٭٭٭٭٭٭٭٭
سہیل ہم چاروں میں سب سے چھوٹا تھا، ایف ایس سی کرتے ہی فوج میں آفسر بننے چلا آیا۔ امجد زمان ملٹری کالج کا فارغ التحصیل تھا اور اپنے کلاس فیلوز سے ایک سال بعد آیا تھا۔ فاروق عرف گھگو کا بھی یہی حال تھا اور ہمارے ساتھ کے ہم سے ڈیڑھ سال سینئر تھے۔ آپ سمجھ گئے نا۔ نہیں سمجھے اچھی بات ہے۔ دل جلے فارسی میں کہتے تھے،
خدایا سگ باش برادر خورد مباش (خدا کتا بنادے چھوٹا بھائی نہ بنائے)
اور پی ایم اے میں ،"خدا بے شک جونئیر بنائے مگر جونئیر کلاس فیلوز کا جونئیر نہ بنائے"۔
ہمارے کمرے سے تیس گز کے فاصلے پر، جنٹل مین کیڈٹ آفس المعروف جی سی آفس، سیکنڈ پاکستان بٹالین تھا جہاں آٹھ بجے رات، منتخب کیڈٹس کے اخلاق و اطوار کی تصحیح کی جاتی تھی۔ اِن کیڈٹس نے ہمارے کمرے کو سومنات کا مندر سمجھا ہوا تھا اور یہ سب ملٹری کالج کے تھے۔ اور امجد زمان کی محبت میں ہمارے کمرے میں گھسے چلے آتے۔ گورکھا نام سنا ہے آپ نے؟ نہیں آ پ کیسے سن سکتے ہیں بلکہ ایک کیڈٹ کو گورکھا پوزیشن صرف دیکھا جا سکتا ہے۔
تو قارئین، اخلاق و اطوار کی درستگی کے لئے آنے والے کیڈٹس ہمارے کمرے میں آتے ہی ہمیں، گورکھا پوزیشن میں جانے کا غیر قانونی حکم دے دیتے۔ اتوار کا دن تھا ہم نے بابے کو کیفِ ٹیریا بھجوا کے جلیبیاں اور سموسے منگوانے کا حکم دیا تا کہ فُل ٹائم عیاشی کی جاسکے۔ کوئی تین چار کمرے پہلے کے سامنے سے ایک آواز گونجی،
”امجد زمان کا کمرہ کون سا ہے؟“
ہمارا خون لمحے کے لئے خشک ہو گیا، عیاشی کا محل دھڑام سے زمیں بوس ہوگیا۔ سہیل نے تجویز دی، الماریوں میں چھپ جاتے ہیں۔سہیل اور فاروق ایک الماری میں، امجد اور میں دوسری الماری میں غڑاپ سے چھپ گئے۔ کمرے کا دروازہ دھڑام سے کھلا، کمرے کا دروازہ کھلنے کے انداز سے معلوم ہو جاتا کہ کون آیا ہے۔ آنے والے سیکنڈ ٹرم کے بپھرے ہوئے شیر تھے اور اِس امید پر کودے کہ شکار اندر موجود ہے۔ لیکن انہیں مایوسی ہوئی۔ کہ کمرہ خالی تھا۔ وہ کمرے میں چکر لگانے لگے ایک نے باتھ روم ا دروازہ کھٹکھٹایا، شاید شکار اندر ہو مگر وہ بھی خالی،
”میرا خیال ہے یہ لوگ میس گئے ہوں“۔
یہ کہہ کر وہ جانے کے لئے پلٹے کہ ٹھک کی آواز اور فاروق کا سر الماری کے پٹ سے ٹکرایا اور الماری کھل گئی۔ ہوا یوں کہ گھگھو جس کی ہر جگہ سونے کی عادت تھی، یہاں تک کہ فال اِن میں کھڑا کھڑا سوجاتا۔ وہ الماری کی گرم فضا میں جونہی غتر بُود ہوا اُس کا سر الماری کے پٹ سے ٹکرا گیا۔
دوسری الماری کھولی گئی،اُس کے بعد۔
”عجب تھا جہاں کا منظر“ کہیں مسجود تھے سہیل و فاروق۔کہیں پھِرکی تھے نعیم اور امجد۔
کوئی ڈیڑھ گھنٹے کے بعد خلاصی ہوئی، کمرے میں گرم گرم جلیبیوں،سموسے اور چائے کا جو مزہ آیا وہ بیان سے باہر۔
فرسٹ ٹرم کے خاتمے پر دوڑ دوڑ کر ہماری ٹانگیں بگلے کی طرح ہوگئی تھیں اور پیٹ کمر کی آخری ہڈی کو چھوتا تھا۔ بیلٹ ٹائیٹ کرنے کے آخری سوراخ بھی فیل ہو جاتے اور سٹاف ہماری بیلٹ میں ایک انگلی پھنسا کر اُس میں سے پوری بٹالین کے گذرنے کا دعویٰ کرتا۔ یا حکمیہ انداز میں طربیہ سوز کی لے پر چلاتا،
”نعیم صاحب۔ پی ایم اے روڈ پر ایسے مت چلیں جیسے آپ ولیمہ کی دعوت سے واپس آرہے ہیں یا
آواز شیر کی طرح نکالیں میمنے کی طرح نہیں"
نعیم صاحب، زمیں پر ایڑیاں اتنی زور سے لگیں کہ پانی نکل آئے“ وغیرہ وغیرہ
اگر آپ نے کرنل محمد خان کی کتابیں نہیں پڑھیں تو آپ کو یہ کیسے معلوم ہوگا، کہ اُن کے زمانے میں ڈرل سکوئر میں پالی جانے والی شرارتی مکھی اپنی اولادکو کیڈٹس کی ناک کے پارک میں تفریح کا لطف اُن کی سرشت میں نفوذ کروا گئی۔ جونہی سٹاف،”ہوشیار باش“ کرواتا یہ ”بھن بھن“ کا نعرہ مار کر ناکوں کی چونچ پر آبیٹھتی ۔ اور کیڈٹس کو سلیوٹنگ ٹیسٹ میں، پریڈ گراونڈ میں سلیوٹنگ ٹیسٹ میں ناک کو آزادنہ کھجانے پر فیل کروا دیتیں۔ جس کے لئے وہ پچھلے آٹھ ہفتوں سے ایڑیاں مار مار کر اپنی تمام عقل بقولِ سویلیئن، زمین میں پہنچا دیتا تھا اور اُس کی اوپر کی منزل خالی ہوجاتی۔ اُس کے بعد کیڈٹ کو سو گز دور ایک چارمربع فٹ کے ٹارگٹ کے عین درمیان میں اپنی تما م توجہات مرکوز کرتے ہوئے، مقصد کے حصول کو اپنا نصب العین بنانے کی تربیت دی جاتی۔ جو کیڈٹ جتنا زیادہ اپنے نصب العین کے قریب بغیر کسی شک و شبہ ہوتا وہ اتنا ہی فوجی زندگی کا کامیاب فرد کہلاتا۔ عملی زندگی میں یہ ٹارگٹ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔جو سینئیر کے حکم ”گو“ سے شروع ہوتا ہے اور ٹارگٹ کے حصول پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ لیکن اِ س کے درمیان وہ تمام قوانین آتے ہیں جو فوجی کتابوں میں لکھے ہوتے ہیں جن کا انحراف ٹارگٹ کے حصول کے بعد سزا پر ختم ہوتا ہے۔
خدایا سگ باش برادر خورد مباش (خدا کتا بنادے چھوٹا بھائی نہ بنائے)
اور پی ایم اے میں ،"خدا بے شک جونئیر بنائے مگر جونئیر کلاس فیلوز کا جونئیر نہ بنائے"۔
ہمارے کمرے سے تیس گز کے فاصلے پر، جنٹل مین کیڈٹ آفس المعروف جی سی آفس، سیکنڈ پاکستان بٹالین تھا جہاں آٹھ بجے رات، منتخب کیڈٹس کے اخلاق و اطوار کی تصحیح کی جاتی تھی۔ اِن کیڈٹس نے ہمارے کمرے کو سومنات کا مندر سمجھا ہوا تھا اور یہ سب ملٹری کالج کے تھے۔ اور امجد زمان کی محبت میں ہمارے کمرے میں گھسے چلے آتے۔ گورکھا نام سنا ہے آپ نے؟ نہیں آ پ کیسے سن سکتے ہیں بلکہ ایک کیڈٹ کو گورکھا پوزیشن صرف دیکھا جا سکتا ہے۔
تو قارئین، اخلاق و اطوار کی درستگی کے لئے آنے والے کیڈٹس ہمارے کمرے میں آتے ہی ہمیں، گورکھا پوزیشن میں جانے کا غیر قانونی حکم دے دیتے۔ اتوار کا دن تھا ہم نے بابے کو کیفِ ٹیریا بھجوا کے جلیبیاں اور سموسے منگوانے کا حکم دیا تا کہ فُل ٹائم عیاشی کی جاسکے۔ کوئی تین چار کمرے پہلے کے سامنے سے ایک آواز گونجی،
”امجد زمان کا کمرہ کون سا ہے؟“
ہمارا خون لمحے کے لئے خشک ہو گیا، عیاشی کا محل دھڑام سے زمیں بوس ہوگیا۔ سہیل نے تجویز دی، الماریوں میں چھپ جاتے ہیں۔سہیل اور فاروق ایک الماری میں، امجد اور میں دوسری الماری میں غڑاپ سے چھپ گئے۔ کمرے کا دروازہ دھڑام سے کھلا، کمرے کا دروازہ کھلنے کے انداز سے معلوم ہو جاتا کہ کون آیا ہے۔ آنے والے سیکنڈ ٹرم کے بپھرے ہوئے شیر تھے اور اِس امید پر کودے کہ شکار اندر موجود ہے۔ لیکن انہیں مایوسی ہوئی۔ کہ کمرہ خالی تھا۔ وہ کمرے میں چکر لگانے لگے ایک نے باتھ روم ا دروازہ کھٹکھٹایا، شاید شکار اندر ہو مگر وہ بھی خالی،
”میرا خیال ہے یہ لوگ میس گئے ہوں“۔
یہ کہہ کر وہ جانے کے لئے پلٹے کہ ٹھک کی آواز اور فاروق کا سر الماری کے پٹ سے ٹکرایا اور الماری کھل گئی۔ ہوا یوں کہ گھگھو جس کی ہر جگہ سونے کی عادت تھی، یہاں تک کہ فال اِن میں کھڑا کھڑا سوجاتا۔ وہ الماری کی گرم فضا میں جونہی غتر بُود ہوا اُس کا سر الماری کے پٹ سے ٹکرا گیا۔
دوسری الماری کھولی گئی،اُس کے بعد۔
”عجب تھا جہاں کا منظر“ کہیں مسجود تھے سہیل و فاروق۔کہیں پھِرکی تھے نعیم اور امجد۔
فرسٹ ٹرم کے خاتمے پر دوڑ دوڑ کر ہماری ٹانگیں بگلے کی طرح ہوگئی تھیں اور پیٹ کمر کی آخری ہڈی کو چھوتا تھا۔ بیلٹ ٹائیٹ کرنے کے آخری سوراخ بھی فیل ہو جاتے اور سٹاف ہماری بیلٹ میں ایک انگلی پھنسا کر اُس میں سے پوری بٹالین کے گذرنے کا دعویٰ کرتا۔ یا حکمیہ انداز میں طربیہ سوز کی لے پر چلاتا،
”نعیم صاحب۔ پی ایم اے روڈ پر ایسے مت چلیں جیسے آپ ولیمہ کی دعوت سے واپس آرہے ہیں یا
آواز شیر کی طرح نکالیں میمنے کی طرح نہیں"
نعیم صاحب، زمیں پر ایڑیاں اتنی زور سے لگیں کہ پانی نکل آئے“ وغیرہ وغیرہ
اگر آپ نے کرنل محمد خان کی کتابیں نہیں پڑھیں تو آپ کو یہ کیسے معلوم ہوگا، کہ اُن کے زمانے میں ڈرل سکوئر میں پالی جانے والی شرارتی مکھی اپنی اولادکو کیڈٹس کی ناک کے پارک میں تفریح کا لطف اُن کی سرشت میں نفوذ کروا گئی۔ جونہی سٹاف،”ہوشیار باش“ کرواتا یہ ”بھن بھن“ کا نعرہ مار کر ناکوں کی چونچ پر آبیٹھتی ۔ اور کیڈٹس کو سلیوٹنگ ٹیسٹ میں، پریڈ گراونڈ میں سلیوٹنگ ٹیسٹ میں ناک کو آزادنہ کھجانے پر فیل کروا دیتیں۔ جس کے لئے وہ پچھلے آٹھ ہفتوں سے ایڑیاں مار مار کر اپنی تمام عقل بقولِ سویلیئن، زمین میں پہنچا دیتا تھا اور اُس کی اوپر کی منزل خالی ہوجاتی۔ اُس کے بعد کیڈٹ کو سو گز دور ایک چارمربع فٹ کے ٹارگٹ کے عین درمیان میں اپنی تما م توجہات مرکوز کرتے ہوئے، مقصد کے حصول کو اپنا نصب العین بنانے کی تربیت دی جاتی۔ جو کیڈٹ جتنا زیادہ اپنے نصب العین کے قریب بغیر کسی شک و شبہ ہوتا وہ اتنا ہی فوجی زندگی کا کامیاب فرد کہلاتا۔ عملی زندگی میں یہ ٹارگٹ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔جو سینئیر کے حکم ”گو“ سے شروع ہوتا ہے اور ٹارگٹ کے حصول پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ لیکن اِ س کے درمیان وہ تمام قوانین آتے ہیں جو فوجی کتابوں میں لکھے ہوتے ہیں جن کا انحراف ٹارگٹ کے حصول کے بعد سزا پر ختم ہوتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں