Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعرات، 11 جون، 2020

پاکستان کی ترقی میں نان ایکٹو سولجر کا شمول !

 فوج میں ملازمت کی عمر  ( کلر سروس ) ہے - ایک 18 سے 20 سالہ نوجوان کو سال ، دو سال کی تربیت کے بعد فوج میں سپاہی یا آفیسر بھرتی کیا جاتا ہے -
 اُس کے بعد سپاہی 11 سال سے 22 سال (نائیک) اور آفیسر 23 سال کی سروس (میجر ) ،لیفٹنٹ کرنل (29 سال) تک ریٹائر ہو جاتا ہے - 
 اُن کی عمریں بالترتیب سپاہی 29 ، 40 اور آفیسرز - 43، 49 سال ہوتی ہے ۔
 جبکہ سرکاری سول قواعد کے مطابق ، ایک سرکاری  یا غیر سرکاری ملازم   60 سال کی عمر تک ملازمت کرتا ہے ۔
 اصول تو یہ ہونا چاھئیے کہ فوجیوں کو بھی  60 سال  کی عمر تک ملازمت کروائی جائے اور اُس کے بعد پنشن ملنا چاہئیے -
 لیکن کیوں کہ فوج  کی  فیلڈ سروس میں نوجوانوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ لہذا یہ سب اپنے اپنے رینک میں   کلر سروس  پر پہنچے کے بعد ریٹائر کر دیئے جاتے ہیں تاکہ  نوجوان  افراد اُن کی جگہ  لے سکیں  اور یوں جو اُنہوں نے پریکٹیکل  ایڈمنسٹریشن کی تربیت  بطور نائیک ، حوالدار  اور سردار صاحبان حاصل کی ہوتی ہے وہ ضائع ہو جاتی ہے اور یہ  نان کمیشنڈ ، جونئیر کمیشنڈ اور کمیشنڈ     ریٹائرڈ   فوجی  اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لئے کسی، فرنچائز سٹور پر یا کسی سیکیورٹی کمپنی میں گارڈ لگ جاتے ہیں جن کی آدھی تنخواہ سے کمپنی کا مالک موجیں اُڑاتا ہے یا پھر یہ پراپرٹی ٹائیکون  کی ملازمت کرنے لگ جاتے ہیں اور پیٹ کی خاطر اُن کے غیر قانونی کاموں میں اُن کا ساتھ دیتے ہیں ، جو فوج جیسے ادارے کی بدنامی کا باعث بنتا ہے اور بن رہا ہے - 
بچھلے چند سالوں سے چیف آف آرمی سٹاف کو   کلر سروس  کے  مطابق ریٹائر کرنے کے بجائے  ، ایکسٹینشن دی گئی ہے تاکہ اُن کے "تجربے  " سے حکومت فائدہ اُٹھائے ۔ چند چہیتے ریٹائرڈ آفیسروں کو فوجی فانڈیشن یا عسکری ٹرسٹ میں ملازمت دی گئی ۔
1998 میں  ڈی جی آرٹلری جنرل خالد لطیف مغل کے آرٹلری سنٹر کے دورے پر ناچیز نے ، سیکورٹی کمپنیوں کی لوٹ مار کا بتاتے ہوئے ،  تجویز دی کہ ، فوج بھی فوجی فاونڈیشن میں  سیکیورٹی گارڈ کا شعبہ قائم کر کے جوانوں کو باعزت   ملازمت ، بعد از ریٹائرمنٹ  دلوا سکتی ہے ۔ 
جس پر جنرل نے بتایا کہ فوجی فاونڈیشن تو نہیں البتہ عسکری ٹرسٹ کے ذریعے یہ کام کروا سکتی ہے اور عسکری بنک میں اِنہیں یقیناً  ملازمت  ملے  گی ۔
 میری رائے میں ، یہ پڑھے لکھے اور تربیت یافتہ  فوجی نوجوان اور آفیسرز قومی خزانے پر پنشن کی وجہ سے  بوجھ بن جاتے ہیں ۔کیوں کہ    Encashment of Pension  کی وجہ سے ایک کثیر رقم  قومی خزانے سے اِن کو دی جاتی ہے ، نیز ریٹائرمنٹ کے بعد اِنہیں سرکاری محکموں میں لگایا جاتا ہے جہاں اِنہیں مزید تنخواہ دینے کا بوجھ بڑھ جاتا ہے ۔
 حکومت کو چاھئیے کہ ایک  پاکستان نیشنل سروس کور   بنائی جائے - جس میں    کلر  سروس   کو پہنچنے والےافواجِ پا  کستان  کے  آفیسر اور جوان    ،باقی ماندہ سروس کے لئے ، اپنے رہائشی ضلع  میں   ٹرانسفر کر دئے جائیں ۔ تاکہ  اِن فوج میں حاصل کردہ تربیت ضائع  نہ ہو اور اِ ن کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جائے ۔اور گورنمنٹ کے محکموں میں قومی خزانے پر بوجھ بنانے کے بجائے ، اِن تربیت یافتہ افراد سے فائدہ اُٹھایا جائے ۔
جس کے  چیدہ چیدہ نکات حسبِ ذیل ہیں :
1- جو فوجی قوانین ( پاکستان آرمی، نیوی اور ائر فورس  ایکٹ )  کے ہی زیر سایہ  منسٹری آف ڈیفنس  کےماتحت  ، چئیر مین جائینٹ چیف  کے زیر نگرانی ہو کیوں کہ اِس میں تینوں افواج کے    افراد شامل ہوں   ۔
2-   پاکستان نیشنل سروس کور   کا دائرہ کار تحصیل کی سطح  تک جائے - جہاں   تحصیل میں کمپنیوں اور ضلع میں بٹالین  قائم کی جائیں ۔
 3-تمام سول اداروں میں  بھرتی کے وقت فوجی ملازمین کا 10 فیصد کوٹہ آئین پاکستان کے مطابق  دیا گیا ہے ،لہذا تمام اپنی ایکٹو سروس کے  عمر کو پہنچنے والے   افراد ،        اپنے اپنے  ضلع و تحصیل میں اِن بٹالین اور کمپنیوں میں پوسٹ کر دئے جائیں ۔ جہاں یہ فوج میں یا اضافی حاصل کی گئی تربیت کے مطابق :
a-  بلدیہ ،تحصیل و ڈسٹرکٹ مینیجمنٹ  اینڈ منسٹریشن -

 b-  واپڈا    -
c- پولیس -
d- ایجوکیشن -تمام گورنمنٹ سکول
e-  قومی دفاع -
 f-ہسپتال-
 g- ریلوے-

منسٹری آف ڈیفنس  ۔  گورنمنٹ سے ہر تحصیل و ضلع  میں ۔ زمین لے جہاں :
 1-  صرف کمانڈ ہیڈ کوارٹر بنایا جائے  -  ضلع و تحصیل میں تعینات ہونے والے 
  پاکستان نیشنل سروس کور کے ملازمین   کی نگرانی کا ذمہ دار ہو ۔
2- اِن کے رہنے کے گھر بنائے جائیں  و دیگر سہولیات  بنائی جائیں ۔
  ریٹائرمنٹ کے بعد :    ایک فوجی کو گھر، ماھانہ اخراجات کے لئے رقم،  میڈیکل کی سہولت درکار ہوتی ہے ۔ جس کے لئے حکومت:
1- ریٹائر فوجیوں کو گھر بنا کردے ۔ وہ گھر بیچے نہ جاسکیں ، اور نہ کرائے پر  دیئے جا سکیں ، فوجی  اور اُس کی بیوہ کے فوت ہونے  بعد  یہ گھر حکومت کے پاس واپس آجائے- جیسے فوج میں گھر ملتے ہیں ، جہاں وہ دورانِ ملازمت رہتے ہیں -
2- یکمشت پنشن کے بجائے ،  کلر سروس مکمل   ہونے کے بعد ،اُن کی پنشن کی یہ رقم قومی بچت میں رکھی جائے اور اُنہیں ہر ماہ اخراجات کی رقم دی جائے-
3- تمام سول ہسپتال میں کمبائینڈ ملٹری ہسپتال کا سیکشن کھول سکتی ہے ۔جہاں مریضوں کے لئے  تمام سہولتیں  موجود ہوتی ہیں ، بس ایمانداری کا فقدان ہوتا ہے ۔
آج کل یہ جو کہا جا رہا ہے کہ ہمیں اسرائیل کی طرح تمام پاکستانیوں کو فوجی بنانا چاہئیے یا فوجی سروس سکھانا چاھئیے ۔ یقیناً ایسا ہی ہو لیکن اُنہیں 2 سالہ سروس کے بعد ، نیشنل سروس کور میں 4 سال کی لازمی سروس کرنا ہو ۔ اگر وہ نیشنل سروس کور میں رہنا پسند کریں تو 60 سال تک وہ رہ سکتے ہیں ۔ اِس طرح آپ سرکاری خزانے پر اضافی بوجھ کو یقیناً کم کر سکتے ہیں ۔
نوٹ:  صاحبان عقل و فکر ، فہم و دانش اِس میں قطع و برید کر کے اِس مزید بہتر بنا سکتے ہیں !
( خالد مہاجرزادہ) 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 ٭٭٭٭واپس ٭٭٭ ٭

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔