Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

اتوار، 30 اپریل، 2017

جیسے کو تیسا !

ایک بازار سے ایک مغرور بندہ گذر رہا تھا کہ اس کی نظر سر پر ایک ڈول اٹھائے عورت پر پڑی، اس نے اسے آواز دیکر روکا اور نخوت سے پوچھا:
"اے مائی، کیا بیچ رہی ہو؟

عورت نے کہا: جی میں گھی بیچ رہی ہوں۔
اس شخص نے کہا: اچھا دکھاؤ تو، کیسا ہے؟

گھی کا وزنی ڈول سر سے اتارتے ہوئے کچھ گھی اس آدمی کی قمیض پر گرا تو یہ بہت بگڑ گیا اور دھاڑتے ہوئے بولا: نظر نہیں آتا کیا، میری قیمتی قمیض خراب کر دی ہے تو نے؟ میں جب تک تجھ سے اس قمیض کے پیسے نا لے لوں، تجھے تو یہاں سے ہلنے بھی نہیں دونگا۔

عورت نے بیچارگی سے کہا؛ میں مسکین عورت ہوں، اور میں نے آپ کی قمیض پر گھی جان بوجھ کر نہیں گرایا، مجھ پر رحم کرو اور مجھے جانے دو۔

اس آدمی نے کہا؛ جب تک تجھ سے دام نا لے لوں میں تو تجھے یہاں سے ہلنے بھی نہیں دونگا۔

عورت نے پوچھا: کتنی قیمت ہے آپ کی قمیض کی؟
اس شخص نے کہا: ایک ہزار درہم۔
عورت نے روہانسا ہوتے ہوئے کہا: میں فقیر عورت ہوں، میرے پاس سے ایک ہزار درہم کہاں سے آئیں گے؟

اس شخص نے کہا: مجھے اس سے کوئی غرض نہیں۔
عورت نے کہا: مجھ پر رحم کرو اور مجھے یوں رسوا نا کرو۔

ابھی یہ آدمی عورت پر اپنی دھونس اور دھمکیاں چلا ہی رہا تھا کہ وہاں سے کہ ایک نوجوان کا گزر ہوا۔ نوجوان نے اس سہمی ہوئی عورت سے ماجرا پوچھا تو عورت نے سارا معاملہ کہہ سنایا۔

نوجوان نے اس آدمی سے کہا؛
جناب، میں دیتا ہوں آپ کو آپ کی قمیض کی قیمت۔ اور جیب سے ایک ہزار درہم نکال کر اس مغرور انسان کو دے دیئے۔

یہ آدمی ہزار درہم جیب میں ڈال کر چلنے لگا تو نوجوان نے کہا: جاتا کدھر ہے؟
آدمی نے پوچھا: تو تجھے کیا چاہیئے مجھ سے؟
نوجوان نے کہا: تو نے اپنی قمیض کے پیسے لے لئے ہیں ناں؟
آدمی نے کہا: بالکل، میں نے ایک ہزار درہم لے لئے ہیں۔

نوجون نے کہا: تو پھر قمیض کدھر ہے؟
آدمی نے کہا: وہ کس لئے؟
نوجوان نے کہا: میں نے تجھے تیری قمیض کے پیسے دے دیئے ہیں، اب اپنی قمیض مجھے دے اور جا۔
آدمی نے گربڑاتے ہوئے کہا: تو کیا میں ننگا جاؤں؟
نوجوان نے کہا: مجھے اس سے کوئی غرض نہیں۔
آدمی نے کہا: اور اگر میں یہ قمیض نا دوں تو؟
نوجوان نے کہا: تو پھر مجھے اس کی قیمت دے دے۔
اس آدمی نے پوچھا: ایک ہزار درہم؟
نوجوان نے کہا: نہیں، قیمت وہ جو میں مانگوں گا وہ تو دے گا !
اس آدمی نے پوچھا: تو کیا قیمت مانگتے ہو؟
نوجوان نے کہا: دو ہزار درہم۔
آدمی نے کہا؛ تو نے تو مجھے ایک ہزار درہم دیئے تھے۔
نوجوان نے کہا: تیرا اس سے کوئی مطلب نہیں۔
آدمی نے کہا: یہ بہت زیادہ قیمت ہے۔
نوجوان نے کہا؛ پھر ٹھیک ہے، میری قمیض اتار دے۔
اس آدمی نے کچھ روہانسا ہوتے ہوئے کہا: تو مجھے رسوا کرنا چاہتا ہے؟
نوجوان نے کہا: اور جب تو اس مسکین عورت کو رسوا کر رہا تھا تو!!
آدمی نے کہا: یہ ظلم اور زیادتی ہے۔
نوجوان نے حیرت سے کہا: کمال ہے کہ یہ  تجھے ظلم لگ رہا ہے۔
اس آدمی نے مزید شرمندگی سے بچنے کیلئے، جیب سے دو ہزار نکال کر نوجوان کو دےدیئے۔

اور نوجوان نے مجمعے میں اعلان کیا کہ دو ہزار اس عورت کے لئے میری طرف سے ہدیہ ہیں۔

ہمارے ہاں بھی اکثریت کا حا ل ایسا ہی ہے۔ ہمیں دوسروں کی تکلیف اور توہین سے کوئی مطلب نہیں ہوتا لیکن جب بات خود پر آتی ہے تو ظلم محسوس ہوتا ہے۔ اگر معاشرتی طور پر ہم دوسروں کی تکلیف کو اپنا سمجھنا شروع کر دیں تو دنیا کی بہترین قوموں میں ہمارا شمار ہو۔  اگر وقت ملے تو سوچئے گا۔

لیکن ایسا ممکن نہیں ہوسکتا ۔ کیوں ؟
کہ اِس سے بہت پہلے اللہ نے انسانوں کو یہی بات بتائی ہے !


يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ وَلاَ تَيَمَّمُواْ الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلاَّ أَن تُغْمِضُواْ فِيهِ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ [2:267]

  اے ایمان والو! ان پاکیزہ کمائیوں میں سے اور اس میں سے جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالا ہے (ﷲ کی راہ میں) خرچ کیا کرو اور اس میں سے گندے مال کو (ﷲ کی راہ میں) خرچ کرنے کا ارادہ مت کرو کہ (اگر وہی تمہیں دیا جائے تو) تم خود اسے ہرگز نہ لو سوائے اس کے کہ تم اس میں چشم پوشی کر لو، اور جان لو کہ بیشک اﷲ بے نیاز لائقِ ہر حمد ہے

جمعہ، 28 اپریل، 2017

ملائی افسانے :گولی شیعہ تھی یا سنّی ؟

گاؤں سے مغرب کی طرف باہر نکلتے ہی ایک چھوٹی سی پگڈنڈی حاجیوں کے امرودوں کے باغ سے نکلتی ہوئی مَلکوں کے ڈیرے سے ذرا آگے قبرستان تک جانے کا مختصر ترین راستہ ہے، ورنہ ایک ہموارپختہ سڑک بھی قبرستان تک جاتی ہے۔ گاؤں کے تمام جنازے اسی بڑی سڑک سے قبرستان تک جاتے ہیں۔ دن بھر قبرستان میں میلے کا ساسماں ہوتا ہے، بچے، جوان حاجیوں کے باغ والے راستے سے آتے اور گلی ڈنڈا، کرکٹ، گھیر گھمٹ وغیرہ کھیلتے ، ملکوں کے بیر کھاتے، پیلوں چنتے اور چلے جاتے۔ کبھی کبھار گاوں کی عورتیں بھی جھاڑو چننے اور وہیں کے درختوں سے پھل توڑنے آتی تھیں۔

بابا بخت جمال کے مزار پر تو صبح سے شام تک خوب چہل پہل رہتی، کئی جوڑے پسند کی شادی کے لئے مزار کے ساتھ اُگے برگد کے پیڑ کے دوشاخوں کو ست رنگی دھاگوں سے باندھ کر جوڑ دیتے، بے اولاد سرہانیاں ٹانکتے اور مائیں اپنے بیٹوں کو بیویوں کے چنگل سے بچانے اور بیویاں شوہروں کو ان کی ماوں کے دامن سے علیحدہ کرنے کے لئے چاولوں سے بھری تھیلیاں ٹانگتیں۔ روزانہ مزار پر چاولوں کی دیگیں چڑھتیں اور آس پاس کے دیہاتی تبرک لینے مزار پر حاضری دیتے۔
دن بھر بابا جی کے مزار پر تانتا بندھا رہتا لیکن شام کے سائے جب درختوں کو اپنی آغوش میں لے لیتے تو ہر طرف ہو کا عالم چھا جاتااور پورے قبرستان میں بابا جی کے مزار کے مجاور سائیں فتو کے علاوہ صرف مردے ہی رہ جاتے۔

سائیں فتو جب عشاء کے بعد گاؤں سے لوٹتا تو اپنی جھگی میں چمٹا بجاتا، گاوں والے کہتے تھے کہ رات بابا جی کے مزار پر بھوت پریت آتے ہیں۔دیکھا تو کسی نے نہیں تھا پر گاؤں کے سبھی باسیوں نے کبھی نہ کبھی فتو سے پوچھا ضرور تھا "سائیں بابا کے مزار پر رات کو بھوت پریت آتے ہیں نا؟؟"
سائیں ہر بار چمٹے کے کڑے کو دو تین بار چمٹے پے مار کر حق بابا بخت جمال کا نعرہ بلند کرتا اور کہتا،
"باباجانے کون آتا ہے، کون جاتا ہے فتو مسکین تو کچھ نہ جانے۔"

جب کوئی بچہ پوچھتا کہ ،
"سائیں تو نے بھوت کو دیکھا ہے؟" تو وہ ہنس کے کہتا،"میں نے تو کبھی خود کو نہیں دیکھا۔"

سائیں ایسا ہی تھا، عجیب و غریب باتیں کرتا رہتا تھا، ہمیشہ اپنی ہی دنیا میں مست ۔ اس کا ہر جواب ایک رمز تھا، گہری اور اندھی رمز۔ ایک روز مولوی امام دین نے پوچھا ،
"سائیں کلمے آتے ہیں؟"
کہنے لگا،"پانچ آتے ہیں۔"
مولوی نے پوچھا،" چھٹا کیوں یاد نہیں کرتا،"
"چھٹا یاد کر لیا تو ہمیں سائیں کون کہے گا۔" آہستہ سے جواب دیتا۔

مولوی امادین سمیت کوئی یہ نہیں جانتا کہ سائیں چھ کلمے یاد کرنے کے بعد سائیں کیوں نہیں رہے گا۔مائیں اپنے بچوں کو سائیں کو ستانے سے روکتیں، لیکن نہ بچے ستانے سے باز آتے اور نہ سائیں بچوں سے تنگ پڑتا۔ سائیں فتو روزانہ بچوں میں کوہ قاف کی پریوں کی نیاز والی ریوڑیاں بانٹتا، انہیں کندھوں پر پھراتا، بیر، جامن اور آم توڑ توڑ کر دیتا۔ گاؤں کا ہر گھرسائیں کا تھااور ہر بچہ جیسے اس کا اپنا ہو۔یہی سائیں کی دنیا تھی اور یہی اس کا مشغلہ۔

ابھی گاؤں میں سعودیہ کا پیسہ اور لمبی چھوٹی داڑھیوں کی بحث نہیں پہنچی تھی۔ ابھی ہاتھ چھوڑنے اور باندھنے پر نماز ہونے نہ ہونے کے مناظرے شروع نہیں ہوئے تھے۔
خدا بھی ابھی ایک مسجد میں ایک ہی امام کے پیچھے سب کی نماز قبول کر رہا تھا۔
دوبرس قبل ملک مختیار کا لڑکا کالج سے لوٹا تو اس نے گاؤں کے طور طریق پر اعتراض کرنا شروع کردیا۔
اِسے پہلی بار پتہ چلا تھا کہ اب تک گاؤں میں جتنی نمازیں پڑھی گئی تھیں وہ یا تو مکروہ تھیں یا قبول ہی نہیں ہوئی تھیں۔

پہلے پہل جھگڑا دو جماعتوں، دو اذانوں تک ہی رہا اور پھر بات دوسری مسجد تک جاپہنچی۔ نور محمد کے کھیتوں کا گیہوں بھی تقسیم ہو کر آدھے گاوں میں پہنچااور حاجیوں کے امرود آدھے بچوں پر حرام ہو گئےلیکن سائیں سبھی کے بچوں میں ریوڑیاں تقسیم کرتا رہا۔
لوگ نہیں جانتے تھے کہ،
مولوی امام دین کی مسجد کا خدا سچا ہے یا تراب شاہ کی مسجد کا؟
کلمہ کون ساٹھیک ہے؟
اور اذان کس کی صحیح ہے یہ کوئی بھی بتا نہیں سکا؟

اور پھر پچھلےبرس تراب شاہ کی محرم کی مجلس پر گولی چلی، اور ملک مختیار کو کسی نے مارڈالا؟
کوئی نہیں جانتا کس نے کس کو مارنے میں پہل کی اور کون قصوروار تھا۔؟
پولیس آئی اور تراب شاہ اور ملک مختیار کے بیٹے کے درمیان صلح ہوئی لیکن خاموش زیادہ عرصہ قائم نہیں رہی۔
محرم پھر آیا اور اس بار پولیس کی نفری بھی پہلے سے زیادہ تھی۔
دس محرم کی رات فتو بابا بخت جہاں کے مزار پر اپنی دنیا میں مگن تھاکہ رات کے سناٹے کا طلسم ہوش ربا، بندوق کی تڑ تڑ کی آواز سے پاش پاش ہوگیا، سائیں ایک دم سے کھڑا ہوا۔ گاؤں کی جانب سے عورتوں کے چیخنے اور گولیوں کی آوازیں آنے لگیں۔
سائیں نے باباکی ڈھیری کی پائینتی کو زور سے دبوچااور کہا ،
" بابا آج خیر کریں"
اور بابا کا جواب سنے بغیر ہی گاؤں کی طرف دوڑ لگا دی۔

مزید معلومات کے لئے پڑھیں :شیطان نامہ - تحقیق کرو یا برداشت کرو

دسمبر کی سخت سردی میں جب فضا ٹھٹھر رہی تھی، سائیں ننگے پاؤں حاجیوں کے باغ سے ہوتا ہوا گاؤں کے جوہڑ میں کھڑے پانی کو چیر کر شور کی سمت بڑھنے لگا۔ گاؤں میں ہر طرف جانے پہچانے چہرے سہمے سہمے پھر رہے تھے، ایک ایسی شام غریباں برپا تھی جس میں سبھی کے خیمے لُٹ رہے تھے۔

رات کے مہیب اندھیروں میں گولیاں دونوں جانب سے چل رہی تھیں،

ابن زیاد اور ابن علی رضی اللہ تعالی عنہ کے لشکروں کی تفریق مٹ چکی تھی۔
دونوں طرف شمر تھے جوکسی نہ کسی مظلوم کے لہو سے ہاتھ رنگے ہوئے تھا،
ہر لٹی ہوئی بین کرتی عورت سکینہ تھی،
ہر ننگا سر زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تھا۔
سبھی بچے علی اصغر لگ رہے تھےاور سبھی خانوادے پیاسے تھے۔
لوٹنے والے تمام لشکر نیزوں پر سر اٹھائے ہوئے تھے جن پر جھولتے چہروں کی پہچان مٹ چکی تھی۔ ایک گولی سائیں فتو کا سینہ چیرتی ہوئی بھی گزری اور آخر تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ
یہ گولی شیعہ تھی یا سُنی۔

راہ سے بھٹکا ہوا انسان راہِ راست پہ آگیا!

مبارک ہو پاکستانیو!
ایک راہ سے بھٹکا ہوا انسان راہِ راست پہ آگیا ۔ معافی بھی مانگ لی ، اعترافی بیان بھی جاری کردیا ؛ اب تو معاف کردو بیچارے کو ، کہ معافی مانگنے والے کو معاف کرنا تو ہمارے مذہب کی تعلیمات ہیں ۔

 !!
مگر ہمارے لوگ ہیں کہ ایک طوفان اٹھایا ہوا ہے ، اعتراض پہ اعتراض ، نکتہ چینی پہ نکتہ چینی ،
ارے بھئی ! کیا ہوا جو وہ ماضی میں ایک وحشی ، درندہ صفت تنظیم سے منسلک رہا ؟؟
ہر وحشیانہ کارروائی کے بعد ٹی ٹی پی کے ترجمان کی حیثیت سے دھڑلے سے ذمہ داری قبول کرتا تھا ، تاویلیں دیتا تھا ، ریاستی رٹ کو چیلنج کرتا تھا ، آئندہ کا اعادہ کرتا تھا ۔ ۔ ۔۔ اب تو اس نے توبہ کرلی نا
 
تو بھول جاؤ اسکے پچھلے گناہوں کو ، کیا پھانسی دیدو ، پھانسی دیدو کی رٹ لگائی ہوئی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
خدانخواستہ ، خدانخواستہ اس نے پاکستان مردہ باد کا نعرہ تھوڑی نہ لگایا تھا ۔ خالی خولی نعرے لگانے والوں کو تو کسی صورت معافی نہیں ملنی چاہیئے ۔
ہم ایک باعمل قوم ہیں ، عمل پہ یقین رکھتے ہیں ، یہ کیا کہ بیٹھے بٹھائے ایک نعرہ لگادیا اور بعد میں معافی کے طلبگار ہوگئے ۔
نو ، نیور یہ جرم ناقابلِ معافی ہے ۔ اس معاملے میں ریاست ہو یا عوام ، ایک پیج پہ ہیں ۔
بلکہ ایسا کریں کہ اس احسان اللہ احسان سے ایک بیان الطاف حسین سے 'را' کے روابط پہ بھی دلوا ڈالیں ، پھر دیکھئے گا چمتکار ؛ ساری قوم آپ کے ساتھ کیسے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند کھڑی ہوتی ہے ۔ یہ جو چند سرپھرے ابھی اعتراض اٹھا رہے ہیں نا ان کی بھی آوازیں بند ہوجانی ہیں ۔ ۔ ۔ پاکستان زندہ باد پہ نو کمپرومائز!
ویسے بھی ہماری ریاست ہو یا قوم ، ان کی یادداشت تھوڑی کمزور ہے ؛ ان تمام گناہگاروں کے گناہوں کو تو شائد بھول جائے لیکن مردہ باد کے نعرے کو (صرف الطاف حسین کے ، یہ بحث جانے دیں کہ وہ نعرہ کن عوامل کا ردعمل تھا ) کبھی نہیں بھلا سکے گی۔ ۔ ۔ !
اور یہ جو ، بقول ہمارے "نمبرون ادارے" کے چند گنے چنے دہشتگرد رہ گئے ہیں انکو بھی ہمارا مخلصانہ مشورہ یہی ہے کہ تازہ تازہ مسلمان ہوئے، احسان اللہ احسان کے ساتھ ریاستی اداروں کے احسان اور حسنِ سلوک کو دیکھتے ہوئے اپنی ضد چھوڑیں اور ریاستی چھتری تلے پناہ لے لیں ۔ ۔
کیا فائدہ ایسی زندگی کا جس میں ہر آن کتے کی طرح مارے جانے کا خدشہ ہو ؟؟
کیا ہوا جو آپ نے ہزاروں بیگناہ شہریوں کی جانیں لیں ، کوئی بڑی بات نہیں ۔ ۔
کیا ہوا جو سینکڑوں معصوم بچوں کا بہیمانہ قتل کیا ، کوئی قیامت تو نہیں آگئی نا ۔ ۔ ۔
کیا ہوا جو غریب سپاہیوں کے سروں سے فٹبال کھیلی ؟

ارے بھئی ریلیکس ہونے کیلئے کھیل کود بھی بہت ضروری ہے ۔ اور ویسے بھی بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ ایک صحتمند دماغ کیلئے صحتمند جسم ضروری ہے ۔ اب صحتمند جسم کیلئے ایسی "فزیکل ایکٹیویٹز" بھی ضروری تھیں نا

ورنہ پھر اگلی کسی وحشیانہ کارروائی کی منصوبہ بندی کیسے کرتے ؟؟
یہ تو ہمارے لوگ بھی نا بس زیبِ داستاں کیلئے کچھ زیادہ ہی بڑھا چڑھا دیتے ہیں۔ ۔ ۔ !
تو یہ اگر مگر چھوڑیں ، ہر قسم کا ڈر اور خوف اپنے دل و دماغ سے نکالیں اور یہ جو ریاست نے سکہ بند دہشتگردوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی نئی آفر متعارف کروائی ہے، اس سے فائدہ اٹھائیں اور ریاست کے حفاظتی حصار میں سرکاری مہمان نوازی کا لطف اٹھائیں ۔
یہ تو بس بلوچوں اور مہاجروں نے خواہ مخواہ کا پروپیگنڈا کررکھا ہے ان کے متعلق ، انہیں شوق ہے مظلوم بننے کا۔

اپنوں کے ساتھ تو یہ بڑے مہمان نواز ، بڑے مہربان ہیں ۔
نا صرف فل ریاستی پروٹوکول ملے گا بلکہ مختلف ٹی وی چینلز پہ آب و تاب کے ساتھ "مستند" صحافیوں کے ساتھ آپ کے انٹرویوز بھی کروائےجائیں گے ۔ آپ کے کردار پہ لگی ماضی کی تمام کالک دھل جائے گی،
ایسے ایسے شخصیت کے پہلو سامنے آئیں گے کہ آپ بھی دانتوں تلے انگلیاں دبا لیں گے ؛ ریاست نے چاہا تو ! ! !

بس آزمائش شرط ہے ۔ ۔ ۔ ۔
بس ریاست سے صرف ایک التجا ہے ۔ اِن جانے مانے دہشتگردوں کو معافی دینے سے پہلے ان ہزاروں معصوم شہریوں کو تو چھوڑیں ۔ ۔ ۔
بس صرف آرمی پبلک اسکول کے اس سانحے میں (جس نے پوری قوم کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا تھا ؛ وقتی طور پر ہی سہی) شہید ہونے والے معصوم بچوں کے والدین سے ایک بار صرف ایک بار پوچھ لیا جائے !

کہ آیا اِن کے اندر اتنی ہمت، اتنا ظرف ہے کہ اپنے پھول سے بچوں کو اتنی بے رحمی و شقاوت سے قتل کرنے والے ان قصائیوں کو معاف کرسکیں ۔ ۔ ۔ ۔

(تابندہ ندرت)

کیا زنا ایک ذاتی فعل ہے ؟

صاحبان عقل و دانش ، فہم و فکر ، شعور و تدبّر ، سے پانچ  سوال !

بدھ، 26 اپریل، 2017

کیا منکرینِ حدیث ، مسلمانوں کی راہنمائی کر سکتے ہیں ؟



256 ھجری سے پہلے ، امام احمد بن حنبل  کو 28،199 قول منسوب الی لارسول  جنھیں احادیث کے نام سے انسانوں  کے مطالعے اور عمل کے لئے    اپنی مسند  میں لکھا-
اگر ہم 179 ہجری تک دیکھیں تو ہمیں صرف ایک مؤلف احادیث نظر آتے ہیں ، یعنی امام مالک ، جنہوں نے مدینہ میں رہ کر ، امام جعفر صادق کی شاگردی اختیار کی اور اپنی صحیح میں صرف 2400  روایات ، قول منسوب الی الرسول و صحابہ  یا احادیث  لکھیں ۔   لیکن   241  ہجری  میں امام حنبل نے اپنی مسند میں 28،199 روایات      ، قول منسوب الی الرسول و صحابہ  یا احادیث  لکھیں ۔ گویا 65 سال کے عرصہ میں مدینہ سے  نکل کر کوفہ سے گذرنے کر بغداد پہنچنے  کے بعد احادیث کی تعداد میں  25,799 کا اضافہ ہو چکا تھا ۔ ہم اُن کتابوں کے ضمیمہ جات میں جو تعداد لکھی ہے اُس سے صرفِ نظر کریں گے صرف اُسی تعداد کا حوالہ دیں گے جو صحاح تسع میں درج ہیں ۔کیوں کہ لاف  زنی میں  کاتبینِ سوانح  ، اپنی حدیں  پار کر جاتے ہیں اور چھاپے پر چھاپے مارنے والے بھی اپنی عقل استعمال نہیں کرتے جیسے ،  "اس کثرت اسفار کی وجہ سے اور اپنے غیرمعمولی حافظے کی وجہ سے ان کو دس لاکھ حدیثیں یاد تھیں۔" 

امام بخاری کے بارے میں بھی یہی لکھا ہے کہ اُنہیں   چھ لاکھ احادیث حفظ تھیں مگر اُنہوں نے صرف  7،563 صحیح احادیث کو اِس قابل جانا کہ اپنی صحیح میں لکھیں ۔ 
میں نےامام حنبل کی ،   28،199 روایات      ، قول منسوب الی الرسول و صحابہ  یا احادیث کو بنیاد مان کر ، کیوں کہ یہ تحریری صورت میں ہمارے سامنے ہے ۔یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ۔
 مختلف فرقوں یا مذہب  کے باقی 8 اماموں نے ،  70،163 قول منسوب الی الرسول  میں سے   بالا جدول کے مطابق ،اپنے فہم کے مطابق صحیح اور مصدّق  احادیث  ، انسانوں  کی راہنمائی   کے لئے اپنی کُتب میں لکھا اور 
کئی  مؤلفین امام حنبل کی   ریکارڈڈ ، احادیث سے منکر ہوئے ،   جو اوسطاً 22،954  احادیث بنتی ہیں ۔
کیا ایسا ہی ہے ؟ نہیں یقیناً ایسا نہیں امام حنبل نے ، جو کام کیا ہے وہ نہایت عمدہ ہے ۔وہ یہ کے رسول اللہ سے حدیث سُن کر آگے سنانے والے  کے نام سے تمام احادیث ایک مسند میں  حروفِ تہجی کے اعتبار سے جمع کر لیں ، جیسے


علامہ محمد ظفر اقبال (حیدرآباد - سندھ) نے امام احمد بن حنبل کے کام کو مزید  عمدہ بنایا ۔ کہ انہوں نے مکررات کو ہٹا دیا اِس طرح تعداد کو 10،997 تک لے آئے ، اور باقی کُتُب کا حوالہ بھی دیا ۔
اِسی طرح ، علامہ ناصرالدین الخاطب نے مسند امام حنبل کا انگلش میں ترجمہ کیا اُنہوں نے مزید کمال دکھایا  اور مکررات کو حذف کر کے حوالہ کے ساتھ
تعداد کو 10،997  سے مزید کم کرکے ۔ 4،376 تک لے آئے

  اور اِس طرح بالا جدول کی تصحیح ، اِس طرح ہوئی ۔ جس میں اما م حنبل کی  4،376 احادیث کو بنیاد مان کر باقی کا فرق جانا جائے گا ۔

اِس طرح ہم کہہ سکتے ہیں ، کہ امام مالک 1976، امام ابوداؤد 26 ، امام ابنِ ماجہ 35 اور امام ترمذی 420 احادیث کے منکر ہوئے !
لیکن آئیں دیکھیں کہ انکارِ الحدیث  اور انکارِ حدیث میں کیا فرق ہے !
اللہ کی تمام آیات ، الحمد سے لے کر والناس تک جو ا للہ سے حدث ہوئی ہیں وہ الحدیث ہیں اور 

جو اقوال ، اعمال اور افعال رسول اللہ سے منسوب ہیں وہ اپنی صحت پر پورا اترنے کے بعد احادیث کا مقام پاتے ہیں ۔
الحدیث اور احادیث کے استنباط سے خلفاءِ رشدین ،اصحابِ رسول نے مسلمانوں کے درمیان  شوریٰ یا اپنی فہم و دانش سے جو 
احکام یا امور بتائے وہ اُن کے دور کے فقہی تدبّر تھے ۔ جن کا اِس دور سے تعلق ہوبھی سکتا ہے اور نہیں بھی ۔ لیکن ایک بات اہم ہے کہ وہ سارے امُور  اُنہوں نے انجام دئیے وہ انسانوں اور مسلمانوں کی بھلائی و امن  کے لئے تھے ۔ ایک ہی قسم کے مرض میں گرفتار مختلف مریضوں کو ڈاکٹر  دوائی۔ اُن  کی صحت ، عمر  اور بیماری کے جسم میں پھیلنے  اور عرصے کے حساب سے دیتا ہے ۔ تاکہ مریضوں کو جلد از جلد  شفاء   ہو ۔الکتاب سے دی جانے ، والی  ڈوز  کا بھی یہی حساب ہوگا ۔ 


انکارِ حدیث کیا ہوتا ہے ؟
یہ کوئی ایسی چیز نہیں جو بہت پیچیدہ ہے ۔ کہ جسے سمجھنے میں کوئی دشواری ہو ۔ سادہ الفاظ میں آپ اگر ایک حدیث کی کتاب لکھنا چاہتے ہیں کہ جس سے لوگ مثبت فائدہ اُٹھائیں  اور ایسی حدیث جو حدیث نہیں صحابہ کی رائے ہے یا خلفاء کے فیصلے یا کوئی ایسی بات جس کی موجودہ دور میں افادیت نہیں ، یا جو مسلمانوں میں کسی قسم کا شک یا غلط فہمی پیدا کرے  تو آپ اُنہیں اپنی کتاب میں نہیں لکھیں گے۔ چپکے سے چھوڑ دیں گے  ، تو کوئی شور نہیں ہوگا اور نہ ہی کوئی فساد اُٹھے گا ۔ 
جیسے خطیبِ ترمذی (امام ولی الدین محمد بن عبداللہ ) اپنی  کتاب مشکوٰۃ المصابیح میں  6،030 احادیث لکھیں اور  امام احمد بن حنبل  کی صحیح    میں موجود   28،199میں    سے22،169
کو نہیں لکھا ، جس کی وجہ اُنہوں نے اسماء الرجال لکھ کر ثابت کر دی - 
کسی نے اُن کو منکرین حدیث کی فہرست میں شامل نہیں کیا ۔ 
جماعت اسلامی کے بانی ، علامہ مودودی نے بھی اپنی فہم و فراست اور علم سے کئی احادیث پر اپنے اعتراضات لکھے ،  علامہ غلام احمد پرویز  نے بھی یہی کام کیا ۔ جس کی وجہ سے وہ دونوں  منکرینِ حدیث کی صفوں میں پہنچادیئے گئے ۔ 

حالانکہ تدبّر تو انسان کی میراث ہے یہی تو اپسے جانور سے ممتاز رکھتی ہے ،   وہ جلد بازی میں کوئی ایسا کم کر ہی نہیں سکتا جس سے فتنے کا اندیشہ ہو اور  سرجری کی ضرورت ہو تو سرکشوں کے لئے واضح احکامات ہیں ، کہ پہلے  ہاتھ سے روکو !وعظ کون سنتا ہے ؟
ڈاکٹر طاہر القادری نے اوپن برھان کی ویب سائیٹ پر موجود القرآن کے اپنے ترجمے میں وہ  تبدیلیاں کیں کہ اللہ کی پناہ ۔  لیکن کسی نے اُنہیں ، غلام احمد قادیانی  کے ساتھ نہیں جوڑا ۔ باوجود اِس کے کہ خواب میں وہ محمدﷺ کو جہاز کا ٹکٹ دے رہے ہیں ، مدینہ سے پاکستان آنے اور واپس جانے کا ۔ وہ براق پر بھی بلا سکتے تھے ، لیکن وہ کسی کی بھی پکڑ میں نہیں آئے  ۔ کئی الفاظ کے مادے فہرست سے نکال دئیے ۔ کیوں یقیناً اُن کی کوئی نہ کوئی منطق ضرور ہوگی ۔
جیسے میں  دوستوں کی ازحد فرمائش پر  الکتاب کی آیت کا ترجمہ لکھتے وقت متنازعہ لفظ   کا ترجمہ نہیں لکھتا ،   بلکہ اپنے مکمل اعراب کے ساتھ الکتاب سے اُسی لفظ کو کاپی پیسٹ کر دیتا ہوں ،
جیسے  الصلوٰۃ، جس پر ایک دوست نے کہا کہ آپ کے ترجمے سے ہمیں الجھن ہوتی ہے ، ہم زچ ہوجاتے ہیں ۔
صحاحِ تسع میں  بادیء النظر میں کئی قابلِ اعتراض احادیث ہیں ۔ جن پر اعتراض کو کم کرنے کے لئے ، کئی نام بنا لئے ہیں ، ضعیف ہیں یا راوی سندِ روایت پر پورا نہیں اترتا ، لیکن کسی میں  ہمت نہیں ہوئی ، کہ الکتاب کی آیات کی  وضاحت میں لکھی گئی احادیث یا انسانی   عبادات ، اخلاقیات ، سماجیات ، معاشرت اور معاشیات سے متعلق احادیث کو   ایک جگہ جمع کر کے نئی مصحف بنا لیں  ۔
میری رائے میں  وقت کے ساتھ تبدیل ہونے والی انسانی سماجی، معاشیاتی  اور معاشرتی  کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ انتہائی اہم ہے ، کہ مختصر اور واضح احکام دینے والی احادیث ایک کتاب میں  اکٹھی کی جائیں اور عبادات و اخلاقیات کی احادیث ایک کتاب میں ۔ بالکل اُسی انداز میں جسے نومان بن ثابت المعروف امام ابوحنیفہ سے منسوب ہے   کہ اگر رسول اللہ موجود ہوتے تو یہی فتویٰ دیتے  یا ایسا ہی  کہتے۔

اگر ہم موجودہ منکرینِ حدیث کی تعریف پر اِس سب اماموں  کی تاریخ سے  کردار دیکھیں تو یہ بھی منکرینِ حدیث ہی کی صف میں کھڑے نظر آئیں گے ، جب کہ ایسا نہیں  ہے ۔
اللہ نے انسان کو  ، عقل و دانش ، فہم و فکر ، شعور و تدبّر کی صلاحیتوں سے نوازا ہے اور اپنے حاصل کردہ علم کے ذریعے اپنی اور انسانی بھلائی  کے لئے روزمرہ کاموں کو انجام دینے کا مکلّف بنایا ہے ۔
الکتاب ، ہمارے پاس ہے،  جس  میں وہ تمام اعمال و افعال موجود ہیں جن کو انجام دینے کا حکم اللہ نے دیا ہے ،یقیناً رسول اللہ نے ایسا ہی کیا  اور اول المسلمین کہلائے ۔
 اِس کے علاوہ کی اُن کے قول و افعال و اعمال  جو الکتاب سے الگ ہیں  اور مختلف کُتُب احادیث  درج ہیں  ہمارے پاس موجود ہیں ۔  جن پر مسلمان اپنے اماموں کے فہم کے مطابق عمل کر رہے ہیں ۔
جیسے نماز میں ، رفع یدین  یا آمین بالجہر ، یا ہاتھوں کا باندھنا  وغیرہ   جنھیں فروعی عمل کہا جاتا ہے جس سے فرقوں  کی پہچان ہوتی ہے ۔لیکن یہ فرق یقیناً کسی بھی مسلمان کوکُفر میں نہیں دھکیلتا ۔ اگر انسان کفر میں دھکیلا جاتا ہے تو اللہ کی آیات پر عمل نہ کرنے سے یا اُن کا مذاق اُڑانے سے ۔  کیوں کہ اللہ نے الکتاب میں ، مکمل احکامات دئیے ہیں
لیکن احادیث میں رسول اللہ نے  اپنے اعمال و افعال کے واضح احکامات نہیں دیئے  بلکہ احادیث بیان کرنے والوں نے بتایا ، کہ وہ ایسا کرتے تھے اور ایسا بھی کرتے تھے !
آپ نے قدغن نہیں لگایا کہ ایسا لازمی کرنا ہے وگرنہ کافر ہوجاؤگے ۔
لہذا ، مختلف احادیث  کے مختلف انداز میں سے کسی ایک پر عمل کرنے سے مسلمان ، اُس پر بیان کی گئی دوسری حدیث کا منکر نہیں ہوتا ۔
قرآنسٹ  ، کا یہ کہنا کہ  اللہ کی آیات پر عمل کرنا نہایت اہم ہے ، جبکہ اُن کے نزدیک احادیث قابلِ اعتبار نہیں ، اُن کی رائے ، اُن کے علم کے اعتبار سے غلط نہیں کہی جاسکتی یا اُنہیں منکرین حدیث نہیں کہا جاسکتا ۔ جیسے ایک حدیث ۔
" مسلمان وہ جس کے ہاتھ  اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں " 
چناچہ اگر وہ محفوظ نہیں رہتے تو لازمی ہے کہ اُس  مسلمان کی  مسلمانی مشکوک ہو گئی ہے ۔جو ہاتھ یا زبان سے تنگ کرتا ہے ۔

تا آنکہ وہ کفارۃ ادا کرے ، اور کفارہ معمولی سا ہے !
بھائی ، آئی ایم سوری !
٭٭٭٭٭ ٭٭٭٭ مزید پڑھیں :٭٭ ٭٭٭٭
بدنصیب پرویز!
مہاجرزادہ کے مذہبی اساتذہ

حسبنا الکتاب اور مذہبی فکری غلام 
کیا منکرینِ حدیث مسلمانوں کی راہنمائی کر سکتے ہیں ؟
کتاب اللہ کیا ہے ؟
الکتاب اور القرآن 
الکتاب  ، ام الکتاب اور متشابھات

آیات اللہ پر انسانی ردِ عمل 
بائبل کس قسم کی کتاب ہے؟



کمپیوٹر سے آیات فوراً   ڈھونڈیں


خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔