Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 30 دسمبر، 2023

زمین میں چُھپے خزانے

 پاکستان زیرِ زمین پانی کی ایکوئفر کے لحاظ سے دُنیا کی سپر پاور ہے۔ دنیا کے 193 ممالک میں سے صرف تین ممالک چین، انڈیا اور امریکہ پاکستان سے بڑی ایکوئفر رکھتے ہیں۔دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کے میدانی علاقوں کے نیچے یہ ایکوئفر 5 کروڑ ایکڑ رقبے پر سے زیادہ علاقے پر پنجاب اور سندھ میں پھیلی ہوئی ہے۔

 در حقیقت پاکستان کے مردہ ہوتے دریاؤں اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث آنے والے سیلابوں یا قحط کے خطرے کے سامنے یہ ایکوئفر ہی ہماری آخری قابلِ بھروسہ ڈھال ہے جس کے سینے میں ہم نے دس لاکھ سے زیادہ چھید (ٹیوب ویل ) کر رکھے ہیں اور ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

 یہ ایکوئفر اتنی بڑی ہے کہ پاکستان کے سارے دریاؤں کا پانی اپنے اندر سما سکتی ہے۔ یہ آپ کے تربیلا ڈیم جتنی ایک درجن جھیلوں سے زیادہ پانی چُوس لے گی اور اسے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

 پاکستان اس وقت دُنیا میں زمینی پانی کو زراعت کے لئے استعمال کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔ آپ کی زراعت میں آدھے سے زیادہ پانی (50ملئین ایکڑ فٹ) اس ایکوئفر سے کھینچا جارہا ہے۔دریائے سندھ کے نہری نظام سے کبھی سال میں ایک فصل لی جاتی تھی ، آج ہم تین تین فصلیں لے رہے ہیں۔

 آبادی کے دباؤ کی وجہ سے زرعی اور صنعتی مقاصد کے لئے بے تحاشا پانی ٹیوب ویلوں سے کھینچنے کی وجہ سے یہ ایکوئفر نیچے جانا شروع ہوچکی ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بنک کے مطابق پاکستان تقریباً 500 کیوبک میٹر پانی فی بندہ کے حساب سے زمین سے کھینچ رہا ہے جو کہ پورے ایشیا میں بہت زیادہ ہے۔

 اس ایکوئفر کے اوپر سندھ اور پنجاب کے علاقے میں صرف مون سون کے تین مہینوں میں 100 ملئین ایکڑ فٹ تک پانی برس جاتا ہے۔ یہ ایکوئفر ہزاروں سال سے قدرتی طور پر ری چارج ہورہی تھی لیکن ہم نے کنکریٹ کے گھر اور اسفالٹ کی سڑکیں بناکر پانی کے زمین میں جانے کا قدرتی راستہ کم سے کم کردیا ہے۔ 

بارش کا پانی سب سے صاف پانی ہوتا ہے لیکن یہ ری چارج ہونے کی بجائے فوری طور پر سڑکوں ، سیوریج لائنوں اور گندے نالوں کے ذریعے گٹر والے پانی میں بدل جاتا ہے جس سے نہ صرف اس کی کوالٹی بدتر ہوجاتی ہے بلکہ یہ سیلابی پانی بن کر شہروں کے انفراسٹرکچر اور دیہاتوں کو فلیش فلڈنگ سے نقصان پہنچاتا ہے۔

 تاہم اگر اس پانی کو اکٹھا کرکے زیرزمین پانی کوری چارج کرنے کا بندوبست کیا جائے تو نہ صرف اربن فلڈنگ اور فلیش فلڈنگ پر قابو پایا جاسکتا ہے بلکہ بڑے بڑے ڈیم بنائے بغیر بہت زیادہ پانی بھی ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔

 لہٰذا فوری طور پر آبادی والے علاقوں میں ری چارج کنویں، ڈونگی گراونڈز، ری چارج خندقیں ، تالاب، جوہڑ بنانے پر زور دیا جائے جب کہ نالوں اور دریاؤں میں ربڑ ڈیم اور زیرزمین ڈیم بنا کر مون سون کے دوران بارش اور سیلاب کے پانی کو زیرِزمین ری چارج کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے راوی اور ستلج دریا کے سارا سال خشک رہنے والے حصے، پرانے دریائے بیاس کے سارے راستے اور نہروں اور دوآبوں کے زیریں علاقے انتہائی موزوں جگہیں ہیں۔ 

اس طرح پانی ذخیرہ کرنے کے فوائد کیا ہوں گے؟

٭۔ بڑے ڈیموں کی جھیلیں آہستہ آہستہ مٹی اور گادھ سے بھر جاتے ہیں جب کہ زیرِ زمین ایکوئفر میں پانی فلٹر ہو کر جاتا ہے لہٰذا یہ ہمیشہ کے لئے ہیں ۔

٭۔  ایکوئفر سے پانی بخارات بن کر نہیں اڑ سکتا۔
٭۔کسی بھی قسم کی آبادی یا تنصیبات کو دوسری جگہ منتقل نہیں کرنا پڑے گا جیسا کہ پانی کے دوسرے منصوبوں میں کرنا پڑتا ہے۔
٭۔ جب اور جہاں ضرورت ہو یہ پانی نکالا جا سکے گا۔
٭۔ پانی کی کوالٹی بھی جھیل میں کھڑے پانی سے بہتر ہوگی۔ ہمارے صنعتوں میں 100 فی صد پانی زیرزمین استعمال ہوتا ہے اور پھر یہ لوگ پانی استعمال کرنے کے بعد بغیر اسے صاف کئے واپس زمین میں یا نالوں میں پانی گندا کرنے کے لئے چھوڑ دیتےہیں۔

اگر ابتدا صنعتوں سے ہی کرکے ان کو پمپ کئے گئے پانی کی مقدار کے برابر پانی ری چارج کرنے کی سہولیات بنانے کا پابند بنایا جائے تو یہ ایک اچھا آغاز ہوگا جس کے بعد میونسپیلیٹی اور ضلع کی سطح پر کام کیا جاسکتا ہے۔

 موجودہ پانی کے تناؤ کی صورت حال، بھارت کی طرف سے دریاؤں کے خشک کرنے، سیلابوں اور قحط کے سامنے نظر آتے خطروں کے خلاف زمینی پانی ہی ہمارے بچاؤ کی آخری صورت ہے۔ زمین میں چھپے اس خزانے کو ری چارج کرنا ضروری ہے۔

انجنئیر ظفر وٹو 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 

جمعہ، 22 دسمبر، 2023

تاریخ کا سب سے بڑا انسانی معجزہ ۔" CERN "

 سوئٹزرلینڈ اور فرانس دونوں نے مل کر لیبارٹری بنانا شروع کی‘ یہ لیبارٹری سرن کہلاتی ہے‘ یہ کام دو ملکوں اور چند سو سائنس دانوں کے بس کی بات نہیں تھی چنانچہ آہستہ آہستہ دنیا کے 38 ممالک کی 177 یونیورسٹیاں اور فزکس کے تین ہزار پروفیسر اس منصوبے میں شامل ہو گئے‘
سائنس دانوں نے پہلے حصے میں زمین سے 100 میٹر نیچے 27کلو میٹر لمبی دھاتی سرنگ بنائی۔
اس سرنگ میں ایسے مقناطیس اتارے جو کشش ثقل سے لاکھ گنا طاقتور ہیں‘
مقناطیس کے اس فیلڈ کے درمیان دھات کا 21 میٹر اونچا اور 14 ہزار ٹن وزنی چیمبر بنایا گیا‘ یہ چیمبر کتنا بھاری ہے ؟
دنیا کے سب سے بڑے دھاتی اسٹرکچر کا وزن 7 ہزار تین سوٹن ہے‘ سرن کا چیمبر اس سے دگنا بھاری ہے‘ اس چیمبر کا ایک حصہ پاکستان کے ہیوی مکینیکل کمپلیکس میں بنا اور اس پر باقاعدہ پاکستان کا جھنڈا چھاپا گیا‘
سائنس دانوں کے اس عمل میں چالیس سال لگ گئے‘
یہ چالیس سال بھی ایک عجیب تاریخ رکھتے ہیں۔
ملکوں کے درمیان اس دوران عداوتیں بھی رہیں اور جنگیں بھی ہوئیں لیکن سائنس دان دشمنی‘ عداوت‘ مذہب اور نسل سے بالاتر ہو کر سرن میں کام کرتے رہے‘ یہ دن رات اس کام میں مگن رہے‘ سائنس دانوں کے اس انہماک سے بے شمار نئی ایجادات سامنے آئیں مثلاً انٹرنیٹ سرن میں ایجاد ہوا تھا‘ سائنس دانوں کوآپس میں رابطے اور معلومات کے تبادلے میں مشکل پیش آ رہی تھی چنانچہ سرن کے ایک برطانوی سائنس دان ٹم برنرزلی نے 1989ء میں انٹرنیٹ ایجاد کر لیا یوں www(ورلڈ وائیڈ ویب) 
سرن میں ’’پیدا‘‘ ہوا اور اس نے پوری دنیا کو جوڑ دیا۔
سی ٹی اسکین اور ایم آر آئی بھی اسی تجربے کے دوران ایجاد ہوئیں ‘ سرن میں اس وقت بھی ایسے سسٹم بن رہے ہیں جو اندھوں کو بینائی لوٹا دیں گے‘ ایک چھوٹی سی چپ میں پورے شہر کی آوازیں تمام تفصیلات کے ساتھ ریکارڈ ہو جائیں گی‘ ایک ایسا سپرالٹرا ساؤنڈ بھی مارکیٹ میں آرہا ہے جو موجودہ الٹرا ساؤنڈ سے ہزار گنا بہتر ہوگا ‘ ایک ایسا لیزر بھی ایجاد ہو چکا ہے جو غیر ضروری ٹشوز کو چھیڑے بغیر صرف اس ٹشو تک پہنچے گا جس کا علاج ہو نا ہے‘ ایک ایسا سسٹم بھی سامنے آ جائے گا جو پورے ملک کی بجلی اسٹور کر لے گا اور سرن کا گرڈ کمپیوٹر بھی عنقریب مارکیٹ ہو جائے گا‘ یہ کمپیوٹر پوری دنیا کا ڈیٹا جمع کرلے گا۔
یہ تمام ایجادات سرن میں ہوئیں اور یہ اس بنیادی کام کی ضمنی پیداوار ہیں‘ سرن کے سائنس دان اس ٹنل میں مختلف عناصر کو روشنی کی رفتار (ایک لاکھ 86 ہزار میل فی سیکنڈ) سے لگ بھگ اسپیڈ سے ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں اور پھر تبدیلی کا مشاہدہ کرتے ہیں‘ یہ عناصر ایٹم سے اربوں گنا چھوٹے ہوتے ہیں‘ یہ دنیا کی کسی مائیکرو اسکوپ میں دکھائی نہیں دیتے‘ سائنس دانوں نے 2013ء میں تجربے کے دوران ایک ایسا عنصر دریافت کر لیا جو تمام عناصر کو توانائی فراہم کرتا ہے‘ یہ عنصر ’’گاڈ پارٹیکل‘‘ کہلایا‘ اس دریافت پر دو سائنس دانوں پیٹر ہگس اور فرینکوئس اینگلرٹ کونوبل انعام دیا گیا‘ یہ دنیا کی آج تک کی دریافتوں میں سب سے بڑی دریافت ہے۔
سائنس دانوں کا خیال ہے مادے کی اس دنیا کا آدھا حصہ غیر مادی ہے‘ یہ غیر مادی دنیا ہماری دنیا میں توانائی کا ماخذ ہے‘ یہ لوگ اس غیر مادی دنیا کو ’’اینٹی میٹر‘‘ کہتے ہیں‘یہ اینٹی میٹر پیدا ہوتا ہے‘کائنات کو توانائی دیتا ہے اور سیکنڈ کے اربوں حصے میں فنا ہو جاتا ہے‘ سرن کے سائنس دانوں نے چند ماہ قبل اینٹی میٹر کو 17 منٹ تک قابو رکھا ‘ یہ کسی معجزے سے کم نہیں تھا‘ یہ لوگ اگر ’’اینٹی میٹر‘‘ کو لمبے عرصے کے لیے قابو کر لیتے ہیں تو پھر پوری دنیا کی توانائی کی ضرورت چند سیکنڈز میں پوری ہو جائے گی‘ دنیا کو بجلی اور پٹرول کی ضرورت نہیں رہے گی‘
سرن ایک انتہائی مشکل اورمہنگا براجیکٹ ہے اور سائنس دان یہ مشکل کام65 سال سے کر رہے رہے ہیں۔
یہ لیبارٹری دنیا کے ان چند مقامات میں شامل ہے جن میں پاکستان اور پاکستانیوں کی بہت عزت کی جاتی ہے‘ اس عزت کی وجہ ڈاکٹر عبدالسلام ہیں‘ ڈاکٹر عبدالسلام کی تھیوری نے سرن میں اہم کردار ادا کیا‘ عناصر کو ٹکرانے کے عمل کا آغاز ڈاکٹر صاحب نے کیا تھا‘ ڈاکٹر صاحب کا وہ ریکٹر اس وقت بھی سرن کے لان میں نصب ہے جس کی وجہ سے انھیں نوبل انعام ملا۔
دنیا بھر کے فزکس کے ماہرین یہ سمجھتے ہیں اگر ڈاکٹر صاحب تھیوری نہ دیتے اور اگر وہ اس تھیوری کو ثابت کرنے کے لیے یہ پلانٹ نہ بناتے تو شاید سرن نہ بنتا اور شاید کائنات کو سمجھنے کا یہ عمل بھی شروع نہ ہوپاتا چنانچہ ادارے نے لیبارٹری کی ایک سڑک ڈاکٹر عبدالسلام کے نام منسوب کر رکھی ہے‘ یہ سڑک آئین سٹائن کی سڑک کے قریب ہے اور یہ اس انسان کی سائنسی خدمات کا اعتراف ہے جسے ہم نے مذہبی منافرت کی بھینٹ چڑھا دیا‘ جسے ہم نے پاکستانی ماننے سے بھی انکار کر دیا تھا۔

سرن میں اس وقت 10 ہزار لوگ کام کرتے ہیں‘ ان میں تین ہزار سائنس دان ہیں یوں یہ دنیا کی سب سے بڑی سائنسی تجربہ گاہ ہے‘یہ تجربہ گاہ کبھی نہ کبھی اس راز تک پہنچ جائے گی جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات تخلیق کی تھی‘ یہ راز جس دن کھل گیا اس دن کائنات کے سارے بھید کھل جائیں گے‘
ہم اس دن قدرت کو سمجھ جائیں گے۔
علامہ عنایت اللّٰہ خان المشرقی نےفرمایاتھا کہ ایک دن انسان قدرت کے تمام بھید جان لےگا اور وہ دن انسانیت کی تکمیل کا دن ہوگا اور اسکےساتھ ہی انسان کو خلیفہ بنانے کا قدرت کا مقصد پورا ہوجائیگا۔
سرن میں ایک نوجوان پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر مہر شاہ بھی کام کرتے ہیں۔‘ یہ بہت متحرک‘ کامیاب اور ایکٹیو قسم کے سائنس دان ہیں‘اللہ نے انھیں ابلاغ کی صلاحیت سے نواز رکھا ہے‘ ڈاکٹر مہر سمیت ہمیں وہاں ہزاروں درویش ملے‘ ایسے درویش جو اس راز کی کھوج میں مگن ہیں جسے آج تک مذہب نہیں کھول سکا‘
یہ لوگ اصل درویش ہیں‘ یہ انسانیت کے بہتر مستقبل کے لیے کام کر رہے ہیں‘
یہ لوگ واقعی عظیم اور قابل عزت ہیں۔
 پاکستان بھی سرن کا ممبر ہے‘ حکومت پاکستان ہر سال 22کروڑ روپے فیس ادا کرتی ہے‘ہمیں اس فیس کا فائدہ اٹھانا چاہیے ‘ڈاکٹر مہر کے بقول سرن طالب علموں کومفت تعلیم دیتا ہے‘ ہمارے نوجوانوں کو اس سہولت کا فائدہ اٹھانا چاہیے‘ ہمارے نوجوان ایف ایس سی سے لے کر پی ایچ ڈی تک کے لیے سرن سے وظائف لے سکتے ہیں ‘ دوسرا سرن ٹیکنالوجی ٹرانسفر کے لیے اوپن ادارہ ہے‘ اس کا ہر ممبر کوئی بھی ٹیکنالوجی حاصل کر سکتا ہے‘ پاکستان کو اس سہولت کا بھی فائدہ اٹھانا چاہیے۔
  ہم اگر سرن سے صرف میڈیکل سائنس اور زراعت کی ٹیکنالوجی ہی لے لیں تو یہ بھی ہمارے  لیے کافی ہو گی ‘ ہمارے بے شمار مسائل حل ہو جائیں گے۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭

اتوار، 10 دسمبر، 2023

انسانی تکبّر۔ قول و فعل کا تضاد

اِس 70 سالہ بوڑھے کے فہم کے مطابق ۔ الکتاب کے تین حصے ہیں ۔
پہلا حصہ ۔ آدم سے نوح تک ۔
دوسرا حصہ ۔ نوح سے ابراہیم تک
تیسرا حصہ ۔ ابراہیم سے احمد تک ۔
القرآن ۔
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سے مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ تک عربی کے الفاظ، میں پہلے حافظ کی مکمل تلاوت ہے ، جس میں تلاوت کئے گئے  تمام سٹینڈرڈ کی مکمل اتباع ، پہلے حافظ  نے خود کی ۔

لہذا  سب انسانوں کو اِسی تلاوت پر ایمان لاتے ہوئے ۔ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْب بن کر  اِس تلاوت کی اتباع کر تے ہوئے ۔ اس تلاوت کے مطابق اپنے اعمال کو درست رکھنا ہے تاکہ اُن کے افعال کو تلاوت سننے والے انسانوں کو  قول رسول کے مطابق دکھائی دیں ۔
یاد رکھیں کہ اعمال کا تعلق انسان کے نفس سے ہوتا ہے اور افعال اُس کا اظہار ہوتے ہیں ۔لہذا قول و فعل میں تضاد نہیں ہونا چاھئیے ۔ کیوں کہ قول و فعل کا تضاد ، تکبّر کی نشانی ہے۔

ہر مذھب کے انسان کا ایک مسئلہ ہے ، کہ میں اپنے گناہوں کے لبادے کو اپنی جلد سے کیسے اتاروں  ۔ چھوٹے گناہ ۔ درمیانے گناہ اور بڑے گناہ ۔
اںسب کی ابتداء چھوٹے گناہ سے ہوتی ہے ۔ جو مذاق میں ، کھیل میں شروع ہوتا ہے اور بچہ ہے کہہ کر اُس کی جلد سے جھاڑ دیا جاتا ہے ، جب وہ اِس کے دھونے کا یعنی لفاظی میں چھپانے کا ماہر ہو جاتا ہے ، تو درمیانے گناہ کی طرف یہ کہہ کر بڑھتا ہے کہ سب کرتے ہیں میں نے کردیا تو کون سا جرم کیا ؟  ۔

 اور یوں بڑے گناہ کو اپنی جلد کے اطراف لپیٹ لیتا ہے  ۔ کہ یہ تو انسانی فطرت ہے ۔ اور فطرت بنانے والا معاف کرنے کا بھی حق رکھتا ہے ۔ جس کے لئے اُس نے مذھب اتارا ہے ۔ جبکہ مذھب تو انسانوں کا بنایا ہوا ہے ۔چنانچہ بڑھاپے میں اپنی جلد سے گناہ جھاڑنے اور جھڑوانے کا عمل انسان شروع کر دیتا ہے ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


اتوار، 3 دسمبر، 2023

فوج کا فوجی پنشنرز کے لئے ایک اقدام

  فوجیوں کا ڈسٹرکٹ لیول تک سول اداروں میں 10 فیصد ہر بھرتی میں  کوٹہ دیا گیا ہے ۔ جو صرف آفیسروں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔

اِسی لئے آپ پولیس اور ڈسٹرکٹ منیجمنٹ گروپس میں   ، کمشنر یا انسپکٹر جنرل آف پولیس کیپٹن  ۔ میجر  اور کرنل  کے ناموں کا لاحقہ لگا دیکھتے ہیں ، یہ سب فوج کے برگزیدہ لوگ ہوتے ہیں اور جو مار گزیدہ ہوتے ہیں وہ صرف اپنے نام کے ساتھ ریٹائرڈ لکھتے ہیں ۔  مجھے امید ہے کہ اب یقیناً فوج کی کوششوں سے  سولجرز کی متوازی بھرتیاں اُن کے 10 فیصد کوٹے میں شروع ہو جائیں گی۔ لیکن اِن 10 فیصد بھرتیوں کے بجائے جو مضمون میں نے لکھا تھا ۔پر لازمی عمل کیا جائے ۔کیوں کہ سرکاری ملازم ہڈ حرام ہوتے ہیں اور پنشن ملنے کے بعد اگر سرکاری ملازمت ملے تو مزید ھڈ حرام ہو جاتے ہیں۔

    ۔ پاکستان کی ترقی میں نان ایکٹو سولجر کا شمول

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

مجھے وٹس ایپ پر ایک فارم ملا جو میں نے اپنے تمام پنشنرز دوستوں کو ذاتی طور پر نیوز براڈ کاسٹ میں ڈال دیا ۔کہ اسے دوسرے فوجی پنشنرز کو شیئر کردیں۔ یہ بالکل ماضی بعید  کی حکومت  کے ایمپلائمنٹ ایکسچینج  کی طرح ہے ۔جو ماضی بعید میں میٹرک پاس کرنے کے بعد ملازمت  حاصل کرنے والوں کے لئے بنایا گیا تھا ۔ جس میں میرٹ ،میٹرک سائنس ۔میٹرک کامرس ۔ میٹرک آرٹس اور نان میٹرک طالبعلموں کے لئےشروع کیا تھا ۔ اگر آپ نے پِٹ مین ٹائپنگ انسٹیوٹ سے ٹائپنگ کا کورس کیا ہے تو آپ کا میرٹ سائنس والے سے کلیریکل جاب میں اوپر چلا جاتا تھا اور اگر آپ نے شارٹ ہینڈ کا کورس بھی کیا ہے تو آپ کا میرٹ سب سے اوپر میٹرک پاس والوں میں ہوتا ۔ سرکاری ملازمت حاصل کرنے کی دھکم پیل ہمیشہ رہی ہے کہ پکی  60 سالہ ملازمت ہوتی اور ریٹائرمنٹ پر پنشن ملتی ۔ لیکن ڈیفنس فورسز (آرمی ، نیوی اور ائر فورس)میں ایسا نہیں ہوتا۔ جن میں پہلی کلر سروس  مکمل کرنے کے بعد  38 سال اور 43 سال کی عمر میں ، پھر ملازمت کی لائن میں کھڑا ہونا پڑتا ہے ۔پاکستان آرمی کی۔

W&R Directorate

 ایک ایسا ادارہ ہے جوفوجیوں اور ریٹائر ہوجانے والے فوجیوں  کی  دوبارہ ۔ پاکستان  آرمی کے دو بڑے ویلفیئر اداروں ۔ فوجی فاونڈیشن  اور آرمی ویلفیئر ٹرسٹ میں ۔ملازمت دلواتا ہے۔ یہ ایجوٹنٹ جنرل (یفٹننٹ جنرل)کے ماتحت ہوتی ہے ، جس کا ڈائریکٹر جنرل ۔ میجر جنرل ہوتا ہے۔ اصولاً یہ فارم ریٹائرمنٹ کے وقت تمام رینکس سے بھرواکر  ڈبلیو اینڈ آر ڈاریکٹوریٹ ۔جی ایچ کیو    بھجوانا چاھئیے ۔ لیکن کئی پنشنرز جو فوجی نوکری سے اتنے تنگ ہوتے ہیں کہ وہ دوبارہ فوج میں ریٹائرمنٹ کے بعد ملازمت نہیں کرنا چاھتےاور اپنی بچوں کے پاس رہ کر کاروبار یا وہیں ملازمت کرنا چاھتے ہیں ۔ بزنس کے تھپیڑوں میں اپنی پنشن گنوا کر دوبارہ ، ملازمت کے خوہش مند ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ گیٹ پر کھڑے چوکیدار کی کیوں نہ ہو ۔ اُن کو دوبارہ موقع مشکل سے ملتا ہے ۔ لیکن اگر فوج میں اُن کا ٹریڈ اچھا ہو تو، اُنہیں 50 سال کی عمر تک دوبارہ ملازمت کا چانس ہوتا ہے ۔ جن میں ٹیکنیکل ٹریڈ۔ کلیریکل ٹریڈ اور سیکیورٹی کی ڈیوٹی کے لئے جاب مل جاتی ہے ۔ جس کے لئے اُن کا تجربہ اور اضافی تعلیم یا سرٹیفکیشن اہمیت رکھتی ہے ۔

وہ تمام فوجی جن کی عمر  31 دسمبر 2023  کو 50سال سے کم ہے ،  جو دوبارہ ملازمت پر جو نان پنشن  ایبل  ہوگی     ۔ اُس کے لئے درج ذیل فارم بھر کر لازمی ۔ اِس ایڈیس پر بھجوائیں ۔ممکن ہے کہ آپ مہنگائی کے اِس دور میں دوبارہ روزگار حاصل کر سکیں ۔اگر آپ نے پہلے کوئی درخواست دی ہے تب  بھی یہ فارم بھر کر بھجوائیں کیوں کہ آپ کی معلومات اِسی ترتیب سے کمپیوٹر میں ڈالی جائے گی ۔

آپ کی یہ درخواستیں تصدیق کے لئے آپ کے ریکارڈ آفس بھجوائی جائیں گی ، لہذا  تمام معلومات درست دیں ۔ آگر آپ نے ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی تعلیم حاصل کی تو اُس کے سرٹیفکیٹ کی کاپی لگائیں شکریہ

WR - 7 (RE-EMP RANKS) . W&R DTE .GHQ RAWALPINDI

صبح اٹھا موبائل کھولا تو ، جوانوں کے پیغامات سے بھرا ہوا تھا کہ سر یہ کیسے بھرا جائے؟۔

فارم دیکھے بغیر پنشنرز نے سوال پوچھے ۔
٭۔ یہ فیک تو نہیں ؟
٭۔ تنخواہ کیا ہوگی ؟
٭- ڈیوٹی کس شہر میں ہو گی ؟

٭۔ فوج دوبارہ بھرتی کر رہی ہے ؟

٭۔ گھر ملے گا ؟ وغیرہ وغیرہ

 ٭٭٭٭واپس ٭٭٭ ٭

 

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔