Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

بدھ، 23 اگست، 2017

کیا ہاتھ پھیلانا، شرفِ انسانیت کی تذلیل نہیں؟

 کیا ڈھائی فیصد سالانہ ، ملک سے غربت دور کر سکتی ہے ؟
صاحبان عقل و دانش ، فہم و فکر ، شعور و تدبّر ، آپ کی کیا رائے ہے ؟
*********************************

قرءت طارق :   بہن نے جواب دینے کے بجائے ،  میری  30 مئی 2017  کی ، ایک پوسٹ پر   ، د و  سوال  داغ دیئے :
" کیا اسلام میں ایسا کوئی نظام نہیں ہے جس میں کوئی ضرورتمند ہی نہ ہو؟


1- کسی کو کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت ہی نہ پیش آئے۔
2- کیا ہاتھ پھیلانا، شرفِ انسانیت کی تذلیل نہیں؟
کیا کہتے ہیں رفقاء؟
 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دوسرے  سوال کا تو میرے نزدیک صاف جواب ہے ، " نہیں ہے  " !

پہلے سوال کا جواب ذرا طویل ہے :
// " کیا اسلام میں ایسا کوئی نظام نہیں ہے جس میں کوئی ضرورتمند ہی نہ ہو؟   //
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اسلام کے  نظام کا تو مجھے علم نہیں !
ہاں ،اللہ کے معاشی نظام کے بارے کچھ معلومات ہیں جس میں ہر انسان کو اللہ کے معاشی نظام سے حصہ بقدر جثّہ ملتا رہتا ہے اور ہر وہ شخص جو اللہ اور یوم آخرت پر اپنے پورے شعور سے ایمان رکھتا ہے کہ اُس کی زندگی کے ہر فعل و عمل کا حساب یوم الحساب میں کیا جائے گا ، جو سب کے سامنے نشر بھی ہوگا ۔   

وہ اپنی زندگی میں اکثر ، اِس نظام میں داخل ہونے کے لئے اپنے اردگرد رہنے والوں کو اپنی استطاعت کے مطابق داخل ہوتا اور نکلتا رہتا ہے ۔
 اِس نظام میں داخل ہونے کے لئے کوئی بہت بڑا گیٹ نہیں کھولنا پڑتا کیوں کہ اِس کی حدود کی دیواریں نہیں ، بس ایک غیر مرئی حد بندی ہے ، جس کو صرف چند پیسے دے کر عبور کیا جا سکتا ہے، جو سب سے آسان ہے -
جس کا بنیادی نکتہ ، اوّل خویش بعد درویش کے مطابق ترتیب وار۔
 جس کو پھلانگ کر ، شائد اللہ کے معاشی نظام کی ترتیب آپ بگاڑ دیں !
 
میرے فہم کے مطابق، انفاق فی سبیل اللہ  کی معاشی ترتیب   :

1- وہ جن سے آپ کی قربت ہے ،
2- آپ کی گلی یا  محلّے میں یتیم  ،
3-آپ سے ملنے والے ایسے مسکین جو کسبِ مال کے قابل نہیں رہے۔ 

4-ضرورت مند مسافر۔
5- مانگنے والے (خواہ اُنہیں آپ روزانہ مانگتے دیکھتے ہوں ) ،
6- وہ جو کسی مصیبت میں گرفتار ہوں اور اُس سے رہائی رقم کی ادائیگی کے بعد ہی ممکن ہو !

اللہ نے محمدﷺ کو جو گائیڈ لائن دیں:
 - - -  وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّآئِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ - - -  [2:177]

اب یہ تو روزِ روشن کی طرح عیٗاں ہے ، کہ ہر آدمی کی اتنی استطاعت نہیں ہوتی ، کہ وہ کسی کی مالی مدد کرے ۔۔
 لیکن یہ بھی یقینی نہیں کہ وہ ، سو فیصد پارسا ہو ، چھوٹی موٹی غلطی کا امکان کہیں نہ کہیں تو ہوسکتا ہے ، خوہ وہ غلطی اپنے تئیں بھلا کام کرنے کی صورت میں غلط ہوجانے پر واقع ہوئی ہو ، جس پر انسانی ضمیر بیدار ہوجائے اور وہ دن رات شرمندگی میں گذارے ۔ اِس شرمندگی کو دور کرنے کے لئے ۔  میری  رائے ہے شاید کہ کام کر جائے ۔  

وہ یہ کہ غلطی کرنے والا شخص ، کچھ " رقم " ، اپنی استطاعت کے مطابق  اپنی اِس" غلطی کا صدقہ"   اللہ کی محبت میں نہیں  بلکہ ، اُس خطا سے نکلنے  اور واپس عافیت میں  داخلے کے کفارے کے طور پر  ، بطور ایک فرض سمجھ کر  ادا کرے۔
یاد رہے ، کہ وہ اپنی ہر بھولے سے ہوجانے والی  معمولی غلطی کے کفّارے کے لئے  خود ہی ایک رقم مقرر کرے ،  "جو کم از کم ایک وقت کے کھانے کے برابر ہو"  -
مثال کے طور پر میں نے کسی   کی بھلائی کے لئے جھوٹ بولا ،  اُس جھوٹ سے اُس شخص    کا بھلا  ہوا جس سے ، کسی دوسرے فرد کو مالی نقصان نہیں ہوا  ، یا مارکٹائی کی نوبت کو ٹالا ۔

 لیکن میں نے  ،برائی کو اچھائی میں ملا کر ،  ایک جرم تو کیا ! 
بس   ایسے ہی کئی جرم انسان روزانہ نہیں تو کم از کم ہفتے میں ایک بار تو کرتا ہے نا ۔تو پھر   اِس   کا جرمانہ بھی ادا کرنا پڑے گاہے ۔ 
یاد رہے ، نفلّی نمازیں یا تسبیح گھمانا  یا دعاؤں پر دعائیں کرنا،  اِس  جرمانےکا کفّارہ   نہیں!
بلکہ سادہ  رقم کی ادائیگی سے ہوگی، جس کے بعد  ہی  تمام مناجاتِ توبہ تلّہ  کا دروازہ  کُھلے گا  ۔
یاد رکھیں اللہ صدقہ  لئے بغیر  توبہ قبول نہیں کرتا ، 
آخر کو اُسے اپنا معاشی نظام بھی  تو الذین آمنو کے ذریعے چلانا ہے ۔

نہیں یقین آیا نا ؟ آئے گا بھی نہیں ، کیوں کہ انسانی لکھی ہوئے کتابوں نے یقین ہی نہیں آنے دینا :
آیت پڑھیں:
أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَأْخُذُ الصَّدَقَاتِ وَأَنَّ اللَّـهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ  (9:104)
 کیا  انہیں علم ہے ؟ کہ   اللہ التواب اور الرحیم ہے     اور  اللہ الصدقات لینے کے بعد ہی توبہ قبول کرتا ہے!

 جرم کے کفّارے  کی    رقم کا صدقے  کا  میرے فہم کے مطابق، جو ممکنہ طریقہ ہو سکتا ہے    : 
 جن میں ،    
٭- پہلی دفعہ غلطی پر: - ایک دفعہ ،  اپنے محلے کے ارد گرد  موجود  ، فقرا  اور مساکین  کے ادارے اور اُن پر مامور افراد ۔
٭- دوسری دفعہ نئی  غلطی پر  :-      وہ جن کے دل اِس  " صدقے"   سے خوش ہو جائیں کیوں کہ اُن کی پوری نہ ہو سکنے والی ضرورت  پوری ہو جائے ۔
٭-     تیسری دفعہ  نئی غلطی پر:-وہ جو کسی مصیبت میں گرفتار ہوں۔
٭-     چوتھی دفعہ نئی غلطی پر:-جن پر آفاقی مصیبت کی وجہ سے  تاوان پڑ گیاہو ، اُس سے رہائی رقم کی ادائیگی کے بعد ہی ممکن ہو !      
٭-پانچویں  دفعہ نئی  غلطی پر:-للہ کی راہ میں کام کرنے والے ۔
٭-     چھٹی دفعہ نئی  غلطی پر:-  اللہ کی راہ میں کام کی تربیت حاصل کرنے والے ۔  یہ چھ مختلف غلطیوں پر ، چھ جرمانے ، بصورتِ صدقات ،  جو چھ مختلف   ضرورت مندوں کو دئے جائیں ۔ 

دوبارہ دھرانے پر اِسی رقم  میں اب اضافہ  ایک کھانابڑھا کر  اللہ کے معاشی نظام کو وسیع کرتے جائیں ۔
اب یا تو آپ اللہ کی حدود سے مکمل نکل جائیں گے اور یا پھر اپنی غلطیوں میں کمی کر دیں گے ۔ 
یاد رہے 100  رکعت نماز نفل کا   کفّارہ  بطور صدقہ بڑا آسان ہے ۔ کیوں کہ الکتاب میں نہیں ، اور سزا بھی نہیں کیوں کہ "مُلّائی  لَغو" لیکن  کسی   مشتملِ نصاب کو صدقے کا  دو وقت کا کھانا ، اپنے روزمرہ کھانے کے مطابق کھلانا ، بڑا مشکل ہے ۔ آزمائش شرط ہے !
اللہ نے محمدﷺ کو الصدقات    لینے والوں کی ترتیب بتائی،  نصاب نہیں بتایا ، ورنہ امیر اور غریب سب ایک ہی لاٹھی سے ہانکے جاتے ۔
 إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ   [9:60]

بجائے اِس کے کہ آپ میرے فہم کی کھال اتارنے کے لئے ، مزید سوال کریں ، برائی کو اچھائی میں خلط ملط کرنے کا جو جرمانہ اللہ نے محمدﷺ کو بتایا ، یہ اُس سے میرا استنباط ہے :

آیت پڑھیں :
 وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا عَسَى اللَّـهُ أَن يَتُوبَ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿9:102﴾ 
 اور   آخَرُونَ  (أَهْلِ الْمَدِينَةِ) جو ہیں ، اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں   ، اُنہوں نے  عملِ صالح میں  برائی کو   خلط کر لیا ۔ ممکن ہے( لازمی نہیں ) کہ اللہ اُن پر   تُوبَ  ہو  بے شک اللہ   غفور رحیم ہے -

خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۗ وَاللَّـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿9:103

 اُن کے اموال   میں سے  صَدَقَةً لے  اُنہیں اِس   (صدقہ )کے ساتھ    طَهِّرُ کر اور زَكِّي کر!  اور  اُن کے اوپرصَلِّ    کر  ! بے شک تیری    صَلاَت  اُن کے لئے    سَكَنٌہے ،  اور  اللہ  سمیع اور علیم ہے ۔
أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَأْخُذُ الصَّدَقَاتِ وَأَنَّ اللَّـهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ﴿9:104
  کیا (تجھے صدقہ دے کر ، اپنے گناہوں کا تیرے سامنے اعتراف کر کے تجھ سے   اپنے اوپر  صَلِّ کروا  کر توبہ کرنے  والے)   وہ  یہ نہیں جانتے ، کہ اللہ اپنے عباد کی توبہ اُن سے   الصَّدَقَات لے کر قبول کرتا ہے  ۔اوربے شک اللہ   التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ہے
 کیا بالا تمام"  ایتائے اموال "  اللہ کے معاشی نظام یعنی نظامِ زکوٰۃ کا حصہ نہیں ؟
 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔