Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعرات، 9 جنوری، 2020

سفرنامہ-ایتھوپیا - سے اسلام آباد

 چم چم کے سکول کی چھٹیاں 20 دسمبر سے شروع ہو رہی تھیں گھومنے کے کئی پروگرام بنے ، بالآخر فیصلہ ہوا کہ اسلام آباد جایا جائے ۔ کیوں کہ چم چم کی ماما کی موبائل فون کی سمیں بائیومیٹرک نہ ہونے کی وجہ سے بلاک ہوئیں ، بنکوں نے انگھوٹھا چھپوائی نہ ہونے کی وجہ سے لین دین سے انکار کردیا ۔ لہذا اُس نے تو جانا ہی جانا تھا مگر دسمبر کے آخر میں ،چم چم ، بوڑھے اور بڑھیا کاویزہ  12 دسمبر کو ختم ہورہا تھا ، لہذا  طے یہ پایا کہ بجائے   300 ڈالر صرف 20 دسمبر تک کے لئے خرچ کرکے ویزہ لگوانا ، اسراف میں قدم رکھوا  دے گا!
چنانچہ 12 دسمبر کو چم چم ، بوڑھا اور بڑھیا  عدیس ابابا سے اسلام آباد بذریعہ دبئی سفر کے لئے  کے لئے ائرپورٹ پر تھے۔

 12 دسمبر کو ایتھوپیا کے وزیر اعظم " ابے محمد"  نوبل پرائز   لے کر عدیس ابابا آرہے تھے اور چم چم کا پروگرام ، ایتھوپیئن مینڈھیاں بنوانے کا تھا۔ لیکن ائر پورٹ مکمل بلاک تھی اور ہم نے ایڈنا مال کے پاس سیلون پر جانا تھا ، لہذا چم چم کی ماما نے  سیلون کی مالکہ سے درخواست کی کہ وہ اپنی کسی ماہر گیسو سنوار کو ہمارے ہاں بھیج دے  ، بوڑھے  نے حساب لگایا ۔
٭-امارات ائر لائن کی فلائیٹ : 13:05
٭-ائرپورٹ پر حتمی پہنچنا : 12:05
٭-رہائش سے روانگی :11:10
٭-چم چم  کا ایتھوپیئن بریڈ بال بنوانا ، وقت :  3:00 گھنٹے ،
٭-سیلون سے ماہرِ  خاتون کا پہنچنا : 08:00
آٹھ بجے ہیلن کا فون آیا کہ وہ رش کی وجہ سے ٹریفک میں پھنس گئی ہے 20 منٹ تک پہنچ جائے گی ۔ ہیلن بی بی 8 کے بجائے 9  بجے پہنچی ،، اپنا سامان بیگ سے نکالا جو ایک  کنگھی پر مشتمل تھا ،
"میں سادھی بریڈصرف ایک گھنٹے میں بنا دوں گی "۔
" نو وے !" چم چم بولی ،" کیا آپ مصنوعی بال نہیں لائی ؟"
" مجھے کسی نے نہیں بتایا " ہیلن بولی
"اب کیا کیا جائے ؟" بڑھیا بولی
 سلامہ ملازمہ نے اُسے امھارک میں ڈانٹا ،" کیا تمھیں سادہ بریڈ( braid)  بنوانے کے لئے بلوایا ہے "
" ماما ، یہاں کونے پر سیلون ہے شائد وہاں سے مصنوعی بال مل جائیں گے ، میں لے کر آتی ہوں"
بوڑھا بولا ،" میرا خیال ہے کہ میں لے کر آتا ہوں "اور ھیلن سے پوچھا "کتنے لانے ہیں ؟"
" دو کافی ہوں گے " ھیلن بولی ۔
بوڑھا نزدیکی سپاء سیلون پر گیا ، وہاں   خاتون نے بتایا کہ اُن کے پاس مصنوعی بال نہیں  وہ چوک کے پاس دکان سے منگواتی ہے  ۔ فوراً  رائیڈ (کریم ٹیکسی ) منگوائی ،   ٹیکسی ڈرائیور کی خاتون سے بات کروائی اُس نے ایڈریس سمجھایا ۔ بوڑھا ایک بڑے سیلون پر پہنچااُس  کے شو کیس میں مختلف رنگوں کے بال لٹکے ہوئے تھے ، احتیاطاً  چار پیکٹ لئے اور واپس پہنچا ۔ 
وقت بچانے کے لئے ، بوڑھے نے  مصنوعی بالوں لے لچھوں سے   چھوٹی چھوٹی لٹیں علیحدہ کرنا شروع کر دیں ۔ھیلن نے اُنہیں  چم چم کی مینڈھیوں میں گوندھنا شروع کیا ، چم چم چونکہ ائرپورٹ جانے کے لئے تیار ہوگئی تھی ، اُس نے نانو کے کہنے کے باوجود  ، پرانی شرٹ نہیں پہنی لہذا ، مصنوعی بال  جو گرتے ، بڑھیا  اُنہیں جھاڑتی ۔ سلامہ   ایتھوپیئن  گھریلو ملازمہ بھی ہیلن  کی مدد پر جڑ گئی، روم سروس   والی ملازمہ فانتو  جو بال زمین پر گریں اُن کو جھاڑو سے ایک طرف کرتی  ۔  اِس  پر بوڑھے کو، " داد انے شلغم اُگایا " والی کہانی یاد آگئی ۔
12:30 پر ہم چم چم کو افریقی بریڈ ھیئر سٹائل کے ساتھ لے کر ائر پورٹ پہنچے ۔
چم چم کی ماما  نے جلدی سے اللہ حافظ کہا اورواپس اپنے آفس کی طرف روانہ ہوگئی ۔

سامان کم تھا کیوں کہ سارے بیگ خالی تھے ، جنہیں پاکستان سے بھر کر واپس لانا تھا ، لہذاچم چم ، بڑھیا اور اور بوڑھا ، سامان کو سکینر مشین سے چیک کروا کر ، ٹکٹ کاونٹر پر پہنچے 3 بیگز  کو سیلوفین میں لپٹوایا ، ظالم نے 900 ایتھوپیئن   روپے لئے  ، جبکہ اپنے اسلام آباد  میں  5 بیگ کے صرف 250 روپے(50  ایتھوپیئن روپے ) لگے ۔  تین بیگ یوں کہ:
٭- ایک 35 کلو کے بیگ میں ، 20 کلو کا بیگ اور اُس میں 7 کلو کا بیگ ۔جس میں، بوڑھے کے  اسلام آباد میں پہننے والے کپڑے ۔کل وزن15کلوگرام
٭- دوسرے  
35 کلو کے بیگ میں ، 20 کلو کا بیگ اُس میں تحفے اور لیپ ٹاپ کا بیگ ۔ کل وزن  25 کلو گرام
٭- تیسرا بڑھیا کا 35 کلو کا بیگ ، جس میں بڑھیا کے  اسلام آباد میں پہننے والے کپڑے ، اور تحفے ۔کل وزن 30 کلو گرام ۔
کل وزن -70 کلو ، اجازت  105 کلو گرام
سامان بُک کروایا اور بورڈنگ پاس لے کر ،ایمیگریشن سے گذرتے ہوئے لاونج میں پہنچے چم چم نے شور مچادیا اُسے بھوک لگی ہے کیوں کہ اُس نے ناشتہ نہیں کیاتھا ۔
بڑھیا کو ٹرانزٹ لاونج میں گیٹ کے پاس بٹھا کر بوڑھا اور چم چم ریسٹورانٹ پہنچے جہاں سے سبزی بھرے سموسے ، پانی اورکوک کی دوبو تلیں لیں  اور بیٹھ گئے، بڑھیا نے ایک سموسہ چکھا اُس کے بھی بھوک جاگ گئی ، بوڑھا جاکر اور سموسے لے آیا۔


سموسے  کھانے ، چائے پینے کے بعد اعلان ہوا جہاز میں تشریف لے جانے کے لئے ڈیپارچر گیٹ کے سامنے آجائیں ، تینوں مسافر باقی مسافروں کے ہمراہ  ،جا کر بیٹھ گئے ۔
اور انتظار کرنے لگے ۔ 10 منٹ بعد،  دو کیبن کیری بیگ یعنی ایک چم چم کا ، جس میں اُس نے دُبئی سے چیزیں لینی تھیں اور ایک بوڑھے کا جس میں بڑھیا اور بوڑھے کے دوجوڑے کپڑے   ، بوڑھے کا لیپ ٹاپ  اور شامل تھے ،لے کر ٹنل سے گذرتے ہوئے  جہاز میں داخل ہوئے ،اوراپنی سیٹوں کی جانب بڑھے ۔
فضائی میزبان نے ہمیں 21 نمبرسیٹوں  پر بٹھا دیا ۔
جہاز   13:20 پر اُڑا ، ایک فضائی میزبان نے چم چم کو  ایک کھلونا لا کر دیا ،جس میں قطبِ شمالی  کے  برفانی جانوروں کی کارٹونی تصاویر تھیں   اور ساتھ ہی اُس سے کھانے کا پوچھا اور دوسری  کے ساتھ ایک پولارائیڈ کیمرے والا فوٹو گرافر آیا  اور چم چم ، بوڑھے اور بڑھیا  کی تصویر  کھینچ کر اُسے دی ، تھوڑی دیر بعد اُس      پر   تصویر اُبھر آئی -
  پھر چم چم  کا کھانا آیا ، بوڑھے  اور بڑھیا کو بھی دوسرے  مسافروں  کی طرح  کھانا  پیش ہوا ۔بوڑھے نے، فلم کو وقفے پر ڈالا ،  کانوں پر سے ہیڈ فون اُتار اور کھانا کھا یا اور پھر فلم دیکھنے میں مصروف ہوگیا  ۔
کہا جاتا ہے کہ اگر نیند لانا ہو  تو، ایسی کتاب پڑھو جو آپ کی بوریت میں اضافہ کردے  یہی حال فلم کا ہے۔

یوں بوڑھے کو   نیند آگئی ۔ بڑھیا نے ہلا یا ، " آپ فلم دیکھ رہے ہیں یا سو گئے ہیں"
بوڑھا اپنی فلمی نیند سے بیدار ہوا ، " دُبئی آنے والا ہے "  بڑھیا نے معلومات دیں ۔
" ابھی چالیس منٹ باقی ہیں ؟" بوڑھے نے جواب دیا
" آپ کو کیسے معلوم ؟ آپ تو سو رہے تھے ؟" بڑھیا نے پوچھا ۔

" وہ سامنے دیکھو ، ٹی وی پر  دبئی کا فاصلہ 414 کلو میٹر لکھا ہے اور جہاز کی رفتار 622 کلو میٹر فی گھنٹہ ، یوں سمجھو اسلام آباد کے لئے ابھی ہم لاہور پر ہیں " اور بوڑھا فلم دیکھنے لگا ۔
دبئی کے 20:05 پر جہاز اترا ۔
اب ہمیں رات  03:00 تک انتظار کرنا تھا ، لہذا ائرپورٹ کے ہوٹل کی طرف دوڑے ، گو کہ بڑھیا نے کافی شور مچایا کہ 6 گھنٹوں کے لئے ہوٹل میں ٹہرنے کی کیا ضرورت ، بیٹی نے کہا پھر مرحبا  لاونج میں ٹہر جائیں ، بڑھیا بُدک گئی، رات کو کرسیوں پر بیٹھنے اور جو مرضی کھانے کے لئے  فی بندہ 300 ڈالر دینے کی کیا ضرور ت ، اِس سے بہتر ہے کہ دبئی ائرپورٹ گھوما جائے ؟ بہرحا ل بوڑھے کے کہنے پر بیٹی نے ہوٹل کا ایک کمرہ بُک کروادیا ، جِس میں اگر پسند آیا تو تینوں ٹہریں گے ورنہ ائرپورٹ کی تفریح کریں گے ۔ بوڑھے کو تو رات بھر جاگنے کی عادت ہے اور ویک اینڈ پر چم چم بوڑھے کے ساتھ جاگتی ہے ۔ بڑھیا  کا  یوپی ایس مغرب کے بعد چارجنگ ختم ہونے کا شور مچانے لگتا ہے  ۔ جہاز سے لے کر ہوٹل پہنچنے تک یہی ہوا ۔
دُبئی ہوٹل پہنچے ، بکنگ کا پوچھا ، موجود تھی ، بڑھیا نے کہا پہلے کمرہ دیکھوں گی ، بکنگ بوائے جو نہایت خوش گُفتار کیرالا کا رہنے والا انڈین تھا ، اُس نے اشارہ کرکے  بتایا،  وہ جو دوسرا کمرہ ہے وہ آپ کو دوں گا ، بوڑھے نے کہا " ڈن" اور اپنا اے ٹی ایم کارڈ دے کر بکنگ کنفرم کروائی اور پلاسٹک کارڈ لے کر تینوں  کمرے کی طرف گئے ۔

  بڑھیا نے اعلان کیا وہ کہیں نہیں جارہی، کھانا کھانے بھی نہیں اور  اب سوئے گی ۔ڈسٹرب نہ کرنا  !!!!


  ہوٹل کا ریسٹورینٹ نہیں تھا ، چنانچہ چم چم اوربوڑھا کمرہ لاک کرکے ، ائرپورٹ والک پر نکل گئے ، چم چم نے کھانا لیا ، بوڑھے نے کھانا لیا ، چم چم نے اپنی دادی ، دادا ، بابا ، پھپھو ، تائی ، چچا اور چھوٹے کزن کے لئے  کھجوریں اور کھلونا لیا ، پھپھو اور تائی  کے لئے بیگ اُس نے ایتھوپیا سے خریدا تھا ۔  لے کر واپس ہوٹل میں آئے ۔ بوڑھے نے بڑے آرام سے تالا کھولا ، لیکن بڑھیا اُٹھ گئی۔ "کون ہے ؟"سوال ہوا۔
" نانو میں اور آوا " چم چم نے جواب دیا اور سو گئی ۔
چم چماور میں نے کھانا کھولا ، کمرے میں خوشبو پھیل گئی ،
" میں نے بھی چکھنا ہے " بڑھیا کی غنودگی میں آواز آئی ۔
"عالی ،نانو سوتے میں بول رہی ہے "بوڑھے نے کہا ۔

" میں جاگ گئی ہوں" بڑھیا نے کہا۔
تینوں نے کھانا کھایا  ، بوڑھے نے اپنی ، بڑھیا کے موبائل میں آلارم لگایا اور تینوں سو گئے ۔ 02:15  پر الارم بجا ، بوڑھے کی آنکھ کھلی ، بڑھیا کی آنکھ کھلی اور چم چم کی آنکھ کھلوانا پڑی ۔
3:00 بجے ہم  
ٹرانزٹ لاونج میں پاکستانیوں کے ہجو م میں بیٹھے تھے ۔ جہاز میں بیٹھنے کا اعلان ہوا ، اور گیٹ کے پاس ہجوم ہو گیا ۔سب کو جلدی تھی شائد جہاز اُنہیں لئے بغیر  نہ اُ ڑجائے  یا وہ پہلے پہنچ کر اچھی سیٹوں پر قبضہ کرلیں ۔  اعلان کے باوجود وہ  رش کم کرنے کے روادار  نہ تھے ، ھجوم میں پہلےA گروپ کا نام پکارا ، مینیجمنٹ ٹکٹ  دیکھتی اورB گروپ  والے بمشکل سامان گھسیٹ  کر رَش میں جہاز کے اندر جانے کے لئے بڑھتے ، یوں E,D,C    ہماری باری کافی دیر  بعد آئی اور ہم  F- 12 جابیٹھے۔


 بڑھیا نے کھڑکی والی سیٹ پر قبضہ کر لیا ۔ تاکہ 12 دسمبر کی صبح   سورج  نکلتا دیکھے ۔ 
سامان رکھنے کی باری آئی ، بوڑھے نے اپنی نشت کے اوپر سامان رکھنے کی کوشش کی تو فضائی  چینی میزبان نے کہا،" یہاں نہ رکھو " اور  بتایا کہ وہاں رکھو ۔غالبا سیٹ 18 کے اوپر والے  خانے میں ۔
" کیوں ؟" بوڑھے نے پوچھا ۔

چینی میزبان بولی ۔" اِس خاتون کا سامان رکھنا ہے "
" یہ کہاں بیٹھی ہے " بوڑھے نے پوچھا ۔
تو پچھلے سیکشن کی طرف اشارہ کیا اور بولی " وہاں"   شاید سیٹ 18Dپر ۔
آہ بٹ اور کندھے کا ملاپ یہاں بھی چل رہا تھا ، کیوں کہ سامان والی خاتون بھی چینی تھی ۔

بوڑھے نے کہا، " بے بی ، یہ میری سیٹ ہے اور یہاں سامان رکھنے کا حق میرا ہے "
فضائی میزبان کا چہرے پر سرخی آگئی  اور وہ بغیر کچھ کہے پیچھے ہٹ گئی ، بوڑھے نے اپنا اور چم چم کا سامان رکھ دیا ، بمع اپنے لیپ ٹاپ بیگ اور بُڑھیا کے بیگ ۔
اِس سے پہلے کے جہاز اُڑے ،بوڑھے نے ہیڈ فون کانوں پر لگایا اور فلمی نیند میں چلا گیا ۔ جہاز اُڑ چکا تھا ۔بوڑھا ابھی کچی نیند میں تھا کہ زور کا دھکا لگا ، بوڑھا ہڑبڑا کر اُٹھا، تو چینی میزبان  پریشانی کے عالم میں سوری سوری کہہ رہی تھی ،
بوڑھا بولا ،" بے بی  کوئی بات نہیں " فضائی میزبان سوری  ویر سوری کہتی چلی گئی ۔ جب کھانا لائی تو کھانے کا پوچھا ، بوڑھے نے  سبزی کا بتایا  ، بڑھیا نے چکن کا اور چم چم بولی ،" میرے لئے بچوں کا کھانا مت لانا ، میں بچی نہیں " چینی میزبان کھانا لائی  بوڑھے نے پوچھا ،

" اچھی لڑکی کیا تم نے سامان نہ رکھنے دینے کا انتقام لیا تھا ؟"
اُس کا منہ کھل گیا ،بولی " نو سر ! یقیناً نہیں ، یہ ایک اتفاقاً حادثہ تھا ، میں دوبارہ سوری کرتی ہوں"
" کیوں بے چاری کو تنگ کررہے ہیں ؟" بڑھیا بولی ۔
وہ کھانا رکھنے کے لئے جھکی تو بوڑھے نے اُس کے سر پرہاتھ رکھ کر کہا،" بے بی میں مذاق کر رہا تھا ۔ آپ ایک اچھی میزبان ہو " ،اُس چینی گڑیا کا رنگ پھر سُرخ تو نہیں البتہ گلابی ہوگیا ۔
بوڑھا کھانا کھا کر پھر فلمی نیند میں چلا گیا ۔ 

8:15 پر برو ز ہفتہ  13 دسمبر کو جہاز   اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر رُکا  تو سب مسافر اپنا اپنا سامان ، اُٹھا کر باہر نکلے ، وہ چینی گڑیا بزنس کلاس کے گیٹ پر کھڑی تھی۔
" گڈ بائے سر "
گڈ بائے بے بی "
" سر میں آپ کو نہیں بھول سکوں گی " وہ بولی
"اور میں بھی آپ کو ایک اچھی میزبان کے طور پر یاد رکھوں گا ۔ گڈ بائے "بوڑھا یہ کہہ کر بڑھیا کے پیچھے چل پڑا ۔

ٹنل کے باہر گالف کارٹ کھڑی تھی اُس پر بیٹھے اور ڈی بارکیشن پوائینٹ پر جااُترے ، اب بڑھیا کا پاسپورٹ نہ ملے ۔
" آپ دیکھیں میں نے آپ کو دیا تھا " بڑھیا جھنجھلاتی ہوئی بولی ۔
" میں نے  فارم بھر کر آپ اور عالی کا فارم بیچ  میں رکھ کر دیا تھا ،اپنی  زنبیل دیکھو !" بوڑھا بولا
خیر کھنگالنے کے بعد پاسپورٹ زنبیل سے ہی نکلا ، مہریں لگوا کر باہر نکلے  ، بوڑھے نے چم چم اور بڑھیا کو کہا ،

 " آپ دونوں باہر جاؤ ، میں سامان لے کر آتا ہوں "
 دونو ں باہر کی طرف چلدیں جہاں  پورا خاندان  انتظار کر رہا تھا ۔

٭٭٭٭واپس ٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔