سائینس دانوں، ہیئت دانوں اور مذاہب عالم کے مطابق تخلیق کائینات اور زمین کے بارے میں مختلف مفروضوں کے مطابق اپنی اپنی سوچ ہے ، لیکن یہ سوال سب کے لئے نہایت اہم ہے کہ :
لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کائینات کو کس نے تخلیق کیا :
٭- مذاہب کی انسانی تاریخ کے مطابق ،
٭-ہندو دھرم کے اوتار رام کا تعارف رامائن سے ہوتا ہے کچھ اسے خیالی کردار کہتے ہیں مگر وہ اپنے دور میں ایک بادشاہ تھا جس نے بھرہمن سپرمیسی کی بنیاد رکھی۔ جس کے اثرات آج تک ہندو معاشرے میں موجود ہیں ۔ اس کے دور کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے مگر یہ سات ہزار سال قبل مسیح کے لگ بھگ ہے۔
چونکہ آریا ، ہندواستھان میں آنے کے بعد چند صدیوں میں اپنی زبان بھول گئے۔ اس وقت انھوں نے ویدوں کی تفسیر لکھنی شروع کی، جو براہمن کے نام سے مشہور ہوئیں۔ مگر یہ بھی ناقابل فہم ہوتی گئیں اور تشفی بخش ثابت نہیں ہوئیں تو انہوں نے ایک نیم مذہبی ادب ویدانگ کی بنیاد رکھی۔ اور کلپا کے زمرہ میں چار ، رسالے سروثہ ستر، سلو ستر، گریہ ستر اور دھرم ستر تصنیف کیے۔
ـ وشنو مت میں ، وشنو نے برہما کو تخلیق کیا اور اسے باقی کائنات بنانے کا حکم دیا ۔
ـشیو مت میں ، شیو کو خالق سمجھا جاسکتا ہے۔
ـ شکتی ازم میں ، تری مورتی اِس کی وجہ ہیں ۔ یہ تین مورتیاں یعنی برہما (تخلیق )، وشنو ( پرورش) اور شِوا (تباہی ) کی قوت رکھتی ہیں ۔
ہندو دھرم کے مطابق کائنات کی تخلیق،9 یعنی یوگ چکر ، کے بعد ، مہایوگ شروع ہوتا ہے، اس سے پہلے تین یوگ، ست یوگ، ترتیا یوگ اور دواپر یوگ گزر چکے ہیں، اب آخری یوگ کلی یوگ چل رہا ہے۔ ہر یوگ 43لاکھ سال کا ہوتا ہے۔
جیوش ازم کی کتاب، عہد نامہ ءِ قدیم میں کتابِ پیدائش میں کل 50 ابواب ہیں ، جن میں پہلاباب تخلیق کائینات اور اور دوسرا باب تخلیق انسان کے متعلق ہے ۔
کتاب پیدائش: باب نمبر 1
پہلا دن -خُدا نے اِبتدا میں زمِین و آسمان کو پَیدا کیا اور زمِین ویران اور سُنسان تھی ، گہراؤ کے اُوپر اندھیرا تھا اور خُدا کی رُوح پانی کی سطح پر جُنبِش کرتی تھی، خُدا نے کہا روشنی ہوجا ،روشنی ہوگئی ، خُدا نے دیکھا کہ روشنی اچھّی ہے، خُدا نے روشنی کو تاریکی سے جُدا کیا،خُدا نے نے روشنی کو دِن کہا ، تاریکی کو رات اور شام ہوئی اور صُبح ہوئی یوں پہلا دِن ہُؤا۔(1 تا 5)
دوسرا دن۔ پھر خُدا نے کہا پانیوں کے درمیان فضا ہو تاکہ پانی پانی سے جُدا ہوجائے۔ پس خُدا نے فضا کو بنایا اور فضا کے نِیچے کے پانی کو فضا کے اُوپر کے پانی سے جُدا کِیا اور اَیسا ہی ہُؤا۔ خُدا نے فضا کو آسمان کہا اور شام ہوئی اور صُبح ہوئی۔یوں دوسرا دِن ہُؤا۔(6 تا 8)
تیسرا دن۔ خُدا نے کہا آسمان کا پانی ایک جگہ جمع ہو کہ خُشکی نظر آئے اور اَیسا ہی ہُؤا اور خُدا نے خُشکی کو زمِین کہا اور جو پانی جمع ہوگیا تھا اُسکو سمندر اور خُدا نے دیکھا کہ اچھّا ہے اور خُدا نے کہا کہ زمِین گھاس اور بیج دار بُوٹیوں کو پھلدار درختوں کو جو اپنی اپنی جِنس کے مُوافِق پھلیں اور جو زمِین پر اپنے آپ ہی میں بِیچ رکھّیں اُگائے اور اَیسا ہی ہُؤا۔ تب زمِین نے گھاس اور بُوٹیوں کو جو اپنی اپنی جِنس کے مُوافِق بِیج رکھّیں اور پھلدار درختوں کو جنکے بیج اُن کی جِنس کے مُوافق اُن میں ہیں اُگایا اور خُدا نے دیکھا کہ اچھّا ہے۔ اور شام ہوئی اور صُبح ہوئی۔ یوں تیسرا دِن ہُؤا۔
(9 تا 13)
چوتھا دن ۔ خُدا نے کہا کہ فلک پر نیّر ہوں کہ دِن کو رات سے الگ کریں اور وہ نشانوں اور زمانوں اور دِنوں اور برسوں کے اِمتیاز کے لِئے ہوں اور وہ فلک پر انوار کے لِئے ہوں کہ زمِین پر روشنی ڈالیں اور اَیسا ہی ہُؤا۔ سو خُدا نے دو بڑے نیّر بنائے ایک نیّر اکبر (سورج)کہ دِن پر حُکم کرے اور ایک نیّر اصغر(چاند) کہ رات پر حُکم کرے اور اُس نے ستاروں کو بھی بنایا اور خُدا نے اُن کو فلک پر رکھا کہ زمِین پر روشنی ڈالیں اور دِن پر اور رات پر حُکم کریں اور اُجالے کو اندھیرے سے جُدا کریں اور خُدا نے دیکھا کہ اچھّا ہے۔ شام ہُوئی اور صُبح ہُوئی۔یوں چَوتھا دِن ہُؤا۔(14 تا 19)
پانچواں دن۔ خُدا نے کہا پانی جانداروں کو کثرت سے پَیدا کرے اور پرندے زمِین کے اُوپر فضا میں اُڑیں۔ خُدا نے بڑے بڑے دریائی جانوروں کو اور ہر قِسم کے جاندار کو جو پانی پر بکثرت پَیدا ہُوئے تھے اُن کی جنس کے مُوافِق اور ہر قسِم کے پرندوں کو اُن کی جِنس کے مُوافق پَیدا کِیا اور خُدا نے دیکھا کہ اچھّا ہے۔ خُدا نے اُن کو یہ کہہ کر برکت دی کہ پھلو اور بڑھو اور اِن سمندروں کے پانی بھردو اور پرندے زمِین پر بہت بڑھ جائیں۔ شام ہُوئی اور صُبح ہُوئی۔ یوں پانچواں دِن ہُؤا۔(20 تا 23)
چھٹا دن ۔ خُدا نے کہا کہ زمِین جانداروں کو اُن کی جِنس کے مُوافق چَوپائے اور رینگنے والے جاندار اور جنگلی جانور اُن کی جِنس کے مُوافِق پَیدا کرے اور اَیسا ہی ہُؤا۔ خُدا نے جنگلی جانوروں اور اور چَوپایوں کو اُن کی جِنس کے مُوافِق اور زمِین کے رینگنے والے جانداروں کو اُن کی جِنس کے مُوافِق بنایا اور خُدا نے دیکھّا کہ اچھّا ہے۔ پھر خُدا نے کہا کہ ہم اِنسان کو اپنی صُورت پر اپنی شبِیہ کی مانند بنائیں اور وہ سمندر کی مچھلیوں اور آسمان کے پرندوں اور چَوپایوں اور تمام زمِین اور سب جانداروں پر جو زمِین پر رینگتے ہیں اِختیار رکھّیں۔ خُدا نے اِنسان کو اپنی صُورت پر پَیدا کیا۔ خُدا کی صُورت پر اُس کو پَیدا کیا۔ نرو ناری اُن کو پَیدا کیا۔ خُدا نے اُن کو برکت دی اور کہا کہ پَھلو اور بڑھو اور زمِین کو معمُور و محکُوم کرو اور سمُندر کی مچھلیوں اور ہوا کے پرِندوں اور کُل جانوروں پر جو زمِین پر چلتے ہیں اِختیار رکھّو۔ خُدا نے کہا کہ دیکھو میں تمام رُوئے زمِین کے کُل بیج دار سبزی اور ہر درخت جِس میں اُس کا بِیج دار پھل ہو تُم کو دیتا ہُوں۔ یہ تمہارے کھانے کو ہوں۔ زمِین کے کُل جانوروں کے لئے اور ہوا کے سب پرندوں کے لئے اور اُن سب کے لئے جو زمِین پر رینگنے والے ہیں جِن میں زندگی کا دم ہے سب ہری بُوٹیاں کھانے کو دیتا ہُوں۔ اورایسا ہی ہُؤا۔ خُدا نے سب پر جو اُس نے بنایا تھا نظر کی اور دیکھا کہ بہت اچھّا ہے اور شام ہوئی اور صُبح ہوئی۔ یوں چھٹا دِن ہُؤا۔(24 تا 31)
کتاب پیدائش: باب نمبر 2
ساتواں دن ۔ سو آسمان اور زمِین اور اُن کے کُل لشکر کا بنانا ( چھ دن میں )ختم ہُؤا۔ خُدا نے اپنے کام کو جِسے وہ کرتا تھا ساتویں دِن ختم کِیا اور اپنے سارے کام سے جِسے وہ کررہا تھا ساتویں دِن فارِغ ہُؤا - خُدا نے ساتویں دِن کو برکت دی اور اُسے مُقدس ٹھہرایا کِیُونکہ اُس میں خُدا کی ساری کائنات سے جِسے اُس نے پَیدا کِیا اور بنایا فارِغ ہُؤا۔ یہ آسمان اور زمِین کی پَیدائش جب وہ خلق ہُوئے جِس دن خُداوند خُدا نے زمِین اور آسمان بنایا۔ زمِین پر اب تک کھیت کا کوئی پَودا نہ تھا اور نہ میدان کی کوئی سبزی اب تک اُگی تھی، کِیُونکہ خُداوند خُدا نے زمِین پر پانی نہیں برسایا تھا اور نہ زمِین جو تنے کو کوئی اِنسان تھا۔ بلکہ زمِین سے کہر(دھند) اُٹھتی تھی اور تمام رُویِ زمِین کو سیراب کرتی تھی۔ خُداوند خُدا نے زمِین کی مٹی سے اِنسان کو بنایا اور اُس کے نتھنوں میں زِندگی کا دم پھُونکا تو اِنسان جیتی جان ہُؤا۔ (1 تا 8)
(جس سے مہاجرزادہ متفق نہیں ۔ اگلے مضمون میں اِس پر اپنے مفروضے کو دلیل سے نظریہ بنائے گا)-
لیکن تمام مذاہب ، اِس بات پر متفق ہیں ، کہ کائینات کسی قوت نے تخلیق کی ہے ، اُسےکوئی بھی نام دیں۔
بِگ بینگ کے بارے میں نظریہ ، اس مشاہدے سے پیدا ہوا تھا کہ دوسری کہکشائیں ، ہماری زمین سے بڑی تیزی سے دور ہوتی جارہی ہیں ، گویا کہ ان سب کو کسی قدیم دھماکہ خیز قوت نے آگے بڑھایا ہے، حقیت میں یہ اُس دھماکے کے مرکز سے دور ہوتی جارہی ہیں ۔ یہ نظریہ 1927 میں ، بیلجئیم،کیتھولک پادری اور کاسمولوجسٹ (فلک پیما)جارجس لیماتری(Georges Lemaître) نےپیش کیا ۔
بگ بینگ سے پہلے کائینات کیسے تخلیق ہوئی ؟
بگ بینگ نظریہ 1927 میں ، وجود میں آیا لیکن اُس سے پہلے کائینات کی تخلیق مفروضہ مبہم تھا ۔ لہذا سائینس دانوں،ہیئت دانوں اور فلک پیماؤں کے مختلف نظریات تھے ۔
سب پہلے یہ نظریہ کہ،" شمسی توانائی کا نظام ایک نیبولا "سے شروع ہوا ، 1734 میں سویڈش سائنس دان اور مذہبی ماہر ایمانوئل سویڈن برگ نے کی تھی۔ امانوئل کانٹ ، جو سویڈن برگ کے کام سے واقف تھے ، نے اس نظریہ کو مزید ترقی دی اور اسے اپنی یونیورسل نیچرل ہسٹری اینڈ تھیوری آف دی ہیون (1755) میں شائع کیا۔
نیبولا خلا میں دھول اور گیس کا ایک بڑا بادل ہے۔ کچھ نیبولا (ایک سے زیادہ ایک نیبولا) گیس اور دھول سے آتے ہیں، جو سُپر نووا جیسے مرتے ہوئے ستارے کے پھٹنے سے خلا میں بکھر جاتی ہے ۔ دوسرے نیبولا وہ خطے ہیں جہاں نئے ستارے بننے لگے ہیں۔
اگر ہم کائینات کو کائینات کے باہر سے دیکھیں تو یہ ہمیں نیبولا ہی نظر آئے گی ۔ اور تمام ستارے ہمیں اِس میں موجود ذرے دکھائی دیں گے ۔
بہرحال ، بگ بینگ نظریئے نے سائینس دانوں کو ایک راہ بتا ئی اور کائینات کی پھیلاؤ کے نظریئے کو ایک ٹھوس دلیل ملی اور یہ مفروضہ بھی وجود میں آیا کہ جس طرح یہ کائینات پھیل رہی ہے ، ایک حد پر جاکر یہ کشش ثقل کی وجہ واپس ہوناشروع یعنی اُس سپرنگ کی طرح جو اگر کھینچا جائے تو پہلے پھیلتا ہے اور چھوڑنے پر واپس اپنی پہلی حالت پر آجاتا ہے ۔
اِسی طرح بگ بینگ کی انتہائی حد پر جا کر ، کائینات کا " بگ کرنچ "ہو گا !
کائینات کے بارے میں جوسائینس دانوں بھی مفروضات ہوں ، اُنہیں دلیل بنانے کے لئے اُن کی تگ و دو جاری ہے اور مفروضات(Supposition) ، دلیل (شہادت )ملنے پر نظریات(Hypothesis) میں تبدیل ہو جاتے ہیں ۔ لیکن زمین کی تخلیق کے بارے میں اُن کا نظریہ ، ایک ہے کہ بِگ بینگ کے بعد زمین بھی کائینات کے دیگر سیاروں کی طرح ، نیبولا( خلا میں دھول اور گیس کا ایک بڑا بادل ) سے دہکتے ہوئے گولے کی طرح وجود میں آئی، اور پھر یہ اپنے سرد ہونے کے سفر کی طرف گامزن ہو گئی ، چاند اور زمین کے درمیان خلا میں ٹمپریچر منفی 454.75 ڈگری فارن ہائیٹ یا منفی 270.42 ڈگری سنٹی گریڈ ہے ۔
اتنی ٹھنڈک کے باوجود ، زمین کی حد سے باہر ہمیں دور دور تک بادل نظر نہیں آتے ، یہاں تک کہ سورج میں ہونے والے ایٹمی دھماکوں سے پیدا ہونے والی آکسیجن اور ھائیڈروجن کو پانی میں تبدیل نہ کرسکی ، اور اگر زمین پریہ دونوں گیسیں تھیں ، تو دھکتی ہوئی زمین پر تو آگ کے گولے اُس وقت تک بلند ہونے چاھئیے تھے جب تک کہ کسی عمل سے یہ دونوں گیسیں پانی میں تبدیل نہ ہوجاتیں ۔
لیکن کیا ایسا ہی تھا ؟
کیوں کہ زمین اُس وقت نظام شمسی کا حصہ نہ تھی ، بلکہ باقی سیاروں کی طرح بِگ بینگ کی جگہ سے کسی توپ کے گولے کی طرح وہاں سے دور جا رہی تھی ۔
سائینس دانوں کا خیال تھا ، کہ زمین کے اِس سفر پر ایک ٹھوس سیارہ ، اِس سے آ ٹکرایا ، جس کی وجہ سے زمین پر گردو غبار کا بادل اُٹھا اور فضا کی طرف روانہ ہوا یہاں تک کہ زمین کی کشش نے اُس گرد و غبار کو روک لیا اور وہ جمع ہو کر زمین کا چاند بن گیا ۔ لیکن مہاجرزادہ کے فہم کے مطابق برف کا چاند سے بڑا تودہ زمین سے آٹکرایا ۔ یوں زمین پر ایک بہت بڑھا گڑھا وجود میں آیا جو برفانی تودے کے پگھلنے کی وجہ سے سمندر بنا ۔
یہاں تک تو زمین دوسرے سیاروں کی طرح تھی ،لاوہ جو زمین کے ذرا سے تڑخنے اُبل پڑتا اور اور اندر کا تمام غبار اُس وقت تک نکالتا رہتا جب تک ٹھنڈا نہ ہوجاتا ۔لیکن زمین پر حیات نہ تھی ، حیات کو وجود زمین پر پانی سے ملا ۔جو ہماری معلومات کے مطابق بگ بینگ سے بننے والے سیاروں میں،نظام شمسی میں موجود واحد زمین کے حصے میں آیا ۔
لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ زمین پر پانی کہاں سے آیا ؟
سائینس دانوں نے جو مفروضہ بنایا تھا وہ یہ کہ خلاء میں جو شہاب ثاقب ہیں ، ان کی اکثر ٹھوس برف کے تھے جو زمین سے ٹکرائے ، جن میں موجود پانی سمندر جیسا ہے ، یعنی کھارا ہے ۔ لیکن یہ اتنے زیادہ نہ تھے ، کہ زمین پر پانی کا اتنا بڑا ذخیرہ پیدا کر سکیں ، جو زمین پر حیات کا وجود بر قرار رکھ سکے !
دوسرا مفروضہ یہ تھا کہ،چونکہ پانی ہائیڈروجن جمع آکسیجن ہے ، اور زمین پر آکسیجن وافر مقدار میں ہے ، ہائیڈروجن بنانے کا کوئی بھی ذریعہ زمین کے پانی کی وجوہ بن سکتا تھا ۔
مہاجر زادہ کے خیال میں یہ ایک بودامفروضہ ہے ، کیوں کہ زمین پر آکسیجن کا وجود آتش فشاں سے اُٹھنے والی گیسوں سے نہیں بلکہ ، گھاس ،، پودوں اور درختوں سے ہے۔
زمین پر پانی کا وجود ، زمین پر خلاء سے آکر ٹکرانے والے اُس بڑے برف نما سیارے سے ہوا جس نے زمین کے ایک بہت بڑے حصے کو مخالف سمت سے باہر دھکیل دیا ۔ جو زمین کی کشش کی وجہ سے دور نہ جا سکا اور بالآخر چاند بن گیا ، بلکہ زمین کو گھسیٹ کر نظام شمسی کے مدار کا حصہ بنا دیا اور زمین کو 23.5ڈگری کا جھکاؤبھی دے دیا۔ اگر اِس سے ٹکراؤ سے پہلے زمین نظام شمسی کا حصہ ، اگر ہوتی تو میرے ناقص فہم کے مطابق ، اِس زور دار ٹکڑاؤ کی صورت میں زمین سورج کے مدار سے نکل کر خلاء کی وسعتوں میں کھو جاتی ۔
سائینس دانوں کے مطابق ، خلا سے زمین پر اترنے والا یہ برفانی تودہ ، سمندر کے پانی کی طرح کھارا تھا یا میٹھا ، لیکن گرم زمین نے اُس کھارے پانی کو گرم زمین سے بھاپ کی صورت میں زمین سے اوپر اُٹھا دیا یہ پانی وہاں تک گیا جہاں تک جا سکتا تھا کیوں کہ اُس وقت تک زمین کی فضا اور اوزون کی پرت نہیں بنی تھی اور پھر واپس ٹھنڈا ہو کر ، بارش یا اولوں کی طرح زمین میٹھا بن کر اترا اور زمین کو مزید ٹھنڈا کرتا گیا۔ یہ چکر یقیناً شدت کے ساتھ صدیوں تک چلتا رہا ، پانی سخت لاوے کو ٹھنڈا کرتا ، اُسے توڑتا اور چھوٹے حصوں میں تبدیل کرتا اور سیلاب کی صورت میں بہا کر مزید ریزہ ریزہ کرتا اور نشیبی علاقوں جمع کرتا رہا ۔ پانی نے زمین پر شکست و ریخت کا عمل جاری رکھا ۔یہاں تک کہ زمین پر حیات نمودار ہونا شروع ہوئی ،جو سبزے کی صورت میں اور بیکٹیریا کی شکل میں تھی،اب یہ بیکٹیریا خلاء سےآئے ،یا زمین پر پیدا ہوئے ۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ سائینس دانوں کے مطابق زمین پر حیات بیکٹیریا کی مرہون منت تھی ۔ جنہوںنے زمین کے تقریباً پورے حصے کو سبز کائی نے ڈھانپ لیا ۔ اور زمین کی فضاء میں اوزون گیسس پھیلنا شروع ہوگئیں ۔
معلوم نہیں کتنی صدیوں بعد زمین پر حیوانی حیات کی ابتداء ہوئی ، لیکن جب سب سے پہلے زمین کو جنگلات نے ڈھکا ، تو اوزون کی چھتری اُس سے پہلے بن چکی تھی اور جب یہ زمین پوری طرح تیار ہوگئی ، تو حضرت انسان کی آمدہوئی ۔
جس کا اندازہ25 لاکھ سال لگایا جاتا ہے ۔
میں نے مضمون کے شروع میں ، تخلیق سماوات اور الارض کے بارےمیں مذہبی خیالات لکھے لیکن بحث سائنسی مفروضات اورنظریوں پر کی ۔مفروضے اور نظریہ کے درمیان کیا فرق ہوتا ہے ۔
٭- سائینی مفروضات(Supposition) علم کی بنیاد پر معمولی سی دلیل ملنے پر نظرئیے (Hypothesis) بنتے ہیں اور تجربات کی بنیاد پرحقائق میں تبدیل ہوتے ہیں ۔اِن میں لچک ہوتی ہے ، قبول ہوتے ہیں ، بہتر کئے جاتے ہیں یا رَد کئے جاتے ہیں ۔ کیوں کہ سائینسی مفروضات، اور نظریئے دلیل کی کسوٹی پر پرکھے جاتے ہیں ۔
٭- جبکہ مذہبی مفروضات بھی علم ہی کی بنیاد پر بنتے ہیں اور کثرت کے استعمال سے نظریئے میں تبدیل ہوجاتے ہیں ، لیکن حقیقت نہیں بنتے بلکہ مِتھ بن کر لوگوں کے دماغوں میں محفوظ ہو جاتے ہیں ، اِن میں لچک نہیں ہوتی کیوں کہ یہ دلیل کی نہیں بلکہ جذبات کی کسوٹی پر پرکھے جاتے ہیں ۔لہذا جامد ہوتے ہیں ، اِن کو متحرّک بنانے کے لئے مزید مفروضات تخلیق کئے جاتے ہیں ۔ اور مذہبی مفروضات کا ایک انبار لگ جاتا ہے جو ایک دوسرے کو مسترد کرتے ہیں لیکن اُن کو قبول کرنے والے اُن کو رد کرنے کی ہمت نہیں کرتے ۔
٭- لیکن وہ مذہبی مفروضات جو سائینسی وجوہات کی ساتھ میل کھاتے ہیں ، ہٹ اور ٹرائل کی بنیاد پر نظریات میں تبدیل اور رَد کی منزلوں سے گذرتے ہیں ہوتے ہیں ، وہ جامد نہیں ہوتے بلکہ متحرّک ہوتے ہیں ۔
مضمون بالا میں ، میں نے جو میں نے سائنسی نظریات دئیے ہیں وہ موجود ہیں۔ جن کا میں نے گوگل لنک بھی دیا ہے ، لیکن جو مفروضہ(Supposition) میں نے پکچر 5 میں دیا ہے ، وہ کُلّی مہاجر زادہ کا ہے ، اُس کو نظریہ (Hypothesis) بنانے کی کوشش کروں گا اور مجھے یقین ہے کہ میں کامیاب ہو جاؤں گا ۔
لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کائینات کو کس نے تخلیق کیا :
٭- مذاہب کی انسانی تاریخ کے مطابق ،
٭-ہندو دھرم کے اوتار رام کا تعارف رامائن سے ہوتا ہے کچھ اسے خیالی کردار کہتے ہیں مگر وہ اپنے دور میں ایک بادشاہ تھا جس نے بھرہمن سپرمیسی کی بنیاد رکھی۔ جس کے اثرات آج تک ہندو معاشرے میں موجود ہیں ۔ اس کے دور کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے مگر یہ سات ہزار سال قبل مسیح کے لگ بھگ ہے۔
چونکہ آریا ، ہندواستھان میں آنے کے بعد چند صدیوں میں اپنی زبان بھول گئے۔ اس وقت انھوں نے ویدوں کی تفسیر لکھنی شروع کی، جو براہمن کے نام سے مشہور ہوئیں۔ مگر یہ بھی ناقابل فہم ہوتی گئیں اور تشفی بخش ثابت نہیں ہوئیں تو انہوں نے ایک نیم مذہبی ادب ویدانگ کی بنیاد رکھی۔ اور کلپا کے زمرہ میں چار ، رسالے سروثہ ستر، سلو ستر، گریہ ستر اور دھرم ستر تصنیف کیے۔
ـ وشنو مت میں ، وشنو نے برہما کو تخلیق کیا اور اسے باقی کائنات بنانے کا حکم دیا ۔
ـشیو مت میں ، شیو کو خالق سمجھا جاسکتا ہے۔
ـ شکتی ازم میں ، تری مورتی اِس کی وجہ ہیں ۔ یہ تین مورتیاں یعنی برہما (تخلیق )، وشنو ( پرورش) اور شِوا (تباہی ) کی قوت رکھتی ہیں ۔
ہندو دھرم کے مطابق کائنات کی تخلیق،9 یعنی یوگ چکر ، کے بعد ، مہایوگ شروع ہوتا ہے، اس سے پہلے تین یوگ، ست یوگ، ترتیا یوگ اور دواپر یوگ گزر چکے ہیں، اب آخری یوگ کلی یوگ چل رہا ہے۔ ہر یوگ 43لاکھ سال کا ہوتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
٭- جیوش ازم کی بائیبل کے مطابق ، یہوواہ
(Jehovah) ہی ایک حقیقی قادر خدا ہے ۔جیوش ازم کی کتاب، عہد نامہ ءِ قدیم میں کتابِ پیدائش میں کل 50 ابواب ہیں ، جن میں پہلاباب تخلیق کائینات اور اور دوسرا باب تخلیق انسان کے متعلق ہے ۔
کتاب پیدائش: باب نمبر 1
پہلا دن -خُدا نے اِبتدا میں زمِین و آسمان کو پَیدا کیا اور زمِین ویران اور سُنسان تھی ، گہراؤ کے اُوپر اندھیرا تھا اور خُدا کی رُوح پانی کی سطح پر جُنبِش کرتی تھی، خُدا نے کہا روشنی ہوجا ،روشنی ہوگئی ، خُدا نے دیکھا کہ روشنی اچھّی ہے، خُدا نے روشنی کو تاریکی سے جُدا کیا،خُدا نے نے روشنی کو دِن کہا ، تاریکی کو رات اور شام ہوئی اور صُبح ہوئی یوں پہلا دِن ہُؤا۔(1 تا 5)
دوسرا دن۔ پھر خُدا نے کہا پانیوں کے درمیان فضا ہو تاکہ پانی پانی سے جُدا ہوجائے۔ پس خُدا نے فضا کو بنایا اور فضا کے نِیچے کے پانی کو فضا کے اُوپر کے پانی سے جُدا کِیا اور اَیسا ہی ہُؤا۔ خُدا نے فضا کو آسمان کہا اور شام ہوئی اور صُبح ہوئی۔یوں دوسرا دِن ہُؤا۔(6 تا 8)
تیسرا دن۔ خُدا نے کہا آسمان کا پانی ایک جگہ جمع ہو کہ خُشکی نظر آئے اور اَیسا ہی ہُؤا اور خُدا نے خُشکی کو زمِین کہا اور جو پانی جمع ہوگیا تھا اُسکو سمندر اور خُدا نے دیکھا کہ اچھّا ہے اور خُدا نے کہا کہ زمِین گھاس اور بیج دار بُوٹیوں کو پھلدار درختوں کو جو اپنی اپنی جِنس کے مُوافِق پھلیں اور جو زمِین پر اپنے آپ ہی میں بِیچ رکھّیں اُگائے اور اَیسا ہی ہُؤا۔ تب زمِین نے گھاس اور بُوٹیوں کو جو اپنی اپنی جِنس کے مُوافِق بِیج رکھّیں اور پھلدار درختوں کو جنکے بیج اُن کی جِنس کے مُوافق اُن میں ہیں اُگایا اور خُدا نے دیکھا کہ اچھّا ہے۔ اور شام ہوئی اور صُبح ہوئی۔ یوں تیسرا دِن ہُؤا۔
(9 تا 13)
چوتھا دن ۔ خُدا نے کہا کہ فلک پر نیّر ہوں کہ دِن کو رات سے الگ کریں اور وہ نشانوں اور زمانوں اور دِنوں اور برسوں کے اِمتیاز کے لِئے ہوں اور وہ فلک پر انوار کے لِئے ہوں کہ زمِین پر روشنی ڈالیں اور اَیسا ہی ہُؤا۔ سو خُدا نے دو بڑے نیّر بنائے ایک نیّر اکبر (سورج)کہ دِن پر حُکم کرے اور ایک نیّر اصغر(چاند) کہ رات پر حُکم کرے اور اُس نے ستاروں کو بھی بنایا اور خُدا نے اُن کو فلک پر رکھا کہ زمِین پر روشنی ڈالیں اور دِن پر اور رات پر حُکم کریں اور اُجالے کو اندھیرے سے جُدا کریں اور خُدا نے دیکھا کہ اچھّا ہے۔ شام ہُوئی اور صُبح ہُوئی۔یوں چَوتھا دِن ہُؤا۔(14 تا 19)
پانچواں دن۔ خُدا نے کہا پانی جانداروں کو کثرت سے پَیدا کرے اور پرندے زمِین کے اُوپر فضا میں اُڑیں۔ خُدا نے بڑے بڑے دریائی جانوروں کو اور ہر قِسم کے جاندار کو جو پانی پر بکثرت پَیدا ہُوئے تھے اُن کی جنس کے مُوافِق اور ہر قسِم کے پرندوں کو اُن کی جِنس کے مُوافق پَیدا کِیا اور خُدا نے دیکھا کہ اچھّا ہے۔ خُدا نے اُن کو یہ کہہ کر برکت دی کہ پھلو اور بڑھو اور اِن سمندروں کے پانی بھردو اور پرندے زمِین پر بہت بڑھ جائیں۔ شام ہُوئی اور صُبح ہُوئی۔ یوں پانچواں دِن ہُؤا۔(20 تا 23)
چھٹا دن ۔ خُدا نے کہا کہ زمِین جانداروں کو اُن کی جِنس کے مُوافق چَوپائے اور رینگنے والے جاندار اور جنگلی جانور اُن کی جِنس کے مُوافِق پَیدا کرے اور اَیسا ہی ہُؤا۔ خُدا نے جنگلی جانوروں اور اور چَوپایوں کو اُن کی جِنس کے مُوافِق اور زمِین کے رینگنے والے جانداروں کو اُن کی جِنس کے مُوافِق بنایا اور خُدا نے دیکھّا کہ اچھّا ہے۔ پھر خُدا نے کہا کہ ہم اِنسان کو اپنی صُورت پر اپنی شبِیہ کی مانند بنائیں اور وہ سمندر کی مچھلیوں اور آسمان کے پرندوں اور چَوپایوں اور تمام زمِین اور سب جانداروں پر جو زمِین پر رینگتے ہیں اِختیار رکھّیں۔ خُدا نے اِنسان کو اپنی صُورت پر پَیدا کیا۔ خُدا کی صُورت پر اُس کو پَیدا کیا۔ نرو ناری اُن کو پَیدا کیا۔ خُدا نے اُن کو برکت دی اور کہا کہ پَھلو اور بڑھو اور زمِین کو معمُور و محکُوم کرو اور سمُندر کی مچھلیوں اور ہوا کے پرِندوں اور کُل جانوروں پر جو زمِین پر چلتے ہیں اِختیار رکھّو۔ خُدا نے کہا کہ دیکھو میں تمام رُوئے زمِین کے کُل بیج دار سبزی اور ہر درخت جِس میں اُس کا بِیج دار پھل ہو تُم کو دیتا ہُوں۔ یہ تمہارے کھانے کو ہوں۔ زمِین کے کُل جانوروں کے لئے اور ہوا کے سب پرندوں کے لئے اور اُن سب کے لئے جو زمِین پر رینگنے والے ہیں جِن میں زندگی کا دم ہے سب ہری بُوٹیاں کھانے کو دیتا ہُوں۔ اورایسا ہی ہُؤا۔ خُدا نے سب پر جو اُس نے بنایا تھا نظر کی اور دیکھا کہ بہت اچھّا ہے اور شام ہوئی اور صُبح ہوئی۔ یوں چھٹا دِن ہُؤا۔(24 تا 31)
کتاب پیدائش: باب نمبر 2
ساتواں دن ۔ سو آسمان اور زمِین اور اُن کے کُل لشکر کا بنانا ( چھ دن میں )ختم ہُؤا۔ خُدا نے اپنے کام کو جِسے وہ کرتا تھا ساتویں دِن ختم کِیا اور اپنے سارے کام سے جِسے وہ کررہا تھا ساتویں دِن فارِغ ہُؤا - خُدا نے ساتویں دِن کو برکت دی اور اُسے مُقدس ٹھہرایا کِیُونکہ اُس میں خُدا کی ساری کائنات سے جِسے اُس نے پَیدا کِیا اور بنایا فارِغ ہُؤا۔ یہ آسمان اور زمِین کی پَیدائش جب وہ خلق ہُوئے جِس دن خُداوند خُدا نے زمِین اور آسمان بنایا۔ زمِین پر اب تک کھیت کا کوئی پَودا نہ تھا اور نہ میدان کی کوئی سبزی اب تک اُگی تھی، کِیُونکہ خُداوند خُدا نے زمِین پر پانی نہیں برسایا تھا اور نہ زمِین جو تنے کو کوئی اِنسان تھا۔ بلکہ زمِین سے کہر(دھند) اُٹھتی تھی اور تمام رُویِ زمِین کو سیراب کرتی تھی۔ خُداوند خُدا نے زمِین کی مٹی سے اِنسان کو بنایا اور اُس کے نتھنوں میں زِندگی کا دم پھُونکا تو اِنسان جیتی جان ہُؤا۔ (1 تا 8)
٭٭٭٭٭٭٭٭
٭- کرسچین ازم کی بائیبل کے مطابق ، خدا ، روح القدّس ( خدا کی متحرک قوت) اور کرائسٹ ، کائینات کی تخلیق کا سبب ہیں ۔ لیکن جیوش ازم کی کتاب، عہد نامہ ءِ قدیم ان کے مذہب میں شامل ہے ، جس کے ساتھ عہد نامہ ءِ جدید بھی شامل ہے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
٭- مسلم ازم ، کے مطابق بھی خدا اِس کائینات اورزمین کا خالق ہے ۔لیکن اِس کی جوتفسیرات لکھی ہیں اُن کے مطابق ، صحاح ستّہ میں بائبل قدیم و جدید سے بھی مواد لیا گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کو بائیبل کا چربہ کہا جاتا ہے ۔(جس سے مہاجرزادہ متفق نہیں ۔ اگلے مضمون میں اِس پر اپنے مفروضے کو دلیل سے نظریہ بنائے گا)-
لیکن تمام مذاہب ، اِس بات پر متفق ہیں ، کہ کائینات کسی قوت نے تخلیق کی ہے ، اُسےکوئی بھی نام دیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سائینسی مفروضات و نظریات :
٭- جدید سائنسی نظریہ جو ، زمانہ قدیم یعنی 13.8 بلیئن سال پہلے کائینات میں موجود ،"سرخ بل دار نیبولا " میں خود بخود بِگ بینگ ہوا تھا ، جس کی وجہ سے یہ تمام کائینات وجود میں آئی ۔-بِگ بینگ کے بارے میں نظریہ ، اس مشاہدے سے پیدا ہوا تھا کہ دوسری کہکشائیں ، ہماری زمین سے بڑی تیزی سے دور ہوتی جارہی ہیں ، گویا کہ ان سب کو کسی قدیم دھماکہ خیز قوت نے آگے بڑھایا ہے، حقیت میں یہ اُس دھماکے کے مرکز سے دور ہوتی جارہی ہیں ۔ یہ نظریہ 1927 میں ، بیلجئیم،کیتھولک پادری اور کاسمولوجسٹ (فلک پیما)جارجس لیماتری(Georges Lemaître) نےپیش کیا ۔
بگ بینگ سے پہلے کائینات کیسے تخلیق ہوئی ؟
بگ بینگ نظریہ 1927 میں ، وجود میں آیا لیکن اُس سے پہلے کائینات کی تخلیق مفروضہ مبہم تھا ۔ لہذا سائینس دانوں،ہیئت دانوں اور فلک پیماؤں کے مختلف نظریات تھے ۔
سب پہلے یہ نظریہ کہ،" شمسی توانائی کا نظام ایک نیبولا "سے شروع ہوا ، 1734 میں سویڈش سائنس دان اور مذہبی ماہر ایمانوئل سویڈن برگ نے کی تھی۔ امانوئل کانٹ ، جو سویڈن برگ کے کام سے واقف تھے ، نے اس نظریہ کو مزید ترقی دی اور اسے اپنی یونیورسل نیچرل ہسٹری اینڈ تھیوری آف دی ہیون (1755) میں شائع کیا۔
نیبولا خلا میں دھول اور گیس کا ایک بڑا بادل ہے۔ کچھ نیبولا (ایک سے زیادہ ایک نیبولا) گیس اور دھول سے آتے ہیں، جو سُپر نووا جیسے مرتے ہوئے ستارے کے پھٹنے سے خلا میں بکھر جاتی ہے ۔ دوسرے نیبولا وہ خطے ہیں جہاں نئے ستارے بننے لگے ہیں۔
اگر ہم کائینات کو کائینات کے باہر سے دیکھیں تو یہ ہمیں نیبولا ہی نظر آئے گی ۔ اور تمام ستارے ہمیں اِس میں موجود ذرے دکھائی دیں گے ۔
بہرحال ، بگ بینگ نظریئے نے سائینس دانوں کو ایک راہ بتا ئی اور کائینات کی پھیلاؤ کے نظریئے کو ایک ٹھوس دلیل ملی اور یہ مفروضہ بھی وجود میں آیا کہ جس طرح یہ کائینات پھیل رہی ہے ، ایک حد پر جاکر یہ کشش ثقل کی وجہ واپس ہوناشروع یعنی اُس سپرنگ کی طرح جو اگر کھینچا جائے تو پہلے پھیلتا ہے اور چھوڑنے پر واپس اپنی پہلی حالت پر آجاتا ہے ۔
اِسی طرح بگ بینگ کی انتہائی حد پر جا کر ، کائینات کا " بگ کرنچ "ہو گا !
کائینات کے بارے میں جوسائینس دانوں بھی مفروضات ہوں ، اُنہیں دلیل بنانے کے لئے اُن کی تگ و دو جاری ہے اور مفروضات(Supposition) ، دلیل (شہادت )ملنے پر نظریات(Hypothesis) میں تبدیل ہو جاتے ہیں ۔ لیکن زمین کی تخلیق کے بارے میں اُن کا نظریہ ، ایک ہے کہ بِگ بینگ کے بعد زمین بھی کائینات کے دیگر سیاروں کی طرح ، نیبولا( خلا میں دھول اور گیس کا ایک بڑا بادل ) سے دہکتے ہوئے گولے کی طرح وجود میں آئی، اور پھر یہ اپنے سرد ہونے کے سفر کی طرف گامزن ہو گئی ، چاند اور زمین کے درمیان خلا میں ٹمپریچر منفی 454.75 ڈگری فارن ہائیٹ یا منفی 270.42 ڈگری سنٹی گریڈ ہے ۔
اتنی ٹھنڈک کے باوجود ، زمین کی حد سے باہر ہمیں دور دور تک بادل نظر نہیں آتے ، یہاں تک کہ سورج میں ہونے والے ایٹمی دھماکوں سے پیدا ہونے والی آکسیجن اور ھائیڈروجن کو پانی میں تبدیل نہ کرسکی ، اور اگر زمین پریہ دونوں گیسیں تھیں ، تو دھکتی ہوئی زمین پر تو آگ کے گولے اُس وقت تک بلند ہونے چاھئیے تھے جب تک کہ کسی عمل سے یہ دونوں گیسیں پانی میں تبدیل نہ ہوجاتیں ۔
لیکن کیا ایسا ہی تھا ؟
کیوں کہ زمین اُس وقت نظام شمسی کا حصہ نہ تھی ، بلکہ باقی سیاروں کی طرح بِگ بینگ کی جگہ سے کسی توپ کے گولے کی طرح وہاں سے دور جا رہی تھی ۔
سائینس دانوں کا خیال تھا ، کہ زمین کے اِس سفر پر ایک ٹھوس سیارہ ، اِس سے آ ٹکرایا ، جس کی وجہ سے زمین پر گردو غبار کا بادل اُٹھا اور فضا کی طرف روانہ ہوا یہاں تک کہ زمین کی کشش نے اُس گرد و غبار کو روک لیا اور وہ جمع ہو کر زمین کا چاند بن گیا ۔ لیکن مہاجرزادہ کے فہم کے مطابق برف کا چاند سے بڑا تودہ زمین سے آٹکرایا ۔ یوں زمین پر ایک بہت بڑھا گڑھا وجود میں آیا جو برفانی تودے کے پگھلنے کی وجہ سے سمندر بنا ۔
لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ زمین پر پانی کہاں سے آیا ؟
سائینس دانوں نے جو مفروضہ بنایا تھا وہ یہ کہ خلاء میں جو شہاب ثاقب ہیں ، ان کی اکثر ٹھوس برف کے تھے جو زمین سے ٹکرائے ، جن میں موجود پانی سمندر جیسا ہے ، یعنی کھارا ہے ۔ لیکن یہ اتنے زیادہ نہ تھے ، کہ زمین پر پانی کا اتنا بڑا ذخیرہ پیدا کر سکیں ، جو زمین پر حیات کا وجود بر قرار رکھ سکے !
دوسرا مفروضہ یہ تھا کہ،چونکہ پانی ہائیڈروجن جمع آکسیجن ہے ، اور زمین پر آکسیجن وافر مقدار میں ہے ، ہائیڈروجن بنانے کا کوئی بھی ذریعہ زمین کے پانی کی وجوہ بن سکتا تھا ۔
مہاجر زادہ کے خیال میں یہ ایک بودامفروضہ ہے ، کیوں کہ زمین پر آکسیجن کا وجود آتش فشاں سے اُٹھنے والی گیسوں سے نہیں بلکہ ، گھاس ،، پودوں اور درختوں سے ہے۔
زمین پر پانی کا وجود ، زمین پر خلاء سے آکر ٹکرانے والے اُس بڑے برف نما سیارے سے ہوا جس نے زمین کے ایک بہت بڑے حصے کو مخالف سمت سے باہر دھکیل دیا ۔ جو زمین کی کشش کی وجہ سے دور نہ جا سکا اور بالآخر چاند بن گیا ، بلکہ زمین کو گھسیٹ کر نظام شمسی کے مدار کا حصہ بنا دیا اور زمین کو 23.5ڈگری کا جھکاؤبھی دے دیا۔ اگر اِس سے ٹکراؤ سے پہلے زمین نظام شمسی کا حصہ ، اگر ہوتی تو میرے ناقص فہم کے مطابق ، اِس زور دار ٹکڑاؤ کی صورت میں زمین سورج کے مدار سے نکل کر خلاء کی وسعتوں میں کھو جاتی ۔
سائینس دانوں کے مطابق ، خلا سے زمین پر اترنے والا یہ برفانی تودہ ، سمندر کے پانی کی طرح کھارا تھا یا میٹھا ، لیکن گرم زمین نے اُس کھارے پانی کو گرم زمین سے بھاپ کی صورت میں زمین سے اوپر اُٹھا دیا یہ پانی وہاں تک گیا جہاں تک جا سکتا تھا کیوں کہ اُس وقت تک زمین کی فضا اور اوزون کی پرت نہیں بنی تھی اور پھر واپس ٹھنڈا ہو کر ، بارش یا اولوں کی طرح زمین میٹھا بن کر اترا اور زمین کو مزید ٹھنڈا کرتا گیا۔ یہ چکر یقیناً شدت کے ساتھ صدیوں تک چلتا رہا ، پانی سخت لاوے کو ٹھنڈا کرتا ، اُسے توڑتا اور چھوٹے حصوں میں تبدیل کرتا اور سیلاب کی صورت میں بہا کر مزید ریزہ ریزہ کرتا اور نشیبی علاقوں جمع کرتا رہا ۔ پانی نے زمین پر شکست و ریخت کا عمل جاری رکھا ۔یہاں تک کہ زمین پر حیات نمودار ہونا شروع ہوئی ،جو سبزے کی صورت میں اور بیکٹیریا کی شکل میں تھی،اب یہ بیکٹیریا خلاء سےآئے ،یا زمین پر پیدا ہوئے ۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ سائینس دانوں کے مطابق زمین پر حیات بیکٹیریا کی مرہون منت تھی ۔ جنہوںنے زمین کے تقریباً پورے حصے کو سبز کائی نے ڈھانپ لیا ۔ اور زمین کی فضاء میں اوزون گیسس پھیلنا شروع ہوگئیں ۔
معلوم نہیں کتنی صدیوں بعد زمین پر حیوانی حیات کی ابتداء ہوئی ، لیکن جب سب سے پہلے زمین کو جنگلات نے ڈھکا ، تو اوزون کی چھتری اُس سے پہلے بن چکی تھی اور جب یہ زمین پوری طرح تیار ہوگئی ، تو حضرت انسان کی آمدہوئی ۔
جس کا اندازہ25 لاکھ سال لگایا جاتا ہے ۔
میں نے مضمون کے شروع میں ، تخلیق سماوات اور الارض کے بارےمیں مذہبی خیالات لکھے لیکن بحث سائنسی مفروضات اورنظریوں پر کی ۔مفروضے اور نظریہ کے درمیان کیا فرق ہوتا ہے ۔
٭- سائینی مفروضات(Supposition) علم کی بنیاد پر معمولی سی دلیل ملنے پر نظرئیے (Hypothesis) بنتے ہیں اور تجربات کی بنیاد پرحقائق میں تبدیل ہوتے ہیں ۔اِن میں لچک ہوتی ہے ، قبول ہوتے ہیں ، بہتر کئے جاتے ہیں یا رَد کئے جاتے ہیں ۔ کیوں کہ سائینسی مفروضات، اور نظریئے دلیل کی کسوٹی پر پرکھے جاتے ہیں ۔
٭- جبکہ مذہبی مفروضات بھی علم ہی کی بنیاد پر بنتے ہیں اور کثرت کے استعمال سے نظریئے میں تبدیل ہوجاتے ہیں ، لیکن حقیقت نہیں بنتے بلکہ مِتھ بن کر لوگوں کے دماغوں میں محفوظ ہو جاتے ہیں ، اِن میں لچک نہیں ہوتی کیوں کہ یہ دلیل کی نہیں بلکہ جذبات کی کسوٹی پر پرکھے جاتے ہیں ۔لہذا جامد ہوتے ہیں ، اِن کو متحرّک بنانے کے لئے مزید مفروضات تخلیق کئے جاتے ہیں ۔ اور مذہبی مفروضات کا ایک انبار لگ جاتا ہے جو ایک دوسرے کو مسترد کرتے ہیں لیکن اُن کو قبول کرنے والے اُن کو رد کرنے کی ہمت نہیں کرتے ۔
٭- لیکن وہ مذہبی مفروضات جو سائینسی وجوہات کی ساتھ میل کھاتے ہیں ، ہٹ اور ٹرائل کی بنیاد پر نظریات میں تبدیل اور رَد کی منزلوں سے گذرتے ہیں ہوتے ہیں ، وہ جامد نہیں ہوتے بلکہ متحرّک ہوتے ہیں ۔
مضمون بالا میں ، میں نے جو میں نے سائنسی نظریات دئیے ہیں وہ موجود ہیں۔ جن کا میں نے گوگل لنک بھی دیا ہے ، لیکن جو مفروضہ(Supposition) میں نے پکچر 5 میں دیا ہے ، وہ کُلّی مہاجر زادہ کا ہے ، اُس کو نظریہ (Hypothesis) بنانے کی کوشش کروں گا اور مجھے یقین ہے کہ میں کامیاب ہو جاؤں گا ۔
کیوں کہ اب میں کائینات اور زمین کی تخلیق کی وضاحت اپنے عقیدے کے مطابق کروں گا ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں