Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 27 اگست، 2016

اسلحہ بردار بہادر مہاجر زادہ

1973 کی بات ہے میں کوھاٹ ، آئی ایس ایس بی کے لئے گیا ، وہاں درّہ آدم خیل  سے مبلغ 50 روپے کا ریوالور خریدا -
درّے والے ایماندار سوداگروں، کے بارے میں مشہور تھا ۔ وہ آپ کو اسلحہ بیچتے ہیں اُن کی اطلاع سکاوٹ والوں کو دیتے ہیں ، سکاوٹ والے ، اُن سے اسلحہ ضبط کرتے ہیں اور واپس انہیں بیچ دیتے ہیں ، یہ بہت پرانا کاروبار تھا ، 
ہم تین دوست تھے ، دکاندار کے پوچھنے پر ہم نے بتایا کہ ہم پشاور جائیں گے ، تینوں نے اسلحہ لیا ، پشاور جانے کی بس میں بیٹھے اور 100 گز بعد اتر گئے ، اور دورسری تین الگ الگ بسوں میں بیٹھ کر آرام سے کوہاٹ آگئے ۔
اور پھر کوھاٹ سے ، براستہ جنڈ راولپنڈی اور حیدر آباد براستہ ٹرین وایا سرگودھا آگئے۔
وہ ریوالور ، " امی " نے قبضے میں لے لیا اور 1973 کے سندھی اور غیر سندھی فسادات میں بھی کسی بکسے کی تہہ میں چھپا رہا ۔
پھر جب میں "ایلیٹ کلاس" میں شامل ہوا ، تو اُس کا لائسنس بنوا لیا ۔
اُس ریوالور کے خریدے جانے کے بعد 12 گولیوں میں سے اب تک کل تین گولیاں فقط ہوائی فائر ہوئی ہیں،

یہ ہے ایک اسلحہ بردار مہاجر زادے کی بہادری کی داستان ۔ 
 جس نے ائر گن سے تو بہت سے پرندے شکار کئے اور کھائے بھی ، لیکن کسی انسان کا شکار نہیں کیا -

یہی کیا ، ریوالور ، پسٹل ، ماؤزر کے علاوہ تھری ناٹ تھری ، پوائینٹ ٹو ٹو ، ایس ایم سی ،رائفل جی تھری ،  ایس ایم جی ، مشین گن ، اینٹی ٹینک توپ ، فیلڈ
توپ ، میڈیم توپ ، لائیٹ میڈیم توپ، اور ہیوی توپوں سے بھی فائر کیا، گو کہ جسم میں مخلوط خون (منگول و پٹھان) چھ نسلوں سے دوڑ رہا ہے ، لیکن کسی انسان پر فائر کرتے وقت جھر جھری آجاتی ۔

کراچی مہاجروں نے تو صرف ہتھیار کا نام سنا تھا اور دیکھا صرف فوجی پریڈز میں ، ھاں مہاجر زادوں نے تاریخ کے ستم کے ھاتھوں مجبور ہو کر ، پاکستان بننے کے قریباً 40 سال بعد ، پٹھانوں سے ہر قسم کا اسلحہ خرید کر اپنی اور اپنے گھر کی حفاظت کی ۔ 

جو اربابِ وحشت و خونیں پسندوں اور خوانین پر گراں گذرا چنانچہ ، اپنی حفاظت کرنے والے دہشت گرد کہلائے ۔
اور دوسرے کو خون میں نہلانے والے ، قاتلوں کی اولاد "مجاہدین " بن بیٹھے !

جمعرات، 25 اگست، 2016

الطاف حسین پاگل تھا

  مہاجرزادوں کا مقدمہ - الطاف حسین پاگل تھا  ؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اِس پاگل نے ،
آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن بنائی تھی ۔
جس کی پاداش میں اسے پابندِ سلاسل ہونا پڑا ۔
آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن ، نے مہاجر طالبعلموں کے لئے فلاحی کام کئے ، جن سے ، اُنہیں سندھی سٹوڈنٹس فیڈریشن زبردستی روکتی تھی ۔ جس کو " جئیے سندھ " پارٹی کی سپورٹ تھی ۔
ضیاء الحق کو ، مہاجروں کے ساتھ، پیپلز پارٹی اور ، جئیے سندھ گروپ کی ، کی جانے والی زیادتیوں کا احساس تھا ۔
لہذا ، اُس نے الطاف حسین کو دعوت دی ، کہ مہاجروں کو سیاست میں لانے کے لئے ، ایک مہاجر پلیٹ فارم کی سخت ضرورت ہے /
چنانچہ ، : " مہاجر قومی موومنٹ "
مودودوی منافقین کے سینے پر چڑھ کر وجود میں آئی ۔
جس میں ، تمام جمیعت طلباء اور جماعت اسلامی ، کے حق پرست شامل ہو گئے ۔
اور ان کا ایک ہی نعرہ تھا ،
مہاجروں کی بقاء ۔ جیئے مہاجر ۔ جیئے مہاجر !
پورے سندھ کا چکر لگائیں اور مجھے ، بتائیں کہ سندھ میں کتنے مہاجر :
ڈبٹی کمشنر ہیں ؟
اسسٹنٹ کمشنر ہیں؟
تحصیل دار ہیں ؟
گورنمنٹ ملازمین ہیں ؟
مہاجر محنت کش تھے ، وہ گورنمنٹ کے صنعتی اداروں میں بھرتی ہونا شروع ہوگئے ، یہی وجہ ہے کہ پاکستان اسٹیل مل میں مہاجروں کی تعداد زیادہ ہے ۔
انہیں نکالنے کا ایک ہی طریقہ ہے ۔ کہ اسے پرائیوٹائز کر دیا جائے ۔
اپنے حق کے لئے آواز اٹھانا ، ہر انسان کا فرض ہے اور ظلم کے خلاف جہاد ہے ۔
" اپنی آزادی کی خاطر
اپنے پیاروں کے لہو میں لتھڑے
سرابِ منزل کی لگن میں ہجرت کی تھی
ہمیں دار سے کیوں ڈراتے ہو ،
کلمہءِ حق کہیں گے ۔
منزل کا پتہ دو یا مٹا دو ہم کو

عمر کے 63 ویں سال میں ۔
مہاجروں پر ظلم دیکھ دیکھ کر ، یہ مہاجرزادہ مزید پاگل ہو چکا ہے ۔ لیکن غدار نہیں ۔
ایوب خان کے اِس فلسفے پر اِس کا یقین نہیں ،
" جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی اُس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو !
خوشہ ءِ گندم کو جلانا پٹھانوں کی روایات ہے مہاجروں کی نہیں !
یہی وجہ ہے ، کہ اردو بولنے والے ، مہاجروں میں خود کش بمبار پیدا نہیں ہوتے ۔
کیوں کہ وہ ہندوستان سے ، پنجاب ، صوبہ سرحد ، بلوچستان یا سندھ کے لئے ہجرت کر کے نہیں آئے تھے ۔
بلکہ ، خون اور لاشوں کے ندی نالوں سے گذر کر، پاکستان کے سمندر میں شامل ہونے کے لئے آئے تھے  ۔
 
 لیکن
افسوس صد افسوس ،
یہاں  تو پنجابیوں ، پٹھانوں ، سندھیوں اور بلوچیوں کے متعفن جوہڑ نکلے ۔

نوٹ: پاگل ہمیشہ ، پاگل ہی رہتا ہے ۔ چند مزید پاگل !
٭ - سرسید احمد خان بھی پاگل تھا ۔
٭ - محمد علی جناح کے پاگل پن نے اُسے ٹی بی کی سٹیج پر پہنچا دیا - 
٭ - لیاقت علی خان کے پاگل پن نے ، اُسے لیاقت باغ میں " پٹھان" کے ہاتھوں خون میں نہلا دیا ۔
 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

بدھ، 24 اگست، 2016

مہاجر ، صرف مہاجر رہتا ہے

  مہاجرزادوں کا مقدمہ - مہاجر صرف مہاجر ہی رہتا ہے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 14 اگست 1947 کے بعد ہندوستان سے، خون کا دریا عبور کر کے  پاکستان  کے طرف ہجرت کرنے والے مہاجر ، نہایت امن پسند اور محبت کرنے والے انسان تھے ، وہ اپنا سب کچھ چھوڑ کر قائد اعظم کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ، خالی ھاتھ روانہ ہوئے تھے ۔
 میں جب اپنے ماضی کی طرف نظر ڈالتا ہوں تو مجھے ، ایک لفظ " ھندوستانی " کسی بھی خاندان کے بارے میں پوری داستان سنا دیتا ہے۔
معلوم نہیں کب یہ لفظ ، قومیت کی پہچان بنا ؟
ایرانی ، افغانی ، برمی، انڈو نیشی کی طرح یہ لفظ، پورے یورپ میں بطور " انڈین "  برصغیر میں رہنے والوں کی پہچان ہے ۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے ، کہ سکول کے بچوں کے پوچھنے پر ہم اپنا تعارف، پاکستانی کراتے تھے ، اُس وقت 1960 میں بھی بچے ہنستے تھے اور چلاتے تھے ۔

" اُوئے یہ تو ہندوستانی ہے!

آج بھی 70 سال بعد قبروں میں پیر لٹکائے،  وہی بچے ہنستے ہیں اور چلاتے ہیں۔ 

تم، سندھی کہاں؟ مہاجر ہو! 

کوئٹہ کے رہنے والے ہو؟ 
اچھا!
مقامی نہیں لگتے!
اچھا مہاجر ہو!

پشاور میں رہتے ہو؟
ھاں، وہاں بہت مہاجر ہیں ۔

 یار کیوں پنجابی کی ٹانگ توڑتے ہو ؟
مہاجر پنجابی نہیں بول سکتے۔

پھر ہماری جوانی میں مہاجروں نے اپنی شناخت ، سندھی ، پنجابی ، پٹھان یا بلوچ کروانے کے بجائے ، مہاجر اپنا لی ۔ جس کے لئے اُنہیں نے نہ جانے کیا کیا طعنے سُنے اور سب سے پہلا طعنہ ، اُنہیں خود ساختہ مسلم جماعت ، اسلامی نے دیا ۔

" اسلام میں عصبیت حرام ہے "
اُس کے بعد خودساختہ حدیثوں کا دروازہ کھل گیا ۔ اور
فتاویٰ کی ٹکسال ہے ، فتوے چھپ کر نکلنے لگے ۔

٭ -  پاکستان کی تقسیم کی بات کرتے ہیں !
(جماعت اسلامی ایک طرف ،سارا پاکستان ایک طرف  )

 ٭ - ہم فرقوں پر یقین نہیں رکھتے !
 (جب کہ ، بریلوی ، دیوبندی ، شیعت کے بعد جماعت اسلامی کا اضافہ  )

٭ - سندھ میں رہنے والے سب سندھی ہیں !
(مگر کوٹہ صرف سندھیوں کے لئے )

٭ - نفرت کو ہوا مت دو ۔ 
 (پاکستان کے مسلمان ، راہ راست پر نہیں، سوائے کہ ہم)

٭ - مہاجر صرف اردو بولنے والے نہیں دیگر زبانیں بولنے والے بھی ہیں۔ 
 (بھئیے ، مکڑ ، تلئیر ، قبضہ گیر ۔ صرف اردو بولنے والے  )

مہاجروں نے دل کھلا کیا اور ھجرت کرنے والے پنجابیوں ، پٹھانوں کو بھی ، اپنی واحد اردو بولنے والوں کی نمائندہ جماعت، "مہاجر قومی موومنٹ"  میں شامل کر کے ،
"متحدہ قومی محاذ" میں تبدیل کیا اور یوں ایک وسیع الفکر ، عام آدمیوں کی جماعت بنائی اور عام سویلئین کو ، ایچیسونئین ، خان زادوں ، نواب زادوں ، بلوچ زادوں کی صف میں شامل کروا کر اسمبلیوں میں لا بٹھایا ۔

 بس یہیں سے دشمنی کی ابتداء دوستی کی لفاظی کی آڑ میں شروع ہو گئی ۔
بھلا صاحبانِ ثروت کو یہ کیسے گوارا ہو کہ ، ایک عام آدمی اُس کے پہلو سے لگ کر بیٹھ جائے ۔ وہ تو بس ووٹ لینے اور جھوٹے وعدوں پر ٹرخائے جانے والی مخلوق ہیں ۔ 

تو ہندوستان سے آئے ہوئے مہاجر ، مکڑ ، قبضہ گیر اعلیٰ عہدوں پر کیسے بیٹھ سکتے ہیں؟
انہیں دور رکھنے کا واحد طریقہ ، کوٹہ سسٹم کو طول دو تاکہ اداروں کے سربراہ فرزندِ زمین بن جائیں وہ فرزاندانِ زمین جو خود سب سے بڑے ، مکڑ ، تلئیر ، قبضہ گیر ، خونی و قاتل ہیں ، جنہوں نے اصل فرزندانِ زمین کو ریڈ انڈین کی طرح گاجر مولی کی طرح کاٹا ، اُن کی زمینوں پر قبضہ کیا ، اور مالک بن بیٹھے ۔ یہ وہ فرزندانِ زمین ہیں جن کی فطرت میں خود غرضی ، مکاری اور عیاری بھری ہوئی ہے۔ 

جب موقع ملے وہ اپنی خباثت کو مہاجروں کے خلاف ضرور ظاہر کرتے ہیں ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


پیر، 22 اگست، 2016

8264 دھشت گرد !

سائبر کرائم کے پہلے مجرم ۔ 

دھشت گردی اس قوم کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اپنے سب سے بڑے مسئلے پر یہ قوم کتنی سنجیدہ ہے؟ 

محض 20 دنوں کے اندر 8264 غلط کالیں وہ بھی اس نمبر پر جو صرف اور صرف دھشت گردی کی اطلاع کےلیے مخصوص ہے۔ 

کیا اس سے بڑی بدبختی کی کوئی علامت ہے کہ زندگی بچانے کےلیےقائم کیے گئے ذرائع کو ایک قوم اپنے غیر سنجیدہ رویے کی وجہ سے کام سے روک رہی ہے۔ 20
 دنوں میں فی گھنٹہ کے حساب سے 17 غلط کالیں۔ اس سے بڑھ کر اور کوئی ظلم ہو ہی نہیں سکتا جو قوم اپنے حق میں کرے۔ اس غیر سنجیدہ رویے پر جتنی لعنت و ملامت کی جائے کم ہے۔

 جب ٹیلی کمیونیکیشن اتنی فعال نہیں ہوتی تھی کہ کسی بھی کال کرنے والے کے بارے معلوم کیا جاسکے ۔ تب اِس قسم کے مذاق کم تھے ، لوگ ذمہ دار تھے ۔
 موبائل کے استعمال نے ، نہ صرف اِن مذاق کی حد میں خطرناک اضافہ کیا ہے، بلکہ مجرموں تک پہنچنے میں 100 فیصد کامیابی حاصل کی ہے ۔
حکومت اِس بارے میں سنجیدہ ہے کہ غلط معلومات مہیا کرنے والوں پر " سائیبر کرائم " کے تحت مقدمات بنائے جائیں ۔

 
20 Points of National Action Plan۔

1. Implementation of death sentence of those convicted in cases of terrorism.

2. Special trial courts under the supervision of Army. The duration of these courts would be two years.

3. Militant outfits and armed gangs will not be allowed to operate in the country.

4. NACTA, the anti-terrorism institution will be strengthened.

5. Strict action against the literature, newspapers and magazines promoting hatred, extremism, sectarianism and intolerance.

6. Choking financing for terrorist and terrorist organizations.

7. Ensuring against re-emergence of proscribed organizations.

8. Establishing and deploying a dedicated counter-terrorism force.

9. Taking effective steps against religious persecution.

10. Registration and regulation of religious seminaries.

11. Ban on glorification of terrorists and terrorist organizations through print and electronic media.

12. Administrative and development reforms in FATA with immediate focus on repatriation of IDPs.

13. Communication network of terrorists will be dismantled completely.

14. Measures against abuse of internet and social media for terrorism.

15. Zero tolerance for militancy in Punjab.

16. Ongoing operation in Karachi will be taken to its logical end.

17. Balochistan government to be fully empowered for political reconciliation with complete ownership by all stakeholders.

18. Dealing firmly with sectarian terrorists.

19. Formulation of a comprehensive policy to deal with the issue of Afghan refugees, beginning with registration of all refugees.

20. Revamping and reforming the criminal justice system.




















فاٹا ۔ پاکستانی شہریت مبارک ہو!

69 سال ، وفاق کے زیرِ انتظام رہنے کے بعد" فاٹا" پاکستان کے علاقے میں بحیثیت ضلع شامل ہو کر ، صوبہءِ خیبر پختون خواہ کا حصہ بن گیا ۔
طاقتور پولیٹیکل ایجنٹ کو عہدہ ڈپٹی کمشنر میں تبدیل ہو گیا اور اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ ، اسسٹنٹ کمشنر ہوگا ۔ ایک طویل عرصے سے فائلوں میں دبے بل کو ، وزیر اعظم پاکستان کے دستخط کے بعدقانونی حیثیت دے دی گئی ۔ 

فاٹا کے عوام ، سریم کورٹ ، ھائی کورٹ اور سول کورٹس میں اپنے مقدمات لے جا سکیں گے ،
ایک بڑے ضلع کے اضافے سے ، خیبر پختون خواہ میں کام کا دباؤ بڑھ جائے گا ۔ لیکن فاٹا کے باشندوں کو -پاکستانی شہریت ملنے پر یہ بوجھ اتنا نہیں ہوگا ، جتنا فاٹا کے باشندوں نے بنیادی حقوق کے حصول اوراپنی شناخت کے لئے اٹھایا ۔

فاٹا ، ایجنسیوں کے عوام کو پاکستانی شہریت مبارک ہو!

شاعر کی موت اور کتبہءِ شاعر



طاہر القادری نے جمعرات 10جنوری 2013ء کو ”دُنیا“ چینل میں جناب مجیب الرحمن شامی کے پروگرام میں ایک مشہورِ زمانہ شعر علامہ اقبال ؒ کے نام سے منسوب کر کے سنایا کہ:
 تندی بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اُڑانے کے لئے
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - --  (اقبال)

طاہر القادری پر ہی کیا منحصر ، ہمارے لڑکپن میں یہ شعر بچوں کی باتصویر کاپیوں پر عقاب اور طوفان کی تجریدی آرٹ نما تصویر کے نیچے چھپا ہوتا تھا ۔

 دراصل یہ شعر ضلع سیالکوٹ کی سابق تحصیل شکرگڑھ، کے ایڈووکیٹ سید صادق حسین کا ہے۔ چونکہ گمنام شاعر تھے ، تو یار لوگوں نے سمجھا کہ انہوں نے اپنی ، اقبال کے شعر کی زمین میں بوئی ہے ، چنانچہ غزل کو تو اتنی پذیرائی نہ ملی ، البتہ اُن کے اِس شعر نے عقاب کی تندیء بادِ مخالف میں آُڑان کی وجہ سے ، منبر و محراب کے علاوہ ، ہر سیاست دان ، ہر طالب علم مونث و مذکر مقرر سے فیس بُک کی زبان میں اربوں لائیکس لئے ۔ مگر سید صادق حسین ایڈووکیٹ کو ان کے اکلوتے مشہورِ زمانہ شعر سے بھی محروم ہونا پڑا مجبوراً اُنہیں اپنی اکلوتی کتاب ”برگِ سبز“ 1976ء چھپوانا پڑی تاکہ شعر کے جملہ حقوق انہیں کے نام محفوظ رہیں ۔ نیز اُن کی قبر کے کتبہ پر یہی شعر تحریر کردیا گیا ۔ 

مکمل غزل سے مستفید ہوں ۔
تو سمجھتا ہے حوادث ہیں سنانے کیلئے​
یہ ہوا کرتے ہیں ظاہر آزمانے کیلئے​
تندیِ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کیلئے
کامیابی تو ہوا کرتی ہے ناکامیِ دلیل​
رنج آتے ہیں تجھے راحت دلانے کیلئے​
نیم جاں ہے کس لیے حالِ خلافت دیکھ کر​
ڈھونڈ لے کوئی دوا اس کو بچانے کیلئے​
استقامت سے اٹھا وہ نالۂ آہ و فغاں​
جو کہ کافی ہو درِ لندن ہلانے کیلئے​
آتشِ نمرود گر بھڑکی ہے کچھ پروا نہیں​
وقت ہے شانِ براہیمی دکھانے کیلئے​
(صادق حسین ایڈووکیٹ)​



اتوار، 21 اگست، 2016

بچوں کا اغواء یا لاپتہ بچے !

کیا ہم کسی سازش کا حصہ بن رہے ہیں ؟ 



لاپتا بچوں کے حوالے سے خوف کی جو فضا قائم ہوچکی ہے، اس نے والدین کو سب سے زیادہ ہراساں کررکھا ہے جبکہ افواہ ساز فیکٹریوں کا کاروبار بھی عروج پر ہے۔ لوگ اپنے مخالفین کو بھی اغوا کار قرار دے کر تشدد کر نے لگے ہیں۔ 

ذہنی معذوروں اور مزدوروں پر تشدّد تو ہوا ہی ہے، لیکن صورت حال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ خود روتے ہوئے بچے کے والد اور ماموں بھی مشتعل افراد کے ظلم کا نشانہ بن چکے ہیں۔ اجنبی خاتون پر بھرے بازار میں تشدد کرتے ہوئے کپڑے تک پھاڑ دینے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہیں۔
اس سارے عمل میں سب سے گھنائونا کردار خود ساختہ دانشوروں نے سوشل میڈیا پر ادا کیا اور دیگر ممالک کے بچوں کی پرانی تصاویر کو لاپتا بچوں کی سمگلنگ کے عنوان سے شیئرکرنے کا سلسلہ شروع کردیا۔ 
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارا میڈیا حقائق تک رسائی کے لیے جدوجہد کرتا ہے بلکہ اس سلسلے میں متعدد قربانیاں بھی دے چکا ہے، لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بریکنگ نیوز کلچر اور سب سے پہلے ایسکلوزیو خبر کے چکر میں ایسی خبریں بھی رپورٹ ہوجاتی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ درحقیقت یہی خبریں خوف و ہراس کا باعث بن رہی ہیں اور میڈیا کی ساکھ پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔
ہم کس سمت چل نکلے ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گذشتہ دنوں ایک خوفناک افواہ یہ بھی پھیلائی گئی کہ بچوں کو اغوا کرکے ان کے اعضا بیچے جارہے ہیں۔
 

دوسری جانب جب اس بارے میں سینئر ڈاکٹرز اور سرجنز سے رابطہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ایسا سرے سے ہی ممکن نہیں ہے۔ ڈاکٹرز کے مطابق اعضا کی منتقلی کے لیے پہلے ٹشو میچ کیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد اگر ٹشو میچ ہوجائیں تب اعضا کی منتقلی کا عمل شروع ہوتا ہے۔ اب یہ تو ممکن نہیں کہ اغوا کار پہلے اغوا ہونے والے بچے کے ٹشو میچ کریں اور جب ان کے ساتھی ڈاکٹر گرین سگنل دے دیں تب اس بچے کو اغوا کیا جائے۔ اس سے بھی اہم اطلاع یہ ہے کہ بچے کے اعضا ابھی نمو پا رہے ہوتے ہیں اور انہیں کسی بڑی عمر کے شخص کے جسم میں منتقل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ایک عام شہری بھی اندازہ لگاسکتا ہے کہ بڑی عمر کے کسی شخص کو بچے کا جگر یا گردہ لگا دیا جائے تو اس کے نتائج کیا ہوں گے ۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ بریکنگ نیوز کے چکر میں گیس سلنڈر پھٹنے کو ـــ
’’دھماکے کی آواز سنائی دی ہے‘‘
کی بریکنگ نیوز جاری ہوتی رہی ہے۔
اس بریکنگ نیوز کے چکر میں عموماً تصدیقی عمل سے گزارے بنا خبر چلادی جاتی ہے۔ یہ درست ہے کہ بعد میں تردید بھی نشر ہوتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جن لوگوں نے خبر سنی ہے، ان میں سے کئی ایک تردید نہیں سن سکے ہوں گے۔
آزاد صحافت ذمہ د ار انہ صحافت کا دوسرا نام ہے۔ اب ہمیں خود سوچنا ہو گا کہ جب تک خبر کی تصدیق نہ ہوجائے تب تک اسے نشر نہ کیاجائے۔

موجودہ دور میں تو خاص طور پر کرائم کا سارا ڈیٹا ہمارے ایک کلک کی دوری پر مجبور ہے۔
پنجاب پولیس کی جانب سے کرائم ریٹ اور دیگر تفصیلات سرکاری ویب سائٹ پر اپ لوڈ کی جاتی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر وہاں سے ریکارڈ چیک کرنے کے بجائے سنی سنائی خبر کی بنیاد پر کالم تک لکھ دیتے ہیں۔ 

اسی طرح ہمارا رویہ صحافی سے زیادہ پولیس اور جج کا سا ہوتا ہے۔ ہم محض ایک غیر تصدیق شدہ خبر سنتے ہیں۔ اس کی بنیاد پر پہلے تھانیدار بنتے ہیں اور پھر جج بن جاتے ہیں۔ ہمیں شاید اس بات سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کہیں ہمیں انجانے میں استعمال تو نہیں کیا جارہا؟ ہم نے کبھی یہ بھی نہیں سوچا کہ جن مسائل کا ہم شکار ہیں، ان سے کیسے نکلا جاسکتا ہے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پنجاب بھر میں بچوں کے اغوا کی کہانیاں گردش کر رہی ہیں اور دوسری جانب جن بچوں کے اغوا کا بتایا جاتا ہے، ان کی اکثریت اپنے گھر میں موجود ہے۔ خبروں کے مطابق ان میں سے کوئی ناراض ہو کر گھر سے گیا تو کوئی کسی اور وجہ سے گھر سے بھاگ گیا۔ چند سال پہلے پاکستان مخالف طاقتیں بم دھماکوں کے ذریعے ملک بھر میں خوف کی فضا پیدا کررہی تھیں۔ 
اب حکومت کی جانب سے کالعدم گروہوں کی کوریج پر پابندی لگائی جاچکی ہے۔ اس پابندی کے بعد ہی ہمیں مسلسل ایسے پروپیگنڈے کا سامنا ہے جو عام شہریوں میں خوف و ہراس پھیلارہا ہے۔ پہلے گدھے کا گوشت بکنے کی داستانیں پھیلائی گئیں اور اب بچوں کے اغوا کی داستانیں مرچ مسالحہ کے ساتھ پھیلائی جا رہی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ملک میں خوف و ہراس کی فضا کون قائم کررہا ہے اور حقائق کے برعکس خبریں منظم انداز میں کیوں پھیلائی جا رہی ہیں؟ 
آپ اور ہم نے تو دیگر ممالک کے بچوں کی پرانی تصاویر موجودہ صورت حال کے تناظر میں سوشل میڈیا پر اپ لوڈ نہیں کیں؟
آپ اور ہم نے تو یہ خبر نہیں چلائی کہ بچوں کے اعضا نکالے جارہے ہیں ؟
آپ اور ہم تو اپنے مخالفین کو اغوا کار قرار دے کر تشدد کا نشانہ نہیں بنارہے ؟
اس کے باوجود یہ سب ہو رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کچھ طاقتیں ملک میں خوف کی فضا قائم کرنے کے لیے انتہائی حد تک منظم ہو رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر بیرون ملک بیٹھ کر بھی ایسے کام کئے جاتے ہیں۔ اور یقیناً کئے جارہے ہوں گے !

اب ہمیں بھی دیکھنا ہے کہ اگر منظم انداز میں خوف و ہراس پھیلایا جا رہا ہے تو کہیں ہم سوشل میڈیا پر ملک مخالف ایسی کسی مہم کا حصہ تو نہیں بنتے جارہے؟
 کہیں ہم انہی طاقتوں کے لیے استعما ل تو نہیں ہو رہے جو کبھی بم دھماکوں کے ذریعے خوف کی فضا قائم کرتی رہی ہیں؟
اور اب اس میں ناکامی کے بعد سوشل میڈیا وار کو فروغ دے رہی ہیں؟

سوال ہمیں خود سے کرنا ہے!

حقیقت پر مبنی خبریں ہماری پہچان ہونا چاہیئے !
غیر مصدّق خبریں ہماری ساکھ ہی نہیں بلکہ ملک و قوم کے لیے بھی نقصان کا باعث بن سکتی ہیں !



ہفتہ، 20 اگست، 2016

ناتمام محبت !

ﺁﺝ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻟﺞ ﺳﮯ ﻟﻮﭨﯽ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﺩﯾﮑﮭﺘﯽ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﯾﮏ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺍﭘﻨﯽ سلیٹی ﮔﺎﮌﯼ اِس طرح کھڑی کئے بیٹھا تھا کہ گاڑی کا رخ میرے سامنے تھا اور گیٹ کے دوسری طرف تقریباً 5 فٹ دور گاڑی کھڑی کی ہوئی تھی ۔ شائد ﮐﺴﯽ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ۔ ۔ ۔
ﭘﮭﺮ ﺗﻮ ﺟﯿﺴﮯ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺯ ﻭﺍﭘﺴﯽ ﭘﺮ ﺍﺳﮯ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﮔﺎﮌﯼ ﻣﯿﮟ وہیں ﺑﯿﭩﮭﮯﺩﯾﮑﮭﺘﯽ۔ ۔ ۔
ہماری گلی کوئی سو فٹ لمبی تھی ، میں جونہیں مین سڑک سے اپنی گلی میں مُڑتی تو اُس کی گاڑی دور سے نظر آتی۔ دور سے تو یہی معلوم ہوتا کہ وہ کن انکھیوں سے دیکھ رھا ہے لیکن نزدیک آنے پر اُس کا سر جھکا ہوا ہی ہوتا ، ﺑﺎ ﺍﺩﺏ ﻟﮓ لگتا ﺗﮭﺎ یا یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا ہو ۔ ۔ ۔
میری بلا سے ۔ ۔ ۔ ۔
ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﻟﻤﺤﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ سر اٹھا کر مجھے ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ، ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯسامنے مُڑ کر ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞﮨﻮﺗﯽ ۔ ۔ ۔
ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﮨﮯ ﮐﻮﻥ؟
ﺍﻭﺭ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟
ﺍﮔرﭼﮧ ﺷﺮﻭﻉ ﺷﺮﻭﻉ ﻣﯿﮟ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺩﯾکھ ﮐﺮ ﺍﻟﺠﮭﻦ  ﮨﻮﺗﯽ ﺗﮭﯽ ۔ ۔ ۔
ﻟﯿﮑﻦ ﺳﺎتھ ﮨﯽ ﺳﺎتھ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺵ ﺑﮭﯽ ﮨﻮتی ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻣﯿﺮﺍ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﺮ تا ﮨﮯ ۔ ۔ ۔ 
گلی میں مُڑتے ہی جب مجھے دور سر اُس کی گاڑی نظر آتی توﺩﻝ ﺯﻭﺭ ﺯﻭﺭ ﺳﮯ ﺩﮬﮍﮐﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩﯾﺘﺎ ۔
تیز چلتے ہوئے قدم مزید آہستہ ہوجاتے ۔ ۔ ۔ ۔
ﯾﺎ ﺍﻟﻠﮧ ﯾﮧ ﮐﯿﺎﮨﮯ ؟؟
ﮐﯿﺎ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﮨﮯ؟؟؟
باقی لڑکیوں کی طرح ﻣﯿﺮﯼ بھی ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﺗﮭﯽ ۔ ۔ ۔
کہ عمر ڈھلنے سے پہلے ﻣﯿﺮﯼ ﺷﺎﺩﯼﮨﻮﺟﺎﺋﮯ۔۔۔۔
امّاں  کے سر سے بوجھ اترے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ﺗﺎﮐﮧ ﺭﺷﺘﮧ ﺩﺍﺭﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﻠﮯ ﺩﺍﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﻃﺮﺡ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﺟﺎﻥ ﭼﮭﻮﭨﮯ ۔

میری بیشتر سہیلیوں کی میٹرک کرتے ہی شادی ہو گئی تھی ۔ ۔ ۔ گو ﮐﮧ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮐﯽ ﭘﺮﺍﻧﯽ ﮔﺎﮌﯼ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻏﺮﺑﺖ ﮐﺎ ﭘﺘﮧ ﺩﯾﺘﯽ ﺗﮭﯽ ،
ﻟﯿﮑﻦ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟﻭﮦ شریف ﮨﮯ۔ ۔ ۔  ۔
کہ اُس نے ابھی تک کوئی اوچھی حرکت نہیں کی ۔ ۔ ۔
ﺩﻥ ﮔﺰﺭﺗﮯ ﮔﺌﮯ ۔ ۔ ۔
ﺍﺏ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﻘﯿﻦ ﺳﺎ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﮐﮧ، ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﻣجھ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ۔ ۔ ۔
ﺗﺒﮭﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺁﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﺁﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﻨﭩﻮﮞ ﻣﯿﺮﮮ ﮔﮭﺮ کے اندر ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﮭﯽ ﮐﮭﮍﺍ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ۔

ﻟﯿﮑﻦ ﺁﺧﺮ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﺎﭖ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﺍ ہاتھ  ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﻧﮕﺘﺎ؟؟
ﮐﯿﺎ ﻭﮦ ﮈﺭﺗﺎ ﮨﮯ ؟
ﮐﮧ ﮐﮩﯿﮟ ﻣﯿﺮﺍ ﺑﺎﭖ ﺍﺳﮯ ﭨﮭﮑﺮﺍ ﻧﮧ ﺩﮮ ؟
ﮐﮧ ﻭﮦ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺟﻮﮌ ﮐﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ؟؟
ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮧﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ ۔ ۔ ۔ ۔ !
ﻣﺎﻝ ﻭﺩﻭﻟﺖ ﺗﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺩﯾﻦ ﮨﮯ ،
ﺁﺝ ﺍﮔﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮔﺎﮌﯼ ﭘﺮﺍﻧﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ ﮬﮯ ﮐﻞ شادی کے بعد ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺑﺪﻝ ﺟﺎﺋﯿﮟ۔
ﺍﮔﺮ ﻭﮦ مجھ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ، ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻃﻮﯾﻞ
ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﺳﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ، ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺳﭩﯿﭩﺲ ﮐﺎ ﻓﺮﻕ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ ۔ ۔ ۔ 
ﻣﺠﮭﮯ ﻭﮦ ﻏﺮﺑﺖ ﻣﯿﮟﺑﮭﯽ ﻣﻨﻈﻮﺭ ﮨﮯ ۔۔ ۔ ۔ ۔

کہتے ہیں کہ ، قسمت بیوی کے ساتھ گھر میں داخل ہوتی ہے ۔ ۔ 
یہ سوچتے ہی میں شرما گئی ۔ ۔ ۔!ﻣﮩﯿﻨﮯ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﺮﮐﺖ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﯽ ۔ ۔ ۔
ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺳﮑﺘﯽ ﺗﮭﯽ ۔۔ ۔ ۔
ﻭﮦ مجھ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ؟
ﻣﯿﺮﮮ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮﺩﺳﺘﮏ ﺩﮮ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﺎﭖ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﺍ ہاتھ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﻧﮕﺘﺎ؟
گلی میں داخل ہوتے ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ پہل کرنے کا ارادہ کیا ،
 میں گلی میں آہستہ آہستہ چلتی ہوئی ، اپنی پوری ہمت جمع کر کے ، گھر کی طرف مُڑنے کے بجائے اُس کی طرف ﺍﻭﺭ ﺍﺱ کی طرف چلنے لگی ۔ ۔ ۔
جوں جوں میرا اور گاری کا فاصلہ کم ہورہا تھا ۔ ۔
ﻣﯿﺮﺍ ﺩﻝ ﺯﻭﺭ ﺯﻭﺭ ﺳﮯﺩﮬﮍﮐﻨﮯ ﻟﮕﺎ ۔ ۔
ﻣﯿﮟ نے ﭘﮩﻠﯽ ﺩﻓﻌﮧ ﺍﺳﮯ بہت ﻗﺮﯾﺐ ﺳﮯ دیکھا ﻭﮦ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔ ۔ 
قبول صورت تھا ۔ ۔ ۔ 
ﻟﯿﮑﻦ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ ۔ ۔ ۔
ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺳﺮ ﻧﯿﭽﮯ ﮐﯿﮯ ﮨﻮﺋﮯ ڈرائیونگ  ﺳﯿﭧ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ۔ ۔
ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺎﺱ آتا ﺩﯾکھ ﮐﺮ ﺫﺭﺍ ﺳﺎ ﭼﻮﻧﮑﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﺮ ﺍﻭﭘﺮ اُٹھا ﮐﯿﺎ ۔ ۔ ۔
اُس کی آنکھوں سے الجھن نظر آرہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔
شاید وہ مجھ سے اِس بے باکی کی توقع نہیں کر رہا تھا ۔ ۔
لیکن خود بھی تو اُس نے کوئی اشارہ ، کوئی ہمت نہیں دکھائی
مجبوراً مجھے لڑکی ہونے کے باوجود ، اتنا بڑا قدم اُٹھا نا پڑا ۔ ۔ ۔
" ﺁﭖ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮔﮭﻨﭩﻮﮞ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮭﮍﮮ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﻮ؟؟؟؟"

ﻣﯿﮟ ﻧﮯ اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتے ہوئے ﭘﻮﭼﮭﺎ۔
،
،
،
،
،
،
،
،
،
" باجی ! وہ اِس لئے ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﮯ وائی فائی پر ﭘﺎس ﻮﺭﮈ نہیں ﻟﮕﺎ ﮬﮯ "

جمعہ، 19 اگست، 2016

ایک رلا دینے والی کہانی- درآمداتِ مغرب

میں سائکاٹرسٹ کے پاس بیٹھا تھا , بیگم کے کہنے پہ کئی دن سے ٹائم لیا ہوا تھا , اس لئے انہیں
ملنے چلے آیا ,
کیا مسئلہ  ہے آپ کو .. ؟
تفصیل سے زرا بتائیں ..
میں آنکھیں بند کئے چت لیٹا ماضی کی طرف سفر کرنے لگا اور میری زبان سے الفاظ پھوٹنے لگے
سب ٹھیک تھا
میں اپنے آفس میں مصروف رہتا اور نوشین یونیورسٹی میں لیکچرار تھی ,
بچے سکول کالج سے آکر اکیڈمی چلے جاتے اور پیچھے گھر میں صرف اماں اور نوکرانی ہوتی تھی ,
اماں کافی بیمار رہنے لگیں تھیں , اکثر ایسا ہوتا کہ اماں کی رات کو طبیعت خراب ہو جاتی اور ہم انہیں لیکر ہسپتال چلے جاتے جہاں چار پانچ گھنٹے کے ٹریٹمنٹ کے بعد ہمیں فارغ کر دیا جاتا , جب یہ اکثر ہونے لگا تو میری اور نوشی کی ورک روٹین خراب ہونے لگی , راتوں کو دیر سے جاگنے کی وجہ سے ہم دونوں متاثر ہو رہے تھے , ان ہی دنوں ایک دن نوشی نے مجھے کہا ...
سنئے اماں کی وجہ سے ہم دونوں کو خاصی ڈسٹربنس ہو رہی ہے , کیوں نا ہم انہیں اولڈ ایج ہوم چھوڑ آئیں
یہ سننا تھا کہ میرے تن بدن میں آگ لگ گئی اور غراتے ہوے میں نے پوچھا کہ تم نے یہ سوچا بھی کیسے , جانتی بھی ہو ابو کی ڈیتھ کے بعد اماں نے مجھے کیسے پال پوس کر بڑا کیا
آپ بھی نا جزباتی ہو جاتے ہیں , میں تو صرف یہ کہہ رہی ہوں کہ شہر میں بیسیوں اولڈ ایج ہوم ہیں , ہم کسی اچھے سے پرائیویٹ اولڈ ہوم کا انتخاب کریں گے جہاں میڈیکل کی بھی سہولیات ہوں تاکہ خدانخواستہ رات کو تو ہم یہاں ہوتے ہیں اگر دن میں اماں کی طبیعت بگڑ گئی تو کیا کرے گی کام والی نجمہ , آپ ایک دفعہ مسز عباسی نے جو اولڈ ہوم پروجیکٹ شروع کیا ہے وہ دیکھ آئیں ,,,
اچھا فی الحال اپنی بکواس بند کرو اور مجھے پڑھنے دو ,, میں نے عینک سیدھی کی اور پھر کتاب پڑھنے میں مصروف ہو گیا لیکن میرا دماغ بار بار مسز عباسی کے بنائے اولڈ ایج ہوم کی طرح جا رہا تھا
اگلے دن اتوار تھی اور صبح ہی صبح میں گاڑی لیکر شہر کے اس پوش علاقے کی طرف بڑھ گیا جہاں وہ اولڈ ایج ہوم تھا , گاڑی پارک کر کے میں اس شاندار اور پرشکوہ بنگلے کی طرز پہ بنی اس عمارت میں داخل ہو گیا , جہاں میرا استقبال پودوں کو پانی دیتی مسز عباسی نے خود کیا , اس دن میں نے وہ ساری عمارت گھوم پھر کر دیکھی جہاں میرے ذہن کے مطابق واقعی ہی بوڑھے لوگوں کے لئے جنت تعمیر کی گئی تھی , صاف ستھرا ماحول , بڑا سا سرسبز لان , پرشکوہ ڈسپنسری جہاں ہر وقت ایک ڈاکٹر طعینات رہتا تھا , اور اولڈ ایج ہوم کی اپنی دو اینمبولینسز کے علاوہ وہاں زندگی کی ہر سہولت فراہم کی گئی تھی,
مسز عباسی سے فیس وغیرہ پوچھی تو چودہ طبق روشن ہو گئے , لیکن اماں کے آرام کے لئے مجھے وہ مناسب لگے , اب صرف اماں سے پوچھنا باقی رہ گیا تھا ,
رات کو اماں کے کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا وہ بیٹھیں بڑے بڑے لفظوں والا قرآن پڑھ رہیں تھیں , میں کمرے میں داخل ہوا تو انہوں نے سر اٹھا کر اوپر دیکھا اور مسکرائیں ,
میں چپ چاپ پہلو میں آکر بیٹھ گیا , اماں کا حال احوال پوچھا اور پھر چُپ .. سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ بات کو کیسے شروع کروں
یہ مشکل اماں نے خود ہی آسان کر دی ,, کیا ہوا بیٹا پریشان لگ رہے ہو !
جی بس آپ کی وجہ سے ہی پریشانی تھی , کیسی طبیعت ہے اب
میں ٹھیک ٹھاک تو ہوں , مجھے کیا ہونا , بس یہ کمبخت مارا بلڈ پریشر اوپر نیچے ہوتا رہتا ہے ,
اماں ایک مشورہ کرنا تھا آپ سے ۔۔
بولو بیٹا !!!
اماں میں ایک جگہ دیکھ کر آیا ہوں میں نے ہکلاتے ہوے بولنا شروع کیا , وہ آپ کی رہائش کے لئے بہت مناسب ہے , وہاں مجھے یہ پریشانی نہیں ہوگی کہ آپ گھر میں اکیلی ہیں , یا آپ کی طبیعت تو ٹھیک ٹھاک ہے , وہاں ڈاکٹر چوبیس گھنٹے موجود رہتا ہے , ماحول بھی صاف ستھرا ہے ,
اماں کے چہرے پہ رقصاں مسکراہٹ تھم گئی تھی , ایک دفعہ ماتھے پہ بل پڑے اور پھر مسکرا دیں , بیٹا  مجھے بھی کافی دن سے محسوس ہو رہا تھا کہ تم لوگوں کو کافی ڈسٹرب کر رہی ہوں , ٹھیک ہے کوئی مسئلہ نہیں , جیسے میرا لعل خوش ویسے میں خوش , اماں نے مسکراتے ہوے میرا ماتھا چوما اور میں کمرے سے نکل آیا ۔
میرا ضمیر اس بے غیرتی پہ آمادہ نہیں تھا مگر میرے حالات کچھ اور کہتے تھے , یا شاید میں حالات کا صحیح  مقابلہ نا کر سکا اور اماں کو میں اولڈ ایج ہوم چھوڑ آیا
شروع شروع میں دو تین دن بعد میں چکر لگا لیتا تھا ,کبھی کبھی اماں کو گھر بھی لے آتا تھا اور اگلے دن پھر چھوڑ آتا ,
پھر میرا چکر کم ہوتے گئے بس اتوار کی اتوار جانے لگا , اور پھر کچھ عرصہ پہلے تو حد ہو گئی , کاروبار کے چند مسائل کی وجہ سے میں قریبا ایک مہینہ نا جا سکا , اسی دوران وہ منحوس دن آ گیا ..
اتوار کا دن تھا , مجھے آج ایک آدمی کے ساتھ ضروری کاروباری ملاقات کرنی تھی , ناشتہ کیا اور گاڑی میں آبیٹھا ابھی سیلف لگایا ہی تھا کہ اٹھارہ سالہ ایان بھی دروازہ کھول کر ساتھ بیٹھ گیا ,
ٍڈیڈ آپ کو پتہ ہے میں گاڑی چلانا مکمل سیکھ گیا ہوں ,
اچھا .... ؟ واہ شاباش میرا بیٹا بڑا ہوگیا ،
ڈیڈ آپ ہمیشہ ہمیں سکول چھوڑ کر آتے ہیں آج میں آپ کو چھوڑ کر آؤں گا ۔
میں نے ہنستے ہوے ایان سے پوچھا ،
اچھا کہاں چھوڑنے کا ارادہ ہے اپنے پاپا کو !
اولڈ ایج ہوم ....
اس نے کہا ....
اور میں ساکت ہوگیا , میرے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوگئی اور ہاتھ سٹیرنگ پہ مضبوطی سے جم گئے
وہ اپنی دھن میں بولتا جا رہا تھا , آج سنڈے ہے مجھے پتہ ہے کہ آپ گرینی سے ملنے جا رہے ہیں , میں بھی چلتا ہوں ساتھ میں آپ کو ڈرائیونگ بھی دکھاتا ہوں اپنی ..............
مگر میں بس ایان کے پہلے جملے پہ ہی ساکت ہو چکا تھا , اسکے معصوم جملے میں میرا مستقبل چھپا تھا , میری وہ فصل جو مجھے کاٹنی ہی تھی , بچپن میں پڑھی کہانیاں اور واقعات کی طرح مجھے بھی اسی سلوک کا شکار ہونا تھا ... ........ میری آنکھوں سے آنسو ابل ابل کر آ رہے تھے اور میں اپنی اماں سے اپنے اس گھٹیا سلوک سے سخت شرمندہ تھا ,
ایان کو بلاوجہ ڈانٹ کر میں نے گاڑی سے نکالا اور تیزی سے گاڑی چلاتا ہوا , اماں کو لینے اولڈ ایج ہوم جانے لگا ,
اولڈ ایج ہوم پہنچا تو دوسری بجلی گری کہ کچھ دیر قبل ہی اماں ہارٹ اٹیک سے فوت ہو چکی تھیں اور میری معافی و توبہ کے سارے دروازے بند ہو گئے ..

ڈاکٹر صاحب تب سے میں انتہائی چڑچڑا ہو چکا ہوں ,
کاروبار میں دل نہیں لگتا ,
بلاوجہ بچوں اور ملازموں کو ڈانٹتا رہتا ہوں ,
اکثر چھٹی والے دن سارا سارا دن قبرستان میں اماں کے سرہانے بیٹھ کر ان سے معافی مانگتا رہتا ہوں ,
نا گھر میں دلچسپی رہی نا کاروبار میں اب بتائیں کیا اس بے سکونی , بے آرامی اور اس ضمیر کا کوئی علاج ہے جو جاگا بھی تو بے فیض ...

کافی دیر تک میں چپ رہا لیکن ڈاکٹر کی آواز نا آئی
آنکھیں کھولیں , اٹھ کر ڈاکٹر کو دیکھا تو وہ سر نیچے کئے بیٹھا رو رہا تھا ,
ڈاکٹر صاحب ... میں دوبارہ بولا تو اس نے سر اٹھایا اور آنکھیں صاف کرکے بولا
اسکے علاوہ اس بے سکونی کا کوئی علاج نہیں کہ اللّٰہ سے توبہ استغفار کرتے رہا کرو , نیک کام کرو تاکہ وہ تمہارے ماں باپ کے کام آئیں اور شاید تمہیں سکون مل جائے ۔
یہ کہتے ہوئی اسکی ہچکیاں بندھ گئیں ,اور گلوگیر آواز میں پھر بولا ۔
میں نے ایک ضروری کام سے جانا ہے آپ چلے جائیں , یہ کہتے ہوے اس نے اپنا موبائل اٹھایا اور ملازم کو بلا کر کلینک بند کرنے کا کہنے لگا ۔
ارے ڈاکٹر صاحب اتنی ایمرجنسی میں آپ جا کہا رہے ہیں , میں نے پوچھا تو اس نے مُڑ کر جواب دیا ۔
اولڈ ایج ہوم !
بابا کو لینے ........
یہ کہا اور گھوم کر راہداری میں غائب ہو گیا...




(درآمداتِ مغرب )

جمعرات، 18 اگست، 2016

شیطان نامہ - قسط نمبر 38-چند اہم گزارشات

اہم گزارشات .
نمبر ایک :- دوستو آپ لوگ بہت جلد باز اور بے صبرے ہو .میں تو آپ کو تاریخی حوالہ جات اور وہ سب کچھ بتا کر اس قابل بنا دینا چاہتا تھا کہ آخری قسط سے پہلے ہی آپ لوگ اندازہ کر لیتے کہ میدان کربلا میں کیا کچھ ہوا ہو گا اور جب آخری قسط آپ دیکھتے تو وہ سب کچھ آپ کو عجیب محسوس نہ ہوتا اور آپ خود پرانی پوسٹ سے حوالہ دے پاتے کہ یہ تو فلاں صاحب کی فلاں کتاب میں پہلے لکھا جا چکا ہے اور یہ غلط ہے یا صحیح ؟.
میری یہ پوسٹ مختلف زبانوں میں دنیا بھر کے تقریبا ایک کروڑ لوگوں کو بھیجی جاتی ہے ان میں سے صرف 2 فیصد لوگ اسے باقائدگی سے دیکھتے ہیں اور اگر کوئی قسط مس ہو جاۓ تو اپنا میل بھیج کر منگوا لیتے ہیں .ہند و پاکستان میں اس کی ابتدا حادثاتی طور پر ہوئی اور آپ کے ملکوں میں اسے پوسٹ کرنے کا خیال بھی میرے ذہن میں نہ تھا . کیونکہ میں تو آپ لوگوں کے بارے میں جاننے اور محض معلومات کے لئے فیس بک پر آیا تھا اور شیطانی روپ اختیار کیا تھا تا کہ عام لوگ بھی مجھ سے کھل کر بات کریں اس سے یہ فائدہ ہوا کہ ایک حیرت انگیز انکشاف مجھ پر ہوا کہ انڈیا کی طرح پاکستان میں بھی باقاعدہ شیطان کی پوجا کی جاتی ہے اور ان کے خلاف میں پہلے بہت کام کر چکا تھا .
نمبر دو :- اپنے انگلیڈ میں قیام کے دوران جب میں نے پہلی دفعہ مسلمان ہونے کا ارادہ ظاہر کیا تو آپ لوگوں (مسلمانوں) کے مختلف فرقوں نے مجھ پر تبلیغ کی مگر میں تو مسلمان ہونے کےلئے مسلمان ڈھونڈھ رہا تھا مگر افسوس کے ساتھ کہے دیتا ہوں کہ مجھے ایک بھی نہیں ملا .آپ کے خطے کے ایک بہت بڑے نامور عالم دین سے من ہٹن میں ملاقات ہوئی تو انہوں نے یہ انکشاف کیا کہ تمام فرقوں میں سے صرف ایک فرقے کے بارے میں فرقہ ناجیہ (جو فلاح پاے گا اور جنت میں جاۓ گا ) بتایا گیا ہے جو قران اور سنت کو تھامے ہوے ہو گا.اس زمانے میں میں قران کا مطالہ کر چکا تھا اور تقریبا عربی سیکھ چکا تھا تو میرے سوال پر کہ وہ فرقہ کون ہے انہوں نے بتایا کہ وہ چند لوگ ہیں جو ہر فرقے میں موجود ہو سکتے ہیں جو بدعات سے اجتناب کرتے ہیں اور الله کے دین کے لئے اپنے کو خالص اور وقف کیے ہوئے ہیں.انہوں نے اپنا خیال ظاہر کیا کہ صرف ایک فرقہ ایسا ہے کہ جس میں محسوس ہوتا ہے کہ ایسے لوگ ناپید ہیں تو میرے اصرار پر بتایا کہ وہ شیعہ ازم ہے.کیونکہ ان کا سورس آف نالج قران اور سنت نہیں ہے .
اور یہی بات اس تحقیق کے وجہ بنی اور یہ بہت پرانی بات ہے دنیا کے کئی ایک علما نے اس ٹاپک کو میرے ساتھ شیئر کیا جن میں لکھنو کے عماد عالم اور کراچی کے محمود احمد عباسی بھی شامل ہیں اور میں نے سنا کے محمود عباسی نے میری تحقیق کو کتابی شکل میں جاری کیا جس پر پاکستان میں بابندی لگا دی گئی .
نمبر تین :- آپ کے خطے کے چند دوستوں نے جو باقائدگی سے یہ پوسٹ پڑھتے ہیں مجھ سے فرمایا کہ وہ احتجاج کے طور پر اب میری پوسٹ نہیں پڑیں گے اور صرف نمبر دیکھیں گے اگر آخری قسط ہوئی کہ جس میں واقعہ کربلا بیان ہوا تو وہ سب پڑیں گے کیونکہ ان کے بقول میں ان کے صبر کا امتحان لے رہا ہوں اور جان بوجھ کر اسے لمبا کھیچ رہا ہوں . دوستو تقریبا 150 پوسٹوں پر مشتمل ٹاپک کو میں چالیس یا پچاس پوسٹوں میں سمیٹ کر کیسے انصاف کے تقاضے پورے کر سکتا ہوں .انڈو نیشیا میں 143 پوسٹ میں یہ ٹاپک مکمل ہوا- خود میرے ملک میں 123 قسطیں پوسٹ ہوئیں دوسرے آپ کی زبان پر مجھے عبور حاصل نہیں ہے .
اگر آپ لوگ میری بات کا برا نہ منائیں تو عرض کروں کے یورب اور آپ کے لوگوں میں زمین آسمان کا فرق ہے آپ لوگ دس دفعہ سوچ کر جس بات کو ختم کرتے ہیں وہ وہاں سے آغاز کرتے ہیں لیکن بلا شبہ آپ میں سے بھی چند لوگوں کو میں نے انتہائی ذہین اور علم والا پایا اور سب سے اچھی بات کہ آپ لوگ مخلص پن میں ان سے بہت آگے ہیں.فیس بک کے ایک مخلص دوست آصف رضا نے کہا کہ آپ کی پوسٹ سے میں نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ کربلا میں کیا ہوا یہ میں کبھی نہیں جان سکوں گا .
نمبر چار :- تو آپ کے بے حد اصرار پر میں نے فیصلہ کیا کہ آخری قسط پہلے پوسٹ کر دی جائے اور جو سوال آپکے ذہن میں پیدا ہوں ان کا جواب حوالہ جات کے ساتھ دیا جائے لیکن دوستو یہ ایک مشکل کام ہے جس میں دگنا وقت درکار ہو سکتا ہے کیونکہ ایک پوری پوسٹ حوالہ جات کے ساتھ ہوتی ہے اور آپ لوگ کیا کیا سوال کریں اور کس کس حصے سے ریفرنس تلاش کرنا پڑھے اس میں چار گنا سے بھی زیادہ وقت لگ سکتا ہے .
.
ایک گروب کے چند ممبرز نے مجھے درخواست کر کے اپنے گروپ میں شامل کیا گروپ کا نام تھا " اسلام از دی بیسٹ وے آف لائف " اور کوئی جام عدنان اسکا اونر تھا میری پہلی ہی پوسٹ جسکا عنوان تھا " ذرا ہٹ کے " اور اس پوسٹ کا تعلق اس موزوں سے تھا بھی نہیں جیسا کہ نام سے ظاہر ہے جس میں ایک آدمی نے شیعت سے توبہ کرنے کے بعد مجھے لکھا تھا اس جام عدنان نے کئی جعلی اکاونٹ امارہ شاہ اور لائبہ وغیرہ مختلف ناموں سے بنا رکھے ہیں اور کہنے لگا کہ ابھی ہمیں ریفرنس دو ورنہ گروپ سے خارج کر دیے جاؤ گے میں نے کہا کہ اپنا میل اڈریس بھیجو تم اکیلے کی لئے میں دوبارہ شروع سے پوسٹ نہیں کر سکتا مگر اس نے دوسرے ہی دن مجھے گروپ سے خارج کر دیا بتانے کا مقصد یہ ہے کہ یہ کوئی سہل کام نہیں اور بہت مناسب بات تھی جو میں نے اس سے کہی اور تمام لوگ اسی طرح مجھ سے پچھلی پوسٹ کے حوالہ جات منگاتے ہیں اور میری تمام پوسٹ میں صرف ریفرنس ہی تو ہوتے ہیں.
پانچویں بات :- بہت سے لوگ مجھ سے ذاتی طور پر ملنا چاہتے ہیں تو آپ کی محبتوں کا بہت بہت شکریہ . مگر عرض کرتا چلوں کہ میرا کسی سے آزادانہ ملنا اس وجہ سے ممکن نہیں کہ 12 سے 20 گارڈز ہمیشہ میرے ساتھ ہوتے ہیں اور اس دنیا میں میرے سینکڑوں نہیں ہزاروں دشمن ہیں .
سعودی عرب میں جب شیعہ فرقہ نے پر نکالنے کی کوشش کی تو تین سو افراد کوگرفتار کر لیا گیا جن کا آج تک پتہ نہیں کہ کہاں ہیں اور اس زمانے میں عمرہ کی غرض سے میرا سعودیہ جانے کا ارادہ تھا تو شاہی خاندان کے ایک فرد جو میری ایک تحریر " حسین و علی سے ایرانیوں کی عقیدت اور محبت کی وجہ " پڑھ کے بہت متاثر تھے میری سیکورٹی کی انہوں نے اپنے ملک میں اجازت نہیں دی اور اپنے ذاتی گارڈز اور سیکورٹی میں مجھے عمرہ کروایا .

کچھ اور اہم گزارشات اگلے حصہ میں اسکے بعد آخری قسط آپ لوگوں کے لئے پوسٹ کی جائے گی اور درمیانی اقساط اس کے بعد پوسٹ ہوتی رہیں گی.
 آخری بات :-
میں نے فیس بک پر ایک بات نوٹ کی کہ قرانی آیات جن کا ترجمہ ذرا بدل کر اور رسول الله کی احادیث تھوڑی تبدیلی کے ساتھ اور برزگوں کے اقوال زریں اور یہی نہیں انتہائی بے سروپا اور خلافت شریعت باتیں پوسٹ کر کے نیچے لکھا ہوتا ہے کہ حضرت علی نے فرمایا یا امام حسین نے فرمایا .
کچھ اچھی پوسٹ پر میں نے سوچا کہ جس کا یہ فرمان ہے ( یعنی الله اور اسکے رسول کا ) اسکا نام کیوں نہیں لکھا جاتا کیونکہ حدیث کا طریقہ کار تو یہی ہے کہ ابی ہریرہ نے کہا کہ رسول الله نے فرمایا اسی طرح قران سے حوالہ کرنے کا بھی یہی انداز ہے کہ الله پاک نے فرمایا .اور لوگوں کا یہ رویہ تھا کہ غیر شریعہ اور بے سروپا باتوں پر بھی سبحان الله اور ماشا الله کے ریماکس لکھے ہوتے ہیں میرے کان اس وقت کھڑےہوے جب ایک عالم دین نے فیس بک پر اس کا انکشاف کیا میں نے اس کو بہت فرینڈ شپ آفر کی مگر میرے حلیے کی بنا پر میری دوستی قبول نہ کی گئی الٹا مجھ پر پابندی لگوانے کی کوشش کی .اس نے کھل کر کہا کہ شیعہ ازم ایک سازش کے تحت یہ سب کرتا ہے کہ الله اور اسکے رسول کا نام پردے کے پیچھے رہے اور مسلمانوں کے کان حضرت علی اور حضرت حسین کے ناموں کے ہی عادی رہیں اور تو اور اس نے بڑی مشہور احادیث کا قران اور سنت کی روشنی میں موازنہ کر کے انہیں من گھڑت قرار دیا اور مجھ جیسے آدمی کو بھی چونکا دیا .
آج کل فیس بک پر نظر نہیں آتا اندیشہ ہے کہ قتل نہ کر دیا گیا ہو کیونکہ ایسے سچے آدمیوں کا پاکستان میں یہی انجام ہو سکتا ہے .آپ لوگوں سے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس کے خلاف کمر بستہ ہوں اور اگر کوئی پوسٹ ان عظیم ہستیوں کے متعلق قران و حدیث کے خلاف نظر آئے تو اس پر احتجاج ضرور کریں یا کم از کم اسے ڈس لائیک کریں اور اس پر اچھے ریمارکس نہ دیں مگر اس کے لئے بھی علم کی ضرورت ہے اور مجھے معاف کریں یہ کہتے ہوے کہ آپ کا ملک تو جاہلوں کی آماجگاہ ہے .
شیطان کے پجاریوں: کے بارے میں آپ کے ملک میں بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کیونکہ ان کی عبادت بہت خفیہ اور کسی نہ کسی کی ذاتی کوٹھی یا پھر ویرانے میں ہوتی ہے اور یہ لوگ انتہائی محتاط ہوتے ہیں بڑی چھان پھٹک اور مشکل سے کسی کو اپنے گروہ میں شامل کرتے ہیں موریتانیہ میں تو انسانی خون کی قربانیاں بھی دی گئی ہیں اور شیطان کو خوش کرنے کے لئے ایسے گھناونے کام کرتے ہیں کہ آپ لوگ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے ان کے عقائد کے خلاف اور ان کے بارے میں میری کافی معلومات ہیں اس لئے مجھے رمضان المبارک میں کچھ با اثر لوگوں نے ان کی نشاندہی اور گرفتاری کے لئے آفر دی ہے تا کہ آئندہ قربانی کے لئے انسانی جانوں کے زیاہ سے بچا جا سکے اس لئے پورا ایک مہینہ اور چند دن یا ہفتے مجھے آپ سے اجازت لینی پڑے گی .اور باقی ماندہ پوسٹ سید تعظیم حسن کریں گے جو پہلے بھی فیس بک پر میری غیر حاضری میں کام کر چکے ہیں .شاہ صاحب بہت بڑے عالم دین ہیں آپ کے ہر سوال کا جواب بھی تسلی بخش دیں گے .مستقل رہائش نیدر لینڈ میں ہے آج کل میرے پاس مقیم ہیں مگر افسوس کہ مجھے ان کو چھوڑ کر جانا پڑ گیا ہے .
آپ میری تیسری اور آخری بیوی ڈاکٹر اریبہ سید کے سگے بھائی بھی ہیں بہت جولی آدمی ہیں اور بڑے لطیفے ان کو یاد ہیں پہلے شیعہ تھے اب اپنا تعارف صرف مسلمان کی حیثیت سے کراتے ہیں .وسلام اور الله حافظ.

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 

٭٭٭واپس ۔شیطان نامہ  ۔ فہرست ٭٭٭

پیر، 15 اگست، 2016

فوجی کی طاقت !

میری اور راحیل شریف کی ایسوسی ایشن کا آغاز اُس وقت ہوا جب ہم دونوں 241 کیڈٹس کے ساتھ (کل 243)۔
  18 نومبر 1974 کو پاکستان ملٹری اکیڈمی کے گیٹ سے اندر داخل ہوئے ۔ اِ ن میں بعد میں ہمارے ساتھ ملنے والے ، 41 کیڈٹس بھی شامل تھے ،
ہم سب 284 جنٹلمین کیڈٹس، خود کو قابلِ فخر 54 لانگ کورس کا حصہ سمجھتے ہیں ۔

آپ کے بھی علم میں ہوگا کہ قابلِ فخر ہونے کا یہ ٹائیٹل ، صرف راحیل شریف کا مرھونِ منت ہے ، جو اِس وقت ہر محبِ وطن پاکستانی کے دل کی دھڑکن بنا ہوا ہے ۔
جس نے پاکستان آرمی کو دنیائے افواج میں ، ایک ایسی جنگ کے خلاف وہ اعزاز دلوایا ہے ۔ جس نے گھٹن کی وہ فضاء ختم کردی جو سب محبِ وطن محسوس کرتے تھے ۔
راحیل شریف کو ملنے والا یہ اعزاز یقیناً

کے آخری ویٹرن تک " سرخاب کا پر" بن کر رہے گا ۔
بشرط کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!
راحیل شریف ، اشفاق پرویز کیانی کے ۔ بوٹ میں اپنا پیر پھنسانے کی کوشش نہ کرے !

جمعہ، 12 اگست، 2016

چندا !

وہ بہت حسین تھی۔ مجھے بہت پیاری لگتی تھی۔
اِس جمعے  میں مغرب کے بعد اُس کے گھر گیا۔

وہ دروازے پر آئی۔

میں اسے دیکھ رہا تھا۔

اس نے بھی مجھے دیکھا۔

وہ قریب آئی تو میں نے ہمت کی اور آھستہ سے کہا۔

" چندا "

وہ مسکرائی۔

میں خوش ہو گیا۔

وہ اندر گئی اور پھر واپس آئی۔

اور

پھر

اس نے 100 روپے میرے ہاتھ پر رکھ دیے۔

میں نے حیرت سے پوچھا یہ کیا؟

وہ بولی:" چندا " 


خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔