جویریہ سجاد کے سوال کے جواب میں سپیشل پوسٹ .
مس سجاد مجھے اب پھر پیچھے جانا پڑے گا اور واقعہ کربلا کی پوسٹ لگتا ہے آپ نے غور
سے نہیں پڑہیں- واقعہ کربلا کے بعد کی ان رشتہ داریوں کے بیان کرنے کا مقصد ہی
یہ ہے کہ یہ جو ہاشمی ، علوی اور حسینی خواتین خاندان بنو امیہ میں کربلا کے بعد
لگاتار بیاہی جاتی رہیں اور ان ہی کی شریک زندگی بنتی رہیں اور یہ کہ شیعا بھانڈوں کے مطابق ، جن کے،
باپ ، دادا ،
تایا ، چچا اور قریب ترین عزیزوں کو میدان کربلا میں وحشیانہ مظالم کر کے اور پانی
کی بوند بوند کے لئے ترسا اور تڑپا کے مارا گیا تھا- بھیانک سے بھیانک ظلم جو ان
راویوں نے گھڑے ہیں کہ ان ہی خواتین کی نانیوں ، دادیوں اور خاندانِ رسالت کی با
پردہ ، عزت آبرو اور عصمت والی ہستیوں کو بے پردہ کیا ہو اور ننگے سر اور پاؤں
مشکوف الوجود پھرایا گیا ہو اور ان کے مرنے والوں کے سر کٹوائے ہوں ،اور
پھر ان سروں کی مشہوری کرا کے اپنے دربار میں منگوایا ہو ، ان کی لاشوں کے منہ اور
دانتوں پر قمچیاں ماری ہوں ،ان کے سروں کو خزانے کی صندوقوں میں بند کر کے رکھا ہو
،گھوڑوں کی ٹاپوں سے ان لاشوں کی پشت اور سینہ چکنا چور کروایا ہو اور بچ جانے
والوں کو گرفتار کر کے قیدیوں کی طرح ان کی تشہیر کرائی گئی ہو ۔
کیا آپ سوچ سوچ سکتی ہیں ؟ کہ اس کے بعد ایسے ظالم اور سفاق قاتلوں کے خاندان میں یہ عزت اور غیرت
والی امام زادیاں کیسے اپنا رشتہ قبول کر سکتی تھیں؟
کیوں کہ یہ سب تو کربلا میں
موجود تھیں اور سب ظلم و ستم جو مشہور کئے گئے کی چشمِ دید گواہ تھیں ۔
یا جن کی یہ اولادیں تھیں اُنہیں تو سب واقعات معلوم ہوں گے نا -
میں نے اسلامی تاریخ سے یہی تو ثابت کرنے کی
کوشش کی ہے، کہ ظلم تو خود حضرت حسین اور ان کے ساتھیوں نے ( مسلم بن عقیل کے بھائی
اور 65 کوفیوں ) نے کئے کہ ایسے بے گناہ لوگوں کا قتل عام شروع کر دیا جو نواسہ
رسول کے احترام میں تلوار نہیں اٹھانا چاہتے تھے اور انہوں نے قتل ہونا منظور کیا
۔مگر حضرت حسین پر تلوار نہیں اٹھائی - پھر وہ خواتین جو اِن قاتلوں کی زوجائیں بنی ں، ان خواتین کی رگوں میں اپنے اسلاف کا خون ہی
دوڑتا تھا جو اپنی جان اپنی عزت کی خاطر لٹانا جانتے تھے . اگر ان ظلم کی
داستانوں میں زرّہ برابربھی حقیقت ہوتی توساری دنیا کی دولت بھی
اگر مل جاتی تو یہ خواتین رشتے قبول نہیں کرتیں ۔
پچھلی قسط ( اولاد عباس کی قرابتیں)میں آپ حضرت حسین کی پوتی کا امیر
یزید کے پوتے کے ساتھ نکاح کا حال پڑھ چکی ہو.ان کے بطن سے کئی بیٹے پیدا ہوے کئی
نسلیں چلیں اور یہ بھی سوچو کہ ان ہاشمی خاتون کے والد ١٢ سال کی عمر میں اپنے
والدین کے ساتھ کربلا میں خود موجود تھے اور سب واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے
تو "سقائے اہل بیت"
کے یہ فرزند کس طرح اپنی بیٹی بیاہ کر کس دل سے ان کے گھر بھیج سکتے تھے کہ جہاں ان
کے والد کا سر کٹا ہو اور جہاں ان کے چچا حسین کا سر کاٹ کر اسکی بے حرمتی کی گئی ہو !
ان حالات کی روشنی میں کیا تم خود اندازہ نہیں لگا سکتیں کہ ظلم و جور، قتل کرانے
، سر کٹوا کر منگوانے والی روایتیں بالکل بے اصل اور بے بنیاد ہیں . وہاں تو کوئی
باقاعدہ جنگ ہوئی ہی نہیں تھی اور نہ مرنے والوں کے سر کسی نے کاٹے تھے نہ ہی ان
کی تشہیر کرائی گئی تھی یہ تو ایک حادثہ اور المیہ تھا جو ، برادران مسلم اور ان کے
ساتھ چند کوفیوں کے فوجی دستہ پر نا عاقبت اندیشانہ حملہ کر دینے سے یکا یک پیش آ
گیا اور گھنٹے یا آدھے گھنٹے میں ختم ہو کر دونوں طرف کے مقتولین کی نماز جنازہ
پڑھ کے اسی وقت دفنا دیا گیا تھا-
سبائی
راویوں نے کہ جن کی روایتوں سے طبریٰ اور بعد کے تمام مورخین نے یہ روایتیں اخذ
کیں، اس حادثہ کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کیا تھا اور رائی کا پہاڑ بنا کر ان من
گھڑت قصوں کا وہ انبار لگا دیا کہ خدا کی پناہ -
علامہ شبلی نعمانی جو اتنے کوئی بڑے مصنف نہیں تھے انہوں نے واقعہ کربلا کے بارے میں لکھا ہے کہ کربلا کے جو واقعات میر انیس اور تمام مرثیہ گویوں کی شاعری کا موزوں بنے ہیں یہ واقعات جہاں تک تاریخ سے ثابت ہوتا ہے نہایت مختصر ہیں . معرکہ کے لحاظ سے واقعہ کربلا کی صرف یہ حیثیت ہے کہ ایک طرف سو سوا سو آدمی تشنہ لب اور بے سرو سامان اور دوسری طرف تین چار ہزار کی فوج جو دفعتا ٹوٹ پڑی اور دو تین گھنٹے میں لڑائی کا خاتمہ ہو گیا.
اگر علامہ شبلی بھی طبری کی ان روایتوں کی بجائے، حقائق پر غور کرتے تو تشنہ لبی کا ذکر نہ کرتے اور نہ فوج کے یک دم ٹوٹ پڑنے کا کیونکہ طبری ہی کی ایک روایت میں کہا گیا ہے کہ یہ معاملہ بس اتنی دیر میں ختم ہو گیا جتنی دیر میں ایک اونٹ کو صاف کرتے ہیں یا جتنی دیر میں قیلولے کے بعد آنکھ جھپک جائے ( طبری جلد 6 صفحہ 266 )اس اعتبار سے بھی گھنٹے یا آدھے گھنٹے کا ہی معاملہ ہو سکتا ہے-
ناسخ التواریخ کے مصنف نے ( در ذکر دفن شہداے بنی ہاشم و کربلا ) کے عنوان سے یہ تو تسلیم کیا ہے کہ حضرت حسین کی تدفین و تکفین اور کفن دفن کا انتظام ان کے صاحب زادے زین العابدین نے کیا تھا کیوں کہ ان کے نزدیک کسی امام کے کفن دفن کا انتظام ایک امام ہی کر سکتا ہے اور اس وقت سوائے زین العابدین کے کوئی دوسرا امام روے زمین پر نہ تھا اور ساتھ ہی یہ بھی فرماتے ہیں کہ 12 محرم کو آپ امامت کی کرامت دکھا کر کوفہ سے خفیہ طور پر کربلا آئے اور نماز جنازہ پڑھا کر دفن کر کے لوٹ گیے.(صفحہ 318 جلد 6 ناسخ التواریخ)
بہر حال نماز جنازہ پڑھ کر دفن کیا جانا ثابت ہے-جمہرہ الانساب (صفحہ 106 ) میں " شہد جنازہ الحسین " میں لکھتے ہیں کہ جب اس حادثہ کی اطلاح ملی تو کوفہ سے آ کر لوگ نماز جنازہ میں شریک ہوئے ۔
علامہ شبلی نعمانی جو اتنے کوئی بڑے مصنف نہیں تھے انہوں نے واقعہ کربلا کے بارے میں لکھا ہے کہ کربلا کے جو واقعات میر انیس اور تمام مرثیہ گویوں کی شاعری کا موزوں بنے ہیں یہ واقعات جہاں تک تاریخ سے ثابت ہوتا ہے نہایت مختصر ہیں . معرکہ کے لحاظ سے واقعہ کربلا کی صرف یہ حیثیت ہے کہ ایک طرف سو سوا سو آدمی تشنہ لب اور بے سرو سامان اور دوسری طرف تین چار ہزار کی فوج جو دفعتا ٹوٹ پڑی اور دو تین گھنٹے میں لڑائی کا خاتمہ ہو گیا.
اگر علامہ شبلی بھی طبری کی ان روایتوں کی بجائے، حقائق پر غور کرتے تو تشنہ لبی کا ذکر نہ کرتے اور نہ فوج کے یک دم ٹوٹ پڑنے کا کیونکہ طبری ہی کی ایک روایت میں کہا گیا ہے کہ یہ معاملہ بس اتنی دیر میں ختم ہو گیا جتنی دیر میں ایک اونٹ کو صاف کرتے ہیں یا جتنی دیر میں قیلولے کے بعد آنکھ جھپک جائے ( طبری جلد 6 صفحہ 266 )اس اعتبار سے بھی گھنٹے یا آدھے گھنٹے کا ہی معاملہ ہو سکتا ہے-
ناسخ التواریخ کے مصنف نے ( در ذکر دفن شہداے بنی ہاشم و کربلا ) کے عنوان سے یہ تو تسلیم کیا ہے کہ حضرت حسین کی تدفین و تکفین اور کفن دفن کا انتظام ان کے صاحب زادے زین العابدین نے کیا تھا کیوں کہ ان کے نزدیک کسی امام کے کفن دفن کا انتظام ایک امام ہی کر سکتا ہے اور اس وقت سوائے زین العابدین کے کوئی دوسرا امام روے زمین پر نہ تھا اور ساتھ ہی یہ بھی فرماتے ہیں کہ 12 محرم کو آپ امامت کی کرامت دکھا کر کوفہ سے خفیہ طور پر کربلا آئے اور نماز جنازہ پڑھا کر دفن کر کے لوٹ گیے.(صفحہ 318 جلد 6 ناسخ التواریخ)
بہر حال نماز جنازہ پڑھ کر دفن کیا جانا ثابت ہے-جمہرہ الانساب (صفحہ 106 ) میں " شہد جنازہ الحسین " میں لکھتے ہیں کہ جب اس حادثہ کی اطلاح ملی تو کوفہ سے آ کر لوگ نماز جنازہ میں شریک ہوئے ۔
آپ خود سوچیں کیا سر بریدہ لوگوں کی نماز جنازہ ادا کی گئی تھی؟
اور ان راویوں کے دوسرے بیانات سے یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ مقتولین میں سے نہ تو کسی کا سر کاٹا گیا اور نہ ہی تشہیر کی گئی.
اور ان راویوں کے دوسرے بیانات سے یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ مقتولین میں سے نہ تو کسی کا سر کاٹا گیا اور نہ ہی تشہیر کی گئی.
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ نے حسین کا سر کاٹنے اور یزید کو بھیجنے کی روایت کا
انکار کیا ہے .(الوسیتھ الکبری صفحہ 300 )
حضرت حسین کے سر کو دفن کرنے کی روایتیں خود اس درجہ تک متضاد ہیں کہ فی الفور ان
کا جھوٹ پکڑا جاتا ہے-مثال کے طور پر تدفین "راسخ الحسین " کے ساتھ آٹھ
مقامات مختلف علاقوں میں بیان کیے گیے ہیں جن کی تفصیل ناسخ التواریخ سے حاصل کر
کے بیان کی جاتی ہے .علامہ ابن کثیر نے بیان کیا ہے کہ سر کے جسم سےجدا کرنے کی
روایت متفق علیہ نہیں اور یہ بالکل خیالی بات ہے اگر خدا نخاستہ ایسا ہوتا تو ایک
سر کی تدفین مختلف مقامات پر کیسے ہو سکتی تھی؟
حضرت خالد بن عقبہ بن ابی معیت صحابی رسول حضرت حسین کے جنازے کی نماز میں شریک
ہوے تھے اور یہ اموی صحابی کوفہ میں ساکن تھے -(جمہرہ الانساب صفحہ 106 ) ۔ ان کی بہن
ام کلثوم بھی صحابیہ و مہاجر تھیں اور حضرت زید بن حارثہ کی بیوی تھیں اور ان کے
بھائی ولید بن عقبہ کوفہ کے والی رہے تھے- حضرت خالد کی اولاد میں سے متعد محدث اور
فقیہہ پیدا ہوے اور ان ہی میں سے عبد الله بن عبید الله تھے جو ان صحابی رسول کے
دس واسطوں سے پوتے تھے -
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
٭٭٭واپس ۔شیطان نامہ ۔ فہرست ٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں