Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 30 ستمبر، 2013

جنوب مغربی ایشیاء اور امریکی کھیل




حال میں نیٹ پر ریلیز ہونے والی یہ وڈیو ضرور دیکھئے  تو آپ  کو یقین آجائے گا ۔ کہ 1980 سے کی گئی انویسٹمنٹ کا صلہ امریکیوں کو لازماً چاھئیے ۔


    یہ مضمون مارچ    2012 میں لکھا گیا تھا ۔
ایک فورم میں ”امریکہ اور ہمارا مستقبل“ کے تحت ہونے والی بحث میں جو میرا نقظہء نظر تھا، اُس کے مطابق آئیندہ  ہمارے ملک اور اُس سے ملحقہ ملکوں میں جن تبدیلیو ں کے متعلق امریکی پچھلے ساٹھ سالوں  غور کر رہے ہیں۔ اُن کے خد وخال اب واضح ہونے لگے ہیں۔ جس کا پہلا حصہ 15فروری 1989 کو مکمل ہوا جس وقت  دریائے آمو کے پل سے گزرتے ہوئے روسی علاقے میں داخل ہوتے ہوئے روسی جنرل نے مڑ کر حسرت بھری نگاہوں سے افغانستان کی سرزمین کو دیکھا تو پنٹاگون میں معلوم مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ اب امریکہ بلا شرکت، غیرے انسانی دنیا کا حاکم بن چکا تھا۔ کیونکہ اُس کی بچھائی ہوئی بساط  پر گھوڑے  اور فیل مارے جاچکے تھے، پیادوں کا تو کوئی شمار ہی نہیں تھا  شاہ بھی خوشگوار امریکن مستقبل کی بھینٹ چڑھ چکے تھے۔


    1979میں جب میں ایک نیم لفٹین تھا۔ ایک کورس سے واپس آیا تو کمانڈنگ آفیسر نے انٹرویوکے دوران بتایا کہ میں نے  اگلے چھ مہینے ٹل اور پارا چنار کے درمیان اڑاولی فورٹ کے نزدیک پاک افغان بارڈر پر ایک آبزرویشن پوسٹ پر گذارنے ہیں۔لہذا مجھے ٹی بریک کے بعد روانہ ہو جانا چاہیئے۔ تقریباً گیارہ بجے ٹل سے اپنی آبزرویشن پوسٹ کی طرف  روانہ ہو گیا چار گھنٹے کے سفر کے بعد جب میں گن پوزیشن میں پہنچا تو بیٹری کمانڈر نے خوش آمدید کہا اور بتایا کہ 5بجے پولیٹیکل ایجنٹ پارا چنار نے ایک جرگہ بٹھایا ہے ہم سب افسروں نے وہاں جانا ہے۔ جرگے میں پہنچے وہاں کوئی اندازاً تین سو افراد ہوں گے۔ جن میں مقامی اور افغان مہاجر تھے۔ سردار اور معززین اُن کرسیوں پر بیٹھے تھے جو کرم ملیشیاء نے بچھائی تھیں باقی سب قالینوں یا اپنی چادروں پر براجمان تھے۔ پولیٹیکل ایجنٹ نے جرگے کا مقصد بتایا۔ جو پشتو میں تھا۔ والد مرحوم کے فوج میں ہونے کی وجہ سے میری  تعلیم ایبٹ آباد، نوشہرہ، پشاور اور کوئیٹہ میں گذری تھی لہذا پشتو میرے لئے مانوس زبان ہے۔ چنانچہ باقی افسروں کی طرح  میں اُن کے ہر الفاظ اچھی طرح سمجھ رہا تھا۔ لیکن جس تقریر نے مجھ میں بجلیا ں پیدا کیں وہ ایک 25سالہ امریکن مسلمان کی تھی جس نے فصیح و بلیغ پشتو میں مسلمان اور جہاد کے بارے مدلل دلائل سے ہم سب کے خون کو گرما دیا اور فضا ء جو شیلے نعروں سے گونج اُٹھی۔ میں اُس امریکن مقرر سے بہت متاثر ہوا اور خود کو کوسا کہ ایک نو مسلم ہم پیدائشی مسلمانوں سے زیادہ  جذبہ جہاد اور اسلام کے بارے میں معلومات رکھتا ہے، کھانے کے دوران میں نے اُس سے کئی سوال کئے۔ اُس سے معلوم ہوا کہ اُس کا باپ پٹھان اور ماں امریکن تھی۔ اُس کو پشتو اُس کی دادی نے سکھائی۔وہ سنّی عالم نہیں بلکہ اُس نے یونیورسٹی میں نہ صرف  اسلامی علوم کا تفصیلاً مطالعہ کیا تھا  بلکہ وہ  دیگر مذاہب کے بارے میں بھی بہت معلومات رکھتا تھا، لیکن میں اُس کی پاکستان اور اُس کے لوگوں بارے میں معلومات سے بہت متاثر ہو ا۔ میری  زندگی کا یہ پہلا ”لارنس آف عریبیا“تھا۔اِس کے بعد مجھے تین اور لارنس آف عریبیا ملے جن کی رگوں میں مخلوط امریکی خون دوڑ رہا تھا۔افغان وار میں ہم  ”لارنس آف عریبین“ سے اسلام سیکھتے رہے۔  پھر امریکی مبلغین نے پاکستان کی مغربی سرحدوں کو دنیا بھر کے جہادیوں سے بھر دیا۔پاکستانی قوم کسی کے پیچھے کیوں رہتی۔ نسیم حجازی کے ناول جو  70کی دہائی میں طفننِ طبع کے لئے پڑھے جاتے اچانک،  اسلامی تاریخ اور اسلام پر مصدّقہ دستا ویز بن گئے۔ حسن بن سبّاح اپنے فدائین کے ساتھ دوبارہ تاریخ کی گرد سے نکال کر عالمِ غیب سے عالمِ وجود میں نمودار ہو گیا۔بے روزگار نوجوانانِ مسلم کی ایک فوجِ ظفر موج نے ”ڈالروں کی تلاش میں شہادت کے مزےلینے کے لئے کرائے کے گوریلوں کی فوج میں شمولیت اختیار کرنی پڑی۔ امریکیوں نے  ساری دنیا کو ڈرانا شروع کیا کہ روسی ریچھ سرد علاقوں سے نکل کر گرم پانیوں میں جاکر غسل کرنا چاہتا ہے۔ جس کے لئے وہ  مستی میں دندناتا افغانستان سے پاکستان میں مغربی بلوچستان کو روندتا، کاٹتا اور رگیدتا بذریعہ آر۔سی۔ڈی  ہائی وے  بحیرہ عرب میں سونمیانی کے پاس نکلے گا، اُس کے بعد جب وہ اپنی ٹانگیں پسارے گا تو شائد نہیں بلکہ حقیقتاً اُس کے پاؤں ایرانی بلوچستان میں  قیلولہ فرمائیں گے۔  لہذا یہ تما م دنیا کا فرض عین ہے کہ وہ  روسی ریچھ کو روکے۔ امریکی مشورے کو بلوچیوں نے دل پر لگا لیا اور اُن کے سردار اپنے قبیلوں کے ساتھ کابل پہنچ گئے تاکہ روسی ٹینکوں پر بیٹھ کر عظیم بلوچستان میں داخل ہوں۔ مگر امریکیوں نے روسیوں اور بلوچ سرداروں کا یہ خواب پورا نہ ہونے دیا اور وسی دریائے آمو کے پار چلے گئے۔

     ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے والے سرداروں کو ملا عمر نے راکٹ لانچروں، کی مدد سے قابو میں کیا، سرداروں کے سر ”دار“ پر لٹکا دئے گئے، امریکہ کی پشت پناہی سے پلنے والے ہیروئین کے سوداگروں زمین میں دفن کر دیا گیا پورا ایک سال ایک گرام ہیروئین افغانستان سے باہر نہ نکلی۔ بلوچی سردار کو پاکستان محافظ قوتوں نے ہیلی کاپٹروں پر وہاں سے نکالا کہ شائد وہ اب عظیم بلوچستان کو بھول کر متحد پاکستان کے شانہ بشانہ چلنے لگیں اور امریکی ابلاغ کئے ہوئے اسلام نے ایک نیا لبادہ اوڑھ لیا۔ جب تما م وارلارڈ امریکی پلاننگ کے مطابق شہادت کا رتبہ پا کر دوسری دنیا کے پار جا پہنچے تو امریکہ کے ڈہین اور فطین لوگوں نے  اپنے چند افریقی باشندوں کو امریکن قرار دینے اور دیگر بے وقوف اقوام کے افراد کو امریکی شہریت  دینے کے بعد،مروا کر اپنی پلاننگ کا دوسرا ایکٹ شروع کیا۔ ”لارنس آف عریبین“ نے صدام کی طرح ملا عمر کو کہا ”ڈٹ جاؤ۔ ہم بریف کیس میں ایٹم بم لے کر پھرتے ہیں، امریکہ ہم سے لرزتا ہے“،  اِ سے پہلے کہ ہم امریکہ کے ایکٹ ٹو کی طرف چلیں ذرا امریکی شہریت اختیار کرنے والوں کی بے بسی ملاحظہ کریں۔

    ہم دونوں نے میٹرک تک ساتھ پڑھا ،پھر ہماری ملاقات ، اتفاقاً ایک شادی کی محفل میں ہو گئی۔ عرفان انجنئیرنگ کے بعد امریکہ شفٹ ہو گیا میں پاکستان میں رہا۔ مدت کے بعد ملنے کی وجہ سے پرانی یادیں دہرائیں گئیں دوستوں کے متعلق معلومات کا تبادلہ ہوا، میں نے پوچھا کہ وہ بایر کیوں شفٹ ہوا۔ عرفان بولا،”کسی تھرڈ کلاس ملک میں پہلے درجے کا شہری بن کر رہنے سے بہتر ہے کہ کسی فرسٹ کلاس ملک کا تھرڈ کلاس شہری بن کر رہا جائے“۔  مجھے عجیب سا لگا لیکن کچھ نہ بولا۔ البتہ، اُس کے بعد جب بھی ملاقات ہوتی تو میں مذاقاً اُسے”تھرڈ کلاس شہری“ کہتا۔  بہرحال وقت پر لگا کر اُڑتا رہا  2005میں میں اپنے آفس میں بیٹھا تھا کہ دروازے سے ایک جانا پہچانا ہیولا  اندر داخل ہوا۔ جو لمبائی اور چوڑائی میں تقریباً برابر تھا،  یہ عرفان تھا ماہ و سال  نے اُس کے خد وخال پر گہرا اثر ڈالا تھا۔ دونوں گرم جوشی سے ملے۔ چائے پیتے ہوئے میں نے مذاقاً کہا،” تھرڈ کلاس شہری“  کھانا کہاں کھانے چلیں۔ اُس نے دکھی آنکھوں سے میری طرف دیکھا۔ میرا مذاق اُڑانے کے بجائے اُس نے ایک لمبی سانس لی اور بولا،”اِس تھرڈ کلاس شہری کو جو کھلانا ہے کھلا دو“۔  تفصیل جاننے پر  بتایا،”امریکہ کو لاکھوں ڈالر 29سال تک ٹیکس دینے کے باوجود اُس کا سٹیٹس روزگار الاؤنس میں پلنے والے امریکن شہری سے کم ہے۔ کیوں  تمام وعدے وعید، قصے کہانیاں ثابت ہوئے، ”ہم رہے پیاسے کے پیاسے لاکھ ساون آ گئے“۔ امریکن آئین کے قسم کھاتے وقت میں بہت پر جوش تھا۔ اُس کے بعد میں نے سوچا ہی نہیں کہ امریکہ میں رہنے کے لئے میں نے اپنے آئین اور اپنی دھرتی کو چھوڑ دیا۔  جب افغان جہاد شروع ہوا تو چندہ دینے والوں میں میں بھی شامل تھا 9/11 کے بعد چندہ دینے والے مجرم بن گئے۔ اُنہوں نے ہم سے ایسے ایسے سوال پوچھے کہ ہم اپنی نگاھوں میں مجرم بن گئے۔ ہم وہاں اب مشکوک لوگ ہیں، وہ جب چاہیں ہمیں یہاں سے اٹھا کر لے جا سکتے ہیں کیونکہ ہم حلفِ وفاداری اُٹھانے کے بعد امریکی شہری بن گئے ہیں۔ امریکی بیوی سے ہونے والے بچوں کے زیادہ حقوق ہیں  ہمارے بچوں کے کم اور ہم پاکستان میں پیدا ہونے والے اگر اسلام سے دور ہیں تو اچھے امریکن شہری ہیں“۔ عرفان نے اور بہت باتیں بتائیں ۔

    کسی بھی قوم کی طرف ہجرت کرنے والی قوم اپنے ماضی کو بھول جاتی ہے جبھی وہ دوسری قوم میں ضم ہو کر اُس کا حصہ بن جاتی ہے  اُس کی دوسری اور تیسری نسل اپنے اسلاف کی جنم بھومی سے تعلق ختم کر لیتی ہے، لیکن پدرم سلطان بود“ کا نعرہ لگانے والی اقوام نہ ہی تیتر بنتی ہے اور نہ ہی بٹیر۔ بہر حال اپنے آئین کو ردی کا ٹکڑا سمجھنے والوں نے امریکی آئین سے اپنا رشتہ جوڑتے وقت  امریکیوں کو جو حلفِ وفاداری  دیا ہے اُس کے الفاظ نیٹ پر کچھ ایسے ہیں،اآپ بھی دیکھیں۔
 Oath of Allegiance for Naturalized Citizens

 "I hereby declare, on oath, that I absolutely and entirely renounce and abjure all allegiance and fidelity to any foreign prince, potentate, state, or sovereignty of whom or which I have heretofore been a subject or citizen; that I will support and defend the Constitution and laws of the United States of America against all enemies, foreign and domestic; that I will bear true faith and allegiance to the same; that I will bear arms on behalf of the United States when required by the law; that I will perform noncombatant service in the Armed Forces of the United States when required by the law; that I will perform work of national importance under civilian direction when required by the law; and that I take this obligation freely without any mental reservation or purpose of evasion; so help me God.\"

Signed by
:_________
میں اپنی تمام وفا داری  اور اعتماد جو میں نے، کسی غیر ملکی شہزادے،  بادشاہت،  ریاست یا خود مختار ریاست کو دی جس کا میں باشندہ تھا،سے مکمل دستبرداری  کا قسمیہ اعلان کرتا ہوں۔اور یہ کہ میں ریاستہائے متحدہ امریکہ کے قانون اور آئین کی حفاظت اور مدد تمام غیر ملکی اور ملکی دشمنوں سے کروں گا ۔ اور پر میں پورے ایمان اور خلوص سے عمل کروں گا  اور میں یہ ذمہ داری  کسی ذہنی دباؤ یا مجبوری کے بغیر آزادانہ قبول کرتا ہوں،  خدا میری مدد کرے۔ اور میں اِس کا اقرار اپنے دستخطوں کے ساتھ کرتا ہوں“ 

    اِن دستخطوں کے ساتھ ہی اِس فرد کا اپنے مادرِ وطن سے رشتہ ٹوٹ جاتا ہے اور یہ فرد کاغذوں میں امریکی شہری کہلانے لگتا ہے اُسے امریکن پاسپورٹ مل جاتا  وہ اپنے ملک کے راز، خبریں اور دیگر معلومات اپنے نئے ہم وطنوں کو دینا شروع کرتا ہے۔اور امریکی رازوں، خبروں اور دیگر معلومات کا امین بن جاتا ہے، امریکی مفادات کا تحفظ کرتا ہے اور اپنی مادرِ وطن کی سلامتی کوداؤ پر لگا دیتا ہے تب حقیقت میں  وہ اُس وقت امریکی شہری کہلانے کا حق دار ہوتا ہے۔ لیکن اگر یہ فرد امریکیوں کو ہاتھ دکھانے لگے تو پھر امریکی قانوں حرکت میں آجاتا ہے۔ چنانچہ  اُس کے مادرِ وطن کے معصوم لوگوں کو امریکی ڈالروں بذریعہ این جی اوز، پر پلنے والے  یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ معصوم فرد ہمارا باشندہ ہے اِس کو قانون کے مطابق سزا دینا ہمارا فرض بنتا ہے، انہیں یہ نہیں معلوم کہ یہ فرد توغیر ملکی  شہریت حاصل کرنے کی خاطر اپنے ملک کی شہریت بیچ چکا ہے۔ بکی ہوئی چیز کو دوبارہ آسانی سے واپس خریدا نہیں جاسکتا۔ 

    بہر حال امریکہ میں داڑھیوں کی پیمائش ہونی شروع ہوگئی  اور پلاننگ کا دوسرا حصہ شروع ہوا۔ وہ تمام  امریکی شہریت زدہ افراد جنہوں نے امریکی پہلے پلان کا حصہ روسیوں کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کو امدادی رقوم بھجوا کر کیا انہیں نے امریکی پلان دوئم کو سمجھنے میں دقت پیش آئی اور جب تک وہ اسے سمجھتے امریکی جاسوسی اداروں نے انہیں مجاہدین کا دایاں بازو سمجھتے ہوئے اُن کے خلاف گھیرا تنگ کرنا شروع کیا کیوں کہ امریکی۔ ”لارنس آف عریبین“  کی جوشیلی تقاریر نے  مجاہدوں کی  فصلوں کی فصلیں تیار کر دیں اور اِن فصلوں نے اپنی جڑیں ہر اُس جگہ گہری کر دیں جہاں کی فضا انہیں موافق آئی۔ مجاہدین کی پہلی نسل جہاں جاتی،اِسلامی شریعت کے مطابق نکاح کے سبزہ زاروں سے ضرور گزرتی۔یہ امریکی پلان کا حصہ نہ تھی امریکی پلانر یہ بھول گئے کہ پہلی نسل کے بعد دوسری نسل بھی آتی ہے اور یہ دوسری نسل وہ ہوتی ہے جو میدان جنگ کے پچھواڑوں میں، گھوڑوں کی ٹاپوں یا موجودہ دور میں، بموں کے دھمکوں، بارود کی بدبو اور مسلسل ہجرت  کی بھول بھلیوں میں بڑھتی اور پروان چڑھتی ہے۔ اگر دوسری نسل کو لانے والے مرد میدان جنگ میں مارے جائیں، تو انتقام کے گیت اور کہانیاں اِنہیں پروان چڑھاتی ہیں۔

ٰ    دوسری نسل آج سے 23 سال کے عرصے یعنی 1990میں جوانی کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے، کلاشنکوف سے راکٹ لانچر کا وزن اٹھانے اور ان کے مہلک خیز اسلحے کو نشانے پر مارنے کے قابل ہو چکی تھی۔اور خاص طور پر جب اُن کے دل و دماغ میں انتقام کا جذبہ کافر غاصبوں کو اپنے ملک سے نکالنے کے لئے مسجدوں اور ہجروں میں کوٹ کوٹ کر بھرا گیا ہو  پھر انہوں نے اپنی ماؤں کو کسمپرسی کے عالم میں زمانے کے حالات سے نبر و آزما دیکھا ہو۔ یہ دوسری نسل پہلی نسل سے زیادہ جذبہ ء جنگ والی تھی، پہلی نسل نے اپنے مقصد کو پانے کے لئے لوگوں کو خریدنا شروع کیا۔ ہر امریکی نقصان پر امریکی ڈالروں کی تقسیم اور بے تحاشا تقسیم، جس نے قلعہ الموت کے بے شمار حسن بن سباؤں کو جنم لیا۔  اِن حسن بن سباؤں کے پیروکاروں نے اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے، ملک میں موجود مدرسوں کا رخ کرنا شروع کیا اور ڈالر کے بدلے فدایوں کی خرید شروع ہوگئی، جیب سے ڈالر جاتے سب کو برے لگتے ہیں، جب اُن بے وقوف لوگوں کی جیبوں میں جائیں جنہیں استعمال کرنے کا سلیقہ نہ آتا ہو۔ چنانچہ، ملک میں گھروں سے بھاگ کر پھرنے والے بے تحاشہ تعداد میں دستیاب مال سے فائدہ اُٹھانے کا سلسلہ شروع ہوا، پیار، محبت۔ دھونس و دھمکی اور لالچ سے دوسری نسل کے ساتھی تلاش کئے گئے۔ جب یہ لوگ تربیت گاہوں میں پہنچے تو انہیں، تربیت نے دوآتشہ کر دیا اور انہیں ظالم معاشرے سے انتقام لینے کی تربیت دی گئی، یہ انتقام اور جذبہ شہادت سے لبریز لڑکپن سے جوانی کی طرف جانے والے، اپنے جسموں پر بارود باندھے، انسانی ہجوم میں چیتھڑوں کی صورت میں بکھر گئے اور اُن کی روحوں کو اُن کے ”استادوں“ کے مطابق حوریں اٹھا کر سیدھا جنت میں لے گئیں۔ تربیت گاہ سے اُن کے ساتھ نکلنے والے مگر آدھے راستے سے لوٹ آنے والے، پہلی یا دوسری رات سو کر اُٹھنے کے بعد، خوابوں میں ُ ان زمین پر بکھرنے والوں کو آسمان میں حوروں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھتے، بالکل ایسے ہی جیسے 1965کی جنگ میں لوگوں نے، ہرے لباس میں گھوڑوں پر سوار، سرزمین ِ حجاز سے چل کر لاہور پہنچنے والوں کو، لاہوریوں سے واہگہ یا سیالکوٹ کی سمت پوچھتے دیکھا، شاید لاہور پہنچ کر اُن کی سمت بتانے کی قوت جواب دے جاتی یا اُن کا مقناطیسی کمپاس جواب دے جاتا۔

    امریکی شایدیہ بھول گئے کہ غلطیاں بانجھ نہیں ہوتی وہ بچے جنتی چلے جاتی ہیں۔ روس کے خلاف، امریکیوں کا پاکستانیوں اور خاص طور پر مغربی پہاڑوں میں رہنے والے باسیوں کو جہاد کا سبق دینا اِن کی ایسی غلطی تھی کہ جس کے بچے چنتے چنتے نہ صرف پاکستان بلکہ امریکہ بھی تھک چکا ہے۔ امریکیوں نے اپنے عظیم پلان کو کامیاب کرنے کے لئے 9/11سے بہت پہلے  ایک اور پلان شروع کیا تھا۔

1990 کا ذکر ہے۔شہید صلاح الدین مدیر تکبیر نے ایک مضمون شائع کیا جس میں
مستقبل کی اسماعیلی ریاست  کے مکمل پلان کے متعلق تفصیلاً اعداد و شمار کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کیا تھا۔۔ 1993 میں سیاچین جانا ہوا تو معلوم ہوا کہ مدیر تکبیر کا اندازا کچھ غلط نہ تھا۔گلگت اور بلتستان صوبے میں اسماعیلیوں نے  ہر آبادی  میں ہسپتال اور سکول تعمیر کر دیئے۔ اُن علاقوں میں رہنے والے مذہب کے اتنے نزدیک تھے جتنا سورج اُن سے گرمیوں میں چند دن کے لئے نزدیک ہوتا ہے۔ اسماعیلیوں نے سب سے پہلے وہاں فری ہسپتال کھولے، انگریز مشنریوں نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا۔ پھر سکول کھول کر وہاں ایسی تعلیم کا آغاز کیا جو پاکستان میں اعلیٰ درجے کے مقابلے میں تھی، جس کے لئے بے تحاشا انگریز بوڑھے اُن علاقوں میں آنے لگے۔ اس کے علاوہ، اپنے علاقوں میں پاکستانیوں کو زمین خریدنے پر پابندی لگانے والوں نے شاہرہ ریشم کے ساتھ ساتھ آباد علاقوں میں زمین خرید کر گھر بنانے شروع کر دئے۔ اُس کے بعد اِن لوگوں نے اپنے پاؤں اسلام آباد میں پھیلانے شروع کر دئے ہیں، مستقبل میں آنے والے سیلاب کا پانی ابھی ٹخنوں تک پہنچا ہے، جب یہ گردن تک پہنچے گا تو پھر،ہمارے پلاننگ کرنے والوں کو ہوش آئے گا، لیکن اُس وقت اِن کی دوسری نسل جوان ہو چکے گی بالکل اُسی طرح جیسے مغرب سے آنے والے بے خانماں برباد لوگوں کی دوسری نسل پاکستانی شناختی کارڈ بنا کر، پاکستانیوں کے ہجوم میں کھو چکی ہے لیکن جب اِس قوم کو کوئی خطرہ ہو تو یہ ایک دم کھمبیوں کی طرح اچھل کر اُگتے ہیں اور مخالفوں کے خلاف صف آرا ء ہوجاتے ہیں۔
حال میں نیٹ پر ریلیز ہونے والی یہ وڈیو ضرور دیکھئے  تو آپ  کو یقین آجائے گا ۔ کہ 1980 سے کی گئی انویسٹمنٹ کا صلہ امریکیوں کو لازماً چاھئیے ۔


http://www.yesofpakistan.com/videos/Bitter_Truth.mp4 

اتوار، 29 ستمبر، 2013

ہمت کو رکاوٹ نہیں

جمعہ ، ہفتے کی رات ،  چم چم (ہماری نواسی) نے مری سے "پزا " کھایا ۔ جو اس کی خالہ نے "بریڈ اینڈ بٹر" سے لیا ۔

رات 12 بجے، اس نے شور مچانا شروع کر دیا ۔ کہ پیٹ میں درد ہے اور اس کی ٹائلٹ پریڈ شروع ہوگئی ۔
صبح 4 بجے اس نے درد بھری آواز  میں ، بین کرنا شروع کردیا ، مجھے میری ماما یاد آرہی ہیں ۔ ان کے پاس جانا ہے ۔ میں نے اور بیوی نے ہنگامی تیاری کی اور اسلام آباد کے لئے روانہ ہوگئے ۔ چھ بجے بڑے داماد کے گھر پہنچے ۔ وہاں وہ اپنی ماما سے اس شدت سے ملی جیسے برسوں سے بچھڑی ہوئی تھی ۔
حالانکہ منگل کو اس کے شکوے " نانو ! میں آپ دونوں کو مس کر رہی ہوں " کو سن کر بیوی (نانو) کا دل پھڑک گیا ۔ چنانچہ اس کو لے کر آئے ۔ اور اب ہفتے کو واپس چھوڑنے آئے ۔ جبکہ اس کا پروگرام پورا ہفتہ رہنے کا تھا ۔ خیر اسے اس کے گھر اتار اپنے گھر پہنچے   تو معلوم ہوا کہ ، بدھ کو ہونے والی بارش کے پانی نے ، ڈرائینگ روم کو سوئمنگ پول بنا دیا ہے ۔ کیوں کہ بارش کے پانی کی نکاسی نالی میں پھولوں کی بیل کے جھڑنے والے پتے پھنس گئے تھے ۔ ۔ کارپٹ کو باہر نکالا اور ریلنگ پرڈال دیا ۔ سٹنگ روم کا کارپٹ معمولی گیلا تھا اسے چھوڑ دیا ۔  
اتوار کو ، صبح نو بجے سے میں گاڑی کی بریکیں ٹھیک کروانے کراچی کمپنی میں مستریوں ، کی مصروفیت کا شکار تھا ۔ کوئی ایک بجے موبائل نکالا ، تو معلوم ہوا کہ رات کو گھنٹی "آف" کی تھی وہ "آف" ہے ۔ ہر بچے کی دو دو کالز ، یہاں تک کہ دوبئی سے تین کالز ، بیوی کی کوئی چھ کالز ، میسج بھی سب کے موجود تھے ۔  

یارب کیا ایمر جنسی ہوگئی ؟
بیوی کو فوراً فون کیا ، مصروف ، چھوٹی بیٹی کا فون بھی مصروف ۔ کپتان صاحب کو فون کیا ۔ تو اس نے بتایا "بریکنگ نیوز" دی کہ ، ماما پریشان ہیں انہیں فون کریں ۔ میں نے پوچھا کہ خیریت ہے ۔ معلوم ہوا ۔ رات کو چھوٹی بیٹی کی ایڑی میں چوہے نے کاٹ لیا ہے ۔ 
بیٹے کا فون بند کیا تو ، بیوی کا فون آ گیا ۔ تفصیل سے خبریں نشر ہوئیں ۔ کہ رات کو سوتے ہوئے ، بیٹی کی دائیں ایڑی میں چوہے نے کاٹ لیا ۔ جو کھڑکی میں موجود شیشہ کھولنے والی درز سے آیا تھا ۔ آپ بیٹی کو فون کر لیں ۔ 
مزید تفصیلات کے لئے ، بیٹی کو فون کیا ۔ اس نے بتایا ۔ کہ رات کو سوتے میں اسے ایڑی میں کوئی چیز چبھی ہو، اس نے سمجھا کہ خواب میں ، شاید ایسا ہوا ہے ، لیکن درد کی وجہ سے آنکھیں پوری کھلیں ۔ پھرتی سے اٹھ کر لائٹ جلائی تو دیکھا کہ ایک چھ انچ لمبا ، جنگلی چوہا  پلنگ سے چھلانگ مار کر دوڑا ۔ ایڑی میں دو دو دانتوں کے چھوٹے سوراخ تھے، وہ ڈر کر دوسرے کمرے میں سو گئی ، صبح دس بجے ماں کو بتایا ، اس نے فوراً ڈاکٹر کو دکھانے کا کہا ، وہ سی ایم ایچ ، گئی وہاں فوجی ڈاکٹر نے ، حسب معمول ،   Erythrocine  اینٹی بائیوٹکس دی جو پاکستان کے کسی میڈیکل سٹور پر نہیں پائی جاتی ۔ لیکن فوج میں چل رہی ہے ۔ اور  ساتھ ہی ، ٹیٹنس کا ٹیکہ بھی لگا دیا ۔ وہ گھر آگئی ۔ میں نے پوچھا ، اس نے "اینٹی ریبیز " کیوں نہیں لگایا ۔ تو بتایا کہ اس نے کسے دوسرے ڈاکٹر کو زخم کی مکمل تفصیلات بتا کر کہا کہ Rabies  کا خطرہ نہیں ۔ 
میں نے فون بند کیا ، تو معلوم ہوا کہ اس نے اپنی سہیلی کو فون کیا اس نے بتایا کہ اس کی منجھلی بیٹی کو بھی چوہے نے کاٹا تھا ، وہ لوگ اسے فوراً شفا ء ہسپتال لے کر گئے تھے ۔ وہاں ڈاکٹر نے ، زخم کو دبا کر خون نکالا اور اسے پھر Anti-Rabbies انجکشن کا کورس کروایا ۔ 
 میں نے اپنے فیملی ڈاکٹر  سے معلوم کیا اس نے بتایا کہAnti-Rabbies  انجکشن کا کورس لازماً کروانا پڑے گا ۔ چنانچہ ہنگامی حالت کا نفاذ کرتے ہوئے ۔ گاڑی کا باقی کام رکوایا اور گھر واپس آیا، بیوی نے مالی بلوا کر پوری بیل کٹوا دی تھی ۔
خیر واپس جانے کی تیاری شروع کی ، گاڑی میں سامان رکھا ۔ اسلام آباد کے D-Watson سے  Anti-Rabbies  انجکشن کا کورس لیا ، شاپر میں برف پہلے سے ڈالی تھی ۔ اور واپس مری کے لئے روانہ ہوئے ۔ 
مری پہنچ کر میں نے بیٹی کا زخم دیکھا ، اسے ہلکا بخار تھا ، انجکشن لگایا ۔ معلوم ہوا کہ اس نے اینٹی بائیوٹکس نہیں کھائی تھی لہذا ، مال روڈ کے میڈیکل سٹور گیا ۔ وہاں سے فیملی ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوائیاں لیں ۔ جھیکا گلی پر دو میڈیکل سٹور ہیں اور دونوں ، دو نمبر داوئیاں بیچتے ہیں اور چند سکوں کی خاطر ، مریضوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں ۔ مہینہ پہلے ، میں ان کے پاس "سنی پلاسٹر " لینے گیا تھا ۔ مغرب کے وقت دونوں میڈیکل سٹور والے ،مغرب کی " نماز " کے لئے سٹور بند کر کے گئے ہوئے تھے ۔
اب گھر میں چوہے کی تلاش شروع ہوئی ، تو معلوم ہوا کہ چوہا کھڑکی کے جس راستے سے داخل ہوا تھا وہاں اس نے اپنی دو نشانیاں چھوڑی تھیں ۔ تاکہ واپس بھاگنے میں غلطی کا امکان نہ رہے ۔ چنانچہ وہ ، بخیریت بھاگنے میں کامیاب ہوا ، بیوی نے تمام ممکنہ سوراخوں پر فینائیل کی گولیاں اخبار میں لپیٹ کر سوراخ بند کر دئے ۔ لیکن ، چوہے نے رات کو دوبارہ شبخون مارنے کی کوشش کی ، بند سوراخ کو دھکہ دے کر کھولا ، اپنی نشانیاں چھوڑیں اور کمرے میں مٹر گشت کرنے کے بعد کوئی نقصان پہنچائے واپس چلا گیا ۔
اور یہ پیغام دے گیا ۔

ہمت کو رکاوٹ نہیں !


Where there is will there is Way


ہفتہ، 28 ستمبر، 2013

ایک روشن مثال بچہ

اچھے بچے ابھی سے ٹریننگ کرو تاکہ بڑے ہو کر ماہر ہو جاؤ ۔ اس کوڑے میں ایسے ایسے در نایاب چھپے ہوتے ہیں جن ، سے لوگوں کا رزق چلتا ہے :

1- جانوروں کی ہڈیاں جن سے تیل نکالا جاتا ہے ۔ صابن یا گھی بنانے کے لئے ۔
2- کاغذ اور گتا نکلتا ہے جس سے بورڈ بنائے جاتے ہیں ۔
3- پلاسٹک ۔ جس سے شاپنگ بیگ ، رنگین بوتلیں ، تم جیسے بچوں کے لئے کھلونے ۔ بنائے جاتے ہیں ۔
4- کانچ کی ٹوٹی بوتلیں ، شیشہ جن سے گلاس بنتے ہیں ۔ جو غیرب لوگ خریدتے ہیں کیونکہ وہ ٹیوناسک یا فرانسی گلاس و پلیٹ نہیں خرید سکتے ۔

پیارے بچے تم اور تم جیسے کئی اور بچے ، دنیاکے 75 فیصد انسانوں کی معاشیات کی ریڑھ کی ہڈی ہو ۔ اللہ تعالیٰ نے سب بچوں کے منہ میں سونے کا چمچہ دے کر پیدا نہیں کیا وہ چاہتا تو ایسا کر سکتا تھا ۔ لیکن پھر سونا اتنا سستا ہوجاتا کیوں ؟ کہ ، سرمایہ داروں کا یہی اصول ہے ۔ کہ غریب کے پاس جو بھی چیز ہے وہ کوڑیوں کے مول ہے ۔

ویسے بھی اگر دنیا میں سب امیر ہوجائیں تو دنیا کا نظام ٹھپ ہوجائے ۔ ایسا تو شائد جنت میں ہو ۔ لیکن وہاں جانے کے لئے کوئی شارٹ کٹ نہیں ۔ ہاں قلمی طوائفوں نے کئی شارٹ کٹ ایجاد کئے ہیں ۔ لیکن وہ یہ شارٹ کٹ اپنے بچوں کو نہیں پڑھاتے اور نہ ہی سکھاتے ہیں ۔

تم سکول جا کر کیا کرو گے ۔ تمھارا باپ تمھیں میٹرک نہیں کرا سکتا ۔ وہ میٹرک جس کو کرکے تم اس کام سے نفرت کرو گے بابو یا چپڑاسی کی نوکری ڈھونڈھو گے ، وہ تمھیں ملنے سے رہی ۔ تمھارا باپ ، اتنے پیسے کہاں سے لائے گا ؟

حکومت چاھے جتنا اعلان کرے کہ ، پاکستان کے تمام بچوں کو مفت تعلیم دلائے گی ۔ یہ اعلان ہی رہے گا ۔ لہذا اس پر کان نہ دھرو ۔ امریکی صدقہ و خیرات پر پلنے والی "این جی او" تم جیسے بچوں اور بچیوں کو تعلیم دلوانے کے نام پر پل رہی ہیں ۔ تمھاری تصویریں دکھا کر وہ یورپ، برطانیہ اور امریکہ سے بھیک مانگتے ہیں ۔ وہ بڑے ہی گھٹیا بھکاری ہیں ، جو تمھارے نام پر ، نئی گاڑیوں ، عالیشان بنگلوں ، پانچ ستارہ ہوٹلوں میں ، بھکارت کی زندگی گذار رہے ہیں ۔ ضمیر کی آواز کو دبانے کے لئے یہ عمرے کرتے ہیں ، حج کرتے ہیں اور تم جسیے بچوں کی ماؤں کو چند سلائی مشین دے کر ، فخر سے تصویریں ایسے کھنچواتے ہیں جیسے ، اپنے باپ کا مال دے رہے ہیں یا اپنی محنت کی کمائی سے انفاق فی سبیل اللہ کر رہے ہیں ۔

یہ صدقہ ، خیرات اور زکات کی کمائی بھی لوگوں سے لیتے ہیں اور اپنے ماں یا باپ کے نام پر ہسپتال بنواتے ہیں تاکہ تم جیسے ، غیرب بچوں کے بیمار ماں اور باپ کا مفت علاج کریں ۔ وہاں جانا بھی نا ، تمھاری خودی کو ٹھیس پہنچے گی ۔

شاباش اس کام میں مہارت حاصل کرو ، تمھاری جوانی پر پہنچنے تک ، کوڑے کے اس ڈھیر میں کئی گناہ اضافہ ہوگا اور اس میں سے تمھیں ایسے ایسے قیمتی نگینے ملیں جن کو بیچ کر تمھارا باپ ، شاید ایک دکان ڈال لے ۔

یہ کوڑا حقیر نہیں کیوں کہ یہ تمھارے خاندان کی معاشی ضرورت کا "کفیل" ہے ، بھیک مانگنے سے تو بہتر ہے کہ تم محنت کرو ۔

جمعہ، 27 ستمبر، 2013

پاکستانی کاغذی روپے کی کہانی

 معاشی زندگی میں زر کی اہم اقسام سونا اور چاندی ہیں۔ جن میں سونا بنیادی اکائی ہے، لہذا باقی تمام اشیاء کی قیمتوں کا تعین سونے کی مقدار سے ہوتا ہے کہ ایک تولہ سونے سے کیا کیا اشیاء کتنی مقدار میں خریدی جاسکتی تھیں / ہیں۔ گو کہ ہمارے پاس ابھی اور ماضی میں پائی جانے والی اشیاء کا سونے کے مقابلے میں تناسب موجود نہیں مگر ایک اہم نسبت معلوم ہے جو سونے اور چاندی کی ہے۔
 630 ء میں ایک تولہ سونا =7 تولہ چاندی (بحوالہ نصاب زکوۃ)
 1850 ء میں ایک تولہ سونا =16 تولہ چاندی (بحوالہ سرسید کے مضامین)
 1999 ء میں ایک تولہ سونا = 50 تولہ چاندی۔
 2004 ء میں ایک تولہ سونا = 77 تولہ چاندی۔
 2013 میں ایک تولہ سونا = 80 تولہ چاندی۔
جب سونے، نے اشرفی اور چاندی نے روپے کی شکل اختیار کی تو ایک روپے کا سکہ ایک تولہ خالص چاندی کا ڈھلا ہوتا تھا۔
 چونکہ روپیہ گردش زر میں استعمال ہوتا۔ لہذا چاندی اور سونا زر قرار پایا ۔

 سونے کی اہمیت نے اس کی ذخیرہ اندوزی میں اضافہ کیا اورآہستہ آہستہ سونے اور چاندی کے درمیان فاصلہ بڑھتا رہا۔ اگر ہم یہ کہیں کہ 630 ء میں 7 روپے(خالص چاندی) میں ایک تولہ ملنے والا سونا 2004 ء میں خالص 60 روپے(چاندی) میں اور پھر چاندی کا قد اتنا چھوٹا ہو گیا کہ اب 10 ستمبر 2013 میں ایک تولہ سونا 77 روپے(چاندی) میں ملنے لگا - آج کل کیونکہ چاندی کا روپیہ استعمال نہیں ہوتا لہذا یہ نسبت عجیب لگے لیکن یہ حقیقت ہے کیونکہ موجودہ 607 کاغذی روپے کی قیمت ایک تولہ خالص چاندی کے برابر ہے۔ ماضی میں سونا اور چاندی، سکّوں کی صورت میں استعمال ہونے لگے اور بارٹر سسٹم ختم تو نہیں ہوا بلکہ کم ہو گیا ۔ زر کی قیمتوں میں تغیر اور تبدل لازم ہے۔ چاندی کا استعمال چونکہ زیورات اور دیگر اشیاء میں ہوتا لہذا جدید معیشت دانوں نے گردش زر کے طور پر اس کا استعمال کم کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کی جگہ اعتبار زر کے طور پر تانبے، پیتل اور کانسی کے سکے بنے۔

اور بالآخر اپنی وزن کی خرابی کے باعث یہ کاغذی نوٹ میں تبدیل ہو نے لگے ۔ لیکن معیار زر اور زر ،سونا ہی رہا۔


بین الاقوامی قانون کے مطابق کوئی بھی حکومت اپنی مرضی سے کاغذی نوٹ نہیں چھاپ سکتی ۔
 جیسے 2000 کی اسمبلی میں اعظم طارق نے درخواست کی تھی کہ حکومت کافی نوٹ چھاپے اور غریبوں کو دے ، تاکہ مہنگائی جو اُن کی کمر توڑ رہی ہے اُس پر قابو پایا جاسکے ۔ 
ہم جب چھوٹے تھے تو یہی خواب تھا ، کہ بڑے ہوکر نوٹ چھاپنے کی مشین بناؤں گا اور خوب نوٹ چھاپوں گا اور صرف اپنی بہنوں اور بھائیوں کے علاوہ غریبوں کو دوں گا ۔
 پھر ایک وقت آیا کہ کاغذی نوٹ ، اعتبارِ زر سے میعارِ زر کے عہدے پر ترقی پاگئے ۔
 یوں 1945 کی جنگِ عظیم کے بعد کاغذی نوٹوں کی بہتات ہوگئی ، جس میں برطانوی پونڈ کو سبقت حاصل تھی ۔ جو 2442 ڈالر کے برابر تھا۔
 1945 برصغیر میں 100 برطانوی پونڈ تنخواہ لینے والا ، 2,44,200 برطانوی ڈالر لیتا تھا ۔
 1946 میں ایک ہندوستانی برطانوی روپیہ ، 12.17 امریکی ڈالر کے برابر تھا ۔
 14 اگست 1947 کے بعد ہندوستانی برطانوی روپیہ ، پاکستان میں بھی استعمال ہونا شروع   ۔ چنانچہ ایک ہندوستانی برطانوی برطانوی روپیہ ، 1 امریکی ڈالر کے برابر ہو گیا تھا ۔ 
   یکم جولائی  1948 میں    ، ہندوستانی برطانوی روپیہ ، پر پاکستان کا لفظ چھاپنے سے ۔ 1 امریکی ڈالر   3.3085 روپے کے برابر ہوگیا۔ کیوں کہ وہ برطانوی میعارِ زر سے تبدیل ہو کر پاکستانی میعار زر میں تبدیل ہوگیا ۔
 یاد ہے نا کہ ریزرو بنک آف انڈیا جس نے  سنٹرل بنکنگ اتھارٹی کے طور پر 30 ستمبر تک کام کرنا تھا،   30 جون 1948  کو اُس کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کر دیا گیا اور     یکم جولائی  1948 کو سٹیٹ بنک آف پاکستان کا افتتاح قائد اعظم محمد علی جناح کے ہاتھوں ہوا۔
اور پاکستان نے خالص اپنا نکل سے بنا ہوا روپیہ کا سکہ جاری کیا ۔
 تو دوستو ! میری پیدائش کے سال بعد تک یعنی 1954 تک ،  1 امریکی ڈالر   3.3085 روپے کے برابر ہی رہا اور 1855 میں یہ       3.9141 روپے ہو گیا ۔  

ڈالر آہستہ آہستہ آگے نکلتا رہا اور روپیہ ہانپتا کانپتا اُس کے برابر پہنچنے کی کوشش کرتا رہا ۔ لیکن  وزن تو نہیں ہاں ، انڈر نیوٹریشن رہنے کی وجہ سے  اب یعنی 2013 میں ،     1 امریکی ڈالر   101.6290 روپے کا ہے اور شاید جس طرح پاکستان کے حالات ہیں ، اپوزیشن کی تلملاہٹ کی وجہ سے  سننے میں آیا ہے کہ ڈالر   کے قد میں مزید اضافہ ہو لیکن پاک چائینا کوریڈور کی وجہ سے  ، ڈالر کا مزید پھیلنا رُک جائے ۔
چلیں چھوڑیں آئیں آپ کو دکھاتے ہیں پاکستان کے کرنسی نوٹ  کا ارتقاء:
٭-  1947 تا 1971 ۔ وحدتِ(مشرقی و مغربی) پاکستان    کی کرنسی ۔
 

٭-  1971  تا حال ۔  پاکستان    کی  اضافی کرنسی ۔


٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 ٭- ڈالر کے پیچھے پاکستانی   روپیہ  کی دوڑ
٭ ۔  پاکستانی   سکہ ،روپیہ اور کوڑی 

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔