Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعہ، 21 مارچ، 2014

ویلکم سیکنڈ لفٹیننٹ -1


            گاڑی نامعلوم کچی راہوں پر اچھلتی کودتی اپنی منزل کی طرف رواں دوں تھی، اچانک گاڑی  اچھلی ڈرائیور نے  مہارت سے بریک لگائی اور فضا میں  گاڑی کے بے ہنگم شور میں، ڈرائیور کی خوف و ہراس میں ڈوبی ہوئی آواز سنائی دی ” سر قبائلی آگئے“  تین بٹا چار ٹن ڈاج  کے پچھلے حصے میں بیٹھے سیکنڈ لیفٹننٹ قمر کا دل ایک بار زور سے دھڑکا اس نے، لیفٹننٹ نعیم کی ہدایت کے مطابق، گاڑی سے چھلانگ لگائی اور اپنی ٹانگوں کی پوری قوت سے گاڑی کی مخالف سمت میں دوڑتا ہوا رات کی تاریکی میں گم ہو گیا۔ ابھی پندرہ بیس قدم  ہی دوڑا تھا  کی تاریکی میں بڑی بڑی پگڑیاں پہنے اور بندوقیں اٹھائے چار سائے نمودار ہوئے اور دوسرے ہی لمحے،  قمر ان کے مضبوط بازوؤں میں کسی بے بس پنچھی کی طرح پھڑپھڑا رہا تھا۔
            میں ان دنوں ٹل میں تھا،  ماہ اپریل آہستہ آہستہ مئی کی طرف قدم بڑھا رہا تھا،  ایک دن ایجوٹنٹ سے معلوم ہوا کہ ہماری یونٹ میں کاکول سے ایک نیا آفیسر آرہا ہے۔ حسبِ معمول  روایات کے مطابق اسے خوش آمدید کہنا ہے۔ اب ہم سب سر جوڑ کر مختلف ترکیبیں سوچنے لگے۔ لیفٹنٹ اقبال نے تجویز پیش کی کہ کیوں نہ وہ اردلی کاکردار ادا کریں؟ 
ایڈجو ٹنٹ کیپٹن محمود بولے، ”یار اقبال ٹھیک ہے تم اس کردار پر سو فیصد پورے اترتے ہو، یہ کردار پرانا ہو چکا ہے اور مزید اس کی مٹی پلید کرنے کا کوئی فائدہ نہیں
ہر کس ناکس نے کوئی نہ کوئی پلان سوچا جیوری کے سامنے پیش کیا مگر  کوئی بھی عقل کی کسوٹی پر پورا نہ اترتا، 
ہم بھی سوچوں کے سمندر میں غوطہ زن تھے، یکا یک خیالات کی رو بہکی اور نادرالعقول خیال ہمارے ذہن میں آیا اور ہم نے نعرہ  لگایا، ”وہ مارا
کسے؟“ سب زور سے چلائے۔
            شکر ہے کہ ہم آرشمیدس کی طرح غسل نہیں کر رہے تھے، ورنہ شاید معاملہ قابلِ دست اندازی ء  پولیس ہوجاتا۔ ہم نے اپنے ذہن میں جنم لینے والا درِنایاب، نکال کر جیوری کے سامنے لڑھکا دیا، سب کے چہرے خوشی سے گلنار ہو گئے، گویا سمندر میں بھٹکتے ہوئے مسافروں کو جزیرہ نظر آگیا ہو۔ لیکن اس پلان میں صرف ایک قباحت تھی کہ اگر آنے والے، مہمان کو پشتو سے ذرا سی بھی واقفیت ہوئی تو سارے پلان کے سبوتاژ ہونے کا اندیشہ تھا۔ ہمیں جو ڈیوٹی تفویض کی گئی  اس میں مہمان کا استقبال اور باقی آفیسروں سے اسے علیحدہ رکھنے کا انتظام کرنا تھا۔


            وہ  29 ا پریل  1978کی سہانی اور چوٹی سے ایڑی تک پسینہ بہاتی گرم شام کو تقریباً پانچ بجے، ٹل فورٹ کے گیٹ سے اطلاع ملی کہ  سیکنڈ لیفٹننٹ ارشاد قمر تشریف لے آئے ہیں۔  ہم تیار ہو کر، پہلی منزل میں اپنے کمرے سے نیچے اترے،  دیکھا ایک سوزوکی وین سے سامان اتارا جا رہا ہے، ایک چھوٹا سا مگر سمارٹ قسم کا نوجوان کھڑا ہدایت دے رہا ہے۔  ہم نے آگے بڑھ کر اپنا تعارف کروایا۔ 
جواب میں گرمجوشی سے مصافحہ ہوا،
” سر، میں سیکنڈ لیفٹننٹ ارشاد قمر سکنہ واہ  ہوں  آپ  کی یونٹ میں پوسٹ ہوا ہوں، یہ میرے بڑے بھائی ہیں اور مجھے چھوڑنے کے لئے آئے ہیں
 
بڑی خوشی ہوئی آپ دونوں سے مل کر  آئیے تشریف لائیے“ ہم نے بڑے بھائی سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔
 اور انہیں لے کر اپنے کمر ے میں آگئے۔ باتوں باتوں میں معلوم ہوا کہ مہمانان گرامی، کی مادری زبان پنجابی ہے،  ہارون آباد میں تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے سرائیکی بھی بول لیتے ہیں لیکن پشتو ان کے قریب بھی نہیں پھٹکی سوائے، چند پشتو فلموں کی پشتو کے۔ صرف ایک خلش ہمیں پریشان کر رہی تھی کہ ان کے بھائی موصوف، رات ٹل نہ ٹہر جائیں۔ بہرحال جب انہوں نے شام چھ بجے واپس جانے کی اجازت مانگی تو ہمارے دل کا بوجھ ہلکا ہو ا۔
            باتوں، باتوں میں ہم نے سیکنڈ لیفٹننٹ ارشاد قمر کو  ٹل کے گرد و نواح کی فرضی بھیانک تصویر، دردناک انداز، بیاں کے ساتھ پیش کی، تاکہ آئیندہ  وقوع پذیر ہونے والے واقعات میں حقیقی رنگ بھرا جاسکے، ابھی ہم نے اپنا بیان ختم نہیں کیا تھا کہ، فیلڈ ٹیلیفون کرخت انداز میں چنگھاڑا،
 یس لیفٹنٹ نعیم“۔ہم نے جواب دیا
 دوسری طرف کیپٹن محمود تھے۔ انہوں نے پوچھا کہ پلان کے لئے  وقت آٹھ بجے مناسب رہے گا، ہم نے کہا بالکل ٹھیک لیکن اس میں، کچھ گنجائش ضرور رکھیں، انہوں نے ٹیلیفون بند کر دیا لیکن ہم  ارشاد قمر  کو مرعوب کرنے کے لئے ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد فون رکھ دیا۔ ”سر،  کس کا فون تھا؟‘‘  ارشاد قمر  نے پوچھا،
 ہمیں اسی سوال کی توقع تھی، جواب دیا، ”ایڈجو ٹنٹ  کا پاڑا چنار سے فون تھا، انہون نے کہا ہے کہ میں تمھیں لے کر پاڑا چنار آجاؤں، باقی آفیسرز بھی وہیں ہیں، کل صبح ٹیکٹیکل  ایکسر سائز   بغیر ٹروپس   ہے یعنی    TEWT
            ہم نے  پلان کے مطابق  ٹیلیفون پر احکامات صادر کرنے شروع کر دئے، ایک عدد  تین بٹا چار ٹن ڈاج ، بمع گارڈ اپنے ڈیرے پر حاضر کرنے کا حکم دیا،  پندرہ منٹ بعد ڈاج ہمارے کمرے کے سامنے تھی، ہم نے گارڈ حوالدار کو بلایا،
 اس نے رپورٹ دی،”سر کوت بند ہوگئے ہیں لہذا کوت انچارج نے ہتھیار نہیں دیئے

            یہ سننا تھا کہ ہمارے خون نے جوش مارا گرجتی ہوئی آواز میں کوت انچارج کو حاضر ہونے کا حکم دیا، پانچ منٹ بعد کوت انچارج ہمارے کمرے کے باہر حاضر تھا، ہم باہر نکلے اور کوت انچارج کو بے نقط سنائیں، کہ وہ ہتھیار کیوں نہیں دے رہا، اگر راستے میں فوج کے دو مایہ ناز آفیسروں کو اغواء کرلیا تو کون ذمہ دار ہوگا؟  یہ اور بات کہ ہماری ڈانٹ کے دوران کوت انچارج کی بتیسی جھانکتی رہی۔ وہ بھی اس گیم پلان کا حصہ تھے، خیر ہم بکتے جھکتے، کمرے میں داخل ہوئے۔ تاکہ ارشاد قمر پر کچھ رعب پڑے،، اور اسے تیار ہونے کا حکم دیا۔  ہاں ہم یہ بتانا تو بھول گئے، ہمارا ایک ضمنی پلان بھی تھا اور وہ بیٹ میں والا پلان تھا، یونٹ کی ایک سمارٹ جوان” او سی یو  نزاکت“کو ہم نے ارشاد قمر کا بیٹ میں بنایا تھا، جس نے اس سے، بالٹی، لوٹا، مگا، ڈسٹ بن، کریسٹ کلیرینس کارڈ، لاسٹ راشن سرٹیفکیٹ،  ایمنگ سرکل اور نجانے کیا کیا  خریدنے کی آڑ میں کوئی تین چار سو روپے ہتھیا کر، ایجوٹنٹ کو دئیے،  نزاکت کو سمجھایا تھا کہاں اور کس وقت اس نے انگلش کے لفظ بولنے ہیں، تاکہ ارشاد قمر،ہمارے اس  ''پلان  نمبر دو'' کے دام میں آجائے  اور   ''میجر پلان''  پر اسے شبہ نہ ہو۔
            ہم دونوں تیار ہو کر باہر آئے، میں گاڑی میں آگے بیٹھا، قمر اور تین جوان، جو این سی اوز تھے، گاڑی میں پیچھے بیٹھے، گاڑی قلعے سے نکلی اور ہم وادی ء ٹل کی پرپیچ راہوں سے گذرتے دریائے کرم کی خشک گذرگاہ میں داخل ہوئے۔ یہاں ہم نے گاڑی رکوائی اور ارشاد قمر کو بتایا، کہ ہم اب  سے گذریں گے، لہذا ہوشیار ہو کر بیٹھیں،  No Man's Land  اس پلان میں    No Man's Land ہمارا فی البدیہہ اضافہ تھا، ہمیں معلوم تھا کہ ارشاد قمر نے  کاکول میں اس اصطلاح کے بارے میں کئی بار پڑھا  ہے، ہماری پوری کوشش تھی، کہ ہمارے پلان، جس کے سٹوری رائٹر (ذہن میں)،  مکالمہ نگار،  ڈائرکٹر ، پیش کار اور تقسیم کا ر، ہم خود ہیں  میں کوئی جھول نہ آنے پائے۔ جب  تاریک رات میں ہماری گاڑی ٹل فورٹ  چھاؤنی کے جنوب مشرقی گرد لمبا چکر کاٹ کر، شمال میں اس مقام پر  کے نزدیک پہنچنے والی تھی، جہاں سے یہ المیہ شروع ہونا تھا،  تو میں اور ڈرائیور الرٹ ہو گئی، ہمارا پہلا نشان نظر آیا، یہ ایک جھاڑی پر، سفید کپڑا تھا  جہاں چار آفیسر چادر لئے بیٹھے تھے، تاکہ  ارشاد قمر یہاں سے بھاگ کر رات کی تاریکی میں بھٹک نہ جائے، اس کے بیس گز بعد گاڑی اس جگہ پہنچی جہاں پتھر ڈال کر سڑک کو بند کردیا تھا، گاڑی کو پتھروں سے جھٹکا لگتے ہی ڈرائیور گاڑی روک  کر ''   قبائلی آگئے''     کا شور مچاتا ہوا اتر کر  دوسری طرف جھاڑیوں میں چھپ گیا، 
ہم نے نعرہ مارا، ''ارشاد قمر  بھاگو''   اور اتر کر گاڑی کے نیچے پناہ لی، ارشاد قمر نے ایک زقند لگائی اور جس سمت سے گاڑی آئی تھی اس سمت پر دوڑتے ہوئے پکڑا گیا۔
           
              تھوڑی دیر بعد ملیشیا ء شلوار قمیض میں ملبوس (ٹل سکاوٹس سے ادھاری مانگی ہوئی)چار آفیسر اس کے سر پر چادر ڈالے دونوں ہاتھ پیچھے باندھے اسے لا رہے تھے، جب  یہ تھوڑا آگے نکلے تو ہم بھی گاڑی کے نیچے سے نکل کر  کپڑے جھاڑتے اٹھے اور خود کو گرفتاری کے لئے پیش کردیا۔ ہماری منزل کوہاٹ پکٹ کے مشرق میں، رابرٹ سپرنگ کے پاس بنے ہوئے،'' سیکنڈ افغان وار ''کے بنکروں میں تھی، جہاں ایک بنکر کو اس طرح تیار کیا گیاتھا کہ وہ قبائلیوں کا ڈیرہ دکھائی دے، زمین پر کمبل بچھا کر اس پر قالین ڈالا گیا تھا جس پر گاؤ تکیے رکھے تھے ایک کونے میں آگ جل رہی تھی جس پر چائے کی کینٹین سے ادھار مانگی کالی کیتلی  چڑھی ہوئی تھی، بنکر کے باہر، دو قبائلی، کیپٹن رضا اور لیفٹنٹ حسنین،  بارہ بور  اور ائر گن اٹھائے پہرہ دے رہے تھے،  ٹل سکاؤٹس سے مانگے ہوئے دو گھوڑے اور ایک بکری بمع اپنے بچوں کے ساتھ کھڑی ممیا رہی تھی۔ بنکر کے اندر، کیپٹن ضیاء سردار کا روپ دھارے،قالین پر  گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے، کیپٹن سلیم، کوارٹر ماسٹر سی ایم ایچ ٹل،  سردار کے ترجمان تھے۔  لیفٹنٹ اقبال، چائے کی کیتلی کے پاس ہاتھ میں گھاس کاٹنے کا چھرا  لئے، قبائلی سے زیادہ کسی کاسٹیوم فلم کے جلاد نظر آرہا تھا ، ان کے اس ہتھیار کی کرم نوازی زیادہ تر خادم پر تھی، جس کی  آڑی چوٹ اچھی خاصی آواز نکال کر لیفٹنٹ اقبال کو روحانی سرور پہنچاتی، اور ان کے سرور کے کو دوبالا کرنے کے لئے ہمیں، کراہیں نکالنی پڑتیں، کیوں کہ وہاں پشتو زبان کا کچھ اس طرح استعمال کیا جارہا تھا، کہ پیٹ سے بے تحاشا قہقوں کا طوفان اٹھتا،  ایڈجو ٹنٹ کیپٹن محمود حسین شاہ، ٹھیٹھ پنجابی زبان میں پشتو کی مٹی پلید کر رہے تھے، کیپٹن سلیم جوش خطابت ِ ترجمانی میں سیکنڈ لیفٹنٹ ارشاد قمر کو انگریزی میں ڈانٹ چکے تھے۔ یہ اور بات کی حواس باختگی میں ارشاد قمر نے، اَن پڑھ قبائلیوں کی انگریزی دانی پر غور نہیں کیا، ویسے سیکنڈ لیفٹنٹ ارشاد قمر کی ہمت کی داد نہ دینا صریحاً  زیادتی ہوگی، کیوں کہ اتنے نامساعد حالات میں اُس نے بدحواسی کامظاہرہ  نہیں کیا، بلکہ سوچ سمجھ کر اس نے قبائلیوں کو اپنی دانست میں بہکا دیا تھا، قبائلیوں کی گرفت میں آنے سے پہلے ارشاد قمر نے اپنی دو سالہ جد دجہد کا ثمر  سیکنڈ لفٹینی کے دونوں پھول اتار کر پھینک دیئے تھے  اور خود کو پاکستان سگنل کا جوان ظاہر کیا جو ہمارے ساتھ  لفٹ لے کر پاڑا  چنار جا رہا تھا۔
            قبائلیوں کے ایک فقرے، ”دا افسر دے او دا کافر دے“ پر اس نے انہیں یقین دلایا کہ وہ سو فیصدی مسلمان ہے، یہی نہیں بلکہ اس نے پورے چھ کلمے  بمع نام، دعائے قنوت  اور آیت الکرسی  انہیں سنا دئے، اور اپنا شجرہ نسب افغانیوں سے جوڑا، جب پوچھا کہ کیا پشتو آتی ہے تو بتا یا کہ اس کے دادا جلال آباد سے ہجرت کر کے بہاولنگر آگئے تھے، اس لئے   پشتو نہیں آتی، یہ سننا تھا کہ کیپٹن سلیم نے میرے کان میں کہا یار نعیم اسے سرائیکیوں کے ہاتھ اغوا کروانا تھا تاکہ وہ  اس سے سرائیکی بولنے کا مزہ لیتے۔ آخر قبائلیوں کو یقین دلانے کے لئے اس نے عشاء کی نماز بنکر کے ساتھ ، چھوٹے حصے میں پڑھنے کی اجازت مانگی  جس کی اجازت سردار نے دے دی۔ ارشاد قمر تو خیر نماز کی آڑ میں جان بچا گیا، مگر قبائلی جلاد کا چُھراہر منٹ کے بعد ہماری کمر پر پڑتا،لیفٹنٹ اقبال کے جونئیر ہم تھے، چنانچہ لیفٹنٹ اقبال نے، حقیقت کا رنگ بھرنے کی آڑ میں اپنی تمام حسرتیں ہم پر پوری کیں یوں لگتا تھا کہ ارشاد قمر کا نہیں بلکہ ہمارا شاندار استقبال کیا جا رہا ہے۔  ارشاد قمر کی نماز کے دوران سب نے بنکر خالی کردیا اور چیزیں اٹھا لیں۔ مجھے ہاتھ پاؤں باندھ کر ڈال دیا،  چھوٹے حصے کے دروازے میں ارشاد قمر کے پیچھے ڈال دیا  ، صرف ہم دونوں رہ گئے۔  جب دعاؤں کا مرحلہ آیا تو ہم قہقہوں کے طوفان کو بڑی مشکل سے قابو کر رہے تھے۔
دعا کے بعد  ارشاد قمر نے کپکپاتی آواز میں پوچھا، ”سر، یہ جان سے تو نہیں مار دیتے؟"
 
 

1 تبصرہ:

  1. بہت اعلیٰ تحریر پڑھ کر مزہ آیا ۔۔۔ ایک ہی نشست میں بغیر پلک چھپکائے پڑھی
    یہ انسان کی یادیں جیسی بھی ہوں پرلطف اور یادگار ہوتی ہیں ۔۔۔ ان سے آنے والے دور کے لوگ ( نئی نسل ) بہت کچھ سیکھ سکتی ہے

    جواب دیںحذف کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔