قارئین ! "الکتاب" میں اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ اور وہ لوگ جو ان کے مع (ہمراہ) ہیں ان کے بارے میں بتایا :-
مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّـهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّـهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا - (48/29)
محمد الرسول اللہ اور ان کے ساتھی کفار کے ساتھ سخت ہیں اور آپس میں رحم دل تو (انسان) ان کو رکوع اور سجدہ کرنے والوں میں دیکھتا ہے وہ اللہ کا فضل اور رضامندی چاھتے ہیں تو(انسان) ان کے چہروں میں سجدوں کے آثار دیکھے گا۔ یہ مثال ان کی تورات میں ہے اور ان کی مثال انجیل میں ہے کہ جیسے کھیتی نکالے اپنی کونپل، پس قوی کرے اس کو،پس کھڑی ہوجائیں اپنی جڑ کی اوپر، کھیتی لگانے والے کو بھلی دکھائی دیتی ہیں۔اِن کے ساتھ کفار کے لئے غصہ ہے۔ اللہ کا وعدہ ہے ان لوگوں میں سے، جو ایمان لائے اور عمل صالح کئے بخشش اور اجر عظیم کا۔
اوپر کی آیت میں محمد الرسول اللہ اور ان کے ساتھیوں کا آپس میں اور کفار کے ساتھ رویے کا ذکر ہوا ہے۔ اِس سخت رویے کے باعث کفار اور ً محمد الرسول اللہ کے ساتھیوں کی پہچان ہوتی ہے۔ اب اللہ کے مطابق الکفار کون ہیں؟
وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ - ( 5/10)
اور وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کے ساتھ کفر کیا اور جھٹلایا وہی اصحاب الجحیم ہیں
اللہ تعالیٰ نے کتا ب اللہ میں اپنی آیات کے ردعمل پر انسان کی جو خصوصیات ہمیں بتائی ہیں۔وہ، مسلم (مومنین، ھادوا، نصاریٰ، صابیئین، منافقین، کفّار)۔ مشرک اور المجوس ہیں
1- جو اللہ کے علاوہ یا اللہ کے برابر کسی دوسرے کی عبادت کرتے ہیں
اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَـٰهًا وَاحِدًا ۖ لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ - ( 9/31)
انہوں نے اللہ کے بجائے اپنے عالموں، اپنے راھبوں اور المسیح ابن مریم کو اپنے ارباب مان لیا۔انہیں نہیں حکم دیا گیا سوائے اس کے کہ، عبادت کرو صرف واحد اللہ کی اس کے علاوہ کوئی الہہ نہیں وہ سبحان ہے۔ جنھیں (عالموں، اپنے راھبوں اور المسیح ابن مریم) وہ (اللہ کے ساتھ)شریک کرتے ہیں
أَلَا لِلَّـهِ الدِّينُ الْخَالِصُ ۚ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّـهِ زُلْفَىٰ إِنَّ اللَّـهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ - ( 39/3)
آگاہ ہو کہ اللہ کے لئے الدّین خالص ہے اور وہ لوگ جنہوں نے اُس کے علاوہ اولیاء پکڑے (کہتے ہیں) ہم تو ان کی عبادت تو صرف اللہکا قرب حاصل کرنے کے لئے کرتے ہیں۔بے شک اللہ ان کے درمیان جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں حکم کرے گا۔ بے شک اللہ، اُن کی ہدایت نہیں کرتاجو کاذب کفارہے۔
آگاہ ہو کہ اللہ کے لئے الدّین خالص ہے اور وہ لوگ جنہوں نے اُس کے علاوہ اولیاء پکڑے (کہتے ہیں) ہم تو ان کی عبادت تو صرف اللہکا قرب حاصل کرنے کے لئے کرتے ہیں۔بے شک اللہ ان کے درمیان جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں حکم کرے گا۔ بے شک اللہ، اُن کی ہدایت نہیں کرتاجو کاذب کفارہے۔
قُلْ مَن رَّبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ قُلِ اللَّـهُ ۚ قُلْ أَفَاتَّخَذْتُم مِّن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ لَا يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ نَفْعًا وَلَا ضَرًّا ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ أَمْ هَلْ تَسْتَوِي الظُّلُمَاتُ وَالنُّورُ ۗ أَمْ جَعَلُوا لِلَّـهِ شُرَكَاءَ خَلَقُوا كَخَلْقِهِ فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ ۚ قُلِ اللَّـهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ - (13/16)
کہہ کون رب السموات اور الارض ہے۔ کہہ اللہ۔ کہہ کیا تم اس کے علاوہ اولیاء پکڑتے ہو۔ جنہیں ان کے (اپنے)نفسوں پر کوئی نفع یا نقصان پہنچانے کی قوت نہیں۔ کہہ کیا بے بصیرت اور با بصیرت دونوں برابر ہیں؟ یا کیا تم الظلمات اور النور کو برابر کرتے ہو؟۔ یا تم تخلیق میں اللہ کے لئے شرکاء بناتے ہو۔ کہ انہوں نے اُس (اللہ) کی تخلیق کی مشابہ کوئی تخلیق کی ہے۔ کہہ اللہ ہر شئے کا خالق ہے اورواحد اور القھار ہے۔
2- اللہ کے حکم کو منسوخ یا پیچھے ہٹا کر کوئی اور حکم دینا ۔
قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ وَالإِثْمَ وَالْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِکُواْ بِاللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہِ سُلْطَاناً وَأَن تَقُولُواْ عَلَی اللّٰہِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ - (7/33)
کہہ بے شک حرام کیا میرے رب نے الفواحش جو ظاہر ہو اس میں سے، اور جو با طن ہو، او ر اثم ہو، او ر بغاوت جو بغیر حق کے ہو، اور تم اللہ کے سا تھ بغیر سند کے شریک ٹہرا ؤ جو نہیں نازل ہوئی اور تم اللہ کی طرف سے ایسی بات کہو جس کا تمھیں علم نہیں
اللہ نے کسی قسم کے شرک کی سند نازل نہیں کی۔ ان کے بارے میں ہے کہ
إِنَّ اللّٰہَ لاَ یَغْفِرُ أَن یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِکَ لِمَن یَشَاء ُ وَمَن یُشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدِ افْتَرَی إِثْماً عَظِیْماً - ( 4/48)
بے شک اللہ نہیں بخشے گا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹہرایا جائے اس کے علاوہ جو دوسرے ہیں انہیں بخش دے گا اپنی یشاء سے اور جو اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہیں وہ بہت عظیم اثم ! افترا ء کرتے ہیں۔
"مشرک اور مجوس“ کے علاوہ باقی تمام انسان مسلم ہیں کیونکہ انہوں نے اللہ کے سامنے کسی نہ کسی حالت میں سر تسلیم خم کیا ہوا ہے وہ اللہ واحد کو مانتے ہیں مگر اس میں ملاوٹ ہے کیونکہ انہوں نے اس کے ساتھ اولیا ء بنائے ہوئے ہیں اب ہوتا یوں ہے کہ وہ اپنے اپنے خیالات جو من دون اللہ! کا نتیجہ ہیں ان کی وجہ سے مسلم کی مختلف حالتوں، مومنین۔ ھادو۔ نصاری۔ صائبین۔ المجوس۔منافقین اور کفار میں جاتے رہتے ہیں اور بلآخر مشرک ہو جاتے ہیں۔چنانچہ ایسے لوگوں کے درمیان اللہ قیامت کے دن فیصلہ کرے گا۔
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصَّابِئِينَ وَالنَّصَارَىٰ وَالْمَجُوسَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا إِنَّ اللَّـهَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ - ( 22/17)
بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور وہ لوگ جو ھادو ہیں اور وہ لوگ جو صابئین ہیں اور وہ لوگ جو نصاریٰ ہیں اور وہ لوگ جو مجوس ہیں اور وہ لوگ جو شرک کرتے ہیں بے شک اللہ فیصلہ کرے گا ان کے درمیان قیامت کے دن بے شک اللہ ہر چیز پرشہید ہے ۔
اب مجوس اور مشرک کو نکال کر باقی انسانوں سے کہا جارہا ہے کہ:۔
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَىٰ وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ - (2/61)
بے شک وہ لوگ جو ایمان والے ہیں اور وہ لوگ جو ھادو ہیں اور وہ لوگ جو نصاریٰ ہیں اور وہ لوگ جو صابئین ہیں۔ جو بھی اللہ اور الیوم آخرت کے ساتھ ایمان لا یا پس اس کے لئے اس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے اور ان پر خوف نہیں ہے اور وہ غمگین نہیں ہیں۔
بے شک وہ لوگ جو ایمان والے ہیں اور وہ لوگ جو ھادو ہیں اور وہ لوگ جو نصاریٰ ہیں اور وہ لوگ جو صابئین ہیں۔ جو بھی اللہ اور الیوم آخرت کے ساتھ ایمان لا یا پس اس کے لئے اس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے اور ان پر خوف نہیں ہے اور وہ غمگین نہیں ہیں۔
آپ اوپر کی آیت پر غور کریں یہاں وہ لوگ جو ایمان لائے یعنی مومن ان کو بھی وہی کہا جا رہا ہے جوھادو نصاری اور صابئین کو کہا جا رہا ہے یعنی جو بھی اللہ اور الیوم آخرت پر ایمان لائے پس اس کے لئے اس کا اجر اس کے ربّ کے پاس ہے اورخوف غم اس پر نہیں حالانکہ ہمارے خیات کے مطابق ”مومن“ تو”مسلم“کی انتہائی اونچی قسم ہے جبکہ کتاب اللہ کے مطابق”مسلم“ الناس کی سب سے اونچی قسم ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ (3/102)
اے لوگو جو ایمان والے ہیں اللہ سے ڈرو جیسا کہ ڈرنے کا حق ہے اور نہیں آئے تمھیں موت سوائے اس کے کہ تم مسلمان ہو ۔
یہ محمد الرسول اللہ ہمیں بتا رہے ہیں کہ اللہ نے انہیں وحی کی ہے کہ ایمان والوں کو یہ خبر دو کہ: ”اے ایمان والو، تمھیں مرتے وقت مسلمان ہونا چاھئیے! یعنی ایمان والے۔ مومن اور مرتے وقت مسلمان۔
٭۔ حضرت ابراہیم کی دعا
رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ - (2/128)
اے ہمارے رب ہم دونوں کو اپنے لئے مسلمان بنا اور میری ذریت میں سے اپنے لئے مسلمان امت بنا۔ اور ہمیں ہمارے مناسک دکھا۔ اور ہم پر توجہ کر۔ بے شک تو التو ّاب اور الرّحیم ہے۔
کتاب اللہ میں دو سو اٹھاون بار ”یا ایھا الذین آمنوا“ وہ لوگ جو ایمان لائے ! کو مخاطب کر کے اللہ نے ان کو مختلف احکامات دیئے گئے ہیں۔ لوگ اِن احکامات پر عمل نہ کرنے کے لئے مختلف توجیہات تلاش کرتے ہیں۔ نئے مفہوم تلاش کرتے ہیں انہیں موجودہ زمانے میں ناقابلَ عمل قرار دے کر انسانی فتووں کا سہارا لیتے ہیں۔ اِن فتووں کو دلیل، الرسول پر کذب باندھ کر مہیا کرتے ہیں اور اُن لوگوں کے اقوال سے استفادہ کرتے ہیں جو الرسول سے نہیں ملے۔چنانچہ اب ایمان لانے والے، ایمان لانے کے بعد اِن فتووں پر عمل کرتے ہوئے اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہوئے کفر اختیار کرتے ہیں۔
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَّن تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الضَّالُّونَ- (3/90)
بے شک وہ لوگ اپنے ایمان لانے کے بعد کافر ہوئے۔ پھر اُن کے کفر میں زیادتی ہوتی رہی۔اُن کی توبہ قبول نہیں ہو تی۔اور وہ بھٹکنے والوں میں ہیں۔
٭۔ ایمان لانے کے بعد کفر کون سے لوگ کن کے ہاتھوں اختیار کرتے ہیں
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ لَا يَحْزُنكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ مِنَ الَّذِينَ قَالُوا آمَنَّا بِأَفْوَاهِهِمْ وَلَمْ تُؤْمِن قُلُوبُهُمْ ۛ وَمِنَ الَّذِينَ هَادُوا ۛ سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ سَمَّاعُونَ لِقَوْمٍ آخَرِينَ لَمْ يَأْتُوكَ ۖ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ مِن بَعْدِ مَوَاضِعِهِ ۖ يَقُولُونَ إِنْ أُوتِيتُمْ هَـٰذَا فَخُذُوهُ وَإِن لَّمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوا ۚ وَمَن يُرِدِ اللَّـهُ فِتْنَتَهُ فَلَن تَمْلِكَ لَهُ مِنَ اللَّـهِ شَيْئًا ۚ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ لَمْ يُرِدِ اللَّـهُ أَن يُطَهِّرَ قُلُوبَهُمْ ۚ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿5:41﴾ المائدة
اے الرسول غمگین نہ کریں تجھ کو، وہ لوگ جو کفر میں جلدی کرتے ہیں اُن لوگوں میں سے جنہوں نے اپنی افواہوں سے کہا وہ ایمان لائے جبکہ اُن کے دل ایمان نہیں۔ اور وہ لوگ جو ھادومیں سے ہیں جو تیرے پاس نہیں آئے، جھوٹ سنتے ہیں آخر میں آنے والی قوم کے سننے کے لئے اور کلام کو اُس کے موضوع سے بدل ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں اگر تمہیں اس طرح دیا جائے تو پکڑ لو اور اگر اس طرح نہ دیا جائے تو اس سے حذر کرو اور اگر اللہ ارادہ کرے اسے فتنہ (دلفریبی)میں ڈالنے کا تو نہیں تیرے پاس اللہ کی طرف سے کوئی ملکیت نہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے اللہ نے ارادہ نہیں کیا کہ اُن کے قلوب پاک کرے ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں عذاب عظیم۔
یہ کون سے ہادو ہیں جو الرسول کے پاس نہیں آئے۔ دلفریب کذب سن رہے ہیں اگلی قوم کو(الکلام موضوع سے بدلنے کے بعد) سنانے کے لئے،کہ الرسول نے یہ کہا ہے اگر اِس طرح تمھیں دیا جائے تو لے لو ورنہ چھوڑ دو۔ اور الرسول اللہ کو کون لوگ غمگین کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
1۔ جو کفر میں جلدی کرتے ہیں۔
2۔ جو لوگ افواہ اُڑاتے ہیں کہ وہ ”مومن“ ہیں۔ جبکہ اُن کے قلوب میں ایمان نہیں۔
3۔ وہ ھادو (بزمِ خود ہدایت یافتہ)جو الرسول اللہ سے ملے ہی نہیں اور لوگوں سے جھوٹ سنتے ہیں
4۔ جھوٹ کہنے والے ھادو کو بتاتے ہیں کہ الرسول اللہ نے مجھ سے یہ کہا یا میں نے وہی کہا ہے جیسا دوسرے سے سنا جیسا کے اُس نے سنا ۔
5۔ وہ ھادو (بزعمِ خود ہدایت یافتہ) ”الکلام“ کو اُس کیے موضوع سے بدل ڈالتے ہیں (اپنی طرف سے اضافہ کرکے)۔
6۔ وہ ھادو (بزعمِ خود ہدایت یافتہ) اِس بدلے ہوئے اِس کلام کو الرسول اللہ سے منسوب کرکے آگے سناتے ہیں۔
7۔ وہ ھادو (بزعمِ خود ہدایت یافتہ) اُن سے کہتے ہیں جو میں کہہ رہا ہوں وہ تم پکڑو اور اگر کوئی اور تمھیں الرسول اللہ سے منسوب کرکے کوئی بات بتائے اگر وہ میرے کہے ہوئے سے نہیں ملتا تو اُس سے دور رہو۔
قارئین۔ تاریخ کے صفحات الٹئیے۔ آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ ”الرسول کا الکلام“ کس نے سنا، کس نے تبدیل کیا اور کس نے اگلی نسل میں منتقل کیا۔جس کی بنیاد پر ہمارے قوانین ”من دون اللہ“ وجود میں آئے۔ ”من اللہ قوانین“ ، ”الکتاب“ میں درج ہیں۔جن سے متقین کو ہدایت ملتی ہے۔جنھیں ”تنذیر، حکم اللہ، حدود اللہ اور جزا ء اللہ (سزا یا انعام) کہا جاتا ہے۔
اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہی لوگ دوزخ (میں جلنے) والے ہیں
کیسے ؟
الْجَحِيمِ اور النَّارِ اور السَّعِيرِ اور جَهَنَّمُ یہ تین کی جگہیں ہیں جو جَهَنَّمُ کا حصہ ہیں ۔
مختلف اقسام کے اصحاب ہیں ، جن کی سزا کے لئے اللہ نے خود تین نام چنے ہیں، یہ تینوں سزائیں ایک قسم کی نہیں بلکہ الگ اقسام کی ہیں ، جن کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم -
- - -- -
- - -- -
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں