Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعرات، 15 جنوری، 2015

10 جنوری 2015 بوڑھے کی ڈائری - بگھارے بینگن!



بیگن کے بارے میں ہم بچپن میں اتنا جانتے تھے ، کہ اِسے "بتاؤں " بھی کہا جاتا ہے ۔  بتاؤں غالباً لمبے ہوتے اور بیگن گول ۔
تو بس بچپن سے ہی "بتاؤں و بیگن و بتنگڑ" ہمارے رقیب تھے ۔ نہ صرف ہمارے نہیں بلکہ سب بہن بھائیوں کے تھے ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ دادی اور چچا ہمارے پاس لاہور آئے ۔ رات کو آٹے کے کنستر پر  شراشرتیں کرتے چوہوں میں سے ایک شامت کا مارا ، چچا کے ہاتھوں اسیرِ موت ہوا ۔ وہ اسے دم سے پکڑ کر لٹکائے ہوئے ۔ ہمیں ڈرانے لگے ۔ کبھی پنڈولم کی طرح ھلاتے اور کبھی گھڑیال کی سوئیوں کی طرح ۔ میں اور آپا چادر میں منہ چھپائے چینخیں مارتے ۔

کوئی دوسرا اور تیسرا دن تھا ۔ امی نے "بینگن" بنائے ۔ امی چونکہ اجمیر کی رہنے والی تھیں ۔ لہذا مصالحے دار بینگن، بگھارے بیگن ، بینگن کا بھرتہ ، بینگن بھرے پراٹھے اور تلے ہوئے بیگن بنا کر ابا کے دل میں اترنے کا راستہ بناتیں ۔ 


میں اور آپا چینی اور گھی او روٹی رول کھا رہے تھے ، کہ چچا نے ، سالن میں لتھڑے کالے رنگ کے بتاؤں کو اُٹھایا اور منہ میں ڈالتے ہوئے کہا ،
"بھابی ! آج تو کھانے کا مزہ آگیا " ۔

" تتا، تتا ، توہا توہا '' چھوٹا بھائی چلایا ۔

میں نے نظریں اٹھا کر دیکھا ، اور رات کا منظر میری آنکھوں کے سامنے گھوم گیا ۔ بینگن، چوہے کی طرح جھولتا ہوا ، چچا کے منہ میں غائب ہو رہا تھا ۔ 


اُف ، یہ منظر ذہن پر نقش ہو گیا ۔جونہی گھر میں بینگن پکتے ، میں کھانا کھانے سے انکار کر دیتا ۔

اللہ تعالیٰ جنت میں اونچا مقام عطا فرمائے ۔ والد کا ایک ہی شوق تھا ، گھر کے سامنے خالی جگہ پر سبزیوں کا کھیت  لگانا ۔ فوج میں گھروں کے پیچھے کافی جگہ ہوتی تھی ، یہ 1957 کا دور تھا ۔ کنال سے لے کر چار کنال تک آپ کاشت کر سکتے تھے ۔ ورکنگ مل جاتی ، پانی بے تحاشا ، کھاد ڈیری فارم سے مل جاتی ۔

پانچ دس گھروں میں سبزیاں بھیجنا روزانہ جانا معمول ہوتا ، اور بچے ہم سے جھگڑتے ، لیکن ہم خود مظلومین میں شامل تھے ۔  


نواب شاہ میں ہم ، ماموں کے گھر میں  1960" بیگن" سے متعارف ہوئے ، وہاں بتاؤں ، کو کوئی نہیں پہچانتا تھا ۔ بس لمبے بینگن اور گول بینگ ۔  پتلے بینگن اور موٹے بینگن ، میرپورخاص اور حیدر آباد میں بھی بیگنوں کی حکومت تھی ۔ ہاں البتہ بہاولپور میں بتاؤں اور بیگن دونوں چلتے تھے ۔
آج کل ہم دونوں میاں اور بیوی ، وزن کم کرنے کے لئے ، روزانہ واک پر نکلتے ہیں - لمبا چکر کاٹ کر مارکیٹ پیدل جاتے ہیں ۔ کچھ چیزیں خرید لیتے ہیں ۔ 

 بیگم سبزی کی دکان میں گئی کہ سبزیاں ختم ہو گئی ہیں وہ لیتے ہیں ۔ سبزی کی دکان موسمِ سرما کی سبزیوں سے بھری ہوئی تھی ۔ 
بیگم نے پوچھا ، " کیا کیا سبزی لی جائے؟"
 ہم نے کہا ، " آلو، اروی ، گوبھی اور پالک لے لو " ،
بیگم  نے اروی کو آلو کی قبیل کا بتاتے ہوئے ، آلو کو ترجیح دی ۔ پالک بھی لی ۔ 
اُن کی شدت سے خواہش تھی کہ کدو یا گھیا توری لی جائے ۔ اِس سے پہلے ہمیں غَش آجاتا، ہماری نظریں ، بیگن پر پڑی ۔ ہم نے کہا
" جس طرح اروی اور آلو زمین کے نیچے اُگنے کی وجہ سے ایک قبیلہ بنتا ہے اِس طرح ، زمین کے اوپر اُگنے کی وجہ سے ، کدّو اور گھیاتوری کا بڑا بھائی بیگن اہمیت رکھتا ہے جب بگھارا جائے"۔

تو قارئین ، بیگن کے ڈھیر میں سے اُنہوں نے فقط چار بیگن چنے ، متناسبُ الاعضا و رنگت اور سر پر سبز رنگ کا تاج ۔
 

ہم نے کہا،
"بیگم بزگوں نے کہا ہے کہ بلا شبہ ، شہنشاہ کی موجودگی میں ۔ چوبداروں اور دربانوں کو دسترخوان کی زینت بنانا گناہ کبیرہ ہے ۔ "

اُنہوں نے گھیا توری اُٹھاتے ہوئے کہا،
" اکثر بیویاں چونکہ خاندانِ غلاماں سے تعلق رکھتی ہیں ، لہذا انہیں چوبداروں سے بھی ہمدردی ہوتی ہے "

تو یوں ہمارے درمیان ایک معاہدہ طے پایا ۔ جس کے مطابق ، اگر ہمارا دل چاہے تو ہم ،
گھیا توری پر بھی مہربان ہوسکتے ہیں ، ورنہ ۔ ۔ ۔ ۔ 
ہمیں اتوار کے پکے ہوئے ، بیسن کے قتلے کھانے پڑیں گے ۔

کبھی کھائے ہیں آپ نے فرج میں رکھے ہوئے ، تین دن پرانے بیسن کے قتلے ؟


نوٹ: ڈاکٹر ، صرف فقیری نسخہ،  برائے ترکیبِ بینگن ہائے جات  استعمال کریں ! 
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

پڑھیں ۔  فقیری بینگن 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔