کسی
دوست نے بالا تحریر مجھے شئیر کی ۔ میں اسے پڑھ کر سوچتا رہا ، اور پھر جواباً اپنے خیالات
کا اظہار کیا ۔ آپ بھی پڑھئیے ۔
کاش ۔بیٹی ، آلو ہوتی یا انڈا !
وہ تو
گوشت پوست کی بنی ہوئی اسی انسان کی طرح ایک مخلوق ہوتی ہے ،جسے اس جیسے لوگوں میں
اپنا وقت گذارنا ہوتا ہے۔
یا کاش اللہ اسے آلویا انڈے کی طرح دماغ ہی نہ دیتا ۔
تاکہ اس میں کوئی سوچنے ، سمجھنے اور تجزیہ کرنے والا ذہن ہی نہیں بنتا :۔
٭- تاکہ وہ،ایک صرف ایک جنسی مخلوق ہوتی ۔شوہر کو خوش کرنے کے لئے، یا
٭- ایک ملازمہ ہوتی ، گھر کا کام کرنے کے لئے ، یا
٭ - ایک باندھی ہوتی تاکہ وہ صرف بندھی ہوتی بچوں کو پالنے کے لئے ، یا
٭ - یاکاش ، باپ اسے زیور تعلیم سے آراستہ ہی نہ کرتا ۔یا
٭- بارہ سال کی عمر میں شادی کردیتا تا کہ وہ آلوبن جاتی یا انڈا
یا کاش اللہ اسے آلویا انڈے کی طرح دماغ ہی نہ دیتا ۔
تاکہ اس میں کوئی سوچنے ، سمجھنے اور تجزیہ کرنے والا ذہن ہی نہیں بنتا :۔
٭- تاکہ وہ،ایک صرف ایک جنسی مخلوق ہوتی ۔شوہر کو خوش کرنے کے لئے، یا
٭- ایک ملازمہ ہوتی ، گھر کا کام کرنے کے لئے ، یا
٭ - ایک باندھی ہوتی تاکہ وہ صرف بندھی ہوتی بچوں کو پالنے کے لئے ، یا
٭ - یاکاش ، باپ اسے زیور تعلیم سے آراستہ ہی نہ کرتا ۔یا
٭- بارہ سال کی عمر میں شادی کردیتا تا کہ وہ آلوبن جاتی یا انڈا
جیسے ہماری مائیں تھیں یا آج کل کے بچوں کی دادیاں یا پر دادیاں
یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
جواب دیںحذف کریںاس کہانی میں ایک بڑا گہرا پیغام ھے۔ جب دو انسان جو مختلف ماحول سے اپنی اپنی شخصیت کی اُٹھان لئے ھوئے ایک نئے تعلق میں بندھ جاتے ھیں تو وہ وقت اور حالات کی حدت سے گذرتے ھیں ان میں کوئی انڈہ ھوتا ھے اور کوئی آلو ۔ اپنے اپنے ادراک میں اپنی اپنی شخصیت میں تو انکو ڈھلنا پڑتا ھے۔ مرد ھو یا عورت۔ جو اپنے آپ کو اس نئے ماحول میں ڈھال لیتے ھیں وہ اس تعلق میں زندگی کی رعنائیاں اور تعلق کی مضبوطی پیدا کر لیتے ھیں۔ اور جو نہیں کر پاتے وہ جلد یا بدیر ٹوٹ پھوٹ جاتے ھیں۔
جواب دیںحذف کریں