Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

اتوار، 23 فروری، 2020

پارسا کتے اور مذہبی رسومات

مریض پر گزشتہ 20 منٹ سے جھکا ہوا ڈاکٹر سیدھا ہوکر مڑا ۔ چند ثانئیے توقف کے بعد عاشق حسین کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے مغموم لہجے میں کہا ۔ 
"بزرگو ہم نے اپنی سی پوری کوشش کی ۔ زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں یے ۔کسی  بھی وقت کوئی بھی معجزہ رونما ہو سکتا ہے مگر مرض اتنا پرانا تھا اور سلوتریوں نے مرض کو اتنا بگاڑا تھا کہ مریض کے بچنے کی اب کوئی امید نہیں ہے ۔ بمشکل 13 گھنٹے جی سکے گا "۔
عاشق حسین نے نیلی آنکھوں سے جو بکثرت رونے سے لال ہوئی تھی۔ ڈاکٹر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا،
"ڈاکٹر صاحب کیا میرے جوان جہان بیٹے کے بچنے کا کوئی امکان نہیں ہے؟ "

ڈاکٹر نے تاسف کے ساتھ کہا ،
"مجھے انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ شائد ہی ہم آپ کے بیٹے کو بچاسکیں" ۔

" اچھا ڈاکٹر صاحب پھر ہمیں اجازت دیجئے کہ ہم گھر کی راہ لیں"، عاشق حسین نے ڈاکٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔
 ڈاکٹر اس تقاضے پر ششدر رہ گیا ۔حیرت سے کہا ،
" بزرگو آپ کے بیٹے پر جانکنی طاری ہے۔وہ جان دینے کے کرب میں مبتلا ہے ۔ یہاں ہم اس کو ایسی ادویات ڈرپ میں ڈال کر دے رہے ہیں کہ جس سے موت کا عمل کم تکلیف دہ ہوتا ہے ، درد کا احساس کم ہوتا ہے اور روح قدرے کم تکلیف سے نکل جاتی ہے اور آپ نیم مردہ بیٹے کو گھر لے جانے کی بات کر رہے ہیں" ۔
 عاشق حسین نے افسردگی کے ساتھ کہا،
"ڈاکٹر صاحب آپ موت کی تکلیف کی بات کر رہے  ہیں۔ لیکن آپ زندگی کے درد سے واقف نہیں ہیں ۔ کبھی تو غریب رہ کر زندہ رہنے کا تجربہ کر لیجئے ۔ کبھی تو غریب مر کر دیکھ لیجئے ۔ آپ کو کیا پتہ غربت کی زندگی اور غربت کی موت کسی محشر سے کم نہیں ہوتی۔  ہمیں ہسپتال سے جانے کی اجازت  دیجئے  ۔سرکار پر مزید بوجھ نہیں ڈال سکتے "۔

 ڈاکٹر نے غصہ ہوکر کہا ،
" یہی تو تم لوگوں کی جاہلیت ہے ۔پہلے جوان بیٹے کو خودساختہ ڈاکٹرز، حکیموں اور پیروں فقیروں سے علاج کرواتے ہوئے موت کے منہ میں دھکیلا، ایک سادہ عام سی بیماری کو اتنا پیچیدہ کردیا کہ بیچارہ اس دنیا سے رخصت ہورہا ہے اور اب اسے چین سے مرنے بھی نہیں دے رہے ہیں ۔   یہ آپ کا بیٹا  ہے یا دشمن؟ "
عاشق حسین نے پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے کہا ،
" ڈاکٹر صاحب اگر یہ چین سے مر گیا۔ تو دنیا والے مجھے چین سے جینے نہیں دینگے ۔ میرے بیٹے کی درد ناک موت میں میری آبرومندانہ زندگی چھپی ہوئی ہے۔ ہمارے گاؤں تک بس کا کرایہ 120 روپے ہے اور ایمبولینس والے 6 ہزار مانگتے ہیں ۔ بس والے میت کی ٹکٹ نہیں کاٹتے اور نہ ہی مردے کو سیٹ دیتے ہیں- البتہ رساتے میں اگر سواری مرجائے تو لاش کو اتارنے کا نہیں کہتے ۔ آپ نے 13 گھنٹے مزید زندہ رہنے کا کہا ہے اور یہ تجہیز و تکفین کے لیئے مناسب وقت ہے ۔ایمبولینس کا کرایہ آخری رسومات پر خرچ کرلونگا اور بس میں انشاللہ اسے موت بھی جلد آجائیگی ۔ جانکنی کے عذاب کا دورانیہ بھی کم ہوجائے گا "۔

ڈاکٹر یہ سب کچھ سن کر سن ہوگیا ۔ بنا کچھ کہے چل پڑا ۔
 عاشق حسین بیٹے  برکت حسین کو ٹکٹکی باندھے اس وقت تک دیکھتا رہا جب تک آنکھوں میں اُمڈتے ہوئے آنسوؤں  نے اس کا چہرہ ڈھانپا نہیں   ۔
 اتنے میں نرس نے آکر عاشق حسین کو ڈسچارج سلپ تھماتے ہوئے کہا،
" بابا جی آپ مریض کو لے کر جاسکتے ہیں "۔

 عاشق  حسین بوجھل دل اور شکست خوردہ قدموں کے ساتھ بیٹے کو سہار ا دیتے ہوئے   گاؤں کی طرف چل پڑا ۔ بس میں بیٹھے ہوئی اور بیٹے کو کندھے سے لگائے  وہ تجہیز و تکفین کے پورے انتظامات کو ذہن میں ترتیب دے چکا تھا ۔
 آج جمعہ مبارک کا دن تھا ۔صبح کے 10 بج رہے  تھے ۔اسے امید تھی کہ گاوں پہنچتے پہنچتے اس کے بیٹے نے جان دے چکی ہوگی ۔ گاؤں والے اناًفاناً قبر کھود کر تیار کرلیں گے ۔کفن، عرق گلاب، سخات کا صابن، مولوی صاحب کی جائے نماز اور دیگر تمام لوازمات گاوں کے بازار میں ، سلام دکاندار  کے پاس دستیاب ہوتے ہیں ۔ اس نے انگلیوں پر موٹا موٹا حساب لگاتے ہوئے  سوچا  تقریباً ساڑھے چار ہزار لگیں  ۔
اس کے علاوہ قل تک اور بعد میں بھی فاتحہ پڑھنے کے لیے آنے والے مہمانوں اور دور پاس کے رشتہ داروں کے لیے آٹے،  دودھ ، پتی، چائے اور گھی شکر کا خرچہ اس کے حساب سے کوئی ڈھائی ہزار بن رہا تھا اور تقریبا اتنی ہی رقم اس کے پاس بچی ہوئی تھی جو اس نے بیٹے کے علاج معالجے کے لئے گھر کا آخری اثاثہ  بیل بیچ کر حاصل کی  تھی ۔

 انسانوں سے جانور بھی اچھے ہوتے ہیں ضرورت کے وقت  کام  تو آجاتے ہیں- اس نے لمبی سانس لیتے ہوئے سوچا ۔ورنہ انسان تو مشکل میں منہ موڑ لیتے ہیں اور خوامخوا کے لیے اشرف المخلوقات بنے پھرتے ہیں ورنہ کہاں جانور اور کہاں انسان ۔
 جوں جوں گاؤں قریب آتا جارہا تھا توں توں اس کی پریشانی بڑھ رہی تھی ۔ اس نے  ذہن میں جنازے کا وقت ظہر کی نماز ادا ہوتے ہی  سوچا تھا اور مغرب تک ساری رسومات ادا ہونے کا اندازہ کیا تھا ۔ 
لیکن مغرب پڑھنے کے بعد مسجد میں گاؤں والوں اور مہمانوں کو جو کھانا اس نے دینا تھا اس کا انتظام اس سے نہیں ہو پارہا تھا ۔ 
کسی سے ادھار لینا تو ناک کٹنے والی بات تھی۔ 
چلو بھر پانی میں ڈوب  مرنے کامقام تھا۔
  شرم کی بات تھی ۔
زندگی بھر گاؤں والے طعنہ دیتے کہ بیٹے کو اُدھارے کا کفن پہنایا تھا ۔ 
مسکینوں کی طرح زمین میں گاڑا تھا۔ 
 رسومات ادا کیے بغیر دفنانا  نہیں ہوتا بلکہ گاڑھنا کہلاتا ہے -
ساری حیاتی کا طعنہ۔
  اس نے شکر ادا کیا کہ  مردہ بیٹے کو گاؤں لانے کی بجائے جاں بلب بیٹے کو لانے کا فیصلہ کیا- ورنہ گاؤں میں تھو تھو اور بیٹے کی بخشش بھی نہ ہوتی ۔
 گلابو کمہار کے ساتھ یہی تو ہوا تھا ۔ بیوی کی موت پر جنازے کے بعد نہ مولویوں میں سخات بانٹ سکا، نہ ہی امام مسجد کو جائے نماز خرید کر دے سکا اور نہ ہی تدفین کے بعد لوگوں کو کھانا کھلا سکا ۔ 
مولوی صاحب تو صاف بات کرنے کے عادی تھے ۔انہوں نے تو برملا کہا تھا،
"  گلابو کمہار کی بیوی کی بخشش نہیں ہوگی اور اگر پھر بھی کوئی نیکی کام آگئی اور بخشش ہو بھی گئی تو عذاب قبر تو تا قیامت پکاہے" ۔
 بیچارہ گلابو کمہار! ۔ بیوی بھی جہنمی اور وہ بھی آج تک کسی سے آنکھ ملانے کا قابل نہیں ہے ۔ 
عاشق حسین کو جھرجھری سی آگئی-
 ایک مرتبہ پھر اپنے آپ کو داد دی کہ بیٹے کو جانکنی کی حالت میں ہسپتال سے نکالا- ورنہ اگر یہی پیسے ایمبولینس پر خرچ ہوتے تو اس کا انجام بھی گلابو کمہار جیسا ہوتا اور بیٹا بھی عذاب قبر قیامت تک  سہتا ۔
 اچانک عاشق حسین کو زبردست جھٹکا لگا ۔
 ڈرائیور نے اتنے زور سے بریک دبائی تھی کہ سڑک پر ٹائروں کے نشانات پڑ گئے تھے اور پہیوں کے گھسنے کی کریہہ آواز بھی دور تک سنائی دی گئی تھی ۔
مگر ڈرائیور پھر بھی ان تین کتوں کو نہیں بچا سکا تھا جو کتیا کا تعاقب کرتے ہوئے کتیا سمیت چلتی بس کی زد  میں آگئے تھے۔بریک لگنے کی شدت سے سواریاں ایک دوسرے پر لڑھک گئی تھیں۔  بس میں یک دم سے افراتفری مچ گئی ، سواریوں کے شور وغوغا نے آسمان سر پر اٹھا دیا۔
 تین کتے، ایک کتیا  اور عاشق حسین کا بیٹا ساتھ مرگئے ۔ادھر تین کتے اور ایک کتیا بس کے نیچے آکر کوچ کرگئے اور ادھر عاشق حسین کے بیٹے کی روح اوپر پرواز کر گئی۔ 
عاشق حسین نے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھتے ہوئے رب کا شکریہ بھی ادا کردیا کہ تین کتوں اور ایک کتیا کے ساتھ اس کے بیٹے کی جان بھی  نکال لی ۔ 
 بیٹے اور کتوں کے مرنے کا وقت اور مقام جیسے اس کےذہن میں نقش ہو کر رہ گیا ۔ کنڈیکٹر نے جلدی سےمرے ہوئے کتوں کو ٹانگوں سے پکڑ کر کھینچتے ہوئے سڑک کے کنارے ڈال دیا اور بس روانہ ہوگئی ۔
 تقریبا 5 منٹ بعد بس عاشق حسین کے گاؤں کے سٹاپ پر رکی ۔ سٹاپ کے قریبی گھر سے چارپائی منگوا کر عاشق حسین نے گاؤں والوں کی مدد سے بیٹے کی لاش چارپائی پر رکھی- سواریاں گردن نکال نکال کر  بس میں مرنے والے کو دیکھ رہی تھیں ، عاشق حسین نے بیٹے کے اوپر  اپنی چادر ڈال دی تھی -
 بس اس گاؤں کے واحد سواری  اور لاش  کو اتارنے کے بعد دھواں اُگلتے  ، اگلی منزل کی طرف روانہ ہوگئی  ۔
پھجے نائی  کا بیٹا  ، چلاتا ہوا  عاشق حسین کے گھر کی طرف دوڑا  ، برکت حسین مر گیا ، برکت حسین مر گیا ، یہ بریکنگ نیوز پورے گاؤں میں پھیل گئی ۔  بڑھے بوڑھوں نے عشاق کو دلاسا دیا گاؤں کے جوانوں نے برکت حسین کی چارپائی اُٹھا لی ۔
گھر کے سامنے لوگ جمع تھے ، عورتوں کے بین  شروع تھے ، 
عاشق حسین   نے  چھوٹے بھائی کو ساری نقد رقم بھی ہاتھ میں تھمادی   ۔ اور کہا ،
" خادم حسین لے پتر سارے انتظامات کر ، لوکاں نو بٹھا  میں  ہن ہی آیا "  عاشق حسین  ایک   بوری میں ایک  بغدا  ، تیز دھار والی چھری اور کام والے میلے اور بوسیدہ کپڑے رکھ کر خاموشی کے ساتھ نکل گیا ۔

 تھوڑی دیر بعد وہ جائے حادثہ پر  تھا ۔ سڑک پر ویرانی چھائی ہوئی تھی ۔وہ جلدی سے   چاروں  مرے ہوئے کتوں کو ٹانگوں سے کھینچتے ہوئے سڑک کنارے گنے کے کھیتوں میں اندر تک لے گیا ۔ بجلی کی سی سرعت کے ساتھ اس نے چاروں کتوں کو کاٹ کر صفائی  اور گوشت کے پاچے بنا کر  بوری میں ڈالا ۔
میلے اور خون آلود کپڑوں   کو اتارا اور لیر ا لیرا کردیا ۔  کتوں کی باقیات کو گڑھا کھود کر دبایا اور اُس  سے دور  گڑھا کھود کر اپنے کپڑوں کو بھی  دبا دیا ۔ 
گھر کی جانب  جاتے ہوئے ، ایک کھوکھلے درخت میں بغدا اور چھرا بھی ڈال دیا   ، کہ بعد میں اُٹھا لے گا ۔
  گھر داخل ہوکر اس نے بڑی بیٹی کے حوالے  گوشت  کرتے ہوئے  میت کا کھانا تیار کرنے کے بارے میں اچھی طرح سمجھایا اور باہر نکل کر فاتحہ کے لیے آنے والوں کے پاس جا بیٹھا ۔
 برکے حسین کی تدفین  شان سے ہوئی ۔ چار پیٹی صابن بانٹا گیا اور آئے ہوئے گاؤں کے بڑے مولوی صاحب ، بچوں کوسیپارہ پڑھانے والے مولوی صاحب،  نعتیں اور قرءت کرنے والے مولوی صاحب ،  مسجد کی صفائی کرنے والے مولوی  صاحب ، وضو کے لئے پانی بھرنے والا  حافظ صاحب، آذان دینے والے دو مؤذنوں  میں جائے نماز ، سفید ٹوپیاں  اور تسبیح بھی تقسیم کی گئیں ۔ 
مغرب کے بعد سارے گاؤں کو مسجد ہی میں چھوٹا گوشت کھلایا گیا ۔  چودھری صاحب کے علاوہ عاشق حسین   چھوٹا گوشت کھلانے والا پہلا  فرد تھا ورنہ عموماً  بچھیا   کھلائی جاتی تھی ۔گرم گرم تندوری روٹیوں کے ساتھ سب نے پیٹ بھر کر کھایا۔ خوب واہ واہ ہوئی ۔
سب نے  میت کے کھانے کی لذت کی تعریف کی ۔ عاشق حسین مطمئن تھا کہ انشاللہ میت کا ایسا کھانا گاؤں میں کسی  نے نہ کھایا ہوگا ، 
  عاشق حسین نے ایک بھرا ہوا خوانچہ مولوی صاحب کے گھر بھی بجھوایا ۔ خوب دعائیں ہوئیں اور مرحوم کو شہید کا درجہ بھی عطا ہوا ۔
 اگلی صبح فجر پڑھنے   کے بعد بھری مسجد میں مولوی صاحب نے سپیکر   عاشق حسین کو مخاطب کرتے ہوئے اعلان کیا ،
" گاوں والو ،   رات کو تو بڑی عجیب بات ہوئی ۔میں نے اور ملانی جی نے اکھٹے ایک ہی خواب دیکھا کہ تیرا برخوردار جنت کی باغوں میں چہل قدمی کر رہا ہے ۔ خوش و خرم ہے ۔ میں نے تو  بس صرف یہی دیکھا مگر ملانی جی کہہ رہی تھی کہ اسے شہید نے کہا کہ ابا کی حویلی بھی وہ جنت میں دیکھ چکا ہے جس کی سفید موتیوں کی چمک دمک آنکھوں کو خیرہ کرتی ہے" ۔

مسجد میں موجود تمام نمازی عش عش کر اٹھے۔
 عاشق حسین زیر لب مسکرایا ۔ اسے پہلی مرتبہ  کتوں کی پارسائی کا علم ہوا - واقعی جنت کا ہر راستہ پیٹ سے گزرتا ہے اور جہنم بھوک کی پیداوار ہے ۔ عاشق حسین نے دل ہی دل میں ان چاروں کتوں کا شکریہ ادا کیا  کہ اُنہوں  مرنے کے بعد بھی ، انسانی محبت کا ثبوت دیا  اور  اس کی انا اور دین کو قائم رکھا ، اس کے بیٹے اور اسے جنت تک لے جانے کا سبب بنے ۔ جس کے گواہ مولوی چراغ دین اور اُس کی نیک بیوی  بختا ں  بی بی   ہیں ۔
پہلی مرتبہ اس کے دل سے کتوں کے لئے دعا نکلی ۔
 اگر ان کتوں نے آج اس کی  پردہ پوشی نہ کی ہوتی،  تو انسان تو اسے برہنہ کرچکے ہوتے!
(منقول)۔

٭٭٭٭٭٭٭ 
جس نے بھی لکھا خوب لکھا ، مہاجرزادہ 
٭٭٭٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔