Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 29 فروری، 2020

شوگر کے مریضوں کے لئے عقل کا استعمال!

 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
  اگر آپ  کی آپ کے خاندان سے جینیاتی وابستگی ہے  ، تو     آپ کی  ہر ایک بیماری کی اصل  میں جینیاتی ہے۔ ہمارے جین ہمارے جسم کی ہر  اچھی اور بُری چیز کا کوڈ ہیں  ۔ جین کے بغیر ، کینسر نہیں ہوگا۔ جین کے بغیر ، موٹاپا ، ذیابیطس یا دل کی بیماری نہیں ہوگی۔ اور جین کے بغیر ، زندگی بھی  نہیں ہوگی، لہذا   اپنے جین کے خلاف آپ لڑ نہیں سکتے  ۔ لیکن  اُسے  اپنی نسل کے لئے ،تبدیل ہونے پر مجبور کر سکتے ہیں -
 کیسے ؟؟؟
یہ تو آپ کو معلوم   کہ پہلا بچہ    بے وقوف اور آخری  بچہ عقلمند ہوتا ہے  ، آخر ایسا کیوں؟
پہلے بچے کی پیدائش سے پہلے  ،  ماں باپ ،  کےدماغ  میں بلکہ بیوی کے دماغ میں  جوکچھ موجود ہوتا ہے  ، اُس کا کچھ حصہ بچے کے دماغ میں  منتقل ہوتا ہے  اور آخری بچے کے وقت ماں باپ نے جو کچھ اپنے دماغ میں سمویا ہوتا ہے ، اُس  کا کچھ حصہ بچے کے دماغ میں منتقل ہوتا ہے ۔

انسانی  دماغ کی یہ خوبی ہے کہ وہ ذہن میں  ،حواس ِ خمسہ  سے بننے والے تمام سافٹ وئر  اور اُن  کے فواد (دلیل ،  صفات ، منطق وبیان)کا ذخیرہ دماغ میں کر لیتا ہے ۔دماغ یہ سافٹ وئر  جسم کے خلیوں میں احکامات کے طور پر منتقل ہوتے ہیں ۔ اگر یہ بار بار دھرائے جائیں    تو یہ عادت بن جاتے ہیں  جو انسانی تشخص    کی بنیاد وںمیں سے ایک ہے ۔ 
ہر انسانی شخصیت (عادات واطوار)کے دو پہلو ہیں   -

ذہن کے اندر:-  توانائی ، خواب،سوچ    ،خیالات،  عقائد-
ذہن کے باہر:-رویہ، جذبات، عادات واطوار-
عادات میں بالکل باپ   پر گیا ہے ۔ اوہ میرے خدا    ، اطوار میں یہ تو اپنی ماں کی کاپی ہے -  ماں اور باپ سے ، ماں کے پیٹ میں رہ کر  ذہن سے ، بچے کے دماغ میں  منتقل ہونے والی مکمل شخصیت    ، جب بچے کے سامنے   حقیقی شخصیت سے میل کھاتی ہے تو  بچہ وہی شخصیت اختیار کرتا ہے ، اگر وہ میل نہیں کھاتی تو بچہ وقت کے ساتھ بتدریج  اپنی الگ شخصی پہچان بناتا ہے ، جس میں بہن بھائیوں اور دوستوں  کا حصہ بھی ہوتا ہے ۔
بالکل اِسی طرح  انسان کی جینیاتی وابستگی  کو بھی تبدیل کیا جاسکتا ہے ۔ 
غذائیت کے بارے میں یہ تو سب جانتے ہیں  کہ"آپ جو کھاتے ہو" وہ آپ کی عادات میں شامل نہیں  بلکہ وہ آپ کے جسم کی ضرورت  ہے  ، لہذا  آپ جو کھاتے ہیں، اس کا اثر آپ پر پڑتا ہے اور بعض اوقات آپ کے بچے اور پوتے بھی۔ 
 کیا غذا کے ذریعے انسانی   جینیاتی وابستگی  کو کیا جاسکتا ہے تاکہ وہ بیماریاں جو جین سے منتقل ہوتی ہیں ۔ اُن کی روک تھام ہوسکے!
لہذا ، ماں اور بچے کے درمیان ، غذا  کے کردار کو سمجھنا نہایت ضروری ہے ! کیوں کہ ماں کی حمل کے دوران کھائی جانے والی غذا   اور بچے کو ماں  دودھ کے ذریعے  دی جانے والی غذا  دونوں ، بچے کی نہ صرف نشو نما  بلکہ اُس کے خون میں ہونے والی تبدیلیوں   کے ذریعے جسم کے ہر سیل پر اثر انداز ہوتی ہے۔اور اُن میں تبدیلیاں لاتی ہے ۔یہ تبدیلیاں  ج
ینیاتی وابستگی  میں لمبے عرصے کر بعد تبدیلیاں لاتی ہیں ۔
جیسے وہ مائیں جو  کم غذائیت کا شکار ہوتی ہیں  ، اُن کے بچوں کونوجوانی میں کئی بیماریوں کا شکار ہونا پڑتا ہے ۔ خواہ  اُن کے والدین اِن بیماریوں کا شکار نہ ہوئے ہوں ، جیسے دل ، ذیابیطس ، موٹاپے اور  غیر فعال میٹا بولزم  وغیرہ ۔
بالکل اِسی طرح   وہ مائیں جن کے اپنے والدین کی  جینیاتی وابستگی  میں مبتلا ہونے کا امکان   10٪ تک ہے ، وہ  اپنی خورا ک مصنوعی  مٹھاس کے بغیر  استعمال کرکے اپنے  ہونے والے بچوں کی جینیاتی وابستگی میں تبدیلی یقیناً لا سکتی  ہیں  ۔ 
کیا آپ کو معلوم ہے کہ ایک ماں(عورت)  کو روزنہ اپنے وزن کو برقرار رکھنے کے لئے 2000 کیلوریز درکار ہوتی ہیں   اور ایک باپ(مرد)  کوروزنہ اپنے وزن کو برقرار رکھنے کے لئے   2500 کیلوریز درکار ہوتی ہیں ۔
بوڑھے نے اپنا اور بڑھیا  کے ڈیٹا سے اپنی ، کیلوریز کیلکولیٹر پر اپنی کیلوریز کا حساب لگا یا :


یعنی ہفتہ اور اتوار  کو بڑھیا  1394کیلوریز  لے اور بوڑھا  1781 کیلوریز چبائے -
https://www.calculator.net/calorie-calculator.html?ctype=standard&cage=68&csex=m&cheightfeet=5&cheightinch=6&cpound=170&cheightmeter=150&ckg=150&cactivity=1.375&cmop=0&coutunit=c&cformula=m&cfatpct=20&printit=0 
باقی دن   دونوں کو  بالترتیب  1598 اور  2040 ، کیلوریز چبانے کی اجازت ہے ، تاکہ موجودہ وزن  بالترتیب  150 پونڈ اور 170 پونڈ برقرار رہے-
 https://www.calculator.net/calorie-calculator.html?ctype=standard&cage=68&csex=m&cheightfeet=5&cheightinch=6&cpound=170&cheightmeter=150&ckg=150&cactivity=1.375&cmop=0&coutunit=c&cformula=m&cfatpct=20&printit=0
 اگر مہاجرزادہ ، اپنی خوراک سے 500 کیلوریز  روزانہ (3500 ہفتہ) کم کرے  تو ہفتے کے بعد اُس کا وزن ایک پاونڈ کم ہوجائے گا ۔
لیکن روزانہ کم سے کم 1200 کیلوریز ضرور  لینی ہو گی !
ارے ہاں ایک بات وہ یہ کہ آپ نے اپنے وزن کا انڈیکس (BMI) بلحاظ حجم  ، بھی تو نکالنا ہے ۔تو پھر نکالیں :

بوڑھے کی عمر 68 سال وزن ، 77 کلوگرام ( پونڈ170) اور قد   165 سنٹی میٹر (5 فٹ 6 انچ ) - 
  تو بوڑھے کا     BMI بنا   27.44 ،  ارے بوڑھا تو موٹا  ہے یہ تو    18.5–24.9 BMI ہونا چاھئیے ؟؟؟؟   
بوڑھے کو اپنا وز ن 115 پونڈ تک لانا ہوگا !!
پریشان ہوگئے ! کوئی بات نہیں آئیں اپنا وزن کم کرتے ہیں ۔ تاکہ لوگوں کو اُٹھانے میں آسانی ہو !  ارے ہسپتال لے جانے کے لئے !!
اب جو کیلوریز آپ  اپنے  جسم میں داخل کرتے ہیں وہ  دل کی دھڑکن ، کھائی جانے والی خوراک کو ہضم کرنے اور آپ کی جسمانی حرکات  میں خرچ ہو جاتی ہیں۔


  اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیلوریز کیا ہوتی ہے ؟
 اگر ایک کلوگرام  پانی کا درجہ حرارت ایک درجہ سنٹی گریڈ بڑھانے کے لئے  ، 1یک کلوری  کی ضرورت پڑتی ہے ۔کیلو ری    (kcal)،  توانائی(energy)   کو ناپنے کی اکائی(unit)   ہے ۔ 
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 
٭٭٭صحت  پر  مضامین پڑھنے کے لئے کلک کریں   ٭واپس٭٭٭٭  ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭  

بدھ، 26 فروری، 2020

روایات کیسے بنتی ہیں؟

مسلح افواج میں ڈسپلن اور روایات کی پاسداری پر خاص توجہ دی جاتی ہے، جس کے بڑے دور رَس اثرات مرتب ہوتے ہیں-
 ایک رجمنٹ میں نیا کمانڈنگ افسر  آیا، تو دورے پر نکلا-دیگر چیزوں کے علاوہ دیکھا کہ دو چاک و چوبند سپاہی ایک بنچ کے دائیں بائیں کھڑے گارڈ ڈیوٹی دے رہے ہیں۔
" نوجوان ، یہاں کیوں کھڑے ہو ؟"
اس نے وجہ پوچھی تو انہوں نےکھڑاک سلیوٹ مارا اور بتایا:
"سر،یہ  پرانے سی او صاحب  کا حکم تھا، یہاں گارڈ دی جائے گی !"
: کیوں ؟" کمانڈنگ آفیسر نے پوچھا ۔
" سر !  یہ ہماری رجمنٹ کی ٹریڈیشن ہے!"
کرنل نے حیران پریشان ہو کر بنچ کی طرف دیکھتا رہا،  واپس ، آفس آیا  اور اپنے سے پہلے کمانڈنگ آفیسر کو فون کیا ۔

" سریہ جو میدان کے پاس ایک  بنچ پڑی ہے وہاں ، دو سپاہی گارڈ ، ڈیوٹی دیتے ہیں ، کوئی خاص بات ہے اُس بنچ میں ؟"
"مجھے کچھ اندازہ نہیں ہے کہ بنچ کے  لئے  گارڈ  ڈیوٹی کیوں لگائی گئی تھی- بس یونٹ کی ٹریڈیشن چلی آرہی تھی تو میں نے بھی جاری رکھی ". جواب ملا۔

نہ ایجوٹنٹ کو پتہ نہ سیکنڈ اِن کمانڈ کو  یونٹ کے 45 سالہ رسالدار میجر  نے بھی وہی جواب دیا ۔
" سر یہ یونٹ کی ٹریڈیشن ہے جو میں بھرتی ہونے کے بعد سے دیکھ رہا ہوں "
کرنل کا تجسس ابھرا  - اس نے گزشتہ کمانڈنگ افسران کے نام پتے منگوائے اور رابطے شروع کردیئے-  

سابقہ کمانڈنگ افسران سے رابطے ہوئے، تاہم ان میں سے کسی کو بھی اس ٹریڈیشن کے آغاز کا کچھ اَتا پتا نہیں تھا- 
رجمنٹ  کی ری یونیئن  ، سار ے پرانے آفیسرز اور سردار صاحبا ن  جنہوں نے رجمنٹ میں نوکری کی تھی بلائے گئے ۔
بڑے کھانے میں  ایک بوڑھا  70 سالہ جرنیل بھی تھا ، جس نے      تیس سال پہلے یونٹ کی کمانڈ کی تھی -
وہ اپنے زمانے کے رجمنٹ کے قصے سنا رہا تھا ۔ اچانک کمانڈنگ آفیسر کو وہ بنچ یاد آگئی ، اُس نے جنرل سے پوچھا ،
" معذرت سر ، کوارٹر گارڈ کے سامنے میدان میں ایک بنچ پڑی  ، اُس کے گرد دو سپاہیوں کی کوئی تیس سال پہلے سے گارڈ لگ رہی ہے ، کیا اُس بنچ کی کوئی رجمنٹل ہسٹری ہے ؟"

ریٹائرڈ جرنیل   یہ  بات سن کر ہکا بکا رہ گیا، پھر زور دار قہقہہ لگا  کر بولا،
 " اوہ ، کیا بینچ پر کیا گیا رنگ ابھی تک خشک نہیں ہوا؟ "


٭٭٭٭٭٭٭

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔