بوڑھے
کو ستمبر 2010 میں گھریلو بجلی سے ایک حادثہ پیش آیا تھا جس سے اُس کے
دونوں ہاتھ اور چہرہ جل گیا تھا اور بوڑ ھےنے اپنے 57 ویں سالگرہ سی ایم
ایچ راولپنڈی میں منائی تھی۔
چم چم اُس وقت 6 ماہ کی تھی ، بوڑھا صحت یاب ہو گیا ، لیکن بوڑھے کے پاؤں کے دونوں تلوں کے ٹشو کئی جگہ سے بے کار ہوگئے ۔
چم چم اُس وقت 6 ماہ کی تھی ، بوڑھا صحت یاب ہو گیا ، لیکن بوڑھے کے پاؤں کے دونوں تلوں کے ٹشو کئی جگہ سے بے کار ہوگئے ۔
ڈاکٹروں کو دکھایا وہ ، Psoriasis بتاتے تھے ۔لیکن سورائسز تو موروثی بیماری ہے اور بوڑھے کے دادا ، دادی نانا، نانی ، ابا اور امی سے کسی کو بھی نہیں تھی ۔
لہذا بوڑھا اپنے تلوں میں نمی پیدا کرنے کے لئے ، چائینا کے 100 روپوں میں ملنے والے ،ربڑ کے بوٹ ، میں پانی ڈال کر پہنتا ہے اور دوائیاں لگاتا ہے ، اور جب کاہلی کرے، تو تلوے خُشک ہونے سے بوڑھے کا بُرا حال ہوجا تا ہے۔
یوں سمجھیں کہ بوڑھے نے کافی علاج کروایا ۔ایلو پیتھ ، ہومیو پیتھ اور حکیم لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا ، کم ہو جاتا تھا لیکن ٹھیک نہیں ہوتا تھا۔
جون 2018 میں بڑھیا کے بیٹی کے پاس ہفتہ رہنے کا پروگرام بنا ، بوڑھے اور ملازم کے لئے پورے ہفتے کا کھانا بنا کر فریج میں رکھ کر اور چٹیں لگا کر چلی گئی کہ کون سا کھانا کِس دن کھانا ہے ۔
بوڑھے نے ڈائیوو بس پر بٹھا یا یوں بڑھیا ہمت کرکے اکیلی ایبٹ آباد پہنچ گئی ، ایبٹ آباد میں بیٹی نے اُسے ڈائیو اڈے سے لےلیا ۔ یہاں تک تو سب ٹھیک تھا ، لیکن 5 دن بعد بڑھیا بیمار ہوگئی ۔ سی ایم ایچ میں داخل ہوئی اور ٹھیک ہونے تک مزید وہیں رہنے کا پروگرام بنا لیا۔
ہفتے کی شام ملازم غلام حسین نے بتایا ، ، " سر !فریج میں رکھے تمام سالن ختم ہوگئے ہیں ۔"
بوڑھے نے پوچھا ،" اچھا تمھیں کچھ بنانا آتا ہے ؟"
غلام حسین،" سر دال وغیرہ بنا لوں گا ۔"
بوڑھا ، " ماش جی دال بنا لوگے ؟"
غلام حسین،" جی کوشش کروں گا "۔
غلام حسین نے ماش کی دال بنائی جو بوڑھے کو پسند آئی ، پورے ایک ہفتہ ڈٹ کر کھائی اور سوپ کی طرح پی بھی ، بڑھیا کو بیٹی چھوڑنے آئی ۔
بڑھیا کو بے حد افسوس ہوا کہ اُس کا بوڑھا پورے ہفتہ ماش کی دال کھاتا رہا ۔
بڑھیا ،" آپ کو صرف ماش کی دال کھانے سے پریشانی نہیں ہوئی "
بوڑھا ،" مجھے تو پریشانی نہیں ہوئی ، غلام حسین سے پوچھو ۔"قصہ مختصر ، بوڑھے کو احساس ہوا کہ بوڑھے پیر کی تکلیف میں تسلی بخش کمی آئی ، ماش کی دال یا ماش کی دال کا سوپ ، بوڑھے کے روزانہ شام کے کھانے کا ایک جزو بن چکی ہے ۔
فرق صاف ظاہر ہے !
ماش کی دال کے بارے میں چاچا گوگل کے بتائے ہوئے فوائد:
٭- ماش کی دال غذائیت اور فائدے کے لحاظ سے مفید ہے۔
٭-اس میں وٹامنز، پو ٹاشیم، کیلشیم، آئرن اور فائبر پایا جاتا ہے۔
٭- اناجوں کے مقابلے میں دالوں میں نمکیات زیادہ ہوتے ہیں۔
٭- دال کی طاقت اس کے چھلکے میں مو جو د ہو تی ہے۔ چھلکوں میں وٹامن E پایا جاتا ہے جو بانجھ پن کو دور کر تا ہے۔
٭- آنتوں اور معدے کے لیے مفید ہے۔ قبض کو دور کر تی ہے۔
٭- بلڈ پریشر کم رکھنے میں مدد دیتی ہے کیو نکہ اس میں پو ٹاشیم پایا جاتا ہے۔
٭- خون میں شریانوں پر پڑنے والے دباؤ کو کم کر تا ہے۔ ا س سے خو ن آسانی سے گر دش کر تا ہے اور دل پر دباؤ نہیں پڑتا۔
٭- اس میں وافر مقدار میں آئرن ہو تا ہے جو خو ن کی کمی کو پورا کر تا ہے۔ شو گر لیو ل کو کم کر تا ہے۔
٭- یہ خون میں انسو لین کے لیو ل کو بر قر ار رکھتی ہے۔
٭- خو ن میں سرخ ذرات بننے کا سبب بنتی ہے۔
٭- ماش کی دال شوگر کے مریضوں کے لیے بہترین ہے ۔
٭- مر دانہ طاقت اورا سپر م بڑھانے کے لیے ماش کی دال بہترین دواہے۔
٭- اس میں فو لیٹ ہو نے کی وجہ سے حمل کے دوران اس کا استعمال بچہ جسمانی خر ابی سے محفو ظ رہتا ہے۔
٭- ادویات میں بطورِ سفوف ، بطورِمعجون اور میٹھے پکوانوں میں استعمال ہوتی ہے۔سفوف مغلظ میں بھی استعمال کی جاتی ہے۔
٭- ثابت ماش کی کھیر پکا کر بچے والی عورت کو دودھ زیادہ پید ا کرنے کے لیے کھلاتے ہیں۔
٭-بیرونی ورم یا درد کے لئے، اس کے آٹے میں ہینگ ، تخم سویا اور مین پھل، باریک پسے ہوئے ملا کر روٹی بناتے ہیں جو ایک طرف سے کچی رکھی جاتی ہے اور دوسری طرف سے آدھی پکائی جاتی ہے ۔ پھر نیم گرم ، کچی طرف سرسوں کا تیل یا کسٹرآئل لگا کر سوجن ، درد معدہ ، قولنج اور درد گردہ کی جگہ رکھ کر کپڑا باندھ دیتے ہیں ۔
٭- ابال کر پانی میں پیس لیں اور اس پانی سے بال دھوئیں تو بال عمدہ ، لمبے اور گھنے ہو جاتے ہیں۔
ماش کی دال پکانے کا آسان طریقہ :
پانی میں ماش کی دال چند گھنٹوں کے لیے بھگو دیں۔حسبِ ذائقہ مصالح جات ڈالیں اور ماش کی دال کو اتنی دیر پکائیں کہ یہ کھیر کی طر ح یکجا ہو جائے۔ اب اس کو ٹھنڈا کر کے کھائیں۔
نوٹ:
یہ عموماً کہا جاتا ہے کہ ماش کی دال، انسانی خوراک کے لئے نقصان دہ ہے ، لیکن بوڑھا اِس سے متفق نہیں ۔
خوراک کے لئے اللہ کی کوئی تخلیق انسان کے لئے مضر نہیں !
٭٭٭صحت پر مضامین پڑھنے کے لئے کلک کریں ٭واپس٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں