Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

بدھ، 25 ستمبر، 2013

کتاب اللہ اور تصور ملکیت ۔ حصہ 3

موجودہ زمانے میں، مال کو چار قابل ذکر اقسام میں تقسیم کیا ہے۔
٭۔  اباحت اور حرمت کے لحاظ سے۔
کسی شے کا استعمال حرام ہو  یا  مباح  اورجائز ہو ۔  لہذا ان صورتوں کے پیش نظر  مال کو دو اقسام میں تقسیم  کیا جا سکتا ہے ۔

٭۔ مال متقوم : وہ مال ہے جس کی معاشرے میں کوئی قیمت اور منفعت  ہو۔ جن کی ان کے چوری ہونے کے خدشے کے پیش نظر حفاظت کی جاتی ہو۔
٭۔ مال  غیر متقوم : وہ مال ہے جس کی معاشرے میں کوئی قیمت نہ ہو۔ جن کی حفاظت نہ  کی جاتی ہو۔  مثلاً کھلے سمندر میں تیرنے والی مچھلیاں،  ہوا  میں اڑنے والے آزاد پرندے،  زیر زمین پائے جانے والے معدنی ذخائر(بشرطیکہ یہ کسی دوسرے ملک کی جغرافیائی حدود کے اندر نہ ہوں)۔
 
2- حرکت و تغیر کے لحاظ سے:
٭۔  منقولہ ۔ ایسے تمام  متقوم اموال جو ایک جگہ سے دوسری جگہ بآسانی لے جائے جا سکیں۔ چاہے منتقلی  کے عمل میں ان کی ہیت تبدیل ہو جائے یا وہی رہ (مثلاً پھلوں کا ایک جگہ سو دوسری جگہ جاتے ہوئے پک جانا)۔ سودا خوا ہ تحریری طور پر ہو ا ہو یا زبانی  ہر دو صورت میں سودے کے مکمل ہو جانے کے بعد مالک کی مرضی ہے کہ وہ مال منقولہ پہلے مالک کے گودام میں پڑا رہنے دے یا وہاں  سے کہیں اور منتقل کرا لے۔ وہ اس مال کو کہیں اور منتقل کرانے سے پہلے کسی اور کو بیچ بھی سکتا ہے۔  
٭-غیر منقولہ  (عقّار)۔ ایسے تمام  متقوم اموال جو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل نہ ہوسکیں۔  جیسے،کھیت، مکانات، اور کھڑے درخت۔ ان اشیاء کو ”عقار“  بھی کہتے ہیں ۔  شفعہ اور پڑوس کے حق  تصرف ”عقار“ کے ساتھ منسلک ہیں ۔ بیع الوفا کا معاہدہ بھی صرف  ”عقار“  کی صورت میں واقع ہو سکتا ہے۔
3- قدر (Value) کے لحاظ سے:
٭۔  مثلی ۔ وہ تمام اشیاء جن کی متماثل اشیاء مارکیٹ میں موجود ہوں۔کسی نقصان کی صورت میں وہی اشیا ء  بلحاظ حجم، وزن،  تعداد  یا پیمائش دی جاسکے۔  
٭۔   قیمی  ۔وہ  تمام اشیاء جن کی متماثل اشیاء مارکیٹ میں موجود نہ  ہوں اور کسی نقصان کی صورت میں وہی اشیا ء  بلحاظ حجم، وزن، تعداد  یا  پیمائش نہ دی جاسکے  البتہ جن کی ادائیگی  سکہ رائج الوقت میں ہو سکے۔
4- استعمال کے لحاظ سے:
٭۔  اشیائے صرف، دوران استعمال( صرف ہو ) جانے والا   مال(Expendable items) 
ایسا مال جو استعمال ہو کر ختم ہو جائے  یعنی جس کا منافع اس کا  خرچ ہے ۔ مثلاً غذائی اشیاء، تیل صابن، کاغذ  اور پیٹرول وغیرہ۔  
٭۔ محض استعمال( صرف )  ہونے    والا   مال(Usable items) 
جو ما ل منفعت حاصل کرنے کے عمل میں صرف نہ ہو بلکہ باقی رہے ۔ البتہ وقت کے لحاظ سے ان کی بوسیدگی (Depreciation)  میں اضافہ ہو۔ مثلاً کتابیں، کپڑے، مشینیں، گاڑیاں، فرنیچر وغیرہ۔ تجارت اور قرض، کے معاہدات صرف استعمالی مال کے بارے میں کئے جا سکتے ہیں۔  

٭۔         ایک سوال، مال کے بارے میں اسلام کا بنیادی تصور کیا ہے ؟
        اسلام ،ایک عام فہم لفظ ہے جو آج کل زیادہ بولا جاتا ہے، کہ

 فلاں بارے میں اسلام کیا کہتا ہے ؟
  جبکہ اسلا م بذات خود کچھ نہیں کہتا ۔
روح القدّس  نے محمدﷺ کو الکتاب میں جو اللہ کے احکام بتائے ہیں ، اُس پر عمل کرنا اسلام ہے ۔

اب الکتاب  کے سامنے کسی فرد کی خواہ وہ صداقت اور تقویٰ کی منزل پر کیوں نہ ہو رائے قابل قبول نہیں ہو سکتی اور نہ ہم اسے قابل تقلید کہ سکتے ہیں ۔
 اگر ہم نے ایسا کیا تو ہم اللہ کے اس قول کے منکر ہوں گے۔
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَن کَانَ یَرْجُو اللَّہَ وَالْیَوْمَ الْآخِرَ وَذَکَرَ اللَّہَ کَثِیْراً (33/21)
 

حقیقت میں تمھارے لئے رسول اللہ میں اسوۃ حسنہ ہے۔ جو اللہ اور یوم الاخر کے لئے رجوع کرتا ہے اور اللہ کی نصیحت (کتاب اللہ میں سے) کثرت سے کرتاہے۔ 
 
٭۔    اسوہ ء رسول پر عمل کرنے کے بارے میں خود  اللہ نے رسول اللہ سے کہلوایا ۔
قُل لاَّ أَقُولُ لَکُمْ عِندِیْ خَزَآءِنُ اللّہِ وَلا أَعْلَمُ الْغَیْْبَ وَلا أَقُولُ لَکُمْ إِنِّیْ مَلَکٌ إِنْ أَتَّبِعُ إِلاَّ مَا یُوحَی إِلَیَّ
 کہہ!  

٭۔    نہ میں تم سے کہتا ہوں میرے پاس  اللہ کے خزانے (علم یا مال)     ہیں !
٭۔    نہ یہ کہ میں عالم الغیب ہوں۔
٭۔    نہ میں تم سے کہتا ہوں کہ میں ملک ہوں۔
٭۔    میں تو اسی کی اتباع کرتا ہوں جو مجھ پر وحی ہوئی۔


قُلْ ہَلْ یَسْتَوِیْ الأَعْمَی وَالْبَصِیْرُ أَفَلاَ تَتَفَکَّرُونَ
(6/50)

 کہہ!
٭۔    کیا بے بصیرت اور با بصیرت دونوں برابر ہو سکتے ہیں۔
٭۔     کیا تم تفکر نہیں کر سکتے؟

     ہم بھی اسوہ ء رسول پر عمل کرتے ہوئے اسی کی اتباع کرتے ہیں جو کتاب اللہ میں مال کے بارے میں اللہ نے مال کے بارے میں ایک مومن کو بنیادی تصور بتایا ہے
 
إِنَّمَا أَمْوَالُکُمْ وَأَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ وَاللَّہُ عِندَہُ أَجْرٌ عَظِیْمٌ ( 64/15)
 

بے شک تمھارے اموال اور اولاد فتنہ ہیں اور اللہ کے نزدیک اجر عظیم ہے –

فَاتَّقُوا اللَّہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوا وَأَطِیْعُوا وَأَنفِقُوا خَیْراً لِاّئَنفُسِکُمْ وَمَن یُوقَ شُحَّ نَفْسِہِ فَأُولَـٰئِكَہُمُ الْمُفْلِحُونَ (64/16 )
 پس اللہ سے ڈرو جتنا ہو سکے اور سنو اور اطاعت کرو اور اور اپنے نفسوں کے لئے خیر انفاق کرو اور جو کوئی بچ گیا نفس کی بخیلی سے۔ پس وہی فلاح پانے والے ہیں۔
٭۔ حیرت کی بات ہے کہ کائینات کے خزانوں کا مالک۔ اپنی مخلوق سے قرضہ مانگ رہا ہے۔

  مَّن ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضاً حَسَناً فَیُضَاعِفَہُ لَہُ أَضْعَافاً کَثِیْرَۃً وَاللّٰہُ یَقْبِضُ وَیَبْسُطُ وَإِلَیْہِ تُرْجَعُونَ
(2/245)
 

ہے کوئی جو اللہ کو قرض حسنہ دے؟ اور وہ اس کے لئے اس کو کئی گناہ کر دے۔ اور اللہ قبض کرتا ہے اور بصط کرتا ہے اور اس کی رجوع ہے۔
إِن تُقْرِضُوا اللَّہَ قَرْضاً حَسَناً یُضَاعِفْہُ لَکُمْ وَیَغْفِرْ لَکُمْ وَاللَّہُ شَکُورٌ حَلِیْمٌ (64/17)

  اگر تم اللہ کو قرض حسنہ دو وہ تمھارے لئے اس کو دگنا کر دے گا اور تمھاری مغفرت(بھی) کرے گا اور اللہ شکور اور حلیم ہے۔

مَّثَلُ الَّذِیْنَ یُنفِقُونَ أَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنبُلَۃٍ مِّءَۃُ حَبَّۃٍ وَاللّٰہُ یُضَاعِفُ لِمَن یَشَاء ُ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ (2/261)   
جو لوگ فی سبیل اللہ اپنے مال انفاق کرتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے حبہ (بیج) کی مثال، جب اگتا ہے تو اس میں سات بالیاں ہوتی ہیں اور ہر بالی میں سو حبہ(بیج)۔ اور اللہ  کئی گناہ(1=700) کرتا ہے اپنی مرضی کے ساتھ۔ اور اللہ واسع اور علیم ہے۔
وَأَنفِقُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلاَ تُلْقُواْ بِأَیْدِیْکُمْ إِلَی التَّہْلُکَۃِ وَأَحْسِنُوَاْ إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ (2/195)-
O
اور اللہ کی راہ میں انفاق کرو اور اپنے ہی ہاتھوں سے(انہیں روک کر) خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ بے شک اللہ محسنیں سے محبت کرتا ہے۔ 
٭۔   اللہ کو اس سے غرض نہیں کہ تمھارے حاکم تم سے رویوں میں کیسا برتاؤ رکھتے ہیں۔ البتہ وہ اِس عمل کا ضرور ردعمل ظاہر کرتا ہے جو وہ اپنی قوم کے ساتھ ” فی سبیل اللہ انفاق“ کا رویہ کیسے رکھتے ہیں۔ زبانی دعوے کرتے ہیں یا حقیقت میں  ” فی سبیل اللہ انفاق“  کرتے ہیں۔
 ہَاأَنتُمْ ہَؤُلَاء  تُدْعَوْنَ لِتُنفِقُوا فِیْ سَبِیْلِ اللَّہِ فَمِنکُم مَّن یَبْخَلُ وَمَن یَبْخَلْ فَإِنَّمَا یَبْخَلُ عَن نَّفْسِہِ وَاللَّہُ الْغَنِیُّ وَأَنتُمُ الْفُقَرَاء  وَإِن تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَیْرَکُمْ ثُمَّ لَا یَکُونُوا أَمْثَالَکُمْ (47/38)-
O
آگاہ رہو تم وہ لوگ ہو! جنہیں دعوت دی جاتی ہے کہ فی سبیل اللہ انفاق کرو تو تم میں سے کچھ بخل کرتے ہیں۔ پس جو بخل کرتا ہے اپنے نفس سے (بخل کرتا ہے) اور اللہ تو غنی ہے اور تم فقراء ہو۔ اور اگر تم (دعوتِ انفاق فی سبیل اللہ سے) رکے رہو گے تو وہ(اللہ) تمھیں غیر قوم سے تبدیل کر دے گا اور وہ تمھاری طرح (بخیل) نہ ہوں گے۔
 ” فی سبیل اللہ انفاق“  سے پہلو تہی کروانے کے لئے اپنی  انسانی راہنمائی کی کتابوں میں، ” ابواب و حیلہ و جوازات “  تحریر کرواتے ہیں اور اِس کو،  محمد الرسول اللہ کی طرف یہ کہہ کر منسوب کرواتے ہیں کہ ”یہ شریعت ِ محمدیہ“ میں ہے۔

 جب کہ، محمد الرسول اللہ نے الاعلان انسانوں سے جو کہا ہے۔
وَإِذَ أَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ لَتُبَیِّنُنَّہُ لِلنَّاسِ وَلاَ تَکْتُمُونَہُ فَنَبَذُوہُ وَرَاء  ظُہُورِہِمْ وَاشْتَرَوْاْ بِہِ ثَمَناً قَلِیْلاً فَبِءْسَ مَا یَشْتَرُونَ (3/187)- O
 اور جب اللہ نے ان لوگوں سے میثاق لیا جنہیں ”الکتاب“ ایتاء کی تا کہ وہ اسے لوگوں کے لئے بیان کریں اور اسے مت چھپائیں۔ پس انہیں نے اسے (الکتاب کو) پسِ پشت پھینک دیا  اور اس کے بدلے تھوڑے مول کا سودا کیا  پس انہوں نے کیا ہی برا سودا کیا۔
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ إِنَّ کَثِیْراً مِّنَ الأَحْبَارِ وَالرُّہْبَانِ لَیَأْکُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَیَصُدُّونَ عَن سَبِیْلِ اللّہِ وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُونَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلاَ یُنفِقُونَہَا فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ فَبَشِّرْہُم بِعَذَابٍ أَلِیْمٍ (9/34)-
O
اے ایمان والو! بے شک الاحبار(Doctors of Law)اور رہبان میں سے اکثر سبیل اللہ سے روکتے ہیں تاکہ وہ الناس کے اموال باطل کے ساتھ کھائیں۔ اور وہ لوگ جو الذھب اور الفضہ کا ذخیرہ کرتے ہیں اور انہیں فی سبیل اللہ انفاق نہیں کرتے، پس انہیں عذاب الیم کے ساتھ بشارت  دو۔

الَّذِیْنَ یَبْخَلُونَ وَیَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَیَکْتُمُونَ مَا آتَاہُمُ اللّٰہُ مِن فَضْلِہِ وَأَعْتَدْنَا لِلْکَافِرِیْنَ عَذَاباً مُّہِیْناً (4/37)-
O
اور وہ لوگ جو بخل کرتے ہیں اور لوگوں کو بخل کرنے کا امر کرتے ہیں (حیلے و جوازات بتاتے ہیں) اور جو اللہ نے ان کواپنے فضل میں سے  ایتاء کیا اس کو چھپاتے ہیں۔  اور ہم نے کافرین کے لئے عذاب مھین تیار کر رکھا ہے۔

فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَکْتُبُونَ الْکِتَابَ بِأَیْْدِیْہِمْ ثُمَّ یَقُولُونَ ہَ ذَا مِنْ عِندِ اللّٰہِ لِیَشْتَرُواْ بِہِ ثَمَناً قَلِیْلاً فَوَیْلٌ لَّہُم مَّمَّا کَتَبَتْ أَیْدِیْہِمْ وَوَیْلٌ لَّہُمْ مَّمَّا یَکْسِبُونَ
(2/79)-
O   

 افسوس اُن لوگوں پر! جو ”الکتاب“ اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں اور کہتے ہیں،”یہ (الکتاب) اللہ کی طرف سے ہے“  تاکہ اُس پر وہ چند ٹکے کما سکیں، افسوس اُن کے لئے جو انہوں نے لکھا! افسوس اُن کے لئے جو اُنہوں نے کسب کیا۔  O

٭۔ اپنی لکھی ہوئی کتابوں سے وہ اس طرح پڑھتے ہیں کہ جیسے الکتاب کی تلاوت کر رہے ہوں۔
وَإِنَّ مِنْہُمْ لَفَرِیْقاً یَلْوُونَ أَلْسِنَتَہُم بِالْکِتَابِ لِتَحْسَبُوہُ مِنَ الْکِتَابِ وَمَا ہُوَ مِنَ الْکِتَابِ وَیَقُولُونَ ہُوَ مِنْ عِندِ اللّٰہِ وَمَا ہُوَ مِنْ عِندِ اللّٰہِ وَیَقُولُونَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ وَہُمْ یَعْلَمُون (3/78)-
O   

 اور ان میں سے ایک فرقہ، اپنی بولی کو الکتاب کے ساتھ اس طرح  ملاتا ہے کہ تم اُ س کو الکتاب میں شمار کرو جبکہ وہ الکتاب میں نہیں ہے  اور وہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے نزدیک ہے، جبکہ وہ اللہ کے نزدیک نہیں اور وہ اللہ پر الکذب کہ رہے ہیں۔ اور وہ اِس(الکذب) کا علم رکھتے ہیں۔
 ٭۔  جب ہی توھادوا،  الاحبار(Doctors of Law)، ربانیوں اور رہبان  کی لکھی ہوئی کتابوں میں ”ریب“ ہے اسی لئے ہر نیا، ہادو، حبر، ربّانی اور راہب،(ڈرانے والا)، ماضی کے  ”ریب“  ٹھیک کرنے  کے لئے ایک ”الکتاب“ لکھ دیتا ہے اور دعوے سے کہتا ہے کہ یہ "کتاب اللہ" کے بعدسب سے صحیح کتاب ہے (اصح الکتاب بعد الکتاب اللہ)، اس طرح اللہ کے کے دین میں ایک نئے فرقے اور  شریعت کا اضافہ ہو جاتا ہے،  کیوں کہ "کتاب اللہ" ہماری ساری کائنات ہے ۔ جس میں اللہ کے کلمات ، "کن"  ہو کر "فیکن " ہوتے جارہے ہیں ۔
جب کہ اللہ کی نباء جو محمد الرسول اللہ نے ہمیں دی ہے:۔

شَرَعَ لَکُم مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصَّی بِہِ نُوحاً وَالَّذِیْ أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہِ إِبْرَاہِیْمَ وَمُوسَی وَعِیْسَی أَنْ أَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِیْہِ کَبُرَ عَلَی الْمُشْرِکِیْنَ مَا تَدْعُوہُمْ إِلَیْہِ اللَّہُ یَجْتَبِیْ إِلَیْہِ مَن یَشَاء ُ وَیَہْدِیْ إِلَیْہِ مَن یُنِیْب  (42/13)-
O 

  تمھارے لئے دین میں ”شرع“ جو ہم نے وصیت کی نوح کو اور وہ جو ہم نے وحی کی تیری طرف، اور جو ہم نے  اِس کو وصیت کیا، ابراہیم، اور موسیٰ اور عیسیٰ کو، یہ کہ وہ الدین قائم رکھیں اوروہ تفرقہ نہ کریں۔ منافقوں کے لئے (یہ وصیت)  کُبر (گراں)  ہے جس کی طرف تم اُن کو دعوت دیتے ہو۔ اللہ اپنی طرف اجتباء(توجہ) دلاتا ہے اپنی یشاء سے اور وہ اپنی طرف ھدایت کراتا ہے جس کا  نِیبُ (دھیان)  ہے۔

ہُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ (9/33)-
O
 وہ، جس نے اپنے رسول کو ارسال کیا الھدی اور دین الحق کے ساتھ تاکہ وہ (رسول)  اُن کے لئے دین پر مکمل (کاملیت کے ساتھ)  ظاہر ہو،  خواہ  وہ (کاملیت) مشرکوں کے لئے کراہت ہو۔
إِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُواْ دِیْنَہُمْ وَکَانُواْ شِیَعاً لَّسْتَ مِنْہُمْ فِیْ شَیْء ٍ إِنَّمَا أَمْرُہُمْ إِلَی اللّہِ ثُمَّ یُنَبِّءُہُم بِمَا کَانُواْ یَفْعَلُونَ (6/159)- O  

بے  شک وہ لوگ جنہوں نے اپنے دین میں فرقہ کیا اور وہ  شیعا ہو گئے ۔ اُن کا کسی شئے میں کچھ نہیں، بے شک اُن کا امر اللہ پر ہے۔ پھر ہم انہیں اُن کے ہونے والے افعال کی خبر دیں گے۔
وَأَنزَلْنَا إِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقَّ مُصَدَّقاً لَّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتَابِ وَمُہَیْمِناً عَلَیْہِ فَاحْکُم بَیْنَہُم بِمَا أَنزَلَ اللّٰہُ وَلاَ تَتَّبِعْ أَہْوَاء ہُمْ عَمَّا جَاء کَ مِنَ الْحَقَّ لِکُلًّ جَعَلْنَا مِنکُمْ  شِرْعَۃً وَمِنْہَاجاً وَلَوْ شَاء  اللّٰہُ لَجَعَلَکُمْ أُمَّۃً وَاحِدَۃً وَلَ کِن لَّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَا آتَاکُم فَاسْتَبِقُوا الخَیْرَاتِ إِلَی اللّٰہ مَرْجِعُکُمْ جَمِیْعاً فَیُنَبَّءُکُم بِمَا کُنتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُونَ (5/48)-  

 اور ہم نے تجھ پر حق کے ساتھ (ایک)  الکتاب! نازل کی، تصدیق کرتی ہے الکتاب میں سے جو ہاتھوں میں موجود ہے۔ وہ اُس پر محافظ بھی ہے۔ پس حکم کر ان کے درمیان جو اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے تیرے پاس حق آنے کے بعد ان کی خواہشات کی اتباع نہ کر  تم میں ہر ایک کے لئے ہم نے”ایک شریعت اور ایک منھاج“ دی ہے  اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں ایک امت بنا دیتا لیکن جو اس نے تمھیں دیا آزمائش ہے تمھاری پس الخیرات کے کاموں میں سبقت لو تم سب اللہ کر طرف لوٹنے والے ہو پھر وہ تمھیں ان کی اطلاع دے گا جن میں تم اختلاف کرتے تھے ۔ 

إِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُونَ بِاللّٰہِ وَرُسُلِہِ وَیُرِیْدُونَ أَن یُفَرِّقُواْ بَیْنَ اللّٰہِ وَرُسُلِہِ وَیْقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَکْفُرُ بِبَعْضٍ وَیُرِیْدُونَ أَن یَتَّخِذُواْ بَیْنَ ذَلِکَ سَبِیْلاً (4/150)- 
 

بے  شک وہ لوگ جو اللہ اور اُس کے رسولوں کا کفر کریں گے (کرتے ہیں) اور چاہیں گے (چاہتے ہیں)  کہ وہ اللہ اور اُس کے رسولوں میں (اپنی لکھائیوں یا اقوال سے)  فرق کریں اور وہ کہتے ہیں ہم بعض کا ایمان لاتے ہیں اور ہم بعض کا کفر کرتے ہیں اور وہی چاہیں گے (چاہتے ہیں) کہ وہ درمیانی رہ اختیار کریں۔

آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَیْہِ مِن رَّبِّہِ وَالْمُؤْمِنُونَ کُلٌّ آمَنَ بِاللّٰہِ وَمَلآءِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ لاَ نُفَرِّقُ بَیْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِہِ وَقَالُواْ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَإِلَیْکَ الْمَصِیْرُ (2/285)-
O 

 ایمان لایا الرسول جو اُس کی طرف نازل ہوا اور المومنون، سب اللہ پر اور اُس کے ملائکہ پر اور اُس کی کتب پر اور اُس کے رسولوں پر اور وہ اُس کے رسولوں میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے اور وہ کہتے ہیں ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی، اے ہمارے ربّ  تو ہماری مغفرت کر اور تیر ی طرف الْمَصِیْر ہے۔

تَبْصِرَۃً وَذِکْرَی لِکُلِّ عَبْدٍ مُّنِیْبٍ (50/8)-
O
  ہر ایک دھیان  دینے والے، عبد کے لئے، ایک تبصرہ اور میرا ذکر ہے

ذَلِکَ الْکِتَابُ لاَ رَیْبَ فِیْہِ ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ
O
وہ ”الکتاب“  اُس میں کوئی ریب نہیں ۔  المتقین کی ہدایت کے لئے


٭٭٭٭تمت بالخیر  ٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔