Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

بدھ، 29 اپریل، 2015

واین دفتر بی‌معنی غرق می ناب اولی


این خرقہ کہ من دارم، در دہن شراب اولی
 واین دفتر بی‌معنی، غرق می ناب اولی


چون عمر تبہ کردم، چندان کہ نگہ کردم
در کنج خراباتی، افتاده خراب اولی


چون مصلحت اندیشی، دور است ز درویشی
 ہم سینہ پر از آتش، ہم دیده پرآب اولی


من حالت زاہد را، با خلق نخواہم گفت
این قصہ اگر گویم، با چنگ و رباب اولی


تا بی سر و پا باشد، اوضاع فلک زین دست
در سر ہوس ساقی، در دست شراب اولی


از ہمچو تو دلداری، دل برنکنم آری
چون تاب کشم باری، زآن زلف بہ تاب اولی


چون پیر شدی حافظ، از میکده بیرون آی
رندی و ہوسناکی، درعہد شباب اولی



نمّو کا جرمنی کا سفر


   یہ 1970  مئی کی بات ہے، میٹرک کے امتحان ہو چکے تھے ، گھر والے سارے کوئٹہ میں تھے اور میں میرپورخاص میں ، کہ  تقریباً دس بجے، ہمیں کراچی سے میرپور خاص گھر کے پتے پر  ایک رجسٹرڈ  خط ملا  جو ڈاکیئے نے ہمارے دستخط   لینے کہ بعد دیا  ۔
  قارئین! یہ یہ خوفناک خط ملتے ہی ہمارے حواس نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا، ہم کوئٹہ کی طرف بھاگے  اور کوئٹہ پہنچ کر دم لیا،
یہ داستان پڑھئیے : رنگروٹ سے آفیسر تک ،
کوئٹہ میں آکر دوستوں سے معلوم ہوا ، کہ  کبیر ، اسلم اور جبّار ، جرمنی جانے کا پروگرام بنا رہے ہیں ، جبّار  کوئٹہ کا  چنگیزی (ہزارہ ) تھا ، کبیر بروہی اور اسلم فیصل آباد کا رہنے والا پنجابی تھا ، پروگرام یہ تھا کہ بدھ کو جانے والی زاہدان ٹرین پر  زاہدان جائیں گے ۔ ٹکٹ کی ضرورت نہیں ، کبیر نے بتایا کہ اُس کا چچا ، گارڈ ہے ، وہ ہمیں  اپنے ڈبے میں مُفت لے جائے گا ۔جہاں سے تہران ، تہران جاکر ہم ، سفارت خانے میں جاکر بتائیں گے کہ ہمارے پاسپورٹ بیگ سمیت چوری ہو گئے ہیں ۔ تو وہ ہمیں پاسپورٹ بنا دیں گے ۔پاکستان میں پاسپورٹ بنوانا مشکل ہے ، جبکہ تہران سے 100 روپے میں پاسپورٹ بن جائیں گے، وہاں سے ہم ترکی سے ہوتے ہوئے جرمنی جائیں گے ۔جہاں اچھی ملازمت مل جاتی ہے ۔ زیادہ پیسوں کی ضرورت نہیں  بس جیب میں 300 روپے ہونا چاہیئں ۔ باقی ہم راستے میں کما کر آگے بڑھیں گے ، اور اگر ترکی یا بلغاریہ میں اچھے نوکری مل گئی تو تم لوگ وہاں رہ جانا ، جبّار جرمنی جائے گا کیوں کہ اُس کا بھائی وہاں  چار سال سے ہے ۔
پیسے کیسے جمع کئے جائیں ؟
اُس کا حل بھی جبّا ر ہی نے تجویز کیا ، کہ فروٹ مارکیٹ میں مزدوری کریں گے، وہاں سے جورقم ملے گی وہ جمع کریں گے کیوں والدین نے تو دینا نہیں ۔ کوئٹہ فروٹ مارکیٹ  میں پورے دن کی مزدوری ، بمشکل پانچ روپے ملا کرتی تھی ۔ مجھے ٹائیپنگ آتی تھی جو میں نے میرپورخاص میں سیکھی ۔ کسی آفس میں 100 روپے  مہینہ کام کرنے کے مل جاتے تھے ، شارٹ ہینڈ آتا ہو تو 150 روپے کی نوکری آسانی سے مل جاتی تھی  ، مجھے سائیکل ٹھیک کرنا اور کلاک ٹھیک کرنا بھی آتا تھا  ، لیکن یہ 75 روپے مہینہ کی بمشکل ملازمت ملتی تھی ۔
چنانچہ ، پیسے جمع کرنے کے لئے، ایمپلائیمنٹ ایکسچینج کے آفس میں ، کبیر ، اسلم اور میں گئے ، وہاں نام لکھوایا ۔ ہفتہ بعد آنے کا کہا ، اتنے دن ہم تینوں نے ، ٹرکوں سے کریٹ اتارنے وار چڑھانے کا کام کیا ۔پہلے دن 5 روپے کمائے تو خوشی کا حال یہ کہ پاؤں زمین پر نہیں پڑتا تھا ۔ جوانی تھی تھکن کا بالکل احساس نہیں تھا ، 15 روپے کما کر تیسرے دن تینوں ، ایمپلائیمنٹ ایکسچینج گئے ۔ وہاں سے ہم تینوں کو  کوئٹہ ایکسچینج میں 50  روپے ماہانہ ملازمت کا  لیٹر تھما دیا ،
صرف 50 روپے مہینہ ،ہم تینوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ۔صبح  7 بجے سےدوپہر 2 بجے تک  ایکسچینج آپریٹر کی ملازمت تھی۔ 
تینوں ، ایکسچینج گئے وہاں گیٹ والے کو لیٹر دکھایا اُس نے اندر جانے کی اجازت دی، ریسیپشن پر پہنچے وہاں موجود ادھیڑ عمر  آدمی نے پوچھا ، "زوئے ،  نوکری کے لئے آئے ہوَ؟"
" جی، ہم تینوں نے جواب دیا
ہم نے اپنے لیٹر اُس کی طرف بڑھائے ،" زوئے ، اِسے اپنے پاس رکھو" وہ بولا ۔ " گل خان ، اوئے گل خان ، انہیں ایڈمن کے آفس لے جاؤ
  " زوئے ، تم لوگ ادر آجاؤ " گل خان ایک دروازے سے گردن نکال کر بولا ، ہم گل خان کے پاس گئے ۔
،"
زوئے  تم وہ بالٹی لاؤ " گل خان نے مجھے حکم دیتے ہوئے کہا
" تم  زوئے ، وہ کپڑا لاؤ " گل خان نے کبیر کو کہا ۔
" تم وہ جاڑو اٹھاؤ "
گل خان نے کبیر کو کہا ۔  " اور امارے پیچھے آؤ  " 
ہم تینوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ، آنکھوں میں ایک دوسرے کو اشارہ کیا  اور وہیں کھڑے رہے ۔
" ام یہاں بھنگی بننے نہیں آیا لالہ " کبیر نے گل خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔
" زوئے ، پہلے سب یہاں بھنگی بنتا ہے ، پھر آگے بڑھتا ہے " گُل خان بولا ۔
" میں گھر جارہا ہوں " میں نے اعلان کیا  اور ریسیپشن کے پاس سے گذرتے ہوئےداخلی دروازے سے باہر نکل گیا ۔ پیچھے مُڑ کر دیکھا تو، کبیر اور اسلم بھی ساتھ تھے ۔
ہم نے کوئی اور کام کرنے کے بجائے  ، فروٹ منڈی میں وزن اٹھانا زیادہ مناسب سمجھا ۔
 قصہ مختصر  ، جولائی کے پہلے ہفتے  ہم جانے کے لئے تیار تھے ۔ زاہدان ایکسپریس بدھ کو کوئٹہ سے چلتی تھی  اور نوشکی اور  دالبدین  سے گذرتی  جمعرات  کی شام تفتان پہنچتی لیکن اکثر راستے میں پٹریوں پر ریت آجانے کی وجہ سے  لیٹ ہو جاتی ، پٹریوں سے ریت ہٹانا  بھی مسافروں کا کام تھا جو مُفتے میں سفر کرتے تھے ۔
ہم چاروں دوست ، ریلوے سٹیشن پہنچے وہاں دو اور ابنِ بطوطہ مل گئے جو 
جبّار    کے  تعلق سے جرمنی جانے کے لئے آئے تھے ، اُن میں ایک  ذرا عمر والا کاکڑ  تھا کوئی  22 سال کا ، وہ خود بخود ہمارا لیڈر بن گیا ۔ گارڈ کے ڈبے میں بیٹھے  اپنے اپنے سپنوں میں گرفتار روانہ ءِ سفر تھے ۔
مجھے امی  یاد آرہی تھیں ، کہ جب اُنہیں معلوم ہوگا کہ اُن کا نمّو بتائے بغیر کہیں چلا گیا ،تو اُن کا کیا حال ہوگا ، کبیر کا بھی یہی حال تھا ، اسلم نے اپنے بڑے بھائی کو بتایا تھا ۔
جبّار  نے حوصلہ دیا کہ  بدھ کو ہم تہران میں ہوں گے جب پاسپورٹ مل جائیں تو گھر خط لکھ دینا ، اُن دنوں فورٹ  سنڈیمن میں  میرے ماموں زاد بھائی ریلوے میں ہوتے تھے ۔ ایک دفعہ میں اور چھوٹا بھائی ، اُن کے ساتھ فورٹ سنڈیمن گئے تھے رات وہاں رہ کر صبح کی ٹرین سے واپس آگئے تھے کیوں کہ وہاں دیکھنے کی کوئی چیز نہیں تھی ۔ میری بڑی بہن بھی کوئٹہ میں رہتی تھی  ، کبھی رات کو اُس کے ہاں بھی ٹہر جاتے ، ہفتہ تو نہیں تین یا چار دن  کے بعد ہماری تلاش شروع ہوتی ۔
تفتان ٹرین کا آخری سٹیشن تھا  جہاں کاغذات دیکھے جاتے ، جن کے پاس کاغذات نہ ہوتے تو اٗنہیں عارضی زاہدان تک جانے کا  پروانہ دے دیا جاتا ، ہمیں پروانہ حاصل کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئی ،
کبیر کے چچا نے بہت مدد کی ویسے بھی وہ سلیمان بھائی سے واقف تھے ۔اُنہیں  بھی یہی بتایا  کہ زاہدان دیکھنے جا رہے ہیں، جمعہ کی شام  ہم زاہدان پہنچ گئے ۔ کبیر کے چچا نے ہدایت دی کہ مسافرخانے میں رات کو سونا ،  اب اتوار کی صبح ٹرین  واپس جائے گی ۔ زاہدان کا سٹیشن زیادہ بڑا نہیں تھا -زاہدان سے تہران تک کا سفر ہمیں  مال برداری ٹرکوں پر کرنا تھا ، ٹرین میں پاسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے نہیں کر سکتے  تھے ، پروگرام یہ بنا کہ رات پلیٹ فارم پر گذار کر صبح  تہران کے لئے روانہ ہوں گے ۔
صبح اُٹھے تو معلوم ہوا  کہ کاکڑ کے ساتھ جو لڑکا تھا ، اُس کی کسی نے جیب کاٹ لی، گو کہ اُن کا ہم چاروں سے کوئی تعلق نہ تھا لیکن وہ جبّار کے جاننے والے تھے لہذا اُس کی کیسے مدد  ہو ؟  کاکڑ اور جبّار نے فیصلہ کیا کہ ہم ، زاہدان فروٹ منڈی میں مزدوری کرتے ہیں اور جو پیسے ملیں ، اُس لڑکے کو تہران تک کے سفر کے لئے دیں گے ۔ میں ، کبیر اور اسلم  اِس ہمدردی کے پروگرام سے متفق نہ تھے ، جبّار نے  اسلم کو شرم دلائی تو وہ نیم راضی ہو گیا ، ہم دونوں نہیں ہوئے ، کیوں کہ گروپ ہم چار کا تھا اور یہی طے ہوا تھا کی مصیبت میں ایک دوسرے کی مدد کریں گے ۔ خیر ہمارا لیڈر جبّار تھا ، ہم اُس کے ساتھ سبزی منڈی گئے ، وہاں کاکڑ نے ایک ٹرک والے سے بات کی اور پھل  لوڈکرنے کا معاہدہ  کیا ، لیکن بجائے کہ ٹرک والا پیسے ہم سب کو الگ الگ دے ۔ اُس نے خود لینے کا کہا ، جس پر کبیر بپھر گیا کہ ہمارے کام کے پیسے ہمیں ملیں گے تم کیوں لو گے ؟ اُس نے کبیر کا گریبان پکڑ لیا  ، بڑی مشکل سے معاملہ رفع دفع کروایا ۔کبیر نے کہا ،" نعیم میں نے آگے نہیں جانا ،  چھوڑو اِن کو واپس چلتے ہیں "
میں اور اسلم اُس کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے رہے - لیکن وہ نہ مانا ۔اُس کی منطق تھی کہ ہم اُس کے دوست کا تاوان کیوں بھریں ؟   یہ آگے ہمیں اور تنگ کرے گا اور جبّار اُس کا ساتھ دے رہا ہے ۔
کبیر  اور اسلم میرے محلّے دار تھے  ، اُس کا ساتھ دینا  ضروری تھا ۔ ہم تینوں نے جبّار سے بات کی ، اُس سمجھایا کہ اِن کا ساتھ چھوڑ دو ، ہم چاروں ساتھ رہیں گے ، کوئی مصیبت آئی تو آپ میں مدد کریں گے ، جبّار  نے اُنہیں بھی ساتھ  رکھنے پر زور دیا  ، تو کبیر اور میں پیچھے ہٹ گئے اور واپس جانے کا پروگرام بنا لیا ۔ اسلم  اور جبّار محلےے دار تھے ، اُنہوں نے آگے جانے کا پروگرام بنایا ، کبیر اور میں نے واپس جانے کا ۔ فروٹ منڈی سے کوئٹہ  کی طرف ٹرک جاتے رہتے تھے ، ہم دونوں نے بجائے زاہدان ٹہرنے کے تفتان ٹہرنے کا پروگرام بنایا  جو یہاں سے سو کلومیٹر دور تھا  اور ایک ٹرک ڈرائیور سے بات کی اُس نے  5 روپے لے کر ہمیں تفتان پہنچانے کا ذمہ لے لیا ہم شام تین بجے واپس تفتان بارڈر پر پہنچ کر ٹرک سے اترے ، کسٹم پوسٹ پہنچے وہاں کبیر کو اُس  کا ایک رشتہ دار ملا جو کسٹم میں سپاہی تھا ، اُس نے خوب آؤ بھگت کی ، جب اُس نے سنا کہ ہم جرمنی جانے کا پروگرام کینسل کر کے واپس جارہے ہیں تو اُس نے افسوس ظاہر کیا ، کہ وہاں جاؤ ، بہت پیسہ ہے ۔اُس وقت ڈالر 4 روپے کا تھا ۔ مگر ہم دونوں نے ڈالر کمانے کا پروگرام کینسل کر دیا تھا ، اُس نے اُسی ٹرک پر ہمیں ، مُفت کوئٹہ کے لئے بٹھا دیا ، اتوار کی شام ہم دونوں کوئٹہ پہنچ گئے ۔ میں بہن کے گھر چلا گیا ۔ اُسے بتایا کہ میں کبیر کے ساتھ گھومنے، امّی کو بتائے بغیر زاہدان گیا تھا ، امّی کو مت بتانا ، وہ پوچھیں تو کہنا تمھارے پاس تھا ۔

پلیگیار ازم

Plagiarism

فیس بک ، بلاگنگ اور دیگر کمپیوٹری سوشل میڈیا ذرائع میں ، "پلیگیار ازم" کی کوئی وقعت نہیں ، یہاں کوئی کتابی مقابلہ نہیں ، اور نہ ہی خود کو لکھاری کے طور پر منوانا ہوتا ہے ۔
بس ایک تحریر ، مقالہ یا مضمون کسی کو پسند آیا کٹ پیسٹ کیا اور چھاپ دیا ۔ اگر یہ بات ہوتا تو " وکی پیڈیا اور وکی میڈیا " سب سے پہلے اِس کی زد میں آتا ہے ۔
لہذالکھاری حضرات دل پر نہ لیں اگر پہلے سے پڑھی ہوئی کوئی تحریر نظروں سے گذری ہے تو نہ پڑھیں ۔ تو بہتر ہے ۔
،
میں نے سب سے پہلے لکھنا یوں شروع کیا کہ پہلے سے لکھی ہوئی بچوں کی کہانیاں بچوں کے صفحے میں لکھ کر بھیجا کرتا تھا چھپ جاتی تو خوش ہوتا ۔
کچھ اپنی طرف سے کہانیاں بھی لکھیں لیکن انہیں اخبار والوں کی طرف سے زیادہ پذیرائی نہیں ملی ۔

بلوغت میں احساس ہوا ، کہ سب سے زیادہ پذیرائی اُن کہانیوں کو ملتی ہیں جو اپنے یا دوسروں کے واقعات کو مزاحیہ انداز میں بیان کرنا ، یا جھوٹے افسانے لکھنا ۔ اور یہ لکھاری کو لکھتے لکھتے آتا ہے ۔
'
اسی لئے بہت سے احباب سوشل میڈیاپر،  خبروں کا  بین الاقوامی ایجادات کا یا کوئی اور بلاگ نکال کر اپنے اندر چھپا ہوا ، وہ معصوم مصنف باہر نکالنے کی کوشش کرتے ہیں جنھیں ایڈیٹروں یا جاہل رسائل و جرائد کے مالکان نے نکلنے نہیں دیا ۔
میں ایسی تمام کوششوں کے خلاف ہوں یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنے بلاگ کے آخر میں یہ لکھا ہے
 :
" ، اک نظرِ کرم اِدھر بھی مہربان، خیال رہے کسی لفظ یا جملہ حقوق محفوظ نہیں !"

جرمنی کا ایٹم بم ، جو امریکہ نے چوری کیا "پلیگیار ازم"ہو سکتا ہے ۔ چین کی تمام ایجادات کی فوٹو کاپی بھی اگر آپ "پلیگیار ازم" میں ڈال دیں ، تو آپ یہودی نظام معاشیات کو سپورٹ کریں گے ۔ جہاں صرف " ونڈوز " کی حکومت ہوگی ۔
میری رائے میں انسان کی زُبان سے ادا کئے گئے الفاظ اگر وہی دوسرے کی زُبان سے ادا ہوں تو وہ نقالی نہیں کہلائے جاسکتے ۔ بلکہ وہ زبانی تعلیم کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ اگر وہی الفاظ دوسرا انسان اپنے انداز میں ادا کرے تو وہ پلگیار ازم کیسے کہلایا جاسکتا ہے ۔ 
یوں سمجھیں کہ ایک دوست پھولوں کا ایک گلدستہ اپنی ذھانت کے مطابق مجھے دیتا ہے ، میں اُسے اپنی ذہانت کے مطابق ارینج کرتا ہوں ، تو کیا میری یہ کوشش پلگیار ازم کہلائے گی ؟؟

لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ "ونڈوز" نے اپنی تخلیق کو دنیا بھر میں مشہور کروانے کے لئے وہی طریقہ استعمال کیا جو ، عطا اللہ خان عیسیٰ نیازی ، مشہور ہونے کے بعد خیلوی ، نے مفت ٹرک میں ٹرک والوں کو ٹرک کے شور میں موسیقی سے لطف اندوز کروانے کے لئے اپنی آواز میں مفت کیسٹ بانٹے اور پشاور سے کراچی تک جانے والے ٹرکوں نئ ایک ہفتے میں اسے ملک کے زیادہ سننے والے ، گلوکار کی صف میں لا کھڑا کیا ، اُس کے سریلے پن کے فقدان پر مت جائیے۔ دکھی دل کی پکار پر دھیان دیں جو پورے پاکستان ، بلکہ گلوب کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں ۔
یہ باکل ایسے ہی ہوا جیسے ہمارے پڑھنے والوں کے تعداد میں "ای میل اور گروپ کے ٹرکوں" نے ہمارے بلاگ " اُفق کے پار " کو گلوب میں پھیلا دیا ۔ اور جھنڈے جمع کرنے والی ایک فرم نے مفت میں ہمیں لوگوں سے زیادہ خود جھنڈے دیکھ کر خوش ہونے والوں شامل روانے کے لئے ۔ "ایچ ٹی ایم ایل کوڈ " دے دیا

یوں " ونڈوز" نے خود اپنی کروڑھا کاپیاں بنوا کر " پائریٹڈ " کا نام دے کر غریب غربا کے ملکوں میں پھیلا دیا اور اب کہتے ہیں خریدو ۔ خود سوچیں کیا چالیس روپے میں بکنے والی ونڈو کی ڈی وی ڈی ، "پلیگیار ازم" نہیں ؟ 
جو آپ اور میں استعمال کر ہے ہیں !

وکی پیڈیا نے بتایا کہ لیڈی ڈیانا کا ڈی این اے ، جمائما  کے ڈی این اے کا "پلیگیار ازم" ہے ۔ اور سنا ہے کہ امیتابھ بچن ، نہرو کے ڈی این اے کا "پلیگیار ازم" ہے ۔ اوربرطانیہ ،  یورپ و امریکہ تو اس قسم کے "پلیگیار ازم" سے بھرا ہوا ہے ۔


عباس ابو القاسم ابن فرناس ابن ورداس التکورانی

ابن فرناس جن کا پورا نام عباس قاسم ابن فرناس تھا۔ جو فلکیات اور شاعری کا ماہر تھا ۔ اِس کا لاطینی نام " ارمن فرمن " تھا ۔ 822 میں جب خلیفہ عبدالرحمان دوئم نے اپنی سلطنت کے تمام ، ذہین لوگوں کو قرطبہ میں اکھٹا کیا تو اِن میں ایک موسیقار زریاب بھی تھا ۔ ذریاب نے چادرکے پر بنا کر اُڑنے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہ ہوا مگر ، پیرا شوٹ کا تصور نیا کو دے یا ، اس موقع پر ابنِ فرناس بھی موجود تھا جس نے زریاب کی تحقیق کو آگے بڑھایا ۔
 

(ابن فرناس کی خیالی تصویر)


عباس ابو القاسم ابن فرناس ابن ورداس التکورانی، اندلس کے شہر اذن ۔ رند ۔ اوندا میں 810 ء میں پیدا ہوا  ۔ عباس ابن فرناس بربرنژاد اور جنوبی اسپین کے ضلع تکرنہ کا باشندہ تھا۔ اس نے اپنی تمام عمر قرطبہ میں بسر کی اور اپنے علم و حکمت کی بنا پر اُس زمانے کا عظیم سائنسدان کہلایا ۔ اس کی ایجادات اور اختراعات بے شمار ہیں اور اگر اسے اپنے زمانے کا نابغہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔

علم ریاضی جس نے 5000 قبل مسیح ہندوستان میں انسانی زندگی میں دخل دیا ۔ ابن فرناس میں اُس میں مہارت حاصل کی ۔
وہ ریاضی ، شاعری ، سائینس ، اور گنجلک مسائل کے حل میں یگانہ تھا ۔ اس نےساعتِ ماپنے کے لئے آبی گھڑی ایجاد کی ، کرسٹل بنانے کا فارمولا بنایا اور تو اور اپنی تجربہ گاہ میں اس نے انعکاس نما اور کلوں کی مدد سے ایک ایسا پلانیٹوریم بنایا جس میں بیٹھ کر نجوم ، بادلوں کی اُڑان اور ان کی گھن گرج وچمک کے مظاہردیکھتے تھے ۔



اس کی ریاضی میں مہارت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے ایک دفعہ ایک تاجر ہندوستان کے سفر سے واپسی ایک کتاب اپنے ساتھ لایا ۔ جو عالم، شاعر اور لسانیات کا ماہر تھا اور آٹھویں صدی میں بغداد میں آیا تھا ۔ اس نے عربی کی پہلی لغت تیارکی تھی  ۔ کہا جاتا ہے کہ شاعری میں علم عروض اورحسابی تقطیع کی بنیاد کلیل نے ڈالی تھی ۔ یہ کتاب اندلس میں نئی پہنچی تھی اور اس کے مندرجات سے کسی کو واقف نہ تھی اور تشریح بھی آسان نہ تھی، لہذا یہ کتاب ابن فرناس کو دی گئی ۔ اُس نے اس کتاب کی ہندسی ترتیب اور مفہوم وضاحت سے بیان کر کے حاضرین کو ششدرکر دیا ۔




تاریخ میں پہلی انسانی پرواز ، اس کا سب سے بڑا کارنامہ ہے ۔ وہ گھنٹوں پرندوں کو محو پرواز دیکھ کر انہیں کی طرح اڑنے کا خواہشمند تھا ۔ اس نے پرندوں کی پرواز کی تکنیک کا بغور مطالعہ کیا اور اعلان کیا کہ انسان کے لئے بھی پرندوں کی طرح اڑنا ممکن ہے ۔ اوراپنی تھیوری کا عملی مظاہرہ کیا ۔

Abbas Ibn Firnas - old image
(ابن فرناس کی اُڑان کی خیالی تصویر)

اس نے پرندوں کی مانند پر پرندوں کے جسم اور پروں کی جسامت کی نسبت سے اپنے جسم کے ہم وزن فریم تیارکیا اور اسے ریشمی کپڑے سے منڈھ دیا ۔ پھر  امیر عبد الرحمن الداخل کے بنائے ہوئے محل رصافہ کے اوپر برج پر چڑھ گیا اور دونوں پر اپنے جسم کے ساتھ باندھ کر چھلانگ لگادی  ۔ تماشائی بڑی حیرت اور تعجب سے اسے تیر کر زمین کی طرف آتا دیکھتے رہے وہ محل  سے کچھ فاصلے پر میدان میں اتر گیا  وہ انسانی تاریخ کا ہوا میں پہلا اڑنے والا انسان کہلایا ۔

گو کہ زمین پر ہموار نہ اترنے کی وجہ سے وہ ایک عرصہ صاحب فراش رہا ۔ مگر وہ کچھ مدت بعد اپنی اس معذوری اور بڑھاپے کے باوجود چلنے پھرنے کے قابل ہو گیا ۔


اپنے فارغ وقت میں وہ اکثر غور کرتا کہ آخر پرواز کرنے والے سوٹ میں کیا خرابی تھی جس کی وجہ سے اسے چوٹ کا صدمہ اٹھانا پڑا ۔
تقریبا 1010ء میں ایک یورپی "راہب ایلمر مالسمبری" نے بھی عباس ابن فرناس کے مطابق اڑن مشین بنائی ۔ اور اس کے مزید کچھ صدیوں بعد پندرھویں صدی میں "لیونارڈو ڈاؤنچی " میں اس میں اضافہ کیا ۔ 





(بغداد میں ابن فرناس کا مجسمہ)

 نوٹ: یہ تمام معلومات تاریخی ہیں ۔

منگل، 28 اپریل، 2015

کون سا قدم اُٹھانا ہے ؟


فیس بک میں شامل ہونے سے، غالباً اُس دور کی بات ہے کہ ہم وی سی آر پر ہر روز ایک فلم دیکھا کرتے تھے ،  کہ ایک فلم میں  انڈیا کے ہر دل عزیز فلمی ھیرو نے اپنے ہم شکل بیٹے کے ہاتھ پر چھ لکھا ، اور گویا ہوا ،
" تمھاری طرف سے یہ " 9 " ہے اور میری طرف سے " 6 " ، تم اپنی جگہ ٹھیک ہو اور میں اپنی جگہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  "
پھر یہ تصویر " فیس بُک" ہوتی رہی ۔ ہم بھی اِسے لائیک کرتے اور یا شیئر کرتے ۔ آج بھی یہ ایک مذھبی فورم پر نمودار ہوئی اور مجھے ٹیگ کر دی گئی ۔

میں صبح صبح ، ابنا قبلہ درست کرتا ہوں اور پھر وقت ہو تو ، " فیس بک " کو دیکھتا ہوں ۔ جو نہی یہ تصویر میرے سامنے آئی ۔ میں بس اسے لائیک کر کے ، آگے جانے والا تھا ، کہ اِس کے اوپر لکھے ہوئے الفاظ نے مجھے چونکا دیا ۔
' ایک ہی وقت میں قریقین درست ہو سکتے ہیں " 
اور میرے سامنے گذشتہ روز کا منظر فلیش بیک ہوا ۔
میں کل تین بجے ، تمام کاموں سے فارغ ہو کر بستر پر " قیلولہ " کرنے کے لئے لیٹا ، سر میں سخت درد تھا ،کیوں کہ فجر کے بعد سویا تھا ۔ پھر، آٹھ بجے کے بعد سونا نصیب نہیں ہوا ۔ فون بند کرنے کے لئے ہاتھ بڑھایا ، کہ گھنٹی بجنے لگی ، دیکھا تو نورانی بھائی کا فون تھا ، سلام نے بعد ، بولے " ھاں کیا کر رہے ہو ؟ سو تو نہیں گئے تھے "
 " جی نہیں بس تیاری کر رہاتھا " میں نے جواب دیا ۔
" میں یہاں آیا ہوا ہوں ۔ آجاؤ " حکم دیا
" جی بس پانچ منٹ تک آتا ہوں ۔ " میں نے جواب دیا
" اور ھاں ، آپ کادوست بھی آیا ہوا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ طارق " وہ بوے ۔
" بس سمجھو پہنچ گیا " میں نے بستر سے اٹھتے ہوئے کہا ۔
پھر شام چار سے سات بجے تک ، نورانی بھائی اور طارق نے میرے گھر بیٹھ کر مجھے " گرائمر کے سمندر میں زبردست غوطے دیئے "

آج فیس بک آن کرتے ہی ، جماعت اسلامی کے مہربانوں کی اپنی مطلب کے تراجم کے ساتھ پوسٹ سے ٹھوکر لگی ۔ 


اب ، آیئے پوسٹ کے الفاظ پر :ـ
' ایک ہی وقت میں قریقین درست ہو سکتے ہیں "
 جس کا جواب یں نے یہ لکھا :-
دائیں والے کو تین قدم پیچھے آنا پڑے گا ۔ یا

بائیں والے کو تین قدم آﷺگے بڑھنا پڑؑے گا ۔
اختلاف دور کرنے کا بس یہی ایک طریقہ ہے !

آپ سوچیں کون سا قدم اٹھائیں گے ؟

پیر، 27 اپریل، 2015

بیویاں اور عقلمند شوہر !

٭ -    شادی کے بعد میاں اور بیوی ایک سکے کے دو رُخ بن جاتے ہیں ۔ وہ ایک دوسرے سے کی کتراتے ہیں ۔ مگر مجبوراً ساتھ رہتے ہیں ۔  (ایل گور )

٭ -    مرد کو بہرحال شادی کرنا چاھئیے - اگر تو اچھی بیوی ملی تو خوش رہو گے ۔ اور اگر بُری بیوی ملی تو فلاسفر بن جاؤ گے ( سقراط)

٭ -    عورتیں ہمیں اُکساتی ہیں کہ ہم خوشیوں کو سراہیں ، لیکن اُن کو حاصل کرنے سے روکتی ہیں ۔ ( مائیک ٹائسن )

٭ -    میں نے اپنی بیوی سے کچھ الفاظ کہے ، اُس نے مجھے پیرا گرافس سنا دیئے ( بِل کلنٹن )

٭ -    کچھ احباب ہم سے پماری طویل پر مسرت زندگی کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ ہم ہفتے میں دو بار کسی ریسٹورنٹ جاتے ہیں۔ جہاں کینڈل لائیٹ ڈنر ، پرسکون میوزک اور ڈانس سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ وہ منگل کے دن جاتی ہے اور میں جمعہ کے دن ۔ (جارج ۔ ڈبلیو ۔ بش )

٭ -    فنڈ ٹرانسفر کرنے کا الیکٹرانک بنکنگ سے تیز ترین طریقہ یہ ہے کہ آپ شادی کر لیں ۔ (مائیکل جورڈن)

٭ -    کامیاب شادی کے دو راز ؛ 1- جب غلط ہو تو تسلیم کر لو ۔ 2- جب صحیح ہو تو منہ بند رکھو ! ( شکیل اونیل)

٭ -    اپنی بیوی کی سالگرہ یاد رکھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ایک دفعہ بھول جائیں ( کوب برانٹ )

٭ -   تم جاتے ہو کہ شادی سے پہلے میں کیا کرتا تھا ؟ جو میرا دل چاہے ۔ (ڈیوڈھیسل ھالف )


٭ -   میں اور میری بیوی نے بیس سال خوش و خرم زندگی گذاری ۔ پھر ہماری ملاقات ہو گئی ( ایلس بالڈون)


٭ -    اچھی بیوی اپنے شوہر کو ہمیشہ اپنی غلطے پر معاف کر دیتی ہے ( بارک اوبامہ)


جب آپ محبت میں گرفتار ہوتے ہیں تو  کارنامے سرزد ہوتے ہیں  ، لیکن جب آپ شادی کر لیتے ہیں  ، تو حیران ہوتے ہیں کہ اب کیا ہوگا ۔


اور شادی ایک خوبصورت جنگل ہے جہاں بہادر شیر ، خوبصورت ہرن کا شکار ہوجاتا ہے ۔  


اتوار، 26 اپریل، 2015

26 اپریل 2015 بوڑھے کی ڈائری - خواتین کی تکنیکی خوبیاں

خواتین کی یہ تکنیکی خوبیاں کسی دل جلے نے ہمیں ، وٹس ایپ کیں ، تو ہم نے بھی اِنہیں پوسٹ ماسٹر کی طرح آگے روانہ کر دیا ۔ 
جس کے جواب میں دوستوں کے قہقہے بھی ملے اور صاحب دانش و بینش سے داد بھی ملی ۔

Technically, there are 7 TYPES OF LADIES-
1.HARD DISK lady: Remembers everything forever
2. RAM lady: Forgets about you the moment you turn off.
3. SCREENSAVER lady: just for looking
4. INTERNET lady: Difficult to access
5. SERVER lady: Always busy when needed
6. MULTIMEDIA lady: Looks beautiful but u can only look.
7. VIRUS lady: This type of lady is normally called 'WIFE', once enters your system, never leaves till the system is formatted.


اپنے بچپن کے " ہم غم دوست " نے جملہ کسسا ، 
" زبردست آپ کے پاس کون سی قسم کا سامان ہے؟ "
 
 دن کے گیارہ بجنے والے ہیں پورے گھر پر سکوت ہے ، چم چم اپنی ماں کے ساتھ ویک اینڈ گذار کر ، صبح صبح سکول جا چکی ہے ، شاید دیر سے اُٹھی لہذا مجھ پر پانی ڈال کر اُٹھانے کو موقع نہیں ملا ، چنانچہ میں خود ہی اُٹھ گیا وہ پیار کرکے  اگلے ویک اینڈ پر آنے کا وعدہ کرکے چلی گی ۔ ہم پھر سو گئے کوئی دس بجے بارش کی دھما چوکڑی سے آنکھ کھلی ، 
 ناشتے کے لئے ، بیٹھے تو موبائل اُٹھا لیا، وہاں بشیر احمد کورائی بلوچ کا ،کسا ہوا جملہ نظر آیا جس کا جواب ، موبائل پر دو لائینوں میں تو دیا نہیں جاسکتا تھا ۔ لہذا پاس پڑے ہوئے لیپ ٹاپ کو آن کر لیا ۔ ابھی پاس ورڈ لکھنا شروع کیا کہ ، اچانک بارش کے ساتھ ایک مانوس گھن گرج گونجی ،
" یہ کیا صبح صبح لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ گئے ؟"
" غضب خدا کا رات لیپ ٹاپ ، صبح لیپ ٹاپ ، دوپہر لیپ ٹاپ ، شام لیپ ٹاپ "
"نصف بہتر" نے ناشتہ پاس پڑی ہوئی میز پر رکھتے ہوئے کہا

دروغ گوئی کی حد ہوتی ہے بیوی ،

" کبھی دس بجے کو کہتی ہو کہ دوپہر تک سوتے رہتے ہیں اور میں اکیلی پورے گھر میں بور ہوتی ہوں"۔
 اور آج دس بجے کو ، صبح صبح میں شامل کر دیا  اور اگر ایک گھنٹہ اور سوتا تو کہتیں۔ 
" ابھی اُٹھنے کی کیا ضرورت ، آنے والی صبح کو ہی اُٹھ جاتے "
  اور دوستو اگر بارہ بج جائیں ، تو بوڑھا اگر اُٹھنے میں دیر کردے تو "نصف بہتر" بار بار آکر سنتی ہیں کہ "بڈھا " سانس لے رہا ہے یا   مکمل "مراقبے" میں چلا گیا ۔

اپنے بشیر جی : ذرا پوری خصوصیات کو غور سے پڑھیں ، تو شاید آپ کو بھی اپنا " آدھا بہتر " ان تمام خوبیوں کے ساتھ ہمہ صفت نظر آئیں گی ۔ ویسے ہماری "نصف بہتر":-
٭- پہلی خوبی بھی رکھتی ہیں ، ویسے تو بھول جانے کا دعویٰ کرتی ہیں لیکن جب باتیں یاد کراتی ہیں ، تو یہ آئی بی ایم  کی وہ ہارڈ ڈسک بن جاتی ہیں جس کی 5 ایم بی ، یاداشت ضرب المثل ہے  
٭- زمانہ حال جاریہ  کے ہمارے تمام احسانات فوراً مٹا دیتی ہی، ایسے جیسے ہم بچپن میں تختی کو دھو کر اُس پر گاچی لگادیتے تھے ۔
٭ - بس اب تو ہم انہیں گھر میں چلتا پھرتا دیکھتے ہیں ۔ ھاتھ لگانے کی ہمت نہیں ہوتی کہ کب جھٹکا لگے ۔ 
٭ - اگر میں پی ٹی سی ایل کے سپر براڈ بینڈ انٹر نیٹ سے مشابہت دوں ، تو اس کے لئے آپ کو یہ نیٹ لگوانا پڑے کا اور  کنکشن نہ لگنے کے لئے آپ کو"18" دبا کر ، چپ چاپ سننا پڑے گا ۔
٭ اِس خوبی کے بارے میں تو آپ خود سمجھدار ہیں اب بچوں کے سامنے کیا بتاؤں ۔
٭- جب گھر میں رھتی ہیں تو یہ خوبی بدرجہ اتم موجود رہتی ہے ۔ لیکن جب ہمیں کبھی "سنیٹورس مال" لے کر جاتی ہیں تو کہتی ہیں ، 
"یہ  آپ کے دیدے اتنے زیادہ گول گول کیوں گھومنے لگتے ہیں ؟"
اب راز کی بات کیا بتائیں ؟ کہ شرعی لحاظ ، ہم فتاویٰ عالمگیری کے باب الحیل کے قائل نہیں ، کہ جسے بھی دیکھو ایک بار دیکھو اور وہ بھی ٹکٹکی باندھ کر کیوں کی دوسری نظر قابلِ گرفت ہوجاتی ہے ۔
  ،٭- اب اس ھفتے کی بات ہے ، کہ ایک شادی پر چم چم کے ساتھ گئے ، تو ھال میں ایک ھم عمر دوست سے ملاقات ہوگئی  ان کے ساتھ ایک چھ سالہ بچی تھی ، اپنی چم چم کا اُس بچی سے تعارف کروایا ، اور دونوں ہمارا ھاتھ چھڑا دوست بن کر ، خواتین کے حصے کی طرف دوڑ گئیں ،
دوست سے پوچھا ، " پوتی یا نواسی "
فرمایا ، " بیٹی" ۔
ہمارے منہ سے بے ساختہ نکلا ، " آپ کی مشین ابھی تک کام کر رہی ہے ۔"
رات کو جب واپس ہوئے ، تو معلوم ہوا کہ دوست نے ، پرانی 5 ایم بی کی ڈسک کو فارمیٹ کرونے کے بجائے ، 1000 گیگا بائیٹ  کی نئی ھارڈ دسک ڈلوا لی ہے ۔


کیا سمجھے اپنے " بلوچ " صاحب ، میری تو مجبوری ہے ۔ لیکن آپ کی کیا مجبوری ہے ؟ 


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ 

ہفتہ، 25 اپریل، 2015

25 اپریل 2015 بوڑھے کی ڈائری - ٹرین سٹیشن سے نکل گئی

آہ میرا بے چارہ لیپ ٹاپ کا کی بورڈ ۔
'
پہل برفی (پوتی) نے اِس کی بھوک مٹاتے ہوئے دودھ پلایا ۔ اور اب کل رات چم چم (نواسی) نے ، اس کی پیاس بجھائی اور پانی پلا دیا ۔
'
وہ تو شکر ہے کہ میں نے اسے فوراً بند کر دیا ۔ لہذا صر ف لفظ "ن" کی قربانی دینا پڑی ۔ اور اب "ن" پیسٹ کر کے کام چلا رہا ہوں ،

لڈو ، نے صرف ایکسٹرنل ماؤس ، کو چمکتی چیز پکڑ کر کھینچ لیا اور برفی کو دے دیا وہ اُسے سارے گھر میں گھسیٹتی پھری۔

لڈو تو کل ایرپورٹ پر ھاتھ ھلا بائے بائے کر کے ماں اور باپ کے ساتھ دوبئی چلا گیا ۔

اور برفی اپنی ماما کے ساتھ نانا کے گھر اور رہی چم چم ، صبح وہ چینی
صدر کی وجہ سے بند ہونے والے سکول گئی ، کیوں کہ  اُس کا دو دن کی پڑھائی کا نقصان ہوگیا ہے۔
 شائد وہ شام کو ویک اینڈ آئے، کیوں کہ ایک شادی پر جانا ۔

اِس وقت گھر پر بس بوڑھا اور بڑھیا اکیلے ہیں۔

بڑھیا تو شائد سو رکعت نماز کی نیت باندھے بیٹھی ہے ۔

اور بوڑھا صبح ناشتہ کر کے سو گیا ۔ ایک بجے اُٹھ کر اب لیپ ٹاپ لے کر بیٹھا ہے ۔


بڑھیا جب فارغ ہوگی تو کھانا دے گی ۔
چم چم ، لڈو اور برفی کے جانے کے بعد سنسان گھر میں مجھے یوں لگ رھا ہے جیسے ٹرین سٹیشن سے نکل گئی ۔






بدھ، 22 اپریل، 2015

اقبال کا خواب جھوٹ ہے ۔


کراچی کا حلقہ این اے 246

کراچی کا حلقہ این اے 246 نے پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، ہرجگہ یہی بحث چل رہی ہے۔ چائے،کولڈ ڈرنک اورکھانے سے لے کر بڑی بڑی شرطیں لگ رہی ہیں۔ ہر کسی کی زبان پر ایک ہی سوال ہے۔۔۔۔۔ ضمنی انتخاب کون جیتے گا؟

حلقہ این اے 246کا جائزہ لیں تو یہ نشست 1988ء سے ایم کیوایم حاصل کرتی آرہی ہے۔
1985ء میں اس نشست سے غیرجماعتی انتخاب میں جماعت اسلامی کے سید مظفر ہاشمی کامیاب ہوئے۔
1970ء اور 1977ء میں اس نشست سے جماعت اسلامی کے پروفیسر عبدالغفور احمد (مرحوم) بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے تھے۔
1993ء میں ایم کیوایم نے قومی اسمبلی کے انتخاب کا بائیکاٹ کیا تھا
جس کے نتیجے میں ایک بار پھر اس نشست پر جماعت اسلامی کے سید مظفر احمد ہاشمی کامیاب ہوئے۔
1997ء میں ایم کیو ایم کامیاب ہوئی۔
2002ء کے عام انتخاب میں ایم کیوایم اور جماعت اسلامی کا ون ٹو ون مقابلہ ہوا تھا۔ ایم کیوایم کے امیدوار نے 52ہزار اور جماعت اسلامی کے امیدوار نے32ہزارووٹ حاصل کئے تھے۔
2008ء میں جماعت اسلامی نے بائیکاٹ کیااور ایم کیو ایم نے میدان مارا۔
2013ء کے عام انتخاب میں ایم کیوایم کے امیدوار نبیل گبول کامیاب ہوئے اورتحریک انصاف کے امیدوار نے31ہزار جبکہ جماعت اسلامی کے راشد نسیم نے 10ہزارووٹ حاصل کئے


این اے 246 میں کل ووٹرز تین لاکھ ستاون ہزار آٹھ سو ایک ہیں جن میں ایک لاکھ چھیانوے ہزاردوسو تیس مرد اور ایک لاکھ اکسٹھ ہزار پانچ سو اکھترخواتین ہیں ۔کل پولنگ اسٹیشن 213 ہیں جن میں پندرہ مرد ‘ پندرہ خواتین اور 183مشترکہ پولنگ اسٹیشن ہیں۔ مردوں کے 402اور خواتین کے 367 پولنگ بوتھ قائم کیے گئے ہیں


۔211 مرد ‘ 2 خواتین پریزائیڈنگ افسران اور 769پولنگ افسران ڈیوٹی انجام دیں گے۔ الیکشن کمیشن نے رینجرزکو پولنگ اسٹیشن کے اندر اور باہر تعینات کرنے کی ہدایت کردی ہے۔ 

 

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔