گذشتہ
برس ٹڈی دل افریقہ سے اٹھا، ایتھوپیا سے چلا، عمان سے ہوتا ہوا ایران اور
وہاں سے چاغی اور پھر سندھ پہنچا، عین اسی طرح جیسے آبی پرندوں کے جھلڑ ایک
خطے سے دوسرے خطے میں سفر کرتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ٹڈی دل مہمان
پرندہ نہیں ایک آفت ہے اور ہم پر دیگر آفتوں کے ساتھ یہ آفت بھی ٹوٹ پڑی
ہے۔
پاکستان پر اس کا پہلا حملہ گذشتہ برس جون اور جولائی میں ہوا۔ سندھ اور چولستان کے کاشتکار، ان کا چارہ، کپاس کی فصل اور ان کے باغات سب برباد ہو گئے۔
کچھ بیان داغے گئے، چند نیم دلانہ اقدامات ہوئے اور اس کے بعد ملک کو درپیش اہم ترین مسائل مثلا آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع، پرویز مشرف کیس کے فیصلے پر ہڑبڑانا، میاں نواز شریف کو ضمانت پر خود ہی باہر بھیجنا اور خود ہی تلملانا، مولانا فضل الرحمان سے جوجھنا وغیرہ شامل تھا پر توجہ شریف مرکوز کر لی گئی۔
کاشتکار گئے بھاڑ میں اور وہیں ان کے مسائل بھی۔ نہ حکومت کے اور نہ ہی اپوزیشن کے کان پر جُوں تک رینگی۔
یوں کہنے کو پاکستان زرعی ملک ہے۔ مگر یہاں زرعی اصلاحات کا مطلب، زرعی ٹیکس، کاشتکاروں کو جاگیردار ہونے کا طعنہ دینے اور بڑے مزارعوں کو توڑنے کی احمق سوچ کے علاوہ کچھ نہیں۔ زراعت کے بارے میں پتا کسی کو کدُو کا بھی نہیں ہے۔
ٹڈی کی افزائش کے لیے صحرائی ریت بہترین ہوتی ہے خصوصا جس برس بارش ہو وہ سال ٹڈیوں کی افزائش کے لیے بڑا بار آور ہوتا ہے۔ نومبر میں جو ٹڈیاں کراچی میں نظر آئیں وہ زرد رنگ کی ٹڈیاں تھیں۔ یہ بالغ ٹڈیاں تھیں اور اگر کسی کی کھوپڑی میں ذرا سی بھی عقل ہوتی تو وہ انھیں جنگی بنیادوں پر تلف کرتا نہ کہ لاڈ پیار سے چمکار کے بلوچستان جانے دیتا کہ وہاں افزائش نسل کے بعد وہ دوبارہ ملک پر حملہ کریں؟
اس وقت ان ٹڈیوں کو تل کر کھانے اور ان کی بریانی دم کرنے کی تجاویز دی گئی تھیں۔ ٹڈیاں چلی گئیں، سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔ متاثرہ کاشتکار جانے کیسے اگلی فصل کاشت کرنے کے قابل ہوئے؟ کسی کو کچھ معلوم نہ ہو پایا مگر میاں صاحب کی پلیٹلیٹس گرنے اور حکومتی پارٹی کا فشار خون بلند ہونے کی خبریں لمحہ بہ لمحہ سنائی دیتی رہیں۔
ٹڈیاں اس دوران ساون سے نم صحرائی ریت میں انڈے دے کر اپنا جھلڑ بڑھاتی رہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی کی وزیر اور زراعت کے وزیر اس دوران ٹاک شوز پر اپنی حکومت کا دفاع کرتے رہے اور بے خبر رہے کہ ٹڈی کہاں ہے اور کیا کر رہی ہے۔
ٹڈی نے اس دوران اگلی نسل تیار کر لی تھی اور یہ نسل جو گلابی رنگ کی کم عمر ٹڈیاں ہیں، چھ جنوری سے جنوبی پنجاب پر حملہ آور ہیں۔
فی الوقت یہ دل کی شکل میں نہیں، ٹکڑیوں کی شکل میں ہیں۔ مگر ان کی ایک ٹکڑی بھی بہت بڑی ہوتی ہے۔
اس وقت یہ ٹڈیاں صحرا سے نکل کر جنوبی پنجاب سے ہوتی ہوئی انڈین پنجاب فاضلکہ، فیروز پور اور بیکانیر وغیرہ کی طرف جا رہی ہیں۔
بیکانیر صحرائی علاقہ ہے۔ فروری کا مہینہ ٹڈیوں کی افزائش کا مہینہ ہے۔ حال ہی میں ہونے والی بارشوں سے ریت میں نمی موجود ہے۔ یعنی یہ ٹکڑیاں بڑھ کر جھلڑ بنیں اور اب جلد ہی دل، بنا چاہتی ہیں۔
ٹڈی دل معمولی شے نہیں، تاریخ کے بڑے بڑے قحط اس معمولی ٹڈی کی وجہ سے پڑے۔ سنا ہے کہ یہ گھاس گھوڑا یا گراس ہاپر ہی ہوتا ہے اور جب صحرا میں بارش ہو اور زیادہ ہریالی ہو تو اپنی رنگت بدل لیتا ہے اور آپس میں ایک عجیب سا گٹھ جوڑ کر کے ٹکڑیاں، جھلڑ اور پھر آخر کار دل بنا لیتا ہے۔
ایسا یہ اسی وجہ سے کرتا ہے جس وجہ سے ازمنہ وسطی کے انسان کرتے تھے۔ آبادی بڑھنے کی وجہ سے خوراک کی قلت ہوتی ہے۔ یہیں سے ان کے دماغ میں ایک ایسا مادہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تنہا گھاس گھوڑے سے ایک دل میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ یہ مادہ سروٹینن ہے۔
ٹڈی دل کئی دہائیوں کے بعد دوبارہ آیا ہے اور اسے قابو کرنا نہ تو کسانوں کے بس کی بات ہے اور نہ ہی ایک اکیلا ملک اسے قابو کر سکتا ہے ۔ اس کے لیے پڑوسی ملکوں کے ساتھ ہنگامی بنیادوں پر بات چیت کرنے اور اس کے اگلے حملے سے پہلے اسے تلف کرنے کی ضرورت ہے۔
شور مچا کر ایک کھیت سے بھگائی ہوئی ٹڈیاں دوسرے کھیت میں چلی جائیں گی وہاں سے بھگائی جائیں گی تو آگے، مگر کبھی نہ کبھی ،کہیں نہ کہیں یہ بیٹھیں گی اور جہاں یہ رات بھر بیٹھ جائیں اس علاقے میں گھاس کا تنکا تک نہیں بچتا۔
ٹڈی دل کو کیمیائی طریقوں سے ختم کرنا بھی خطرناک ہے کیونکہ اس طرح جو کیمیکل استعمال کیا جائے گا وہ ماحول، انسانی اور دیگر جانوروں کی صحت پر برا اثر ڈالے گا۔
ٹڈی کے نیسٹنگ گراؤنڈ کو کھود کر اس کے انڈے تلف کیے جا سکتے ہیں گو یہ اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ چھلنی میں پانی لانا۔ اس کے علاوہ پھپھوندی کی ایک خاص قسم پورے جھلڑ کو بیماری میں مبتلا کر کے مار سکتی ہے۔ دیمک کو قابو کرنے کے لیے بھی ایک اسی قسم کی دوا استعمال کی جاتی ہے۔ یہ پھپھوندی ٹڈی میں وبا کی صورت بیماری پھیلا دیتی ہے۔ ایسے مادے بھی سپرے کیے جا سکتے ہیں جو سروٹینن کی مقدار کو گھٹا دیں۔ جس سے یہ دل بنانے کی خُو ہی بھول جائیں۔
انسان بہر حال بہت سیانا ہے سر جوڑ کے بیٹھیں گے تو کوئی نہ کوئی حل نکل ہی آئے گا۔ مگر فیصلہ جلدی کرنا ہے۔ آج جو ٹڈی میری چائے کے کپ پہ آ کے بیٹھی وہ گلابی تھی۔ یہ ٹڈیاں زرد ہونے سے پہلے مار دی گئیں تو خطرہ ٹل جائے گا ورنہ یہ ٹڈی دل آپ کو کھا جائے گا۔ یقین کیجیے کیڑوں کی یہ فوج کسی بھی انسانی فوج سے کچھ کم خطرناک نہیں اور آپ کے پاس چھہ ماہ نہیں فقط چند ہفتے ہیں۔ دوڑنا پکڑنا، پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ کی!
٭٭٭٭٭٭٭٭
آمنہ مفتی - مصنفہ و کالم نگار
بی بی سی News
آمنہ مفتی کا کالم : اڑیں گے پرزے: ٹڈی دل آپ کو کھا جائے گا!
٭٭٭٭٭٭٭٭
پاکستان پر اس کا پہلا حملہ گذشتہ برس جون اور جولائی میں ہوا۔ سندھ اور چولستان کے کاشتکار، ان کا چارہ، کپاس کی فصل اور ان کے باغات سب برباد ہو گئے۔
کچھ بیان داغے گئے، چند نیم دلانہ اقدامات ہوئے اور اس کے بعد ملک کو درپیش اہم ترین مسائل مثلا آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع، پرویز مشرف کیس کے فیصلے پر ہڑبڑانا، میاں نواز شریف کو ضمانت پر خود ہی باہر بھیجنا اور خود ہی تلملانا، مولانا فضل الرحمان سے جوجھنا وغیرہ شامل تھا پر توجہ شریف مرکوز کر لی گئی۔
کاشتکار گئے بھاڑ میں اور وہیں ان کے مسائل بھی۔ نہ حکومت کے اور نہ ہی اپوزیشن کے کان پر جُوں تک رینگی۔
یوں کہنے کو پاکستان زرعی ملک ہے۔ مگر یہاں زرعی اصلاحات کا مطلب، زرعی ٹیکس، کاشتکاروں کو جاگیردار ہونے کا طعنہ دینے اور بڑے مزارعوں کو توڑنے کی احمق سوچ کے علاوہ کچھ نہیں۔ زراعت کے بارے میں پتا کسی کو کدُو کا بھی نہیں ہے۔
ٹڈی کی افزائش کے لیے صحرائی ریت بہترین ہوتی ہے خصوصا جس برس بارش ہو وہ سال ٹڈیوں کی افزائش کے لیے بڑا بار آور ہوتا ہے۔ نومبر میں جو ٹڈیاں کراچی میں نظر آئیں وہ زرد رنگ کی ٹڈیاں تھیں۔ یہ بالغ ٹڈیاں تھیں اور اگر کسی کی کھوپڑی میں ذرا سی بھی عقل ہوتی تو وہ انھیں جنگی بنیادوں پر تلف کرتا نہ کہ لاڈ پیار سے چمکار کے بلوچستان جانے دیتا کہ وہاں افزائش نسل کے بعد وہ دوبارہ ملک پر حملہ کریں؟
اس وقت ان ٹڈیوں کو تل کر کھانے اور ان کی بریانی دم کرنے کی تجاویز دی گئی تھیں۔ ٹڈیاں چلی گئیں، سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔ متاثرہ کاشتکار جانے کیسے اگلی فصل کاشت کرنے کے قابل ہوئے؟ کسی کو کچھ معلوم نہ ہو پایا مگر میاں صاحب کی پلیٹلیٹس گرنے اور حکومتی پارٹی کا فشار خون بلند ہونے کی خبریں لمحہ بہ لمحہ سنائی دیتی رہیں۔
ٹڈیاں اس دوران ساون سے نم صحرائی ریت میں انڈے دے کر اپنا جھلڑ بڑھاتی رہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی کی وزیر اور زراعت کے وزیر اس دوران ٹاک شوز پر اپنی حکومت کا دفاع کرتے رہے اور بے خبر رہے کہ ٹڈی کہاں ہے اور کیا کر رہی ہے۔
ٹڈی نے اس دوران اگلی نسل تیار کر لی تھی اور یہ نسل جو گلابی رنگ کی کم عمر ٹڈیاں ہیں، چھ جنوری سے جنوبی پنجاب پر حملہ آور ہیں۔
فی الوقت یہ دل کی شکل میں نہیں، ٹکڑیوں کی شکل میں ہیں۔ مگر ان کی ایک ٹکڑی بھی بہت بڑی ہوتی ہے۔
اس وقت یہ ٹڈیاں صحرا سے نکل کر جنوبی پنجاب سے ہوتی ہوئی انڈین پنجاب فاضلکہ، فیروز پور اور بیکانیر وغیرہ کی طرف جا رہی ہیں۔
بیکانیر صحرائی علاقہ ہے۔ فروری کا مہینہ ٹڈیوں کی افزائش کا مہینہ ہے۔ حال ہی میں ہونے والی بارشوں سے ریت میں نمی موجود ہے۔ یعنی یہ ٹکڑیاں بڑھ کر جھلڑ بنیں اور اب جلد ہی دل، بنا چاہتی ہیں۔
ٹڈی دل معمولی شے نہیں، تاریخ کے بڑے بڑے قحط اس معمولی ٹڈی کی وجہ سے پڑے۔ سنا ہے کہ یہ گھاس گھوڑا یا گراس ہاپر ہی ہوتا ہے اور جب صحرا میں بارش ہو اور زیادہ ہریالی ہو تو اپنی رنگت بدل لیتا ہے اور آپس میں ایک عجیب سا گٹھ جوڑ کر کے ٹکڑیاں، جھلڑ اور پھر آخر کار دل بنا لیتا ہے۔
ایسا یہ اسی وجہ سے کرتا ہے جس وجہ سے ازمنہ وسطی کے انسان کرتے تھے۔ آبادی بڑھنے کی وجہ سے خوراک کی قلت ہوتی ہے۔ یہیں سے ان کے دماغ میں ایک ایسا مادہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تنہا گھاس گھوڑے سے ایک دل میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ یہ مادہ سروٹینن ہے۔
ٹڈی دل کئی دہائیوں کے بعد دوبارہ آیا ہے اور اسے قابو کرنا نہ تو کسانوں کے بس کی بات ہے اور نہ ہی ایک اکیلا ملک اسے قابو کر سکتا ہے ۔ اس کے لیے پڑوسی ملکوں کے ساتھ ہنگامی بنیادوں پر بات چیت کرنے اور اس کے اگلے حملے سے پہلے اسے تلف کرنے کی ضرورت ہے۔
شور مچا کر ایک کھیت سے بھگائی ہوئی ٹڈیاں دوسرے کھیت میں چلی جائیں گی وہاں سے بھگائی جائیں گی تو آگے، مگر کبھی نہ کبھی ،کہیں نہ کہیں یہ بیٹھیں گی اور جہاں یہ رات بھر بیٹھ جائیں اس علاقے میں گھاس کا تنکا تک نہیں بچتا۔
ٹڈی دل کو کیمیائی طریقوں سے ختم کرنا بھی خطرناک ہے کیونکہ اس طرح جو کیمیکل استعمال کیا جائے گا وہ ماحول، انسانی اور دیگر جانوروں کی صحت پر برا اثر ڈالے گا۔
ٹڈی کے نیسٹنگ گراؤنڈ کو کھود کر اس کے انڈے تلف کیے جا سکتے ہیں گو یہ اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ چھلنی میں پانی لانا۔ اس کے علاوہ پھپھوندی کی ایک خاص قسم پورے جھلڑ کو بیماری میں مبتلا کر کے مار سکتی ہے۔ دیمک کو قابو کرنے کے لیے بھی ایک اسی قسم کی دوا استعمال کی جاتی ہے۔ یہ پھپھوندی ٹڈی میں وبا کی صورت بیماری پھیلا دیتی ہے۔ ایسے مادے بھی سپرے کیے جا سکتے ہیں جو سروٹینن کی مقدار کو گھٹا دیں۔ جس سے یہ دل بنانے کی خُو ہی بھول جائیں۔
انسان بہر حال بہت سیانا ہے سر جوڑ کے بیٹھیں گے تو کوئی نہ کوئی حل نکل ہی آئے گا۔ مگر فیصلہ جلدی کرنا ہے۔ آج جو ٹڈی میری چائے کے کپ پہ آ کے بیٹھی وہ گلابی تھی۔ یہ ٹڈیاں زرد ہونے سے پہلے مار دی گئیں تو خطرہ ٹل جائے گا ورنہ یہ ٹڈی دل آپ کو کھا جائے گا۔ یقین کیجیے کیڑوں کی یہ فوج کسی بھی انسانی فوج سے کچھ کم خطرناک نہیں اور آپ کے پاس چھہ ماہ نہیں فقط چند ہفتے ہیں۔ دوڑنا پکڑنا، پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ کی!
٭٭٭٭٭٭٭٭
آمنہ مفتی - مصنفہ و کالم نگار
بی بی سی News
آمنہ مفتی کا کالم : اڑیں گے پرزے: ٹڈی دل آپ کو کھا جائے گا!
٭٭٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں