انسانی جسم کے اندر موجود ایک خوفناک دو چہروں والا شیطان ، جو عمر کے کسی بھی حصے میں آپ کے جسم کا مکمل کنٹرول حاصل کرکے ، آپ کو لاچار کر سکتا ہے ۔
تو پھر جانیئے کہ ہم اِس شیطان کو اُبھرنے سے پہلے کیسے روک سکتے ہیں؟
بچوں کی ذ یا بیطس-ٹائپ-1 :بچوں اور نوعمروں میں ٹائپ 1 ہوجاتی ہے ، اور اسے کبھی نو عمر ذیابیطس بھی کہتے ہیں ۔ ذیابیطس کی یہ قسم تمام انسانوں میں 5٪ سے 10٪ تک ہوتی ہے۔
بالغوں کی ذ یا بیطس-ٹائپ-2 : اِس ذیابیطس کا تناسب بالغوں میں 90 سے 95٪ کا ہوتا ہے۔
گویا ٹائپ 2 کی اجارہ داری کا دائرہ بڑا ہے ۔ یہ بنیادی طور پر چالیس سال اور اس سے زیادہ عمر کے بالغوں میں پائی جاتی ہے ، اور اس طرح اسے بالغوں سے ہونے والی ذیابیطس کہا جاتا ہے۔لیکن ٹہریئے ! زیادہ خوش نہ ہوں ، یہ آپ کی بے تحاشا اور سوچے سمجھے بغیرکھانے کی عادت سے نوجوانی میں بھی ہو سکتی ہے !
حاملہ عورتوں کی ذ یا بیطس-ٹائپ-3 : یہ عموماً حاملہ عوتوں میں پائی جاتی ہے ، جو حمل کے دوران ظاہرہوتی ہے ۔
لیکن چونکہ اب بچوں میں بھی ذیابیطس کے 45٪ واقعات ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ لہذا اب ذیابیطس کو صرف دو ناموں سے پہچانا جاتا ہے ، ٹائپ 1 اور ٹائپ 2 ۔
دونوں اقسام میں ، بیماری معدے کے مٹھاس کو نہ ہضم کر سکنے (غیر فعال گلوکوز میٹابولزم )سے شروع ہوتی ہے۔ جس میں کھانوں میں شامل مٹھاس مکمل طور پر توانائی میں تبدیل ہو کر جسم کو قائدہ مند نہیں بناتی ، بلکہ خون میں بطورمٹھا س ہی رہتی ہے ۔اور بلڈ شوگر کہلائی جاتی ہے ، اور ڈاکٹر کہتا ہے ،
”آپ کو شوگر ہوگئی ہے ۔ اپنے کھانوں میں سے مٹھاس کم کردیں ، ورنہ آپ کو صبح اور شام پیٹ پر انسولین کے انجیکشن روزانہ لگانا پڑیں گے اور ساتھ ہی دوائیاں بھی کھانا پڑیں گی "
انسولین کا ایک انجیکشن 1000 روپے کا آتا ہے اور 3 سے چھ دن چلتا ہے اور ایک ماہ میں صرف انجیکشن کا خرچہ 6000 سے 10 ہزار روپے ہے ، لیکن شوگر پھر بھی جان نہیں چھوڑے گی !!
کیوں کہ شوگر کا ساتھ موت تک ہوتا ہے اور ہاں یہ آپ کے بچوں میں بھی منتقل ہوجاتی ہے ۔
گویا آپ کی بے احتیاطی آپ کی نسلوں تک چلتی ہے ۔ لیکن آپ اِسے روک سکتے ہیں ! آپ کا معدہ ،کھانےمیں موجود اجزاء کو مکمل طور پر تحلیل کر کے جسم کے لئے فائدہ مند بنانا)کی مثال یوں ہے:
•- ہم کھانا کھاتے ہیں، اِس کھانے میں، مندرجہ ذیل اجزا شامل ہوتے ہیں یا ہونا چاھئیں :
٭- پروٹین (مچھلی ، گوشت ، پولٹری ، دودھ کی مصنوعات ، انڈے ، گری دار میوے ، اور پھلیاں میں پایا جاتا ہے)-
٭- چربی (جانوروں اور دودھ کی مصنوعات ، گری دار میوے اور تیل میں پایا جاتا ہے)
٭- کاربوہائیڈریٹ (پھل ، سبزیاں ، سارا اناج ، اور پھلیاں اور دیگر پھلوں میں پایا جاتا ہے) -
٭- وٹامنز (جیسے وٹامن اے ، بی ، سی ، ڈی ، ای ، اور کے)
٭- معدنیات (جیسے کیلشیم ، پوٹاشیم اور آئرن)
٭- پانی (جو آپ پیتے ہیں اور قدرتی طور پر کھانے میں)
٭- فائبر - (ریشے دار غذائیں )
شامل ہوتے ہیں ۔
• -کھانا ہضم کرنے کے لئے معدہ فعال ہو جاتا ہے۔اور وہ تمام کھانے کو پیس کر مکس کر دیتا ہے ۔
• - معدے سے یہ ایک ملغوبے کی شکل میں، چھوٹی آنت میں داخل ہوتا ہے ۔ جہاں سے، پروٹین ،چربی ، کاربو ہائیڈریٹ، وٹامن ، معدنیات اور پانی ، خون میں شامل ہو کر جسم کے ہر ذرے کو طاقت فراہم کرتی ہیں ۔
• - چھوٹی آنت میں داخل ہوتے ہی ۔ ملغوبے میں شامل قدرتی مٹھاس (کاربوہائیڈریٹ)یا مصنوعی چینی ، سادہ شوگر میں تبدیل ہو کر گلوگوز میں تبدیل ہو جاتی ہے ۔
• - گلوکوز (بلڈ شوگر) خون میں داخل ہوتا ہے ، اور لبلبے ( Pancreas )کے ذریعہ ملنے والی انسولین (Insulin)پر بیٹھ کر جسم ہر سیل میں پہنچتا ہے ۔
•- انسولین ، گلوکوز کے لئے ایک خدمت گذار کی طرح کام کرتا ہے ، مختلف مقاصد کے لئے مختلف خلیوں میں گلوکوز کے دروازے کھولتا ہے۔ کچھ گلوکوز کو فوری طور پر سیل کے استعمال کےلئے قلیل مدت کی توانائی میں تبدیل کیا جاتا ہے ، اور بعد میں استعمال کے لئے طویل مدت کی توانائی (کچی چربی) کے طور پر ذخیرہ ہوتے ہیں۔
•- انسولین ، کے بغیر گلوکوز کے لئے جسمانی خلیوں کے دروازے نہیں کھلتے اور وہ خون میں ہی رہ کر جسم میں گھومتا رہتا ہے اور ذیابیطس(Diabetes) بن کر جسم کو نقصان پہنچاتا ہے ۔
تو پھر جانیئے کہ ہم اِس شیطان کو اُبھرنے سے پہلے کیسے روک سکتے ہیں؟
ایک شیطان اور دو چہرے !
ذیابیطس کی اقسام ٹائپ 1 یا ٹائپ 2 ہیں۔ بچوں کی ذ یا بیطس-ٹائپ-1 :بچوں اور نوعمروں میں ٹائپ 1 ہوجاتی ہے ، اور اسے کبھی نو عمر ذیابیطس بھی کہتے ہیں ۔ ذیابیطس کی یہ قسم تمام انسانوں میں 5٪ سے 10٪ تک ہوتی ہے۔
بالغوں کی ذ یا بیطس-ٹائپ-2 : اِس ذیابیطس کا تناسب بالغوں میں 90 سے 95٪ کا ہوتا ہے۔
گویا ٹائپ 2 کی اجارہ داری کا دائرہ بڑا ہے ۔ یہ بنیادی طور پر چالیس سال اور اس سے زیادہ عمر کے بالغوں میں پائی جاتی ہے ، اور اس طرح اسے بالغوں سے ہونے والی ذیابیطس کہا جاتا ہے۔لیکن ٹہریئے ! زیادہ خوش نہ ہوں ، یہ آپ کی بے تحاشا اور سوچے سمجھے بغیرکھانے کی عادت سے نوجوانی میں بھی ہو سکتی ہے !
حاملہ عورتوں کی ذ یا بیطس-ٹائپ-3 : یہ عموماً حاملہ عوتوں میں پائی جاتی ہے ، جو حمل کے دوران ظاہرہوتی ہے ۔
لیکن چونکہ اب بچوں میں بھی ذیابیطس کے 45٪ واقعات ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ لہذا اب ذیابیطس کو صرف دو ناموں سے پہچانا جاتا ہے ، ٹائپ 1 اور ٹائپ 2 ۔
دونوں اقسام میں ، بیماری معدے کے مٹھاس کو نہ ہضم کر سکنے (غیر فعال گلوکوز میٹابولزم )سے شروع ہوتی ہے۔ جس میں کھانوں میں شامل مٹھاس مکمل طور پر توانائی میں تبدیل ہو کر جسم کو قائدہ مند نہیں بناتی ، بلکہ خون میں بطورمٹھا س ہی رہتی ہے ۔اور بلڈ شوگر کہلائی جاتی ہے ، اور ڈاکٹر کہتا ہے ،
”آپ کو شوگر ہوگئی ہے ۔ اپنے کھانوں میں سے مٹھاس کم کردیں ، ورنہ آپ کو صبح اور شام پیٹ پر انسولین کے انجیکشن روزانہ لگانا پڑیں گے اور ساتھ ہی دوائیاں بھی کھانا پڑیں گی "
انسولین کا ایک انجیکشن 1000 روپے کا آتا ہے اور 3 سے چھ دن چلتا ہے اور ایک ماہ میں صرف انجیکشن کا خرچہ 6000 سے 10 ہزار روپے ہے ، لیکن شوگر پھر بھی جان نہیں چھوڑے گی !!
کیوں کہ شوگر کا ساتھ موت تک ہوتا ہے اور ہاں یہ آپ کے بچوں میں بھی منتقل ہوجاتی ہے ۔
گویا آپ کی بے احتیاطی آپ کی نسلوں تک چلتی ہے ۔ لیکن آپ اِسے روک سکتے ہیں ! آپ کا معدہ ،کھانےمیں موجود اجزاء کو مکمل طور پر تحلیل کر کے جسم کے لئے فائدہ مند بنانا)کی مثال یوں ہے:
•- ہم کھانا کھاتے ہیں، اِس کھانے میں، مندرجہ ذیل اجزا شامل ہوتے ہیں یا ہونا چاھئیں :
٭- پروٹین (مچھلی ، گوشت ، پولٹری ، دودھ کی مصنوعات ، انڈے ، گری دار میوے ، اور پھلیاں میں پایا جاتا ہے)-
٭- چربی (جانوروں اور دودھ کی مصنوعات ، گری دار میوے اور تیل میں پایا جاتا ہے)
٭- کاربوہائیڈریٹ (پھل ، سبزیاں ، سارا اناج ، اور پھلیاں اور دیگر پھلوں میں پایا جاتا ہے) -
٭- وٹامنز (جیسے وٹامن اے ، بی ، سی ، ڈی ، ای ، اور کے)
٭- معدنیات (جیسے کیلشیم ، پوٹاشیم اور آئرن)
٭- پانی (جو آپ پیتے ہیں اور قدرتی طور پر کھانے میں)
٭- فائبر - (ریشے دار غذائیں )
شامل ہوتے ہیں ۔
• -کھانا ہضم کرنے کے لئے معدہ فعال ہو جاتا ہے۔اور وہ تمام کھانے کو پیس کر مکس کر دیتا ہے ۔
• - معدے سے یہ ایک ملغوبے کی شکل میں، چھوٹی آنت میں داخل ہوتا ہے ۔ جہاں سے، پروٹین ،چربی ، کاربو ہائیڈریٹ، وٹامن ، معدنیات اور پانی ، خون میں شامل ہو کر جسم کے ہر ذرے کو طاقت فراہم کرتی ہیں ۔
• - چھوٹی آنت میں داخل ہوتے ہی ۔ ملغوبے میں شامل قدرتی مٹھاس (کاربوہائیڈریٹ)یا مصنوعی چینی ، سادہ شوگر میں تبدیل ہو کر گلوگوز میں تبدیل ہو جاتی ہے ۔
• - گلوکوز (بلڈ شوگر) خون میں داخل ہوتا ہے ، اور لبلبے ( Pancreas )کے ذریعہ ملنے والی انسولین (Insulin)پر بیٹھ کر جسم ہر سیل میں پہنچتا ہے ۔
•- انسولین ، گلوکوز کے لئے ایک خدمت گذار کی طرح کام کرتا ہے ، مختلف مقاصد کے لئے مختلف خلیوں میں گلوکوز کے دروازے کھولتا ہے۔ کچھ گلوکوز کو فوری طور پر سیل کے استعمال کےلئے قلیل مدت کی توانائی میں تبدیل کیا جاتا ہے ، اور بعد میں استعمال کے لئے طویل مدت کی توانائی (کچی چربی) کے طور پر ذخیرہ ہوتے ہیں۔
•- انسولین ، کے بغیر گلوکوز کے لئے جسمانی خلیوں کے دروازے نہیں کھلتے اور وہ خون میں ہی رہ کر جسم میں گھومتا رہتا ہے اور ذیابیطس(Diabetes) بن کر جسم کو نقصان پہنچاتا ہے ۔
آپ
اپنے جسم کو سر دست ، ایک ہوائی اڈہ تصور کریں -جس میں ایک وسیع
پارکنگ لاٹ ہے ۔جہاں شہر سے مسافروں کی پہنچنے کا اعلیٰ انتظام ہے ، کسی
بھی صورت میں ائرپورٹ پر آنے والےمسافروں کے لئے ٹریفک جام نہیں ہوسکتا ۔
مسافر پارکنگ لاٹ میں پہنچتے ہیں وہاں سے شٹل سروس ، اپنے اپنے جہازوں کے
مسافروں کو اُٹھا کر اپنی اپنی ائر لائن کے جہاز پر لے جاتی ہے اور
مسافر اپنی منزل کو روانہ ہوجاتے ہیں ۔ اور یہ نظام بغیر کسی تعطل یا تاخیر
کے آٹو میٹک چلتا رہتا ہے ۔
اسی طرح آپ کے بلڈ شوگر کا ہر یونٹ، ایک انفرادی شوگر مسافر ہے۔ آپ کھانے کے بعد ، آپ کے جسم میں بلڈ شوگر کے شوگرمسافر بڑھنا شروع ہوجاتے ہیں ، اب یہ شوگرمسافر اپنے اپنے سفر پر جانے کے لئے ، ہوائی اڈے کی پارکنگ لاٹ میں شٹل سروس کے پاس پہنچنا شروع ہو جاتے -
انسولین شٹل سروس بس آپ کی پینکریس کمپنی کی ہے ۔ جس میں ہر شوگر مسافر سوار ہو کر اپنی منزل کی طرف روانہ جاتے ہیں ۔
لیکن اگر شٹل بسوں کی کمی ہوجائے، تو پارکنگ میں شوگر مسافروں کی تعداد بڑھ جائے گی ۔
اور اگر شٹل بسیں آئیں ہی نا ، تو پارکنگ لاٹ میں ہجوم کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
ذ یا بیطس-ٹائپ-1 : انسولین شٹل بس، بنانے والی واحد کمپنی ، پینکریس انجنیئرنگ کمپنی بند ہو جاتی ہے ، جس کے لئے ، شوگر مسافروں کو جہاز تک پہنچانے کے لئےمتبادل نظام درکار ہوتا ہے ۔
ذ یا بیطس-ٹائپ-2 :انسولین شٹل بسیں موجود تو ہیں لیکن اُن کی تعداد میں سروس کی وجہ سے کمی واقعہ ہو چکی ہے ، اور شوگر مسافر بہت ہیں ۔
دونوں ہی صورتوں میں ، شوگر مسافر کبھی نہیں پہنچتے جہاں وہ جانا چاہتے ہیں۔ نظام خراب ہوجاتا ہے اور انتشار پھیل جاتا ہے ۔ شوگر مسافر نکاسی کے ہنگامی راستوں سے واپس جانا شروع ہو جاتے ہیں ۔ جہاں سیفٹی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ۔
لہذا اب یا :
1- مسافروں کو کم کیا جائے ۔ تاکہ پارکنگ لاٹ میں رش نہ ہو ۔
2-شوگر مسافروں کی زیادہ تعداد کے مطابق ، متبادل نظام بنایا جائے ۔ جو اتنا ہی کارگر ہو جتنا انسولین شٹل بس سروس ۔
اسی طرح آپ کے بلڈ شوگر کا ہر یونٹ، ایک انفرادی شوگر مسافر ہے۔ آپ کھانے کے بعد ، آپ کے جسم میں بلڈ شوگر کے شوگرمسافر بڑھنا شروع ہوجاتے ہیں ، اب یہ شوگرمسافر اپنے اپنے سفر پر جانے کے لئے ، ہوائی اڈے کی پارکنگ لاٹ میں شٹل سروس کے پاس پہنچنا شروع ہو جاتے -
انسولین شٹل سروس بس آپ کی پینکریس کمپنی کی ہے ۔ جس میں ہر شوگر مسافر سوار ہو کر اپنی منزل کی طرف روانہ جاتے ہیں ۔
لیکن اگر شٹل بسوں کی کمی ہوجائے، تو پارکنگ میں شوگر مسافروں کی تعداد بڑھ جائے گی ۔
اور اگر شٹل بسیں آئیں ہی نا ، تو پارکنگ لاٹ میں ہجوم کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
ذ یا بیطس-ٹائپ-1 : انسولین شٹل بس، بنانے والی واحد کمپنی ، پینکریس انجنیئرنگ کمپنی بند ہو جاتی ہے ، جس کے لئے ، شوگر مسافروں کو جہاز تک پہنچانے کے لئےمتبادل نظام درکار ہوتا ہے ۔
ذ یا بیطس-ٹائپ-2 :انسولین شٹل بسیں موجود تو ہیں لیکن اُن کی تعداد میں سروس کی وجہ سے کمی واقعہ ہو چکی ہے ، اور شوگر مسافر بہت ہیں ۔
دونوں ہی صورتوں میں ، شوگر مسافر کبھی نہیں پہنچتے جہاں وہ جانا چاہتے ہیں۔ نظام خراب ہوجاتا ہے اور انتشار پھیل جاتا ہے ۔ شوگر مسافر نکاسی کے ہنگامی راستوں سے واپس جانا شروع ہو جاتے ہیں ۔ جہاں سیفٹی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ۔
لہذا اب یا :
1- مسافروں کو کم کیا جائے ۔ تاکہ پارکنگ لاٹ میں رش نہ ہو ۔
2-شوگر مسافروں کی زیادہ تعداد کے مطابق ، متبادل نظام بنایا جائے ۔ جو اتنا ہی کارگر ہو جتنا انسولین شٹل بس سروس ۔
جوں ہی کسی شخص میں ذیابیطس (بلڈ شوگر)پیدا ہونے لگتی ہے ، اُس کا میٹابولک عمل (metabolic process )گر جاتا ہے۔ کیوں کہ:
ذیابیطس ٹائپ 1 :ذیابیطس ، کے مریض کے لبلبے میں انسولین تیار کرنے والے خلیے تباہ ہو چکے ہیں ۔ یہ اپنے جسم پر خود پر حملہ کرنے کا نتیجہ ہے ، جس سے ، ذیابیطس ٹائپ 1 خود کار بیماری بن جاتی ہے۔
ذیابیطس ٹائپ 2 : ذیابیطس ، میں لبلبہ انسولین تو پیدا کرتا ہے ، لیکن انسولین اپنا کام نہیں کرتی ہے۔ اس کو انسولین مزاحمت کہا جاتا ہے ، جس کا مطلب ہے کہ ایک بار جب انسولین بلڈ شوگر بھیجنے کے لئے "آرڈر دینا" شروع کردے تو ، جسم اس پر توجہ نہیں دیتا ہے۔ انسولین کو غیر موثر قرار دیا جاتا ہے ، اور بلڈ شوگر کو مناسب طریقے سے میٹابولائز نہیں کیا جاتا ہے -
اب اِس سے جسم کو کیا نقصانات پہنچ سکتے ہیں ؟
1- دل کی بیماری: دل کی بیماری سے موت کا خطرہ 2-4 گنا بڑھ جاتا ہے ۔
2- فالج : فالج کا خطرہ سے 2-4 گنا بڑھ جاتا ہے ۔
3- ہائی بلڈ پریشر : ذیابیطس والے 70٪ سے زیادہ افراد کو ہائی بلڈ پریشر ہے۔
4- اندھا پن: ذیابیطس بالغوں میں اندھے پن کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
5- گردوں کی بیماری :
•- ذیابیطس آخری مرحلے کے گردوں کی بیماری کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
•- ذیابیطس کے مریضوں کے لئے ڈائلیسس یا گردے کی پیوند کاری کی۔
6- اعصابی نظام کی بیماری : ذیابیطس کے مریض اعصابی نظام کے شدید یا معمولی نقصان سے دوچار ہوتے ہیں۔
7-اعضاء کی جدائی : ذیابیطس کے مریضوں کے اعضاء کو کاٹ کر نکال دیا جاتا ہے ۔ جن میں ہاتھوں یا پیروں کی متاثرہ انگلیاں ، ٹانگ یا بازو ۔
8- دانتوں کی بیماری : مسوڑوں کی بیماری میں اضافے کی شدت جو دانتوں کے خاتمے کا باعث بن سکتی ہے-
9- حمل کی پیچیدگیاں- بعض دفعہ حمل کے دوران ہونے والی ذیابیطس ٹائپ 3- کہلاتی ہے ۔اِس سے حمل میں پیچیدگیاں بڑھ جاتی ہیں اور بچے میں ، ذ یا بیطس-ٹائپ-1 کا خطرہ بڑھ جاتا ہے - لہذا حاملہ خاتون کو فوراً اپنے کھائے جانے والی شوگر لیول کو کم کرنا ہوگا ۔
٭- دوسری بیماریوں: کے لئے حساسیت میں اضافہ -
٭- موت: ذیابیطس سے چھٹکارے کا آخری اور حتمی حل ۔
2- فالج : فالج کا خطرہ سے 2-4 گنا بڑھ جاتا ہے ۔
3- ہائی بلڈ پریشر : ذیابیطس والے 70٪ سے زیادہ افراد کو ہائی بلڈ پریشر ہے۔
4- اندھا پن: ذیابیطس بالغوں میں اندھے پن کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
5- گردوں کی بیماری :
•- ذیابیطس آخری مرحلے کے گردوں کی بیماری کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
•- ذیابیطس کے مریضوں کے لئے ڈائلیسس یا گردے کی پیوند کاری کی۔
6- اعصابی نظام کی بیماری : ذیابیطس کے مریض اعصابی نظام کے شدید یا معمولی نقصان سے دوچار ہوتے ہیں۔
7-اعضاء کی جدائی : ذیابیطس کے مریضوں کے اعضاء کو کاٹ کر نکال دیا جاتا ہے ۔ جن میں ہاتھوں یا پیروں کی متاثرہ انگلیاں ، ٹانگ یا بازو ۔
8- دانتوں کی بیماری : مسوڑوں کی بیماری میں اضافے کی شدت جو دانتوں کے خاتمے کا باعث بن سکتی ہے-
9- حمل کی پیچیدگیاں- بعض دفعہ حمل کے دوران ہونے والی ذیابیطس ٹائپ 3- کہلاتی ہے ۔اِس سے حمل میں پیچیدگیاں بڑھ جاتی ہیں اور بچے میں ، ذ یا بیطس-ٹائپ-1 کا خطرہ بڑھ جاتا ہے - لہذا حاملہ خاتون کو فوراً اپنے کھائے جانے والی شوگر لیول کو کم کرنا ہوگا ۔
٭- دوسری بیماریوں: کے لئے حساسیت میں اضافہ -
٭- موت: ذیابیطس سے چھٹکارے کا آخری اور حتمی حل ۔
ذیا بیطس کے مرض میں مبتلاء ہونے کی سرسری پہچان کیا ہے ؟
٭-غیر معمولی پیاس -
٭- بار بار پیشاب آنا۔
٭-غیر معمولی پیاس -
٭- بار بار پیشاب آنا۔
٭- تھکاوٹ
٭- متلی-
٭- مثانے، پیشاب کی جگہ اور جلد کی بیماریوں کا لگنے۔
٭- مثانے، پیشاب کی جگہ اور جلد کی بیماریوں کا لگنے۔
٭- نظر کا اکثر دھندلا جانا -
٭- زمین پر کئے گئے پیشاپ پر چیونٹیوں کاکثرت سے جمع ہونا ۔
لہذا ، اپنا خون اور پیشاب کے ٹیسٹ فوراً کروائیں ۔
اگر آپ کے خون میں شوگر پائی گئی تو یقین کریں کہ آپ کے جس کا مدافعتی نظام ، بیرونی نہیں بلکہ اندرونی حملہ آور کا نشانہ بن چکا ہے ۔
اگر آپ کے خون میں شوگر پائی گئی تو یقین کریں کہ آپ کے جس کا مدافعتی نظام ، بیرونی نہیں بلکہ اندرونی حملہ آور کا نشانہ بن چکا ہے ۔
مزید پڑھیں ۔ شاید آپ کی ہونے والی شوگر کا سدباب ہوسکے !
٭٭٭٭٭٭٭٭
اگلامضمون
٭٭٭صحت پر مضامین پڑھنے کے لئے کلک کریں ٭واپس٭٭٭٭
ُانسولین شٹل بس، بنانے والی واحد کمپنی ، پینکریس انجنیئرنگ کمپنی بند ہو جاتی ہےً ھا ھا خوب تشبیہ ہے
جواب دیںحذف کریں