بیس جنوری ، یعنی آج سے ٹھیک تین دن پہلے کی بات ہے ۔ دن بھر کی مصروفیت کے
بعد میں رات گیارہ بجے سے ڈیڑھ بجے تک بچپن کے دوستوں سے کانفرنس کال پر گپ شپ
لگائی ، ہر قسم کا موضوع ، زیرِ بحث آیا ۔ جس میں ھارٹ اٹیک اور کارڈیک اریسٹ کے
موضوع بھی تھے ۔کیوں کہ 18 جنوری کو ھارٹ اٹیک کی وجہ سے ترمذی ہم سے جدا ہو گیا
تھا ۔
ھاں تو ذکر ہے بیس جنوری کی رات ڈیڑھ بجے ، ہم دوستوں سے گپ شپ ختم کر کے ۔ جب
بستر پر لیٹے تو نیند کوسوں دور تھی ، لہذا موبائل اٹھا لیا اور وٹس ایپ پر دوستوں
کے پوسٹ کئے ہوئے دنیابھر سے آئے ہوئے پیغامات پڑھنے لگے ، کئی فلمیں بھی آئیں
تھیں ۔ جن میں سے چیدہ چیدہ دوسرے گروپس کو بھجوائیں ۔ دو بجے فارغ ہوئے تو احساس
ہوا دائیں ھاتھ میں درد ہے ، پیشانی پر ھاتھ لگایا پسینے سے تر تھی ، نبض چیک کی
تو 60 پر دھڑکنے والی نبض 80 پر پہنچی ہوئی تھی ، سوچا دوسرے کمرے میں جاکر بیگم
کو اُٹھاؤں ، وہ ہماری مصروفیت سے تنگ ہیں لہذا رات زیادہ ہونے پر میں سٹڈی میں ہی
سوتا ہوں ۔ کیوں کہ ہم نے عادت بنا رکھی ہے ۔ کہ جونہی نیند آئی سو گئے ۔ اب کیا
بتائیں ، خبریں سننا ، فیس بک پر لوگوں و بھاشن دینا، بلاگرز پر قلم کاریاں
کرنا اور رات کو ، یو فون کے سپر کارڈ سے استفادہ کرتے ہوئے ، کانفرنس کالیں
کرنا ۔ اب ایسی بُری عادتوں کی موجودگی میں تو سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے ۔
تو خیر ،کوریڈور میں لگی میڈیسن کیبنٹ سے دو عدد ڈسپرین نکالیں ۔ چبا کر پانی سے نگل لیں ۔ سوچا بلڈ پریشر چیک کیا جائے ۔ لیکن بی پی اپریٹس بیگم کے بیڈروم میں تھا ۔ دروازہ کھولنے سے اُن کی آنکھ کھل جاتی ، کیوں کہ دروازہ بری طرح چرچراتا تھا اور وہ اُسے چالو کرنے نہیں دیتیں ، بصورت دیگر وہ ہماری رات کو سٹڈی سے دیر سے آنے پر ہماری چوری نہیں پکڑ سکتیں ۔ کاوچ پر سو سو کر ہماری کمر دائیں طرف کو جھکتی جا رہی تھی تو ہم نے سٹڈی میں چارپائی ڈلوادی اور ہم کمرہ بدر ہوگئے ، کمرہ بدر تو ہم بہت پہلے ہو گئے تھے ۔ کیوں کہ ، بڑی بیٹی آئے تو وہ ماں کے ساتھ سوتی ہے ، چم چم ویک اینڈ پر آئے تو نانو کے پاس ، چھوٹی بیٹی ماں کے پاس اور بوڑھا باپ سٹڈی میں ۔ کیوں کہ اُن کا دعویٰ ہے کہ گیسٹ روم ، باہر سے آنے والے گیسٹوں کے لئے ہے ۔
ھاں تو ڈسپرین کھا کر ہم بستر پر لیٹ گئے ۔ الحمد پڑھا ، کلمہ پڑھا اور انا للہ پڑھا اور سو گئے ۔
صبح آنکھ کھلی ، سوچا چند قدم اور مل گئے ۔ ناشتہ کرتے وقت بیگم نے پوچھا،
" رات کو کچن میں گئے تھے "۔
" کیا تم جاگی ہوئیں تھیں ؟" میں نے پوچھا ۔
مجھے نیند نہیں آرہی تھی تو اُٹھ کر نماز پڑھنے لگی ۔ تو مجھے کھٹکا محسوس ہوا ۔ سمجھی کہ آپ ہوں گے " ۔ بیگم نے جواب دیا-
" ہاں رات کو گلاس لینے گیا تھا " میں جواب دیا
"۔ بھوک لگی تھی کیا؟ " بیگم نے سوال کیا ۔
انہیں معلوم ہے ، ہے رات کو ہم اکثر ، سویٹ ڈش یا سیب وغیرہ کھاتے ہیں ۔ وہ یہی سمجھیں ۔ لیکن ہم نے انہیں بتایا کہ رات ہو ہمارے دائیں ھاتھ میں درد ہوا ہم سمجھے کہ بس اب قدم ختم ہونے کا وقت آگیا ہے ۔ اور واقعہ بتایا ۔
" آپ اٹھا دیتے - کیوں نہیں اٹھا ؟" غصے میں بولیں ۔
" کیا فائدہ ہوتا ؟ اگر قدم پورے ہونے کا وقت آگیا ہوتا تو خواہ مخواہ رات بھر روتی رہتیں ، اور اگر نہیں ، تو مجھے خواہ خواہ شرمندگی ہوتی ۔ اب ٹھیک ہوں تو سب ٹھیک ہے " میں نے ہنستے ہوئے جواب دیا ۔
اُس نے بچوں کو بتا دیا ، چھوٹی بہو کا فون آیا وہ ڈاکٹر ہے اُس نے فوراً جا کر ای سی جی کروانے کا کہا تھا ۔
" بیٹی ، گاڑی میں پیٹرول کم ہے ، جو صرف ایمر جنسی کے لئے رکھا ہے ۔ " میں نے بتایا -
" بیٹی ، گاڑی میں پیٹرول کم ہے ، جو صرف ایمر جنسی کے لئے رکھا ہے ۔ " میں نے بتایا -
" انکل ، کیا یہ ایمر جنسی نہیں" بہو نے جواب دیا ۔
" بیٹی ، میرے نزدیک جو ایمر جنسی ، آپ کی آنٹی کو اُن کی طبیعت خراب ہونے کی صورت میں ہسپتال لے کر جانا ہے ۔ رہا میں ، تو خواہ مخواہ ایمرجنسی کا سگنل کیوں دوں ۔ بہر حال ، جونہی موسم ٹھیک ہوا تو میں لازمی جاؤں گا " میں نے جواب دیا ۔
آج بیگم نے زبردستی باہر نکالا ، بتایا کہ اگر گاڑی راستے میں کھڑی ہو گئے تو کیا کریں گے ؟ کیوں کہ اے ایف آئی، سی سی ایم ایچ سے دور ہے ۔
" میں کچھ نہیں جانتی چلیں " بیگم نے ڈانٹتے ہوئے کہا ۔
ہم نے سوچا ۔ چلو ۔ باہر کی ہوا سے مستقید ہوں ۔ شہر دیکھیں ۔ گھر سے نکلے جی ٹی روڈ پر آئے ۔ پہلا پی ایس او کا پیٹرول پمپ پولیس چیک پوسٹ سے پہلے تھا ۔ اور دور سے خالی نظر آرہا تھا ۔ دل دھڑکا کہ پیٹرول پمپ بند ہے ، نزدیک پہنچے تو پانچ گاڑیاں کھڑی تھیں ہم نے بھی ڈرتے ڈرتے لائن میں لگا دی ۔
باری آئی تو ، پیٹرول مین نے پوچھا ، " کتنے کا ڈالوں ؟ "
ہم نے ڈرتے ڈرتے کہا ، " پانچ سو روپے کا ڈال دو " کیوں کہ ہم نے سنا تھا کہ راشننگ ہو گئی ۔
" بس ؟" ، اُس نے حیرانی سے دیکھتے ہوئے کہا ۔
" چلو تمھاری خوشی ، دو ہزار کا ڈال دو " ہم نے ہمت سے کہا ۔
" جی بہتر ، آپ میٹر دیکھ لیں " اُس نے کہا ۔
ہم گاڑی سے اترے، " کیا آج پیٹرول کی حالت ٹھیک ہوگئی ہے "
" سر یہ تو کل دوپہر ہی سے ٹھیک ہو گئی تھی ۔ بس لوگوں کو " ہوکا " تھا ۔ سر ، ھماری قوم ۔ سب سے جاھل قوم ہے - اِس کا اخلاق دیکھنا ہو ۔ مصیبت میں دیکھیں "
واقعی ، میں نے دل میں سوچا ۔
اگر انڈیا جنگ چھیڑ دے یا
امریکہ ایران کی طرح پاکستان کے معاشی راستے بند کروادے
تو اِس منتشر اور ابن الوقت قوم کا کیا حال ہو جو ؟
ؔاِس پرچم کے سائے تلے ایک ہونے کا دعویٰ کرتی ہے !
" بیٹی ، میرے نزدیک جو ایمر جنسی ، آپ کی آنٹی کو اُن کی طبیعت خراب ہونے کی صورت میں ہسپتال لے کر جانا ہے ۔ رہا میں ، تو خواہ مخواہ ایمرجنسی کا سگنل کیوں دوں ۔ بہر حال ، جونہی موسم ٹھیک ہوا تو میں لازمی جاؤں گا " میں نے جواب دیا ۔
آج بیگم نے زبردستی باہر نکالا ، بتایا کہ اگر گاڑی راستے میں کھڑی ہو گئے تو کیا کریں گے ؟ کیوں کہ اے ایف آئی، سی سی ایم ایچ سے دور ہے ۔
" میں کچھ نہیں جانتی چلیں " بیگم نے ڈانٹتے ہوئے کہا ۔
ہم نے سوچا ۔ چلو ۔ باہر کی ہوا سے مستقید ہوں ۔ شہر دیکھیں ۔ گھر سے نکلے جی ٹی روڈ پر آئے ۔ پہلا پی ایس او کا پیٹرول پمپ پولیس چیک پوسٹ سے پہلے تھا ۔ اور دور سے خالی نظر آرہا تھا ۔ دل دھڑکا کہ پیٹرول پمپ بند ہے ، نزدیک پہنچے تو پانچ گاڑیاں کھڑی تھیں ہم نے بھی ڈرتے ڈرتے لائن میں لگا دی ۔
باری آئی تو ، پیٹرول مین نے پوچھا ، " کتنے کا ڈالوں ؟ "
ہم نے ڈرتے ڈرتے کہا ، " پانچ سو روپے کا ڈال دو " کیوں کہ ہم نے سنا تھا کہ راشننگ ہو گئی ۔
" بس ؟" ، اُس نے حیرانی سے دیکھتے ہوئے کہا ۔
" چلو تمھاری خوشی ، دو ہزار کا ڈال دو " ہم نے ہمت سے کہا ۔
" جی بہتر ، آپ میٹر دیکھ لیں " اُس نے کہا ۔
ہم گاڑی سے اترے، " کیا آج پیٹرول کی حالت ٹھیک ہوگئی ہے "
" سر یہ تو کل دوپہر ہی سے ٹھیک ہو گئی تھی ۔ بس لوگوں کو " ہوکا " تھا ۔ سر ، ھماری قوم ۔ سب سے جاھل قوم ہے - اِس کا اخلاق دیکھنا ہو ۔ مصیبت میں دیکھیں "
واقعی ، میں نے دل میں سوچا ۔
اگر انڈیا جنگ چھیڑ دے یا
امریکہ ایران کی طرح پاکستان کے معاشی راستے بند کروادے
تو اِس منتشر اور ابن الوقت قوم کا کیا حال ہو جو ؟
ؔاِس پرچم کے سائے تلے ایک ہونے کا دعویٰ کرتی ہے !
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں