Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعرات، 20 جولائی، 2023

اہرام مصر ایک عجوبہ


 ٭اہرام مصر کی تعمیر میں اس قدر سائنسی راز پوشیدہ ہیں کہ میں نے چاہا کہ آپ کو ان سے آگاہ کروں. آپ پڑھ کر یقین نہیں کرینگے مگر یہ حقیقت پر مبنی حقائق ہیں، پڑھیے:۔

 ٭. جو پتھر اہرام کی تعمیر میں لگائے گئے ہیں انکا وزن 2 سے 15 ٹن تک ہے. 
٭. اہرام میں تقریباً 30 لاکھ پتھر لگائے گئے ہیں. 
٭. فرعون کے کمرے کی چھت پر جو پتھر لگا ہے اسکا وزن 70 ٹن ہے یعنی 70 ہزار کلوگرام اور آج تک کوئی یہ حل پیش نہیں کرسکا کہ کس طرح بنانے والوں نے اتنا بڑا اور وزنی پتھر چھت پر لگایا. 
٭. اِہرام کی بلندی 149.4 میٹر ہے اور آپکو تعجب ہوگا کہ زمین اور سورج کے درمیان 149.4 ملین کلومیٹر کا فاصلہ ہی ہے. 
٭. اہرام کے اندر جانے کا راستہ ایک ستارہ یعنی شمالی پول کی سمت بتلاتا ہے اور اندرونی راستہ سگ ستارہ کی جانب اشارہ کرتا ہے، (جسکا ذکر سورۃ نجم آیت 49 میں آیا ہے). 
٭. اگر آپ گوشت کا تازہ ٹکڑا اہرام کے کمرے میں رکھیں گے تو وہ سڑے گا نہیں بلکہ خشک ہوجائے گا، یہ راز آج تک راز ہے۔ 
٭. اہرام کے سرکم فرینس (محیط) کو اگر اسکی اونچائی سے تقسیم کیا جائے تو یہ 3.14 کے برابر ہے جو ریاضی اور فزکس میں پائی کے طور پر استعمال ہوتا ہے یعنی اگر کسی دائرے کے محیط کو اسکے قطر سے تقسیم کریں تو یہ عدد ملتا ہے، یہ ناقابل یقین کرشمہ ہے. 
٭.رات کے وقت اہرام چمکتا ہے کیونکہ اس پر برقی رنگ کی پالش کی گئی ہے جس طرح بعض گھڑیوں کا ڈائل رات کو چمکتا ہے کیونکہ اسکی سوئیوں اور نمبروں پر تابکار دھات ریڈیم کے رنگ کی پالش ہوتی ہے.
٭.تینوں اہراموں کی لائن، آسمان میں چمکنے والے ستاروں (Belt of Orinion) کے متوازی (Parallel) ہے. 
٭. سال میں ایک دن سورج کی شعائیں اہرام کے اندر داخل ہوتی ہیں، یہ دن فرعون کا یومِ پیدائش ہے. 
٭. اہرام میں رکھی تلواریں اور چھریاں زنگ آلود نہیں ہوتیں حالانکہ ہزاروں برسوں سے وہ وہاں موجود ہیں اور سائنسدان آج تک اس راز کو نہیں سمجھ سکے. . اہرام کے چند کمروں میں بہت سے آلات بند ہوجاتے ہیں اور سائنسدان آج تک یہ راز حل نہیں کرسکے.
٭. تعجب کی بات ہے اور راز ہے کہ تینوں اہراموں سے جو لکیر گزرتی ہے وہ بحر اوقیانوس میں واقع برمودا ٹرائی اینگل اور بحرالکاہل میں واقع فارموسا ٹرائی اینگل کو آپس میں ملاتی ہے یہ دونوں جگہیں اپنی عجیب خصوصیات کی وجہ سے بہت مشہور ہیں. یہاں ہوائی جہاز، بحری جہاز، غائب ہوجاتے ہیں اور کمپاس کام کرنا بند کر دیتے ہیں. 
٭. بڑے اہرام میں 3 کمرے ہیں، دو زمین سے اوپر ہیں اور ایک زمین کے اندر اور کہا جاتا ہے کہ میرابی  نامی شخص, ماہر انجینئر نے یہ اہرام تقریباً 20 برسوں میں بنایا تھا اور ایک لاکھ مزدوروں نے اسکی تعمیر میں جان کھوئی تھی.
٭. اہرام کی بنیاد کے چاروں رُخ نہایت تعجب کے ساتھ زمین کی چاروں سمتوں کی جانب اشارہ کرتے ہیں اور اس حیرت انگیز دریافت کی مدد سے بیسویں صدی عیسوی میں اپنے نتائج کو درست کیا تھا۔جو دائرہ (Orbit) اہرام کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے وہ تمام براعظموں اور سمندروں کو بالکل برابر دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے، انکا رقبہ ایک دوسرے سے برابر ہے. 
٭.اگر بلیڈز وہاں رکھ دیئے جائیں تو وہ نہایت تیز تلواروں میں تبدیل ہوجاتے ہیں. سائنسدان یہ راز بھی حل نہیں کرسکے . سائنسدان کہتے ہیں کہ جو باتیں آج تک پرانی چیزوں اور رازوں سے ملی ہیں وہ سمندر میں قطرے کے برابر ہیں. 

٭. ایک امریکی پروفیسر نے یہ تمام راز بتاتے ہوئے کہا کہ یہ راز اس بات کے شاہد ہیں کہ یہ کسی بیرونی، آسمانی مخلوق کی کارکردگی ہے، زمینی مخلوق اتنی عقل و فہم نہیں رکھتی تھی۔

کیا اتنے قامت کے مزدوروں نے اہرام مصر تعمیر کیا ؟؟(خالد مہاجرزادہ)
 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اتوار، 2 جولائی، 2023

پراٹھا۔ ماں اور فیکا کمھار

کل  فیکے کمہار کے گھر کے سامنے ایک نئی چمکتی ہوئی گاڑی کھڑی تھی۔۔
سارے گاؤں میں اس کا چرچا تھا۔۔
جانے کون ملنے آیا تھا۔۔
میں جانتا تھا فیکا پہلی فرصت میں آ کر مجھے سارا ماجرا ضرور سناۓ گا۔۔۔
وہی ہوا شام کو ڈیرے پر آ کر بیٹھا ہی تھا کہ فیکا چلا آیا۔۔۔ حال چال پوچھنے کے بعد کہنے لگا۔۔۔ صاحب جی کئی سال پہلے کی بات ھے آپ کو یاد  ہے ماسی نوراں ہوتی تھی وہ جو بھٹی  پر دانڑیں بھونا کرتی تھی۔۔۔ جس کا اِکو اِک پُتر تھا وقار۔۔۔
 میں نے کہا ہاں یار میں اپنے گاؤں کے لوگوں کو کیسے بھول سکتا ہوں۔۔۔
اللہ آپ کا بھلا کرے صاحب جی، وقار اور میں پنجویں جماعت میں پڑھتے تھے۔۔۔
سکول میں اکثر وقار کے ٹِڈھ میں پیڑ ہوتی تھی۔۔۔
صاحب جی اک نُکرے لگا روتا رہتا تھا۔۔۔
ماسٹر جی ڈانٹ کر اسے گھر بھیج دیتے تھے کہ جا حکیم کو دکھا اور دوائی لے۔۔۔

اک دن میں ادھی چھٹی کے وقت وقار کے پاس بیٹھا تھا۔۔۔ میں نے اماں کے ہاتھ کا بنا پراٹھا اور اچار کھولا۔۔۔
صاحب جی اج وی جب کبھی بہت بھوک لگتی ھے نا۔۔۔ تو سب سے پہلے اماں کے ہاتھ کا بنا پراٹھا ہی یاد آتا ھے۔۔۔اور سارے پنڈ میں اُس پراٹھے کی خوشبو کھنڈ جاتی ہے۔۔۔
پتہ نئیں صاحب جی اماں کے ہاتھ میں کیا جادو تھا۔۔۔

صاحب جی وقار نے پراٹھے کی طرف دیکھا اور نظر پھیر لیں ۔۔۔ اُس ایک نظر نے اُس کی ٹِڈھ پیڑ کے سارے راز کھول دیئے۔۔۔ میں نے زندگی میں پہلی بار کسی کی آنکھوں میں آندروں کو بھوک سے بلکتے دیکھا۔۔۔ صاحب جی وقار کی فاقوں سے لُوستی آندریں۔۔۔ آنسوؤں کے سامنے ہاتھ جوڑے بیٹھی تھیں جیسے کہتی ہوں۔۔۔ اک اتھرو بھی گرا تو بھرم ٹوٹ جائے گا۔۔۔

وقار کا بھرم ٹوٹنے سے پہلے ہی میں نے اُس کی منتیں کر کے اُس کو کھانے میں ساتھ ملا لیا۔۔۔
پہلی بُرکی ٹِڈھ میں جاتے ہی وقار کی تڑپتی آندروں نے آنکھوں کے ذریعہ شکریہ بھیج دیا۔۔۔
میں نے چُپکے سے ہاتھ روک لیا اور وقار کو باتوں میں لگائے رکھا۔۔۔

اس نے پورا پراٹھا کھا لیا۔۔۔ اور فر اکثر ایسا ہونڑے لگا۔۔۔ میں کسی نہ کسی بہانے وقار کو کھانے میں ملا لیتا ۔۔۔
وقار کی بھوکی آندروں کے ساتھ میرے پراٹھے کی پکی یاری ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔ اور میری وقار کے ساتھ۔۔۔  

خورے کس کی یاری زیادہ پکی تھی۔۔۔؟

 میں سکول سے گھر آتے ہی بھوک بھوک کی کھپ مچا دیتا ۔۔۔ ایک دن اماں نے پوچھ ہی لیا۔۔۔ پُتر تجھے ساتھ پراٹھا بنا کے دیتی ہوں کھاتا بھی ہے کہ نہیں۔۔۔ اتنی بھوک کیوں لگ جاتی ھے تجھے۔۔۔؟ 

میرے ہتھ پیر پھول جاتے ہیں تو آتےہی بُھوک بُھوک کی کھپ ڈال دیتا ھے ۔۔۔ جیسے صدیوں کا بھوکا ہو ۔۔۔

میں کہاں کُچھ بتانے والا تھا صاحب جی۔۔۔ پر اماں نے اُگلوا کے ہی دم لیا۔۔۔ ساری بات بتائی اماں تو سن کر بلک پڑی اور کہنے لگی۔۔۔ کل سے دو پراٹھے بنا دیا کروں گی۔۔۔ میں نے کہا اماں پراٹھے دو ہوئے تو وقار کا بھرم ٹوٹ جائے گا۔۔۔
 میں تو گھر آ کر کھا ہی لیتا ھوں۔۔۔ صاحب جی اُس دن سے اماں نے پراٹھے کے ول بڑھا دیئے اور مکھن کی مقدار بھی۔۔۔  

کہنے لگی وہ بھی میرے جیسی ماں کا پتر ہے۔۔۔
مامتا تو وکھری وکھری نہیں ہوتی پھیکے۔۔۔
مائیں وکھو وَکھ ہوئیں تو کیا۔۔۔؟
میں سوچ میں پڑ گیا۔۔۔ پانچویں جماعت میں پڑھنے والے فیکے کو بھرم رکھنے کا پتہ تھا۔۔۔
بھرم جو ذات کا مان ہوتا ہے۔۔۔ اگرایک بار بھرم ٹوٹ جائے تو بندہ بھی ٹوٹ جاتا ہے۔۔۔ ساری زندگی اپنی ہی کرچیاں اکٹھی کرنے میں گزر جاتی ہے۔۔۔ اور بندہ پھر کبھی نہیں جُڑ پاتا۔۔۔ فیکے کو پانچویں جماعت سے ہی بھرم رکھنے آتے تھے۔۔۔ اِس سے آگے تو وہ پڑھ ہی نہیں سکا تھا۔۔۔ اور میں پڑھا لکھا اعلی تعلیم یافتہ۔۔۔ مجھے کسی سکول نے بھرم رکھنا سکھایا ہی نہیں تھا۔۔۔
صاحب جی اس کے بعد امّاں بہانے بہانے سے وقار کے گھر جانے لگی۔۔۔ 

“دیکھ نوراں ساگ بنایا ھے چکھ کر بتا کیسا بنا ہے” 

وقار کی اماں کو پتہ بھی نہ چلتا اور اُن کا ایک ڈنگ ٹپ جاتا۔۔۔
صاحب جی وقار کو پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ پھر اماں نے مامے سے کہہ کر ماسی نوراں کو شہر میں کسی کے گھر کام پر لگوا دیا۔۔۔ تنخواہ وقار کی پڑھائی اور دو وقت کی روٹی طے ہوئی۔۔۔ اماں کی زندگی تک ماسی نوراں سے رابطہ رہا۔۔۔ اماں کے جانے کے چند ماہ بعد ہی ماسی بھی گزر گئی۔۔۔ اُس کے بعد رابطہ ہی کُٹ  گیا  ۔۔۔
کل وقار آیا تھا۔۔۔ ولایت میں رہتا ھے جی۔۔۔۔ واپس آتے ہی ملنے چلا آیا۔۔۔ پڑھ لکھ کر بڑا وَڈا افسر بن گیا ھے جی۔۔۔ مجھے لینے آیا ہے صاحب جی۔۔۔ کہتا تیرے سارے کاغذات ریڈی کر کے پاسپورٹ بنڑوا کر تجھے ساتھ لینے آیا ہوں ۔
اور ادھر میری اماں کے نام پر لنگر کھولنا چاہتا ہے جی۔۔۔
صاحب جی میں نے حیران ہو کر وقار سے پوچھا۔۔۔ یار لوگ سکول بنڑواتے ہیں ہسپتال بنڑواتے ہیں تو لنگر ہی کیوں کھولنا چاہتا ھے اور وہ بھی امّاں کے نام پر۔۔۔؟
کہنے لگا۔۔۔ فیکے بھوک بڑی ظالم چیز ھے، چور ڈاکو بنڑا  دیتی ہے۔۔۔۔خالی پیٹ پڑھائی نہیں ہوتی۔۔۔۔ ٹِڈھ پیڑ سے جان نکلتی ہے۔۔۔۔۔۔ تیرے سے زیادہ اس بات کو کون جانتا ہے فیکے ۔۔۔ سارے آنکھیں پڑھنے والے نہیں ہوتے۔۔۔ اور نہ ہی تیرے ورگے بھرم رکھنے والے۔۔۔ 

پھر کہنے لگا۔۔۔ یار فیکے تجھے آج ایک بات بتاؤں۔۔۔ جھلیا میں سب جانتا ہوں۔۔۔ چند دنوں کے بعد جب پراٹھے کے ول بڑھ گئے تھے اور مکھن بھی۔۔۔ آدھا پراٹھا کھا کے ہی میرا پیٹ بھر جاتا تھا۔۔۔ اماں کو ہم دونوں میں سے کسی کا بھی بھوکا رہنا منظور نہیں تھا ۔

فیکے  ۔۔۔ وقار پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔۔۔
اماں یہاں بھی بازی لے گئی صاحب جی۔۔۔
اور میں بھی اس سوچ میں ڈُوب گیا کہ
لُوستی آندروں اور پراٹھے کی یاری زیادہ پکی تھی یا ۔۔۔
فیکے اور وقار کی۔۔۔
بھرم کی بنیاد پر قائم ہونے والے رشتے کبھی ٹوٹا نہیں کرتے۔۔۔
فیکا کہہ رہا تھا مُجھے امّاں کی وہ بات آج بھی یاد ہے صاحب جی۔۔۔ اُس نے کہا تھا۔۔۔ مامتا تو وکھری وکھری نہیں ہوتی فیکے۔۔۔ مائیں وکھو وَکھ ہوئیں تو کیا۔۔۔
 بھرم ہی تو ہے جو رشتے اور دوستیاں قائم رکھتا ھے ۔۔۔اور اگر یہ ٹوٹ جائے تو بندہ ککھ سے ہولا ہو جاتا ہے اندر  سے مر جاتا ہے۔

(وٹس ایپ فارورڈ ۔رانا اکمل ۔ لاہور)

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔