Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

منگل، 28 جنوری، 2020

ٹڈی دل - بریانی کے لئے بہترین گوشت ہے




 ٹڈی ، اللہ کی مخلوق ہے اور اُس کی غذا سبزہ ہے ۔یہ صحراؤں میں پلتی ہے اور  بالغ ہو کر اُڑنے کے بعد جہاں سے گذرتی ہے ، ہریالی کو چٹ کر جاتی  ہے ۔
 زیریں نقشے میں ، ٹڈیوں کی افزائش کے علاقوں کی نشاندہی کی ہے ، یہ ہندو پاک میں  راجھستان ، چولستان اور تھر کے صحراء ہیں ۔  مغرب کی طرف ایران ، خطہءِ عرب میں  سعودی عرب  کا جنوبی علاقہ اومان  اور یمن ہیں ۔ افریقہ میں  اریٹیریا، ایتھوپیا  ، صومالیہ اور کینیا کے علاقے شامل ہیں ۔ 

دور سے ٹڈی دل  بھورے بادل یا ریت کا طوفان نظر آتا ہے ، لیکن قریب آنے پر یوں لگتا ہے کہ آسمان پر اُڑتے  سائے لہرا رہے ہیں ۔
ٹڈیوں کی یہ جمِ غفیر فوج ، ہوا کی سمت اُڑتی ہے اور ان کے سر پر لگے ہوئی قدرتی  اینٹینا ، سبزے کی مہک  کی جانب   راہنمائی کرتے ہیں ،  ٹڈیوں کی یہ فوج ایک دن میں 150 کلومیٹر تک اُڑان بھرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔

   مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ  1961میں اُس وقت نوشہرہ میں   گورنمنٹ پرائمری سکول (موجودہ ایف جی بوائز ہائی سکول)میں دوسری جماعت کا طالبعلم تھا    ۔ کہ اچانک ٹڈی دل سے سکول کی فضاء بھر گئی ہم کلاسوں سے باہر نکلے ، تو بڑی بڑی ٹڈیاں سکول  کے درختوں پر منڈلا رہی تھیں اور سب سے حیرت کی یہ  بات تھی     پٹھان بچے ٹڈیاں پکڑتے ، پر نوچتے اور مزے سے کھاتے ، کہ پٹھان  اساتذہ بھی پیچھے نہیں تھے -
چھوٹا بھائی جو کلاس ون میں  پڑھتا تھا اُس نے بھی مزے سے کھائیں ، لیکن میں نے اِس شرط پر کھانے کا وعدہ کیا کہ گھر جاکر پکا کر کھاؤں گا ۔ گھر لایا ،  تو والدہ نے تل کر دیں اور کھائیں ۔ والدہ نے بتایا :
" یہ مچھلیوں کی طرح حلال ہوتی ہیں ، ہمارے ہاں اجمیر میں یہ راجپوتانہ سے آتیں ، لیکن ہم انہیں تل کر کھاتے تھے ، کچی ہم سے نہیں کھائی جاتیں اُبکائی آتی تھی ۔ لیکن   بابا اور بھائی کچی کھا جاتے تھے "۔
میرے نانا یوسف زئی تھے  اور نانی  نکھلؤ  (لکھنؤ )کی ،لہذا کوئی شک نہیں رہا کہ پٹھان ٹڈی اِس لئے کھاتے ہیں ، کہ ٹڈی اور مچھلی روایات کے مطابق  ، قدرتی حلال ہیں ۔
روایت آپ بھی سُن لیں ۔جو امی نے بتائی ۔
" جب  ابراہم نے ،اپنے   کو ذبح کرنے کے لئے چھری چلائی تو ، اُن کی جگہ دنبہ رکھ دیا گیا ، چھری چلنے پر دنبہ ، چلایا اور  زور سے،" میں"کی آواز نکالی  تو ابراہم  نے غصے میں چھری آسمان پر پھینکی  ، چھری فضا میں گئی اُس نے  ٹڈی کو حلال کیا اور پھر سمندر میں گرکر مچھلی کو حلال  کر دیا ۔ لہذا ٹڈی اور مچھلی بغیر ذبح حلال قرار دی گئے " 
ماں کی بات پر ہم نے آمنا و صدقنا ایمان لے آئے ، کیوں کہ ماں جھوٹ تو نہیں کہہ سکتی ؟  1960 سے 2019 تک، ٹڈی دل   راجپوتانہ ، چولستان  اور تھر  سے اُٹھتا ، فصلیں تباہ کرتا  رہا ۔
      USAIDکی وارننگ  کے مطابق   ، ٹڈی دل ایتھوپیا ، کینیا ، یوگنڈا اور ساوتھ سوڈان سے پرواز کرتے گا ، لہذا ہر کس و ناکس کو خبردار کیا جاتا ہے ۔اور اب  28 جنوری 2020 کے بعد تیزی سے پرورش پاتی ٹڈیوں کی فوج سے ایسے ملکوں  کی   فصلوں کو خطرہ لاحق ہے جہاں 80 فیصد سے زیادہ آبادی اپنی معاش کے لئے زراعت پر انحصار کرتی ہے۔
اطلاع کے مطابق ، ہارن آف افریقہ (ایتھوپیا)میں  ٹڈیوں کی نئی نسل کی اطلاع ہفتے میں پہلے ضلع رایا میں دی گئی تھی اور اس کے بعد سے وہ اس خطے کے 40 اضلاع میں ہزاروں ہیکٹر میں پھیل چکی ہے۔ 

      USAIDکے دفتر برائے مواصلات کا کہنا ہے ،
" ٹڈیوں کے پھیلاؤ کو روکنے اور اس پر قابو پانے کے لئے امریکی فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن کے ساتھ مل کر کام کرنے کا ارادہ ہے۔ یہ ایجنسی 300 سے زائد کیڑوں کے ماہرین کو تربیت دے رہی ہے اور ٹڈیوں کے خلاف لڑنے  کے لئے 5 ہزار سیٹ حفاظتی سامان کے مہیا کرے گی ۔

ٹڈیوں کی پیدائش کو ختم کرنے کے لئے  حکام زمین پر طیاروں اور گاڑیوں سے متاثرہ علاقوں  میں ادویات چھڑک رہے ہیں۔ کیوں کہ ابھی وقت ہے کہ اِن کی افزائش کو روکا جاسکے ، ورنہ فروری میں یہ پرواز کے لئے بالکل تیار ہوں گی ۔

ایف اے او کے مطابق 2003 اور 2005 میں 20 سے زیادہ ممالک میں خاص طور پر شمالی افریقہ میں ٹڈیوں کے پھیلنے سے کاشتکاروں کو 3.6 بلین لاگت کا نقصان اٹھانا پڑا ۔ 
سوال پیدا ہوتا ہے کہ، کیا پاکستا ن میں زراعت پر ہونے والے ممکنہ ٹڈیوں کی فوج کے حملے  کے تدارک کا بندوبست  کیا جاچکا ہے ، یا عوام ڈنڈے اور لاٹھیوں سے اُس کا استقبال کریں گے ؟
یا پھر حکومت کے غیرت دلوانے پر  چولستان اور تھر کی یہ ٹڈیاں  شائد ہندوستان کا رُخ کر لیں ۔ لیکن یہ یاد رہے کہ وہاں بھی راجپوتانہ کی ٹڈیاں مقابلے کے لئے تیار ہو رہی ہیں ۔ بس پہلی بارش کا انتظار ہے ۔ 
ارے ہاں! پاکستانی وزیر اسماعیل راہو کے مطابق ، ٹڈیوں کی بریانی  بھی بنائی جا سکتی ہے ! 

 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مزید پڑھیں :

٭-  ٹڈی دل آپ کو کھا جائے گا!

٭- بر صغیر کی ملکہ ۔ مسور
٭-ماش کی دال ایک سکن ٹانک 
٭- یہ منہ اور مسور کی دال
٭- مزدوروں کی دال - ملکہ مسور
٭- 

٭Search Results Translation result English Urdu٭٭٭٭٭٭

ٹڈی دل آپ کو کھا جائے گا!

 گذشتہ برس ٹڈی دل افریقہ سے اٹھا، ایتھوپیا سے چلا، عمان سے ہوتا ہوا ایران اور وہاں سے چاغی اور پھر سندھ پہنچا، عین اسی طرح جیسے آبی پرندوں کے جھلڑ ایک خطے سے دوسرے خطے میں سفر کرتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ٹڈی دل مہمان پرندہ نہیں ایک آفت ہے اور ہم پر دیگر آفتوں کے ساتھ یہ آفت بھی ٹوٹ پڑی ہے۔
پاکستان پر اس کا پہلا حملہ گذشتہ برس جون اور جولائی میں ہوا۔ سندھ اور چولستان کے کاشتکار، ان کا چارہ، کپاس کی فصل اور ان کے باغات سب برباد ہو گئے۔
کچھ بیان داغے گئے، چند نیم دلانہ اقدامات ہوئے اور اس کے بعد ملک کو درپیش اہم ترین مسائل مثلا آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع، پرویز مشرف کیس کے فیصلے پر ہڑبڑانا، میاں نواز شریف کو ضمانت پر خود ہی باہر بھیجنا اور خود ہی تلملانا، مولانا فضل الرحمان سے جوجھنا وغیرہ شامل تھا پر توجہ شریف مرکوز کر لی گئی۔
کاشتکار گئے بھاڑ میں اور وہیں ان کے مسائل بھی۔ نہ حکومت کے اور نہ ہی اپوزیشن کے کان پر جُوں تک رینگی۔
یوں کہنے کو پاکستان زرعی ملک ہے۔ مگر یہاں زرعی اصلاحات کا مطلب، زرعی ٹیکس، کاشتکاروں کو جاگیردار ہونے کا طعنہ دینے اور بڑے مزارعوں کو توڑنے کی احمق سوچ کے علاوہ کچھ نہیں۔ زراعت کے بارے میں پتا کسی کو کدُو کا بھی نہیں ہے۔
ٹڈی کی افزائش کے لیے صحرائی ریت بہترین ہوتی ہے خصوصا جس برس بارش ہو وہ سال ٹڈیوں کی افزائش کے لیے بڑا بار آور ہوتا ہے۔ نومبر میں جو ٹڈیاں کراچی میں نظر آئیں وہ زرد رنگ کی ٹڈیاں تھیں۔ یہ بالغ ٹڈیاں تھیں اور اگر کسی کی کھوپڑی میں ذرا سی بھی عقل ہوتی تو وہ انھیں جنگی بنیادوں پر تلف کرتا نہ کہ لاڈ پیار سے چمکار کے بلوچستان جانے دیتا کہ وہاں افزائش نسل کے بعد وہ دوبارہ ملک پر حملہ کریں؟
اس وقت ان ٹڈیوں کو تل کر کھانے اور ان کی بریانی دم کرنے کی تجاویز دی گئی تھیں۔ ٹڈیاں چلی گئیں، سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔ متاثرہ کاشتکار جانے کیسے اگلی فصل کاشت کرنے کے قابل ہوئے؟ کسی کو کچھ معلوم نہ ہو پایا مگر میاں صاحب کی پلیٹلیٹس گرنے اور حکومتی پارٹی کا فشار خون بلند ہونے کی خبریں لمحہ بہ لمحہ سنائی دیتی رہیں۔
ٹڈیاں اس دوران ساون سے نم صحرائی ریت میں انڈے دے کر اپنا جھلڑ بڑھاتی رہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی کی وزیر اور زراعت کے وزیر اس دوران ٹاک شوز پر اپنی حکومت کا دفاع کرتے رہے اور بے خبر رہے کہ ٹڈی کہاں ہے اور کیا کر رہی ہے۔
ٹڈی نے اس دوران اگلی نسل تیار کر لی تھی اور یہ نسل جو گلابی رنگ کی کم عمر ٹڈیاں ہیں، چھ جنوری سے جنوبی پنجاب پر حملہ آور ہیں۔
فی الوقت یہ دل کی شکل میں نہیں، ٹکڑیوں کی شکل میں ہیں۔ مگر ان کی ایک ٹکڑی بھی بہت بڑی ہوتی ہے۔
اس وقت یہ ٹڈیاں صحرا سے نکل کر جنوبی پنجاب سے ہوتی ہوئی انڈین پنجاب فاضلکہ، فیروز پور اور بیکانیر وغیرہ کی طرف جا رہی ہیں۔
بیکانیر صحرائی علاقہ ہے۔ فروری کا مہینہ ٹڈیوں کی افزائش کا مہینہ ہے۔ حال ہی میں ہونے والی بارشوں سے ریت میں نمی موجود ہے۔ یعنی یہ ٹکڑیاں بڑھ کر جھلڑ بنیں اور اب جلد ہی دل، بنا چاہتی ہیں۔
ٹڈی دل معمولی شے نہیں، تاریخ کے بڑے بڑے قحط اس معمولی ٹڈی کی وجہ سے پڑے۔ سنا ہے کہ یہ گھاس گھوڑا یا گراس ہاپر ہی ہوتا ہے اور جب صحرا میں بارش ہو اور زیادہ ہریالی ہو تو اپنی رنگت بدل لیتا ہے اور آپس میں ایک عجیب سا گٹھ جوڑ کر کے ٹکڑیاں، جھلڑ اور پھر آخر کار دل بنا لیتا ہے۔
ایسا یہ اسی وجہ سے کرتا ہے جس وجہ سے ازمنہ وسطی کے انسان کرتے تھے۔ آبادی بڑھنے کی وجہ سے خوراک کی قلت ہوتی ہے۔ یہیں سے ان کے دماغ میں ایک ایسا مادہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تنہا گھاس گھوڑے سے ایک دل میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ یہ مادہ سروٹینن ہے۔
ٹڈی دل کئی دہائیوں کے بعد دوبارہ آیا ہے اور اسے قابو کرنا نہ تو کسانوں کے بس کی بات ہے اور نہ ہی ایک اکیلا ملک اسے قابو کر سکتا ہے ۔ اس کے لیے پڑوسی ملکوں کے ساتھ ہنگامی بنیادوں پر بات چیت کرنے اور اس کے اگلے حملے سے پہلے اسے تلف کرنے کی ضرورت ہے۔
شور مچا کر ایک کھیت سے بھگائی ہوئی ٹڈیاں دوسرے کھیت میں چلی جائیں گی وہاں سے بھگائی جائیں گی تو آگے، مگر کبھی نہ کبھی ،کہیں نہ کہیں یہ بیٹھیں گی اور جہاں یہ رات بھر بیٹھ جائیں اس علاقے میں گھاس کا تنکا تک نہیں بچتا۔
ٹڈی دل کو کیمیائی طریقوں سے ختم کرنا بھی خطرناک ہے کیونکہ اس طرح جو کیمیکل استعمال کیا جائے گا وہ ماحول، انسانی اور دیگر جانوروں کی صحت پر برا اثر ڈالے گا۔
ٹڈی کے نیسٹنگ گراؤنڈ کو کھود کر اس کے انڈے تلف کیے جا سکتے ہیں گو یہ اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ چھلنی میں پانی لانا۔ اس کے علاوہ پھپھوندی کی ایک خاص قسم پورے جھلڑ کو بیماری میں مبتلا کر کے مار سکتی ہے۔ دیمک کو قابو کرنے کے لیے بھی ایک اسی قسم کی دوا استعمال کی جاتی ہے۔ یہ پھپھوندی ٹڈی میں وبا کی صورت بیماری پھیلا دیتی ہے۔ ایسے مادے بھی سپرے کیے جا سکتے ہیں جو سروٹینن کی مقدار کو گھٹا دیں۔ جس سے یہ دل بنانے کی خُو ہی بھول جائیں۔
انسان بہر حال بہت سیانا ہے سر جوڑ کے بیٹھیں گے تو کوئی نہ کوئی حل نکل ہی آئے گا۔ مگر فیصلہ جلدی کرنا ہے۔ آج جو ٹڈی میری چائے کے کپ پہ آ کے بیٹھی وہ گلابی تھی۔ یہ ٹڈیاں زرد ہونے سے پہلے مار دی گئیں تو خطرہ ٹل جائے گا ورنہ یہ ٹڈی دل آپ کو کھا جائے گا۔ یقین کیجیے کیڑوں کی یہ فوج کسی بھی انسانی فوج سے کچھ کم خطرناک نہیں اور آپ کے پاس چھہ ماہ نہیں فقط چند ہفتے ہیں۔ دوڑنا پکڑنا، پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ کی!


٭٭٭٭٭٭٭٭
 آمنہ مفتی - مصنفہ و کالم نگار
بی بی سی News
آمنہ مفتی کا کالم : اڑیں گے پرزے: ٹڈی دل آپ کو کھا جائے گا!
٭٭٭٭٭٭٭٭

پیر، 27 جنوری، 2020

بوڑھے مرد کی فریاد ۔ سنو تو سہی

میں ایک 66 سالہ پوتوں نواسوں والا مرد ہوں ۔میں خود کو بوڑھا نہیں سمجھتا ۔
جبکہ میری آل اولاد مجھے بوڑھے کے سانچے میں مکمل فٹ کرنے کی تگ و دو میں لگی رہتی ہے۔
  بڑی بہو ہر وقت مجھے پرہیزی کھانوں کی افادیت بتاتی رہتی ہے ،
"انکل ، اس عمر  میں زیادہ میٹھا،نمکین،چٹ پٹا کھانے کا مطلب قبر کے سرھانے کھڑے ہوناہے"۔
بیٹا کا جب بھی کہیں باہر جانا ہوتا ہے تو میرے لئے رنگ برنگی قیمتی  نمازی ٹوپیاں ،عطر،قیمتی تسبیح یا مسواک لانا نہیں بھولتا ۔ مجھے یاد ہے آج سے چند برس پہلے اس نے میرے گھٹنوں پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا
 "ابا جی آپ نے جتنی محنت مشقت کرنی تھی کر لی اب ہمیں اپنی خدمت کا موقع دیں آپ آرام کریں اور اللہ اللہ کریں"۔
 میری بیٹی جب بچوں سمیت میکے آتی ہے، تو بچوں کو کہتی ہے،
" نانا کے پاس بیٹھا کرو بزرگوں کے ساتھ بیٹھنے سے انسان بہت کچھ سیکھتا ہے" ۔ اور میں مسکرا دیتا ہوں۔ 
میرے بچے اچھے ہیں میرا خیال رکھتے ہیں۔ لیکن مجھے میرے مطابق جینے نہیں  دیتے ، یہ بات انہیں نہی پتا کہ ا ن کا ایسا خیال رکھنا میرے اندر عجیب سی مزاحمت پیدا کر رہا ہوتا ہے۔میں نے اپنی پوری جوانی انتہائی شرافت سے گزاری ہے(بدمعاشی تو اب بھی نہیں چاہتا)
ساری زندگی اپنی بیوی زہرہ اور اپنے بچوں کے ساتھ وفاداری سے گزاری ان کے آرام اور سکھ چین کے لئے جوانی وقف کر دی اور آخر کار اپنے بیوی بچوں کو ایک اچھا لائف اسٹائل دینے میں کامیاب ہوا ۔اب اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔لیکن میرے دل کے حالات میری عمر کے ساتھ میل نہیں کھاتے۔
 میرا دل چاہتا ہے میں اپنی زہرہ کا ہاتھ پکڑے ساحل سمندر پہ کوئی رومینٹک گیت گاؤں ، رنگ برنگی شرٹس پہنوں ، ساحل کی ریت پہ اپنی زہرہ کے ساتھ فٹبال کھیلوں، وہ ہر کک پہ خوشی سے تالیاں بجائے ، اس کی کلائیوں میں پڑی سرخ و سبز چوڑیوں کی کھنک ساحل سے ٹکراتی لہروں کی آواز سے ہم آہنگ ہوں تو کتنا خوبصورت منظر ہو۔
لیکن وہ تو پھیکے رنگوں والی   چوڑیاں پہنتی ہے ،میں نے رنگین چوڑیاں پہننے کےلئے لایا  ،  تو ناک سے مکھی ہٹانے والے انداز میں ہاتھ لہرایا اور جھینپ کے منہ پہ رکھ لیا کہنے لگی
" اقبال صاب بڈے وارے آپ کی یہ شوخیاں نری چولیں ہی لگتی ہیں" 
میری جوان امنگوں پہ بوڑھا پوچا پھیرتے ہوئے،  وہ دل ہی دل میں خود پہ فخر کر رہی ہوگی کہ اس عمر میں بھی اس کا بڈھا شوہر اس کے واری صدقے ہوا جاتا ہے ۔یہ بیویاں ہوتی ہی ایسی ہیں ، اوپری اوپری بے نیاز اور اندر سے شکر گزار لیکن جو کام کرنے والا ہوتا ہے وہ نہیں کرتیں۔خاوند کی باتوں کو مذاق ہی سمجھتی ہیں۔
 ایک بار چاند رات پہ بازار میں رنگ برنگی چوڑیاں دیکھ کے دل للچایا ، تو اپنی زہرہ کے لئےلے لیں۔ گھر آیا تو سب لاؤنج میں ہی بیٹھے ملے میں نے چوڑیاں زہرہ کو دیتے ہوۓ کہا ،
"اس عید پہ یہ والی چوڑیاں پہننا"۔
 وہ اس "حملے" کے لئے تیار نہ تھی بوکھلاتے ہوۓ ادھر ادھر دیکھنے لگی ۔میری نظر بہوؤں پہ پڑی ، جو ایک دوسرے کو تمسخرانہ ہنسی کے ساتھ  آنکھوں آنکھوں میں معنی خیز نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔ بیٹے الگ نظریں چرا رہے تھے ۔یعنی اب میں اپنی بیوی کو پسند کا کوئی تحفہ بھی نہیں دے سکتا ؟ کہ میرے بچوں کو برا لگتا ہے۔ کیوں برا لگتا ہے؟ کیا ان کی ماں میری بیوی نہیں؟
یہی بات میں نے روبی سے کہی ،تو ہنس کے کہنے لگی ،
" اقبال صاحب !ہم تو ہمیشہ سے ایسے تحفے کے منتظر ہی رہے۔ اگلی بار دل چاہے تو چوڑیاں ہمیں بھجوا دیجئے گا، واللہ انکار نہ کریں گے"۔
 وہ ایسی ہی ہے منٹوں میں بات کو ادھر ادھر کر کے من ہلکا کر دیتی ہے۔
 روبی میری فیس بک فرینڈ ہے۔ اسی نے دوستی کرنے میں پہل کی۔   وہ   چالیس  سالہ بینک آفیسر ہے،  بہت  پہلے والد کا انتقال ہو چکا ہے۔ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو پڑھایا لکھایا ۔ان کی شادیاں کیں سب اپنے گھروں میں خوش آباد ہیں۔ جبکہ  وہ بوڑھی ماں کے ساتھ رہتی ہے ۔
 اس کی شادی کا خیال اب پرانا ہوچکاہے ۔  اسی لئے کسی نے نہ سوچا یا شاید سوچنا نہیں چاہتے۔ ابھی ایک بیمار بوڑھی ماں کی تیمارداری کا آخری فرض اسی نے تو پورا کرنا ہے۔ کبھی کبھی فون کال پہ بھی ہماری بات ہو جاتی ہے زہرہ سے بھی بات کرتی ہے -
 زہرہ  اسے بیٹی کہتی ہے لیکن روبی ہمیشہ "زہرہ جی" کہہ کے پکارتی ہے،  وہ آنٹی، انکل ، اماں جی، بابا جی، جیسے ٹانکے نہیں لگاتی یا تو  وہ خود کو" بڑی" سمجھتی ہے یا پھر ہمیں بڈھے نہیں  مانتی۔ 
میں اسے جب بھی شادی کر لینے کا مشورہ دیتا ہوں ،تو جھٹ سے کہتی ہے "آپ سا کوئی ہو! تو سوچنے میں ایک منٹ نہ لگاؤں قسم سے"۔
 اس کی باتوں سے اس کی پسندیدگی چھلکتی ہے  یا شائد وہ  بات ختم کرنے کے لئے  کہتی ہے ۔ لیکن میں اپنی زہرہ سے بے وفائی نہیں کر سکتا۔یہ بات وہ بھی اچھی طرح سے جانتی ہے۔
فیس بک کی دنیا ہم جیسے ویلوں کے لئے  بہترین ہے ۔ 
نماز و اذکار کے بعد کی فراغت کا بہترین حل ہے۔
 ایک بار رات مجھے نیند نہیں آرہی تھی ، تو میں نے فیس بک کھول لی اور مصروف ہوگیا ۔ میرے بیٹے نے اتفاقا دیکھ لیا کہنے لگا،
"ابا جی یہ سب فضول کی چیزیں ہیں- رات اگر آنکھ کھل جائے تو تہجد پڑھ لیا کریں۔
٭٭٭٭٭

اتوار، 26 جنوری، 2020

یوم تخلیق السماوات والارض-3

سائینس سمیت تمام "مذاہب کا  نظریہ " ہے ، تمام کائینات کی ابتداء  اصولِ واحد (Single Principle)سے شروع ہوئی ۔ یہ اصول واحد ، کس نے    نیبولا میں بیدار کیا اور بِگ بینگ ہوا اور بالآخر زمین  پر سب سے ذہین مخلوق کی تخلیق اور اُس کی تربیت  کا سبب بنا  یا،یہ سب خود بخود ہوا  یا اِس کے پیچھے بھی کوئی اصولِ واحد  ہے ؟

ہم یہ تو جانتے ہیں کہ دنیا میں ہونے والی کوئی بھی ایجاد  کے پیچھے  اصولِ واحد ہے اور وہ انسان کے اپنے ، فائدے   کی بنیاد ہے اور ساتھ ہی انسانی نقصان کی بھی بنیاد ہے ۔اگر یہ اصول واحد نہیں ہوتا،  تو انسان کوئی بھی شئے ایجاد نہ کرسکتا اور اُس کی زندگی حیوانی زندگی کی سطح سے بلند نہ ہو سکتی ۔
اب دنیا کے پہلے انسان کو یہ  اصول واحد، کہ میں اپنی زندگی کو کیسے آسان بنا سکتا ہوں  تاکہ مجھے مشکلات اور پریشانیاں نہ ہوں  کیسے معلوم ہوا ؟
لازمی بات ہے کہ اپنے اردگرد ، حیوانی حیات، کی روزمرہ عادات   دیکھنے ، اور سننے کے بعد اُس  پر اپنے ذہن میں غور و فکر کرنے سےاور وہ عادات  اپنی زندگی میں اپنانے سے ، اب یہ عادات اچھی ہیں یا بُری،  اُسے اِس سے کوئی غرض نہ تھی ۔ انسان کو اپنی زندگی کو محفوظ بنانے کے لئے اُس کے ہاتھوں نے  اُس کے فائدے کی لئے اشیاء کو مزید بہتری کا ہنر دیا ۔ 
جیسے سائینس دانوں کا دعوی ٰ ہے کہ  جسم پر بارش اور دھوپ کے نقصانات محسوس ہونے کے بعد ، بچنے کے لئے انسان نے پہلے گھنے درختوں اور غاروں    کا ستعمال کیا اور پھر اپنے لئے عارضی سائیبان کا ، جِس کا ہنر اُس نے پرندوں سے سیکھا ۔   بھوک کے لئے ، پہلے اُس نے   پھلوں اور سبزیوں پر اُن کے ذائقوں کی بنیاد گذارہ کیا  اور اپنی حفاظت  کے لئے پتھروں کا استعمال کیا ۔ خونخوار درندوں کے پنجوں کی کارگذاریاں  دیکھ کر شکار کے لئے ، پتھروں اور پھر   لکڑیوں کو نوکدار  بنایا    اور جس چیز نے اُس کی مدد کی وہ اُس کی زُبان تھی ۔حواس ِ خمسہ کے استعمال کے بعد اپنے  دماغ میں جمع ہونے والی معلومات   کے فوائد اور نقصانات سے  اُس نے اپنی اولاد کو مستفید کرنا شروع کیا ۔وہ اپنی اولاد کی حفاظت کی وجہ سے حکمران اور تربیت کی وجہ سے استاد بنا ۔
کہیں حکمران ہی استاد ہوتا اور کہیں حکمران اور استاد الگ الگ ہوتے، کیوں کہ وہ اپنے ہنر و علم میں یکتا ہوتے ۔
حکمران قابلِ تعظیم اور استاد قابلِ احترام  تسلیم کر لئے گئے ۔ لیکن جِس انسان میں  ہنر اور علم یکجا ہوتے  وہ بطور لیڈر اپنے قبیلے میں  یکتا سمجھا جاتا ۔
اِس تمہید کے بعد ہم آتے ہیں  ، لیڈر   (حکمران اور استاد)      کی تخلیق پر جس ابتداء  اصولِ واحد
بنیاد پر کی گئی !
 وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ۖ - - - ﴿2:30 ۔
 اور جب تیرے رب نے الملائکہ کے لئے  کہا ، صرف میں زمین میں ایک خلیفہ قرار دینے والا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔!
 (بائیبل:پھر خُدا نے کہا کہ ہم اِنسان کو اپنی صُورت پر اپنی شبِیہ کی مانند بنائیں اور وہ سمندر کی مچھلیوں اور آسمان کے پرندوں اور چَوپایوں اور تمام زمِین اور سب جانداروں پر جو زمِین پر رینگتے ہیں اِختیار رکھے گا)
 (وشنو مت میں ، وشنو نے برہما کو تخلیق کیا اور اسے باقی کائنات بنانے کا حکم دیا ۔)
 یہاں ایک بات کی تصدیق ہوتی ہے ، کہ تمام مذہب میں جب  پہلے انسان کو تخلیق   کا اصول(حکمران اور استاد)  بنا تو کائینات اور زمین میں موجود ہر شئے  تخلیق ہو چکی تھی ۔
 کائینات  کی تخلیق  کے بارے میں بائیبل میں بھی چھ ادوار ہیں اور الکتاب میں بھی چھ ادوار ہیں ۔صرف ہندو ازم میں  9 ادوار ہیں ۔ 
ہندو ازم میں ایک دور 43 لاکھ سال کا لکھا ہے ۔
 بائیبل میں  دور(دنوں) کی لمبائی کا ذکر نہیں ،
 الکتاب میں، عروج کے لئے ،   ایک یوم  کی لمبائی 50 ہزارسال لکھی ہے ، لیکن  کائینات کی تخلیق کی لمبائی کا ذکر نہیں ۔
سائینس نے    کائینات کی تخلیق کی ابتداء   سائنٹیفک  ٹیسٹ یا  مفروضے کی بنیاد پر ،  4.5  بلیئن سال بِگ بینگ کے بعد نکالی ہے ۔ جو نیبولا کے مرکز میں واقع ہوا تھا ۔

میں چونکہ الکتاب کا طالبعلم ہوں ، جی وہی الکتاب   جو تمام انبیاء کو  اللہ کی طرف سے ملی ۔
جس میں یہ عربی میں لکھا  ہے ۔ 
٭- نیبولا (گرد و غبار یا دُخان ) میں الارض موجود۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ  ﴿41:11
 پھر اُس نے السماء کو برابر کیا، وہ دُخَانٌ کی طرح تھی ۔ پس اُس نے اُس (دُخَانٌ) کے لئے اور الارض کے لئے کہا ،" تم دونوں طوعاً یا کر ھاً آؤ" ، وہ دونوں بولیں ،" ہم دونوں طوعاً آتی ہیں " 
 (  دُخَانٌ= Water vapors ) 

٭٭٭٭٭٭٭
٭- نیبولا میں  الارض کی موجودگی میں بِگ بینگ ۔اور بِگ بینگ کے  دو  یوم  کے بعد  زمین پر پانی کا وجود ۔
أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا ۖ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۖ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ ﴿21:30
 کیا وہ لوگ جو کفر کرتے ہیں ، نہیں  دیکھیں گے  کہ السماوات اور الارض          رَتْقً  تھے اور ہم نے اُنہی  فَتَقْ  کیا ۔اور ہم نے   کل ذی حیات (Living being)کے  الماء   (خاص حیات بخش ماء)قرار دیا ، کیا تمہیں  ایمان نہیں ؟
( رَتْقً = One Unit Mass ,  فَتَقْ = Split them asunder)


٭- بِگ بینگ کے  دو  یوم کے بعد  سبع  سماوات تکمیل  اور  زمین  کے آسمان پر مصابیح  سے زینت بنائی  ۔

فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِي يَوْمَيْنِ وَأَوْحَىٰ فِي كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا ۚ وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَحِفْظًا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ﴿41:12  
پس اُس نے دو یوم میں      اُن   کو    7 سماوات کوقضا (مکمل)کیا ۔اور کل سماء کو اُن  کاامر  وحی کیا  اور الدنیا کے السماء کو مصابیح کے ساتھ زینت   اور حفاظت دی ۔ وہ العزیز اور العلیم کی تقدیر (سماوات اور الارض کے لئے )ہے ۔
٭- بِگ بینگ کے  دو یوم کے بعد  زمین  کی تخلیق  ۔
قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَندَادًا ۚ ذَٰلِكَ رَبُّ الْعَالَمِينَ ﴿41:9
  تو کہہ ! کیا تم  اُس کے ساتھ کفر کرتے ہو جس نے الارض کو  دویوم میں خلق کیا ؟  اور تم اُس کے مددگار بناتے ہو ؟ وہ ربّ العالمین ہے ۔

٭- بِگ بینگ کے  دو یوم کے بعد  زمین  کی تخلیق   اور اُس  پر  رَوَاسِيَکی فوقیت   اُس کی قدر اور سائلین کے لئے برابر کی قوت   کی فرہمی کا دورانیہ  4 یوم  یعنی کل 6  یوم ۔
 وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِن فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِّلسَّائِلِينَ ﴿41:10 
 اُس(الارض) کے فوق  (  اوپر)میں سے رواسی  قرار دیئے ، اور اُنہیں(رواسی کو ) اِس (الارض) میں سے برکت دی ، اور اُنہیں(رواسی کو اِس (الارض) میں سے قدر  دی،اور اُنہیں(رواسی کو ) چار ایام میں السائلین کی برابری  کے لئے قوت دی ۔


تخلیقِ کائینات اورالارض  کے بارے میں بالاآ یات ، الکتاب میں درج ہیں   ۔  اور الکتاب    ہر نبی  کے پاس تھی ۔ 


یہی وجہ ہے کہ کائینات کی تخلیق  پر " اپنے فہم"  کے مطابق تمام مذاہب متفق ہیں -
  
٭-  الکتاب میں اللہ ، کی آیات البینات ہیں  اور کتاب اللہ میں بھی اللہ کی آیات البینات ہیں ۔
جب دونوں آپس میں ایک دوسرے  کی تردید نہیں کرتیں  تو انسان کی ہدایت من جانب اللہ ہوتی ہے ۔
الکتاب : 
ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ﴿2:2
 کتاب اللہ(کتاب مبین): اللہ کے کلمہ ، کن سے تخلیق ہو کر اللہ کی آیات بننے والی، کائینات اور زمین میں موجود    ہر ذی حیات اور غیر ذی حیات  شئے کتاب مبین میں ہے -
وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۚ وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ ﴿6:59 
اس کے پاس       الْغَيْبِ کی   مَفَاتِحُ ہیں ، جن کا اُس کے علاوہ کسی کو علم نہیں !  جو الْبَرِّ   اور الْبَحْرِمیں ہے   اُس کو علم   ہے ،   جو بھی ورق سقط ہوتا ہے اورالارض کی ظلمات میں کوئی  حَبَّةٍ اُس کو علم ہے  اور نہ کوئی  رَطْبٍ (Organic)یا   يَابِسٍ (Non-Organic)، سب  كِتَابٍ مُّبِينٍمیں ہے ۔

 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔