Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

منگل، 1 اگست، 2017

نواب چھتاری اور جنگل حویلی کا راز

لیفٹینٹ کرنل سعید الملک نواب سر محمد احمد سعید خان، نواب چھتاری جی بی ای، کے سی ایس آئی، کے سی آئی ای  کو عرفِ عام میں نواب چھتاری کہا جاتا ہے (پیدائش 12 دسمبر 1888ء - وفات 1982ء) صوبجات متحدہ کے گورنر ، صوبجاتِ متحدہ کے وزیرِ اعلی ، نظام حیدرآباد کی مجلس عاملہ کے صدر (وزیر اعظم حیدرآباد) کے علاوہ ہندوستان کے چیف سکاؤٹ تھے۔
چھتاری   بھارت کا ایک رہائشی علاقہ جو بلندشہر ضلع میں واقع ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 نوٹ : انگریزوں نے بر صغیر سے بہت سے طلباء کو وظائف پر ، انگلستان بھیجا تاکہ اُن کی اپنے خطوط پر تربیت کی جائے ، لیکن بر صغیر میں ، احیائے مذھب اسلام کے فروغ میں بھی خوب کام کیا ،  یہ تحریر اِس مشن کی عکاسی کرتی ہے !
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 نواب راحت سعید خان چھتاری 1940ء کی دہائی میں ہندوستان کے صوبے اتر پردیش کے گورنر رہے ہیں۔ انگریز حکومت نے انہیں یہ اہم عہدہ اس لئے عطا کیا کہ وہ مسلم لیگ اور کانگریس کی سیاست سے لا تعلق رہ کر انگریزوں کی وفاداری کا دم بھرتے تھے۔
نواب چھتاری اپنی یاداشتیں لکھتے ہوئے انکشاف کرتے ہیں ،
" ایک بار انہیں سرکاری ڈیوٹی پر لندن بلایا گیا۔ ان کے ایک پکے انگریز دوست نے جو ہندوستان میں کلکٹر رہ چکا تھا، نواب صاحب سے کہا :
"آیئے! آپ کو ایک ایسی جگہ کی سیر کراؤں جہاں میرے خیال میں آج تک کوئی ہندوستانی نہیں گیا۔"
نواب صاحب خوش ہو گئے، انگریز کلکٹر نے پھر نواب صاحب سے پاسپورٹ مانگا کہ وہ جگہ دیکھنے کے لیے حکومت سے تحریری اجازت لینی ضروری تھی، دو روز بعد کلکٹر اجازت نامہ ساتھ لے آیا اور کہا
" ہم کل صبح چلیں گے، لیکن میری موٹر میں، سرکاری موٹر وہاں لے جانے کی اجازت نہیں"۔
اگلی صبح نواب صاحب اور وہ انگریز منزل کی طرف روانہ ہوئے۔ شہر سے باہر نکل کر بائیں طرف جنگل شروع ہو گیا۔ جنگل میں ایک پتلی سڑک موجود تھی، جوں جوں چلتے گئے، جنگل گھنا ہوتا گیا۔ سڑک کے دونوں جانب نہ کوئی ٹریفک تھا نہ کوئی پیدل مسافر! نواب صاحب حیران بیٹھے اِدھر اْدھر دیکھ رہے تھے۔ موٹر چلتے چلتے آدھے گھنٹے سے زیادہ وقت گزر گیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک بہت بڑا دروازہ نظر آیا، پھر دور سامنے ایک نہایت وسیع وعریض عمارت دکھائی دی۔ اس کےچاروں طرف کانٹے دار جھاڑیوں اور درختوں کی ایسی دیوار تھی جسے عبور کرنا ممکن نہ تھا۔ عمارت کے چاروں طرف زبردست فوجی پہرہ تھا۔ اس عمارت کے باہر فوجیوں نے پاسپورٹ اور تحریری اجازت نامہ غور سے دیکھا اور حکم دیا کہ اپنی موٹر وہیں چھوڑ دیں اور آگے جو فوجی موٹر کھڑی ہے اس میں سوار ہو جائیں۔ نواب صاحب اور انگریز کلکٹر پہرے داروں کی موٹر میں بیٹھ گئے۔اب پھر اس پتلی سڑک پر سفر شروع ہوا۔ وہی گھنا جنگل اور دونوں طرف جنگلی درختوں کی دیواریں
! نواب صاحب گھبرانے لگے، تو انگریز نے کہا
"بس منزل آنے والی ہے"۔
آخر دور ایک اور سرخ پتھر کی بڑی عمارت نظر آئی تو فوجی ڈرائیور نے موٹر روک دی اور کہا
"یہاں سے آگے آپ صرف پیدل جاسکتے ہیں"
 راستے میں کلکٹر نے نواب صاحب سے کہا
"   آپ یہاں صرف دیکھنے آئے ہیں بولنے یا سوال کرنے کی بالکل اجازت نہیں"۔
عمارت کے شروع میں وسیع دالان تھا۔ اس کے پیچھے متعدد کمرے تھے۔ دالان میں داخل ہوئے تو ایک باریش نوجوان عربی کپڑے پہنے سر پر عربی رومال لپیٹے ایک کمرے سے نکلا۔ دوسرے کمرے سے ایسے ہی دو نوجوان اور نکلے پہلے نے عربی لہجے میں کہا :
"السلام وعلیکم"۔
دوسرے نے کہا"وعلیکم اسلام ۔ کیا حال ہے؟"
نواب صاحب یہ منظر دیک کر حیران رہ گئے۔ کچھ پوچھنا چاہتے تھے، لیکن انگریز نے فوراً اشارے سے منع کر دیا۔ چلتے چلتے ایک کمرے کے دروازے پر پہنچے۔ دیکھا کہ اندر مسجد جیسا فرش بچھا ہے۔ عربی لباس میں ملبوس متعدد طلبہ فرش پر بیٹھے ہیں، ان کے سامنے استاد بلکل اسی طرح بیٹھے سبق پڑھا رہے ہیں، جیسے اسلامی مدرسوں میں پڑھاتے ہیں۔ طلباء عربی اور کبھی انگریزی میں استاد سے سوال بھی کرتے۔ نواب صاحب نے دیکھاکہ کسی کمرے میں قرآن مجید پڑھایا جا رہا ہے، کہیں قرآت سکھائی جارہی ہے، کہیں تفسیر کا درس ہو رہا ہے، کسی جگہ بخاری شریف کا درس دیا جا رہا ہے اور کہیں مسلم شریف کا۔ ایک کمرے میں مسلمانوں اور مسیحوں درمیان مناظرہ ہو رہا تھا۔ ایک اور کمرے میں فقہی مسائل پر بات ہو رہی تھی۔ سب سے بڑے کمرے میں قرآن کا ترجمہ مختلف زبانوں میں سکھایا جا رہا تھا۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ ہر جگہ باریک مسئلے مسائل پر زور ہے۔
مثلاً غسل کا طریقہ، وضو، روزے، نمازاور سجدہ سہو کے مسائل، وراثت اور رضاعت کےجھگڑے، لباس اور ڈاڑھی کی وضع قطع، گا گا کر آیات پڑھنا، غسل خانے کے آداب، گھر سے باہر جانا، لونڈی غلاموں کے مسائل، حج کے مناسک ،
بکرا، دنبہ کیسا ہو، چھری کیسی ہو، دنبہ حلال ہے یا حرام؟
حج اور قضا نمازوں کی بحث، عید کا دن کیسے طے کیا جائے اور حج کا کیسے؟
میز پر بیٹھ کر کھانا، پتلون پہننا جائز ہے یا ناجائز، عورت کی پاکی اور ناپاکی کے جھگڑے، حضورصلی اللہ و علیہ وسلم کی معراج روحانی تھی یا جسمانی؟
امام کے پیچھے سورتہ فاتحہ پڑھی جائے یا نہیں؟
تراویح آٹھ ہیں یا بیس؟
نماز کے دوران وضو ٹوٹ جائے تو آدمی کیا کرئے؟
سود مفرد جائزہے یا ناجائز؟  وغیرہ وغیرہ۔
ایک استاد نے سوال کیا، پہلے عربی پھر انگریزی اورآخرمیں نہایت شستہ اردو میں!!!!
" جماعت اب یہ بتائے کہ جادو نظر بد، تعویز گنڈہ آسیب کا سایہ بر حق ہے یا نہیں؟؟
پینتیس چالیس  طلبا ءکی جماعت نے  بیک آواز پہلے انگریزی   پھر عربی اور پھر اردو  میں یہی جواب دیا !
ایک طالب علم نے کھڑے ہوکر سوال کیا ، 
" حج کے لئے نیت ضروری ہے تو مردہ لوگوں کا حج بدل کیسے ہو سکتا ہے؟  قرآن تو کہتا ہے ہر شخص اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے"۔
استاد بولے" قرآن کی بات مت کرو،روایات، ورد اوراستخارے میں مسلمانوں کا ایمان پکا کرو۔ ستاروں، ہاتھ کی لکیروں، مقدر اور نصیب میں انہیں الجھاو"۔
یہ سب دیکھ کر وہ واپس ہوئے تو نواب چھتاری نے انگریز کلکٹر سے پوچھا،
"اتنے عظیم دینی مدرسے کو آپ نے کیوں چھپارکھاہے
؟ "
انگریز نے کہا
"ارے بھئ، ان سب میں کوئی مسلمان نہیں، یہ سب عیسائی ہیں۔ تعلیم مکمل ہونے پر انہیں مسلمان ملکوں خصوصاً مشرق وسطٰی، ترکی، ایران، اور ہندوستان بھیج دیا جاتا ہے۔ وہاں پہنچ کر یہ کسی بڑی مسجد میں نماز پڑھتے ہیں۔ پھر نمازیوں سے کہتے ہیں کہ وہ یورپی مسلمان ہیں۔ انہوں نے مصر کی جامعہ الازہر میں تعلیم پائی ہے اور وہ مکمل عالم ہیں۔ یورپ میں اتنے اسلامی ادارے موجود نہیں کہ وہ تعلیم دے سکیں۔ وہ سردست تنخواہ نہیں چاہتے، صرف کھانا، سر چھپانے کی جگہ درکار ہے۔ پھر وہ موذن، پیش امام، بچوں کے لیے قرآن پڑھانے کے طور پر اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔ تعلیمی ادارہ ہو تو اس میں استاد مقرر ہو جاتے ہیں، جمعہ کے خطبے تک دیتے ہیں۔"
 نواب صاحب کے انگریز مہمان نے انہیں بتا کر حیران کر دیا کہ اس عظیم مدرسے کے بنیادی اہداف یہ ہیں:
--- مسلمانوں کو روایات، ذکر کے وظیفوں اور نظری مسائل میں الجھا کر قرآن سے دور رکھا جائے۔
حضور اکرم ﷺ  کا درجہ جس طرح بھی ہو سکے (نعوذباللہ) گھٹایا جائے۔ کبھی یہ کہو کہ آپ ﷺ  (نعوذباللہ) رجل مسحور یعنی جادو زدہ تھے۔
اس انگریز نے یہ انکشاف بھی کیا کہ 1920ء میں (رنگیلا رسول) نامی کتاب راجپال سے اسی ادارے نے لکھوائی تھی۔ اس طرح کئی برس پہلے مرزا غلام احمد قادیانی کو جھوٹا نبی بنا کر کھڑا کرنے والا یہی ادارہ تھا۔ ان کتابوں کی بنیاد لندن کی اسی عمارت سے تیار ہو کر جاتی تھی۔
خبر ہے کہ سلیمان رشدی ملعون کی کتاب لکھوانے میں بھی اسی ادارے کا ہاتھ ہے۔
  ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
(یہ مضمون نوے کی دہائی میں اردو ڈائجسٹ میں شائع ہوا تھا پھر جولائی 2010 میں اسے دوبارہ شائع کیا گیا ، اور ماہنامہ ’الحیاۃ‘ انڈیا ، فروری2016 میں شائع ہوئی)
   ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔