Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)
جنسی تشدد لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
جنسی تشدد لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

منگل، 28 مئی، 2019

بزنس کارڈ ۔ ہراسمنٹ وارننگ !

وہ اپنی کار میں پیٹرول ڈلوا رہی تھی ۔ کہ ایک نوجوان اُس کے پاس آیا اور اُس  کی طرف جھک کر اپنا تعارف کروایا ،
" میڈم میں ایک پینٹر ہوں اور پورٹریٹ بناتا ہوں ۔ آپ میرا  بزنس کارڈ رکھ لیں کسی سہیلی کو یا جاننے والے کو اگر پینٹنگ بنوانے کی  ضرورت ہو تو میرا نمبر اُسے دے دیں "
خاتون نے کارڈ لے لیا ، اور سامنے ڈیش بورڈ پر رکھ کر بولی ،
" یقیناً اگر کسی کو ضرورت پڑی تو میں آپ کی مدد کر سکتی ہوں "
یہ کہہ کر وہ رقم ادا کرکے ، اپنی گاڑی کا شیشہ اوپر کرنے کے بعد روانہ ہوگئی ۔ اچٹتی نظروں سے اُس نے نوجوان کو ایک دوسری کار کی پسنجر سیٹ پر بیٹھتے دیکھا ، پیٹرول پمپ سے نکلتے ، خاتون نے  ، بیک مرر میں ، اُسی کار کو اپنے پیچھے آتے دیکھا وہ اِس اتفاق سمجھی ۔ لیکن تھوڑی دور جاکر اُسے یک دم سانس رکتا محسوس ہوا اور غشی سی آنے لگی ۔ اُس نے بلا ارادہ کار کا شیشہ کھولا تو سانسیں بحال ہوئی ۔
ایک انجانا خطرے نے اُس کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی پھیلا دی ،
بیک مرر میں ، وہ  کارنظر آرہی تھی اُس نے گاڑی کو ریس دی اور  اگلے پیٹرول پمپ میں گاڑی موڑ دی  ۔
پیٹرول پمپ میں داخل ہوتے ہی اُس نے زور زور سے ہارن بجانا شروع کیا ۔ اور پھر بے ہوش ہوگئی ۔
اُسے پولیس نے ہسپتال پہنچایا ، تفتیش پر معلوم ہوا کہ ، اُسے جو وزیٹنگ کار ڈ  دیا گیا تھا اُس پر ۔ 
 
لگا ہوا تھا  ،
Burundanga is the popular name for scopolamine, a drug that is used in medicine to treat nausea and motion sickness, among other conditions. But its side effects include drowsiness, a loss of inhibition and memory lapses.


 یورپ کے کلبوں میں اِس کا ستعمال عورتوں کو گھیرنےکے لئے2012سے جاری ہے ۔ لیکن وہاں سے آنے والے    حرامی پاکستانیوں نے اِس کا استعمال  شروع کر دیا  ۔ ابھی تک کوئی اعداد وشمار نہیں ۔ لیکن وٹس ایپ پر ، ڈی ایچ اے لاہور کی ایک خاتون نے بالا واقعہ   آگاہی کے لئے  بھیجا ہے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جمعہ، 1 جون، 2018

سیتا وائیٹ کا مقدمہ کیا تھا ؟

کروڑ پتی     مینوفیکچرر   ہل کے رہنے والے  لارڈ  گورڈ  وہائیٹ   کی بیٹی سیتا وہائٹ  نے 1986 میں پاکستانی کرکٹر عمران خان سے دوستی  کی ،  سیتا وائیٹ  کے مطابق،
"   ہماری دوستی کے نتیجے میں جب میں حاملہ ہوئی تو میں نے کئی مہینوں تک عمران خان سے چھپایا ، جب اسقاط حمل کا خوف  ختم ہوا تو میں نے عمران خان کو بتایا کہ میں حاملہ ہوں ، عمران خان، پہلے تو غصہ ہوا کہ اُس کی اجازت کے بغیر اُس نے یہ قدم کیوں اٹھایا ؟  پھر کہا کہ چیک کرو لڑکی ہے یا لڑکا  ، اگر لڑکا ہوا تو میں کرکٹر بناؤں گا ، لیکن اگر لڑکی ہے تو اسقاط کروا دو ۔
میں اپنے پیٹ میں پلنے والی بچے کی محبت میں مبتلاء ہو گئی تھی اِس لئے میں عمران سے دور رہی ۔
جب میں نے اُسے بچی پیدا ہونے کا بتایا تو وہ مجھ پر بہت غصے ہوا  اور ہمارے تعلقات ختم ہو گئے ، میں کیلفورنیا میں  اکیلی اپنی بچی کو پالنے لگی ۔
میری بچی کو باپ کے نام کی بہت ضرورت تھی مگر عمران خان اُسے اپنی بیٹی تسلیم کرنے کے لئے تیار نہ تھا اُس نے مجھ پر بہت غلیظ الزامات لگائے ۔ گو کہ ہمارے معاشرے میں اِن کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ، اِس کے باوجود مجھے بہت غصہ آیا کہ یہ کیسا مرد ہے جو اپنی بچی کو اپنا نام نہیں دینا چاہتا ۔

ٹیریان جیڈ جب 6 سال کی ہو گئی تو میں نے عمران خان پر دباؤ ڈالنا شروع کیا کہ وہ ٹیریان کو اپنا نام دے ، کیوں کہ میں اُس کے باپ کا نام کاغذات میں اُس وقت تک نہیں لگا سکتی جب تک عمران  تحریری طور پر تسلیم نہ کرے ، مگر وہ کسی طور پر تیار نہ تھا ،  میں نے اُسے چیلنگ کیا کہ وہ اپنا ڈی این اے ٹیسٹ کروا لے تاکہ ، اُس کی سچائی ثابت ہو جائے کہ وہ ٹیریان کا باپ نہیں ، مگر وہ نہیں مانتا تھا ۔ جھگڑا 6 سال تک چلتا رہا ۔ ٹیریان لاس اینجلس کے سٹیٹ سکول میں پڑھتی رہی ۔ 
1995 میں   عمران خان  (پیدائش 1952) نے ، ارب پتی   فنانسر  گولڈ سمتھ کی بیٹی جمائما  مارسیلی (پیدائش 1974)  سے دھوم دھام سے شادی  کی جس کے بعد ، میری  یہ امید بھی  ختم ہو گئی کہ  ٹیریان کو کبھی اُس کے باپ کا نام مل سکے گا ؟

جب بھی وہ اپنے باپ کا پوچھتی تو میں اُسے ، عمران خان کی تصاویردکھاتی ، اکثر وہ عمران خان کی تصویر سینے سے لگا کر سو جاتی ، جس پر  میری بہن اینا لوئیسا واہائٹ کو عمران خان پر  سخت غصہ تھا ٹیریان جیڈ کا میں نے اُسے وارث بنایا تھا    اُس نے اپنی بھانجی  کو اپنے باپ کا نام دلانے کے لئے عمران خان کے خلاف  لا س اینجلس کی عدالت میں کیس کر دیا ، جس کا فیصلہ  جج نے 14 جولائی 1997 کو کیا  جس کے مطابق ، عدالت نے کہا کہ ،
 " عمران خان، 15 جون 1992 کو  سیتا وائیٹ سے پیدا ہونے والی  ٹیریان جیڈ کا باپ ہے !"
فیصلے کا عکس  :

فیصلے کے بعد عمران خان کو میں نے فیصلے کی کاپی ای میل کی ۔  میں نے عدالتی فیصلے  کے مطابق   ٹیریان  کے نام کے ساتھ خان کا اضافہ کیا ، کیوں کہ وہ پاکستان  کے ایک پٹھان کی بیٹی ہے ۔
ٹیریان کو باپ مل گیا لیکن کیا عمران خان اپنی بیٹی کو پہچان سکے گا ؟
فیصلے کے بعد  ، میر ا پروگرام پاکستان کی عدالت میں جانے کا تھا ، لیکن ایک دن اینا نے بتایا کہ عمران خان ، ٹیریان سے ملنا چاھتا ہے ۔
ٹیریان کی پیدائش  کے بعد پہلی بار  عمران نے ٹیریان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی ، ٹیریان خان،    6 سال کی عمر میں اپنے باپ کو ملی ۔ اُس کی خوشی کا عالم دیکھا نہ جاتا تھا ۔



قارئین :
 2004   مئی میں ہارٹ اٹیک کی وجہ سے اچانک  فوت ہو گئی اور    اپنی  12 بیٹی ٹیریان خان کو اکیلا چھوڑ گئی ۔   اینا نے جمائما کو ٹیریان کے متعلق بتایا جس پر اُسے سخت صدمہ پہنچا  ، کیوں کہ وہ بھی کافی عرصہ باپ کے نام کے بغیر رہی تھی ، جمائما کے باپ جیمز گولڈسمتھ (1933-1997)  اور اُس کی ماں  لیڈی اینا بل(1934)  کے آپس میں تعلقات  جن کی وجہ سے وہ اور  اُس کے دو بھائی زیک اور بن پیدا ہوئے ۔ 1978 میں  جیمز گولڈ سمتھ  نے جمائما اور اُس کے دونوں بھائیوں زیک اور بن کو اپنا نام دیا ۔
22 جون 2004، کو مختلف وجوہات کی بنا پر جمائما نے عمران خان سے طلاق لے لی ۔لیکن بنیادی وجہ عمران خان کا  ٹیریان کا چھپانا تھا ۔  جمائما ایک ہمدرد خاتون ہے اور وہ بے باپ کے ہونے کے درد کو اچھی طرح جانتی ہے ، چنانچہ اُس نے فیصلہ کیا کہ وہ ٹیریان کو اُس کے دونوں بھائیوں کے ساتھ پالے گی ۔

  گو کہ طلاق دیتے وقت عمران خان نے اُس سے لندن کا فلیٹ واپس لے لیا بلکہ بنی گالا میں اُس کے نام سے خریدی گئی ساڑھے تین سو کنال زمین اور عالی شان گھر بھی چھین لیا - 
ٹیریان کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد جمائما ٹیریان  خان کو اپنے گھر لے آئی ۔
کیا ٹیریان خان ، پاکستان آکر عمران خان کے خلاف مہم چلائے گی؟

یہ بات کسی سے چھپی ہوئی نہیں کہ عمران خان  نے الیکشن 2008 اور 2013 کے نامزدگیوں کے فارمز میں اپنے دونوں بیٹوں کے نام  ظاہر کئے  لیکن ٹیریان کا نام چھپایا ۔
لاس اینجلس کورٹ کے اِس فیصلے کو عمران خان نے چیلنج نہیں کیا ۔

تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ عمران خان کا نعرہ  ایک جھوٹ ہے ؟

یا سیاسی سٹنٹ  ؟  کیوں کہ یہ نعرہ جہاں سے لیا گیا ہے  ، اُس کا پیغام ہے ۔
کیا عمران خان الکتاب کی اِس آیت جو روح القدّس نے  محمدﷺ کو مؤمین  کی ھدایت کے لئے بتائی، :
1۔  اُسے معلوم نہیں  ۔
2-وہاں تک نہیں پہنچا ۔
3- یا اُس کے سمجھانے والوں نے اُس سے چھپائی ؟
4- یا شائد ملاؤں نے اُسے بتایا ہو کہ یہ آیات1400 سال پہلے  کی ہے اور بیٹوں کے لئے ہے بیٹیوں کے لئے نہیں !

ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِ وَلَكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا 
[33:5]
تم اُنہیں  اُن کے باپوں کے نام سے پکارو ! وہ اللہ کے نزدیک انصاف ہے ۔اگر تمھیں اُن کے باپ کا نام معلوم نہیں  پس وہ تمھارے  الدین میں بھائی ہیں  اور تمھارے موالی ہیں ، تم سے  (نام پکارنے میں ) خطا ہو گئی  تو تم پر کوئی گنا ہ نہیں  ، سوائے جو تمھارے قلب عمداً        (گناہ ) کرتے ہیں  ۔ اور اللہ(خطاؤں پر )    غفور اور رحیم ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 مزید مضامین :

جمعرات، 8 فروری، 2018

خواتین سے ایک سوال ؟

 کیا آپ چینجنگ روم میں خفیہ کیمرہ تلاش کر سکتی ہیں ؟ 
انٹر نیٹ کی بدولت پاکستان تعلیم کا اضافہ تو معلوم نہیں  ہوا یا نہ ہوا ۔
جنسی ذہنی مریضوں کی تعداد میں اضافہ ضرور ہوا ہے ۔ پہلے اِس قسم کی وارننگ میسجز آتے تھے  ۔ لیکن اُن کا تعلق زیادہ تر غیر ممالک سے ہوتا تھا ، لیکن اِس کے باوجود پاکستان میں ایسی بات سوچی نہیں جاسکتی تھی ،لیکن اب فیصل آباد سے آنے والی ٹی وی کی خبر نے بتا دیا ہے کہ وہاں کے مشہور گارمنٹس  سٹور LEVIS  میں یہ واہیات کام شروع  ہوچکا ہے ۔
چینجنگ روم وہاں ایک واحد کمرہ ہوتا ہے جہاں خواتین پورے اعتماد کے ساتھ ، خریدے جانے والے کپڑوں کو پہن کر دیکھ سکتی ہیں ۔ لیکن کیا یہ اب ممکن ہوگا ؟
فیصل آباد کی کتنی خواتین ہوں گی کہ جن کی عریاں یا نصف عریا ں تصاویر ، اِن  حرامیوں نے بنائی ہوں گی۔جن کی تربیت میں سقم ہے جو غالباً اُن کے گھر یا نزدیکی رشتہ داروں میں  پائی جانے والی خواتین کے کردار کے باعث پیدا ہوا ۔
آپ حیران ہوں گے کہ یہ کیسے ممکن ہے ؟
کیا ایک طفل ( بچہ ) اپنی محرم خواتین کی  چھپی ہوئی زینت کے ظاہر ہونے کی وجہ سے ذہنی جنسی کج روی میں مبتلاء ہو سکتا ہے ؟
آئیے ایک آفاقی سچ پڑھتے ہیں !
روح القدّس نے   دیگر بچوں کو
ذہنی جنسی کج روی میں مبتلاء ہونے سے بچانے کے لئے ، اللہ کی وارنگ بتائی !

وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُوْلِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ   [24:31]

 بالا آیت اپنی پوری ترتیل اور  تفسیر کے ساتھ ، الکتاب میں موجود ہے ۔ مہاجر زادہ سے اِس آیت کا فہم پڑھیں ، جس سے اتفاق یا اختلاف  آپ کی صوابدید پر ہے ، لیکن ایک بات یاد رکھیں  یہ فہم مؤمنات کی بچیوں سے کئے جانے والے  جنسی تشدد کے تناظر میں ہے ، جن کے  عَوْرَاتِ النِّسَاءِ ابھی  ظاہر نہیں ہوئے لیکن وہ  معصومیت میں جنسی  تشدد کا شکار ہوجاتی ہیں ۔
 وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا  ۔ ۔ ۔ ۔۔  [24:31]
۔ ۔ ۔ مؤمنات کے لئے کہہ ، وہ اپنی  بصیرت پر قابو رکھتی رہیں  اور اپنی  شرم گاہوں کی حفاظت کرتی رہیں اور  اپنی زینتوں کو ظاہر مت کرتی رہیں ، سوائے جو اُن  سب (زینتوں )میں سے ظاہر ہیں۔ ۔ ۔ ۔ !
مؤمنات کے جسموں میں ایسی کون سی زینت کی چیزیں ہیں جنہیں اللہ ظاہر نہ کرنے کا حکم دے رہا ہے ؟
نہ یہ جھانجھریں ہیں اور نہ یہ پازیب ، بلکہ یہ وہ چیزیں ہیں جو ایک بچے کی نگاہ سے پوشیدہ ہوتی ہیں لیکن عمر کے ساتھ اُس پر ظاہر ہو جاتی ہیں !
۔ ۔
أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ۔ ۔ ۔ ۔  [24:31]
۔ ۔ ۔ یا وہ مخصوص بچے( بیٹوں  کے علاوہ )    ، وہ لوگ جن پر عورات النساء ظاہر  نہیں ہو جاتے  ۔ ۔ ۔ ۔
بیٹوں کے علاوہ  محلّے  کے اُن بچوں سے  جن پر عورات النساء ظاہر ہوجاتیں اُن سے مؤمنات اپنی زینت چھپائیں گی اور یہ وہ زینتیں ( سینہ اور کولہے)  ہیں جو پاؤں مار کر چلنے سے اپنے ظاہر ہونے کا احساس دلاتی ہیں ۔  گھر میں چلتے وقت کولہا اور سینہ سب عورتوں کے ہلتے ہیں ۔ یہ وہ بچے ہیں جن کے لئے عورتیں محرمات نہیں ۔ جو کسی بھی وقت  خطرہ بن سکتے ہیں ۔
۔ ۔ ۔
وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۔ ۔ ۔    [24:31]
۔ ۔ ۔اور وہ اپنے پاؤں مار کر مت چلیں  کہ اُن (بچوں) کو علم ہو جائے  جو زینتوں میں خفیہ ہیں ۔ ۔ ۔
مؤمنات اپنی زینت  کن کے سامنے ظاہر کر سکتی ہیں !
 ۔ ۔ ۔إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ 
سوائے  اُن (مؤمنات) کاشوہرکے لئے  ،
 أَوْ آبَائِهِنَّ
 یا ،اُن  (مؤمنات)کے باپ (سگا اور سوتیلا)
أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ  
یا ، اُن  (مؤمنات) کے بعول کے اباء   (سگا اور سوتیلا)
أَوْ أَبْنَائِهِنَّ 
 یا ، اُن (مؤمنات)کے   ابناء (سگے)
أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنّ
یا، اُن (مؤمنات)کے بعول کے  ابناء ( سوتیلے) 
 أَوْ إِخْوَانِهِنَّ
   یا اُن (مؤمنات)کے بھائی    

أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ
یا، اُن (مؤمنات) کے بھائی کے بیٹے     
أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ
یا، اُن (مؤمنات) کی بہنوں کے ابنا ء 
 أَوْ نِسَائِهِنَّ
یا،  اُن (مؤمنات)کی النساء    (خاص رشتہ دار عورتیں)
 أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ
یا جو اُن  (مؤمنات) کی ملکت ایمان ہیں ۔
 أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُوْلِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ
  یا ،مردوں میں سے تابعین  جو   الْإِرْبَةِ (فائدہ دینے ) والے ہوں 
 أَوِ الطِّفْلِ  
 یا، خاص بچے     ( بیٹوں  کے علاوہ ، محلّے یا پڑوس  کے بچے  جنہیں زنانخانے میں آنے کی اجازت ہو ) 

الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ

وہ لوگ جن پر عورات النساء ظاہر  نہیں ہوتے    
  اوپر بتائے جانے والے سارے مردمؤمن ہیں ۔ لیکن  اللہ اُن سے بھی توبہ کروا رہا ہے ۔

وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ   [24:31]
اور اے  مؤمنوں تم اللہ کے طرف اکھٹے   توبہ کرتے     رہو ، تاکہ تم فلاح پاؤ !
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭



اتوار، 4 فروری، 2018

آسمان کبھی نہیں روتا

  عورتوں کے جنسی استعمال پر آسمان کبھی نہیں  روتا ۔

 جنگوں میں بچی ہوئی عورتیں جنھیں فوجی استعمال کرکے چھوڑ دیتے ، جو اپنے پیٹ کی آگ بجھانے اور اپنے بچوں کو پالنے کے لئے سب سے آسان دھندا ،  جسم فروشی کا اختیار کرتیں  اور    ھیرا منڈی فوجیوں ، جہازرانوں  ،  ریلوے ملازموں ،تاجروں  دیارِ غیر میں  فوج کے ساتھ آئے ہوئے ، مختلف پیشہ کے لوگوں کے لئے دلچسپیوں کاسامان مہیا کرتیں اور جنسی ترسے ہوئے مردوں کو سکون پہنچاتیں ۔اُن کے بطن سے پیدا ہونے والی لڑکیاں ، زیادہ تر طوائف بن جاتیں ، اور لڑکوں میں 80 فیصد ،دلالت کرتے اور ہیرامنڈی کی طوائفوں کے لئے گاہک لاتے ۔
فلموں کی مشہوری نے ہیروئین بننے کا شوق پالنے والی لڑکیاں ، فلم سٹوڈیو پہنچنے کی آس لگائے ، ریلوے اور بسوں میں تجربہ کار دلالوں کے ہاتھوں ہاتھ گذرتی  مختلف لوگوں سے ہوتی ہوئی ہیرا منڈی یا   بیوروکریٹس کے لئے مخصوص کئے گئے ،داشتہ خانوں میں پہنچ گئیں ۔
خوانین کی داستان کے ابواب
ہماری فلم کی کئی مشہور ہیروئین  ، نیلو ، زیبا ، شمیم آرا  کے ساتھ ساتھی اداکارائیں   ہیرامنڈی  سے درآمد شدہ تھیں ، جن کی کہانیاں  1969 سے پہلے کے اخباروں کی زینت بنتی تھیں ۔
ضیاء الحق کے اسلام سے پہلے  جنسی آزادی  ذاتی معاملہ سمجھی جاتی تھی ۔


ہر کوئی رقم خرچ کر کے  بادشاہی مسجد، نپئر روڈ ، سورج گنج بازار ، کچی گلی ، آر اے بازار ، لال کرتی  اور ڈب گری  میں اپنی  من پسند طوائف سے جنسی بھوک مٹاتا ۔

مرد کی جنسی بھوک ، بالکل پیٹ  کی بھوک کی طرح ہے جو اللہ نے  حلال مد میں پورا کرنے کے لئے رکھی ہے ، حرام مد میں نہیں ، لیکن کیا کیا جائے کہ بخاری  و مسلم میں درج ہے :
 ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ
" جب ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بنی المصطلق (موجودہ رابغ )  کی جنگ (5 ہجری)  میں گئے تو عرب قوم میں سے کچھ لونڈی غلام ہمارے ساتھ آئے، ہمیں عورتوں کی خواہش ہوئی اور مجرد رہنا ہمارے لئے سخت مشکل ہو گیا ، ہم نے خصی(عضو تناسل کے ناکارہ بنانا)  ہونے کا ارادہ کیا (تاکہ جنسی خواہش ختم ہوجائے ) جب ہم نے اِس خصی ہونے  کی اجازت آپ صلعم سے  مانگی تو اُنہوں نے فرمایا ،
" جو لونڈیاں ہماری ہاتھ لگی ہیں  اُن سے اپنی  (جنسی ) خواہش پوری کرو لیکن عزل کرنا  (مادہِ منویہ کو عضو تناسل باہر نکال کر خارج کرنا  مانند مُشت زنی ) آخر ہم نے عزل کا ارادہ کر لیا ۔مگر پھر ہم نے سوچا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان ہیں تو یہ جائز ہے یا نہیں؟ "

چنانچہ ہم نے آپ سے اس کے بارے میں دریافت تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ,
" اگر تم عزل نہ کرو تو اس میں تمہارا کوئی نقصان نہیں ہے اس لئے کے قیامت تک جو جان پیدا ہو نیوالی ہے وہ تو پیدا ہو کر رہے گی"  .  ( بخاری ومسلم)

اِس روایت کی مطابق ،   خصی ہونے  یعنی عضو تناسل ناکارہ بنانے سے  بہتر ہے کہ، فوجیوں کا   مفتوح غیر مسلم عورتوں سے  جنسی خواہش پوری کرنا جائز ہے ۔ لیکن حمل ہونے کی صورت میں لونڈی  کی حیثیت تبدیل ہوجائے گی ۔مثلاً ایک فوجیوں  کی ایک پلاٹون  یعنی تیس فوجیوں  نے شہر پر یا اُس کے کسی ایک حصہ پر قبضہ کیا اور دس عورتوں(بلا تخصیص عمر)  کو قید کیا ،جنسی خواہش بیدار ہونے پر وہ  اُنہیں استعمال کرسکتے ہیں ۔بعد میں یہ قید خانہ میں منتقل کر دی جائیں گی ، جہا ں دیگر فوجی بھی مستفید ہو سکتے ہیں ۔
یہ قانون ابھی کا نہیں یا مسلمانوں کا بنایا ہوا نہیں ،  بلکہ قانونِ مکافاتِ عمل و فعل کا نتیجہ ہے ، جیسے سکندرِ اعظم کے یونانیوں کی  بر صغیر میں نیلی آنکھیں کے نشانات ہر جگہ بکھرے ہوئے ہیں ۔چپٹی ناکوں والے قبیلے میں لمبی ناک ،  یونانی علاقوں میں گھنگھریالے بال  حبشیوں کے عُزل نہ کرنے کا سبب  ہیں ۔
نسلِ انسانی کا یہ مختلف رنگ ، نسل ،بولیوں اور قامت کا یہ پھیلاؤ نظامِ قدرت کا خوبصورت حصہ ہے ۔
مقبوضہ عورت ، صدیوں سے مرد کی ضرورت رہی ہے ، مقبوضہ عورتیں ، امراء، تاجر اور فوجیوں کے مشہور زمانہ " کی کلب" کی طرح " زر کلب " میں کمائی کا ذریعہ رہی ہے۔ جنھیں قحبہ خانوں ، میں موجود مخصوص کمروں میں ٹہرایا جاتا۔ تاریخ کی مشہور مسلمان ملکائیں ، مقبوضہ عورتیں تھیں جو بادشاہوں کے حرم میں آنے کے بعد  اپنی مہارتِ جسم یا ہنرِ رقص   کی بدولت  شاہی تخت  کر برابر جا بیٹھیں -
بادشاہوں کے محل میں کثیر مقبوضہ عورتوں کا اجتماع اور اُن عورتوں  کی جسمانی بھوک  کی ضرورت محل کے خفیہ راستوں سے گذار کر اُنہیں قحبہ خانوں میں لے جاتی  اور انہیں ملنے والی رقم سے  اُس شاہی کنیز کے تمام نگہبان و ذمہ داران مستفید ہوتے ۔ 

جنگوں کے خاتمے کے بعد ، عورت فروشی کے اِس کاروبار کو بردہ فروشی نے بامِ عروج پر پہنچایا  ۔ بچپن میں شہروں سے  اغواء کی گئی بچیاں، بردہ فروش  اپنے  وطن لے جاتے وہاں  لااولاد جوڑے کو عام شکل و صورت کی بچیاں دے دی جاتیں اور خوبصورت بچیاں ، قحبہ گری کے نگرانوں کو فروخت کی جاتیں-
اِس کے علاوہ  غربت کے مارے لوگ چند روپوں کی خاطر اپنی بیٹیوں کی شادی کر دیتے جو بردہ فروش اپنے وطن لے جاتے۔ 

ہم بچوں کے ذہن میں ، ماؤں نے یہ خیال جما دیا تھا ، کہ بردہ فروش  بچوں کو مٹھائی کھلا کر بے ہوش کرتا اور بوری میں ڈال کر لے جاتا  ، تعلیم و تربیت میں لکھی جانے والی کہانی : "عالی پر کیا گذری "  نے تو یہ خیا ل مزید ثبت کر دیا  تھا ، اُن دنو ں  جہاں کندھے پر بوری لٹکائے کوڑا  چننے والے پر نظر پڑتی گھر کی طرف دوڑ لگاتے ۔



ہفتہ، 3 فروری، 2018

طوائفوں سے میری وہ ایک ملاقات

جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ماس کمیونی کیشن ریسرچ سینٹر میں اپنی تعلیم کے دوران مجھے طوائفوں کی زندگی پر ایک پروگرام تیار کرنے کا خیال آیا۔ اپنے پروفیسر سے مشورہ کیا تو انہوں نے بھی تائید کی۔ میرے ذہن میں پروگرام کا جو خاکہ تھا اس کے مطابق مجھے کچھ طوائفوں کے انٹرویو کرنے تھے۔ بس مسئلہ یہیں آکر پھنس گیا۔ ہمیں پتہ تھا کہ دہلی میں جی بی روڈ ریڈ لائٹ ایریا ہے ۔

لیکن وہاں کے بارے میں سنا تھا کہ جو صحافی وہاں انٹرویو کرنے گیا اس سے یا تو کسی نے بات نہیں کی یا پھر اس کی پٹائی کرکے پیسے اور کیمرہ بھی چھین لیا گیا۔ ظاہر ہے ان حکایتوں کو سننے کے بعد اس علاقہ میں انٹرویو کے لئے جانے کی ہمت نہیں ہوئی۔ ادھر ادھر فون دوڑائے تو پتہ چلا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ہی ایک فارغ طالبہ ایک این جی او میں کام کرتی ہے اور اس این جی او کا مقصد طوائفوں کی آباد کاری ہے۔
انٹرویو کے سلسلہ میں میں مایوس ہو گیا تھا لیکن اس خبر سے امید کی کرن دکھائی دی اور میں نے اس لڑکی سے رابطہ کیا۔ لڑکی نے وعدہ کیا کہ وہ اپنے دفتر میں کچھ طوائفوں کو انٹرویو کے لئے راضی کرنے کی کوشش کرے گی۔ خیر دو تین دن بعد اطلاع آئی کہ فلاں دن این جی او کے دفتر میں انٹرویو ہونا طے پایا ہے۔ دہلی کی دہکتی گرمی میں ، میں اور میرا کلاس فیلو دہلی ایئرپورٹ کے سامنے واقع کالونی مہی پال پور پہنچے۔
این جی او کے دفتر میں پہلے اسی لڑکی سے ملاقات ہوئی جس کی مدد سے انٹرویو ممکن ہوئے تھے۔ اس لڑکی نے بتایا کہ یہ خواتین ہفتے میں ایک دن ہمارے دفتر آتی ہیں تاکہ مختلف ہنر کی ٹریننگ لے کر اپنے موجودہ پیشے کو خیرباد کہہ سکیں۔ ذرا دیر بعد ایک دوسرے کمرے میں میں انٹرویو کے لئے درجن بھر خواتین کے سامنے بیٹھا تھا۔
میں نے اس سے پہلے طوائفوں کا نام کتابوں، پاکستانی ڈائجسٹوں اور کہانیوں میں ہی پڑھا تھا۔
ہندی سنیما میں جو طوائفیں میں نے پردے پر دیکھی تھیں وہ اپنے لباس اور انداز سے آسمانی مخلوق معلوم ہوا کرتی تھی۔ اس دن پہلی بار میں نے طوائفوں کو حقیقت میں اپنے سامنے دیکھا جو میں یہ دیکھ کر حیران ہو گیا کہ وہ تو بالکل عام عورتوں کی طرح تھیں۔ نہ نفیس اور چمکیلا لباس، نہ چاندی کی چوٹی نہ غازہ نہ جھومر۔ میرے سامنے تو کچھ ویران چہرے بیٹھے تھے۔ کچھ کی گود میں بچے تھے اور کچھ جو نوعمر تھیں ان کی آنکھوں اور باتوں میں شادی اور بچے پیدا کرنے کے خواب تھے۔
اس دن مجھے پتہ چلا کہ طوائف نہ تو کسی پیشے کا نام ہے اور نہ کسی مزاج کا بلکہ طوائف مجبوری کا نام ہے۔ میں گھنٹوں ان کی آپ بیتی سنتا رہا لیکن مجھے ان میں نہ تو کسی نواب یا رئیس کی منہ چڑھی محبوبہ نظر آئی اور نہ مردوں کو آنکھوں ہی آنکھوں میں بیچ دینے والی نائکہ۔ ان میں کوئی کسی کی چاہت میں گھر بار چھوڑ کر آئی تھی اور اس کا وہی عاشق اسے بہت معمولی پیسوں میں کوٹھے پر بیچ گیا۔ کسی کا شوہر بستر مرگ پر تھا جس کے علاج کی سبیل اور گھر چلانے کی خاطری نوکری ڈھونڈنے دہلی اسٹیشن پر اتری اور وہاں سے سیدھے جی بی روڈ پہنچا دی گئی۔
سب کی داستان میں ایک ہی مشترکہ چیز تھی اور وہ یہ کہ دو وقت کی روٹی اور حالات کے دھارے نے ان سب کو اس پیشے میں ڈال دیا تھا جس میں رہنے والی عورت طوائف کہلاتی ہے۔
ان سب نے یہی کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ اس زندگی سے نکل جائیں جہاں ہر ہر قدم پر انہیں گوشت کا لوتھڑا سمجھ کر بھنبھوڑا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگ ان کو دھتکارتے ہیں، ان پر تھوکتے ہیں۔ ان سب کی باتوں سے لگتا تھا کہ انہیں ہر وقت یہ فکر کھائے جاتی ہے کہ ان کی زندگی تو جیسے بھی کٹی، ان کے بچوں کا کیا قصور ہے جو انہیں اس معاشرے میں ذلت کے ساتھ سر جھکا کر رہنا ہوگا کیونکہ ان کی ماں طوائف ہے۔ اس دن مجھے معاشرے کی منافقت اور بے شرمی کا خوب اندازہ ہوا۔ یہ معاشرہ جو ایک عورت کو اپنی اجتماعی کاوش سے ان حالات کی طرف دھکیلتا ہے جہاں اسے زندہ رہنے کے لئے طوائف بننا پڑتا ہے وہی معاشرہ اخلاقیات کی پہاڑی پر کھڑے ہوکر اس طوائف کو ذلت بھری زندگی کی وعید سناتا ہے، لوگوں کو اس طوائف کو ذلت کے تیروں سے ہلاک کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ یہ معاشرہ نہ اس عاشق سے گھن کھاتا ہے جو ایک عورت کو پیار کا وعدہ کرکے گھر سے بھگا کر لایا اور کوٹھے پر لے جا کر بیچ دیا۔ یہ منافق سماج اس بے غیرت نام نہاد مرد سے بازپرس نہیں کرتا جو اسٹیشن پر بھوکی اور بے سروسامان عورت کو دیکھ کر کھانا کھلانے اور نوکری کا وعدہ کرکے اس کو جسم فروشی کے دلدل میں لے جا ڈالتا ہے، اس سماج کی زبان پر اس وقت آبلے پڑ جاتے ہیں جب ریڈ لائٹ ایریا میں کوئی دلال مرد سڑک پر گھوم گھوم کر جسم بھببھوڑنے والے کسی بھوکے کو تلاش کرتا ہے تاکہ دلالی حاصل ہو سکے۔  
یہ اخلاق کی دھن پر ناچ ناچ کر ہلکان ہونے والا معاشرہ چین کی نیند سو رہا ہوتا ہے جب کہ اسی شہر میں طوائف نام کی مخلوق دو وقت کی روٹی کے لئے اپنا جسم بیچ رہی ہوتی ہے۔ اتنے بڑے معاشرے میں ساحر، منٹو اور گرو دت کے علاوہ کیا کسی اور کو ان پائمال جسموں کی سسکیاں نہیں سنائی دیتیں؟ شام ڈھلے تک ان طوائفوں سے انٹرویو کرنے کے بعد میں نے واپسی کا ارادہ کیا۔ وہ خواتین ڈھولک لئے بیٹھی تھیں۔ میں نے سوچا پروگرام میں ان کی آواز میں کوئی گیت شامل کروں۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ اگر چاہیں تو ڈھولک پر کوئی گیت گائیں تاکہ میں اسے ریکارڈ کر لوں۔ ان سب نے ڈھولک کی تھاپ پر گانا شروع کیا۔ 
گوری ہیں کلائیاں پہنا دے مجھے ہری ہری چوڑیاں اپنا بنا لے مجھے او بالما
اس سے زیادہ سننے کی مجھ میں طاقت نہیں بچی تھی۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا، ریکارڈر بیگ میں ڈالا اور اپنے ساتھی کے ساتھ این جی او کے دفتر سے نکل آیا۔ شام ڈھلنے کو تھی اور سورج نے آسمان پر شفق بکھیر دی تھی۔ پتہ نہیں کیوں مجھے ایسا لگا جیسے آسمان رو رہا ہے۔ 
 (مالک اشتر - دہلی ہندوستان)

ہفتہ، 13 جنوری، 2018

ڈاکٹر رامیش فاطمہ-سیکس ایجوکیشن - وقت کی ضرورت

سیکس ایجوکیشن کا تعلق صرف ریپ سے یا صرف بچے پیدا کرنے سے نہیں ہوتا  اور نہ ہی  ہر انسان ریپ کی حد تک جا سکتا ہے۔
 سو چیزیں ہوتی ہیں اور، جس دن آپ نے ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کی فہرست بنائی، تو اتنے قریبی رشتے اس کی زد میں آئیں گے کہ یہ سزا والے معاملے پہ نعرے لگانے والے چپ چاپ دروازے بند کر لیں گے۔
ایک بات یاد رکھیے گا ،
سیکس ایجوکیشن سے  نقصان کسی بچے کو نہیں ہو گا، لیکن فائدہ ایک کو بھی ہو جائے تو بہت بڑی بات ہے۔ شاید آپ لوگوں کو واقعی اندازہ نہیں ہے کہ ریپ کے علاوہ بہت کچھ ہوتا ہے جو والدین کے علم میں نہیں ہوتا یا پھر وہ جان کر بھی چپ رہنے کا کہتے ہیں۔ کہیں بات نکلی تو بدنامی ہوگی ۔
مجرم کی سزا کا مطالبہ بجا ہے، لیکن ایک مجرم ہر بچے کو ہراساں نہیں کر تا۔ ہر بچے کا مجرم الگ الگ ہے، شاید دو چار چھ دس کا کوئی ایک ہو ۔
کبھی سوچا ہے  کہ:
٭- کچھ لوگ بچیوں کو گود میں بٹھا کر اپنی تسکین کا سامان کر لیتے ہیں
٭- کچھ مذاق میں  ران پر  ہاتھ پھیرتے ہیں -
٭- کچھ کی تسلی  کولہوں پر ہلکا سا تھپڑ مارنے یا غیر محسوس طریقے پر ہاتھ لگانے  سے ہو جاتی ہے-
٭-  کوئی سینے پہ چھو کر لذت حاصل کرنا چاہتا ہے-
٭- کوئی خوشی میں بچیوں کو گلے سے لگانے کی حرکت کرتے ہیں ، اور سر پر ہاتھ پھیر کر لوگوں کو توجہ ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
اِ ن  حرکات کو ریپ نہیں کہا جاسکتا  ، کیوں ٹھیک ہے نا؟
لیکن جو کر رہے ہیں وہ غلط ہی ہے ، کیوں کہ بچہ اِن حرکات کو  عام سمجھنے لگے گا ، لیکن  دھچکا وہاں لگے گا جب کوئی ذہنی بیمار اِن حرکات سے آگے بڑھے گا ۔
یہ تو آپ کو معلوم ہے نا ، کہ انسانی جسم میں کچھ جگہیں ایسی ہوتی ہیں ، جہاں کسی دوسرے  کے ہاتھ کے مساس سے لطف آتا ہے ؟
  بچے ناسمجھ ہوتے ہیں  بس اِسی ناسمجھی  کا فائدہ  جنسی ذہنی بیمار اُٹھا جاتے ہیں ۔ اُس کے بعد بچوں (لڑکیوں یا لڑکوں) کو بلیک میل کیا جاتا ہے ۔
کبھی کبھار انسان کو سمجھدار ہونے کا ثبوت دینا چاہیئے،  اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ آپ چوبیس گھنٹے بچے کے سر پہ سوار نہیں رہ سکتے، لیکن پیار سے سمجھا سکتے ہیں ، تاکہ کوئی  خطرے کی بات  ہو تو وہ شیئر کر سکے۔
جنسی کرائم ریٹ دنیامیں کہیں بھی  زیرو نہیں۔ بہت کیئر فل لوگوں کے ساتھ بھی مس ہیپس ہوتے ہیں ، عقل مندی کے تقاضوں میں سے ایک اگر سزا کا مطالبہ ہے تو ایک آگاہی بھی ہے۔
آپ شاید اس بات کو ایسے نہ سمجھ سکیں یا اس کی نوعیت نا سمجھیں ، پرسوں میرے چچا کی سات سالہ بیٹی ساتھ بیٹھی تھی اسے میں عامر خان والی ویڈیو دکھا رہی تھی، دیکھ کر کہتی ،
" باجی  اس نے ایک جگہ نہیں بتائی"
میں نے پوچھا، " کونسی؟"
"  لپس پہ بھی کسی کو کِس نہیں کرنے دینا چاہیئے!   ٹھیک کہہ رہی ہوں نا؟"
میں نے کہا ،" بالکل ٹھیک کہہ رہی ہو۔ کوئی ایسا کچھ بھی کرنے کی کوشش کرے تو آپ نے مجھے بتانا ہے، کسی  بھی سہیلی کے ساتھ ممی بابا کو بتائے بغیر نہیں جانا"
خیر بات صرف ریپ کی نہیں ہے یا کم از کم میں صرف ریپ تک یہ معاملہ محدود نہیں کرتی۔
ہمارے ہاں ریپ سروائیورز کے لیے بھی معاشرہ کوئی آئیڈیل نہیں ہے ، نہ انہیں خاندان سپورٹ کرتا ہے اور نہ  ہی نفسیاتی مدد کا کوئی خاص نظام موجود ہے۔ یہ ڈی سینسیٹائز ہو جانا الگ بات ہے لیکن ہر بندہ نہیں ہو سکتا ۔
جیسے ہر انسان کے ساتھ ضروری نہیں کہ ریپ یا سکچوئل اسالٹ یا ہیراسمنٹ ہو پھر بھی ہم سب جانتے ہیں کہ ایسا ہوتا ہے۔
حقیقت کو جھٹلانے یا بھاگنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے، مجھے سزا پہ اعتراض نہیں شاید کسی کو بھی نہیں ہو گا۔ پہلے بھی لکھا ہے کہ یہ معاملہ محض ریپ کا نہیں ہے، میں ان خواتین سے بھی ملتی ہوں جو اپنے شوہر کے ساتھ نارمل جنسی تعلق نہیں رکھ پاتی ہیں۔ کیونکہ کہیں بہت پہلے کسی کزن کسی رشتے دار نے اس طرح انہیں چھو کر ستایا ہوتا ہے۔ میاں کے قریب آنے پر انہیں وہی وقت وہ اذیت یاد آنے لگتی ہے۔
آئی ایم سوری میں یہ باتیں یہاں لکھ رہی ہوں، جس کی اجازت ہمارا معاشرہ نہیں دیتا ،  لیکن یہ سچ ہے۔ اپنے ہی جسم یا وجود کے ساتھ ایسے کسی احساس کا جڑ جانا اور پھر اس پر کسی سے بات نہ کر سکنا خاصا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ ہم لوگ بہت سی چیزوں کو عام سمجھتے ہیں لیکن سمجھنا نہیں چاہیئے۔
فیصل آباد میں جس لڑکے نے بتایا کہ اس کے قاری صاحب بھی ایسا ہی کرتے تھے اور اس نے بھی جواباً آگے بچوں کے ساتھ ایسا کیا،  شاید یہ ایک مثال سمجھنے کے لیے کافی ہو کہ ان معاملات پر خاموشی اختیار کرنا ایک سائیکل یا چین ری ایکشن یا کچھ بھی کہہ لیں اسے جنم دیتا ہے۔
سکول کالج یا یونیورسٹی میں ہر بندہ ایسا نہیں ہوتا لیکن کوئی ایک ایسا بھی  ہوتا ہے۔ باقی آپ کی مرضی۔
یہ سب واقعات کسی نا کسی کے بھائی بیٹے شوہر بہنوئی باپ رشتےدار کزن نے ہی کیے ہوتے ہیں ۔تو آپ یا کتنی خواتین انہیں پھانسی کی سزا سنائیں گی؟
شاید کہنے کو آسان ہو کہ اپنے میاں کو یا باپ کو پھانسی لگا دیں گے۔ لیکن کہنے اور عمل کرنے میں فرق ہوتا ہے۔ شاید ہم کہیں،  نہیں ہمارے رشتےدار تو سب اسلام کو ماننے والے اور شریعت کے پابند ہیں وہ تو ایسا کر ہی نہیں سکتے !
لیکن اس ملک کے ستانوے فیصد لوگ ایسے ہی ہیں اور انہیں میں سے یہ سب کرنے والے بھی موجود ہیں۔ ریپ کرنے والے بھی، چھاتی یا پشت پہ ہاتھ پھیرنے والے بھی، گود میں بٹھا کر تسکین کا سامان کرنے والے بھی اور چھونے والے بھی۔
مزید یہ کہ جو لوگ یہاں بہت سادے بن کر یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ سیکس ایجوکیشن سے  ملک میں بےحیائی وغیرہ عام ہو جائے گی یا لوگ شادی کے بغیر سیکس کرنے لگیں گے ۔تو ان سادہ دلوں کو جاننا چاہیئے یا اعداد و شمار اکٹھے کرنے چاہیئے تاکہ علم ہو ایسا واقعی ہو رہا ہے۔
ان لوگوں کو واقعی سیف سیکس پڑھانے اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔لیکن اگر معاملے سے بھاگنا ہے ۔تو بس اتنا کہہ دیں کہ یہ اسلامی معاشرہ ہے یہاں ایسا کچھ نہیں ہوتا! 
لیکن کیا ایسا ہے ؟
 
 کاؤنسلنگ ، تعلیم،آگاہی شعور دینا اپنی اولاد کو ہر مرحلے پہ ایک ضروری عمل ہے ۔ 

بشکریہ ڈاکٹر رامیش فاطمہ۔ - - -  


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


  
 

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔