Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

اتوار، 1 اکتوبر، 2023

پرچونی والی کہانی

"آوا ہمیں پرچونی والی کہانی سنائیں "۔ لڈو اور برفی کے ساتھ دادی ماں کے پاس بیٹھی  ہوئی چم چم نے کہا۔ جو آپ نے ماما ، ششی مو اور مانی مو کو لے کر دی ۔
بوڑھے نے کہانی شروع کی ۔ چم چم ، ڈو اور برفی آپ کے ماما اور بابا آپ کی عمر کے تھے ، نہیں بلکہ آپ سے بڑے تھے ۔یہ  مئی 1990 کا ذکر ہے بڑھیا ، چھوٹی کو لے کر اپنے بابا کے ساتھ شور کورٹ اپنی بہن کی بیٹے کی ولادت پر ملنے گئی ، چم چم کی ماما ، ،ڈو کا بابا اور برفی کا بابا ، بوڑھے کے پاس رہ گئے ، اُن کی موجیں۔
ایک ہفتے کو چم چم کی ماما  نے اپنے پپا سے پوچھا  " پپا آپ بچپن میں کیا کھایا کرتے تھے "۔ 
بوڑھے نے کہا ،"جو ہم کھاتے تھے وہ آپ لوگ نہیں کھا سکتے "۔ 
برفی کے بابا نے پوچھا،"کیا وہ چیزیں اب بھی ملتی ہیں "۔ 
بوڑھے نے کہا جی بالکل ملتی ہیں ، 
برفی کے بابا نے کہا ، ہمیں دکھائیں ، وہ کیسی ہوتی ہیں ؟ 
بوڑھا اُن دنوں ، 3 سال کم 40 کا تھا ، چنانچہ اپنے تینوں بچوں کو اپنی ماضی کے دیس میں لے گیا ، جو حیدر آباد میں گھنٹہ گھر کے پاس تھا ۔ تینوں بچے حیران ، دکانوں پر ٹوکریوں میں پہاڑیوں کے ڈھیر کی طرح بوڑھے کا بچپن بکھرا ہوا تھا ۔بوڑھے نے اپنے بچپن کے دیس کے پہاڑوں کا تعارف کروانا شروع کردیا ۔
 یہ بتاشے ہیں ، وہ ریوڑیاں ، وہ کھٹی میٹھی گولیاں ، اور یہ تل پٹی۔
 وہ گول اور چپٹے مرونڈے ۔ یہ میوے کی چاکلیٹ ۔ 
یہ چھوٹے پیکٹوں میں مولی کا نمک ، کالا نمک ، یہ املی کے پیکٹ ۔چورن
وہ سفیدسفید  مخانے ، اُن کے ساتھ گجک اور  مونگ پھلی کی گڑ پٹی ۔
اِن پر مکھیاں بیٹھی ہیں ۔ یہ گندی ہیں ۔چم چم کی 10 سالہ ماما نے ناک چڑھاتے پوچھا۔ پپا آپ کیسے کھاتے تھے ؟
بوڑھے نے ایک بتاشہ اُٹھایا منہ میں ڈالا  اور کہا۔ ایسے ۔ 
میں ماما کو بتاؤں گی کہ آپ گندی چیزیں کھاتے تھے ۔چم چم کی ماما بولی
پپا میں کھالوں ۔ برفی کے بابا نے پوچھا۔ 
بوڑھے نے تین بتاشے اٹھائے اور تینوں بچوں کو دیئے ۔ چم چم کی ماما نے لینے سے انکار کر دیا ۔ لڈو کے بابا نے بوڑھے کی طرف دیکھا اورہاتھ میں پکڑ لیا۔ برفی کے بابا نے لیا اور منہ میں ڈالا ۔
گندے بچے ، منہ سے نکالو" چم چم کی ماما نے 8 سالہ برفی کے بابا پر حکم چلایا ۔
 لڈو کا بابا ابھی سوچ رہا تھا ۔کہ کھائے یا نہ کھائے  ، " اپیا یہ میٹھا ہے" ۔ برفی کا بابا چلایا ۔ "مزیدار بھی ۔ پپا ایک اور کھاؤں گا "۔
 بوڑھے نے چم چم کی ماما کا بتاشہ ، برفی کے بابا کو دے دیا اُس نے وہ بھی منہ میں ڈال لیا۔
 بھائی آپ بھی کھاؤ" برفی کے بابا نے ، لڈو کے بابا کو مشورہ دیا ،"ورنہ مجھے دے دو" ۔ 
لڈو کے بابا نے بتاشے کو غور سے دیکھا ۔الٹا اور پلٹا ۔ابھی کھانے کا ارادہ کر ہی رہا تھا ۔
 " ثانی مت کھاؤ" ۔ چم چم کی ماما چلائی ۔ "مانی گندہ  بچہ ہے ۔ تم اچھے بچے ہو ۔ میں ماما کو بتاؤں گی "۔ 
لڈو کے بابا نے بڑی بہن کی طرف دیکھا۔ 
چھوٹے بھائی کی طرف دیکھ۔ 
بوڑھے کی طرف سوالیہ نظروں دیکھا ۔
 تمھاری مرضی ، بوڑھے نے چار مخانے اُٹھائے  ایک برفی کے بابا کو دیا جو اُس نے فوراً منہ میں ڈال لیا ۔ 
"ثانی یہ بھی میٹھا ہے  اور مزیدار بھی" برفی کا بابا بولا  ۔
لڈو کے بابا نے بتاشہ منہ میں ڈالا ۔ 
"ہاں اپیا یہ میٹھا  ہے  "وہ بولا ۔" پپا اپیا کو بھی دیں ۔
بوڑھے نے  مخانا  چم چم کی ماما کی طرف بڑھایا وہ دوسری طرف منہ کرکے ناراضگی میں کھڑی ہو گئی ۔
" میں آپ سب سے نہیں بولتی ۔ ثانی مانی آپ نے ماما کا حکم نہیں مانا کہ بازار سے کوئی گدی چیزیں لے کر مت کھانا بیمار پڑ جاؤ گے "۔چم چم کی ماما نے اپنے کمانڈنگ آفیسر کا بطورسیکنڈ اِن کمانڈ آرڈر بتایا اور خاموش کھڑی ہوگئی ۔
بوڑھے نے پاؤ پاؤ تمام مٹھائیاں سوئیٹس خریدیں ۔ ہر مٹھائی کے لئے برنیاں خریدیں ۔ ناراض چم چم کی ماما اور خوشی میں چہکتے برفی کے بابا اور مستقبل میں ماما کے روئیے پر سوچتا ہوا لڈو کے بابا سمیت گھر آگئے ۔
ساری چیزیں برنیوں میں ڈالیں۔ ہر پر اُس کا نام  اور فی بچہ ایک دن میں کتنی کھا سکتا ہے لکھا  اور ڈائینگ ٹیبل کے کونے پر سجا دیں ۔ برفی کے بابا کو انچارج بنایا گیا ۔کیوں کہ چھوٹی یعنی ایجوٹنٹ اپنی ماما کے ساتھ گئی ہوئی تھی ۔
     برفی کے بابا نے  چار  پلیٹوں  میں ، راشن کارڈ کے مطابق چیزیں نکالیں   ۔  تمام سوئیٹس ایک ایک ، کرکے نکالیں ۔ہر پلیٹ بتاشے  ، ریوڑیوں ، کھٹی میٹھی گولیوں،تل پٹی، گول اور چپٹے مرونڈے ۔  میوے کی چاکلیٹ ۔ مولی کا نمک ، کالا نمک ، املی کا پیکٹ ۔چورن۔  مخانے۔ گجک اور  مونگ پھلی کی گڑ پٹی سے   بھر گئی ۔
پپا یہ آپ کی ،  یہ ڈولی ، ثانی اور میری ۔ برفی کے بابا نے تقسیم بتائی ۔
یہ ایک دن میں کھا کر آپ سب بیمار پڑو گے پھر دیکھنا ۔ چم چم کی ماما بولی۔
اپیا ، میں نے کافی دیر پہلے میٹھی چیزیں کھائیں کوئی بیمار پڑا "۔برفی کا بابا بولا ۔" ثانی بھی ٹھیک ہے۔
"صبح دیکھنا  تم دونوں پیٹ پکڑے ہو  گے" ۔چم چم کی ماما  نے رائے دی ۔"پپا کا کچھ نہیں ہوگا ، وہ یہ گندی چیزیں کھا چکے ہیں" ۔
چم چم کی ماما نے وہ گندی چیزیں نہیں کھائیں۔ برفی کے بابا نے، لڈو کے بابا نے اور بوڑھے نے وہ چیزیں مزے سے کھائیں ۔ بوڑھا سو گیا ۔ شام کو اُٹھا تو دیکھا کہ چم چم کی ماما کی پلیٹ خالی ہے ۔ 
تو دوستو۔ ماماکی حکم عدولی میں چم چم کی ماما بھی شامل ہوگئی۔ 
مہینے کا سٹاک  ، ایک ہفتے میں ختم ،    اگلے اتوار ، بوڑھا ، چم چم کی ماما ، لڈو کا بابا اوربرفی کا بابا  دوبارہ  بوڑھے کے دیس گئے ۔چم چم کی مام نے لیڈر بن کر ،وہاں سے اور چیزیں لیں ۔
بڑھیا کے آنے کا پیغام ملا ۔بوڑھے نے تینوں بچوں کے ساتھ مل کر وہ سب جار بچوں کی الماری میں چھپا دیئے ۔ پھر بڑھیا ، چھوٹی کے ساتھ پہنچ گئی  ۔
لیکن چھوٹی نے الماری سے خزانہ دریافت کر لیا ۔
یہ کیا آپ نے پرچونی سجائی ہے ؟"   بڑھیا بولی " کوئی بیمار تو نہیں پڑا ۔
ماما ، پپا تو اپنے بچپن میں بڑی مزیدار چیزیں کھاتے تھے۔چم چم کی ماما بولی ۔
چھوٹی نے لپک   مخانے کی برنی اُٹھائی ۔ ماما یہ وہ سوئیٹ ہے نا جو میں وہاں کھاتی تھی     اور مٹھی بھر کر مخانے نکال لئے ۔ 
پنکی ، صرف ایک مخانا لینا ہے ۔ چم چم کا بابا چلایا ۔
یہ کیسی شاپ ہے ؟ بڑھیا نے چار بتاشے نکالتے ہوئے کہا ۔
بیگم یہ  Honour Shopہے اور اِس کا انچارج مانی ہے ۔
٭٭٭٭٭٭


ہمارا زمانہ ۔ یادش بخیر

پانچویں جماعت تک ھم  سلیٹ پر جو بھی لکھتے تھے اسے زبان سے چاٹ کر صاف کرتے ، یوں کیلشیم کی کمی کبھی ہوئی ہی نہیں ۔ 
پاس یا فیل ۔ صرف یہی معلوم تھا، کیونکہ فیصد سے ہم لا تعلق تھے۔
ٹیوشن  شرمناک بات تھی اور نالائق بچے استاد کی کارکردگی پر سوالیہ نشان سمجھے جاتے۔
کتابوں میں مور کا پنکھ، چینی کے ساتھ رکھنے پرہماری ذہانت  اور ہوشیاری میں اضافہ ہوتا ،، یہ ہمارا اعتقاد بھروسہ تھا۔
بیگ میں کتابیں سلیقہ سے رکھنا سگھڑ پن اور با صلاحیت ہونے کا ثبوت تھا۔
ہر سال نئی جماعت کی کتابوں اور کاپیوں پر کورز چڑھانا ایک سالانہ تقریب ہوا کرتی تھی۔
والدین ہمارے تعلیم  سے زیادہ فکرمند نہ ہوا کرتے تھے اور نہ ہی ہماری تعلیم ان پر کوئی بوجھ تھی، خدا جھوٹ نہ بلوائے  والدصرف کچی جماعت میں ہمیں سکول داخل کروانے گئے اور گوشت و چمڑی کا ہدیہ ہیڈ ماسٹ صاحب کے نام ہبہ کرکے آگئے  اُس کے بعد سالہا سال ۔ہمارے اسکول کی طرف رخ بھی نہیں کیا ، کیونکہ ہم میں کھال بچانے کی  ذہانت  تھی۔

اسکول میں مار کھاتے ہوئے  یا مرغا بنتے  ہوئے کبھی ہماری  اَنا  (ego)  مجروح نہیں ہوئی ، لہذا خودی بیچنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔

کھیل میں  مار کھانا، ہمارے روزمرہ زندگی میں  عام سی بات تھی ، مارنے والا اور مار کھانے والا دونوں کو ایک دوسرے سے کوئی شکایت نہ ہوا کرتی تھی۔
ہم اپنے والدین سے کبھی نہ کہے سکے کہ ہمیں ان سے کتنی محبت ہے ۔ نہ باپ ہمیں کہتا تھا ۔  کیونکہ     I LOVE YOU کہنا  ہمیں معیوب    لگتا تھا ۔
 کیونکہ تب محبتیں زبان سے ادا نہیں کی جاتی تھیں بلکہ  محسوس ہوا کرتی تھیں۔
رشتوں میں چاپلوسی نہ تھی، بلکہ وہ خلوص اور محبت سے سرشار ہوا کرتے تھے۔
سچائی یہی ھے کہ ہمارے زمانے میں  سبھی افراد اپنی قسمت پر ہمیشہ راضی ہی رہے، ہمارا زمانہ خوش بختی کی علامت تھا ، اس کا موازنہ آج کی زندگی سے کر ہی نہیں سکتے۔

٭٭٭٭٭

٭۔ بوڑھے کا بچپن اور پرچونی

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔