں کمپیوٹر کا ماہر نہیں نیز میرے خیال میں BCC
کی جانے والا میل ایڈریس نظر نہیں آتا بہر حال میں آئیندہ خیال رکھوں گا۔ شیخوزئی۔
انٹر نیٹ کی دنیا میں آباد، تمام صاحبانِ دردمند دل،
(جنہیں ہماری ایک معتبر ادارے میں ایک اعلیٰ درجے پرفائز فردگھر اور آفس میں
سجاوٹ اور سپلائی کی ٹھیکیدار ی اور پھر ہم سمیت ہمارے بزنس کی
ایڈوانس کمیشن کے شکنجے میں پھنسنے کے بعد تباہی کا علم ہے) ۔ ان کی پوری کوشش ہے
کہ وہ کسی طرح ہمیں ہمارے قدموں کے بل دوبارہ کھڑا کر دیں۔ان میں وہ تمام ادارے
بھی شامل ہیں جو کریڈٹ کارڈ اور قرضہ جات دیتے ہیں۔کچھ لاٹری والے بھی سر گرم
ہیں۔اب کروڑ پتی سکیم میں کون لائن میں لگے۔ بہرحال ان سب میں سرگرم ہمارے بین
الاقوامی ہمدرد ہیں۔ ہالینڈ کے دردمندوں نے ہم سے پوچھے بغیر ہمارا ای میل
ایڈریس،ڈبے میں ڈال کر گھما دیا یہاں تک تو خیریت تھی۔ اب وہ اطلاع دے رہے ہیں کہ
ہماء ِ کیپیٹل ازم ۔ اب بنک سے نکل کر اُڑ کر آپ کے سر پربیٹھنے والا ۔ اب یہ آپ
کی گردن کی استطاعت کہ یہ اُس کے بوجھ سے دب جاتی ہے یا تنی رہتی ہے۔کیونکہ اس طرح
کے ہماء شماء کسی عام فرد کی گردن کو شکنجے میں نہیں لیتے اس کے لئے مخصوص
قابلیت و سوچ ہونی چاہیئے۔”کھل جا سم سم والی سوچ“۔اتوار کی رات ایک نئی خوشخبری
ہماری منتظر تھی۔
”اتوار
مورخہ:28نومبر 2004،،mrs_florence_kujeto@hotmail.comکی طرف سے
shekhuzai@dosama.com کے لئے، مضمون:ایوارڈ
نو ٹیفکیشن (اپنا انعام کلیم کریں)۔ توجہ مسٹر شیخوزئی۔ مسز فلورینس کو
جاٹو۔ای۔اے۔اے۔ایس۔لاٹری ہیڈکوارٹر: کسٹمر سروس 19thسٹریٹ
۔سکارامنٹو۔ایمسٹرڈم۔نیدر لینڈ ۔ مبارک ہو۔ ہم اس بات کی اطلاع دیتے ہیں کہ
ایمسٹرڈم۔ہا لینڈ۔میں 25نومبر 2009 کو ہونے والی یورو۔افرو ایشین بین الاقوامی
لاٹری میں، آپ کا ای میل ایڈریس ٹکٹ نمبر 5447443465L44سے منسلک
تھا۔اور آپ تھرڈ کیٹیگری کی لاٹری میں پچیس لاکھ امریکن ڈالرز بذریعہ چیک پہلے دو
سو پچاس خوش نصیبوں کے درمیان تقسیم کے اصول پر جیت چکے ہیں۔ آپ کا لکی ونر نمبر
ایشیاء میں آتا ہے۔ہمارا نمائیندہ جو جکارتہ انڈونیشیا میں ہے وہ آپ سے رابطہ کرے
گا۔ آپ کا ریفرنس نمبر EGS/0007459015/03۔
ہے اسے محفوظ رکھیں۔اس ای میل کا جواب نہ دیں آپ سے ہمارا نمائیندہ رابطہ
کرے گا۔ پرخلوص۔ مسز فلورینس کو جاٹو۔
ہم نے مسز فلورنس کو فوراً جوابی ای میل بھیجی کہ ہم آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ
آپ کی نظرِ کرم ہم پر پڑی۔ہمیں اس رقم کو حاصل کرنے کا طریقہ بتائیے۔ہمارا مکمل
ایڈریس،ٹیلیفون نمبر۔ فیکس نمبر۔ اور موبائل نمبر یہ ہے۔ رقم کیش بھجوایئے تو بہتر
ہے چیک بھی چل جائے گا۔ رقم کیش ہونے کے بعد ہم ویزہ لے کر ان کا خصوصی شکریہ ادا
کرنے آئیں گے۔آپ لوگ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ کیا ہمارے پاس اتنا فارغ وقت ہے کہ ہم
ہر ای میل کا جواب دے دیتے ہیں۔دراصل ہمارے ایک بزرگ دوست تھے۔اللہ انہیں جنت نصیب
کرے۔ کوئی پچیس تیس سال پہلے ہم انہیں ”میجرگرو“کہا کرتے تھے۔بلکہ ہم کیا لوگ پہلے
سے ہی گرو کہتے تھے اُن کی بزلہ سنجیاں،حاضر جوابی اور قانونی مو شگافیوں کے قائل
ہونے کے بعد ہم نے بھی انہیں اپنا گرو بنا لیا۔اُن کا قول تھا کہ اگر دنیا میں
لوگوں کا دل جیتنا ہے تو ہر ہلتی چیز کو سلام کرو۔اور ہر خط لکھنے والے کو جواب
لازمی دو۔ یہ اور بات کہ فوج میں میجر گرو کے نقشِ قدم پر چلتے ہو ئے ہماری
بھی تما م زندگی Explanations کا جواب دیتے ہوئے گذری۔ اور اب تو عادت سی
ہو گئی ہے۔
”سوموار
مورخہ:24نومبر 2004،aubinfos@yahoo.co.uk
کی طرف سے : افریقن یونین بنک غیر ملکی ادئیگیوں کا شعبہ۔ لوم ریپبلک آف
ٹوگو۔فیکس نمبر 002282223341مضمون:مبارک ہو۔ہم آپ کو یہ اطلاع دیتے ہوئے خوشی
محسوس کر رہے ہیں کہ آپ نے اپنی ای میل میں ہمارے جن سوالوں کے جوابات دیئے ہیں وہ
ہمارے مطابق بالکل درست ہیں۔لہذا ہم آپ کو جناب فوادعبدل غفار احمد مرحوم کا حقیقی
وارث تسلیم کرنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے۔ہم آپ کو دلی مبارکباد دیتے
ہیں۔آپ کے ضروری کاغذات کی تیاری کا کام شروع ہو گیا ہے آپ کی وراثت کا سرٹیفکیٹ
آپ کو کل مل جائے گا۔براہ مہربانی۔اپنے بنک کو ہدایت کر دیں کہ ہماری فیکس ملنے کے
بعد وہ آپ کے فنڈ کوٹرانسفر کروانے کے لئے کوشش کریں۔ مجھے امید ہے کہ آپ نے ہمیں
جو آپ بنک کے اکاونٹ کی تفصیلات بھجوائیں تھیں وہ درست ہیں۔ ہمارے بنک
کاتمام عملہ جناب فوادعبدل غفار احمد کی ناگہانی وفات پر آپ اور آپ کی فیملی سے
ہمدردی رکھتے ہیں۔اور آپ کو کلیم کی کامیابی پر مبارکباد پیش کر تے
ہیں۔شکریہ۔ ڈیوڈ کنگ ٰ“۔
”سوموار
مورخہ:24نومبر 2004،شیخوزئی کی طرف سے عزیز عیسیٰ کے لئے، ڈیر عزیز
عیسیٰ افریقن یونین بنک کے ڈیوڈ کنگ کی طرف سے بھیجی جانے والی ای میل
کی کاپی آپ کوبھجوا رہا ہوں۔براہ کرم بتائیں اب کیا کرنا ہے؟۔ شیخوزئی
”سوموار مورخہ:29نومبر
2004،عزیز عیسیٰ کی طرف سے شیخوزئی کے لئے، ڈیر برادر شیخوزئی،۔بنک نے تما م
کاروائی کر دی ہے سرٹیفکیٹ آپ کو آج مل جائے گا۔مجھے خوشی ہے کہ ہم نے سب سے
بڑا اور مشکل قدم کامیابی سے اٹھا لیا ہے۔غیر ملکی ادئیگیوں کے شعبے سے مجھے معلوم
ہوا ہے کہ آپ کو بذاتِ خود یہاں آکر کاغذات پر دستخط کرنے پڑیں گے۔کیا آپ نے اپنا
پاسپورٹ بنا لیا ہے؟ کیا آپ یہاں آئیں گے؟ یا اس مسئلے کو ہم کس طرح حل کریں گے؟
مجھے فورا بتائیں۔اب ہمیں تیزی سے کام کرنا ہے۔ شکریہ۔ عزیز عیسیٰ“۔
”سوموار
مورخہ:29نومبر 2004،aubinfos@yahoo.co.uk
کی طرف سے: shekhuzai@dosama.comکے لئے، افریقن یونین بنک غیر ملکی
ادئیگیوں کا شعبہ۔ لوم ریپبلک آف ٹوگو۔فیکس نمبر 002282223341۔جناب آپ کے تمام
ضروری کاغذات مکمل ہو گئے ہیں۔سرٹیفکیٹ ساتھ منسلک ہیں۔ڈاکٹر بن نکولس کو ہم نے آپ
کا کنسلٹیشن اٹارنی بنایا ہے وہ آپ کے تمام مفادات کی نگرانی کریں گے۔ان کا ای میل
ایڈریس chi007@yahoo.comہے آپ آئیندہ براہ کرم ان سے رابطہ رکھیں ان
کافون نمبر 002282512612فیکس نمبر 002289086850 ہے۔آپ کو آگاہ
کیا جاتا ہے کہ آپ سات دن کے اندر اپنا کلیم وصول کر لیں۔شکریہ۔ ڈیوڈ کنگ ٰ“۔
”سوموار
مورخہ:29نومبر 2004،chi007@yahoo.com:
ڈاکٹر بن نکولس۔کنسلٹیشن اٹارنی برائے غیر ملکی ادائیگی۔افریقن
یونین۔ لوم ریپبلک آف ٹوگو۔فیکس نمبر 002282223341۔جناب شیخوزئی۔ مجھے میرے بنک نے
آپ کا کنسلٹیشن اٹارنی بنایا ہے۔میں اس وقت تک جب تک آپ کے فنڈ ٹرانسفر نہیں ہو
جاتے آپ کے تمام مفادات کی نگرانی کروں گا۔آپ ان فنڈ مجھے اپنا لائحہ عمل
بتایئے۔یاد رہے کہ سات دن کے اندر آپ نے ان فنڈ کا کلیم داخل کر کے انہیں ٹرانسفر
کرانا ہے جس کے لئے آپ کو اول تو یہاں آنا پڑے گا اور اگر آپ یہاں نہیں آسکتے تو
آپ کو لازمی کسی کو یہاں اپنا اٹارنی بنانا پڑے گا۔ جو آپ کی ہدایت کے مطابق یہاں
سے فنڈٹرانسفر کرنے کااختیار رکھے گا۔آپ کو مزید یہ بھی معلومات دوں کہ فنڈ صرف آپ
کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہو سکتے ہیں جو آپ نے اپنی درخواست میں ظاہر کیا ہے۔آپ مجھے
بھی اپنا اٹارنی نامزد کر سکتے ہیں اس کے لئے آپ کو صرف بنک کو اپنی رضامندی بتانی
پڑے گی۔اس تمام عمل کے لئے میری فیس مبلغ”دس ہزار امریکی ڈالرز“ ہوتی ہے
لیکن میں آپ سے یہ فیس نہیں لوں گا بلکہ آپ کے لئے یہ خدمات بلا معاوضہ انجام دوں
گا۔آپ کی رضامندی کا منتظر۔نکولس
’سوموار
مورخہ:29نومبر 2004،شیخوزئی کی طرف سے عزیز عیسیٰ کے لئے ، ڈیر
عزیز عیسیٰ۔میں ڈیوڈ کنگ اور ڈاکٹر بن نکولس کی ای میل آپ کو بھجوارہا ہوں۔آپ کو
معلوم ہے۔کہ میرے پاس پاسپورٹ نہیں ہے۔پاسپورٹ بنوانے اور اس پر ویزہ لگوانے
کے لئے کم از کم مہینہ لگے گا۔آپ براہ کرم مجھے گائیڈ کریں کہ یہ سب کام کیسے ہوں؟
ہاں یہ بتایئے کہ ڈاکٹر بن نکولس کون ہیں؟ کیا ان پر اعتبار کیا جاسکتا ہے؟ ان کا
میڈیکل کے کس شعبے سے تعلق ہے؟ نیز میں ڈاکٹر صاحب کی فیس فنڈ ملنے کے بعد
ادا کروں گا۔شکریہ۔ شیخوزئی۔
”منگل مورخہ:30نومبر2004،عزیز
عیسیٰ کی طرف سے شیخوزئی کے لئے، ڈیر برادر شیخوزئی،مجھے دونوں ای میل مل گئی
ہیں۔آپ خوش قسمت ہیں کہ ڈاکٹر بن نکولس نے اپنی خدمات آپ کو پیش کی ہیں۔وہ ایک بہت
مصرف اور اہم شخصیت ہیں۔ میں آپ کی معصومیت سے لطف اندوز ہوا ہوں۔
ڈاکٹر بن نکولس کا میڈیکل کے کسی شعبے سے تعلق نہیں ہے۔انہوں نے قانون اور بنکنگ
قانون کے شعبے میں ہارورڈ یونیورسٹی سے ڈاکٹری کی سند لی ہوئی ہے۔ڈاکٹر صاحب ایک
نیک دل انسان ہیں وہ آپ کو اس بارے میں خود بتائیں گے۔آپ ڈاکٹر صاحب کو رضامندی کی
ای میل بھجوا دیں۔شکریہ۔ عزیز عیسیٰ“۔
”منگل مورخہ:30نومبر
2004،شیخوزئی کی طرف سے ڈیوڈ کنگ اور ڈاکٹر بن نکولس کے لئے ، جناب ڈیوڈ کنگ۔ میں
آپ کو یہ اطلاع دینے میں خوشی محسوس کرتا ہوں کہ ڈاکٹر بن نکولس نے مجھے
اپنی خدمات مہیا کرنے کے لئے اپنی پرخلوص خدمات پیش کی ہیں۔جو ان کی اعلیٰ
ظرفی اور ایک غیر ملکی کے لئے نعمت غیر مترقبہ ہے۔ میں اس کے لئے ان کا تہہ دل سے
شکر گزار ہوں۔براہ کرم آپ ان کو وہاں فنڈ ٹرانسفر کے سلسلے میں۔میرے مفادات
کا نگران سمجھیں میں ان کو اس سلسلے میں اٹارنی کے اختیار تفویض کرتا ہوں۔ امید ہے
کہ اس معاملے میں اب تمام کاروائی وہ انجام دیں گے ۔ شیخوزئی۔
”بدھ
مورخہ:1دسمبر 2004،ڈاکٹر بن نکولس کی طرف سے شیخوزئی کے
لئے، ڈیر شیخوزئی۔آپ غالباً حیران ہوں گے کہ میں نے آپ کو اپنی بلا
معاوضہ خدمات کیوں پیش کی ہیں۔ آپ کا مرحوم بھائی جناب فوادعبدل غفار احمد میرا
ایک اچھا دوست تھا۔مجھے یاد ہے کہ میری پیاری بیوی ماریہ جب بسترِ مرض پر
تھی اور مجھے رقم کی سخت ضرورت تھی تو اس نے میری اس مشکل وقت میں میری نہ صرف رقم
سے مدد کی بلکہ مجھے اچھے اخلاق سے سہارا دیا۔ میں اس ہمدرد اور اچھے انسان کے
وارث کی مدد کر کے اس کے احسان کا بدلہ اتار سکتا ہوں۔امید ہے کہ آپ مجھے اس نے
انسان کا مجھ پر کئے ہو ئے احسان کا بدلہ اتارنے کا موقع دیں گے۔بنک کے تمام
کاغذات میں نے تیار کر لئے ہیں وہ آپ کو بھجوانے ہیں تاکہ آپ ان پر اپنے دستخط کر
کے مجھے واپس بھجوا دیں۔یہ کاغذات آپ کو DHLکورئیر
سروس کے ذریعے بھجوائے جائیں گے۔قونصلیٹ کا نمائیندہ آپ کے پاس یہ لے کر آئے گا آپ
اس کے سامنے اس پر دستخط کریں اور گواہ کی جگہ اس کے دستخط کروائیں گے اور دوسرا
گواہ آپ کے بنک کا کوئی آفیسر ہو گا جو آپ کے دستخطوں کی تصدیق بھی کروائے گا۔امید
ہے کہ آپ طریقِ کار سمجھ گئے ہوں گے۔ ہاں میں آپ کو مزید بتاؤں کہ DHLکے کل
اخراجات دو طرفہ 1240امریکی ڈالرز ہوں گے۔اور مزید 600امریکن ڈالرز،اٹارنی کے
کاغذات اور دیگر کاموں میں خرچ ہوئے ہیں۔آپ یہ رقم ویسٹرن یونین بنک کی معرفت میرے اسسٹنٹ کو بھجو
ائیں گے۔ کیونکہ میں کل لندن،بنک کے کام سے جا رہا ہوں اور چار دن بعد واپسی ہو گی
میں نے اپنے اسسٹنٹ کو تمام کاروائی سمجھا دی ہے۔میرے اسسٹنٹ کا نام پہلا
نام آمدی اور دوسرا نام ہوول ہے۔ ملک ٹوگو اور شہر لوم ہے۔رقم بھیجتے وقت مجھے ای
میل پراطلاع نہ دیں بلکہ میرا موبائل نمبر 00228-928-22-70 ہے۔ اس پر اطلاع
دیں۔ہاں اگر آپ ای میل کے ذریعے اطلاع دینا چاہیں تو میری بیوی
ماریہ کا ای میل ایڈریس chi007tg@yahoo.comہے۔ اس پر
اطلاع دیں وہ مجھے موبائل پر بتا دے گی۔وہ بھی آپ کے بھائی کی ممنون ہے۔ شکریہ ۔
نکولس
ٓآپ کو یہ ای میل سمجھ آئی؟ اسے غور سے دوبارہ پڑھیں۔جی ہاں اس ای میل کے مطابق
افریقہ کی بھولی ”منجھ“ مجھے مرحوم فوادعبدل غفار احمد(اگر کوئی ہے) کا اصلی
وارث سمجھنے کی کوشش میں غائبانہ یہ بتا رہی ہے کہ ڈاکٹر بن نکولس کا عزیز عیسیٰ
سے کوئی تعلق نہیں۔جبکہ پارٹنروں کی ٹرائیکا مکمل ہے۔ مچھلی کا شکار اب شروع ہونے
کو ہے دیکھیں ، کانٹا کس کے حلق میں پھنستا ہے ۔
”بدھ
مورخہ:1دسمبر2004 : لئے،ڈیر مسز ماریہ نکولس۔گو کہ میرا آپ کا غائبانہ تعارف ہے،
لیکن میرا وجدان کہتا ہے کہ آپ اپنے شوہر کی طرح ایک ہمدرد اور احسان یاد رکھنے
والی خاتون ہے۔ مجھے ایک کہاوت یاد آرہی ہے کہ،”جو بوؤ گے وہ کاٹو گے“۔ میں خوش
ہوں کہ میرے مرحوم بھائی فوادعبدل غفار احمد نے جو بویا تھا اس کی اچھی فصل میں آپ
دونوں میاں بیوی کی مدد سے کاٹ رہا ہوں۔مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ میرا تعارف
ان عظیم میاں بیوی سے حالات اور وقت نے کرایا ہے جو نہ صرف اپنے اوپر احسان کرنے
والے شخص کو یاد رکھتے ہیں بلکہ موقع ملنے پر اسے بھلے انداز میں چکانے کی کوشش
کرتے ہیں۔ آفاقی سچائیوں کی یہ قدریں اس مادی دنیا سے ناپید ہو تی جا رہی ہیں۔لیکن
اب بھی اس دنیا میں ایسے افراد موجود ہیں جو ان قدروں کو برقرار رکھ رہے ہیں۔اسی
لئے قیامت آنے میں ابھی دیر ہے۔ یہ بتایئے کہ آپ کس بیماری میں ہسپتال میں داخل
ہوئیں تھیں۔ اب آپ کی طبیعت کیسی ہے؟کیا آپ اب ایک صحتمند زندگی گزار رہی
ہیں؟۔ اپنی دعاؤں میں یاد رکھیئے۔ شیخوزئی۔
”جمعرات مورخہ:2دسمبر
2004،شیخوزئی کی طرف سے عزیز عیسیٰ کے لئے ، ڈیر عزیز عیسیٰ ڈاکٹر بن
نکولس کو بھیجی گئی میری ای میل اور ان کی طرف سے مجھے آئی ہوئی ای میل۔ مسز
ماریہ نکولس کو بھیجی گئی میری ای میل اور ان کی طرف سے مجھے آئی ہوئی ای میل۔آپ
کی اطلاع کے لئے بھجوا رہا ہوں۔شیخوزئی۔
”جمعرات
مورخہ:2دسمبر 2004، مسز ماریہ نکولس کی طرف سے شیخوزئی کے لئے، ڈیر برادر
شیخوزئی،آپ کی ای میل ملی۔آپ بھی اپنے بھائی کی طرح ایک اچھے انسان ہیں۔جیسا کہ
نکولس نے بتایا کہ ہم دونوں آپ کے بھائی کے مشکور ہیں۔ یہ 1998کی بات
ہے۔دراصل میرے سب سے چھوٹے بیٹے کی ولادت تھی۔ مجھ میں خون کی کمی ہوگئی اور ساتھ
ہی اوپریشن سے میرے ہاں ولادت ہوئی۔اس مشکل وقت میں آپ کے بھائی نے ہماری مدد
کی۔بلکہ میرے چھوٹے بیٹے کو پتسمہ آپ کے بھائی نے دیا تھا۔اور وہ اس کا روحانی باپ
بھی تھا۔ہاں کیا آپ نے اسسٹنٹ آمدی کے نام رقم بھجوا دی ہے؟۔ شکریہ۔ ماریہ “۔
چلیں قارئین ، ایک عورت بیچ میں ، کہانی کو ڈرامائی موڑ دینے کے لئے داخل ہو گئی ہے ۔
چلیں قارئین ، ایک عورت بیچ میں ، کہانی کو ڈرامائی موڑ دینے کے لئے داخل ہو گئی ہے ۔
"جمعرات
مورخہ:2دسمبر 2004،: شیخوزئی کی طرف سے مسز ماریہ نکولس کے لئے،ڈیر
مسز ماریہ نکولس۔میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے اب بھی میرے مرحوم بھائی کو یاد
رکھا ہوا ہے۔ واقعی اوپریشن سے ولادت پر اچھے خاصے اخراجات ہو جاتے ہیں اور
اگر یہ ملک کے کسی بہترین ہسپتال میں ہوں تو اخراجات دگنا ہو جاتے ہیں۔ آپ کے شوہر
کے سٹیٹس اور معیار کے مطابق یقیناً آپ کے بچے کی ولادت کسی بہترین ہسپتال میں
ہوئی ہو گی۔ اس قسم کے ہسپتال کا ہمارے ملک میں کم از کم اخراجات 2500امریکی ڈالر
ز سے کم نہیں آتے۔ جبکہ ہمارے ملک میں سب سے زیادہ تنخواہ لینے والا شخص
ماہانہ 2000ہزار امریکن ڈالرز سے زیادہ نہیں لیتا ّ آپ کو یہ جان کر حیرانی
ہو گی کہ میری ماہانہ تنخواہ صرف 250امریکن ڈالرز کے تقریباً برابر ہے۔ جیسا کہ آپ
کے شوہر نے مجھے بتایا ہے کہ میرے بھائی نے آپ کے چھوٹے بیٹے کی ولادت کے وقت ان
کی رقم سے مدد کی تھی۔جو یقیناً قابل یاداشت ہو گی کیونکہ تھوڑی رقم سے کی گئی مدد
کو کوئی یاد نہیں رکھتا۔ویسے بھی میرا وہ مالدار بھائی چار پانچ ہزار ڈالرز سے مدد
کرنا معمولی بات سمجھتا تھا۔ہاں آپ لوگ چونکہ لندن جاتے رہتے ہیں کیونکہ آپ
لوم۔ٹوگو کے معزز شہری ہیں۔ یہ بتایئے کہ آپ کے بچے کی ولادت لوم۔ٹوگو
میں ہوئی یا لندن میں۔ میرے خیال میں لندن میں ہوئی ہو گی کیونکہ میرا مرحوم
بھائی مئی 1997کے بعد اپنے پاسپورٹ کے مطابق لوم۔ٹوگو نہیں گئے۔آپ کا شکر
گزار شیخوزئی۔
”جمعہ
مورخہ:3دسمبر 2004،مسز ماریہ نکولس کی طرف سے شیخوزئی کے لئے، ڈیر برادر
شیخوزئی،آپ کا اندازہ درست ہے۔ میرے چھوٹے بیٹے کی ولادت لندن میں ہوئی تھی۔آپ کے
بھائی کا اکاونٹ کیونکہ میرے شوہر کے بنک میں ہے۔ وہیں ان دونوں کا تعارف ہو
اتھا۔جب ہم لندن آئے تو میرے شوہر کے رابطہ کرنے پر وہ ہسپتال آئے تھے۔ وہ ایک
ہمدرد اور اچھے انسان تھے۔ اللہ ان پر اپنی نوازشات کی بارش کرے۔کیا آپ نے اسسٹنٹ آمدی کے نام
رقم بھجوا دی ہے؟۔شکریہ۔ماریہ “۔
”جمعہ
مورخہ:3دسمبر 2004، شیخوزئی کی طرف سے مسز ماریہ نکولس کے لئے، ڈیر مسز
ماریہ نکولس۔میں آپ کا شکر گزار ہوں۔ کہ آپ نے مجھے جواب دیا۔ واقعی لندن میں
توولادت بذریعہ اوپریشن بہت اخراجات لیتا ہے۔ میری ماہانہ تنخواہ صرف
250امریکن ڈالرز کے تقریباً برابر ہے۔جیسا کہ آپ لوگوں نے بتایا کہ میرے بھائی نے
آپ لوگوں کے مشکل وقت۔اپنا قیمتی وقت نکال کر آپ کی بذریعہ رقم مدد کی جو یقینا
اچھی خاصی رقم ہو گی جبھی تو آپ نے ان کو یاد رکھا۔ اس وقت میری بھی وہی حالت ہے
جوآپ لوگوں کی 1998میں لندن کے ہسپتال میں تھی اورآپ نے میرے بھائی کو مدد کے لئے
بلایا تھا وہ انسانیت اور دوستی کے اس حوالے سے دوڑا آپ کے پاس آیاجو انسانیت کا
تقا ضا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر نکولس نے DHLکے کل
اخراجات دو طرفہ 1240امریکی ڈالرز ہوں گے۔اور مزید 600امریکن ڈالرز،اٹارنی کے
کاغذات اور دیگر کاموں میں خرچ کے کل 1840ڈالرز بتائے ہیں۔ جو فی الحال میں
آپ کو نہیں بھجوا سکتا۔ گو کہ یہ رقم میر ے بھائی کی طرف سے آپ کوآپ کی مشکل میں
دی جانے والی رقم سے یقینا بہت کم ہو گی۔جیسا کہ میں نے
بتایا ہے کہ میں بھی اسی مشکل سے دو چار ہوں امید ہے کہ آپ اپنے شوہر کو قائل کریں
گی کہ وہ اس رقم کی ادائیگی خود کر دیں فنڈ ملتے ہی نہ صرف میں آپ کو یہ رقم
ادا کر دوں گا بلکہ ان کی خدمات کا معاوضہ دس ہزار ڈالر بھی ادا کرنے میں خوشی
محسوس کروں گا۔اور میں اپنے ملک میں آپ کا میزبان بننے میں فخر محسوس کروں گا۔آپ
کا شکر گزار شیخوزئی۔
جمعہ مورخہ:3دسمبر
2004،،شیخوزئی کی طرف سے عزیز عیسیٰ کے لئے ، ڈیر عزیز عیسیٰ مسز
ماریہ نکولس کو بھیجی گئی میری ای میل۔ ان کی طرف سے مجھے آئی ہوئی ای میل۔آپ کی
اطلاع کے لئے بھجوا رہا ہوں۔شیخوزئی۔
”ہفتہ
مورخہ:4دسمبر 2004،عزیز عیسیٰ کی طرف سے شیخوزئی کے لئے، مضمون:آپ مجھے
سیریس نہیں لگتے۔ ڈیر برادر شیخوزئی،آپ نے ڈاکٹر بن نکولس کی ایڈوائس پر عمل نہیں
کیا ہم لوگ آپ کی طرف سے پیش قدمی کے منتظر ہیں۔ پلیز آپ رقم فوراً بھجو ادیں۔تاکہ
فنڈ جلدی آپ کو ٹرانسفر ہوں۔شکریہ۔ عزیز عیسیٰ“۔
”ہفتہ
مورخہ:4دسمبر 2004،،: شیخوزئی کی طرف سے عزیز عیسیٰ کے لئے ، مضمون:میں رقم
نہیں بھجوا سکتا۔ ڈیر عزیز عیسیٰ۔امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے کیا آپ کا تعلق
نائجیریا سے ہے؟ وہ اس لیے کہ میرے ایک دوست نے بتایا ہے کہ آج کل نائجیریا سے ان
ای میل ایڈریس۔مریم اباچہ۔زینب اباچہ۔منیرات اباچہ۔ماریان اباچہ۔ مصطفی اباچہ۔احمد
اباچہ۔جو hotmail.com یا yahoo.com
کے تھے۔سے جو پیغام آیا وہ اس ای میل کے ساتھ ہے۔ اور جن لوگوں نے رقم بھجوائی
انہیں کوئی جواب نہیں ملا۔ اس لئے میں رقم بھجوانے سے ڈرتا ہوں۔ امید ہے کہ
آپ برا نہیں مانیں گے۔ شیخوزئی۔
چونکہ اب یہاں آکر ہم نے ہتھیار ڈال دیئے۔اور کسی بھی قسم کی رقم بھجوانے سے انکار
کر دیا۔ہمارے خیر خواہوں کو ہماری مجبوری سمجھ آگئی۔کہ دودھ کا جلا ہے چھاچھ بھی
پھونک کر پیئے گا۔ لیکن کیونکہ اُن کی پوری کوشش تھی کہ وہ ہمیں ایسے بزنس میں
پارٹنر بنائیں جو ہم دونوں یا ہم دونوں میں سے کسی ایک کے لئے لازماً فائدہ مند
ہو۔ اب یہاں تک پہنچنے کے بعد مارکیٹنگ کے ماہر ہتھیار نہیں پھینک سکتے وہ تو اپنے
کام کے اتنے ماہر ہوتے ہیں کہ وہ گنجے کو کنگھی اور سائیبریا کے رہنے والوں کو ڈیپ
فریزر خریدنے پر مجبور کر سکتے ہیں اور یہی اُن کا آرٹ ہے۔اس آرٹ کو شکاریوں
کی زبان میں ہانکا کروانا کہا جاتا ہے۔ لہذا،اب ہانکا شروع ہوتا ہے۔ شکار اور
شکاری کے درمیان۔
”اتوار
مورخہ:5دسمبر 2004،عزیز عیسیٰ کی طرف سے شیخوزئی کے لئے، ڈیر برادر
شیخوزئی،آپ کے محتاط رویے سے میں متاثر ہوا ہوں۔میں آپ کی جگہ ہوتا تو ایسا ہی
کرتا۔پہلے تو آپ پر واضح کر دوں کہ میرا تعلق نائجیریا سے نہیں ہے۔میں نے ان
فراڈیوں کے متعلق سنا تھا۔ واقعی انہوں نے کافی لوگوں کو ٹھگا ہو گا۔آپ کو
اگر ہم پر اعتبار نہیں تو ہم ایسا کرتے ہیں کہ میں ڈاکٹر بن نکولس سے بات کر کے اس
رقم کو آپ کے پاس سیکیورٹی کمپنی کے ذریعے ڈپلومیٹک چینل سے بھجوانے
کاانتطام کر وں گا تاکہ راستے میں یہ کسٹم چیک سے بچ جائے جب رقم کا بکس آپ تک
پہنچ جائے تو آپ۔چارجز ادا کر کے بکس وصول کر لینا۔میں نے پہلے لکھا تھا کہ میرا
ایک دوست آپ کے ملک میں ہے وہ میری نمائیندگی کرے گا ۔شکریہ۔ عزیز عیسیٰ“۔
”اتوار
مورخہ:5دسمبر 2004،شیخوزئی کی طرف سے عزیز عیسیٰ کے لئے، ڈیر عزیز
عیسیٰ۔ میرے خیال میں یہ طریقہ بہت مناسب ہے۔اور قابلِ اعتبار بھی ہے ۔ شیخوزئی۔
7دسمبر 2004،رات گیارہ بجے مجھے 0300-3581093سے میرے موبائل پر کال آئی۔کال
کرنے والے نے اپنا تعارف ۔ مائیکل کے نام سے کرایا اور
بتایا کہ وہ عزیز عیسیٰ کا دوست ہے۔اور مجھ سے ملنا چاہتا ہے۔فی الحال وہ لاہور
میں رہائش پذیر ہے۔میں نے اسے بتایا کہ وہ اسلام آباد آجائے مجھ سے ملاقات ہو جائے
گی۔
9 دسمبر 2004، چار بجے میں اپنے آفس میں
بیٹھا تھا کہ میرے موبائل پر مائیکل نے فون کیا کہ وہ اسلام آباد پہنچ چکا ہے۔اس
وقت میرے پاس میرے ایک دوست بیٹھے تھے انہوں نے پوچھا کہ اتنی گاڑھی انگلش کس سے
بول رہے تھے۔ میں نے انہیں رازدان بنا کر تمام واقعہ سنایا کہ کس طرح ہمارے دن
پھرنے والے ہیں۔موصوف نے فوراً نصیحتوں کا بکس کھولا اور ہمیں ان تمام
واقعات سے آگاہ کرنے لگے۔کہ نقصان اٹھاؤ گے۔تباہ ہو جاؤ گے یہ لازماً منشیات
کی کمائی ہے۔میں نے کہا برادر۔تھوڑا حوصلہ رکھومفت ہاتھ آتی دولت میں کوئی برائی
ہے۔رقم پر کہاں لکھا ہوتا ہے کہ یہ منشیات کی کمائی ہے یا لوٹ کی؟
اُن کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ ہمیں کیسے سمجھائیں۔ابھی بحث جاری تھی کہ مسٹر مائیکل تشریف لے آئے۔
میرے ساتھ دوسرے شخص کو دیکھ کر پریشان ہوئے۔ کیونکہ موصوف اسے پورا پورا ایکسرے کر رہے تھے پھر ٹھیٹھ پنجابی میں بولے، مجھے یہ سو فیصد مشکوک لگ رہا ہے۔میں نے جواب دیا برادر آپ کی محکمہء جاسوسی میں کی جانے والی نوکری نے آپ کی نظر میں ہر دوسرے فرد کو سو فیصدمشکوک (بلیک)بنایا ہوا ہے اور جو پہلا شخص ہے وہ نوے نہ صحیح ساٹھ فیصد ضرور مشکوک (گرے) ہے۔
بہرحال انہوں نے ہمیں ایک طرف رکھ کر مائیکل کو انٹرویو شروع کر دیااور گھما پھرا کر اس کا پاسپورٹ مانگ لیا۔ پاسپورٹ کے مطابق موصوف کا پورا نام ”چائک ایلائب اوسیتا۔پاسپورٹ نمبر A2583556نائجیرین۔تاریخِ پیدائش 7جولائی 1972۔ پاکستان میں داخلہ 29ستمبر 2004، بذریعہ کراچی انٹرنیشنل ایر پورٹ۔ برائے بزنس“ اس سے پوچھ کر ہم نے پاسپورٹ کی فوٹو کاپی کروالی۔ہمارے دوست ہمیں قائل نہ کرسکنے کے بعد ہماری عقل پر پنجابی میں ماتم کرنے کے بعد اٹھ کر چلے گئے۔ چائک سے تفصیلی گفتگو ہوئی۔اس نے بتایا کہ وہ ہم سے ملاقات کر کے مطمئن ہو گیا ہے۔ وہ سکیورٹی کمپنی کے ذریعے فنڈ منگوا لے گا۔اور باقی باتیں بتانے کے بعد وہ لاہور کے لئے روانہ ہو گیا کیونکہ ہم نے اسے خود ازراہ ہمدردی کراچی کمپنی اسلام آباد کے بس اسٹاپ پر ڈراپ کیا۔
اُن کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ ہمیں کیسے سمجھائیں۔ابھی بحث جاری تھی کہ مسٹر مائیکل تشریف لے آئے۔
میرے ساتھ دوسرے شخص کو دیکھ کر پریشان ہوئے۔ کیونکہ موصوف اسے پورا پورا ایکسرے کر رہے تھے پھر ٹھیٹھ پنجابی میں بولے، مجھے یہ سو فیصد مشکوک لگ رہا ہے۔میں نے جواب دیا برادر آپ کی محکمہء جاسوسی میں کی جانے والی نوکری نے آپ کی نظر میں ہر دوسرے فرد کو سو فیصدمشکوک (بلیک)بنایا ہوا ہے اور جو پہلا شخص ہے وہ نوے نہ صحیح ساٹھ فیصد ضرور مشکوک (گرے) ہے۔
بہرحال انہوں نے ہمیں ایک طرف رکھ کر مائیکل کو انٹرویو شروع کر دیااور گھما پھرا کر اس کا پاسپورٹ مانگ لیا۔ پاسپورٹ کے مطابق موصوف کا پورا نام ”چائک ایلائب اوسیتا۔پاسپورٹ نمبر A2583556نائجیرین۔تاریخِ پیدائش 7جولائی 1972۔ پاکستان میں داخلہ 29ستمبر 2004، بذریعہ کراچی انٹرنیشنل ایر پورٹ۔ برائے بزنس“ اس سے پوچھ کر ہم نے پاسپورٹ کی فوٹو کاپی کروالی۔ہمارے دوست ہمیں قائل نہ کرسکنے کے بعد ہماری عقل پر پنجابی میں ماتم کرنے کے بعد اٹھ کر چلے گئے۔ چائک سے تفصیلی گفتگو ہوئی۔اس نے بتایا کہ وہ ہم سے ملاقات کر کے مطمئن ہو گیا ہے۔ وہ سکیورٹی کمپنی کے ذریعے فنڈ منگوا لے گا۔اور باقی باتیں بتانے کے بعد وہ لاہور کے لئے روانہ ہو گیا کیونکہ ہم نے اسے خود ازراہ ہمدردی کراچی کمپنی اسلام آباد کے بس اسٹاپ پر ڈراپ کیا۔
10دسمبر 2004،رات کو ہمارے ایک نہایت عزیز
دوست جو اس وقت حاضر سروس ہیں ان کا فون آیا۔ تھوڑی دیر گپ شپ کے بعد ہم سے
انہوں نے پوچھا کہ کیا تم کسی نائیجیرین سے بزنس کر رہے ہو؟ میں نے پو
چھاکیا برادر نے یہ خبر اخبار میں شائع کروادی ہے۔ کہنے لگے کہ وہ تمھارے لئے بہت
پریشان ہے۔ میں نے اسے بتایاہے کہ تم کوئی ایسا کام نہیں کرو گے جو خود تمھارے لئے
نقصان دہ ہو۔ بہر حال جو کچھ بھی کرنا سوچ سمجھ کر کرنا۔ میں نے انہیں بتایا کہ
سوموار کو ہماری فائینل ڈیل ہو گی۔ میں پوری احتیاط کروں گا۔
11دسمبر 2004،ہفتے کو مجھے 0304-5126341 سے
چائک کا فون آیا کہ وہ لاہور سے بول رہا ہے۔فنڈ سوموار کو پہنچ جائیں گے۔وہ بھی
سوموار کو اسلام آباد آئے گا۔میں نے خوشی کا اظہار کیا۔اسی دن موبائل پر عزیز
عیسیٰ کا فون آیا۔اس نے پوچھا کہ کیا میری چائک سے بات ہو گئی ہے۔ میں نے ہاں میں
جواب دیا تو اس نے کہا کہ چائک اپنا کام چھوڑ کر ہماری مدد کر رہا ہے۔ اب میں چائک
سے لازمی کوآپریٹ کروں۔میں نے کہا کہ انشاء اللہ ایسا ہی ہوگا۔ایک بات بتاؤ کیا چائک ٹوگئین ہے؟ ہاں۔ عزیز عیسیٰ نے جواب دیا۔تم نے کیوں پوچھا؟ ویسے ہی،میں نے جواب
دیا؟
13دسمبر 2004،تقریباًدو بجے چائک میرے
پاس آیا اس نے بتایا کہ فنڈ پہنچ گئے ہیں۔ فی الحال دو لاکھ ڈالرز آئے ہیں۔
ان پر کورئیر سروس کے آٹھ ہزارڈالرز خرچ آیا ہے جو ان کو دینے پڑیں گے۔ میں نے کہا
ٹھیک ہے۔ میں نے اپنے پارٹنر سے بات کی ہے وہ انویسٹمنٹ کے لئے تیار ہو گیا
ہے۔لیکن اس سے پہلے میں خود فنڈ دیکھوں گا اس کے بعد ڈالرز دوں گا۔اس نے بتایا کہ
ٹھیک ہے۔ سکیورٹی کمپنی کا آفس ایف۔ 10سیکٹر میں ہے۔آپ جب کہو میں آپ کو سکیورٹی
کمپنی کے آفس لے جاؤں گا۔
15 دسمبر 2004،دس بجے میں نے چائک کو
فون کیا کہ رقم کا انتظام ہو گیا ہے اب فنڈٹرانسفر ہو جانے چاہیئں۔ چائک نے کہا
ٹھیک ہے اور دو بجے میرے آفس میں آیا اس کے ہاتھ میں فنڈ ٹرانسفر کا لیٹر
تھا جو اس کے نام پر بنا ہو اتھا۔رقم میرے اکاونٹ میں آنی تھی،تو اس کا مالک چائک
کیسے بنا۔یہ لیٹر تو میرے نام بننا چاہیئے تھا؟ بہرحال میں نے چائک کو بتایا کہ وہ
مجھے اور میرے پارٹنر کو آج ہی سکیورٹی کمپنی لے جائے جہاں سے ہم رقم اٹھا
لیں۔کیونکہ صبح میں کراچی جا رہا ہوں اور اتوار کو واپس آؤں گا۔ ثبوت کے طور پر
اسے میں نے ائرٹکٹ دکھایا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا رقم کا انتظا م ہو گیاہے۔
میں نے اپنے میز کی دراز کھول کر اس کو پانچ سو ڈالرز کا ایک نوٹ دکھایا۔ اس کے
بعد وہ چلا گیا۔
میں نے موبائل پر اپنے ایک ہمدرد سے پوچھا کہ آج مجھے اس کی ضرورت ہے کیا وہ میری مدد کر سکتا ہے؟ اس نے کہا سر آپ جہاں کہیں گے ہم آجائیں گے۔میرے اس ہمدرد سے کل میرے ایک دوست، عمار جعفری صاحب ایف آئی اے میں اچھے عہدے پر کمپیوٹر کے ماہر ہیں نے اپنے آفس میں کروائی تھی- جو دیکھنے میں بالکل بے ضرر نظر آتا ہے لیکن بلا کا پھرتیلا اور دماغ کا تیز ہے۔
شام پانچ بجے چائک کو فون آیا کہ وہ سات بجے تک مجھے وہ جگہ بتائے گا جہاں میں نے اور میرے پارٹنر نے آنا تھا۔بہت بڑی رقم کا معاملہ تھا اس لئے احتیاط ضروری تھی۔ میں نے اپنے ایک اور دوست طاہر محمود چوہدری ، کو مدد کے لئے کہا تھا وہ فوراً میرے گھر آگیا۔ ہم نے اپنی حفاظت کے لئے پروگرام بنایا۔کہ طاہر کی کارمیں ہم دونوں ہوں گے اور میرا بیٹا ارمغان، اپنی کارمیں ہمارا تعاقب کرے گااور خاموش تماشاہی بن کر، ہمارے پیچھے رہے گا۔فی الحال ہماری منزل ایف ٹین ہے۔ اگر عین وقت پر منزل تبدیل ہوتی ہے۔ تو ارمغان، ہمدرد کو بتائے گا، کہ ہم کہاں کہاں سے گذر رہے ہیں ۔ شام سات بجے چائک کا مجھے فون آیا کہ کیا میں اس سے ٹھیک پانچ منٹ بعد کراچی کمپنی میں مل سکتا ہوں۔ میں نے اسے بتا یا کہ میں کراچی کمپنی سے پندرہ منٹ کی مسافت پر ہوں۔وہ میرا انتظار کرے۔میں کار میں بیٹھا۔دوست کارچلا رہا تھا میرے پاس ایک بریف کیس تھا جو میں نے کارکی پچھلی سیٹ پر رکھ دیا۔ اور ہاں احتیاطاً اپناریوالور پچھلی سیٹ کے فٹ میٹ کے نیچے ڈال دیا۔
پی۔ڈبلیو۔ڈی آفس کراچی کمپنی کے نزدیک پہنچنے کے بعد میں نے چائک کو فون کیا اور اس سے پوچھا کہ وہ اس وقت کہاں ہے۔اس نے بتایا کہ بس اڈے کے پاس جہاں میں نے اس کو اتارا تھا۔ بس اڈے کے نزدیک پہنچے چائک لاہور جانے والی بس کے نزدیک کھڑا تھا۔ کا پارک کر کے ہم دونوں نکلے چائک مجھے دیکھ کر نزدیک آگیا۔چائک سے دوست کا تعارف میں نے سائیٹ انجنئیر کے طور پر کرایا۔تعارف اور سلام کے بعد میں نے چائک سے پوچھا کہاں جانا ہے؟ اس نے بتایا کہ F-7/2جانا ہے ، دوست کو اچانک اپنے سگریٹ یاد آگئے اس نے معذرت کی اور کہا کہ وہ سامنے دکان سے سگریٹ لے آئے۔
چائک نے کہاکہ اس کے پاس سگریٹ ہیں، اس کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ صرف اپنا مخصوص برانڈ پیتا ہے۔کہہ کر دوست سگریٹ لینے چلا گیا۔تھوڑی دیر بعد واپس آیا۔ میں کار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔چائک نے رقم کے بارے میں پوچھا میں نے بریف کیس کو تھپتھپایا۔ہم F-7/2 کے لئے روانہ ہو گئے۔سیکٹر میں داخل ہونے سے پہلے میں نے پوچھا کہ کس سٹریٹ میں جانا ہے۔ چائک نے کسی سے موبائل سے پوچھا۔اس نے بتایا سٹریٹ بیس۔ میں نے چائک کو بتایا کہ مجھے نہیں معلوم کہ یہ سٹریٹ کس طرف ہے اگر وہ محسوس نہ کرے تو میں اپنے ایک دوست سے پوچھوں جو ایف سیون میں رہتا ہے اسے شاید معلوم ہو۔ میں نے سرسری طور پر دوست سے پوچھا اس نے لاعلمی ظاہر کی۔
میں نے موبائل پر ”ہمدرد“ سے پوچھا کہ کیا اسے علم ہے کہ F-7/2 میں سٹریٹ بیس کس طرف ہے؟ اُس نے کیا سمجھانا تھا بہر حال وہ پیغام سمجھ گیا۔ ہم سٹریٹ بیس کے اس سرے پر پہنچے جورانا مارکیٹ کی طرف ہے وہاں کارروک دی۔
میں نے موبائل پر اپنے ایک ہمدرد سے پوچھا کہ آج مجھے اس کی ضرورت ہے کیا وہ میری مدد کر سکتا ہے؟ اس نے کہا سر آپ جہاں کہیں گے ہم آجائیں گے۔میرے اس ہمدرد سے کل میرے ایک دوست، عمار جعفری صاحب ایف آئی اے میں اچھے عہدے پر کمپیوٹر کے ماہر ہیں نے اپنے آفس میں کروائی تھی- جو دیکھنے میں بالکل بے ضرر نظر آتا ہے لیکن بلا کا پھرتیلا اور دماغ کا تیز ہے۔
شام پانچ بجے چائک کو فون آیا کہ وہ سات بجے تک مجھے وہ جگہ بتائے گا جہاں میں نے اور میرے پارٹنر نے آنا تھا۔بہت بڑی رقم کا معاملہ تھا اس لئے احتیاط ضروری تھی۔ میں نے اپنے ایک اور دوست طاہر محمود چوہدری ، کو مدد کے لئے کہا تھا وہ فوراً میرے گھر آگیا۔ ہم نے اپنی حفاظت کے لئے پروگرام بنایا۔کہ طاہر کی کارمیں ہم دونوں ہوں گے اور میرا بیٹا ارمغان، اپنی کارمیں ہمارا تعاقب کرے گااور خاموش تماشاہی بن کر، ہمارے پیچھے رہے گا۔فی الحال ہماری منزل ایف ٹین ہے۔ اگر عین وقت پر منزل تبدیل ہوتی ہے۔ تو ارمغان، ہمدرد کو بتائے گا، کہ ہم کہاں کہاں سے گذر رہے ہیں ۔ شام سات بجے چائک کا مجھے فون آیا کہ کیا میں اس سے ٹھیک پانچ منٹ بعد کراچی کمپنی میں مل سکتا ہوں۔ میں نے اسے بتا یا کہ میں کراچی کمپنی سے پندرہ منٹ کی مسافت پر ہوں۔وہ میرا انتظار کرے۔میں کار میں بیٹھا۔دوست کارچلا رہا تھا میرے پاس ایک بریف کیس تھا جو میں نے کارکی پچھلی سیٹ پر رکھ دیا۔ اور ہاں احتیاطاً اپناریوالور پچھلی سیٹ کے فٹ میٹ کے نیچے ڈال دیا۔
پی۔ڈبلیو۔ڈی آفس کراچی کمپنی کے نزدیک پہنچنے کے بعد میں نے چائک کو فون کیا اور اس سے پوچھا کہ وہ اس وقت کہاں ہے۔اس نے بتایا کہ بس اڈے کے پاس جہاں میں نے اس کو اتارا تھا۔ بس اڈے کے نزدیک پہنچے چائک لاہور جانے والی بس کے نزدیک کھڑا تھا۔ کا پارک کر کے ہم دونوں نکلے چائک مجھے دیکھ کر نزدیک آگیا۔چائک سے دوست کا تعارف میں نے سائیٹ انجنئیر کے طور پر کرایا۔تعارف اور سلام کے بعد میں نے چائک سے پوچھا کہاں جانا ہے؟ اس نے بتایا کہ F-7/2جانا ہے ، دوست کو اچانک اپنے سگریٹ یاد آگئے اس نے معذرت کی اور کہا کہ وہ سامنے دکان سے سگریٹ لے آئے۔
چائک نے کہاکہ اس کے پاس سگریٹ ہیں، اس کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ صرف اپنا مخصوص برانڈ پیتا ہے۔کہہ کر دوست سگریٹ لینے چلا گیا۔تھوڑی دیر بعد واپس آیا۔ میں کار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔چائک نے رقم کے بارے میں پوچھا میں نے بریف کیس کو تھپتھپایا۔ہم F-7/2 کے لئے روانہ ہو گئے۔سیکٹر میں داخل ہونے سے پہلے میں نے پوچھا کہ کس سٹریٹ میں جانا ہے۔ چائک نے کسی سے موبائل سے پوچھا۔اس نے بتایا سٹریٹ بیس۔ میں نے چائک کو بتایا کہ مجھے نہیں معلوم کہ یہ سٹریٹ کس طرف ہے اگر وہ محسوس نہ کرے تو میں اپنے ایک دوست سے پوچھوں جو ایف سیون میں رہتا ہے اسے شاید معلوم ہو۔ میں نے سرسری طور پر دوست سے پوچھا اس نے لاعلمی ظاہر کی۔
میں نے موبائل پر ”ہمدرد“ سے پوچھا کہ کیا اسے علم ہے کہ F-7/2 میں سٹریٹ بیس کس طرف ہے؟ اُس نے کیا سمجھانا تھا بہر حال وہ پیغام سمجھ گیا۔ ہم سٹریٹ بیس کے اس سرے پر پہنچے جورانا مارکیٹ کی طرف ہے وہاں کارروک دی۔
چائک نے موبائل پر پوچھا کہ کس طرف آنا ہے اور بتایا کہ ہم سٹریٹ میں داخل
ہو جائیں اورکارمیں چلتے رہیں۔جس شخص نے ہمیں ملنا ہے وہ ہمیں مل جائے گا۔ کار
سٹریٹ بیس میں موڑی اور کار آہستہ آہستہ سٹریٹ میں رینگنے لگی۔
اس وقت شام کے ساڑھے سات یا پونے آٹھ بجے ہوں گے سٹریٹ مکمل سنسان تھی۔اسلام آباد کی ایک خوبی ہے کہ گرمیوں میں مغرب کے بعد گھروں کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔اکّادُکّا افراد یا گاڑیاں رہائشی علاقوں میں نظر آتی ہیں البتہ بزنس کے مرکزوں میں تھوڑا رش ہوتا ہے۔ سامنے سے آنے والی کار ہمارے پاس سے گزر گئی۔سٹریٹ لائیٹ کی روشنی میں دور تک کوئی متنفس نظر نہیں آرہا تھا۔ہم سٹریٹ کے درمیان میں پہنچ چکے تھے ہر طرف ہو کا عالم تھا۔ہمار ے پیچھے بھی کوئی کار نظر نہیں آرہی تھی۔ ہمدرد بھی نظر وں سے اوجھل تھے۔پانچ سو اور ہزار گز پر بنی ہوئی کوٹھیوں سے ٹی وی تک کی آواز نہیں آرہی تھی ایسامحسوس ہوتا تھا کہ گھروں کے سارے لوگ لائیٹیں بجھائے دبکے ہوئے تھے۔ شائد سارے گھر وں کے لوگ دم سادھے ہمارے ساتھ اس ڈیل کا انجام دیکھنے کے منتظر تھے۔۔
ہماری کار آہستہ آہستہ چلتی ہوئی سٹریٹ کے آخر میں پہنچ گئی۔ سٹریٹ کے خاتمے پردائیں طرف کونے پر بنی ہوئی کوٹھی کے کونے پر مجھے ایک چھ فٹ کا انسانی ہیولہ نظر آیا جو درختوں کے سایے میں فٹ پاتھ پر کھڑاتھا۔ میں نے چائک کی توجہ اس طرف دلائی۔اس نے کار روکنے کا کہا کار بالکل سٹریٹ کے کونے پر آگئی تھی میں اپنے دائیں طرف دور تک سنسان فٹ پاتھ دیکھ سکتا تھا۔ دور سے آنے والی روشنی میں کسی افریقی شخص کا ہیولا ہم سے صرف بیس فٹ کے فاصلے پر تھا۔چائک نے موبائل پر کال ملائی۔ہیولے نے موبائل کان سے لگایا۔دونوں میں افریقی زبان میں بات ہوئی۔اندھیرے میں کار سے اتر کر چائک اس ہیولے کی طرف بڑھا۔ہیولے نے ہم سے مخالف سمت چلنا شروع کر دیا۔ میں نے گردن موڑ کر پیچھے کی طرف دیکھا۔ دور تک سٹریٹ سنسان تھی۔ میں نے دوست کو کار سے نیچے اترنے کا کہا۔دونوں سایوں نے آپس میں کھڑے ہو کر بات کی۔ چائک واپس ہوا۔کوٹھی کے کونے کی دیوار کی طرف آتے ہوئے وہ نیچے جھکا دوسرے ہی لمحے اس کے ہاتھ میں ایک بریف کیس نظر آیا۔ وہ تیز قدموں کی طرف آیا اس نے کار میں جھانکا اور مجھے کہا کہ یہ بریف کیس لو او رمجھے رقم دو۔
اچانک میرے چہرے پر سٹریٹ میں مڑنے والی کار کی ہیڈلائیٹ کی روشنی پڑی۔ دو کاریں سٹریٹ میں سے ہماری طرف آرہی تھیں۔ میں نے چائک کو کہا کہ وہ کار میں بیٹھ جائے کیونکہ پیچھے سے کچھ کاریں آرہی ہیں۔چائک کار میں بیٹھ گیا۔ بیگ دینے والے افریقی کا ہیولا آہستہ آہستہ ہم سے دور جارہا تھا۔چائک کے بیٹھتے ہی میں نے اس سے کہا کہ وہ بریف کیس کھول کے دکھائے اس نے کہا کہ میں رقم اسے دے دوں وہ مجھے کل صبح موبائل پر بریف کیس کے لاک کے نمبر بتائے گا۔ میں نے شک ظاہر کیا کہ اس میں کیا معلوم دو لاکھ ڈالروں کے وزن کے برابر کاغذات ہوں۔جب تک وہ مجھے بریف کیس کھول کر نہیں دکھا تا میں اسے رقم نہیں دوں گا میں نے اپنا بریف کیس مضبوطی سے پکڑ لیا۔اتنے میں چائک کے موبائل کی گھنٹی بجی، چائک نے موبائل پر جھڑک کر افریقی زبان میں کوئی جواب دیا۔اور مجھ سے لجائے ہوئے لہجے میں کہنے لگا کہ میں اس پر شک نہ کروں۔
اتنے میں ایک پیجارو اور ایک کار ہمارے پاس آکر رکی اُس سے کچھ آدمی کود کر ہمارے طرف لپکے۔دوست نے دور جاتے ہوئے افریقی کی طرف اشارہ کیا دو ہیولے اس کی طرف دوڑے۔ایک نے کار کا دروازہ کھولا دوسرے نے چائک کو ہتھکڑی پہنا دی۔ میں اندھیرے میں اپنے سے دور جانے والے دونوں ہیولوں کو اندھیرے میں غائب ہوتا دیکھا۔چائک نے زخمی نظروں سے میری طرف دیکھا۔میں نے کندھے اچکا کر کہا۔ سوری۔lets do a final deal at police station
اس وقت شام کے ساڑھے سات یا پونے آٹھ بجے ہوں گے سٹریٹ مکمل سنسان تھی۔اسلام آباد کی ایک خوبی ہے کہ گرمیوں میں مغرب کے بعد گھروں کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔اکّادُکّا افراد یا گاڑیاں رہائشی علاقوں میں نظر آتی ہیں البتہ بزنس کے مرکزوں میں تھوڑا رش ہوتا ہے۔ سامنے سے آنے والی کار ہمارے پاس سے گزر گئی۔سٹریٹ لائیٹ کی روشنی میں دور تک کوئی متنفس نظر نہیں آرہا تھا۔ہم سٹریٹ کے درمیان میں پہنچ چکے تھے ہر طرف ہو کا عالم تھا۔ہمار ے پیچھے بھی کوئی کار نظر نہیں آرہی تھی۔ ہمدرد بھی نظر وں سے اوجھل تھے۔پانچ سو اور ہزار گز پر بنی ہوئی کوٹھیوں سے ٹی وی تک کی آواز نہیں آرہی تھی ایسامحسوس ہوتا تھا کہ گھروں کے سارے لوگ لائیٹیں بجھائے دبکے ہوئے تھے۔ شائد سارے گھر وں کے لوگ دم سادھے ہمارے ساتھ اس ڈیل کا انجام دیکھنے کے منتظر تھے۔۔
ہماری کار آہستہ آہستہ چلتی ہوئی سٹریٹ کے آخر میں پہنچ گئی۔ سٹریٹ کے خاتمے پردائیں طرف کونے پر بنی ہوئی کوٹھی کے کونے پر مجھے ایک چھ فٹ کا انسانی ہیولہ نظر آیا جو درختوں کے سایے میں فٹ پاتھ پر کھڑاتھا۔ میں نے چائک کی توجہ اس طرف دلائی۔اس نے کار روکنے کا کہا کار بالکل سٹریٹ کے کونے پر آگئی تھی میں اپنے دائیں طرف دور تک سنسان فٹ پاتھ دیکھ سکتا تھا۔ دور سے آنے والی روشنی میں کسی افریقی شخص کا ہیولا ہم سے صرف بیس فٹ کے فاصلے پر تھا۔چائک نے موبائل پر کال ملائی۔ہیولے نے موبائل کان سے لگایا۔دونوں میں افریقی زبان میں بات ہوئی۔اندھیرے میں کار سے اتر کر چائک اس ہیولے کی طرف بڑھا۔ہیولے نے ہم سے مخالف سمت چلنا شروع کر دیا۔ میں نے گردن موڑ کر پیچھے کی طرف دیکھا۔ دور تک سٹریٹ سنسان تھی۔ میں نے دوست کو کار سے نیچے اترنے کا کہا۔دونوں سایوں نے آپس میں کھڑے ہو کر بات کی۔ چائک واپس ہوا۔کوٹھی کے کونے کی دیوار کی طرف آتے ہوئے وہ نیچے جھکا دوسرے ہی لمحے اس کے ہاتھ میں ایک بریف کیس نظر آیا۔ وہ تیز قدموں کی طرف آیا اس نے کار میں جھانکا اور مجھے کہا کہ یہ بریف کیس لو او رمجھے رقم دو۔
اچانک میرے چہرے پر سٹریٹ میں مڑنے والی کار کی ہیڈلائیٹ کی روشنی پڑی۔ دو کاریں سٹریٹ میں سے ہماری طرف آرہی تھیں۔ میں نے چائک کو کہا کہ وہ کار میں بیٹھ جائے کیونکہ پیچھے سے کچھ کاریں آرہی ہیں۔چائک کار میں بیٹھ گیا۔ بیگ دینے والے افریقی کا ہیولا آہستہ آہستہ ہم سے دور جارہا تھا۔چائک کے بیٹھتے ہی میں نے اس سے کہا کہ وہ بریف کیس کھول کے دکھائے اس نے کہا کہ میں رقم اسے دے دوں وہ مجھے کل صبح موبائل پر بریف کیس کے لاک کے نمبر بتائے گا۔ میں نے شک ظاہر کیا کہ اس میں کیا معلوم دو لاکھ ڈالروں کے وزن کے برابر کاغذات ہوں۔جب تک وہ مجھے بریف کیس کھول کر نہیں دکھا تا میں اسے رقم نہیں دوں گا میں نے اپنا بریف کیس مضبوطی سے پکڑ لیا۔اتنے میں چائک کے موبائل کی گھنٹی بجی، چائک نے موبائل پر جھڑک کر افریقی زبان میں کوئی جواب دیا۔اور مجھ سے لجائے ہوئے لہجے میں کہنے لگا کہ میں اس پر شک نہ کروں۔
اتنے میں ایک پیجارو اور ایک کار ہمارے پاس آکر رکی اُس سے کچھ آدمی کود کر ہمارے طرف لپکے۔دوست نے دور جاتے ہوئے افریقی کی طرف اشارہ کیا دو ہیولے اس کی طرف دوڑے۔ایک نے کار کا دروازہ کھولا دوسرے نے چائک کو ہتھکڑی پہنا دی۔ میں اندھیرے میں اپنے سے دور جانے والے دونوں ہیولوں کو اندھیرے میں غائب ہوتا دیکھا۔چائک نے زخمی نظروں سے میری طرف دیکھا۔میں نے کندھے اچکا کر کہا۔ سوری۔lets do a final deal at police station
ایف۔آئی۔اے کے ماہر
وں نے چائک کو اپنی کار میں بٹھا لیا۔ تھوڑی دیر بعد تعاقب کرنے والے دونوں ہمدرد
آگئے۔ ایک بولا، سوری سر وہ نالے میں کود کر غائب ہو گیا۔ دوسرے کا ایڈریس
یہ خودبتائے گا۔آیئے آفس چلتے ہیں۔ میں نے موبائل پر اپنے بیٹے ارمغان کو بتایا کہ
مشن مکمل ہو گیا ہے وہ گھر چلا جائے۔ ہم گھنٹے بعد واپس آجائیں گے۔
تھوڑی دیر بعد ہم اوجھڑی کیمپ کے عقب میں واقع ایف آئی اے پاسپورٹ سیل کے آفس میں۔دولاکھ ڈالر سے بھرا ہو بریف کیس کھولنے کی کوشش کر رہے تھے۔چائک کے موبائل پر بار بار کال آرہی تھی۔ شاید بچ کر بھاگنے والا افریقی، چائک کے بارے میں جاننے کے لئے رنگ کر رہا تھا۔ بریف کیس کھلا۔ایک تیز کیمیکل کی بو کمرے میں پھیل گئی۔بریف کیس میں کسی کیمیکل کی چھ چھوٹی بوتیں۔کالے رنگ کے ڈالروں کے سائز کے بیس پیکٹ اور روئی موجود تھی۔ایف آئی اے انسپکٹر نے بریف کرتے ہوئے بتایا کہ ان میں سے ہر گڈی کے دونوں طرف سو ڈالر کے جعلی نوٹ ہیں۔کل یہ آپ کے آفس میں آتا اور کیمکل کے ذریعے آپ کو چار یا پانچ نوٹ صاف کر کے دکھاتا یہ کیمیکل ان سب نوٹوں کو صاف کرنے کے لئے کافی نہیں۔لہذا آپ کو مزید ڈالرز ادا کر نے کا کہا جاتا رقم اتنی مانگی جاتی کہ آپ یہ صاف ہونے والے نوٹ شامل کر کے اور ڈالرز دیتے۔
لاہور کے ایک ارب پتی بننے والے ”معصوم“ شخص نے کل سولہ ہزار اصلی ڈالرز ان جعلی ڈالروں کو صاف کرنے کے لئے ادا کئے۔سب سے دکھی داستان جو بتائی گئی وہ ایک ریٹائرڈفوجی کی تھی جس نے اپنی پنشن کے بدلے یہ نوٹ حاصل کئے۔پھر انہیں صاف کرکے روپوں میں تبدیل کرانے کی کوشش میں گرفتار ہوا۔
میں نے وہ بریف کیس اٹھایا اور حوالات میں بند چائک کے کمرے کے سامنے جاکر پوچھا۔کہ یہ وہ ڈالر ہیں جو وہ مجھے آٹھ ہزار ڈالر وں کے بدلے میں دے رہا تھا؟ اس کے چہرے پر کوئی تبدیلی نہیں آئی۔پورے اعتماد سے قسم کھا کر کہنے لگا کہ اسے نہیں معلوم اس میں کیا ہے۔ دوسرے شخص نے اسے بھی دھوکہ دیا ہے۔ کس نے کس کو دھوکہ دیا؟ اس کا اندازہ قارئین اچھی طرح لگا سکتے ہیں۔ویسے راز کی بات چائک کو معلوم نہ ہو تو بتاتا ہوں۔میرے بریف کیس میں بھی اخبار بھرے ہوئے تھے۔
تھوڑی دیر بعد ہم اوجھڑی کیمپ کے عقب میں واقع ایف آئی اے پاسپورٹ سیل کے آفس میں۔دولاکھ ڈالر سے بھرا ہو بریف کیس کھولنے کی کوشش کر رہے تھے۔چائک کے موبائل پر بار بار کال آرہی تھی۔ شاید بچ کر بھاگنے والا افریقی، چائک کے بارے میں جاننے کے لئے رنگ کر رہا تھا۔ بریف کیس کھلا۔ایک تیز کیمیکل کی بو کمرے میں پھیل گئی۔بریف کیس میں کسی کیمیکل کی چھ چھوٹی بوتیں۔کالے رنگ کے ڈالروں کے سائز کے بیس پیکٹ اور روئی موجود تھی۔ایف آئی اے انسپکٹر نے بریف کرتے ہوئے بتایا کہ ان میں سے ہر گڈی کے دونوں طرف سو ڈالر کے جعلی نوٹ ہیں۔کل یہ آپ کے آفس میں آتا اور کیمکل کے ذریعے آپ کو چار یا پانچ نوٹ صاف کر کے دکھاتا یہ کیمیکل ان سب نوٹوں کو صاف کرنے کے لئے کافی نہیں۔لہذا آپ کو مزید ڈالرز ادا کر نے کا کہا جاتا رقم اتنی مانگی جاتی کہ آپ یہ صاف ہونے والے نوٹ شامل کر کے اور ڈالرز دیتے۔
لاہور کے ایک ارب پتی بننے والے ”معصوم“ شخص نے کل سولہ ہزار اصلی ڈالرز ان جعلی ڈالروں کو صاف کرنے کے لئے ادا کئے۔سب سے دکھی داستان جو بتائی گئی وہ ایک ریٹائرڈفوجی کی تھی جس نے اپنی پنشن کے بدلے یہ نوٹ حاصل کئے۔پھر انہیں صاف کرکے روپوں میں تبدیل کرانے کی کوشش میں گرفتار ہوا۔
میں نے وہ بریف کیس اٹھایا اور حوالات میں بند چائک کے کمرے کے سامنے جاکر پوچھا۔کہ یہ وہ ڈالر ہیں جو وہ مجھے آٹھ ہزار ڈالر وں کے بدلے میں دے رہا تھا؟ اس کے چہرے پر کوئی تبدیلی نہیں آئی۔پورے اعتماد سے قسم کھا کر کہنے لگا کہ اسے نہیں معلوم اس میں کیا ہے۔ دوسرے شخص نے اسے بھی دھوکہ دیا ہے۔ کس نے کس کو دھوکہ دیا؟ اس کا اندازہ قارئین اچھی طرح لگا سکتے ہیں۔ویسے راز کی بات چائک کو معلوم نہ ہو تو بتاتا ہوں۔میرے بریف کیس میں بھی اخبار بھرے ہوئے تھے۔
دوسرے دن میں جب کراچی جانے کے لئے اسلا م آباد کے
لاونج میں بیٹھا تھا کہ میرے موبائل کی گھنٹی بجی نمبر 00628567923749 تھا
اور مخاطب مسٹر ٹو ٹو۔ڈیوب تھے جو پوچھ رہے تھے کہ کیا لاٹری میں
نکلنے والے دس ہزار ڈالر لینے میں دلچسپی رکھتے ہی یا نہیں؟
قارئین آپ ہی بتایئے کہ ہم دلچسپی ظاہر کریں یا نہیں؟ آپ کی ای میل کا انتظار
ہے۔
یہ بھی پڑھئیے
٭- آپ کا قیمتی انگوٹھا
٭-موبائل پر فراڈ
٭-موبائل پر فراڈ
٭ - انٹرنیٹ
فراڈ -
٭-
ھیکرز -
Excellent & informative.
جواب دیںحذف کریںSuch people are still around they even contact on personal message like this:
----------------------------------------------
My Dear love.
How are you today? I am very happy in your reply, which i told you to contact me, and How was your days? Mine is little, well i thank God for keeping me till this moment here in Dakar Senegal,My name is Maureen Ngasi i am 24 years from Ivory Coast in West Africa and presently i am residing in the refugee camp here in Dakar as a result of the civil war going on in my country, please don't be discouraged for hearing this,
My late father( Dr. frank Ngasi) was the personal adviser to the former head of state (Late Dr Robert Guei) before the rebels attacked our house one early morning and killed my mother and my father.It was only me is alive now and i managed to make my way to a near by country Senegal where i am leaving now,
i don't have any relatives now whom i can go to all my relatives ran away in the middle of the war the only person i have now is Rev.John Kamaga. who is the pastor of the (Christ for all Mission) here in the camp he has been very nice to me since i came here but i am not living with him rather i am leaving in the woman's hostel because the camp have two hostels one for men the other for women.
The Pastors Tel number is (+221-775-039-156) i will like you to call me today or any day you like to call me if you call tell the Rev Pastor John Kamaga . that you want to speak with me he will send for me in the hostel.
As a refugee here i don't have any right or privilledge to any thing be it money or whatever because it is against the law of this country.I want to go back to my studies because i only attended my first year before the tragic incident that lead to my being in this situation now took place.
Please listen to this,i have my late father's statement of account and death certificate here with me which i will send to you latter,because when he was alive he deposited some amount of money in a leading bank in Europe which he used my name as the next of kin,the amount in question is $5.7M(Five Million seven Hundred Thousand Dollars).
So i will like you to help me transfer this money to your account and from it you can send some money for me to get my traveling documents and air ticket to come over to meet with you.I kept this secret to people in the camp here the only person that knows about it is the Reverend because he is like a father to me.
So in the light of above i will like you to keep it to yourself and don't tell it to anyone for i am afraid of loosing my life and the money if people gets to know about it.
Remember i am giving you all this information due to the trust i deposed on you.
I like honest and understanding people,truthful and a man of vision,truth and hardworking.
My favorite language is English but our language is french but i speak English very fluently.Meanwhile i will like you to call me like i said i have a lot to tell you.
Have a nice day and think about me.
Awaiting to hear from you soonest.
Yours in love
Maureen.