مرتے دم تک میاں شریف خاندان کے احسانات کی حیا دل میں رہے گا
۔ ۔ ۔
میری یہی تمنا ہے کہ مناسب ادائیگی پر میں اس خاندان کو تباہ کرسکوں!
’’نومبر
1982کی بات ہے دل کی تکلیف ہوگئی پھر میں میوہسپتال داخل ہوگیا دو ایک ماہ وہاں
داخل رہا۔ اس اثنا
میں ،میں نے میاں شریف صاحب کی محبت کو، شفقت کو ان کی چاہت کو مزید
قریب سے دیکھا۔ مجھے ان کی وہ محبت کے دن آج تک یاد ہیں اور اس کا حیا ہمیشہ میرے
دل میں رہا ہے اور ان شاء اللہ مرتے دم تک رہے گا۔ یہ صبح شام ایک ایک گھنٹہ آکے
میرے سرہانے یا بستر کے قریب یا دروازے کے باہر کھڑے دیکھتے رہتے۔ اسی محبت کا
اظہار کرتے ہیں جس طرح باپ اولاد کے لئے کرتا ہے۔ میں بھی جانتا تھا کہ اس قدر
مصروف زندگی جو ایک منٹ بھی کسی اور کے لئے صرف نہیں کرپاتے وہ صبح شام گھنٹہ
گھنٹہ آتے ہیں، کھڑے رہتے ہیں اسی طرح نواز صاحب بھی آتے تھے، شہباز صاحب ان کے
چھوٹے بھائی سارے احباب آتے، میاں صاحب کی اس محبت سے اس شفقت سے میں بڑا متاثر
ہوا"۔
شہباز
شریف نے دل کے آپریشن کے بعد دن رات خدمت کی ۔ ۔ ۔ میں اسے پھانسی دلوانا چاہتا
ہوں
میو ہسپتال میں ، میں
تو بیماری کی وجہ سے معذور تھا ، صاحب فراش تھا ،بستر پر تھا میاں شریف صاحب نے، ڈاکٹر کو کہہ کر امریکہ ریفر کروایا اور اپنے خرچ پر مجھے اوراپنے منجھلے بیٹے شہباز شریف صاحب کو حکم دے کر میرے ساتھ امریکہ روانہ
کردیا۔ اس دور میں شہباز شریف نے جو برتاؤ میرے ساتھ کیا وہ بھی یاد گار ہے۔
مجھے
ہمیشہ اس کابھی احساس اور پاس اور حیا رہا ہے، رہے گا ان شاء اللہ۔ یعنی اب میں
سمجھتا ہوں کہ میاں شریف صاحب کی ہدایت ہی تھی یقیناً میں علیل تھا کمزور تھا میرے جوتے
تک وہ کھولتے تھے، پہناتے تھے، تسمے اپنے ہاتھ سےباندھتے تھے، کھولتے تھے۔ کہیں
جھکنے سے تکلیف نہ ہو،چھوٹا سا آپریشن ہوا تھا، انجیو گرافی کا معمولی سا، بہر
حال دن رات ہر ممکن خدمت کرتے، میں جب بھی منع کرتا کہتے ہمیں تو میاں صاحب کا حکم
ہے ہم تو اسی طرح کا ادب احترام کرتے ہیں جس طرح اپنے والد صاحب کا کرتے ہیں۔ آپ
ہمیں نہ روکیں ہمارے لئے سعادت ہے!"
نواز
شریف اپنے کندھے پر اٹھا کر غار حرا تک لے گیا ۔ ۔ ۔ میرا جی چاہتا ہے میں اسے
پھانسی گھاٹ تک لے جاؤں!
"علاج کے بعد لندن سے واپسی پر عمرے
پر گئے تو نواز شریف صاحب کی فیملی بھی ساتھ تھی ۔ مکہ کی فائیو سٹار مکّہ ٹاور ہوٹل میں ایک مکمل سوئیٹ لے کر اپنے خاندان کے ساتھ ٹہرایا ، جس کا ایک دن کا کرایہ دو ہزار ڈار یومیہ بنتا ہے ، میاں شریف صاحب کی اپنی اولاد کو میں سمجھتا ہوں یہ
ہدایت تھی جس کے پیش نظر وہ اس طرح کا سلوک عزت کا، عقیدت کا، محبت کا کرتے تھے
اور مجھے چونکہ کمزوری تھی علالت تھی-اس ہارٹ ٹربل کے بعد صحت یابی کے باوجود بھی
میری خواہش تھی کہ میں جبلِ النور جاؤں اور غارِ حرا میں دو رکعت نماز ادا کروں ، غارِ حرا ایک بلندپہاڑ پر ہے ،آپ نے سن رکھا غار حرا پر چڑھنے کا وقت آیا تو وہ پہاڑ پر میں چڑھ نہیں سکتا تھا، دل میں شدید حسرت تھی کہ موت کے نزدیک ،دل کے مریض کی یہ خواہش کیسے پوری ہو ، میں نے سرسری طور پر اپنی اِس نماز پڑھنے کی خواہش کا اظہار نواز شریف سے کیا ، میں 19 فروری 1951 میں پیدا ہوا اور نواز شریف 25 سمبر 1949 میں لیکن اِس کے باوجود وہ مجھے اپنے باپ کی طرح سمجھتا تھا ، اور میری خواہش کو پورا کرنا اپنا فرض سمجھتا تھا ، لہذا اگلے دن صبح فجر کی نماز کے بعد ، معلوم ہوا کہ ہم غارِ حرا کی طرف جائیں گے ، میں یہ سمجھا کہ ، غارِ حرا کے نزدیک جہاں تک گاڑی جاسکتی ہے وہاں تک جا کر دیدار ہو جائے گا یہی غنیمت ہے ۔ سوچا نواز شریف صاحب کو اللہ ان کے اِسی عمل کا اجر دے گا ، جب ہم اُس آکری مقام پر بینچے جہاں لیموزین جاکر رُک جاتی ہے ، تو سب باہر نکلے ، میں نے جبل النور کو دیکھ کر دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے ، سب نے دعا پڑھی ، دعا پڑھنے کے بعد اختر رسول صاحب ، میری سامنے بیٹھ گئے ، نواز شریف بولا،" حضرت آپ کے لئے ، سواری حاضر ہے ، تشریف رکھیں ، میں نے جبلِ النور کی بلندی کی طرف دیکھا اور پھر بے یقینی کی حالت میں نواز شریف صاحب کی طرف دیکھا ، اُن کے چہرے پر تذہیک کا کوئی شائبہ نہ تھا ۔ میں نے اللہ کا نام لے کر ، اختر رسول صاحب کے کندھوں پر بیٹھ گیا ۔ وہ جوان مرد مجھے لے کر ایسے کھڑا ہوا کہ میں کوئی دس یا بیس سیر کا بچہ ہوں ۔ بیماری کے باوجد بھی میرا وزن کم از کم سوا من تو ضرور ہوگا ۔
وہ دو اڑھائی میل کا سفر اور 550 فیٹ کے لگ بھگ بلندی ،اختر رسول صاحب اور نواز شریف صاحب نے اپنے کندھوں پر اٹھا
کر جبلِ نور کے بلند پہاڑ پر اُٹھا کر غار حرا تک پہنچا کر کرکیا۔ اللہ اِن دونوں کو میری عمر بھی دے ذرا برابر بھی اُف نہ کی اور اِسی طرح واپسی کا سفر کیا ، اُن کے باقی احسانوں کے ساتھ ، اِس عظیم احسان کا بدلہ اگر اللہ نے مجھے زندگی عطا کی اور ہمت دے تو اِس سے زیادہ دوں گا ۔ ‘‘
لیکن اِس کے باوجو د میں نے میاں صاحب کے خاندان کے سیاسی عمل میں اُن کی کوئی مدد نہیں کی ،
اللہ نے اُنہیں بے حساب نوازا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ بس یہی دکھ و غم میرے دل میں بغض بن کر بھرا ہوا ہے ،
امریکی ڈاکٹروں نے مجھے علیحدگی میں جنوری 1983 میں بتایا کہ ، طاہر میاں کبھی بھی اوپر جا سکتے ہو ، 32 سال کی عمر میں اوپر کا سفر ؟ لہذا میں نے بچوں کو ،گھر بنا کر دینے کے لئے دس لاکھ ادھار مانگے ، میں چاہتا تو لاکھوں کما سکتا تھا ، لیکن وہ مُلّا ہی کیاجو کما کر کھائے ، وکالت چلتی نہ تھی لہذا ادھا رلیا ، مگر نواز شریف نے اپنے اکاونٹنٹ کو کہا ، کہ قادری صاحب ادھار کب واپس کریں گے؟ اور چالیس آدمی میرے گھر پر بھیج دئے ، میرد ل کھٹا ہو گیا !
لیکن اِس کے باوجو د میں نے میاں صاحب کے خاندان کے سیاسی عمل میں اُن کی کوئی مدد نہیں کی ،
امریکی ڈاکٹروں نے مجھے علیحدگی میں جنوری 1983 میں بتایا کہ ، طاہر میاں کبھی بھی اوپر جا سکتے ہو ، 32 سال کی عمر میں اوپر کا سفر ؟ لہذا میں نے بچوں کو ،گھر بنا کر دینے کے لئے دس لاکھ ادھار مانگے ، میں چاہتا تو لاکھوں کما سکتا تھا ، لیکن وہ مُلّا ہی کیاجو کما کر کھائے ، وکالت چلتی نہ تھی لہذا ادھا رلیا ، مگر نواز شریف نے اپنے اکاونٹنٹ کو کہا ، کہ قادری صاحب ادھار کب واپس کریں گے؟ اور چالیس آدمی میرے گھر پر بھیج دئے ، میرد ل کھٹا ہو گیا !
3 مارچ 1989 کو طاہر القادری نے اتفاق مسجد ماڈل ٹاؤں میں منبرِ رسول پر بیٹھ کر اعترافی خطبہ دیا ۔
Last Speech of Jumma in Ittefaq Masjid by Dr.Tahir-ul-Qadri
یہ یاد رہے ، کہ سانپ ایک وکیل تھا ، جو کینچلی بدلنے میں ماہر ہوتے ، مذھب بھی وکیل کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا کیوں کہ وکیل کا مذہب ، پیسہ اور دنیاوی کامیابی ہوتی ہے ۔
کیا خوب کہا ایک صاحبِ ادراک و تدبّر نے!
کیا خوب کہا ایک صاحبِ ادراک و تدبّر نے!
پیدا ہوئے وکیل تو شیطان نے کہا !
لو آج ہم بھی صاحبِ اولاد ہوگئے !
لو آج ہم بھی صاحبِ اولاد ہوگئے !
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں